سانحۂ مشرقی پاکستان اور ہم

ہر طرف شورِ آہ و بکا ہے، معصوموں کی دل دوز اور جگر سوز چیخیں ہیں، لہو کے چھینٹے ہیں، گوشت کے ٹکڑے ہیں، عصمتوں کے خون ہیں۔ اور ان سب کی قیمت ایک وحشیانہ قہقہے سے زیادہ نہیں۔ آہ یہ چیزیں اتنی سستی تو نہ تھیں۔ مسلمان تو ان کی حفاظت کی خاطر ہزاروں میل کا سفر گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر کر سکتا تھا مگر آج کوئی محمد بن قاسم موجود نہیں، کوئی طارق بن زیاد نہیں، کوئی موسیٰ بن نصیر نہیں، کوئی قیتبہ بن مسلم باہلی نہیں، جو خون کی قیمت خون ادا کرتا، جو ایک معصوم چیخ کے بدلے میں ہزاروں ظالموں کو چیخنے پر مجبور کر دیتا اور جو ایک عصمت کا انتقام لینے کی خاطر لاکھوں نشے خاک و خون میں لوٹا دیتا، لیکن نہیں ٹھہرئیے! کچھ ایسے بھی تو تھے کہ گولیوں سے اپنا سینہ اور چہرہ چھلنی کروا لینے کے باوجود اپنی مشین گن کا رُخ شمن کی طرف کیے ہوئے تھے اور دشمن کو بھی داد شجاعت دینے پر مجبور کر رہے تھے۔ کچھ ایسے بھی تو تھے جو صرف بیالیس ہونے کے باوجود پانسو چالیس کو جہنم واصل کر دینے کے بعد بھی زندہ تھے۔ زندہ تھے اور لڑ رہے تھے، اپنی آن کی خاطر، اپنے دین کی خاطر، اپنے وطن کی خاطر اور اپنے اللہ کی خاطر! کچھ ایسے بھی تو تھے جو بھوکے تھے، جو گھر چکے تھے اور جن کو کمک ملنے کی ذرا اُمید نہ تھی، لیکن ان خطرات سے بے نیاز، یہ جنت کے طالب، شیر کی طرح گرجتے تھے، عقاب کی مانند جھپٹتے تھے اور اپنے جلو میں لاکھوں بجلیاں بھرتے، دشمن کی صفوں کو خاکستر کرتے چلے جاتے تھے جو شمن پر موت بن کر ٹوٹتے اور قیامتیں ڈھا کر آگے نکل جاتے تھے۔ اور ایک جواں مرد ایسا بھی تو تھا جو ان س کا سپہ سالار تھا، جس نے جنگ شروع ہونے سے قبل اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:۔

''یہ جنگ فیصلہ کر دے گی کہ برصغیر میں اسلام رہے گا یا ختم ہو جائے گا۔''

جس کے عزائم سے دشمن اس قدر خوفزدہ تھا کہ اپنی فتح کی خاطر محاذِ جنگ سے اس کی غیر موجودگی ضروری خیال کرتا تھا اور اس کے فرار کی افواہیں اُڑاتا تھا، لیکن وہ وہیں موجود تھا، اور موجود رہا، میدانِ کار زار میں لڑتا رہا، نہ صرف اپنے ساتھیوں کے حوصلے بڑھاتا رہا بلکہ اپنے سے ہزار میل دور رہنے والوں کو بھی تسلیاں دیتا رہا اور جس نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ جب تک اس کے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے، وہ ملک و ملت اور اسلام کی خاطر لڑتا رہے گا، جس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا کہ دشمن میری لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکہ میں داخل ہو سکتا ہے۔ جس نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ اس وقت تک ہتھیار ہاتھ سے نہیں رکھے گا جب تک کہ یہ خود اس کے ہاتھوں سے نہ گر جائیں، مگر افسوس! کہ اسے نامعلوم حالات کی بنا پر ہتھیار دشمن کے حوالے کر دینے پڑے۔ بہرحال ایک چیز تو واضح ہے کہ ایک محاذ پر شکست قبول کر لی گئی اور دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے گئے۔ اپنی نوعیت کا یہ واقعہ اس قدر سنگین ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

قوم کے مجاہدو! ملتِ اسلامیہ کے صف شکن سپاہیو! قصور تمہارا نہیں، قصور کسی ایک کا نہیں، قصور ہم سب کا ہے۔ تاریخ کے کٹہرے میں مجرم ہی مجرم کھڑے نظر آتے ہیں۔

پاکستان کو قائم ہوئے آج چوبیس سال بیت گئے ہیں۔

اربابِ اقتدار بتائیں!

کیا انہوں نے لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے اس ملک میں اسلامی آئین و قانون نافذ کیا؟ کیا انہوں نے چور کے ہاتھ کاٹے؟ زانی کو سنگسار کیا؟ راشی اور مرتشی کو سزا دی؟ ظالم کا ہاتھ پکڑا؟ مظلوم کی داد رسی کی؟ دھوکے باز سے باز پرس کی؟ ملاوٹ کرنے والے اور ذخیرہ اندوز کا محاسبہ کیا؟ کیا انہوں نے چور بازاری کو ختم کیا؟ صاحبِ نصاب سے زکوٰۃ وصول کی؟ کیا انہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کے قالب میں ڈھالیں؟ کیا انہوں نے اپنے اور دوسروں کے لئے نماز کو ضروری خیال کیا؟ کیا انہوں نے چکلے ختم کئے؟ کیا انہوں نے سینما ہالوں میں تھرکتی، ناچتی، رنگین جوانیوں پر پابندی لگائی؟ کیا انہوں نے نوجوانوں کی بے راہ روی کا کوئی علاج کیا؟ اور کیا انہوں نے ایسا نصابِ تعلیم رائج کیا جو اسلامی اقدار کا حامل ہوتا اور طلباء کو ان کی سابقہ روایات پر عمل پیرا ہونے میں مدد دیتا؟

علماءِکرام بتلائیں!

کیا انہوں نے قال اللہ وقال الرسول (ﷺ) کی صا پر لبیک کہی؟ کیا انہوں نے﴿ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ پر پر کبھی غور کیا؟ کیا انہوں نے﴿أَتَأمُر‌ونَ النّاسَ بِالبِرِّ‌ وَتَنسَونَ أَنفُسَكُم...﴿٤٤﴾... سورة البقرة" کی لطیف رمز کو پہچاننے کی کوشش کی؟ کیا انہوں نے دوسرں کو پند و نصائح اور عظم کہتے وقت اپنے نفس کو بھی وعظ کہا؟ کیا انہوں نے دوسروں کو اعمالِ حسنہ کی ترغیب دینے کے بعد ان باتوں کو اپنے لئے بھی ضروری سمجھا؟ کیا انہوں نے خود اپنی زندگیاں اسلام کے سانچے میں ڈھالیں یا محض اپنی شکل و صورت اور لباس کو اسلامی بنا کر مطمئن ہو گئے؟ کیا انہوں نے اپنے مقتدیوں کو طہارت اور وضو کے طریقے سکھائے؟ کیا انہوں نے نماز کے فرائض اور سنن پر روشنی ڈالی؟ اپنے مقتدیوں میں صحیح اسلامی روح پھونکی؟ کیا انہوں نے امت مسلمہ کے فساد کے بجائے اتحاد و اخوت پر زور دیا؟ کیا وہ ایک دوسرے کو لطن و تشنیع کرنے سے باز رہے؟ کیا اس ۲۴ سالہ مدت میں وہ فرقہ واریت کے جال سے باہر نکل سکے؟ کیا انہوں نے بشر اور نور، علم غیب اور حاضر و ناظر کے مسئلوں سے باہر نکل کر ملی تقاضے پورے کرنے کی کوشش کی؟ کیا انہوں نے لومۃ لائم سے بے پرواہ ہو کر اور جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہہ کر افضل الجہاد کا مظاہرہ کیا اور ممبرِ رسول ﷺ کی لاج رکھ کر «اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الْاَنْبِيَاء» کا مقدس فریضۃ سر انجام دیا؟ کیا انہوں نے آپس میں الجھنے کی بجائے کبھی غیر مذاہب کے اسلام پر کیے جانے والے رکیک اور پست حملوں کا دفاع کیا؟ اور غیرت و حمیتِ دینی کا ثبوت فراہم کیا؟ الا ما شاء اللہ

مشائخَِ عظام بتلائیں!

کیا انہوں نے اپنے ارادت مندوں کو صرف اپنے دامنِ دولت سے وابستہ کر لینے کے بجائے وہ وسعتِ قلبی و ذہنی عطا فرمائی جو اسلام کا خاصہ ہے اور جس نے عرب کے بدوؤں کو شاہِ دوراں بنا دیا؟ کیا انہیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کا مقام اور دنیا میں ان کی اہمیت بتلائی یا ان کو اپنے در پر اس حد تک ذلیل ہونے پر آمادہ کر لیا کہ وہ سگ کہلا کر اشرف المخلوقات ہونے سے انکار کرنے لگے؟ کیا انہوں نے اپنے اصحاب ارادت کے حقوق عبدیت کو ان کے خالق اور مالک تک ہی محدود رہنے دیا یا انہیں اپنے نام محفوظ کرا لیا؟ کیا انہوں نے دوسروں کو زہد فی الدنیا کی ترغیب دیتے ہوئے خود ایک گودڑی، کچی کٹیا، روٹی کے چند نوالوں اور پانی کے چند گھونٹوں تک ہی اپنی زندگی کو محدود رکھا یا اس سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے آپ کو شاہِ وقت خیال کیا اور ان لوازماتِ زندگی سے اپنے آپ کو آراستہ کیا کہ ایک غریب آدمی کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے؟ کیا انہوں نے بقولِ خود روپے پیسے کو لعنت، سونا چاندی کو زہریلا سانپ اور سامانِ تعیش کو مومن کے لئے عملاً موت تصورّ فرمایا، یا ان کے بغیر اپنی زندگی کو نامکمل اور بے معنی قرار دیا؟ کیا انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ پر چلتے ہوئے اپنے ساتھیوں میں زمین ہی پر بیٹھنے کو افضل خیال فرمایا یا پھولوں کی سیج بچھی ہوئی پالکی کو اپنا عرشِ عظیم قرار دیا جو انہی جیسے انسان، انہی کے ہم جنس، کمزور اور بھوکے انسان اپنے کندھوں پر اُٹھا کے چلتے ہیں؟ کیا انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے مطابق بانسری تک کی آواز کو حرام خیال کیا یا اسے ریڈیو اور رنڈی کے فحش گانوں، ٹیلی ویژن کے برہنہ شاہکاروں اور ڈھول ڈھمکے اور باجے تاشے جیسے شیطانی افعال تک وسعت بخشی؟ کیا انہوں نے انسانِ کو مساوات، اتحاد اور تنظیمِ اخوت کا درس دیا یا انہیں اپنے ہی جیسے بے بس انسان کا محتاج بنایا، گروہ بندی، فرقہ واریت اور تعصب کے زہریلے میخوں سے چھیدا اور صرف ''پیر بھائی'' ہونے کو اخوت کی بنیاد قرار دیا؟ کیا انہوں نے اپنے ساتھیوں میں پیدل چلنے کو سنت رسول قرار دیا یا ان کے نازک اعصاب نئے ماڈل کی شاندار لمبی اور چمکیلی کار کے محتاج ہو کر رہ گئے؟ کیا انہوں نے کبھی میدان کار زار میں حصہ لے کر، اپنے ارادت مندوں کے خیالات کو اُبھار کر، ان کو ذہنی وسعت دے کر، انہیں مجاہد فی سبیل اللہ بنا کر اسلام کا آہنی حصار بنایا یا ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر اس حد تک مفلوج اور اپاہج بنا دیا کہ وہ انسانیت کے لئے بار بن کر رہ گئے؟ کیا انہوں نے اپنے شاقِ صادقین کو اسلامی معاشرہ کے لئے ایک نمونہ، حسن اخلاق کا مجسم اور تہذیب و تمدن کا بہترین نقاش بنایا یا انہیں زندگی سے اس حد تک بیزار کر دیا کہ انہیں تن ڈھانپنے کی ہوش نہ رہی اور وہ مجسمِ بے شرمی اور بے حیائی بن جانے کے باوجود تصوف کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہو گئے؟ کیا انہوں نے غیر عورت پر اپنی نظروں کی بے حجابی کو حرام خیال فرمایا یا ان سے اپنے پاؤں دھلوانے اور جسم دبوانے کو اپنا استحقاق سمجھنے لگے؟ الا ماشاء اللہ۔

سیاسی لیڈر بتلائیں!

کیا انہوں نے کبھی کرسی کے علاوہ بھی کچھ سوچا؟ کیا انہوں نے اتحاد، اخوّت اور مساوات کی تحریک بھی چلائی؟ کیا انہوں نے اصلاحِ معاشرہ کے لئے اپنی بہترین ذہنی صلاحیتوں کا استعمال فرمایا؟ کیا انہوں نے جنسی بے راہ روی کے متعلق کبھی سوچا؟ کیا انہوں نے تعیش اور سامانِ تعیش سے منہ موڑا؟ کیا وہ کبھی نفاذِ قوانینِ اسلامیہ کے لئے مجسمِ احتجاج بنے؟ کیا انہوں نے اسلامی نصابِ تعلیم کے رواج کے لئے بھی کبھی زور دیا؟ اور کیا انہوں نے خیالی زندگی سے نکل کر کبھی عملی زندگی میں بھی قدم رکھنے کی زحمت گوارا فرمائی؟ اور کیا انہوں نے کبھی مسجد کا منہ بھی دیکھا اور قرآنِ حکیم کے سمجھنے کی کوشش بھی فرمائی؟ الا ماشا اللہ

عوام بتلائیں!

ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہم نے قرآنی تعلیمات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا؟ کیا ہم نے معاشرہ کی اصلاح کے لئے کبھی فرد کے فرائض پر غور فرمایا؟ کیا ہم نے اچھے شہری بننے کی کوشش کی؟ کیا ہم نے رشتہ داروں اور ہمسایوں کے حقوق پہچانے؟ کیا ہم نے حکومت پر نکتہ چینی کے علاوہ کبھی مفید مشورے بھی دیئے؟ کیا ہم نے نفوذِ قوانینِ اسلامیہ کے لئے بھی ہڑتالیں کیں، جلسے جلوس منعقد کیے؟ مظاہرے کیے؟ کیا ہم نے اپنے بچوں کو قرآنی تعلیمات سے روشناس کرایا؟ ان کو کوٹ پتلون اور کنگھی شیشہ کی دنیا سے باہر نکالنے کی کوشش کی؟ کیا ان کے اخلاق پر کڑی نظر رکھی؟ کیا انہیں بری محفلوں سے بچایا؟ کیا انہیں سوسائٹی کے آداب سکھائے؟ کیا انہیں سینما دیکھنے کے لے جیب خرچ دینے سے ہاتھ روکا؟ کیا انہیں کبھی نماز نہ پڑھنے پر مارا پیٹا؟ کیا ہم دودھ میں پانی، مرچوں میں پسی ہوئی اینٹیں، چائے میں چنوں کے چھلکے ملانے سے باز رہے؟ کیا دوکاندار حضرات نے بلیک مارکیٹ سے منہ موڑا؟ صحیح اور جائز منافع کا اصول اپنایا؟ اپنی چیز کی خامی سے گاہک کو مطلع فرمایا؟ مِل مالکان نے گرانی کی روک تھام کی کوشش کی؟ اپنی مصنوعات کے نقص کو کبھی چیک کیا؟ مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کی؟ کیا ہم نے بس میں سوار ہوتے وقت کبھی عورت کا احترام کیا؟ اور ہم میں سے کتنوں نے کسی کھڑی ہوئی بہن کو، جس کی گود میں بچہ بھی ہو سیٹ چھوڑ کر بیٹھنے کی پیش کش کی؟ کیا کسی دولت مند نے کسی غریب کا خیال رکھا؟ ان سے تحقیر آمیز الفاظ میں باتیں کرنے، ان کی عزت نفس کو پائمال کرنے، ان پر ناجائز رعب جمانے سے احتراز فرمایا؟ کیا انہوں نے کبھی غریب آدمی کو بھی آدمیت کے مقام پر رہنے کی اجازت دی اور اس کو بھی اپنی طرح کا انسان سمجھا؟ کیا کار والوں نے کبھی کسی راہ چلتے راہ گیر، کسی غریب، کسی اندھے، کسی لنگڑے اور کسی بوڑھے نحیف و کمزور کو اس کی منزل تک پہنچانے کی پیش کش کی؟ کیا ہم نے کبھی تہذیب کے جامے میں رہ کر بات چیت کرنے کی کوشش کی؟ کیا لغو گوئی، بیہودہ گوئی، گالیاں بکنے اور فحش قسم کی گفتگو سے اجتناب فرمایا؟ کیا نوجوانوں نے کسی راہ چلتی طالبہ پر فقرے کسنے کو خلاف تہذیب سمجھا؟ خواتین کو اپنی مائیں اور بہنیں سمجھا؟ اپنی ہوس سے للچائی ہوئی نظروں کو ان پر پڑنے سے باز رکھا؟ اور انہیں دیکھ کر سیٹیاں بجانے کو مذموم خیال فرمایا؟ کیا خواتین نے کبھی مردوں کے دوش بدوش چلنے کی خواہش میں اپنی نسوانیت کے وقار کو بھی ملحوظ خاطر رکھا؟ کیا انہوں نے اپنے گھر کو ہی اپنی جنت سمجھا؟ کیا انہوں نے کبھی شوخ اور بھڑکیلے کپڑے پہن کر بازار میں چلنے میں حیا محسوس کی؟ کیا انہوں نے اپنے لپ سٹک زدہ چہروں کو غیر مردوں سے چپایا اور ننگے منہ بازار میں نکلنے میں جھجک محسوس کی؟ کیا انہوں نے کبھی ایسا لباس پہننے میں عار محسوس کی کہ جس پر خواہمخواہ نظریں اُٹھ جائیں اور جسے دیکھ کر تہذیب بھی شرما جائے؟ کیا انہوں نے کبھی سینما ہال میں جا کر سیٹیاں اور آوارہ فقرات سننے میں تامّل برتا؟ اپنے اجسام کے نشیب و فراز کو اجاگر کرنے میں کبھی سستی سے کام لیا؟ اپنی بہو بیٹیوں کو کبھی نسوانیت کے اعلیٰ مقام کو پہچاننے کی تاکید فرمائی؟ اور انہیں کبھی فاطمہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی سیرت و کردار کے متعلق کچھ بتلایا؟

اس جنگ میں جس نے ہمارے ملک اور قوم کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں، ہم میں سے کتنوں نے ایک خدا کو پکارا؟ اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہو کر خشوع و خضوع سے اپنی عافیت اور فتح و نصرت کے لئے دعا مانگی؟ دشمن کو حقیر سمجھنے میں سوجھ بوجھ سے کام لیا؟ یا علی، یا حیدری قسم کے شرکیہ نعروں سے پرہیز کی؟ کیا ہم نے شرک اور توحید کے صحیح مقام کو پہچاننے کی کوشش کی؟ کیا ہم نے مادام نور جہاں کے نغمات کو جنگ جیتنے کا راز سمجھنے کی بجائے کبھی یہ خیال کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے غیر عورت کی آواز کو سننا حرام قرار دیا ہے؟ اور کیا ہم نے جنگ سے قبل (اور بعد میں بھی) اپنے یا غیر ملکی ریڈیو پر سے فحش گانوں کی سماعت سے احتراز کیا؟

اگر وقت اور واقعات کا جواب نفی میں ہے تو پھر بتلائیے کہ قصور کس کا ہے؟ کیا ہندوستان کے حاکموں کا جو اسلام کے ازلی دشمن ہیں؟ کیا چین اور امریکہ کا؟ جو کسی طرح بھی اسلام کے حامی نہیں ہو سکتے اور جن کے بارے میں خداوند کریم نے ارشاد فرمایا ہے:۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن تُطيعُوا الَّذينَ كَفَر‌وا يَرُ‌دّوكُم عَلىٰ أَعقـٰبِكُم فَتَنقَلِبوا خـٰسِر‌ينَ ١٤٩ بَلِ اللَّهُ مَولىٰكُم ۖ وَهُوَ خَيرُ‌ النّـٰصِر‌ينَ ١٥٠﴾... سورة آل عمران

''اے ایمان والو! اگر تم کفار کے پیچھے لگے تو یہ تمہیں اوندھے منہ گرا دیں گے اور تم ناکام و نامراد لوٹ جاؤ گے۔ یاد رکھو! اللہ ہی تمہارا والی و مددگار ہے اور وہ سب مدد کرنے والوں سے بہتر مدد کرنے والا ہے۔''

قصور تو ہمارا پنا ہے جو اپنے سب سے بڑے حامی و ناصر، زبردست طاقتور مالک کو بھول گئے جو قادر مطلق ہے جو وحده لا شریک ہے جو ساری دنیا کا رب ہے، ہم نے اس سے منہ موڑا، اس نے ہمیں فراموش کر دیا، ہم نے اس کے قرآن اور اس کے رسول ﷺ کی لاج نہ رکھی، اس نے ہمیں رسوا کیا۔

محترم بزرگو! بھائیو! بہنو! برا ماننے کی بات نہیں، اگر مذموم افعال کا مرتکب ہونا اور ان سے نہ بچنا گناہ نہیں تو ان افال کی نشاندہی کرنا بھی قطعاً گناہ نہیں۔

یہ غلطیاں، یہ گناہ، یہ جرائم جن کے ہم مجرم ہیں، اسی بات کے مقتضی تھے کہ ہم ذلیل و رسوا ہوتے، شکست سے وچار ہوتے اور پتھر کی بے جان مورتیوں کو خدا سمجھنے والے ہندو کے ہاتھوں، جس کے سامنے نہ کوئی نصب العین ہے اور نہ کوئی مقصدِ حیات، ہزیمت اُٹھاتے۔

خداوند کریم نے تو صحابہ کرام تک کو معاف نہ کیا اور ایک چھوٹی سی غلطی کی، جو غفلت سے ان سے سرزد ہو گئی تھی، اتنی کڑی سزا دی کہ خود ذاتِ رسول (ﷺ) بھی اس کی زد سے محفوظ نہ رہی۔ کیا جنگِ احد کا واقعہ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت نہیں ہے؟

آئیے خداوند کریم سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں، وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ اگر ہم نے سچے دل سے اسے پکارا اور آئندہ کے لئے انہی غلطیوں کا اعادہ نہ کرنے کا عزم صمیم کر لیا جن کی وجہ سے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کا منحوس ترین واقعہ پیش آیا، تو ہم نہ صرف مشرقی پاکستان کو دوبارہ واپس لے سکیں گے بلکہ ظالموں سے ان کے ظلم کا انتقام بھی لے سکیں گے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم نے اپنی اصلاح نہ کی اور اپنی موجودہ حالت پر مطمئن رہے، اگر ہماری زندگیوں میں انقلاب نہ آیا تو ہم خدانخواستہ مشرقی پاکستان کی طرح مغربی پاکستان کو بھی کھو بیٹھیں گے، ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے اور ہمارا ملک سامراجیوں کے عزائم، سازشوں اور کفر سامانیوں کا اکھاڑہ بن جائے گا۔ خدا کرے ایسا کبھی نہ ہو! اور اگر ہم واقعی یہ چاہتے ہیں تو پھر ہمیں متحد اور منظم ہو کر یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہمارا بچہ بچہ سپاہی بن جائے گا اور ہمارا ہر فرد دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے گا اور ہم جو کچھ بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں اپنی بقا اور خدا کے دین کی سربلندی کے لئے اس حد تک انفرادی اور اجتماعی کوششوں کو بروئے کار لایں گے کہ دنیا ایک دفعہ پھر یہ ماننے پر مجبور ہو جائے۔