سقوطِ مشرقی پاکستان اور جنگ بندی کے اعلان کے بعد عوام میں حضرت شاہ نعمت اللہ صاحبؒ بخاری کی طرف منسوب فارسی زبان میں پیش گوئیوں کا بہت چرچا ہوا۔ مختلف جرائد و رسائل اور ملک کے مشہور روزناموں نے ان کو باترجمہ شائع کیا اور بازاروں میں بھی ان پیش گوئیوں کے پمفلٹ ہاتھوں ہاتھ بکے۔ اس طرح سے تاجروں نے خوب فائدہ اُٹھایا۔ ان پیش گوئیوں کے ساتھ ہی اس مبینہ کشف یا خواب کی توجیہ و تعبیر کا دروازہ بھی کھلا اور کچھ لوگوں نے جہاں سنداً و روایتاً ان کی ثقاہت کی ضرورت محسوس کی وہاں بہت سے لوگ انہیں اخبارِ غیبی قرار دیتے ہوئے ان سے ماضی کی تطبیق اور مستقبل کے نقشے بھی وضع کرتے رہے۔
ہمارے نزدیک بزرگوں سے منسوب کرامات اور پیش گوئیوں میں پہلی چیز رورایتاً و ورایتاان کا ثابت شدہ ہونا ہے جس کے بعد ہی کسی توجیہ و تاویل کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ چنانچہ حال ہی میں ہفت روزہ ''چٹان'' لاہور نے اپنی اشاعت مورخہ ۱۰؍ جنوری ۷۲ء میں جناب احسان قریشی صاحب صابری کا ایک مضمون بعنوان ''حقیقت حال کیا ہے؟'' شائع کیا ہے جس کو ہم بشکریہ ''چٹان'' قارئینِ ''محدث'' کی خدمت میں بلا تبصرہ پیش کر رہے ہیں۔ ہم اس سے قبل روانامہ ''مشرق'' لاہور کا ۲۱؍ دسمبر ۷۱ء کا وہ ادارتی نوٹ بھی ہدیۂ قارئین کرتے ہیں جو روزنامہ ''مشرق'' نے ان پیش گوئیوں کے شروع میں دیا ہے جس میں شاہ صاحب کے آباء و اجداد کے ہندوستان میں آنے کا ذِکر ہے جبکہ شاہ صاحب کے آباء و اجداد کے ہندوستان میں آنے کا ذِکر ہے جبکہ شاہ صاحب کے مشہور دیوان کے شروع میں ان کی سوانح عمری کے تذکرہ میں ان کی ہند میں آنے کی نفی ہے اور لکھا ہے کہ ان کے پوتے میر نور اللہ دکن آئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ جیسا کہ ''چٹان'' کے مضمون نگار نے ذکر کیا ہے۔
شاہ صاحب کی زندگی کے واقعات کے اس متضاد ذکر سے جو اضطراب پیدا ہوا ہے اس سے ان پیش گوئیوں کی اصلیت اور بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔ (ادارہ)
حضرت شاہ نعمت اللہؒ کی پیش گوئیاں (روزنامہ ''مشرق'' لاہور)
''حضرت شاہ نعمت اللہ ولی مشہور صوفی اور درویش منش انسان تھے۔ ان کا اصل وطن بخارا تھا جہاں سے ان کی آباء و اجداد ہجرت کر کے سلطان محمد غوری کے عہد میں برصغیر پاک و ہند چلے آئے اور ہانسی میں سکونت اختیار کی۔ شاہ صاحب کے دادا سید مشرف نے مغل بادشاہ ہمایوں کے عہد میں منصبِ قضا قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ شاہ صاحب سنِ شعور کو نہ پہنچے تھے کہ ان کے والد سید عطاء اللہ وفات پا گئے۔ شاہ صاحب نے مغل بادشاہ جہانگیر یا شاہ جہاں کے عہد میں وفات پائی۔ نواب خان خانان، خان جہاں لودھی اور مہابت خاں کو ان سے بڑی عقیدت تھی اور وہ اکثر ان کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوتے تھے۔
شاہ نعمت اللہ نے آنے والے انقلاباتِ زمانہ پر تقریباً دو ہزار اشعار فارسی زبان میں لکھے جو حرف بحرف پورے ہوتے چلے گئے۔ عہدِ برطانیہ کے متعلق انہوں نے اپنے قصیدہ میں فرمایا تھا کہ نصاریٰ کی حکومت سو برس سے زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکے گی جس سے گھبرا کر لارڈ کرزن نے ان کے قصیدہ کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔ جنگِ عظیم کے آغاز کے بعد پھر اس کی اشاعت ممنوع قرار دی گئی۔ ان کے قصیدہ کی اشاعت پر پابندی کے باوجود ان کے الہامی اشعار لوگوں کے دلوں میں محفوظ رہے۔ ذیل میں ان کے قصیدے کے وہ چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں جو عام طور پر تذکروں اور کتابوں میں محفوظ ہیں۔''
روزنامہ ''مشرق'' میں اس نوٹ کے بعد تقریباً دو صد اشعار میں ان پیش گوئیوں کا ذِکر ہے اور ہر شعر کے بعد اس کا (اردو) ترجمہ دیا گیا ہے جن کے مستند نہ ہونے کی بنا پر ان کا اندراج غیر اہم ہے۔ (ادارہ)
حقیقتِ حال کیا ہے؟ (ہفت روزہ ''چٹان'' لاہور)
''تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر ابتلاء اور مصائب کا کوئی دور آیا تو کسی نہ کسی اہلِ قلم نے شاہ نعمت اللہ ولیؒ کا قصیدہ ترمیم کے ساتھ شائع کر دیا تاکہ انہیں تسلی اور تشفی ہو۔ بجائے اس کے کہ ہم زوال اور نکبت کے اصل اسباب قرآن و سنت کی روشنی میں تلاش کریں، اور اپنا اور اپنی قوم کا انفرادی اور اجتماعی جائزہ لیں اور ان اسباب کا ازالہ کریں۔ نیز اپنی عملی قوتوں کو بروئے کار لا کرنامساعد حالات کا مردانہ وار مقابلہ کریں۔ ہمیں اس کی معرفت اور ان پیش گوئیوں کے پیش نظر خوش آئندہ توقعات قائم کرنا پڑتی ہیں۔
سب سے پہلے یہ قصیدہ ۱۸۵۷ء کے ابتلاء کے بعد شائع ہوا تھا۔ دوسری بار چند ترامیم کے ساتھ پہلی جنگِ عظیم ختم ہونے کے بعد کسی صاحب نے شائع کر دیا، جس میں سلطان ترکی کی یلغار اور خلافتِ ثمانیہ کی نشاۃِ ثانیہ کے متعلق پیشین گوئیاں موجود تھیں۔ تیسری بار یہ قصیدہ ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا تھا۔ جب بھارت نے حیدر آباد دکن پر حملہ کیا تھا اس میں چند ایسے اشعار بھی درج تھے، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ سلطنتِ آصفیہ کا جھنڈا لال قلعہ دہلی پر عنقریب لہرائے گا۔ چوتھی بار یہ قصیدہ اب موجودہ دورِ ابتلاء میں شائع ہوا ہے تاکہ ہم اپنی کوتاہیوں بد اعمالیوں اور سہل کوشیوں کا جائزہ لیے بغیر پیشین گوئیوں کے سہارے خوش آئند توقعات قائم کرتے رہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، حالانکہ ہمارے ابتلاء کے اسباب خود ہمارے پیدا کردہ ہیں۔ حق تعالیٰ نے ہمیں ۱۹۴۸ء میں ایک وسیع و عریض ملک اپنے فضل و کرم سے بطور انعام عطا کیا تھا۔ قرآن حکیم کی آیات کے مطابق عادتِ الٰہی یہ رہی ہے کہ انعام کا شکر ادا کیا جائے تو نعمت میں زیادتی ہوتی رہتی ہے اور اگر ناشکری کی جائے اور مسلمان بد اعمالیوں میں مبتلا ہو جائیں تو حق تعالیٰ ناراض ہو کر تھوڑی بہت سزا یہیں دے دیا ہے۔ ہمارے لئے اس انعام کے شکر کی صورت یہی تھی کہ ہم اپنی زندگیاں منشاء الٰہی کے مطابق ڈھالتے۔ اپنا نظامِ سلطنت اس فرمان کے مطابق بناتے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی روایات قائم کرتے۔ اس کے بجائے ہم نے جو کچھ کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اللہ عالیٰ اپنا انعام کسی قوم سے اس وقت تک واپس نہیں لیتا جب تک وہ قوم خود اس کا استحقاق نہ گنوا دے۔ جو کچھ ہم نے بویا ہے وہی ہم کاٹ رہے ہیں۔
شاہ نعمت اللہ ولیؒ کا نام گرامی نور الدین سید شاہ نعمت اللہ ولیؒ ہے۔ ان کا دیوان برٹش میوزیم لندن رائل ایشیاٹک سوسائٹی لائبریری لندن اور پبلک لائبریری بانکی پور میں موجود ہے۔ ہجری ۱۲۷۶ھ میں طہران (ایران) کے ایک بک سیلر نے بھی یہ دیوان جو تمام کا تمام فارسی زبان میں ہے، شائع کیا تھا۔ یہ قصیدہ جواب اخبارات میں شائع ہوا ہے اس دیوان میں کہیں موجود نہیں ہے۔ نیز شاہ صاحب کے حالات زندگی عام فارسی تذکروں مثلاً مجمع الفصحاء، مراۃ الاسرار، ریاض الشعراء، تذکرہ دولت شاہ سمر قندی، اخبار الاخیار، خزینۃ الاصفیاء مرتہ مفتی غلام سرور لاہور، تذکرۃ الکرام اور تاریخ فرشتہ میں پائے جاتے ہیں۔ برٹش میوزیم لندن میں جو نسخہ دیوانِ شاہ نعمت اللہ ولیؒ ہے وہ ۱۹۳۹ء میں پٹنہ کے کسی پریس کا شائع شدہ ہے۔ نیز طہران، (ایران) والا نسخہ رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن کی لائبریری میں محفوظ ہے۔ (۱۲۷۶ھ) اس دیوان میں مناقب شاہ نعمت اللہ ولی کے عنوان سے شاہ صاحب کی مختصر سی سوانح عمری بھی درج ہے۔ اس کے مطابق شاہ نعمت اللہ ولیؒ کبھی برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے اور نہ ہی ان کا مزار بھارت یا پاکستان میں کہیں موجود ہے۔ البتہ ان کی اولاد سلطان احمد شاہ بہمنی کی دعوت پر ہند میں آئی تھی۔
شاہ نعمت اللہ ولیؒ ۷۳۰ھ میں حلب میں پیدا ہوئے، عراق میں نشوونما پائی۔ ۲۴ سال کی عمر میں مکہ معظمہ گئے یہاں سات سال قیام پذیر رہے اور شیخ عبد اللہ یافعیؒ (متوفی ۷۲۸ ہجری) کے حلقہ ارادت میں داخل ہو کر تصوف اور سلوک کی راہ طے کی اور ان کے مجاز بیعت (خلیفہ) مقرر ہوئے۔ اس کے بعد شاہ صاحب سمر قند ہرات اور یزد میں مقیم رہے اور ہر جگہ ان سے بڑی تعداد میں افراد بیعت ہوئے، آخر قصبہ امان میں جو کر مان سے ۸۷ میل دور ہے، مستقل سکونت اختیار کی اور اپنی زندگی کے آخری ۲۵ سال وہیں بسر کئے اور ۸۳۴ھ میں ۱۰۴ برس کی عمر میں وفات پائی۔
شاہ صاحب خود کبھی برصغیر میں تشریف نہیں لائے۔ البتہ ان کے کشف و کرامات کی شہرت دور دور تک پھیلی۔ جس سے وہ مختلف سلاطین کے حلقہ میں بڑے احترام اور عقیدت سے دیکھے جاتے تھے۔ انہی سلاطین میں دہلی کا حکمران احمد شاہ بہمنی بھی تھا۔ اسی کی درخواست پر شاہ صاحب کے پوتے میر نور اللہ دکن آئے۔ سلطان نے مخدوم کی حیثیت سے بڑی عزت و تکریم کی۔ شاہ نعمت اللہ ولیؒ کا اصل قصیدہ اس شعر سے شروع ہوتا ہے۔ ؎
قدرت کردگارمی بینم حالتِ روزگارمی بینم
اور وہ قصیدہ جو اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ اس کا اصل قصیدہ سے کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ قصیدے کے فرضی ہونے کی داخلی شہادتیں خود اس قصیدہ میں موجود ہیں جو کہ شاہ صاحب کے زمانے میں موجود نہیں تھے۔ مثلاً جاپان کا ذِکر بار بار اس قصیدے میں آیا ہے حالانکہ اس ملک کا نام ''جاپان'' ۱۲۹۵ء میں پڑا تھا۔ اس سے پہلے (شاہ صاحب کے وقت میں) اس ملک کا نام ''چی نیکو'' تھا۔ البتہ سرور کائنات نبی اکرم ﷺ نے پاک و ہند جنگ کے متعلق ذکر فرمایا ہے۔ (نسائی شریف کتاب الجہاد۔ باب غزوۃ الہند۔ جلد نمبر ۶ ص ۴۳ مطبوعہ مصر)
''حضرت ثوبانؓ سے وایت ہے کہ رسولِ مقبول ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے دو گروہوں کو حق تعالیٰ خاص طور پر جہنم کی آگ سے بچائیں گے۔ ایک گروہ جو ہندوستان سے جنگ کرے گا اور دوسرا گروہ جو اس کے بعد آئے گا اور حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا ساتھ دے گا۔''
رسول مقبول ﷺ کے اس فرمان کے مطابق فتح آخر میں ہماری ہو گی۔ کیوں کہ ان دونوں کے لئے آگ سے برأت اور فتح کی بشارت موجود ہے۔''
ارباب تعلیم اور اصحاب مدارس کے لئے لمحہ فکریہ!
اربابِ بصیرت اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے ملک میں لا دینی علیم اور مادہ پرستانہ رجحانات نے تعلیم و سیاست سے اسلام کو الگ رکھ کر جس طرح نظریہ پاکستان کو عملی شکل دینے سے پہلو تہی کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ اس نے پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں اور آج نہ صرف یہ کہ ہم مشرقی پاکستان کھو بیٹھے ہیں، بلکہ پورے پاکستان میں لا دین اور علیحدگی پسندانہ تحریکیں زوروں پر ہیں جس کا واحد حل ملک میں اسلامی نظام کا عملاً نفاذ اور سالامی تعلیم کا دور دورہ ہے بلاشبہ اس وقت ملک میں اگر اسلام کا کچھ نام باقی ہے تو یہ دینی مدارس کا رہین منت ہے لیکن اگر دینی مدارس نے عصری تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم کو زمانہ حال کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں نہ کیں و معاشرہ کی نگاہ میں وہ اپنی رہی سہی اہمیت بھی کھو بیٹھیں گے جس کا نتیجہ ملک و ملت کی تباہی ہو گا۔
اس وقت جبکہ ملک میں نئی تعلیمی پالیسی تیار کی جا رہی ہے اور دینی مدارس میں بھی نئے سال کی ابتداء ہے۔ اصحاب مدارس اور ماہرین تعلیم کو دینی مدارس کو مفید تر بنانے اور ان کے روشن مستقبل کے لئے باہمی مل بیٹھنے کا انتظام کرنا چاہئے تاکہ باہمی تبادلہ خیالات سے اصلاحی طریقہ ہائے کار اختیار کئے جا سکیں اس وقت ملک کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ علماء کی ایک کھیپ تیار کی جائے جو کتاب و سنت کی تعلیمات کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق پیش کر کے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کے طور پر ملک میں رائج کر سکیں۔
ذی الحجہ
جناب نواب صدیق حسن خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ
یہ مہینہ فریضۂ حج کی ادائیگی کا ہے۔ عشرہ ذی الحجہ کے فضائل احادیث میں مرقوم ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث بیان کی ہے:۔
«مَا مِنْ أيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيْھِنَّ أَحَبُّ إِلَي اللهِ مِنْ ھٰذِهِ الْاَيَّامِ الْعَشَرِ قَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللهِ وَلَا الْجِھَادُ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ قَالَ وَلَا الْجِھَادُ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِه وَمَا لِه فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذٰلِكَ شَيْءٌ» (أخرجه البخاری)
اللہ تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں میں کئے گئے اعمال صالحہ جس قدر پسندیدہ ہیں۔ دیگر دنوں میں نہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی (دوسرے دنوں میں) اتنا پسندیدہ نہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا ہاں! بجز اس شخص کے جو اللہ کی راہ میں اپنے نفس اور مال کے ساتھ نکلا پھر س کچھ اس کی راہ میں قربان کر دیا۔
اسی طرح عشرہ کے روزہ کی فضیلت اور مستحب ہونے کا ذِکر احادیث میں بیان ہوا ہے۔ اس سے مراد نو دن کے روزے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تاکید یومِ عرفہ کے روزے کی ہے۔ لیکن یہ روزہ حاجی کے لئے نہیں بلکہ اس شخص کے لئے ہے جو مقیم ہے۔ یہ روزہ دو سال (ایک گزشتہ اور ایک آئندہ) کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔
اس مہینہ میں قربانی ہے اور ایامِ تشریق میں تکبیریں کہی جاتی ہیں۔ اس ماہ میں خدا کو سب سے زیادہ پسندیدہ چیز قربانی ہے۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل ہی خدا اسے قبول فرما لیتا ہے، بشرطیکہ مالِ حلال سے ہو۔