قومِ نوح۔ قرآنِ کریم کے آئینہ میں

قومِ نوح کا مسکن، مولد اور سر زمین، عرب ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ دجلہ اور فرات کے مابین جو علاقہ ہے، وہی اس کا مولد اور مسکن ہے۔

قرآنِ حمید نے ذکرِ اقوام میں، اقوامِ عالم کے نسلی اور جغرافیائی خاکے اور سوانح بیان نہیں کئے، کیونکہ خدا کے ہاں ان کی بابت کوئی پرستش نہیں ہو گی اور نہ ہی اس میں بندہ کے کسب و عمل کا کوئی دخل ہے۔ اس لئے ہمیشہ قوموں کے کیریکٹر اور کردار پر اس کی نگاہ رہی ہے اور جب کبھی ان کو تولا ہے تو اسی ترازو میں تولا ہے، اور انہی پیمانوں سے ان کو ناپا ہے۔

قومِ نوح میں انبیاء:

حضرت نوح علیہ السلام کی طرح اور بھی کئی ایک انبیاء علیہم السلام قوم نوح میں مبعوث ہوئے۔

﴿كَذَّبَت قَومُ نوحٍ المُر‌سَلينَ ١٠٥﴾... سورة الشعراء" قومِ نوح نے رسولوں کو جھٹلایا۔

حضرت نوح علیہ السلام کو بھی ان کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا:

﴿لَقَد أَر‌سَلنا نوحًا إِلىٰ قَومِهِ...٥٩﴾... سورة الاعراف" ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا۔

مدّتِ تبلیغ:

دوسرے انبیاءِ کرام علیہم السلام کے بارے میں تو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ، قومِ نوح کی اصلاح کے لئے انہوں نے کتنی کتنی عمریں کھپائیں، لیکن حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق قرآنِ کریم نے انکشااف کیا ہے کہ انہوں نے ان کو سیدھی راہ پر لانے کے لئے تقریباً ساڑھے نو سو سال کام کیا تھا:

﴿فَلَبِثَ فيهِم أَلفَ سَنَةٍ إِلّا خَمسينَ عامًا...﴿١٤﴾... سورة العنكبوت" تو وہ پچاس برس کم ہزار سال ان میں رہے۔

لیکن:

لیکن ان اولو العزم مسیحاؤں کی مسیحائی ان کے کچھ کام نہ آئی اور معدودے چند افراد کے سوا اور کوئی بھی ایمان نہ لایا۔

﴿وَما ءامَنَ مَعَهُ إِلّا قَليلٌ ٤٠﴾... سورة هود" تھوڑے سے افراد کے سوا آپ کے ساتھ اور کوئی ایمان نہ لایا۔

مفسرین نے لکھا ہے کہ:۔

''ان کی تعداد اسّی مرد یا کم و بیش تھی۔''

مزید کی توقع بھی نہیں رہی تھی:

جتنے ایمان لا چکے تھے۔ آخر دم تک اتنے ہی رہے۔ بعد میں بھی ان میں مزید اضافہ کی کوئی توقع نہیں رہی تھی:۔

﴿وَما كانَ أَكثَرُ‌هُم مُؤمِنينَ ٨﴾... سورة الشعراء" اور ان کی اکثریت ایمان لانے والی تھی بھی نہیں۔

حضرت نوح علیہ السلام مایوس ہو کر بولے:

﴿وَلا يَلِدوا إِلّا فاجِرً‌ا كَفّارً‌ا ٢٧﴾... سورة نوح"(الٰہی) ان سے جو نسل چلے گی وہ بھی سب بدکردار اور کٹر کافر ہی ہوں گے۔

بلکہ یہ دوسروں كو بھی لے ڈوبيں گے۔

﴿إِنَّكَ إِن تَذَر‌هُم يُضِلّوا عِبادَكَ﴾ (خدایا!) یہ پکی بات ہے کہ اگر تو نے ان کو (زنده) چھوڑا تو یہ تيرے بندوں كو گمراه ہی كرينگے

ان آیات کریمہ اور پیغمبرِ خدا کی مایوسیوں کے اظہار سے معلوم ہوتا ہے کہ قومِ نوح میں حاملینِ حق کی تعداد اور ان کی جمعیت کم تھی، بد اور منکرینِ حق کی زیادہ تھی اور تقریباً تقریباً ہر زمانہ میں یہی حال اور یہی نسبت رہی ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، اپنے گرد و پیش نظر ڈال کر دیکھ لیجئے، سب جگہ یہی سماں طاری نظر آئے گا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ بات کیا ہے، وہ ایسے کیوں نکلے؟ بات یہ ہے کہ ان کے کام ہی کچھ ایسے تھے۔ کردار کا سیرت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ قومِ نوح کی ذہنی اور عملی کیفیت کیا تھی۔ ان کی زندگی کے تانے بانے اور طول و عرض کی کیا نوعیت تھی اور اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے وہ انسانیت سے زیادہ قریب تھی یا بہیمیت سے؟ مندرجہ ذیل سطور میں آپ اس کی اجمالی تصویر اور خاکہ ملاحظہ فرمائیں۔

بت پرستی:

قومِ نوح کی یہ عادت تھی کہ جیتے جی تو اللہ والوں کی ایک نہیں سنتی تھی۔ جب وہ اللہ سے جا ملتے تو انہیں خدا اور مشکل کشا بنا ڈالتی تھی۔ جب تک پیشانی غیر داغدار رہتی۔ غیروں کے آستانوں کے لئے وقف رہتی۔ جب داغدار ہو کر کوڑھی ہو جاتی تو خدا کے حضور پیش کر دی جاتی۔ چنانچہ انہوں نے ایک دوسرے کو بت پرستی پر ثابت قدم رہنے کی وصیت کرتے ہوئے کہا کہ:

﴿لا تَذَرُ‌نَّ ءالِهَتَكُم﴾(بھائیو) اپنے خداؤں کو نہ چھوڑیو۔

چند دیوتا:

قرآن کریم نے ان کے ان دیوتاؤں کا بھی ذِکر کیا ہے جن کی یہ لوگ پوجا کیا کرتے تھے:۔

﴿وَلا تَذَرُ‌نَّ وَدًّا وَلا سُواعًا وَلا يَغوثَ وَيَعوقَ وَنَسرً‌ا ﴿٢٣﴾... سورة نوح" (خاص کر) ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو نہ چھوڑیو۔

دراصل بت پرستی، خدانا فہمی اور مقام آدمیت سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔

ان کی پختہ زنّاری:

انبیاءِ کراہم علیہم السلام کی دعوت اور پاک زندگی میں بلا کی کشش ہوتی ہے، سوز اور اخلاص کا مرقع ہوتی ہے۔ مگر افسوس! یہ قوم اور ہی سخت جاں نکلی، حضرت نوح علیہ السلام کی دوا اور دعاء کی ساری کوششیں ساحل سے ٹکرائیں اور پلٹ گئیں۔ انہوں نے آپ کی ایک نہ سنی۔ بلکہ آپ کو یہ ٹکا سا جواب دے ڈالا کہ:

﴿فَأتِنا بِما تَعِدُنا إِن كُنتَ مِنَ الصّـٰدِقينَ ﴿٧٠﴾... سورة الاعراف

(جاجا میاں!) اگر تو سچا ہے تو وہ ہم پر دے مار جس کی (دن رات) تو ہمیں دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام نے ان کی یہ پختہ زناری دیکھ کر رب کے حضور میں فریاد کی:۔

﴿رَ‌بِّ لا تَذَر‌ عَلَى الأَر‌ضِ مِنَ الكـٰفِر‌ينَ دَيّارً‌ا ﴿٢٦﴾ إِنَّكَ إِن تَذَر‌هُم يُضِلّوا عِبادَكَ وَلا يَلِدوا إِلّا فاجِرً‌ا كَفّارً‌ا ﴿٢٧﴾... سورة نوح

الٰہی! کافروں میں سے ایک بھی روئے زمین (زندہ) نہ چھوڑیو۔ اگر تو نے ان کو (زندہ) چھوڑا (تو) یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور جو جنیں گے وہ بھی بدکار اور کٹے کافر ہی ہوں گے۔

عجيب سا جواب:

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے اپیل کی کہ:۔

﴿لّا تَعبُدوا إِلَّا اللَّهَ....٢إِنّى أَخافُ عَلَيكُم عَذابَ يَومٍ كَبيرٍ‌ ﴿٣﴾... سورة هود

خدا کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کیا کرو۔ مجھ کو تمہاری نسبت ایک دردناک دن کے عذاب کا (بڑا ہی) ڈر لگتا ہے۔

تو قوم کے رہنماؤں نے جواب دیا:۔

﴿ما نَر‌ىٰكَ إِلّا بَشَرً‌ا مِثلَنا...﴿٢٧﴾... سورة هود" ہم کو تو تم ہمارے جیسے بشر ہی دکھلائی دیتے ہو

غور فرمایے! اس جواب کو آپ کی اپیل سے کیا نسبت اور کیا تُک ہے؟

فسق و فجور کی مستی:

ایک انسان مشرک اور کافر ہونے کے باوجود شریف ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے لیکن ان کی شومی قسمت دیکھیے کہ مشرک ہونے کے ساتھ ساتھ غنڈے اور بدمعاش بھی تھے۔ بات افراد کی نہیں پوری قوم کی ہے۔ فرمایا:

﴿وَكَثيرٌ‌ مِنهُم فـٰسِقونَ ١٦﴾... سورة الحديد" بہتیرے ان میں فاسق ہیں

ايك اور مقام پر فرمايا:

﴿وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ ط اِنَّهمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ

اور (ان سے) پہلے (ہم) قوم نوح كو (ہلاك كر چكے تھے) اس ميں کوئی شک نہیں کہ وہ فاسق و فاجر قوم تھی۔

بڑی ہی ظالم اور سرکش:

یہ قوم بڑی ہی ظالم اور بڑی سرکش تھی۔

﴿وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ ط اِنَّهمْ كَانُوْا همْ اَظْلَمَ وَاَطْغٰي

اور اس سے پہلے قومِ نوح کو (بھی باقی نہ چھورا) یقین کیجئے! یہ قوم بڑی ہی ظالم اور بہت ہی سرکش تھی۔

تكذيبِ آيات و انبياء:

الله كی كتابوں اور اس كے پاك رسولوں كو جھٹلانا، عموماً سركشوں كا شيوه ہوتا ہے۔ چنانچہ وه قوم اس ميں بھی پيش پيش تھی۔

﴿اَلَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔

﴿كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ نِ الْمُرْسَلِيْنَ (حضرت) نوحؑ كی قوم نے رسولوں كو جھٹلايا۔

حضرت نوحؑ کو بھی جھٹلایا:۔

﴿فَكَذَّبُوْهُ تو انہوں نے اس کو جھٹلایا۔

چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب سے اس کی شکایت بھی کی:۔

﴿رَبِّ اِنَّ قَوْمِيْ كَذَّبُوْنِ میرے رب! مجھے میری قوم نے جھٹلا دیا۔

چنانچہ اس کی پاداش میں اس کو دھر لیا گیا:

﴿وَقَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا كَذَّبُوْا الرُّسَلَ اَغْرَقْنٰهمْ اور قومِ نوحؑ نے بھی جب رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے اس کو غرق کر دیا۔

نافرمانوں کا اتباع:

سچی رہنمائی (آیاتِ الٰہی) اور سچے رہنماؤں (انبیاء کرام) کی تکذیب جس قوم کی گھٹی میں پڑ جاتی ہے وہ کبھی بھی ساحلِ عافیت سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ پاک لوگوں سے کٹنے کے بعد ایسی قوم پھر نابکار لوگوں کی قیادت میں ہی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور دل کھول کر ڈٹ کر، اکڑ کر اور تن کر پاک رسولوں کی تکذیب کی۔ پھر یہاں سے اُٹھے اور خدا کے نافرمانوں اور دھن دولت والوں کے پیچھے جا کھڑے ہوئے۔

﴿رَبِّ اِنَّهمْ عَصَوْنِيْ وَاتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ يَزِدْهُ مَالُه وَوَلَدُهٓ اِلَّا خَسَارًا

الٰہی! ان لوگوں میرا کہا نہیں مانا اور ان لوگوں کا اتباع کیا جن کو ان کے مال اور ان کی اولاد نے صرف گھاٹے میں ڈالا۔

یہ عام بیماری ہے کہ دنیا دھن دولت والوں کا احترام کرتی ہے۔ اللہ والوں کی کوئی نہیں سنتا دیکھ لیجیے:

﴿جَحَدُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهمْ وَعَصَوْ رُسُلَه وَاتَّبَعُوْآ اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ

انہوں نے اپنے رب کی آیات کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر سخت گیر اور دشمنِ (خدا) کے کلمہ پر چلتے رہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا کہ ان کی تو کسی نے نہ سنی، لیکن:

﴿فَاتَّبَعُوْآ اَمْرَ فِرْعَوْنَ انہوں نے فرعون کے ہر حکم کا اتباع کیا۔

آہ! یہی کچھ آج ہو رہا ہے۔ اہلِ دل اور اکابرِ دین کی تو کوئی نہیں سنتا۔ اگر سنی جاتی ہے تو صرف ان کی، جن کے ہاتھ میں لٹھ اور جیب میں پیسے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

تقلیدِ آباء:

ایک اور روگ جو ان کو گھن کی طرح کھا گیا تھا، وہ آباء و اجداد کی اندھی تقلید اور ان کی رسوماتِ باطلہ کی پیروی تھی۔ اس نے تو ان سے نیکی کی استعداد اور توفیقِ خیر بھی چھین لی تھی۔ جب کبھی ان کے سامنے حق کی کوئی بات رکھی جاتی تو وہ ہمیشہ یہ کہہ کر اسے ٹھکرا دیتے کہ:

''خدا جانے! یہ باتیں کہاں سے نکال کر لے آتے ہو۔ آخر باپ دادا ہمارے بھی تو ہیں انہوں نے تو ہمیں کبھی کوئی ایسی بات نہیں سنائی۔ دراصل تم ہمیں ہمارے آباء و اجداد سے رشتے کاٹ کر پھینک دینا چاہتے ہو۔''

﴿تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَآءُنَا

تم چاہتے ہو کہ جن کو ہمارے آباء و اجداد پوجتے چلے آتے ہیں۔ ان (کی غلامی) سے تم ہمیں روک دو۔

آباء و اجداد کا جائز احترام اور ان کے مفید تجربات سے استفادہ کرنا ایک جائز ضرورت ہے۔ لیکن ان کی اندھی تقلید گناہ ہے۔ ماضی کے تجربات کی اساس پر مستقبل کی تعمیر ہوتی ہے لیکن تقلید کے محور پر ہزاروں سال گھومتے رہنے سے انسان ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ تقلید خود اعتمادی کی دشمن، حرکت کے خلاف ایک جارحیت، اور حرارتِ عمل کے لئے اوس سے بھی بدتر شے ہے۔ مقتدا باپ دادا ہوں یا بزرگانِ دین۔ تقلید کے میدان میں ان کی حیثیت ''محاکمہ'' کی ہوتی ہے۔ قرآن و حدیث کا کچھ ارشاد ہو، ان کو اعتماد اپنے پیشوا پر رہتا ہے۔ جس کو وہ قبول کر لیں۔ اس کو وہ بھی آنکھوں پر رکھ لیں گے۔ ورنہ اس کو رو کر دیں گے۔

صدائے حق سے فرار:

حضرت نوح علیہ السلام جس قدر ان کو اپنی طرف بلاتے تھے۔ یہ لوگ اتنا ہی الٹا چلتے اور بھاگتے تھے۔ کانوں میں انگلیاں ٹھوس لیتے اور منہ چھپا کر کھسک جاتے تھے۔

﴿قَالَ رَبِّ اِنِّيْ دَعَوْتُ قَوْمِيْ لَيْلًا وَّنَهارًا فَلَمْ يَزِدْهمْ دُعَآئِيْ اِلَّا فِرَارًا وَاِنِّيْ كُلَّمَا دَعَوْتُهمْ لِتَغْفِرَ لَهمْ جَعَلُوْآ اَصَابِعَهمْ فِيْ اٰذَانِهمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا

(حضرت نوح نے) کہا الٰہی میں نے اپنی قوم کو رات کے وقت بھی پکارا اور دن کے وقت بھی (بلایا) تو میرے بلا نے کا ان پر یہ اثر ہوا کہ جتنا زیادہ بلایا اتنا ہی زیادہ بھاگے اور جب میں نے ان کو بلایا کہ (یہ تیری طرف رجوع ہوں اور) تو ان کے گناہ معاف فرمائے، انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھوس لیں اور (اوپر سے) اپنے کپڑے اوڑھ لیے (کہ ان کو میری صورت دکھائی نہ دے) اور ضد کی اور شیخی میں آکر اکڑ بیٹھے۔

یہ ذہینت کفار اور متکبرین میں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔ صدائے حق کے سامنے تن جاتے ہیں یا کوسوں دور بھاگنے کی کرتے ہیں۔ دوسرے مقام پر اسی ذہنیت کی یوں تصویر کھینچتی ہے:۔

﴿فَمَا لَهمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِيْنَ كَاَنَّهمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ

تو اب ان کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ نصیحت سے رو گردانی كرتے ہیں۔ گویا کہ وہ جنگلی گدھے ہیں (اور) شیر (کی صورت) سے بدک کر بھاگتے ہیں۔

گدھے کی فطرت ہے کہ اگر وہ وحشی اور جنگلی ہے تو وہ بدک کر بھاگے ا۔ اگر غیر وحشی اور پالتو ہے تو جب اس کو آگے کی طرف کھینچو گے تو وہ پیچھے کی طرف گرے گا۔ تن جائے گا۔ اکڑے گا۔ بعینہٖ یہی کیفیت ان کی ہے۔

مادہ پرستی:

مادیات سے بے نیازی ناممکن ہے۔ لیکن ایسا انہماک کہ ان کے پرے خدا بھی نظر نہ آئے۔ بہت بڑی کافری ہے۔ مگر آہ! قوم نوح بھی اسی خوف الذکر مرض میں مبتلا تھی۔ خود خانوادۂ نبوت کے چشم و چراغ (پسرِ نوح) نے اس میدان میں جو کردار پیش کیا وہ اس کی پوری پوری نشان دہی کرتا ہے۔

بد کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے بپھرا ہوا سیلاب بلا اور طوفان اُٹھا اور خدا کا غضب بن کر ساری آبادی پر چھا گیا۔ مگر افسوس! اس وقت بھی اس کی نگاہ مادی وسائل پر ہی لگی رہی اور اپنے شفیق باپ نبی کو یہ کورا سا جواب دے ڈالا۔

﴿وَهيَ تَجْرِيْ بهمْ فِيْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادٰي نُوْحُ نِ ابْنَه وَ كَانَ فِيْ مَعْزِلٍ يّٰبُنيَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَلَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِيْنَ قَالَ سَاٰوِيْٓ اِلٰي جَبَلٍ يَّعْصِمُنِيْ مِنَ الْمَآءِ ط قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ ط وَحَالَ بَيْنَهمُ الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ

اور کشتی ان کو پہاڑ جیسی موجوں میں لیے جار ہی تھی اور (حضرت) نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ ان سے الگ تھا کہ بیٹا! ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دے۔ وہ بولا کہ میں کسی پہاڑ کی پناہ لے لونگا۔ (حضرت) نوح نے کہا آج اللہ کے قہر سے کوئی بچانے والا نہیں مگر جس پر وہ خود مہربانی کرے اور باپ بیٹے یہ باتیں کر رہے تھے کہ) دونوں کے درمیان میں ایک موج آ حائل ہوئی (اور) دوسروں کے ساتھ اس کو بھی غرق کر دیا گیا۔

یہ حادثہ بے خبری میں پیش نہیں آیا تھا بلکہ مدتوں پہلے علاقہ بھر میں اس کی دھوم تھی۔ مگر آہ! جب اللہ کے قہر کی بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے ان کو نظر آئے۔ اس وقت بھی انہوں نے مادی وسائل پر تکیہ کیا۔ اور حق مثال نے ان کفار کے سلسلہ میں جس مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ وہ بات آخر سچی ہو کر رہی۔

دیوانگی اور سادہ لوحی کا الزام:

ہر داعیٔ حق اور اہلِ بصیرت پر فساق اور ددشمنانِ عقل نے، پاگل پن، سادہ لوحی اور دیوانگی کا الزام لگایا ہے کہ یہ پچھلے وقتوں کے لوگ ہیں۔ ان کو موجودہ پیچیدگیوں اور جدید تقاضوں کا کیا پتہ؟ بہرحال یہ الزام حضرت نوح علیہ السلام پر بھی لگایا گیا، کہا:۔

﴿اِنْ هوَ اِلَّا رَجُلٌ بِه جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوْا بِه حَتّٰي حِيْنٍ

ہو نہ ہو بس یہ ایک آدمی ہے جس کو جنون ہو گيا ہے۔ سو ايك وقت (خاص) تک اس (کے انجام) کا انتظار کرو۔

ان کی ان گستاخانہ حرکتوں کو دیکھ کر آپ کے دل سے ہوک اُٹھتی ہے اور بے ساختہ ان کی زبان سے یہ فریاد نکل جاتی ہے:۔

﴿رَبِّ انْصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ الٰہی انہوں نے مجھے جھٹلا دیا ہے (اب) تو ہی میری مدد فرما۔ (باقی آئندہ)