'اسلامی بینکاری؛ میزانِ شریعت میں !'

'المدینہ اسلامک ریسرچ سنٹر'کے زیر اہتمام منعقدہ سیمی نار کی سفارشات

دنیا کے گلوبل ولیج بننے سے معیشت، تجارت اور معاہدات میں پیدا ہونے والی نت نئی صورتوں کی شرعی حیثیت کا جائزہ لینے، عوام الناس کو جدید معاشی مسائل سے متعلق شرعی آگاہی دینے ، خصوصاً اسلامی بینکنگ میں رائج مرابحہ ، مشارکہ اور مضاربہ وغیرہ کی شرعی حیثیت جاننے،ان مسائل کا شرعی متبادل پیش کرنے اورملکی معیشت کو شرعی خطوط پر استوار کرنے کے لئے،'المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر، کراچی 'کی جانب سے ایک سیمی ناربعنوان 'اسلامی بینکاری شرعی میزان میں' منعقد کیا گیا جس میں ملک کے مایہ ناز علما و ماہرین معیشت نے خطاب کیااورمتعلقہ موضوعات پر اپنے اپنے علمی مقالہ جات پیش کئے ۔ سیمینار میں کثیر تعداد میں علما و مفتیانِ کرام ،اسلامی بینکاری سے متعلقہ شخصیات، سرمایہ داران اوراعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ و پروفیسرزاورطلبہ نے شرکت کی۔

سیمینار کے آخر میں مروّجہ اسلامی بینکاری کے نظام میں اصلاحات اور صحیح اسلامی بینکاری کے قیام کے لیے علماے کرام کی بیان کردہ تجاویز کی روشنی میں اہم سفارشات پیش کی گئیں جو درج ذیل موضوعات کے تحت بیان کی جارہی ہیں:

1. تمہید

2. مروّجہ اسلامی بینکنگ میں موجود شرعی قباحتیں

3. صحیح اسلامی بینکاری کے لئے بنیادی تجاویز

4. دیگر عمومی سفارشات

1۔تمہید

سودی نظام پر مبنی نظام بینکاری یقیناً کسی بھی معاشرے اور اس کی اقتصاد و تجارت کے لئے زہر ہلاہل جبکہ اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کھلا اعلانِ جنگ ہے ، جو کسی بھی معاشرہ خصوصاً مسلم معاشرہ کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں ۔ ایک مسلمان چاہے عالم ہو یا تاجر یا کوئی اور حیثیت رکھتا ہو ، اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زندگی کے تمام پہلؤوں پر عموماً اور اپنی آمدن وتجارت پر خصوصاً اسلامی مالیاتی اُصول ومبادی کے عملی نفاذ وتطبیق کے لئے سرگرداں رہے۔سودی بینکاری کے بالمقابل اسلامی بینکاری کا رواج و تنفیذ بھی یقیناً اسی سوچ کی عکاس اور لائق تحسین ہے ۔ سودی بینکاری کی انتہائی پختہ و مضبوط عمارت اورنظام سے ہٹ کر خالصتاً اسلامی بنیادوں پر قائم بینکاری نظام کا قیام یقیناً انتہائی دشوار گزار ہے جس کے لئے جدوجہد کرنے والے تمام علما اور کاروباری حضرات لائق تعریف ہیں۔

یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ بینکاری نظام کا تعلق ایسے جدید معاشی مسائل سے ہے جس میں اجتہاد کا عنصر زیادہ ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ بینکاری انتہائی دقیق اور حساس مسائل پر محیط ایک نظام ہے، اور چونکہ اسلامی بینکاری، سودی نظام بینکاری کو ہی اسلامی مالیاتی نظام کے سانچہ میں ڈھالنے کی کاوش ہے تو اسے شریعتِ اسلامیہ کے مطابق قرار دینے سے پہلے دو پہلؤوں سے اس کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے:

1۔فقہی اجتہادات : اسلام کے فقہی وشرعی ذخیرے میں جن اُصولی بیوع پر اسلامی بینکاری کے معاملات کو قیاس کیا گیا ہے، کیا ان اُصولی بیوع اور اسلامی بینکاری کے لئے مجوزہ نظام میں مطابقت بھی ہے یا نہیں ؟ اور کیا ان اُصولی بیوع کی شرعی قیود و شرائط کا اسلامی بینکاری میں خیال رکھا گیا ہے یا نہیں؟ مثال کے طور پر اسلامی بینک کےبچت کھاتہ (Saving Account) کو شرعی مضاربہ پر قیاس کیا جاتا ہے تو فقہی حوالہ سے اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ کیا بچت کھاتہ کا نظام اور اس کی تمام قیود و شرائط شرعی مضاربہ کے مطابق ہیں یا نہیں؟

2۔عملی تطبیق: یعنی علما نے بحث و تمحیص و اجتہادات کے ذریعے اسلامی بینکاری کے لئے جو اصولی ونظریاتی نظام تجویز کیا ہے تو عملی تطبیق کے حوالے سے اس کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے کہ اسلامی بینکوں میں عملی طور پر جو معاہدات وقوع پذیر ہوتے ہیں، وہ اسلامی بینکاری کے لئے مجوزہ نظام سے حقیقی مطابقت بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟ان تمام معاہدات کی ہر شق اور ہر شرط کی نہایت باریک بینی سے جانچ پڑتال انتہائی ضروری ہے ؛ کیونکہ بسا اوقات ایک شرط پورے معاہدے کو حرام صورت میں بدل دیتی ہے ، اور بسا اوقات معاہدے میں عملی لحاظ سے معمولی سی تبدیلی پورے معاملہ کو سودی معاملہ کی شکل دے دیتی ہے۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی مالی معاہدہ کا اصولی اور نظری ڈھانچہ اور خاکہ بالکل درست شرعی نظام پر مبنی ہوتا ہے لیکن عملاً بنکوں میں اس شرعی طریقہ کار کو صحیح طریقہ اور حقیقی روح کے مطابق زیر عمل لایا نہیں جارہا ہوتا۔

الغرض اسلامی بینکوں میں موجود شرعی خامیوں کی نشاندہی سے یہ مراد نہیں کہ اسلام میں بینکوں کی سرے سے گنجائش نہیں، یا یہ کہ ہم سودی بینکوں کو رواج دینے اور تقویت دینے کے قائل اور داعی ہیں۔مقصد صرف اصلاح ہے کہ اچھے نعرے کے ساتھ جو قدم اُٹھایا گیا ،اس کا خیر وحق پر ہونا یقینی بنایا جائے اور اس میں جو خامیاں ہیں اُنہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے، خصوصاً ایسی خامیاں جو اسلامی بینکوں اور سودی بینکوں کے درمیانی فرق کو صرف نام کی حد تک ہی برقرار رکھیں اور اسلامی نظام معیشت کی سنہری خصوصیات و فوائد معاشرے تک منتقل نہ ہوسکیں ، ان کی اصلاح کی طرف فوری اور مؤثر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

2۔مروّجہ اسلامی بینکنگ میں موجود شرعی قباحتیں

1. شرعی قباحتوں کے بیان میں واضح رہنا چاہئے کہ ان سفارشات میں علماے کرام اور بینکار حضرات ہی کو مخاطب کیا گیا ہے جو کہ ان معاہدات کی تفاصیل سے باخبر ہیں، اسی لئے ان سفارشات کو احاطہ تحریر میں لاتے ہوئے اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ تفصیل کے طالب افراد 'المدینہ اسلامک سنٹر' اور اس موضوع پر لکھی جانے والی کتب کی طرف رجوع کریں۔

2. مزید برآں یہ بھی یاد رہے کہ ان سفارشات میں مروجہ اسلامی بینکوں کے صرف ان معاملات کا احاطہ اور تجزیہ کیا گیا ہے جو اساسی یا اکثریتی ہیں ، یعنی بینک زیادہ تر وہی معاملات کرتے ہیں۔ اقلیتی یا ثانوی نوعیت کے معاملات کو طوالت کے خدشہ کے پیش نظر ترک کیا گیاہے۔

1) مضاربہ

مروّجہ اسلامی بینکوں میں رائج مضاربہ، شرعی مضاربہ کے اُصولوں پر پورا نہیں اترتاجس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں:

3. ڈیپازیٹر جو کہ ربّ المال ہے، اسے اس کے سرمایہ سے جو کاروبار کیا جارہا ہے ،اعتماد میں نہ لیا جانا ۔

4. بینک کے منافع میں یک طرفہ بڑھوتی اور حقوق سے یک طرفہ استفادہ۔یعنی مجموعی منافع میں اضافہ ہونے کے باوجود ربّ المال کے منافع میں اسی تناسب سے اضافہ نہ ہونا ۔ مضارب ہونے کی حیثیت سے بنک کا اپنے حقوق سے بھرپور استفادہ کرنا اور ڈپازیٹر کے ربّ المال ہونے کی حیثیت سے اس کے حقوق سے یکسر انکار کرنا۔

5. مضاربہ کے مال کو تجارت کے بجائے صرف تمویل(Financing) میں استعمال کیا جانا۔ جبکہ شرعاً مضاربہ کے مال کو صرف تجارت میں استعمال کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ کسی اور مقصد میں اس کا استعمال جائزنہیں۔

6. ڈیپازیٹر کے سرمائے کو کم اہمیت (Weightage) دینا۔بینک اپنے سرمایہ کو زیادہ وزن دیتا ہے جبکہ اس کا سرمایہ ڈیپازٹر کے مجموعی سرمایہ سے بہت کم ہوتا ہے، اور ڈیپازٹر کے سرمایہ کو کم وزن دیتا ہے۔

7. یاد رہے کہ منافع میں ویٹ (Weightage) دینے کے لئے ڈیپازٹر کے سرمایہ کی کمی بیشی اور مدت کو معیار مقرر کرنا بھی اسے سودی معاملہ کے مشابہ کردیتا ہے۔

8. مضاربہ کی ابتدا میں منافع کی تقسیم کے لئے فیصدی تناسب طے نہ کرنا۔ بلکہ مضاربہ شروع ہونے کے ایک مہینہ یا کچھ عرصہ بعد بینک منافع کے فیصدی تناسب کااعلان کرتا ہے۔جبکہ شرعی مضاربہ کے لئے ضروری ہے کہ مضاربہ کی ابتدا سے ہی منافع کا فیصدی تناسب طے کر لیا جائے۔

9. رب المال کے اختیارات کو سلب کرنا : بینک کے فارم پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ بینک جو بھی منافع طے کرے گا ،صارف کے لئے اس کو قبول کرنا ضروری ہے ، اور وہ اس میں کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔

جب کہ شریعت نے ربّ المال (ڈیپازٹر) کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ مضارب (بینک) سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ اس کا مال کہاں صرف ہورہا ہے ، اسی طرح منافع کی تقسیم کے فیصلہ میں بھی ربّ المال کا شامل ہونا ضروری ہے ۔

2) مُشارکہ

اسلامی بینکوں میں مشارکہ کی بنیاد پر کوئی اکاونٹ نہیں کھولا جاتا ، بلکہ محض سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے ۔ یہ غیر شرعی مشارکہ ہے کیونکہ :

10. Depositor جو کہ مشارکہ میں فریق ہے، اسے سرے سے بینک کی شراکت کی مالیت کا علم ہی نہیں ہوتا۔جبکہ اسلامی مشارکہ میں لازم ہوتا ہے کہ فریقین کو ایک دوسرے کے سرمائے کا علم ہونا چاہئے ۔

11. مروّجہ اسلامی بینکوں میں مشارکہ کی صورت میں ظلم کو رواج دیا جاتا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ مضاربہ کی طرح مشارکہ میں بھی ڈیپازیٹر کے انفرادی سرمائے کو کم ویٹ دیا جاتا ہے اور بینک اپنے سرمایہ کا ویٹ زیادہ رکھتا ہے ۔

3)مشارکہ متناقصہ (Diminishing Musharaka)

یہ ایک معاہدہ میں دو معاہدے ہیں ، یعنی مشارکہ کا معاہدہ پھر اسی معاہدہ میں اس کے تناقص (diminish) کا معاہدہ۔

12. بینک کی طرف سے یہ وعدہ لینا کہ گاہک اس چیز میں بینک کے شیئرز اقساط میں بینک سے خریدے گا ، یہ شرط اس مشارکہ میں بینک کے سرمایہ اور منافع کی ضمانت ہے ، اور مشارکہ میں سرمایہ کی ضمانت اس مشارکہ کو سود ی معاملہ میں تبدیل کردیتی ہے۔

13. اقساط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں صدقہ کی شرط لگائی جاتی ہے جو دراصل تاخیر میں جرمانہ ہے جو کہ حرام اور سود ہے۔

4) مرابحہ

مروّجہ اسلامی بینکوں کے نظام میں رائج مرابحہ، عام شرعی مرابحہ نہیں بلکہ مرابحة للآمر بالشرآء ہوتا ہے، یعنی گاہک کے مطالبہ پر بینک اس کے لئے مطلوبہ سامان خریدتا ہے اور اپنا منافع متعین کر کے اقساط میں گاہک کو بیچتا ہے۔

مروّجہ مرابحہ میں شرعی قباحتیں یہ ہیں کہ

14. عام شرعی مرابحہ ایک تجارتی معاہدہ ہوتا ہے جبکہ مروجہ مرابحہ محض تمویل (financing) ہے۔

15. بینک خریدار سے وعدہ لیتا ہے کہ جب بینک گاہک کا مطلوبہ سامان خرید لے گا تو گاہک اس سے لازماً یہ سامان خریدے گا۔ یہ وعدہ بذاتِ خود ایک معاہدہ کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ پھر اس میں بیع مالایملك کی قباحت آجاتی ہے یعنی ایسی چیز کو بیچنا جس کا وہ مالک نہ ہو۔

16. بینک مطلوبہ سامان کی خریداری میں اسی گاہک کو اپنا وکیل بناتا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے ، اور یہ قرض دے کر اُس پر سود لینے کی صورت بن جاتی ہے۔

17. مروّجہ مرابحہ میں منافع کا تعین شرح سود سے کیا جاتا ہے جوکہ LIBOR یاKIBOR کے ذریعہ متعین کی جاتی ہے ۔کائبر یا لائبر سے مراد وہ اوسط شرح سود ہے جس پر کراچی یا لاہور میں بنک آپس میں سودی لین دین کرتے ہیں۔ منافع میں شرح سودکو معیار مقرر کرنا اس معاملہ کو مشکوک بناتا ہے ۔

18. ادائیگی اقساط میں تاخیر میں صدقہ کو واجب قرار دینے کا جرمانہ دراصل سود ہے۔

19. مرابحہ کی بعض صورتوں میں التورّق المنظم پایا جاتا ہے جو بالاتفاق حرام اور سودی حیلہ ہے۔

5) اجارہ

اسلامی بینکوں میں جو اجارہ کیا جاتا ہے وہ الإجارة المنتهیة بالتملیك ہے، یعنی کرایہ کا معاہدہ اور پھر آخر میں اس چیز کی ملکیت کا تبادلہ، جو کہ اسی ایک معاہدہ کے ذریعے ہوتا ہے ، یا اس مدت کے اختتام پر ایک نمائشی قیمت یا پھر ہدیہ کے ذریعے۔ واضح رہے کہ عقدِ اجارہ یعنی کرایہ کا معاہدہ دراصل اس کی صرف ظاہری صورت ہے ، حقیقت میں بینک اور گاہک دونوں کا مقصود اس چیز کی خرید و فروخت ہوتی ہے، اور یہ اُصول ہے کہ معاہدات میں مقاصد کو دیکھ کر حکم لگایا جاتا ہے نہ کہ ظاہری الفاظ کو دیکھ کر، لہٰذا اس معاہدہ پر بھی بیع کے احکامات لاگو ہوں گے نہ کہ کرایہ کے۔مروّجہ اجارہ میں شرعی قباحتیں درج ذیل ہیں:

20. عقد ِاجارہ کرتے وقت بینک کے پاس مطلوبہ چیز موجود نہیں ہوتی اور یہ بیع مالایملك ہے، جو کہ حرام ہے۔

21. اگر ایک ہی معاہدہ میں کرایہ اور ملکیت کا تبادلہ ہو تو یہ ایک معاہدہ میں دو معاہدے ہیں جو کہ حدیث کی رو سے حرام ہے۔

22. مروّجہ اجارہ چونکہ درحقیقت خرید و فروخت کا معاہدہ ہے، اس لئے بینک اس میں چیز کی قیمت جمع منافع کو اقساط میں تقسیم کرتا ہے، پھر اسے کرایہ کی صورت میں وصول کرتا ہے، اور بینک اپنے منافع کو KIBOR یا LIBOR ...جو کہ شرح سود کے لئے Bench Mark ہے... کے ذریعہ متعین کرتا ہے۔شرح سود کو معیار مقرر کرنا مکمل معاملہ کو ہی مشکوک بناتا ہے۔

23. اجارہ میں بینک کا چیز کی ملکیت کو اپنے پاس رکھنا بھی جائز نہیں ، کیونکہ مروّجہ اجارہ کا معاہدہ درحقیقت بیع و شرا کا معاہدہ ہے جس میں بینک بائع ہے اور مستاجر(کرایہ دار) دراصل مشتری (خریدار) ہے ، اور چیز کی ملکیت مشتری کے پاس ہوتی ہے، نہ کہ بائع کے پاس۔

24.اجارہ کی مدت کے اختتام پر ہدیہ کا وعدہ بھی درست نہیں ، کیونکہ یہ عام ہدیہ نہیں بلکہ ہدیۃ الثواب ہے کیونکہ یہ ان اقساط کی ادائیگی کے عوض میں ہدیہ ہے جو گاہک نے بینک کو ادا کیں، اور ہدیۃ الثواب کا حکم بیع کاہی ہوتا ہے ، یعنی اجارہ کے معاہدہ میں ہدیہ کا وعدہ دراصل ایک معاہدہ میں دو معاہدے ہیں جو شرعی لحاظ سے جائز نہیں۔

25. اقساط کی ادائیگی میں تاخیر پر صدقہ بھی دراصل سود کے ہی نام کی تبدیلی ہے۔

3. صحیح اسلامی بینکاری کے لئے بنیادی تجاویز

1. موجودہ اسلامی بینک محض مالیاتی ادارہ ہےتجارتی نہیں ،لہٰذااسلامی بینک کو ایک حقیقی تجارتی ادارہ بنایا جائے ۔

2. شریعت میں محض تمویل پر بنا کسی مخاطرت (رسک ) کے فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں کیونکہ شرعی اُصول کے مطابق معاملات میں مقصد اور نیت کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے نہ کہ الفاظ کو ۔

3. اسلامی بینک کو مرابحہ اور اجارہ کو چھوڑ کر حقیقی مضاربہ و مشارکہ کی جانب آنا چاہئے، اور اپنا رسک قبول کرنا چاہئے ۔

4. مضاربہ کے لئے جمع ہونے والے سرمایہ کو صرف تجارت کے لئے استعمال کیا جائے، نہ کہ محض تمویل میں۔

5. اسلامی بینک کو حقیقی شرعی مضارب کا کردار اپناتے ہوئے ربّ المال کے اختیارات کو حیلے بہانے سے سلب نہیں کرنا چاہئے بلکہ ربّ المال کے شرعی اختیارات کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے معاملات کو واضح کرے۔

6. مضاربہ میں بینک کو جس نسبت (Ratio) سے منافع ہو، اسی نسبت سے رب المال (Depositors) کو بھی منافع میں شریک کرے۔

7. اقساط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں صدقہ کی شرط کسی بھی طرح جائز نہیں ، چاہے صدقہ کی رقوم کو بینک استعمال کرے یا خیراتی اداروں کو دے۔بلکہ اس کے بجائے تنگ دست کو مہلت دینے کے سنہرے شرعی اُصول کو اپنایا جائے۔

8. اگر بینک کو گاہک کی جانب سے جان بوجھ کر تاخیر کا خدشہ ہو تو رقم کی صورت میں جرمانہ کے بجائے کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے ۔ مثلاً گاڑی یا گھر یا کوئی اور چیز بیچتے وقت اس کی قیمت میں کچھ خدمات(Services) کے حوالہ سے بھی رقم وصول کی جائے اور قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں ان خدمات کو ختم یا کم یا مؤخر کردینے کی شرط عائد کی جاسکتی ہے۔

9. مرابحہ میں بینک اسی خریدار کو اپنا وکیل بنانے کے بجائے کسی اور کو اپنا وکیل مقرر کرے۔

10. مرابحہ میں التورق المنظم کی قباحت سے بچنا نہایت ضروری ہے۔

11. کسی بھی معاہدہ میں طرفین کی جانب سے کوئی وعدہ نہ کیا جائے ، اور اگر وعدہ یک طرفہ ہو یعنی صرف بینک یا صرف گاہک کی جانب سے تو اس وعدہ کے ایفا کو قانوناً لازم قرار نہ دیا جائے۔

12. إجاره المنتهیة بالتملیك کے بجائے اسلامی بینک بیع التقسیط کا فارمولا اختیار کرے تو زیادہ بہتر ہے ۔ اس صورت میں اسلامی بینک چیز کی ملکیت اگرچہ گاہک کو منتقل کرنے کا پابند ہوگا، لیکن یہ شرط عائد کی جاسکتی ہے کہ اس چیز کی ملکیت بینک اپنے پاس بطورِ رہن کے رکھے گا جب تک کہ خریدار چیز کی قیمت مکمل ادا نہ کردے۔بیع التقسیط میں چیز کے تلف ہوجانے یا نقصان کی صورت میں بینک ضامن بھی نہیں ہوگا۔اور بیع التقسیط کےذریعہ اسلامی بینک اجارہ کی دیگر شرعی قباحتوں سے بھی محفو ظ رہ سکتا ہے۔

13. اسلامی بینک اپنے تمام معاہدات میں کسی بھی طرح شرحِ سود کو ہر گز بطورِ معیار مقرر نہ کرے ۔

14. ایک معاہدہ میں دو معاہدوں کی قباحت سے بہر صور ت بچا جائے۔

4۔دیگر عمومی سفارشات

1. کسی بھی معاملے کو محض فروغ مل جانے سےاس کا شرعی جواز ثابت نہیں ہوتا لہذا مروجہ اسلامی بینکوں کے جواز كے لئے یہ دلیل دینا کسی طور بھی صحیح نہیں ۔

2. سودی قرض کو ختم کرنے کے لئے اور لوگوں کی معاونت کے لئے قرضہ حسنہ کے مواقع میسر کئے جانے چاہئیں ۔

3. مدارس ِ دینیہ میں بینکنگ اور معیشت کے معاملات کی تدریس کا اہتمام کیا جانا چاہئے ۔

4. عوام الناس کی آگاہی کے لئے اسلامی نظام معیشت کی خصوصیات وفوائد سے متعلق ورکشاپس کرائی جائیں ۔

5. علماےکرام سے خصوصی درخواست ہے کہ موجودہ نظام معیشت پر عرق ریزی سے تحقیق کی جائے اور اُمت کو ایک اتفاقی فتویٰ کی صورت میں زیر بحث مسئلہ کا حکم بتا یا جائے ۔

6. اسٹیٹ بینک سے مطالبہ ہے کہ ایسا نظام لایا جائے جس میں شرعی ایڈوائزر اسلامی بینک کا ملازم نہ رہے ۔

7. اسلامی بینکاری نظام کے ساتھ ساتھ سودی نظام بینکاری کو بطور متوازی نظام کے برقرار نہیں رکھنا چاہئے ، بلکہ ہر ممکن کوشش کی جائے کہ سودی نظام کو جلد از جلد ختم کر کے اسلامی نظام معیشت کی جانب پیش قدمی جاری رہے۔

8. اسلامی معاشی اصولوں کو رائج کرنے کی جانب پیش قدمی کرنا ضروری ہے ۔

9. اسلامی بینکاری نظام میں تبدیلی ضروری ہے، اسے شریعت کی روح کے مطابق ہونا چاہئے ۔

10. ملکی قوانین میں اسلامی قوانین کی غیر مشروط بالا دستی ہونی چاہئے ۔
نوٹ

بنکوں میں جاری مضاربہ میں پائی جانے والی شرعی خامیوں کی تفصیل محدث کے اسی شمارہ میں شائع شدہ مستقل مضمون میں ملاحظہ فرمائیں جو اسی سیمی نار میں پیش کیا گیا۔

تعريفه: "التورق المنظم الذي يجريه المتورق مع البنك الإسلامي هو طلب نقد حال مقابل نقد مؤجل أكثر منه بواسطة مجموعة عقود ووعود لم يقصد أي منها لذاته بل للحصول على هذا النقد العاجل مع التزامه بدفع أكثر منه في المستقبل"