اصلاحِ معاشرہ میں مسجد کا کردار

اسلام میں مسجد کو عبادت، تعلیم و تربیت، ثقافت اور تہذیب و تمدن کے اعتبار سے مرکزی مقام حاصل رہا ہے بلکہ مسلمانوں کی تمام سرگرمیوں کا مرکز و منبع مسجد ہی تھی۔ اسلام کی تعلیم کا آغاز مسجد سے ہوا۔ پیغمبر اسلام جناب محمدﷺ نے ہجرت فرمائی تو مدینہ سے باہر مسجد کی بنیاد رکھی جو سب سے پہلی مسجد ہے اور پھر مدینہ منورہ میں دوسری 'مسجدنبوی' بنائی۔ اس میں دینی اور دنیاوی تعلیمات کی شروعات کیں۔ اسی مسجدِ نبوی سے علم و عرفان، تہذیب و تمدن، اتحاد ویگانگت، اجتماعیت، مساوات واخوّت کے جذبات پروان چڑھے اور معاشرہ روز بروز منور ہوتا چلا گیا۔ پھر ایک غیر فانی اسلامی تہذیب وجود میں آئی کہ اس کے نقوش رہتی دنیا تک باقی رہیں گے۔ موجود ہ دور میں مسلمان معاشروں میں معاشرتی ، اخلاقی، سیاسی اور انتظامی بگاڑ عام ہوچکا ہے۔ اس کی ابتدا اُس وقت ہوگئی تھی جب مسلمان کا تعلق مسجد سے کمزور ہوا۔ آج اگر ہم آرزو مند ہیں کہ معاشرہ کی اصلاح ہو اور وہ امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے تو ہمیں مسجد کے اس بنیادی کردار کو فعّال کرنا ہوگا۔ ذیل میں اسی بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ اصلاحِ معاشرہ میں مسجد کا کردار کیا ہے؟

مسجد کی تعریف

مسجد عربی کے لفظ سَجد سے بنا ہے جس کے معنی خشوع و خضوع اور عاجزی سے سرجھکانا اور عبادت کے اِرادہ سے سر کو زمین پر رکھنا ہے۔ مسجد کا لفظ ظرفِ مکاں ہے جس کا مطلب ہے: سجدہ کرنے کی جگہ۔ اصطلاح میں اس سے مراد وہ مقام یا جگہ ہے جہاں مسلمان بغیر کسی رکاوٹ کے اللّٰہ کی عبادت اور بندگی کے لیے جاسکیں اور انفراداً یا اکٹھے ہوکر نماز ادا کرسکیں۔

مسجد ؛تاریخ کے آئینے میں

دنیا میں سب سے پہلی مسجد کعبہ شریف ہے جس کی بنیاد فرشتوں نے رکھی تھی۔ اس کے بعد حضرت آدم نے اس کی دیکھ بھال کی۔

حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ فرماتے ہیں :

'' جب اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو زمین پر اُتارا تو فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک گھر بھی بھیج رہا ہوں جس کا طواف میرے عرش کی طرح ہوگا اور اسکے ارد گرد اسی طرح نماز پڑھی جائے گی جس طرح میرے عرش کے پاس پڑھی جاتی ہے۔''

اور قرآنِ مجید نے اس بات کی شہادت یوں دی ہے:

﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيتٍ وُضِعَ لِلنّاسِ لَلَّذى بِبَكَّةَ مُبارَ‌كًا وَهُدًى لِلعـٰلَمينَ ﴿٩٦﴾... سورة آل عمران

''بلا شبہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنایا گیا، وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ یہ برکت والا اور جہانوں کے لیے ہدایت والا ہے۔''

مسجدِ حرام کے بعد دوسری بڑی 'مسجد اقصیٰ' ہے جسے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان نے بنایا تھا جس کا ذکر قرآنِ مجید اور دیگر آسمانی کتابوں کے علاوہ تاریخ کی کتابوں میں بھی ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد مدینہ منورہ میں اسلام کی اوّلین مساجد: قبا اور مسجدِ نبوی ہیں۔ ان دونوں کی بنیاد امام کائنات جناب رسول اللّٰہ ﷺ نے رکھی، پھر مساجد کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا۔امام ابوداؤد نے 'کتاب المراسیل' میں لکھا ہے کہ حضورﷺ کے زمانے میں مدینہ میں 9 اور مختلف قبائل میں 22 مساجد تھیں اور ان کے ناموں کی فہرست بھی ذکر کی ہے۔

مسلمان دنیا میں جہاں بھی گئے، مساجد بناتے گئے۔ مسلمان حکمرانوں نے بھی بڑی عظیم مساجد تعمیر کروائی ہیں۔ ہر دور میں مساجد مسلمانوں کی ثقافت اور فنونِ لطیفہ کا بے مثال نمونہ دکھائی دیتی ہیں۔ اب دنیا کے ہر گوشہ میں خوبصورت اور وسیع و عریض مساجد موجود ہیں۔ دنیا کی چند مشہور مساجد یہ ہیں:

1۔مسجد الحرام 2۔مسجد نبویﷺ 3۔جامع مسجد اُموی ،دمشق 4۔جامع مسجد قیروان 5۔جامع مسجد استنبول ،ترکی6۔شاہی مسجد، لاہور 7۔ فیصل مسجد ،اسلام آباد... اس کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں بھی بڑی عالی شان مساجد ہیں۔

مسجد کا ذکر؛ قرآنِ مجید میں

قرآن میں مسجد کا لفظ 28مرتبہ آیا ہے۔ قرآنی آیات میں سے چند درج ذیل ہیں:

﴿إِنَّما يَعمُرُ‌ مَسـٰجِدَ اللَّهِ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ وَأَقامَ الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَى الزَّكو‌ٰةَ وَلَم يَخشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسىٰ أُولـٰئِكَ أَن يَكونوا مِنَ المُهتَدينَ ﴿١٨﴾... سورة التوبة

''اللّٰہ کی مسجدوں کو آباد کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللّٰہ اور آخرت پر ایمان رکھتے، نماز قائم کرتے، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللّٰہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ہیں۔ یہی سیدھی راہ پر چلنے والے ہوتے ہیں۔''

﴿يـٰبَنى ءادَمَ خُذوا زينَتَكُم عِندَ كُلِّ مَسجِدٍ وَكُلوا وَاشرَ‌بوا وَلا تُسرِ‌فوا ۚ إِنَّهُ لا يُحِبُّ المُسرِ‌فينَ ﴿٣١﴾... سورة الاعراف

''اے اولادِآدم! ہر عبادت کے وقت مسجد کا رخ کرتے ہوئے اپنی زیب و زینت کو اپنا ؤ اور کھاؤ پیئو اور حد سے نہ بڑھو۔ بے شک اللّٰہ حد سے بڑھنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔''

مسجد ؛احادیث کی رُو سے

احادیث کی کتابوں میں مسجد کے متعلق بہت زیادہ روایات ہیں جس سے مسجد کی اہمیت، فضیلت اور مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں پچاس ابواب میں احادیث اور مسائل کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ چند روایات درج ذیل ہیں:

1. حضرت ابوسعید خدریؓ نے روایت کی ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:

«لا تشد الرحال إلا إلىٰ ثلاثة مساجد: مسجد الحرام ومسجد الأقصٰى ومسجدي هذا»

تین مسجدوں کے علاوہ کسی جگہ (ثواب کی نیت سے) سفر نہ کیا جائے: مسجد حرام (کعبہ شریف)، مسجدِ اقصیٰ اور میری مسجد ِنبوی''

2. عن أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ الله ﷺ قَالَ: «أَحَبُّ الْبِلاَدِ إِلَى الله مَسَاجِدُهَا وَأَبْغَضُ الْبِلاَدِ إِلَى الله أَسْوَاقُهَا»

''حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ کو سب سے پسند مقامات مسجدیں اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہ بازار ہیں۔''

3. عَنْ بُرَيْدَةَ عَنِ النَّبِىِّ ﷺ قَالَ: «بَشِّرِ الْمشَّائِينَ فِى الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»

''حضرت بریدہؓ نے کہا کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: جو اللّٰہ کے بندے اندھیرے میں مسجد جاتے ہیں،اُنہیں بشارت دے دو کہ قیامت کے دن ان کو اللّٰہ کی طرف سے نورِکامل عطا ہوگا۔ ''

مسجد کا کردار

اصلاحِ معاشرہ کے لیے مساجد کا نمایاں کردار درج ذیل پہلوؤں کا حامل ہے:

1۔روحانی تربیت میں کردار 2۔معاشرتی کردار 3۔مسجد اور تعمیر کردار

4۔ ثقافتی کردار 5۔معاشی اور مالی کردار

1۔ روحانی تربیت میں کردار

مسجد مسلمان کی روحانی تربیت میں مندرجہ ذیل صورتوں میں اپنا کردار ادا کرتی ہے:

ا۔ طہارت و صفائی : مسلمان جب نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کا رُخ کرتا ہے تو وہ اپنی طہارت کا اہتمام کرتا ہے۔ اگر غُسل واجب ہے تو غُسل کرتا ہے، ورنہ وضو کرتا ہے اور پھرکپڑوں کی صفائی کاجائزہ لیتا ہے کہ کہیں کوئی گندگی تو نہیں لگی ہوئی۔ ظاہری صفائی کے ساتھ وہ باطنی گندگی یعنی شرک، کینہ، حسد ، بغض وغیرہ سے بھی اپنے آپ کو بچاتا ہے۔

ب۔ توحید : نماز کی ادائیگی صرف اللّٰہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأَقِمِ الصَّلو‌ٰةَ لِذِكر‌ى ﴿١٤﴾... سورة طه ''نماز میری یاد کے لیے قائم کرو۔'' مسلمان جب نماز کے ترجمہ پر غور کرتا ہے تو عقیدہ توحید مزید پختہ ہوجاتا ہے۔

ج۔ تعلق باللّٰہ میں مضبوطی: مؤمن جب پانچ دفعہ مسجد میں جاکر اللّٰہ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے تو اس عمل سے مسلمان کا اللّٰہ سے تعلق مضبوط تر ہوجاتا ہے۔

د۔ فرائض کے ادا کرنے کا جذبہ: نما زجیسے اہم اور بنیادی فرض کی ادائیگی سے دوسرے تمام فرائض کو ادا کرنے کا جذبہ خود بخود پیدا ہوجاتا ہے۔

ر۔ روحانی قوت میں اضافہ: باجماعت نماز ادا کرنےسے روح کی تطہیر ہوجاتی ہے، کامل توجہ اللّٰہ کی طرف ہونے سے دل شیطانی وسوسوں اور خیالات سے پاک ہوجاتا ہے اور وہ اس عربی مقولہ کا مصداق بن جاتا ہے:

المؤمن في المسجد كالسمك في الماء       والمنافق في المسجد كالطير في القفس

'' مؤمن مسجد میں ایسے ہوتاہےجیسے مچھلی پانی میں اورمنافق مسجد میں ایسے ہوتا ہے جیسے پرندہ پنجرے میں ۔''

پھر آپﷺ نے نماز کی اس خوبی کو واضح کرتے ہوئے فرمایا : ''بلالؓ ہمیں نماز کے ذریعے راحت پہنچاؤ۔'' مساجد کا یہ کردار دنیا کی تمام عبادت گاہوں سے اعلیٰ اور پاکیزہ ہے۔ اس لیے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے سوا تمام دوسرے تصورات ، شخصیات اور محسوسات سے پاک و صاف ہوتا ہے۔

2۔ معاشرتی کردار

مسجد مسلم معاشرے کا مرکز و مرجع ہے، اس لیے بہت سے معاشرتی اُمور اس سے وابستہ ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:

ا۔ملّتِ واحدہ: مسلمان جب نماز کے لیے مسجد میں جاتا ہے تو اسے تمام مسلمان اسلام کے رشتہ اخوت سے جُڑے دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ مسجد میں ذات پات ، رنگ و نسل، علاقے اور ملک، امیر اور غریب میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا بلکہ بقول شاعر
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

ب۔ حقوق و فرائض : جب مسلمان مسجد میں اکٹھے ہوتے ہیں تو آپس میں تمام حقوق و فرائض اَدا ہوجاتے ہیں جیسے ایک دوسرے کو سلام و جواب کرنا، بیمار کی عیادت کرنا، باہم ایک دوسرے کا احترام اور حاجت مندوں کی مدد کرنا شامل ہے اس کے علاوہ دیگر حقوق العباد کا احساس بھی پیدا ہوجاتا ہے۔

ج۔ اجتماعی مسائل کا اِدراک : معاشرے میں مسجد کے ذریعے سے معاشرتی مسائل کا ادراک حاصل ہوتا ہے، مسجد میں وہ ایک دوسرے سے بلارکاوٹ ملتے ہیں اور درپیش مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ کوئی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کا ذکر تا ہے تو کوئی بدامنی، دہشت گردی کے ظلم وناانصافی کی بات کرتا ہے اور ایسے ہی انفرادی مسائل کا اندازہ بھی انکے ذریعے سے ہوتا ہے۔

3۔ مسجد اور تعمیر کردار

مسجد میں ہر طرح کے لوگ بو ڑھے جوان بچے آتے ہیں اور ایک دوسرے سے میل ملاقات ہوتی ہے تو ایک دوسرے کی اخلاقی حالت سامنے آتی رہتی ہے۔ مسجد میں پابندی کے ساتھ پانچ وقت حاضری دینے سے مؤمن کے اخلاق اور کردار کی تعمیر ہوتی ہے۔ تعمیر کردار میں مندرجہ ذیل باتیں نمایاں ہیں:

ا۔ پابندئ وقت اور وعدہ: نماز کو باقاعدگی سے وقت پر ادا کرنے سے انسان وقت کا پابند بن جاتا ہے اور وہ اپنے وعدہ کو پورا کرنے اور نبھانے کا شعور پاتا ہے۔ اگر انسان معاشرے میں ان باتوں کا عادی ہوجائے تو اس کے اثرات بہت اچھے ہوتے ہیں۔

ب۔ بے حیائی سے بچنا: نماز انسان کو بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ ﴾ مسجد میں انسان، جھوٹ، غیبت، دھوکا، ٹھگی، چغلی، رشوت، چوری اور بے حیائی وغیرہ سے جزوی طور پر رُک جاتا ہے اور آخرکار مکمّل طور پر ان معاشرتی برائیوں اور لعنتوں سے اپنے آپ کو بچانے کا عادی ہوجاتا ہے۔

ج۔ منشیات وغیرہ سے بچاؤ: آدابِ مسجد کو ملحوظ رکھ کر مسجد میں جانے والا اس تباہ کن عادت سے بچا رہتا ہے،کیونکہ نشہ اور حواس باختگی کے عالم میں اسلام نے نماز کی ادائیگی سے منع کیا ہے اس لیے نمازی منشیات اور نشہ آور اشیا سے بچتا ہے۔

4۔ ثقافتی کردار

مَساجد کا ایک کردار ثقافتی ہے۔ اسلامی ثقافت مسلمان کی زندگی کی عکاس ہوتی ہے اس سے مراد وہ اعمال و افعال ہیں جو اسلام کی آمد کے بعد وجود میں آئے اور ان کا تعلق مسجد سے ہے:

ا۔ خیرات : مسجد میں نمازِ جمعہ، رمضان المبارک اور عیدین کے موقع پر ، زکوٰۃ و صدقات اور خیرات دینے کا جذبہ مزید بڑھ جاتا ہے جس سے بہت سے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔

ب۔ اسلامی وضع قطع: مسلمان جب بھی مسجد کا رُخ کرتا ہے تو وہ اپنے لباس، وضع قطع اور دیگر اُمور کا اہتمام ضرور کرتا ہے، اس طرح مسلمانوں کی ایک ثقافت باقی رہتی ہے جو صرف مسجد کی بدولت ہے۔

ج۔ ملاقات کے آداب: مسلمان جب مسجد میں جمع ہوتے ہیں تو ایک دوسرے سے مصافحہ اور معانقہ ضرور کرتے ہیں، خاص طور پر عیدین اور جمعہ کےموقع پر تو ناراض لوگ بھی آپس میں شیروشکر ہوجاتے اورایک دوسرے کو عیدین کی مبارک باد دیتے ہیں جو معاشرے میں نفرتوں کےخاتمہ کا ذریعہ ہے۔

د۔ مسجد اور تعلیم: مسجدایک ایسا ادارہ ہے جو تعلیم و تربیت میں بنیادی اور اہم کردار کا حامل ہے۔ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ پہلی تین صدیوں میں مسجد ہی وہ درسگاہ تھی کہ تمام علوم و فنون اس میں پڑھائے جاتے تھے اور سب سے پہلے درس گاہ 'اصحابِ صفہ 'کے نام سے مسجد نبویﷺ میں قائم ہوئی تھی۔ مسجد میں درسِ قرآن و حدیث کے ساتھ فقہ کے مسائل بیان کرنے کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ علم و عرفان کا بہت سا حصّہ مسلمان مسجد سے ہی سیکھتے ہیں اور ایک زمانے میں پاکستان میں مسجد ِسکول کا قیام بھی ہوا تھا جو بعض علاقوں میں آج تک چل رہا ہے۔

5۔ معاشی اور مالی کردار

مسجد ہی معاشرے کے تمام اسلامی اور فی سبیل اللّٰہ مالی معاملات کا مرکز ہوتی ہے۔ تمام فنڈز اور چندے مسجد میں جمع اور تقسیم ہوتے تھے مثلاً جہاد فنڈ، زکوٰۃ، صدقات و خیرات وغیرہ وغیرہ۔ یہ نظام مسجد سے وابستہ رہا ہے اور آج بھی اسے جاندار بنایا جاسکتا ہے۔

مسجد کے کردار کو ختم کرنے کی کوششیں

مسجد دعوت و تبلیغ کا مرکز اور اسلامی معاشرے کا محور رہی ہے۔ مسجد ہی مسلمانوں کی ظاہری، باطنی اور مادی آبیاری اصلاح کرتی رہی۔ نبی اکرمﷺ کے زمانے سے لے کر خلفا اور بعد کے دور میں بھی ایسا ہی کردار ادا کرتی رہی۔ دشمنوں نے اس کی اہمیت ، مرکزیت اور ہمہ گیریت کو سمجھ کر اس کے خلاف گہری اور پوشیدہ سازشیں شروع کردی تاکہ اس کے کردار کو ختم یا کم از کم کمزور ضرور کردیا جائے۔

مسجد کے کردار کو مسخ کرنے والے عزائم دبیز اور رنگین پردوں میں چھپے ہوئے ہیں جن کا ادراک ضروری ہے مسجد کے کردار کو ختم یا کم کرنے والے اسباب دو طرح کے ہیں:

1۔ اندرونی 2۔ بیرونی

1۔ اندرونی اسباب

اس سے مراد وہ اندرونی عوامل ہیں جومسلمانوں کے اندر پائے جاتے ہیں جنہوں نے مسجد کے مقام، مقصد اور اہم پیغام کا گلا دبا دیا ہے۔ چند درج ذیل ہیں:

1۔ فرقہ پرستی اور مسلک پرستی: فرقہ واریت سے اُمّت مسلمہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور اتحاد پارہ پارہ ہے۔مذہبی گروہ بندی اور مسلک پرستی نے تباہی مچادی ہے، جب سےمسلمان تقسیم ہوئے ہیں تو ہر ایک فرقہ کی الگ مسجد ہے جہاں مخصوص سوچ و فکر اور مسلک کا پرچار کیاجاتا ہے۔ دوسروں کے خلاف منبر و محراب سےزہر اُگلا جاتا اوراُنہیں کافر دائرہ اسلام سے خارج اور واجب القتل قرار دیا جاتا ہے اوراس تعصّب کےنتیجہ میں مسلم معاشرہ بے چینی اوربربادی کا شکار ہوچکا ہے۔

2۔ خطیبوں اور اماموں کا منفی رول: مسجدوں میں مقررکئے جانے والے امام و خطیب زیادہ تر کم تعلیم یافتہ اور خاص مسلک کے پیروکار ہوتے ہیں جو مثبت رول کی بجائے منفی ادا کرتے ہیں، وہ اصلاح کے بجائے بگاڑ اور انتشار پیداکرتے ہیں، اس لیےمعاشرہ علم و عرفان اور دین سےبیزار ہوتا جارہا ہے ۔ خطبا کی تقریریں غیر معیاری اور نامناسب ہوتی ہیں، اکثر من گھڑت موضوع واقعات و روایات بیان کرتے ہیں۔ اختلافی مسائل کو ہوا دےکر نفرت کا بیج بوتے ہیں۔اس صورتحال میں خصوصی اصلاح اور توجہ کی ضرورت ہے۔

3۔ مساجد کمائی کاذریعہ : مساجد کو دنیا کمانے کاذریعہ بنا لیاگیا ہے جس سے اس کامرتبہ کم ہوگیا اور تاریخی مساجد کو آثارِ قدیمہ قرار دے کر سیرگاہ کا درجہ دے دیا گیا اور اس پر ٹکٹ مقرر کرکے کمائی کی جاتی ہے جوغیر موزوں ہے۔

4۔ عربی زبان سے دوری: تعلیمی پالیسی سازوں نے عربی زبان سے ناطہ توڑ کر بھی مسجد کے کردار کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اسلام کا زیادہ تر لٹریچر عربی زبان میں ہے۔ جس کو سمجھنے کیلئے عربی زبان کا فہم ضروری ہے اور مسجد کا اس میں اہم رول ہے کہ عربی زبان کی ترویج ہو۔

5۔مسجد اور مقبرہ : مسجد مقبرہ جات کو یکجا کرکے اس کے روشن کردار کو بے نور کردیا گیا ہے جس سے دعوتی و اصلاحی عمل رک گیا ۔ اللّٰہ پرستی کی جگہ قبر پرستی و دیگر خرافات نے لے لی ۔

6۔مادہ پرستی اور دنیا داری: مسلمانوں میں دولت اور دنیا داری کی ہوس عام ہوچکی ہے۔ معاشرہ کا ہر فرد دولت جمع کرنے میں عظمت اور اپنی توقیر خیال کررہا ہے اور وہ ارب پتی بن کر بھی اپنے آپ کو کنگال تصور کرتا ہے اور ہر جائز و ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھی کرنے کی فکر میں ہے۔ روحانیت اور آخرت کا خیال اس کے دل سے نکل چکا ہے۔ مسجد کے کردار کو نقصان دینے والے اندرونی اسباب میں یہ بھی ایک سبب ہے۔

2۔ بیرونی اسباب

مسجد کے مرکزی کردار کے خلاف بیرونی اسباب بہت زیادہ ہیں جن کا احاطہ ناممکن ہے مگر جزوی طو رپر ان کے ذکر سے مخالفین کی سوچ اور فکر کا اندازہ ضرور کیا جاسکتا ہے۔ مسجد کے خلاف سازشیں اور پروگرام بنانے والے چند مخالفین یہ ہیں:

ا۔ عیسائی : تاریخ اسلام میں مسجد کی عظمت اور مرکزیت کے خلاف سب سے پہلا پروگرام مسجدِ ضرار کی صورت میں سامنے آیا جو قبیلہ خزرج کے ابوعامر نامی شخص جو عیسائی بن گیا تھا، کے مشورہ سے منافقین مدینہ نے بنائی تھی اور ان کے مذموم اور ناپاک مقاصد کا ذکر اللّٰہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:

‌﴿لا تَقُم فيهِ أَبَدًا ۚ لَمَسجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقوىٰ مِن أَوَّلِ يَومٍ أَحَقُّ أَن تَقومَ فيهِ ۚ فيهِ رِ‌جالٌ يُحِبّونَ أَن يَتَطَهَّر‌وا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ المُطَّهِّر‌ينَ ١٠٨﴾... سورة التوبة

اس آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا کہ کچھ لوگوں نے ایک مسجد بنائی اس مقصد کے لیے کہ دعوتِ حق کو نقصان پہنچایا جائے اور اللّٰہ کی بندگی کی بجائے کفر کریں اور مؤمنوں میں پھوٹ اور خلفشار پھیلائیں اور اس عبادت گاہ کو اس شخص کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے اللّٰہ اور اُس کے رسولﷺ کے خلاف اُٹھ چکا ہے۔ وہ ضرور قسم کھا کر کہیں گے کہ ہمارا ارادہ صرف بھلائی کا ہے مگر اللّٰہ گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں، تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا۔

مسجد ضرار کے تین اہم مقاصد

1. کفر و شرک اور گمراہی پھیلانے کے لیے ایک اڈا بنانا۔

2. مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دینا اور انتشار پھیلانا۔

3. شرپسند اور سازشی ٹولے کو مذہبی لبادے میں پناہ دینا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ہلاکو خان کو مسلمانوں کے خلاف اُکسانے میں اہم کردار عیسائیوں اور نصرانیوں کا ہے اور اسے تین چیزوں سے سخت نفرت تھی:

1. کتابوں سے... اس لیے وہ ساری کتب دریاؤں میں پھینکتا رہا۔

2. مساجد سے... جنہیں وہ گراتا گیا۔

3. پکی عمارتوں سے... وہ اُنہیں بھی برباد کرتا رہا۔

آخری صلیبی جنگ (1609ء) میں مسلمانوں پر پابندیاں لگانے پرختم ہوئی۔ ان میں سے مساجد کو بند کرنا، انہیں گرجا گھروں میں تبدیل کرنا ، اسپینی لباس پہننا، غسل کی ممانعت وغیرہ شامل تھا۔ الجزائر میں بھی بہت سی مساجد کو عیسائیوں نے اپنی عبادت گاہوں میں تبدیل کردیا اور ہزاروں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا۔ ان کا یہ کردار اس وقت ظاہر ہوا جب انہوں نے 1632ء میں الجزائر پر قبضہ کیا۔

ب۔ یہود : یہودیوں کی اسلام دشمنی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے اور مذکورہ بالا مسجد ضرار یہودیوں اور عیسائیوں کی مشترکہ کاوش تھی۔ یہودیوں نے تحویل قبلہ کےموقع پر پروپیگنڈہ کیا اور مسلمانوں کے دلو ں میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہودیوں نے ہمیشہ مسجدوں کی بے حرمتی کی اور مسلسل مساجد کے خلاف ان کی ناپاک سازشیں جاری رہی کیونکہ یہ مسلم معاشرے کا محور تھی۔آج کے دور میں مسجدِ اقصیٰ کےساتھ یہودی جو کچھ کررہے ہیں ، اس سے ان کی مساجد دشمنی بالکل ظاہر وباہر ہوجاتی ہے۔

ج۔ کمیونسٹ اورمسجد: کمیونسٹ اور سوشلسٹ انقلاب کی تباہ کاریوں کا شکار مسلمانوں کی مساجد، مدارس اور اسلامی تہذیب و تمدن ہوئی۔ روس میں 1912ء میں 26275 مساجد تھی جو 1942ء میں صرف 1312 باقی رہی اور 1964ء تک یہ تعداد 250 رہ گئی۔ ایک سروے کے مطابق مسجدوں کی ویرانی، بربادی اور انہدام کچھ یوں تھا:

1. وسطی ایشیا اور ترکستان میں چودہ ہزار مساجد ختم کی گئیں۔

2. آذربائیجان میں چار ہزار اور جنوبی ایشیا میں سات ہزار مساجد کو گرایا گیا۔

چین کے ثقافتی انقلاب میں بھی مذہبی سرگرمیاں ممنوع قرار پائی اور مسجد اور دیگرمذاہب کی عبادت گاہوں کو بند کیا گیا یا اُن کو تباہ کردیا گیا۔ مذہبی کتابوں کوگھروں میں رکھنا بھی جرم قرار پایا۔

د۔ ہندو، سکھ اور مساجد: انتہا پسند اور متعصّب ہندو اور سکھ کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے بھی شعائر اسلامیہ کے خلاف سنگین معاندانہ رویہ اپناے رکھا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہزاروں مساجد کو گرایا ،جلایا گیا یا جانوروں کے باڑے میں تبدیل کردیا گیا اور بابری مسجد کی شہادت ہندوؤں کے خبثِ باطن کو واضح کردیتی ہے۔ سکھوں نے بھی مساجد کی بے حرمتی کی اور ہمیشہ مسجد دشمنی میں پیش پیش رہے۔

ر۔ بہائی اور قادیانی: بہائی اور قادیانی مذہب کے پیروکاروں نے یہود و نصاریٰ کا آلہ کار بن کر مسلمانوں کے عقائد اور ایمان کو متزلزل کیا۔ انتشار پیدا کیا اورمساجد کا استعمال کرکے سادہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور مسجد کے کردار کو مثبت کی بجائے منفی رنگ دے دیا ہے۔

یہ چند اندرونی و بیرونی اسباب ہیں جو مساجد کے کردار کوبے جان بنا رہے ہیں۔

موجودہ دور میں مسجد کے اصلاحی کردار کی بحالی کے لیے اقدامات اور تجاویز

دورِ حاضر میں ہماری اجتماعی زندگی کا شیرازہ بکھر چکا ہے جو اُمت مسلمہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ یہ اُمت واحدہ اب مختلف فرقوں، گروہوں، گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ مسلم معاشرہ بگاڑ، انتشار، خلفشار، گمراہ کن افکار، رذیلہ اخلاق و کردار کا بھیانک نمونہ پیش کررہا ہے۔ اخلاقی جرائم بے حیائی، فحاشی کا طوفانِ بدتمیزی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا ۔ معاشرے میں بے چینی، بدامنی، بے سکونی، وحشت و دہشت گردی عام ہے ۔ قتل و غارت، ڈاکہ زنی، رہزنی، بددیانتی، بدعہدی، رشوت، دھوکہ دہی، ملاوٹ، جھوٹ، فریب کا چلن ہے۔ان مفاسد کو ختم کرنےکے لئے ایسے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جوقرونِ اولیٰ میں کئے گئے تھے کہ جس کی بدولت وہ معاشرہ امن و سکون، محبت وآشتی اور خوشحالی کا ایسا بے مثال نمونہ بن گیا تھا کہ یمن کے دارالخلافہ صنعا سے ایک اکیلی عورت حج کے لیے تمام زیب و زینت اور زیورات پہن کر چلی تو مکّہ تک اس کی طرف کوئی نظر اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکا۔ وہ معاشرہ اس قدر مصلح، تربیت یافتہ اور خوشحال بن گیا تھا کہ لوگ زکوٰۃ دینے کے لیے نکلتے تھے کہ کوئی وصول کرنے والا مستحق نہیں ملتا تھا۔

کرنے کے کام

یقیناً اس دور کا آغاز مسجد کے ساتھ مضبوط تعلق سے ہوا تھا۔ آج اگر ہم اپنے بگڑے اور تباہ حال معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پھر سے معاشرے میں مسجد کی اجتماعیت، مرکزیت کا وہ مقام واپس لانا ہوگا اور یہ اقدامات کرنا ہوں گے:

1. مسجد کے ساتھ ربط

2. مسجد اور باہمی اُخوت و مساوات

3. مسجد تعلیمی و تربیتی ادارہ

4. مسجد اصلاحی ، رفاہی، اور اجتماعی فلاح و بہبود کا مرکز

5. دارالمطالعہ

6. امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی مساجد

1۔ مسجد کے ساتھ ربط

ہر مسلمان کومسجد کے ساتھ اپنے تعلق کو اس قدر مضبوط بنانا چاہیے کہ وہ نماز باجماعت ادا کرے اور انفرادی عبادت کا اہتمام بھی مسجد میں کرے۔ حدیث میں آیا ہے:

''اللّٰہ کی مسجدوں کو آباد کرنے والا اہل اللّٰہ ہیں۔ ''

حافظ ابن قیم نے کہا ہے کہ بلا شبہ مسجد میں جمع ہوکر نماز ادا کرنا دین کا بڑا شعار ہے اور اس کی علامتوں میں سے ہے۔''

مسجدکے ساتھ تعلق جوڑنے سے معاشرتی برائیوں سے خود بخود جان چھوٹ جاتی ہے کیونکہ نماز تمام بے حیائی اور نافرمانیوں سے روکتی ہے۔ دوسروں کوبھی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔

2۔ مسجد اور باہمی اخوت و مساوات

مسجد میں آنے سے باہمی تعلقات پختہ ہوتے ہیں اور اس کے ذریعے بہت ساری نفرتوں ، کدورتوں کا خاتمہ ہوتا ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں اخوت و مساوات، اُلفت و شفقت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ آج معاشرے میں جدید و قدیم جہالت کے جو فتنے ہیں ان کا علاج مسجد سے ممکن ہے کیونکہ :
تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے       بندہ و آقا ،محتاج و غنی سبھی ایک ہوئے

3۔ تعلیمی و تربیتی مرکز

مسجد مسلمانوں کے لیے تعلیم کا بہترین ادارہ ہے اسے تعلیم و تربیت کا مرکز بنا کر اُمّت کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دن میں پانچ دفعہ، ہفتہ میں ایک دفعہ ہر مسلمان حاضری خوشی سے دیتا ہے۔ ہمارے علما و خطبا عزم کرلیں کہ ہمیں معاشرے کے افراد کی اصلاح کا کام تعلیم سے کرنا ہے تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس فریضہ کو یوں ادا کیا جاسکتا ہے:

ا۔ خطبہ جمعہ: جمعہ کے خطبہ میں جاندار اور مؤثر تقریر ہونی چاہیے۔ دین کے بنیادی عقائد، عبادت و معاملات اور اخلاقیات پر ترتیب سے خطبات دیئے جائیں۔ گفتگو عام فہم، جامع اور دلچسپ انداز میں کی جائے۔

ب۔ درسِ قرآن و حدیث: فرض نماز کی باجماعت ادائیگی کے بعد قرآن و حدیث کے درس کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔

ج۔ قرآن کی تعلیم: مسجد میں قرآن مجید، ناظرہ، حفظ اور ترجمہ کی کلاس کا اجرا کیا جائے اور اس کے لیے تربیت یافتہ مدرّسین مقرر کئے جائیں تاکہ وہ اپنے شاگردوں کی بہتر تعلیم و تربیت کرسکیں۔

د۔ تعلیم بالغاں: بوڑھے اور عمر رسیدہ یا نوجوان جو اَن پڑھ ہیں، ان کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرکے اُنہیں اسلام کی تعلیم دی جائے۔

ر۔ خطاب یا درس وغیرہ: گاہے بگاہے خصوصی موضوعات پر لیکچر کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ مختلف اصلاحی موضوعات کا انتخاب ضروری ہے۔

س ۔ مقابلے وغیرہ : علمی، تاریخی اور دیگر موضوعات پر تقریری، تحریری یا کوئز مقابلے نوجوانوں اور بچوں کے مابین منعقد کرنے چاہیے اور اُنہیں انعامات دینے چاہیے تاکہ ان کا رحجان مسجد کی طرف ہو۔

ش۔ کوچنگ کلاسز: سکول و کالج کے نادار طلبا کے لیے فری کوچنگ کلاسز کا انتظام کرنا چاہیے ساتھ ہی کوئی اصلاحی پروگرام ترتیب دینا چاہیے۔ تاکہ تعلیم کے ساتھ ان کی فکری اور اخلاقی اصلاح ہوسکے اور دعوتی اصلاحی گروپ تشکیل دے کر دوسروں کو مسجد آنے کی دعوت دینے کی ضرورت ہے اور مختلف موضوعات پر لٹریچر بھی مسجد انتظامیہ کو مہیا کرنا چاہیے۔

4۔ مسجد اصلاحی، رفاہی اور اجتماعی فلاح و بہبود کا مرکز

مسجد نہ صرف عبادت کی جگہ ہے بلکہ اصلاحی ، رفاہی اور فلاح و بہبود کا مرکز بھی ہے۔ اس لیے اس کی اس حیثیت کو مزید مضبوط اور بہتر کیا جائے اوراس کے رول کو پھر سے بحال کیا جائے۔ روزمرہ کے معاملات کے لیے درج ذیل انتظامات کیے جائیں:

ا۔ ایمبولینس سروس    ب۔ فری ڈسپنسری

ج۔ لوکل عدالت او رپنچائت کمیٹی     د۔ مہمان خانہ کا قیام

5۔ دارالمطالعہ

مسجد میں مناسب لائبریری ہونی چاہیے اور کتب بینی کے لیے بھی پرسکون ماحول مہیا کیا جانا چاہیے۔ مطالعہ کے لیے جدید رسائل و اخبارات اور نئی چھپنے والی کتابیں بھی مہیا ہونی چاہیے، اس لائبریری میں کمپیوٹر او رانٹرنیٹ کی سہولت بھی ہو تاکہ اسلام پر ہونے والی ریسرچ کا مطالعہ ومشاہدہ ہوسکے۔

6۔ امریکہ ، برطانیہ او ریورپ کی مساجد

امریکہ و برطانیہ اور یورپ میں مساجد جدید سنٹر کی شکل میں بنائی گئی ہیں اور وہاں معاشرتی زندگی کی تمام ضروریات اور تقاضے پورے کرنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ روحانی، مادی، مالی اور دیگر پروگرام بھی مساجد کے ساتھ ملحق ہوتے ہیں، اس لیے وہ مسلمان ممالک کی بنسبت زیادہ فعال اورجاندار کردار ادا کررہی ہیں۔ وہاں غیر مسلموں او رمسلمانوں کے شبہات اور سوالات کا شافی جواب دینے کےلئے انتظام ہوتا ہے،وہاں مساجد میں ابتدائی تعلیم کی سہولت بھی ہے بچوں اور بڑوں کیلئے تفریح کے مواقع بھی ہیں، وہاں اضافی طور پر درج ذیل مراعات کا انتظام ہوتا ہے:

ا۔ شام کا اصلاحی سکول : شام کا سکول اہم ادارہ ہے جو نئی نسل کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ یورپ کے معاشرے اور نظام زندگی اپنانے والے اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ ادارے مسلمان بچوں اور بڑوں کو ان کی شناخت، ثقافت، مذہب، روایات زندہ رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں ۔قرآن کی تعلیم کے ساتھ عربی اور اُردو کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

ب۔ بوڑھوں کے لئے مرکز : یورپ میں خاندانی نظام نہیں ہے۔ بڑھاپے میں لوگ بے سہارا او ربے آسرا ہوتے ہیں۔ ان عمر رسیدہ لوگوں کے لیے مساجد ایک عظیم پناہ گاہ کا درجہ رکھتی ہیں یہ ادارے ان کی دیکھ بھال کا فرض بھی ادا کررہے ہیں۔

ج۔ مکتبہ اور دارالمطالعہ : ان مساجد میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ہر طرح کا لٹریچر مہیا کیا جاتا ہے۔ پڑھنے والوں کے لیے مختلف زبانوں میں کتابیں، رسائل اور اخبارات ہوتے ہیں۔

د۔ دیگر سرگرمیاں: مساجد میں بڑے بڑے اجتماعات اور دیگر پروگرام ہوتے ہیں خصوصاً رمضان المبارک میں مسلمان مرد اور عورتیں بچے مل کر اجتماعی افطاریاں کرتے ہیں۔ عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں سب کے لیے دلچسپی کے مواقع الگ الگ مہیا کئے جاتے ہیں۔

خلاصہ

اسلامی معاشرے میں مساجد کا کردار نمایاں اور عیاں ہے۔ آج کل کے معاشرے میں انارکی او رافراتفری ہے۔ ہر طرح کے جرائم:معاشی ، معاشرتی، اخلاقی، جنسی عام ہورہے ہیں۔ انسانیت کا خون ارزاں ہے، شدت پسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت کی فضا قائم ہے۔ غربت و افلاس مسلمانوں کا مقدر بن گیا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں شہروں اور قصبوں میں لاکھوں مساجد ہیں مگر اُن سے اصلاحِ معاشرہ کا کام نہیں لیا جارہا۔ منبر و محراب سے اُٹھنے والی صدا کچھ اور ہے۔ آج کے اس پُرفتن دور میں ہمیں اصلاحِ معاشرہ کے لیے مسجد کے کردار کو پھر سے فعال بنانا ہوگا او ر اِنہی خطوط پر عمل پیرا ہونا ہوگا جنہیں اپنا کر عرب کے بدو دُنیا کے امام اور رہبر بن گئے۔
سبق پڑھ پھر صداقت کا ، عدالت کا،شجاعت کا            لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

حوالہ جات

بحوالہ اعلام المساجد باحکام المساجداز زجاج: ص27

تاریخ مکہ مکرّمہ از ڈاکٹر محمد الیاس

سورۃ آل عمران :96

سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی و سید سلیمان ندوی: جلد2

المعجم الفہرس لا لفاظ القرآن الکریم: ص 345

سورۃ التوبہ:18

سورۃالاعراف:31

صحیح بخاری:1197

صحیح مسلم:671

سنن ابو داؤد:165،جامع ترمذی:223وصححہ الالبانی

کشف الخفاء ومزیل الالباس از امام عجلونی :2689

تاریخ ابن خلدون

سورۃ التوبۃ:108

المسجد و نشاطہ الاجتماعی علی مدار التاریخ از عبید قاسم وشلی

جہاں دیدہ از مولانا تقی عثمانی، ص458

المسجد و نشاطہ الاجتماعی علی مدار التاریخ از عبداللّٰہ قاسم الوشلی، ص365 تا 398

تاریخ اسلام، مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی

کتاب الصلوٰۃ از امام ابن قیم ، ص105