مدینۂ منورہ
آنکھوں میں لیے حسرتِ دیدارِ مدینہ مر جائے نہ یونہی کہیں بیمارِ مدینہ
نکلے گی یونہی حسرتِ دیدارِ مدینہ آنکھیں ہوں مری روزنِ دیوارِ مدینہ
سرشار چلے جاتے ہیں سرشارِ مدینہ آنکھوں میں لیے حسرتِ دیدارِ مدینہ
طیبہ سے اُٹھیں جھوم مخمور گھٹائیں اور جام بکف ہو گئے مے خوارِ مدینہ
بھر آتا ہے دل، درد سا اُٹھتا ہے جگر میں سنتا ہوں میں جس وقت بھی اذکارِ مدینہ
سینے سے لگا لوں اسے آنکھوں میں چھپا لوں جس کے لبِ خنداں پہ ہو گفتارِ مدینہ
پھر وجد میں آجؤں میں، جھوم اُٹھے مرا دل لا بادِ صبا لا کبھی اخبارِ مدینہ
دیتے ہیں دوائیں مجھے بیمار سمجھ کر یہ کس کو خبر مجھ کو ہے آزارِ مدینہ
بسمل کی طرح پھر ہے تڑپنے کی تمنّا پھر خواب میں آجائے وہ دلدارِ مدینہ
ہے قربتِ محبوب پسِ مرگ بھی حاصل اللہ رے خوش بختیٔ انصارِ مدینہ
ہم بھی ہوں کبھی تیری طرح باد یہ پیما اے راہرو، اے راکبِ رہوارِ مدینہ
اس عاجزِ بے کس کو بھی ساتھ اپنے تو لے چل
محسن مرے، اے قافلۂ سالارِ مدینہ