شادی بیاہ کے رسوم ورواج

احادیثِ رسول ﷺکی روشنی میں

بارات اور جہیز کے علاوہ شادی کے رسوم ورواج میں جن فضولیات کا اہتمام ہوتا ہے، ان کی تفصیل کافی لمبی ہے اور نہایت ہوش ربا بھی۔چند سال قبل روزنامہ'جنگ ' کے ایک فیچر نگار نے ان تفصیلات پر مبنی ایک مفصل فیچر لکھا تھا جو راقم کی کتاب 'مسنون نکاح' مطبوعہ دارالسلام میں درج ہے ۔ قارئین اس کتاب میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ ص ی

شادی بیاہ کی بے ہودہ اور خلافِ شرع رسومات کے ارتکاب ، ان میں شرکت اور ان سے تعاون میں بڑے بڑے دین دار حضرات بھی کوئی تأمل نہیں کرتے۔ ایسے مداہنت پسند حضرات کے لیے چند احادیث مختصر مختصر تبصرے کے ساتھ پیش ہیں تاکہ ان کی روشنی میں اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لیا جا سکے۔

1. رسول اللّٰہﷺنے فرمایا:

«مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْهُ بِیَدِهِ، فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذٰلِكَ اَضْعَفُ الإِِیْمَانِ»

''تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اس کی برائی کا اظہار کرے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اس کو بُرا سمجھے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔''

وضاحت:مرد کو اللّٰہ تعالیٰ نے عورتوں پر قوام (حاکم ، نگران، سربراہ) بنایاہے، اس لیے ہر مرد فطری طور پر اپنے گھر کا سربراہ ہے۔ سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کے سارے افراد کو راہِ راست پر رکھے اور اس سے اُن کو منحرف نہ ہونے دے۔ اس خداداد مقام پر فائز مرد کے یہ شایانِ شان نہیں کہ وہ یہ کہے کہ شادی کی رسومات میں بیوی میری بات نہیں مانتی، بچے نہیں مانتے۔ یہ اس کے شیوۂ مردانگی کے بھی خلاف ہے اور یہ عذر بارگاہِ الٰہی میں ناقابل شنوائی بھی۔ علاوہ ازیں دنیاوی معاملات میں کیا کوئی مرد ایسی بے بسی کا مظاہرہ کرتا ہے؟ اگر ہانڈی میں نمک مرچ کم یا زیادہ ہو جائے تو دونوں صو رتوں میں عورت کی شامت آجاتی ہے۔ اس وقت تو عورت کی بے بسی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ مرد کی ناراضی پر چُوں بھی نہیں کرتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین ہی ایسا یتیم ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے اس کے ساتھ جو چاہے، سلوک کر لیں، مردوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

مذکورہ حدیث کی روشنی میں ہر مرد سوچ لے کہ منکرات سے یہ سمجھوتہ اس کو ایمان کی کس پستی میں دھکیل رہا ہے۔ أعاذنا اﷲ منه

2. حضرت ابن عمر سے مروی ہے، رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:

«أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ، فَالْأَمِیْر الّذِيْ عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعِ عَلى أَهْلِ بَیْتِهِ وَهُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْهُمْ، وَالْمَرْأةُ رَاعِیَةٌ عَلٰى بَیْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ، وَهِیَ مَسْئُوْلَةٌ عَنْهُمْ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلٰى مَالِ سَیِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْهُ، أَلَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رِعِیَّتِهِ»

''خبردار! تم سب کے سب نگران اور ذمے دار ہو اور تم سب سے اپنی اپنی رعیت (ماتحتوں) کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ حاکم وقت، لوگوں پر حکمران ، ذمے دار اور نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت (ملک کے عوام) کی بابت باز پرس ہو گی۔ مرد اپنے گھر والوں پر نگران ہے اور اس سے ان کی بابت پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے اور اس سے ان کی بابت باز پرس ہو گی، غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔ اچھی طرح سن لو! تم سب کے سب نگران اور ذمے دار ہو اور تم سب سے اپنے اپنے ماتحتوں (رعیت) کے بارے میں پوچھا جائے گا۔''

وضاحت: عربی زبان میں 'راعی' کا مطلب ہے: نگران اور ذمے دار، کس چیز کا؟ جو اس کے ماتحت ہے۔ وہ ان کی اصلاح کرنے ، ان کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کرنے اور ان کے دین و دنیا کی مصلحتوں کا خیال رکھنے کا ذمے دار ہے۔

مَسْئُوْلٌ کا مطلب ہے، اس سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا، باز پرس ہو گی، کس بات کی؟ اس بات کی کہ اس نے اپنے ماتحتوں کے حقوق کی رعایت کی؟ ان کی دینی و دنیاوی مصلحتوں کا خیال رکھا اور ان کی تعلیم و تربیت کا صحیح اہتمام کیا ؟

اس حدیث کی روشنی میں جائزہ لیا جائے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں اور شادی بیاہ میں ہونے والی خلافِ شرع رسومات و خرافات سے اپنے اپنے ماتحتوں کو بچانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے؟ اگر ادا کیا ہے تو وہ کیا ہے؟ ... ہر گھر کا سربراہ مرد اور عورت بھی اللّٰہ کی بارگاہ میں جانے سے پہلے آخرت کی باز پرس کو سامنے رکھے۔

3. حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اﷲعنہماسے مروی ہے، رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:

«اَبْغَضُ النَّاسِ اِلَى اللهِ ثَلَاثَةٌ: مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ، وَمُبْتَغِ فِي الْاِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ، وَمُطَّلِبٌ دَمَ امْرِیٍٔ بِغَیْرِ حَقٍّ لِیُهْرِیْقَ دَمَهُ»

''لوگوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ اللّٰہ کے ہاں تین شخص ہیں۔ ایک حرم میں بے دینی پھیلانے والا۔ دوسرا، اسلام میں جاہلیت کے طریقے تلاش (اختیار) کرنے والا، تیسرا، ناحق کسی شخص کے خون کا خواہاں، تاکہ وہ اس کا خون بہائے۔''

وضاحت: ہماری شادی بیاہوں کی بیشتر رسومات ہندوؤں کی نقالی پر مبنی ہیں یا مغرب کی حیا باختہ تہذیب اور زمانۂجاہلیت کی خرافات پر۔ گویا قدیم و جدید جاہلیت کا مجموعہ اور اسلامی تعلیمات سے یکسر بے اعتنائی کا نمونہ۔

اس انداز سے شادیاں کرنا، یا ان میں ذوق و شوق سے شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرنا، یہ اسلام میں جاہلی طریقوں ہی کو فروغ دینا ہے۔ ایسے لوگوں کا اللّٰہ کے ہاں کیا مقام ہے وہ اس حدیث کی دوسری شق سے واضح ہے۔ دنیا میں تو انسان کا ہوا و ہوس میں مبتلا نفس اور شیطان اس کا پتہ نہیں چلنے دیتا، لیکن آخرت میں تو ان کی کارفرمائی ختم ہو چکی ہو گی اور اللّٰہ کے ہاں اس کا وہ مقام واضح ہو کر سامنے آ جائے گا، جس کا ہیولیٰ اس نے اپنے عمل و کردار سے تیار کیا ہو گا اور وہ ہے، اللّٰہ کے ہاں ناپسندیدہ ترین شخص، اور اس روز ناپسندیدہ ترین شخص کا جو مقام ہو گا، اس کا اندازہ رسوماتِ جاہلیہ کے دل دادہ ہر مرد اور عورت کو کر لینا چاہیے۔

4. حضرت جریر سے روایت ہے، رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:

«مَنْ سَنَّ فِي الْاِسْلَام سُنَّةً حَسَنَةٌ فَلَهُ أَجْرُهَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَیْئًا وَمَنْ سَنَّ فِي الْاَسْلَامِ سُنَّةً سَیِّئَةً کَانَ عَلَیْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِه مِنْ غَیْرِِ اَنْ یُنْقُصَ مِنْ اَوْزَارِهِمْ شَيْء»

''جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا، تو اس کوخود اس پر عمل کرنے کا اجر بھی ملے گا اور اُن کا بھی اجر ملے گا جو اُس کے بعد اس پر عمل کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجروں میں کچھ کمی ہو اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ ایجاد کیا تو اس پر (اس کے اپنے عمل کا بھی) بوجھ ہو گا اور ان سب کے گناہوں کا بھی بوجھ ہو گا جو اس کے بعد اس برائی پر عمل کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے بوجھوں میں کوئی کمی ہو۔''

وضاحت: اس حدیث میں'اچھا طریقہ' نکالنے یا جاری کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی طرف سے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرے، کیونکہ یہ تو بدعت ہو گی جس کی بابت رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر بدعت گمراہی اور جہنم میں لے جانے والی ہے۔ بدعت سازی دراصل شریعت سازی ہے، جس کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ بلکہ اچھے طریقے سے مراد کسی ایسے عمل میں پہل کرنا ہے جو شریعت سے ثابت ہے یا کسی ایسی جگہ پر اس عمل شریعت کو سرانجام دینا ہے، جہاں پہلے لوگوں کو اس کا علم نہیں تھا یا خاندانی رسم و رواج کی وجہ سے اس پر عمل متروک تھا، اس کو کرنے پر دوسروں کو ترغیب ملی اور اُنہوں نے بھی اس کو اختیار کر لیا، یا کسی جگہ کوئی سنّت متروک تھی، کسی ایک شخص کے عمل کرنے پر دوسرے لوگوں نے بھی اس سنّت کو اپنا لیا۔ ان تمام صورتوں میں کسی بھی ثابت شدہ نیک عمل کا آغاز کرنے والے، سنت متروکہ کو زندہ کرنے والے اور فراموش شدہ نیکیوں کو یاد کرانے والے کو ان تمام لوگوں کے عمل کا بھی اجر ملے گا جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے۔ اسی طرح کسی نے اس کے برعکس برائی میں پہل کی یا اس کا کسی جگہ آغاز کیا تو بعد میں اس کو دیکھ کر برائی کے مرتکبین کے گناہوں کا بوجھ بھی اس پہل کرنے یا آغاز کرنے والے کو ملے گا۔

اس حدیث کی روشنی میں شادی بیاہوں کی جاہلانہ رسومات اور اسراف و تبذیر پر مبنی بھاری بھر کم اخراجات، سنتِ سیئہ (برا طریقہ) ہے۔ کسی خاندان میں اگر سادگی سے نکاح کرنے کا رواج تھا، رسومات سے بچا جاتا تھا۔ لیکن اس خاندان کے کسی فرد نے اگر دولت کے نشے میں اس کے برعکس مروّجہ رسومات کے ساتھ شادی کرنے میں پہل کی، یا اس خاندان میں مہندی کی بے حیائی پر مبنی رسم نہیں تھی، اُس نے اس خاندان میں اس کا آغاز کیا، پہلے مجرے کا سلسلہ نہیں تھا، اس نے اس کا ارتکاب کیا، وعلیٰ ہذا القیاس، اسی طرح کی دیگر برائیوں میں پہل کرتا ہے۔ تو اس کے بعد اس خاندان میں جتنے لوگ بھی ان میں ملوث ہوں گے، ان کا ارتکاب کریں گے، ان سب کے گناہوں کا بوجھ بھی اس پہل کرنیوالے کو ملے گا۔

اسی طرح شادی بیاہوں میں سادگی، پردے کی پابندی، بھاری بھر کم اخراجات سے اجتناب جیسی خوبیاں سنتِ حسنہ (اچھا طریقہ) ہے۔ جو شخص اپنے خاندان میں اس اچھے طریقے سے شادی کرنے میں پہل کرے گا، بعد میں اس خاندان کے جتنے لوگ اس کی پیروی کرتے ہوئے تمام خرافات و رسومات سے بچ کر شادیاں کریں گے، پہل کرنے والے کو بھی ان سب کی ان نیکیوں کا اجر ...ان کے اجروں میں کٹوتی کے بغیر... ملے گا۔

یہ دو راستے اور دو طریقے ہیں۔ ایک ڈھیروں اجر و ثواب کمانے کا اور دوسرا گناہوں کا ناقابل برداشت بوجھ اپنے اوپر لاد لینے کا ... :

﴿فَمَن شاءَ فَليُؤمِن وَمَن شاءَ فَليَكفُر‌ ۚ إِنّا أَعتَدنا لِلظّـٰلِمينَ نارً‌ا...﴿٢٩﴾... سورة الكهف

''اب جس کا جی چاہے، بھلائیوں والا راستہ اپنا لے اور جس کا جی چاہے دوسرا، لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ نافرمانی والا راستہ اختیار کرنیوالوں کیلیے جہنم کی آگ ہے۔''

5. حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے، رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:

«مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ فِي الدُّنْيَا أَلْبَسَهُ الله ثَوْبَ مَذَلَّةٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ أَلْهَبَ فِيهِ نَارًا»

''جس نے دنیا میں شہرت کا لباس پہنا، اللّٰہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن ذلّت کا لباس پہنائے گا، پھر اس میں جہنم کی آگ بھڑکائے گا۔''

وضاحت: اللّٰہ تعالیٰ نے اسباب و وسائل سے نوازا ہو تو اظہارِ نعمت کے طور پر اچھا اور عمدہ لباس پہننا جائز ہے۔ لیکن اس حدیث میں جس لباس شہرت کا ذکر ہے، وہ کون سا ممنوع لباس ہے؟ اس کی چار صورتیں ہیں:

اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ انسان اس نیت سے لباس فاخرہ پہنے کہ لوگوں میں اس کے لباس کا اور اس کی شان و شوکت کا چرچا ہو۔

دوسری صورت یہ ہے کہ عام چلن کے برعکس ایسے رنگ کا یا ایسی تراش خراش کا لباس پہنے کہ اس کی اس طرفہ طرازی کی وجہ سے اس کی شہرت ہو۔

تیسری صورت یہ ہے کہ ریاکاری کے طور پر فقرا و مساکین کے روپ میں رہے تاکہ لوگ اسے پارسا اور پرہیز گار سمجھیں۔

چوتھی صورت یہ ہے کہ محض نمودونمائش کی نیت سے کسی مخصوص قسم کے لوگوں کا لباس اور اُن کے طور اطوار اختیارکیے جائیں۔ جیسے آج کل بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں فلموں میں کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کے حیا باختہ لباسوں اور بے ہودہ طور اطوار کی نقالی کرتے ہیں۔

اور ایک پانچویں صورت یہ ہے کہ ایسا لباس پہنا جائے کہ لباس پہننے کے باوجود جسم کے نمایاں حصے عریاں ہو۔ اس صورت کی مزید تفصیل اگلی حدیث کے تحت آئے گی۔

شادی بیاہوں میں ہماری عورتوں کا لباس بالعموم،ایک تیسری صورت کو چھوڑ کر، باقی صورتوں کا مظہر ہوتا ہے۔ اس قسم کے لباسوں پر جو سخت وعید ہے، وہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ﴿ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ﴾ ''کیا کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا؟''

6. حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے، رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:

«صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا»

''جہنمیوں کی دو قسمیں ہیں، جنہیں میں نے نہیں دیکھا (ابھی ان کا وجود نہیں ہے، مستقبل میں ہو گا) ایک وہ لوگ کہ ان کے پاس کوڑے ہوں گے، گائے کی دموں جیسے، وہ ان سے لوگوں کو ماریں گے۔ (دوسری قسم) وہ عورتیں، جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹ کی کوہان کی طرح جھکے ہوں گے، یہ عورتیں جنّت میں نہیں جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو تک نہ پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو اتنی ا تنی مسافت (یعنی بڑی بڑی دور) سے سونگھی جا سکنے والی ہوگی۔''

وضاحت:یہ حدیث نبیﷺ کے معجزات اور اعلامِ نبوت میں سے ہے۔ آپ نے اس میں جن دو قسم کے لوگوں کی پیش گوئی فرمائی تھی، آج قدم قدم پر اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر عورت کی جن فتنہ سامانیوں اور حشر انگیزیوں کا اس میں تذکرہ ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں۔ ذیل میں اس کی کچھ توضیح کی جاتی ہے:

پہلی قسم سے ظالم قسم کے لوگ مراد ہیں، جو اپنے وسائل، طاقت و اقتدار اور جاہ و منصب کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کرتے ہیں۔ دنیا میں یہ لوگ طاقت کے نشے میں اندھے اور مغرور ہوتے ہیں اس لیے رحم و کرم کے بجائے ظلم وستم ان کا شعار ہوتا ہے۔ آخرت میں اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایسے لوگ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اعاذنا اﷲ

جہنمیوں کی دوسری قسم فیشن ایبل عورتوں کی ہوگی، ان کی حسبِ ذیل علامات اور خصوصیات ہوں گی:

1۔لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، اس کی تین شکلیں عام ہیں:

٭ لباس پہننے کے باوجود ان کے جسم کے بہت سے قابل ستر حصے ننگے ہوں گے، جیسے چہرہ، ہاتھ، یا بازو، گردن اور سینہ (چھاتی) اور گردن کا پچھلا حصہ۔ عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کے یہ حصے ننگے ہوتے ہیں حالانکہ یہ سب حصے پردے میں رہنے چاہئیں۔

٭ ایسا تنگ اور چست لباس پہنا جائے کہ جس سے جسم کے خدوخال ہی نہیں، انگ انگ نمایاں ہو۔

٭ یا ایسا باریک لباس پہنیں کہ جس سے سارا جسم جھلکتا نظر آئے اور اُن کی جلد کی رنگت اور اُن کا حسن نمایاں ہو۔

یہ تینوں صورتیں بے پردگی کی ہیں، جن سے مردوں کو دعوتِ نظارہ ملتی ہے۔ مسلمان خواتین کو جو پردے کی اہمیت کو سمجھتی ہیں، نامحرموں کے سامنے مذکورہ تینوں صورتوں سے بچنا چاہیے، اس کے بغیر پردے کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔

مُمِیْلَات کے كئی ایک معنی کیے گئے ہیں، دوسری عورتوں کو بھی مردوں کی طرف راغب کرنے والیاں، یا اپنے کندھوں کو نازو و اَدا سے مٹکا مٹکا کر چلنے والیاں۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی چال ڈھال یا ناز و اَدا سے مردوں کو اپنی طرف مائل کرنا اور دوسروں کو بھی بے حیائی کی اس راہ پر لگانا جیسے فلموں اور ڈراموں میں کام کرنے والی حیا باختہ عورتوں کا کردار ہے، اور شادی میں شرکت کرنے والی خواتین کا حال ہے کہ وہ بھی اس موقعے پر انہی کی نقالی کرتے ہوئے لباس، بناؤ سنگھار اور بے پردگی میں انہی کا نمونہ بننے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ مووی؍ فلم کے ذریعے سے پورے خاندان میں اُن کے حسن و جمال، ان کے لباس اور زیورات اور ان کے سولہ سنگھار کا تذکرہ ہو۔

مَائِلَات کے معنی ہیں: ناز و ادا سے ایسی چال چلنا جس سے لوگ ان کی طرف مائل اور راغب ہوں۔

4۔ بختی اونٹ کی مانند اُن کے سر ہوں گے، کا مطلب: سر پر جوڑا کر کے اُن کو سر کے درمیان اونچا کر کے باندھ لینا۔ یہ فیشن بھی چند سال قبل عورتوں میں عام تھا، اور اب بھی بہت سی عورتیں کرتی ہیں، حتیٰ کہ بعض برقع پوش خواتین کے سروں پر بھی اس طرح کی کلغی نظر آتی ہے۔ اس حدیث کی رو سے بالوں کا یہ اسٹائل یا فیشن بھی ناپسندید ہ ہے۔

7.« لَعَنَ الله الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوتَشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ الله فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ فَجَاءَتْ فَقَالَتْ: إِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ لَعَنْتَ كَيْتَ وَكَيْتَ فَقَالَ: وَمَا لِي أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ الله ﷺ وَمَنْ هُوَ فِي كِتَابِ الله فَقَالَتْ: لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ فَمَا وَجَدْتُ فِيهِ مَا تَقُولُ قَالَ: لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ أَمَا قَرَأْتِ» ﴿وَمَا آتَاكُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا﴾

حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود سے مروی ہے کہ ''اللّٰہ نے لعنت فرمائی، جسم گودنے والی اور گدوانے والی عورتوں پر، بال اُکھڑوانے والیوں پر، حسن کی خاطر، (دانتوں کے اندر) شگاف کرنے والیوں پر، اللّٰہ کی تخلیق کو بدلنے والیوں پر۔ اُمّ یعقوب (نامی عورت) نے کہا: اے (عبد اللّٰہ!) تم یہ کیا کہتے ہو؟ حضرت عبد اللّٰہ نے فرمایا: مجھے کیا ہے کہ میں اس پر لعنت نہ کروں جس پر اللّٰہ کے رسول نے لعنت کی ہے اور جو اللّٰہ کی کتاب میں لعنتی ہے؟ اس عورت نے کہا: اللّٰہ کی قسم! میں نے تو وہ سارا قرآن پڑھا ہے جو دو تختیوں کے درمیان ہے، اس میں تو میں نے یہ چیز (مذکورہ قسم کی عورتوں پر لعنت) نہیں پائی۔ عبد اللّٰہ بن مسعود نے فرمایا: اللّٰہ کی قسم! اگر تو اسے (صحیح سمجھ کر) پڑھتی تو یقینا تو اس میں یہ بات پاتی کہ ''اللّٰہ کے رسول تمہیں جو دیں اسے لے لو (اپنا لو) اور جس سے تمہیں روک دیں، اس سے رک جاؤ۔''

تشریح: وَاشِمَات، وَاشِمَة کی جمع ہے، وشم کرنے والی عورت۔ مُسْتَوْشِمَات، جمع ہے مُسْتُوْشِمَة کی، وشم کروانے والی عورت۔وشم کے معنی ہیں گودنا، جس کا مطلب ہے کہ جسم کے کسی حصے پر سوئی یا اسی قسم کی کسی چیز سے باریک سا سوراخ کرنا حتی کہ خون بہنا شروع ہو جائے، پھر اس میں سرمہ یا کوئی رنگ بھر دینا۔ عام طور پر چہرے یا ہاتھوں پر ایسا کیا جاتا تھا جیسے ہندو عورتیں پیشانی پر سیندور بھرتی یا بندیا لگاتی ہیں۔ گودنا بھی اسی قسم کا کوئی فیشن تھا جو زمانۂ جاہلیت میں عورتوں میں رائج تھا۔

مُتَنَمِّصَات، مُتَنَمِّصَة کی جمع ہے۔ حافظ ابن حجر﷫ کہتے ہیں:

''اس کے معنی ہیں، بال اُکھڑوانے والی عورت اور اُکھیڑنے والی عورت کو نَامِصَة کہا جاتا ہے (جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں) گویا مُتَنَمِّصَات وہ عورتیں ہیں جن کے چہروں یا اَبرؤں سے بال اُکھیڑے جائیں اور جو عورتیں یہ کام کریں گی، وہ نَامِصَة ہیں۔

یہ بھی اس زمانے کا ایک فیشن تھا کہ پلکوؤں (ابرؤں) اور چہرے کے اِکّے دُکّے بالوں کو اُکھیڑا جاتا تھا جیسے آج کل بھی یہ جاہلی فیشن عورتوں میں عام ہے كہ وہ ابروؤں کے بالوں کو اکھیڑ کر مختلف قسم کے چمکیلے رنگ یا سرمہ وغیرہ اس میں بھر لیتی ہیں۔ حدیث کی رو سے یہ سب لعنتی فعل ہیں۔ تاہم کسی عورت کے چہرے پر داڑھی یا مونچھیں اُگ آئیں تو چونکہ یہ معمول کے خلاف بات ہے، اس لیے ان بالوں کا صاف کرنا اس کے لیے جائز بلکہ مستحب ہے کیونکہ ان بالوں سے واقعی عورت کا چہرہ بدنما ہو جاتا ہے۔ اس بدنمائی کو دور کرنا اس کے لیے جائز اور مستحب ہے جب کہ پہلی قسم کا مطلب فیشن کے طور پر اللّٰہ کی پیدائش میں تبدیلی کرنا ہے جس کی اجازت نہیں ہے۔

مُتَفَلِّجَات، مُتفلّجة کی جمع ہے۔ یہ اس عورت کو کہا جاتا ہے جو' فَلَج' کرتی یا کرواتی ہے۔ فَلَج کے معنی ہیں: ثنائی یا رباعی دانتوں کے درمیان کشادگی کرنا۔ یہ وہ عورتیں کرتی تھیں جن کے دانت ملے ہوتے تھے اور وہ ایسا اپنے آپ کو کمسن یا خوب صورت ظاہر کرنے کے لیے کرتی تھیں، کیونکہ کمسن عورتوں کے دانتوں کے درمیان کچھ کشادگی ہوتی تھی جو ان کی کمسنی اور حسن کی علامت سمجھی جاتی تھی، اس لیے بڑی عمر کی عورتیں فَلَج کرکے اپنی عمر تھوڑی اور اپنے آپ کو حسین باور کراتی تھیں، جیسے آج کل بھی عورتوں میں یہ رحجان عام ہے اور اپنی عمر چھپانے کے لیے وہ دسیوں قسم کے فیشن اور میک اپ کرتی ہیں۔

مذکورہ سب کام ایسے ہیں جن پر لعنت فرمائی گئی ہے اور اس کی دو وجوہ ہیں:

ایک یہ کہ ان سب کاموں میں مقصد دھوکا اور فریب دینا ہے۔ دوسرے، ان میں اللّٰہ کی پیدائش میں تبدیلی کرنے کی مذموم سعی ہے۔

مذکورہ تفصیل سے حسب ذیل چیزیں واضح ہوتی ہیں:

عورت زیب و زینت اختیارتو کر سکتی ہے (گو اس کا اظہار صرف خاوند ومحارم کے سامنے جائز ہے) لیکن اپنے حسن و جمال میں اضافے کے لیے زیب و زینت کے ایسے طریقے اختیار نہیں کر سکتی جن میں دھوکہ اور فریب کا عنصر شامل ہو، یا ان میں اللّٰہ کی تخلیق میں تبدیلی کا اظہار ہو۔شادی بیاہوں کے موقعے پر عورتوں کی آرائش و زیبائش میں بالعموم یہ دونوں ہی پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔

ناجائز کام کرنے والے بیوٹی پارلروں کا کاروبار بھی حرام ہے

اس اعتبار سے بیوٹی پارلروں کے ذریعے سے عورتوں میں حسن و جمال اور آرائش و زیبائش کے جو طور طریقے سکھائے جا رہے ہیں اور عورتیں انہیں اختیار کر رہی ہیں، جیسے بالوں کے نئے نئے اسٹائل، بناؤ سنگھار کے ذریعے سے عورت کے حلیے کو بدل دینا، سیاہ فام کو سفید فام اور سفید فام کے رنگ و روغن کو مزید نکھار دینا، ابروؤں کے بالوں کو اکھیڑ کر ان میں سرمہ، روشنائی یا اور اسی قسم کی چیزیں بھرنا، یہ سب کام ممنوع اور حرام ہیں، کیونکہ انہیں لعنتی کام کہا گیا ہے۔ جن کے بارے میں اتنی سخت وعید ہو، ان کے جواز کی گنجائش کہاں نکل سکتی ہے؟ اب جس بیوٹی پارلر میں ایسے کام کئے جاتے ہیں جن کو زبان رسالت سے حرام قرار دیا جاچکا ہے تو اس طرح کے حرام کاموں کےارتکاب پر مبنی بیوٹی پارلر کا کاروبار بھی حرام ہے کیونکہ حرام کاموں کے کاروبار کی اجازت شرعاً ممنوع ہے۔ ایسے ہی جن اداروں میں ایسے حرام امور کی تربیت دی جاتی ہے، ان کی تعلیم وتربیت بھی ناجائز ہے ۔

8. ایک حدیث میں ہے:

«أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ يَا رَسُولَ الله إِنَّ لِي ضَرَّةً فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ إِنْ تَشَبَّعْتُ مِنْ زَوْجِي غَيْرَ الَّذِي يُعْطِينِي فَقَالَ رَسُولُ اللهﷺ: «الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ»

''ایک عورت نے کہا: اے اللّٰہ کے رسول! میری ایک سوکن ہے ، اگر میں اس کے سامنے کسی چیز کی بابت یہ ظاہر کروں کہ یہ مجھے میرے خاوند نے دی ہے جب کہ وہ چیز اُس نے مجھے نہ دی ہو، تو کیا اس سے مجھ پر گناہ ہو گا؟ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا: جو کوئی ایسے ظاہر کرے کہ یہ چیز، میری ہے (یا مجھے دی گئی ہے) حالانکہ (وہ اس کی نہ ہو) نہ اس کو دی گئی ہو، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مکروفریب کے دو کپڑے پہنے ہو۔''

وضاحت: اس حدیث سے جہاں یہ و اضح ہوتا ہے کہ ایک شخص کی دو بیویوں کو آپس میں ایک دوسرے کو جلانے کے لیے (سوکناپے میں) جھوٹ بول کر یہ تأثر دینا منع ہے کہ اس کا خاوند (دوسری بیوی کے مقابلے میں) اس پر زیادہ مہربان ہے اور اِس کو اُس نے فلاں چیز لا کردی ہے جب کہ خاوند کا کردار ایسا نامنصفانہ نہ ہو۔ اس ممانعت سے مقصود جہاں جھوٹی شان وشوکت کے اظہار سے روکنا ہے، وہاں آپس میں فساد اور بگاڑ کا سدباب بھی ہے۔

نبیﷺ نے اس ممانعت کو جس بلیغ طریقے اور ایک تمثیلی انداز سے بیان فرمایا ہے، اس نے اس ممانعت کے مفہوم میں بڑی وسعت پیدا کردی ہے جس نے مکر و فریب کی ساری صورتوں اور جھوٹے وقار کے سارے طور طریقوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔

ہماری شادی بیاہوں میں اس جھوٹے وقار کا بھی عام مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً کسی عورت کے پاس زیادہ زیور نہیں ہوتا تو وہ شادی میں شرکت کرنے کے لیے مانگے تانگے کا زیور پہن کر جھوٹے وقار (یعنی خلافِ واقعہ اپنی امارت) کا اظہار کرتی ہے۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ دلہن کو بھی مانگے تانگے کا زیور پہنا کر یہ غلط تأثر دیا جاتا ہے کہ لڑکے والوں نے دلہن کے لیے اتنا زیور تیار کیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا اور دو تین دن کے بعد وہ زیور دلہن سے لے کر اصل مالکوں کو دے دیا جاتا ہے۔ یہ جھوٹی کاروائی بھی فساد اور بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔

اور اب تو سونے کے بجائے مصنوعی زیورات نکل آئے ہیں جو دیکھنے میں بالکل سونے کے معلوم ہوتے ہیں اور ان کی مالیت چند سیکڑے ہوتی ہے جبکہ سونے کے اصل زیورات کی مالیت اب لاکھوں میں ہے۔ دھوکہ دہی کی یہ صورت بھی اب اختیار کی جانے لگی ہے، بعد میں جب حقیقت حال سامنے آتی ہے تو یہ ملمع سازی بھی فساد ہی کا باعث بنتی ہے۔

اس حدیث ِ رسول کی رو سے ملمع سازی اور فریب کاری کی ایسی ساری صورتیں ناروا قرار پاتی ہیں، مانگے تانگے کا زیور پہن یا پہنا کر جھوٹی شان و شوکت کا اظہار یا آرٹی فشل کے زیورات کا استعمال یہ باور کراکر کہ یہ سونے ہی کے زیورات ہیں۔ یہ سب ناجائز، ممنوع ہیں اور فساد و بگاڑ کا باعث ہیں۔

دکھلاوے اور نمودونمائش کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

مکروفریب کی یہ ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اس لیے کہ شادیوں میں دیگر بہت سی خرافات کے ساتھ ساتھ سونے کے زیورات کو بھی ایک لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے جب کہ ہماری شریعت میں ان رسومات، فضول خرچی، ناروا بوجھ اور نمودونمائش کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اس کا حل بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ شادی کے اخراجات سے سونے کے زیورات کو بھی یکسر خارج قرار دیا جائے۔

9. حضرت اُسامہ بن زید سے مروی ہے، رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:

«مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ»

''میں نے اپنے بعد ایسا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا، جو عورتوں سے زیادہ مردوں کے لیے نقصان دہ ہو۔''

وضاحت: یعنی مردوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا فتنہ ہو گا جو میرے بعد رونما ہو گا۔ حالانکہ عورت کا وجود انسان کے لیے راحت و آسائش اور امن و سکون کا باعث ہے۔اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمِن ءايـٰتِهِ أَن خَلَقَ لَكُم مِن أَنفُسِكُم أَزو‌ٰجًا لِتَسكُنوا إِلَيها وَجَعَلَ بَينَكُم مَوَدَّةً وَرَ‌حمَةً...﴿٢١﴾... سورة الروم

''اللّٰہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہارے ہی نفسوں (جنس) سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و رحمت پیدا کر دی۔''

علاوہ ازیں عورت کا وجود مرد کے لیے ناگزیر اور انسانی زندگی کے دو پہیوں میں ایک پہیہ ہے۔ اس کے باوجود اس کو مرد کے لیے سب سے زیادہ خطرناک فتنہ کیوں قرار دیا گیا ہے؟ اس کی وجہ مرد کی یہ کمزوری ہے کہ قوامیت (گھر کی سربراہی، حاکمیت اور نگرانی) کا مقام اللّٰہ تعالیٰ نے مرد کو عطا کیا ہے، لیکن ایک تو ا س نے عورت کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ نہیں کیا۔ دوسرے، گھر میں اپنی قوامیت (حاکمیت) عورت کے سپرد کر کے خود محکومیت کا درجہ اپنے لیے پسند کر لیا، بالخصوص شادی بیاہ کے معاملات اور رسوم و رواج کی پابندی، فیشن پرستی اور اسراف و تبذیر کے مظاہر میں۔ ان تمام معاملات میں مردوں نے بے بسی بلکہ پسپائی اختیار کر لی ہے اور اپنے مردانہ اختیارات عورت کو دے دیے ہیں۔

شادی بیاہ میں وہی ہو گا جو شریعت سے بے پروا عورت کہے گی اور کرے گی، مرد کا کام غلامِ بے دام کی طرح صرف اس کے حکم کی بجا آوری ہے، حتی کہ عورت کی خواہشات اور مطالبات پورے کرنے کے لیے اس کے پاس اگر وسائل بھی نہیں ہیں تو وہ رشوت لے گا، لوٹ کھسوٹ کرے گا۔ آمدنی کے دیگر حرام ذرائع اختیار کریگا، قرض لے گا، حتیٰ کہ سودی قرض لینے سے بھی گریز نہیں کرے گا، پھر ساری عمر قرض کے بوجھ تلے کراہتا رہے گا۔

علاوہ ازیں عورت اگر کہے گی تو بننے والے داماد کو سونے کی انگوٹھی پہنا کر اپنی بھی اور اُس کی بھی آخرت کی بربادی کا سامان کیا جائے گا، عورت کہے گی تو پورا ہفتہ ڈھولکی وغیرہ کے ذریعے سے اہل محلہ کی نیندیں خراب کی جائیں گی، عورت کہے گی تو مہندی کی رسم میں نوجوان بچیاں سرعام ناچیں گی۔ وعلی ہذا القیاس دیگر رسموں کا معاملہ ہے۔

ظاہر بات ہے کہ مرد کی اس پسپائی اور بے بسی میں اس کے لیے دنیا کی بربادی کا بھی سامان ہے اور آخرت کی ذلت و رسوائی بھی اس کا مقدر ہے۔کیا ایک مسلمان کہلانے والے مرد کے لیے اس سے بھی بڑا فتنہ کوئی اور ہو سکتا ہے؟ 'خسر الدنیا والآخرۃ' کا یہی وہ فتنہ ہے جس کا اظہار زبانِ رسالت مآبﷺ سے ہوا ہے۔

دین دار عورت، دین داروں کے لیے فتنہ نہیں ہے!

عورت کا یہ فتنہ انہی لوگوں کے لیے ہے یا ان کے حق میں فتنہ ہے جنہوں نے اپنی مردانگی (قوامیت) سے دست بردار ہو کر اپنی باگ ڈور (زمامِ کار) عورت کے ہاتھ میں دے دی۔ لیکن جو لوگ اپنی قوامیت کو برقرار رکھتے ہیں اور عورت کو کسی بھی مرحلے پر شریعت کے دائرے سے نہیں نکلنے دیتے بلکہ اس کو پابندِ شریعت بنا کر رکھتے ہیں، عورت اُن کے لیے کسی بھی مرحلے پر فتنہ ثابت نہیں ہوتی بلکہ ان کی خیر خواہ، معاون اور ہر اچھے کام میں ان کا دست و بازو اور سراپا خیر و رحمت ہوتی ہے۔

نبیﷺ نے بھی ایسی نیک عورت کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا ہے۔فرمایا:

« الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ »

''دنیا ایک پونجی ہے اور دنیا کی سب سے بہتر پونجی نیک عورت (بیوی) ہے۔''

ایک دوسری حدیث میں نیک عورت کی خصلتیں بیان فرمائی ہیں:

حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں:

سُئِلَ رَسُولُ الله ﷺ أَيُّ النِّسَاءِ خَيْرٌ قَالَ: «الَّذِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ وَلَا تُخَالِفُهُ فِيمَا يَكْرَهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهِ»

''رسول اللّٰہﷺ سے سوال کیا گیا: کون سی عورت بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ عورت (بیوی) سب سے بہتر ہے كہ جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ خوش کن نظر سے اُسے دیکھے۔ جب خاوند اسے کسی بات کا حکم دے، تو اسے بجا لائے اور وہ (عورت) اپنے نفس اور خاوند کے مال میں اس کی خواہش کے برعکس ایسا رویہ اختیار نہ کرے جو ا ُس کے خاوند کو ناپسند ہو۔''

قرآنِ مجید میں بھی نیک عورتوں کے لیے قَانِتَات کا لفظ استعمال ہوا ہے:

﴿ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ ﴾ ''نیک عورتیں قانتات ہیں۔''

اور قانتات کا مطلب ہے: فرماں بردار، اللّٰہ کی بھی اور خاوند کی بھی!

اس وضاحت سے مقصود یہ ہے کہ نبیﷺنے عورت کو مردوں کے لیے جو نہایت خطرناک فتنہ قرار دیا ہے جس کے شواہد آج ہم دیکھ رہے ہیں، یہ وہ عورتیں ہیں جو شرعی حدود و قیود سے آزاد ہیں، اور اُن کے مرد بھی اپنی غلامانہ ذہنیت اور خود بھی دین سے دور ہونے کی وجہ سے اِن عورتوں کو روکنے ٹوکنے اور ان کو راہِ راست پر رکھنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ لیکن جن مردوں کی عورتیں دین دار اور دین کی پابند ہیں، اور وہ دینی اقدار و روایات کی بالادستی میں اپنے خاوندوں کی مددگار ہوتی ہیں، وہ فتنہ نہیں ہیں، وہ سراپا خیر و برکت ہیں۔ اسی لیے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ شادی کرتے وقت دیگر دنیاوی ترجیحات کے مقابلے میں دین دار عورت کا انتخاب کرو۔ تاکہ وہ زندگی کے ہر موڑ پر اور ہر معاملے میں شریعت کے احکام کو بروئے کار لانے میں مرد کا ساتھ دے، اس کی مخالفت اور اپنی من مانی نہ کرے۔

الغرض شادی بیاہوں کی مذکورہ رسومات اور ان کی حشرسامانیوں سے بچنے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ دین سے ہماری وابستگی برائے نام نہ ہو بلکہ حقیقی ہو اور ہماری خواتین بھی دینی ا قدار و روایات کی پابند اور اس کا صحیح نمونہ ہوں جس کا مظاہرہ شادی بیاہ کی تقریبات میں واضح طور ہو۔ وہ شادی کی تقریب اپنے ہی کسی بچے یا بچی کی ہو یا خاندان کے کسی اور گھرانے کی، دیکھنے والے دیکھیں کہ یہ شادی واقعی کسی دین دار خاندان کی ہے یا اس میں شریک ہونے والی خواتین واقعی دین دار، پردے کی پابند، شریعت کی پاس دار اور سادگی کا پیکر ہیں:

﴿وَفى ذ‌ٰلِكَ فَليَتَنافَسِ المُتَنـٰفِسونَ ﴿٢٦﴾... سورة المطففين

شادی کے موقعے پر دف بجانے کی شرعی حیثیت

شادی کے مروجہ رسموں میں خوشی کے شادیانے بجانے بھی ہیں، جس کی کئی صورتیں رائج ہیں۔ مثلاً،شادی سے قبل کئی دن تک محلے کی اور قریبی رشتے داروں کی نوجوان لڑکیاں اور عورتیں شادی والے گھر میں راتوں کو گھنٹوں ڈھولکیاں بجاتی اور گانے گاتی ہیں جس سے اہل محلہ کی نیندیں خراب ہوتی ہیں۔

دوسرے نمبر پر برات کے ساتھ بینڈ باجہ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں فلمی گانوں کی دھنوں پر ساز و آواز کا جادو جگایا جاتا ہے اور اب منگنی کے موقعے پر بھی ایسا کیا جانے لگا ہے۔

تیسرے نمبر پر بہت سے لوگ میوزیکل شو کا اہتمام کرتے ہیں جس میں ناچنے گانے والی پیشہ ور عورتیں اور مرد حصہ لیتے ہیں، جس میں بے حیائی پر مبنی حرکتوں اور بازاری عشقیہ گانوں سے لوگوں کو محظوظ کر کے ان کے ایمان و اخلاق کو برباد کیا جاتا ہے۔

چوتھے نمبر پر شادی ہال نکاح اور ولیمے کی تقریبات میں اوّل سے آخر تک میوزک کی دھنوں سے گونجتا رہتا ہے اور اس طرح نکاح اور ولیمے کی بابرکت تقریبات بھی شیطان کی آماج گاہ بنی رہتی ہے۔

ان تمام خرافات اور شیطانی رسومات و حرکات کے جواز کے لیے ان احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے جن میں شادی اور عید یعنی خوشی کے موقعے پر چھوٹی بچیوں کو دف بجانے اور قومی مفاخر پر مبنی نغمے اور ملی ترانے گانے کی اجازت دی گئی ہے۔

1. جیسے حضرت ربیع بنت معوذ بیان کرتی ہیں کہ جب میری رخصتی عمل میں آئی تو رسول اللّٰہﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس اس طرح آ کر بیٹھ گئے جیسے تو میرے پاس بیٹھا ہے (راوی سے خطاب ہے) ۔تب چھوٹی بچیاں (خوشی کے طور پر) دف بجا کر شہداے بدر کا مرثیہ پڑھنے لگیں۔ اچانک ان میں سے ایک بچی نے کہا:

«وَفِیْنَا نَبِیٌّ یَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ»

''ہمارے اندر ایسے نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں۔''

نبیﷺ نے سن کر فرمایا: «دَعِي هَذِهِ وَقُولِي بِالَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ»

''اس کو چھوڑ اور وہی کہہ جو پہلے کہہ رہی تھی۔''

صحابہ کرام (چھوٹے، بڑے سب) صحیح العقیدہ تھے۔اس لیے بچی کے مذکورہ قول کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس میں نبیﷺ کی بابت عقیدۂ علم غیب کا اظہار تھا بلکہ آپ کی رسالت کا اظہار تھا کہ رسول پر وحی کا نزول ہوتا ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو اپنے احکام سے بھی مطلع فرماتا ہے اور آئندہ آنے والے واقعات سے بھی بعض دفعہ باخبر کر دیتا ہے۔ بچی کے شعری مصرعے کا مطلب اسی وحیٔ الٰہی کا اثبات تھا، پھر بھی رسول اللّٰہﷺ نے اس کو اس طرح کہنے سے روک دیا کہ مبادا بعد کے لوگ بدعقیدگی کا شکار ہو جائیں۔ علاوہ ازیں ایک د وسری روایت میں صراحتاً بھی ہے کہ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:

«وَلَا یَعْلَمُ مَا فِيْ غَدٍ اِلَّا الله» ''کل کا علم اللّٰہ کے سوا کسی کو نہیں۔''

بہرحال اس واقعے سے خوشی کے موقعے پر چھوٹی بچیوں کا اشعار پڑھ کر اظہارِ مسرت کرنے کا اثبات ہوتا ہے۔

2. عہد نبوی کا ایک دوسرا واقعہ ہے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہانے ایک لڑکی کو نکاح کے بعد شبِ زفاف کے لیے تیار کرکے اس کے خاوند (ایک انصاری مرد) کے پاس بھیجا۔ رسول اللّٰہﷺ نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا: تمہارے پاس 'لہو' نہیں ہے؟ «مَا کَانَ مَعَکُمْ لَهْوٌ؟» انصار کو لہو پسند ہے، «فَإِنَّ الْأَنْصَارَ یُعْجِبُهُمْ اللَّهْوُ»

حافظ ابن حجر کہتے ہیں، ایک دوسری روایت میں مَا کَانَ مَعَکُمْ لَهْوٌ کی جگہ الفاظ ہیں:

«فَهَلْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا جَارِیةً تَضْرِبُ بِالدُّفِّ وَتُغَنِّی»

''کیا تم نے اس کے ساتھ کوئی بچی (یا لونڈی) بھیجی ہے جو دف بجا کر اور گا کر خوشی کا اظہار کرتی۔''

اسی طرح فَإِنَّ الْأنْصَارَ یُعْجِبُهُمُ اللَّهْو کی جگہ دوسری روایت میں ہے:

«قَوْمٌ فِیْهِمْ غَزْلٌ» ''انصاریوں میں شعروشاعری کا چرچا ہے۔''

اس دوسری روایت کے الفاظ سے پہلی روایت میں وارد لفظ لَهْو کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ واقعہ مذکورہ میں اس سے مراد چھوٹی بچی کا دف بجا اور قومی گانا گا کراظہارِ مسرت کرنا ہے۔

3. محمد بن حاطب سے مروی ہے، رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:

«فَصْلُ مَا بَیْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ فِي النِّکَاحِ»

''حرام اور حلال کے درمیان فرق کرنے والی چیز دف بجانا اور نکاح میں آواز بلند کرنا ہے۔''

4. ایک اور واقعہ احادیث میں بیان ہوا ہے، عامر بن سعد﷫بیان کرتے ہیں کہ میں ایک شادی میں گیا، وہاں دو صحابی ٔرسول حضرت قرظہ بن کعب اور ابو مسعود انصاری ؓ بھی تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں چھوٹی بچیاں گانا گا رہی ہیں۔ میں نے دونوں صحابیوں سے کہا: تم دونوں اصحابِ رسول اور اہل بدر (جنگ بدر کے شرکا) میں سے ہو، تمہاری موجودگی میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا:

''شادی کے موقعے پر ہمیں لَهْو(چھوٹی بچیوں کے قومی گیت وغیرہ گا کر اظہار مسرت کرنے) کی رخصت دی گئی ہے، تمہارا جی چاہتا ہے تو سنو، جانا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی ہے۔''

مذکورہ روایات سے کیا ثابت ہوتا ہے؟

ان احادیث سے دو باتوں کا اثبات ہوتا ہے۔ ایک دف بجانے کا اور دوسرے، ایسے گیتوں اور شعروں کے گانے اور پڑھنے کا جن میں خاندانی شرف و نجابت کا اور آباء و اجداد کے قومی مفاخر کا تذکرہ ہو، لیکن ساری متعلقہ صحیح احادیث سے ان دونوں باتوں کی جو نوعیت معلوم ہوتی ہے، اس کا خلاصہ حسب ِذیل ہے:

1. خاص موقعوں پر دف بجایا جا سکتااور قومی گیت گایا جا سکتا ہے، جیسے شادی بیاہ کے موقعے پر یا عید وغیرہ پر، جس کا مقصد نکاح کا اعلان کرنا اور خوشی کا اظہار کرنا ہے، تاکہ شادی خفیہ نہ رہے۔ اسی لیے یہ حکم بھی دیا گیا ہے:

«اَعْلِنُوْا النِّکَاحَ» ''نکاح کا اعلان کرو۔''

یعنی علانیہ نکاح کرو، خفیہ نہ کرو۔ اس حکم سے مقصود خفیہ نکاحوں کا سدباب ہے جیسے آج کل ولی کی اجازت کے بغیر خفیہ نکاح بصورت لو میرج، سیکرٹ میرج اور کورٹ میرج کیے جا رہے ہیں، عدالتیں اور فقہی جمود میں مبتلا علما ان کو سند جواز دے رہے ہیں حالانکہ احادیث کی رو سے یہ سب نکاح باطل ہیں، یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتے۔

2. یہ کام صرف چھوٹی یعنی نابالغ بچیاں کر سکتی ہیں، بالغ عورتوں کو ان کاموں کی اجازت نہیں ہے اور نہ مردوں ہی کو اس کی اجازت ہے۔

3. یہ کام نہایت محدود پیمانے پر ہو۔ محلے کی یا خاندان اور قبیلے کی بچیوں کو دعوتِ دے کر جمع نہ کیاجائے۔

4. اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کاموں کی صرف اجازت ہے، ان کی حیثیت فرض وواجب اور امر لازم کی نہیں ہے۔ جیسے مذکورہ دو صحابیوں کے واقعے میں ہے:

قَدْ رُخِّصَ لَنَا فِي اللَّهْوِ عِنْدَ الْعُرْسِ

''ہمیں شادی کے موقعے پر لَهْو کی رخصت دی گئی ہے۔''

e اور یہ مسلمہ اُصول ہے کہ ایک جائز کام، حدود و ضوابط کے دائرے میں نہ رہے اور اس کا ارتکاب بہت سے محرمات و منہیات تک پہنچا دے تو ایسی صورتوں میں وہ جائز کام بھی ناجائز اور حرام قرار پائے گا۔

موجودہ حالات میں اظہارِ مسرت کا مذکورہ جائز طریقہ، ناجائز اور حرام ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی اپنے مذہب سے وابستگی اور اس پر عمل کرنے کی جو صورت حال ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس لیے شادی بیاہ کے موقعوں پر وہ اللّٰہ و رسول کے احکام کو بالکل پس پشت ڈال دیتے ہیں اور محرمات و منہیات کا نہایت دیدہ دلیری سے ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ مہندی کی رسم اور اس میں نوجوان بچیوں کا سرعام ناچنا گانا، ویڈیو اور مووی فلمیں بنانا، بے پردگی اور بے حیائی کا ارتکاب، بینڈ باجے، میوزیکل دھنیں اور میوزیکل شو، آتش بازی وغیرہ۔ یہ سب کیا ہیں؟ یہ سب غیروں کی نقالی اور اسلامی تہذیب و روایات کے یکسر خلاف ہیں۔ اسلام سے ان کا نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہو ہی سکتا ہے۔

یہ صورت حال اس امر کی تائید کرتی ہے کہ موجودہ حالات میں دف بجانے اور قومی گیت گانے سے بھی احتراز کرنا چاہئے، کیونکہ کوئی بھی شریعت کی بتائی ہوئی حد تک محدود نہیں رہتا اور محرمات تک پہنچے بغیر کسی کی تسلی نہیں ہوتی۔ بنا بریں اسلام کے مسلمہ اصول سَدًّا لذریعة کے تحت یہ جائز کام بھی اس وقت ممنوع ہی قرار پائے گا جب تک قوم اپنی اصلاح کرکے شریعت کی پابند نہ ہو جائے اور شریعت کی حد سے تجاوز کرنے کی عادت اور معمول کو ترک نہ کر دے۔
حوالہ جات

صحیح مسلم:رقم الحدیث ۴۹

صحیح مسلم:۱۸۲۹

صحیح بخاری:۶۸۸۲

صحیح مسلم:۱۰۱۷

سنن ابن ماجہ:۳۶۰۷؛سنن ابو داؤد:۴۰۲۹

سورۃ القمر: 22

صحیح مسلم:۲۱۲۸

صحیح بخاری:۵۹۳۹؛صحیح مسلم:۲۱۲۵

صحیح بخاری:۵۲۱۹

صحیح بخاری:۵۰۹۶

سورۃ الروم: ۲۱

صحیح مسلم:۱۴۶۹

سنن نسائی:۳۲۳۳

سورۃ النساء:۳۴

صحیح بخاری:۵۱۴۷

طبرانی، بحوالہ'آداب الزفاف'از شیخ البانی، ص:۹۵

صحیح بخاری:۵۱۶۲

فتح الباری:۹؍۲۸۲

سنن نسائی:۳۳۷۱

سنن نسائی:۳۳۸۵

صحیح ابن حبان:۱۲۸۵؛آداب الزفاف:ص۹۷