عید الاضحیٰ تکمیلِ دین کا عظیم الشان تہوار اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی فقید المثال قربانی کی یادگار ہے۔ مسلمان صرف نظریاتی طور پر ہی اس یادگار کو نہیں مناتے بلکہ عملی طور پر بھی اپنی قربانیاں پیش کر کے جذبۂ قربانی کو فروغ دیتے ہیں۔ گویا عید الاضحیٰ قربانی کی ایک عملی مشق ہے۔ یہ عملی مشق اور پھر اس بات کا اقرار کہ﴿مَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿١٦٢﴾... سورة الانعام" یعنی ہماری زندگی اور موت سب اللہ کے لئے ہے۔ اس بات کا سق ہے کہ در حقیقت ہماری کوئی چیز ہماری نہیں بلکہ ہر چیز حتیٰ کہ پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ لیکن افسوس کتنی جلدی ہم اس عہد و پیمان کو بھول جاتے ہیں اور اللہ کے دین کی خدمت کے لئے نہ کوئی وقت نکالتے ہیں نہ مال و دولت خرچ کرتے ہیں۔
عید الاضحیٰ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے برابر ہر سال منائی جا رہی ہے۔ اور ہر سال قربانیاں بھی متواتر و مسلسل ہوتی رہی ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس کا انکار حقائق کا انکار ہے۔ لیکن وائے افسوس! ہمارے زمانے میں کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو اس قربانی کا انکار کرتے ہیں اور اس کو مال کا ضیاع تصوّر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی دولت کا کروڑوں روپیہ ہر سال برباد ہو جاتا ہے۔ اگر یہ روپیہ اس طرح ضائع نہ ہو تو اس سے قوم کی معیشت کو کافی حد تک بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مزید برآں یہ لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں اس قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہٰذا اس کی کوئی اہمیت نہیں، گویا قربانی پر دو قسم کا اعتراض ہے۔ (۱) قرآن مجید میں اس کا حکم نہ ہونا (۲) مادی نقصانات۔ اب ہم ان دونوں باتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
قرآن مجید سے بھی اس قربانی کا ثبوت دیا جا سکتا ہے لیکن ہم اس بات کی ضرورت نہیں سمجھتے، اس لئے کہ نہ ہم خود اس بات کے قائل ہیں کہ جب تک کسی چیز کا ثبوت قرآن میں نہ ہو وہ چیز ثابت نہیں ہوتی، اور نہ اس عقیدہ کو دوسروں کے ذہنوں میں جگہ دینا چاہتے ہیں۔ اگر کسی چیز کا ثبوت حدیث سے مل جاتا ہے تو بس وہ کافی ہے۔ مزید ثبوت کی ضرورت نہیں۔
قربانی ابتدائے آفرینش سے جاری ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کی قربانی کا ذِکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ ارشادِ باری ہے:﴿ذ قَرَّبا قُربانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِما...٢٧﴾... سورة المائده''جب دونوں نے قربانی پيش کی تو ان دونوں میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی۔ ایک اور جگہ ارشاد باری ہے:
﴿الَّذينَ قالوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَينا أَلّا نُؤمِنَ لِرَسولٍ حَتّىٰ يَأتِيَنا بِقُربانٍ تَأكُلُهُ النّارُ ۗ قُل قَد جاءَكُم رُسُلٌ مِن قَبلى بِالبَيِّنـٰتِ وَبِالَّذى قُلتُم فَلِمَ قَتَلتُموهُم إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ١٨٣﴾... سورة آل عمران
ان لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک وہ ایسی قربانی پیش نہ کرے جس کو آگ کھا جائے کہہ دو کہ مجھ سے پہلے رسول، معجزات کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور وہ قربانی بھی پیش کی جس کا تم مطالبہ کرتے ہو تو پھر تم نے ان کو کیوں قتل کیا اگر تم سچے ہو؟
یعنی گزشتہ انبیاء کے زمانہ میں ایسی قربانی کا دستور تھا کہ قربانی کی اشیاء کو ایک جگہ رکھ دیا کرتے تھے۔ آگ آتی تھی اور ان اشیاء کو جلا دیا کرتی تھی۔ یہ قربانی کے قبول ہونے کی علامت تھی۔
لیجئے قرآن مجید سے ایسی قربانی کا ثبوت ملتا ہے جس کا مادی فائدہ کچھ نہیں بلکہ کلیۃً مال کی بربادی ہے اور کچھ نہیں۔ اب ہماری موجودہ قربانی کا جائزہ لیجئے کہ اس میں کتنے مادی فوائد ہیں۔
(۱) دولت کی گردش یعنی موجودہ معیشت کا اہم تقاضا۔ (۲) دولت کا سرمایہ داروں کی جیب سے نکل کر غرباء کے ہاتھوں میں منتقل ہونا اور غرباء کا ذریعۂ معاش بننا۔ (۳) مویشی کی افزائشِ نسل کی حوصلہ افزائی اور اس کے ضمن میں دودھ، دہی، گھی وغیرہ کی پیداوار میں اضافہ۔ (۴) چرم سازی کے کارخانوں کے لئے خام مال کی فراہمی۔ (۵) جوتے اور دوسری چرمی صنعتوں کا فروغ۔ (۶) چرمی اشیاء کی برآمد اور زر مبادلہ کا حصول۔ (۷) کھالوں کی برآمد اور کثیر زرِ مبادلہ کا حصول۔ (۸) ادن کی پیداوار میں اضافہ اور اس کی برآمد سے زرِ مبادلہ کا حصول۔ (۹) مندرجہ بالا صنعتوں اور برآمدی کاروبار میں ہزار ہا افراد کو روزگار مہیا ہونا۔ (۱۰) گوشت کی بہت بڑی مقدار کا غرباء کے حصہ میں آنا اور ان کی عید کی خوشی کا دوبالا ہونا۔ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ غرض یہ کہ قربانی سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اگر کسی کو یہ فوائد نظر نہ آئیں تو اس کا کیا علاج ہے۔
مادی عینک سے ہر چیز کو دیکھنے والوں کے لئے ہم نے مادی فوائد کا ذِکر کیا تاکہ دنیا والوں کو معلوم ہو جائے کہ اسلام کے ہر حکم میں متعدد مصالح مضمر ہیں اور اسلام ہی وہ نظامِ معیشت پیش کرتا ہے جس میں بے پایاں خیر و برکت ہے ورنہ اگر قربانی میں یہ مادی فوائد نہ بھی ہوتے تب بھی ہم اسے اسی ولولہ سے انجام دیتے جس طرح گزشتہ انبیاء علیہم السلام قرآن کی بیان کردہ قربانی دیا کرتے تھے اور ان کو قطعاً اس کے مادی نقصان کی پرواہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ رضوانِ الٰہی اور روحانی فائدہ جہاں مقصود ہو وہاں مادی نقصان تو کیا جانی نقصان کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی اور ہم قربانی روحانی فوائد کے لئے ہی کرتے ہیں نہ کہ مادی فوائد کے لئے۔
منکرینِ حدیث کے لئے درسِ عبرت:
منکرینِ حدیث ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ قرآن تو اس قربانی کا ثبوت پیش کرتا ہے جو کلیۃً ضائع ہو جاتی ہے۔ حدیث میں اس قربانی کا ثبوت ہے جو مادی فوائد سے مالا مال ہے۔ اگر حدیث پر اعتراض ہے، حالانکہ وہ غلط اعتراض ہے تو کیا اس طرح کا اعتراض قرآن پر نہیں ہو سکتا؟ معلوم نہیں یہ لوگ قرآن پر اعتراض کیوں نہیں کرتے تاکہ ان کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے اور جاہل عوام دھوکا نہ کھائیں۔ یہ لوگ قرآن کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں تاکہ عوام ان کو مسلمان اور قرآن کا وفادار سمجھیں، حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے قرآن مجید کے ساتھ جو کھیل یہ کھیل رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تحریفِ معنوی کی بڑی ہی مکروہ مثال ہے جس نے پورے اسلام کو بیخ و بُن سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے اور فریب خردہ مسلمانوں کو ڈارون اور مارکس کی گود میں ڈال کر الحاد اور سوشلزم کے لئے راہ ہموار کر دی ہے۔
اے علمبردارانِ قرآن و حدیث! سوچئے یہ فتنہ کس قدر خطرناک ہے۔ لیکن آپ کی حیثیت محض خاموش تماشائی کی ہو کر رہ گئی ہے۔ خدارا اُٹھیے اور تمام فتنوں کے مقابلہ کے لئے سینہ سپر ہو جائیے۔ اگر اب بھی آپ ہوشیار نہیں ہوئے تو آئندہ نسل اس فتنۂ انکار حدیث کا بری طرح سے شکار ہو جائے گی اور ان کی گمراہی کی پوری ذمہ داری آپ پر عائد ہو گی۔ بتائیے میدانِ محشر میں آپ کیا جواب دیں گے؟