محدث کا نیا سال

ماضی کا جائزہ اور مستقبل کا عزمِ صمیم

الحمد للہ ''محدث'' کا پہلا سال بخیر و خوبی ختم ہوا۔ اور زیر نظر شمارے سے بفضلہٖ تعالیٰ ہم دُوسرے سال میں قدم رکھ رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس عرصہ میں ہمیں توقع سے بڑھ کر کامیابی حاصل ہوئی اور ''محدث''مقبولِ عام ہوا۔ یہ سب کچھ اللہ ارحم الراحمین کے رحم و کرم سے ہے جس نے ہمیں نامساعد حالات میں اپنے تبلیغی فریضہ کی ادائیگی کی توفیق دی اور مشکل اور کٹھن حالات میں اسے جاری رکھنے کی ہمت عطا فرمائی۔ ہمیں اپنی قابلیت اور وسائل کے متعلق نہ تو پہلے کوئی خوش فہمی تھی اور نہ ہم اب کسی خود فریبی کا شکار بننا چاہتے ہیں۔ اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی کے مکمل اعتراف کے ساتھ مستقبل کے لئے عزمِ صمیم رکھتے ہوئے اپنی ساری امیدیں اللہ احکم الحٰکمین کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں۔ ھو مولٰکم، نعم المولی، ونعم النصیر۔

اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل کے ساتھ بزرگوں، دوستوں اور دینی حلقوں کی طرف سے مخلصانہ دعائیں، تحسین و تبریک، مفید مشورے اور بے لاگ تبصرے ہمارے لئے حوصلہ افزاء اور بہترین معاون بنے۔ اہل علم و اہل قلم حضرات نے اپنی قیمتی نگارشات سے ''محدث'' کو مزین فرمایا، اور احباب نے خود خریداری قبول کر کے اور دوسروں کو ترغیب دے کر اس دینی رسالے کی توسیع اشاعت میں حصہ لیا۔ ایجنٹ حضرات نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون فرما کر اپنے ملی و دینی جذبہ کا اظہار فرمایا۔ ہم سب کے تہہ دِل سے شکر گزار ہیں۔

ہمارے لئے یہ بات مسرت افزاء ہے کہ اس کارِ خیر میں دوسرے احباب کی طرح صحافتی برادری نے بھی ہماری مدد فرمائی اور اس سلسلہ میں جہاں اپنے مؤقر جرائد و رسائل میں ''محدث'' پر تبصرے فرما کر اسے اپنے حلقوں میں متعارف کرایا، وہاں اس کے ادارتی مقالات، مجلس التحریر اور قلمی معاونین کی علمی نگارشات کو اپنے مجلات میں شائع فرما کر دوسروں تک ہماری آواز پہنچائی۔

خوش کن ہے یہ امر کہ جس طرح ''محدث'' کا خیر مقدم ان معاصرین نے خندہ پیشانی سے کیا جو اندازِ نظر اور طرزِ فکر میں ہمارے ساتھ موافقت رکھتے ہیں اسی طرح دوسرے مکتابِ فکر نے بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ بلکہ تحقیقی اور اصلاحی سلسلہ میں ہمارے منصفانہ اور معتدلانہ طرزِ عمل کی داد دی، اس سے ہمارے ان عزائم کو تقویت ملی جن کا اظہار ہم نے ''محدث'' کے اجراء کے وقت پہلے اداریہ میں کیا تھا۔ مختلف جرائد و رسائل نے ''محدث''پر اپنی جن قیمتی آراء کا اظہار فرمایا ہے اسے ''محدث''میں بھی شائع کیا جا رہا ہے اور تین چار قسطوں میں یہ سلسلہ ختم ہو گا۔ توضیح کے لئے بعض کے آخر میں ادارتی نوٹ بھی دے یئے گئے ہیں۔ جن پرچوں نے ہمارے بعض مضامین پسند فرما کر ان کی اشاعت فرمائی، ان میں ہفت روزہ ''المنبر'' لائل پور، ہفت روزہ ''رضا کار'' لاہور، ماہنامہ ''نارانؔ'' کراچی اور ماہنامہ ''الجامعہ'' ضلع جھنگ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ہم اپنے جملہ بہی خواہوں اور صحافتی برادری کا پرزور شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جزاھم اللہ عنا وعن سائر المسلمین خیرًا

مذکورہ بالا حوصلہ افزاء امور نے بلاشبہ ہمیں اعتماد اور یقین کی دولت سے مالا مال کیا ہے، تاہم ان کی وجہ سے ہم اپنی ان مشکلات کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ جو ابتدائی مراحل میں اکثر رسائل کو پیش آتی ہیں۔

کسی رسالے کے اجراء میں جو چیز سب سے پہلے سامنے آتی ہے وہ مالی اور انتظامی مشکلات ہیں۔ اس کے لئے کافی سے زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاوقتیکہ اس کی خریداری اس حد تک بڑھ جائے کہ وہ اپنا بوجھ خود برداشت کر سکے لیکن موجودہ لا دینیت اور الحاد کے دور میں ایک دینی پرچہ کے لئے فوری طور پر یہ ناممکن ہے کیونکہ اکثر لوگوں کی دلچسپیاں ناولوں، افسانوں اور جنسی کہانیوں تک محدود ہیں۔ دینی رسالوں کی خریداری عموماً وہی لوگ گوارا کرتے ہیں جو اپنے دل میں اسلام کی محبت اور اس کے مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں۔ لیکن اولاً تو ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے،ثانیاً ایسے لوگ عموماً غریب طبقہ سے متعلق ہوتے ہیں اور یا پھر دینی مدارس کے وہ طلباء جو کورس کی کتابوں کے ساتھ ساتھ نان شبینہ کے بھی محتاج ہوتے ہیں، لہٰذا وہ معمولی قیمت کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ اور اکثر پرچہ رعایتی یا غریب فنڈ سے مانگتے ہیں۔

مالی مشکلات کا واحد حل اشتہارات ہیں، لیکن سرکاری اشتہارات تو دور کی بات ہے۔ دوسرے کاروباری ادارے بھی اپنے تعلقات اور ذاتی اغراض کے تحت اشتہارات دیتے ہیں اور یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ اصلاحی رسائل ان ''ذاتی اغراض'' کو پورا کرنے میں کہاں تک ممد و معاون ہو سکتے ہیں؟

دوسری بڑی چیز جو اس باب میں گراں بہا بوجھ ہے وہ کاغذ کی بڑھتی ہوئی گرانی، اور طباعت کے ناقابل ذکر اخراجات ہیں جو ہر پرچے کو خواہ وہ قرآن و سنت کا ترجمان ہو یا کوئی فلمی رسالہ ہو یکساں ادا کرنے پڑتے ہیں۔ جبکہ ان کے حلقہ معاونین اور طلبگاروں میں از حد تفاوت ہے۔

تیسری بڑی مشکل یہ ہے کہ محدث کے علاوہ اس کے متعلقہ اداروں مجلس التحقیق الاسلامی اور مدرسہ رحمانیہ کا بوجھ بھی ذمہ دارانِ محدث کے کندھوں پر ہے اور ظاہر ہے کہ اتنا بوجھ کسی فرد واحد یا خاندان کے لئے برداشت کرنا ناممکن نہیں و مشکل ضرور ہے، خصوصاً ان حالات میں جبکہ اپنی مصروفیات کے پیش نظر ہمارے لئے اپنے احباب اور اصحاب ثروت سے رابطہ قائم کرنا بھی آسان نہیں جو شاید اس سلسلہ میں کسی بخل سے کام نہ لیں۔

بہر صورت ان نامساعد حالات کے باوجود ہم محدث کی کامیابی کے لئے اپنے پورے وسائل بروئے کار لانے کا عزمِ صمیم رکھتے ہیں اور احباب سے اس کی توسیع اشاعت میں بہترین تعاون کے طلبگار ہیں۔ واللہ الموفق۔

٭ عناد اور تعصب قوم کے لئے زہرِ ہلاہل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن عصبات سے بالا تر رہ کر افہام و تفہیم امت کے لئے باعثِ رحمت ہے۔

٭ علومِ جدیدہ سے ناواقفیت اور انکارِ انسانی ارتقاء کو تسلیم کرنے میں بخل کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن قدیم علومِ اسلامیہ کو فرسودہ قرار دینا اور مذہبی روایات کے حاملین کو دقیانوس بتانا امت کی تباہی کا سبب ہے۔

٭ غیر مذاہب کے بارے میں معاندانہ رویہ اختیار کرنا اسلامی اقدار کے منافی ہے۔ لیکن دینِ اسلام پر غیر مذاہب کے حملوں کا دفاع نہ کرنا اور اسلام کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام نہ دینا، حمیت دینی اور غیرتِ اسلامی سے یکسر انحراف ہے۔

٭ تبلیغِ دین اور نشر و اشاعتِ اسلام میں حکمتِ عملی کو نظر انداز کر دینا مصالح دینیہ کے خلاف ہے۔ لیکن حرام و حلال کے امتیاز میں رواداری برتنا اور قوانین و مسائلِ اسلامیہ کو نرم کر دینا اسلامی روح کو کمزور کر دنے کے مترادف ہے۔

٭ دین اور آئین و سنت سے بیگانہ ہو کر سیاست میں غرق ہو جانا مادہ پرستی ہے۔ لیکن ؎
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

٭ جاہل کو دور ہی سے سلام کر دینا عباد صالحین کے اوصاف میں داخل ہے۔ لیکن جاہلیت کو مٹانا اور باطل کا تعاقب کرنا عین جہاد ہے۔

اگر آپ ایسا منصفانہ اور معتدلانہ رویہ پسند کرتے ہیں تو

محدث

کا مطالعہ فرمائیے۔ آپ اس کو ان جملہ صفات و محاسن سے مزین پائیں گے۔ ان شاء اللہ! کیونکہ اس کے مضامین اسی مخصوص طرزِ فکر کے حامل ہوتے ہیں۔