یہ وہی جماعت ہے جس کی مساعی سے برصغیر پاک و ہند میں قرآن حدیث کی تعلیم کے مراکز کھلے دشمنانِ اسلام کے خلاف جہاد کا احیاء ہوا۔ اور فقہ جامد پر قائم رہنے والوں سے مناظرے اور مباحثے ہونے لگے، اور عوام پر یہ انکشاف ہونے لگا کہ دین براہِ راست قرآن و سنت سے لیا جاتا ہے اور فقہی قوانین میں مسلسل تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد ہم سرسری طور پر اس اداریہ کا جائزہ لیتے ہیں:
اداریہ شروع ہوتا ہے اور اس کا پہلا جملہ یہ ہے:
''سلف صالحین'' جماعت'' تو ضرور تھے لیکن ہماری طرح ان کو تنظیم کی ضرورت نہیں تھی۔''
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ سلف صالحین فرشتہ تھے؟ کیا وہ احکامِ الٰہی اور سنت نبی ﷺ کی پیروی سے چھٹی پا چکے تھے، قرآن مجید اور سنتِ نبوی تو جماعتی نظام اور تنظیم کی بار بار تاکید کرے اور جماعت کے لئے شوریٰ اور امیر کے حکم کی پابندی پر زور دے اور اصولوں پر پختگی سے قائم رہنے پر اصرار کرے لیکن ان حضرات کو تنظیم کی ضرورت نہ ہو؟
بھلا جماعت تنظیم سے خالی بھی ہو سکتی ہے اور جماعت بھی ان لوگوں کی جو رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کی اقتداء کرتی تھی، ایک راستہ پر ایک رُخ کرتے ہوئے چلتی تھی، ''من شذ شذ فی النار سے ڈرتی تھی، اعتصام بحبل اللہ کا مصداق تھی، جو ہر وقت دشمنوں کے افساد و کید سے چوکنا رہتی اور ''الصلوٰۃ جامعة'' کے اعلان پر شور یٰ کے لئے جمع ہو جاتی حسبِ استطاعت اپنی ذمہ داریوں کو بجا لاتی، صلوٰۃ و زکوٰۃ و حج کو اجتماعی صورت میں ادا کرتی کیا یہ سب باتیں علانیہ شاہد نہیں کہ سلف صالحین جماعت کی تنظیم کے حقائق و اسرار سے واقف تھے اور جماعت کے نظام میں، کسی قسم کا خلل گوارا نہ کرتے تھے، وہ نظم برقرار رکھنے کے لئے سعی و عمل کرتے تھے اور ''قدرتی تنظیم'' پر تن بہ تقدیر نہ تھے۔''
اس کے بعد اداریہ کا دوسرا پیرا یوں شروع ہوتا ہے:
اسلاف کے پاس ''فکر مربوط، وحدتِ عمل اور احساس بصیر، کی دولت وافر تھی اس لئے وہ سرگرمِ عمل بھی تھے اور تسبیح کے دانوں کی طرح منظم بھی۔''
ناطقہ سربگریباں کہ اسے کیا کہیے؟ کیا ''فکر مربوط'' میں لفظ ''مربوط'' تنظیم کی غمازی نہیں کرتا؟ اور کیا ''وحدتِ عمل'' تنظیم سے خالی ہو سکتی ہے؟ پھر ''تسبیح کے دانوں کی طرح منظم'' جماعت کا تنظیم سے خالی ہونا ممکن ہے؟ ایں چہ بو العجبی است؟؟
صفحہ ۷ پر ''کتاب و سنت کی غلامی'' نئی اصطلاح ہے جو نہ قرآن میں سے ہے نہ حدیث میں۔ اب تک تو جماعت اہل حدیث کے معتمد علیہ علماء غلام نبی، غلام رسول، غلام محمد، غلام احمد ناموں کو اسلام کی روح کے منافی قرار دیتے تھے اور ایسے نام بدل کر غلام اللہ کر دیا کرتے تھے، اس لئے کہ غلامی (عبادت) صرف اللہ کی ہوتی ہے۔ کتاب پر ایمان ہوتا ہے اور اس کے کام کا اتباع کیا جاتا ہے۔ صفحہ ۷ پر ایک پیرے میں لکھا گیا ہے:
''مسلمان صرف 'مسلم' ہے۔ تمام شخصی نسبتوں سے بالاتر اور کتاب و سنت کی غلامی کے لئے یکسو ہے۔ لیکن اس کے بجائے جب دوسری شخصی نسبتوں نے سر اُٹھایا، اور حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، اشعری، ماتریدی، چشتی، قادری، سہروردی، نقشبندی کہلانے لگے تو اہل حدیث نے سلفی اور محمدی کہلا کر دنیا کو عار دلائی الخ۔''
یہ عبارت حیرت انگیز تناقص و تضاد کا مرکب ہے۔ ہم اس منطق کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اہل حدیث نے اپنے آپ کو سلفی اور محمدی اس وقت کہا جب دوسروں نے اپنے آپ کو حنفی، شافعی وغیرہ کہا، ایک ہی سانس میں خود کو تمام شخصی نسبتوں سے بالا تر بتانے کے بعد پھر اسی سانس میں خود کو محمدی اور سلفی بھی کہہ ڈالا، کون نہیں جانتا کہ سلفی کہلانے اور شافعی، حنفی وغیرہ میں سے کوئی نسبت اختیار کر لینے میں کوئی فرق نہیں، امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ وغیرہم سب ہی ہمارے سلف صالحین میں تھے۔ اور تنہا سلفی کی نسبت قبول کرنے سے تمام ائمہ و سلف صالحین کی عقیدت کا طوقِ شخصیات مجموعی طور پر اپنے گلے میں ڈال لیا جاتا ہے۔ بہتر یہ ہوتا کہ وہ اپنے سلفی یا محمدی کہلانے کی نسبت کو برحق قرار دینے کے لئے قرآن حدیث سے نص لاتے۔
بعد ازاں حدیث« لا تزال طائفة من أمتي ظاھرين علي الحق» کا مصداق اہل حدیث کو بتایا گیا ہے۔ اور اس ضمن میں ''طائفة'' کی دوراز کار لفظی بحث کی گئی ہے جو غور سے دیکھا جائے تو خود جماعتِ اہلِ حدیث کے حق میں نہیں جاتی، ہمارے خیال میں جماعتوں کو دعا دی سے گریز کر کے مصلحتِ عوام اور انسانیت کے مفاد کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہئے، عمل صالح سے اپنی عظمت و افادیت کا سکہ بٹھانا چاہیے، قرآن مجید کا صاف اعلان ہے:
«لیس بأمانیکم ولا أماني أھل الکتب من یعمل سوءً یجز به »
''اغنیاء پر ماسکین و غرباء کی ذمہ داری'' سے معلق مولانا عبد الرؤف جھنڈا نگری نے مفید احادیث و آثار جمع کر دیئے ہیں۔ حافظ نذر احمد صاحب کا ''طبِ نبوی'' بھی فائدہ سے خالی نہیں، گو ان کے بعض خیالات سے ہمیں اتفاق نہیں۔
اس رسالہ کی مجلس تحریر میں متعدد علماء کے علاوہ حافظ ثناء اللہ اور مولانا عبد السلام مدینہ یویورسٹی کے فضلاء بھی شامل ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ ملک و قوم کے بنیادی مسائل پر قلم اُٹھائیں اور جماعت (اہل حدیث کو تحقیق و اجتہاد کی دعوت دے کر ان کی ٹھوس خدمت کرنے کی طرف متوجہ ہوں، اللہ ہم سب کو کتاب اللہ پر اسوۂ رسول کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
بات جتنی سادہ ہے آپ نے اتنی بتنگڑ بنا دی
مولانا عزیز زبیدی
معزز معاصر ’’فکر و نظر‘‘ کا مندرجہ بالا تبصرہ، زیر نظر اداریہ کے مندرجات سے کم تعلق رکھتا ہے، زیادہ تر اس کا تعلق اپنے مفروضات سے ہے۔ اس لئے تفصیلی جواب سے پہلے ہم قارئین سے درخواست کریں گے کہ ہمارے اداریہ کو آپ ایک بار اور پڑھ لیں، آپ کو اندازہ ہو جائے گا، کہ بات جتنی سادہ ہے، اتنا اس کو بتنگڑ کیوں بنا دیا؟ (ملاحظہ ہو ’’محدث‘‘ دسمبر ۷۰ء ص ۳ تا ۹)
معزز معاصر کے تبصرہ کا حاصل یہ ہے۔
1. ہمارا یہ نظریہ غلط ہے کہ ’’سلف صالحین‘‘ جماعت تو تھے مگر ان کو تنظیم کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ تھی اور جتنے ارکان دین ہیں وہ اس پر شاہد ہیں کہ ان کی پشت پر تنظیم تھی۔
2. دوسری یہ کہ ہم نے اسلاف کو ’’فکر مربوط‘‘ ’’وحدت عملی‘‘ اور ’’احساسِ بصیر‘‘ کا حامل کہہ کر اپنے نظریہ کی تردید کر دی ہے کہ تنظیم نہیں تھی، گویا کہ بیان میں تضاد ہے۔
3. ’’کتاب و سنت کی غلامی‘‘ کی اصطلاح مسلک اہلحدیث کے مخالف ہے کیونکہ وہ ’’اللہ کی غلامی کے سوا باقی ہر غلامی کو روح اسلام کے منافی تصور کرتا ہے۔
4. حنفی، شافعی جیسی نسبتوں سے جان چھڑائی گو چھُوٹی پھر بھی نہیں کیونکہ سلفی کے معنی بھی وہی ہیں جو ایک شافعی اور حنفی کہلانے کے ہیں، کیونکہ سنت بھی و اشخاص ہی تھے۔
5. حدیث ’’لا تزال طائفة من أمتي کا مصداق اہلحدیثوں کو بتانا صحیح نہیں ہے، معاصر کے نزدیک یہ ایک ادعا ہے اور جماعتوں کو دعا دی سے پرہیز کرنا چاہیے، دعووں سے نہیں، عمل صالح سے اپنی عظمت کا ثبوت مہیا کرنا چاہئے، گویا کہ اب کے ہمیں معاصر نے ’’وعظ شریف‘‘ فرمایا ہے۔
نمبروار جتنے اعتراض آپ کے سامنے رکھے گئے ہیں، اگر ان کو اداریہ کے سیاق میں رکھ کر پڑھا جائے تو اعتراض کی صورت ہی پیدا نہیں ہوتی، ہاں وہاں سے اچک کر ان کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ صرف اعتراض ہی نہیں بہت بڑی کافری بھی ہو گی۔ اس لئے ہم مکرر عرض کریں گے کہ قارئین اداریہ کو خود ایک دفعہ اور مزید پڑھ لیں‘‘ ایک پنجابی کے محاورے کے مطابق ’’سوگلاں دی گل جے اک‘‘
اب آپ تفصیلی مگر مختصر لفظوں میں نمبروار ان کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
1. ہم نے قطعاً یہ نہیں لکھا کہ اسلاف کو تنظیم کی مطلقاً ضرورت نہیں تھی یا ان میں تنظیم ہی نہیں تھی، بلکہ ہم نے یہ کہا تھا کہ ہماری طرح ان کو تنظیم کی ضرورت نہیں تھی۔ (ملاحظہ ہو ’’محدث‘‘ دسمبر ص ۳ سطر نمبر ۱)
’’ہماری طرح‘‘ پر غور فرمائیں گے تو اعتراض باقی نہیں رہے گا، کیونکہ آج کل جماعت سازی کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس میں شخصی اور گروہی مصالح، اغراض اور تکلفات کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ بہرحال اسلاف کی تنظیم ’’قدرتی‘‘ تھی، مصنوعی نہیں تھی۔ ان کی جماعت، جماعت سازی کی مہم کی رہین منت نہیں تھی۔ اس لئے ہم نے اسے ’’قدرتی تنظیم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، محدث ص ۳ سطر ۵)
2. اس میں بھی تضاد نہیں ہے بلکہ اس ’’قدرتی تنظیم‘‘ کا ذِکر ہے جس کا نمبر ۱ میں ذکر کیا گیا ہے۔
3. ہمارے نزدیک کتاب اللہ کی طرح ’’سنت رسول اللہ‘‘ بھی وحی الٰہی ہے۔ وہ ’’وحی متلو‘‘ ہے اور یہ ’’وحی غیر متلو‘‘۔ وحی الٰہی ’’ منشا الٰہی‘‘ کی ایک تعبیر ہے، جس کی غلامی ہمیں مطلوب ہے۔ لیکن معاصر فکر و نظر کو اس سے صرف اس لئے وحشت ہوئی ہے کہ ’’ادارہ فکر و نظر کو‘‘ حدیث اور سنت رسول ﷺ کے سلسلہ میں شرح صدر حاصل نہیں ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اعتراض نمبر ۳ کا محرّک بھی یہی انقباض ہے تو اس میں مبالغہ نہیں ہو گا، آپ بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش فرمائیں۔ اُمید ہے آپ بھی ہم سے اتفاق ہی کرینگے۔
4. سلفی والا اعتراض بھی خوب ہے، شاید موصوف ’’سلفی‘‘ کا مفہوم نہیں سمجھتے، ورنہ ’’سلفی‘‘ کو ’’حنفی شافعی‘‘ کے مترادف بالکل نہ قرار دیتے۔
ہمارے نزدیک سلفی سے مراد ’’علی سبیل البدلیۃ افرادِ اسلاف کی اتباع نہیں ہے بلکہ وہ جذبہ‘ اصول اور وطیرہ ہے جس میں کتاب و سنت کی پیروی کے لئے کسی ’‘غیر نبی‘‘ کی وساطت کو شرط اور وجہ کشش کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا اصل محرک قرآن حکیم اور اسوۂ حسنہ کی ذاتی کشش ہوتی ہے۔ کسی غیر مجوزہ فلسفہ اور حکمت کی سفارش نہیں ہوتی۔ اس انداز کو قرآن نے ’’اتبع سبیل من أناب إلیّ‘‘ (پ: ۲۱: لقمان ع ۲) سے تعبیر کیا ہے۔ اور ’’قید وساطت‘‘ کو قرآن حکیم نے ۔۔۔۔۔ کے نام سے ذکر فرمایا ہے۔ ہاں کسی غیر نبی کی شریح اور توضی س استفادہ کرنا اور بات ہے۔ اس کے شخصی افکار کو ’’دین‘‘ سمجھنا دوسری بات ہے۔ پس اس فرق کو ملحوظ رکھنے کے بعد، ذہنی الجھن کو دور ہو جانا چاہئے، اسے نباہنا نہیں چاہئے کیونکہ بات دین کی ہے مناظرہ کی نہیں ہے۔
5. حدیث ’’لا تزال طائفة‘‘ کا مصداق اہلحدیث کو قرار دینے کو فرقہ پرستی یا دعاوی سے تعبیر کرنا اداریہ کی نافہمی کی علامت ہے۔ ہم نے اہلحدیث کو بطور ایک فرقہ کے نہیں، بلکہ ایک تحریک، ایک نظریہ اور ایک روح کے طور پر حسب حال مختلف ادوار میں مختلف مناظر کے اندر جاری و ساری دکھایا ہے اور ’’لا تزال طائفة من أمتی‘‘ کے الفاظ سے اس کو تعبیر کیا ہے۔ یہ تحریک ایک اصلاحی تحریک ہے فریق نہیں ہے لیکن یہ اس امر کی مدعی ہے کہ: اس امت کے آخری طبقہ کی اصلاح صرف انہی چیزوں سے ممکن ہے جن سے طبقہ اولیٰ کی اصلاح ہوئی تھی، ایک اور روایت کے مطابق فرمایا:۔ اس امت کے آخری طبقہ کی فلاح و کامیابی صرف انہی طریقوں سے ہو سکے گی جن سے اس کے پہلے طبقہ کو فلاح نصیب ہوئی تھی۔‘‘ (امام مالک۔) بس اسی ذوق و فراست کی بناء پر وہ ’’سنتِ رسول‘‘ کے احیاء پر مصر ہے۔
یہ وہ امتیازی بات ہے جو دوسرے تمام مروج نظامہائے اصلاح سے بالکل مختلف ہے کیونکہ یہ تحریک حتی الوسع پہلے انہی ذرائع اور طریق کار کی طرف رجوع کرتی ہے اور عہد رسالت جو خلفائے راشدین کے مبارک دور میں اختیار کئے گئے تھے اور انکے برعکس اصلاح حال کے لئے ہر جدت طرازی کو بدعت اور سنت جاہلیت تصور کرتی ہے الاّیہ کہ وہ کوئی مادی ذریعہ ہو اور اب اس سے بڑھ کر اور کوئی سائنٹیفک ذریعہ ہاتھ آگیا ہو، جیسے تیر و سناں کی جگہ اب ایٹمی توانائیوں کا استعمال ہے۔ بہرحال یہ تحریک دنیا میں فریق بننے کے بجائے جسم میں ایک روح کی طرف دنیا کی روحانی صحت اور زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے اس کے جسم میں جاری و ساری اور متحرک رہتی ہے۔ اس سے صرف وہ لوگ بدکتے ہیں جو قلب و نگاہ کے اعتبار سے بیمار ہوتے ہیں جیسے دو اسے جسمانی بیمار ایک گونہ کوفت محسوس کرتا ہے۔
باقی رہا جناب کایہ ’’وعظ شریف‘‘ کہ عمل صالح سے اپنی عظمت کا سکہ بٹھائیں ہم آپ کے شکر گزار ہیں مگر افسوس! یہ کوئی متنازعہ فیہ بات نہیں تھی جس کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے۔ کیونکہ اس لحاظ سے ہم سب، آپ کے سمیت، اسی ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ خدا ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ آمین۔