فتاوی
حیض اور عدت کا شمارج؟ شدید ڈپریشن میں طلاق؟
حیض کے خاتمے پر، غسل سے قبل مباشرت کرنا؟
سوال: سورة البقرہ کی آیت 222 یہ ہے :{وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ}یعنی حیض سے پاک ہوجانے کے بعد وطی کی اجازت دی گئی ہے۔ اس آیت کی رو سے کیا غسل کے بغیر مباشرت حرام ہے، جیسا کہ اکثر اسلاف اسی کے قائل ہیں یا پاک ہونے کا مطلب محض خونِ حیض کا بند ہوجانا ہے، اگرچہ عورت نے غسل نہ بھی کیا ہو؟ (حافظ عبداللہ سلفی، ملتان روڈ، لاہور)
جواب: جمہور اہل علم کا مسلک یہی ہے کہ انقطاعِ حیض کے بعد غسل سے فراغت کے بعد ہی بیوی سے وطی حلال ہوتی ہے۔ تاہم بعض سلف نے بایں صورت مخصوص مقام کو دھونے یا وضو وغیرہ کی صورت میں بھی وطی حلال قرار دی ہے۔ فقیہ ابن قدامہ نے المغنی (1؍420) میں قرآنی الفاظ {فَإِذَا تَطَهَّرْنَ} کی تفسیر ابن عباسؓ سے یوں نقل کی ہے: یعني إذا اغتسلن''جب عورت غسل کرلے۔'' اگرچہ حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے المُحلّٰی (1؍357،356) میں دوسرا مسلک اختیار کیا ہے اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آداب الزفاف (صفحہ 48) میں اسی مسلک کو دلائل سے قریب ترقرار دیا ہے لیکن میرے نزدیک جمہور کا مسلک راجح ہے۔ احادیث فاطمہ بنت ِابی حبیش وغیرہ جو اس بارے میں صریح ہیں ،سے بھی اسی امر کی تائید ہوتی ہے۔ دوسرا مذہب اضطراری حالت پر محمول ہوگا۔ واﷲ تعالیٰ أعلم بالصواب
اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ دس روز سے پہلے اگر عورت حیض سے پاک ہوجائے تو غسل کے بعد وطی کا جواز ہے اور اگر دس روز کے بعد فارغ ہو تو بلا غسل بھی وطی جائز ہے، حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اور مفسر قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو بلا دلیل قرار دیا ہے جس کی کوئی معقول وجہ نہیں۔
کیا حیض ختم ہوجانے کے باوجودغسل کرنے تک عدت برقرار رہتی ہے؟
سوال:کیا خون حیض بند ہونے کے بعد جب تک عورت غسل نہ کرلے، عدت پوری نہیں ہوتی اور خاوند کو رجوع کا حق رہتا ہے، اگرچہ کئی سال تک وہ غسل نہ کرے؟ کیا حنابلہ کا یہ موقف صحیح ہے یا حیض ختم ہوتے ہی غسل کئے بغیر ہی حق رجوع جاتا رہتا ہے؟
جواب: کیا اس بارے میں فقیہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے المغنی (1؍204) میں ابن حامد سے دو روایتیں ذکر کی ہیں۔ ایک یہی جس کا ذکر سوال میں ہے اور دوسری روایت یہ ہے کہ انقطاعِ دم سے ہی عدت پوری ہوجاتی ہے۔ اُنہوں نے پہلی روایت کو اختیار کیا ہے کیونکہ اکابر صحابہؓ کا مسلک یہی ہے، لیکن ترجیح دوسری روایت کو معلوم ہوتی ہے کیونکہ نصِ قرآنی کے مطابق تین قرؤ مکمل ہوچکے ہیں، اسی لئے تو غسل واجب ہوا ہے اور نماز روزہ بھی واجب ہوگیا۔ واﷲ تعالیٰ أعلم!
قُرُوْئ سے مراد حیض ہے یا طہر؟
سوال:سورة البقرہ کی آیت 228 میں قروء سے مراد حیض ہے یا طہر؟ حنفیہ و حنابلہ نیز مالکیہ کے نزدیک بھی راجح قول یہی ہے کہ یہاں قرؤ سے مراد حیض ہے۔ خلفاے راشدینؓ اورحضرت ابن عباسؓ بھی اسی کے قائل ہیں۔
جواب: اس بارے میں سلف کا اختلاف ہے کہ یہاں قرؤ سے مراد حیض ہے یا طہر؟ صحابہ کرامؓ کاایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ قرؤ بمعنی طہر ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ جبکہ دوسری طرف خلفاے اربعہؓ اور کثیر تعداد صحابہؓ اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ہے کہ قرؤ سے مراد حیض ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے اور احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اکابر صحابہ رحمۃ اللہ علیہ اسی کے قائل ہیں کہ قرؤ بمعنی حیض ہے ۔ لغوی طور پر لفظ قرؤ مشترک المعنی ہے اور علماے لسان عرب اور فقہاے عظام کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرؤ کے معنی حیض اور طہر دونوں ہیں۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ آیت ِقرآنی میں قرؤ سے مراد حیض ہے،ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت ابی حبیش سے فرمایا تھا: (دعي الصلوٰة أیام أقرائك) 1 یعنی ''ایامِ حیض میں نماز ترک کردیا کرو۔'' اس سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ یہاں قرؤ سے مراد حیض ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: الشرح المُقنع علی زاد المستقنع:10؍661 اور نیل الأوطار :6؍308
عدت کے خاتمے کے لئے حیض کا کس قدر خون آنا ضروری ہے؟
سوال: عدت کے سلسلے میں حیض قرار دینے اور عدت میں شمار کرنے کے لئے کس قدر خون آنا ضروری ہے؟ یاد رہے مالکیہ کے نزدیک جب تک خون دن یا رات کے کسی قدر حصے میںنہ آئے اور شافعیہ وحنابلہ کے نزدیک جب تک خون ایک دن اور ایک رات یعنی 24گھنٹے تک نہ رہے، اسے عدت کے معاملے میں حیض قرار نہیں دیا جاسکتا۔
جواب: واضح ہو کہ کم از کم حیض کے بارے میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں۔لہٰذا سرخی مائل سیاہ خون حیض کا ہی خون ہے، چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ۔ یہ عدت میں مؤثر ہوگا، اگرچہ فقہا کے مذاہب مختلف ہیں۔ صحت کے قریب بات وہی ہے جو پہلے ہم نے ذکر کردی ہے۔ واﷲ اعلم
حیض یا طہر کے آغاز میں دی جانے والی طلاق پر عدت
سوال:حیض جاری ہوئے لحظہ ہی ہوا تھا کہ مرد نے طلاق دے دی۔ یہ حیض عدت میں شمار ہوگا یا نہیں؟
جواب: یہ حیض عدت میں شمار نہیں ہوگا، جیسا کہ المغنی کے متن میں ہے:
فعدتھا ثلاث حیض غیر الحیضة التي طلقھا فیھا 2
''عورت کی عدت تین حیض ہے، ماسواے اس حیض کے جس میں اسے طلاق دی گئی۔''
سوال: ایک آدمی نے طہر میں طلاق دی اور چند منٹ بعد ہی حیض جاری ہوگیا تو یہ طہر عدت میں شمار ہوگا یا نہیں؟
جواب: راجح مسلک کے مطابق عدت کا شمار حیض سے ہے، نہ کہ طہر سے اور جن لوگوں کے نزدیک عدت کا شمار طہر سے ہے، ان کے ہاں اس طہر کا شمارہونا چاہئے۔
حیض کی بے قاعدگی کی صورت میں عدت کا شمار؟
سوال: جس عورت کو وقفے و قفے سے کئی ماہ تک مسلسل خون جاری رہے اور ایامِ حیض کی مدت مقرر کرنا محال ہوجائے، وہ کتنے ماہ تک عدت میں رہے گی؟ ایسے ہی اگر عادتِ حیض بے قاعدہ ہو تو اس کی عدت کتنے ماہ خیال کی جائے؟
جواب: ایسی عورت تین ماہ تک عدت میں رہے گی۔سنن ابن ماجہ میں حمنہ بنت جحش کی حدیث سے یہ مسئلہ ماخوذ ہے۔ باب ماجاء في البکر إذا ابتدئت مستحاضة أوکان لھا أیام حیض فنَسِیتْھا۔ اس بارے میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے دو روایتیں ہیں: اوّل الذکر کے مطابق یہی تین ماہ اور دوسری روایت میں ایسی عورت ایک سال عدت گزارے۔3
سوال: اگر مندرجہ بالا کیفیت عادت والی عورت کی ہوجائے تو کیا وہ پرانی عادت کے مطابق عدت پوری کرے؟ (حافظ عبداللہ سلفی، مدرّس مدرسہ التوحید ، لاہور)
جواب: ایسی عورت سابقہ عادت کے مطابق عدت گزارے۔ حدیث ِاُمّ سلمہ میں ہے:
دعي قدر الأیام واللیالی التي کنتِ تحیضین 4
تین طلاقوں کے بعد رجوع؟
سوال: محمد رمضان نے اپنی حاملہ بیوی کو پہلی طلاق 28 مئی 2004ء کو دی، پھر 3؍جون 2004ء کو رجوع کرلیا۔ پھر لڑائی کی وجہ سے دوسری طلاق 2؍جولائی 2004ء کو اور تیسری طلاق 25؍جولائی 2004ء کو دے دی ۔ بعدازاں 18؍نومبر 2004ء کوبیوی گھر واپس آگئی اور محمد رمضان نے دوبارہ نکاح کرکے رجوع کرلیا جبکہ بچے کی پیدائش ابھی تک نہیں ہوئی تھی، کیا یہ رجوع درست ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
جواب: بالا صورت میں دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں کیونکہ تین طلاقیں مختلف اوقات میں واقع ہوچکی ہیں۔ حدیث ِرکانہ بن عبد ِیزید اخوبنی مطلب کے قصہ سے یہ بات مترشح ہے کہ اختلاف ِمجلس مؤثر ہے، لہٰذا اس شخص کو چاہئے کہ فوراً اس عورت سے علیحدگی اختیار کرلے۔
شدید ڈیپریشن وبیماری میں دی جانیوالی طلاق
سوال: میں نے 1993ء میں اپنی بیوی کو لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ایک ہی وقت میں زبانی طور پر تین طلاقیں دے دیں اور پھر تقریباً تین ماہ بعدایک عالم کے فتویٰ کی بنا پر بیوی سے رجوع کر لیا پھر اپریل 2006ء میں (جبکہ میں جسمانی طور پر بہت بیمار، بلڈپریشر، دلی عارضے اور شدید ڈیپریشن کی وجہ سے بہت زیادہ ہائی پوٹینسی کی گولیاں استعمال کرتا ہوں) ہمارا جھگڑا ہوا اور میری بیوی، بچوں نے بہت زیادہ پریشان کیا اور کچھ میں شدید ڈیپریشن کا شکار تھا اور دوائی بھی لی ہوئی تھی اور اس حالت میں میری ذہنی حالت بہت زیادہ متاثر تھی۔ میں نے اپنے بیوی کو اپنے خیال میں دوسری طلاق دی، لیکن میری بیوی اور بچے جو اس وقت سامنے موجود تھے، کہتے ہیں کہ میں نے طلاق نہیں دی تھی، صرف بستر الگ کرنے کا کہا تھا جبکہ بیوی کہتی ہے کہ میں نے دوسرے دن صبح کچن میں اسے طلاق دی تھی اور مجھے اس کا بالکل یاد نہیں کہ میں نے طلاق دی تھی۔ میری بیوی بھی مائیگرین (سردرد) کی دائمی مریضہ ہے۔ میری حالت بیماری اور زیادہ ادویات کے استعمال سے اس طرح کی ہوچکی ہے کہ میری یادداشت بہت کمزور ہوچکی ہے اور بعض اوقات ہاتھ میں پکڑی چیز گر جاتی ہے۔ میری بیوی نے کہا کہ تم نے طلاق دی تھی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، اگر میں نے طلاق دی تھی تو میں رجوع کرتا ہوں۔ پھر ہم نے نو دس دن بعد رجوع کرلیا۔ لیکن پھر 19جون 2006ء میں جبکہ بیوی پاکستان گئی ہوئی تھی، ہماری فون پر آپس میں تو تکار ہوئی۔ میں نے اپنی بیوی سے کہہ رکھا تھا کہ تم نے اگر میری بات نہ مانی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا اور پھر میں نے اپنی بیوی کو فون پر طلاق دے دی اور میری ذہنی حالت بیماری کی وجہ سے بہت متاثر تھی اور ادویات کابھی اثر تھا۔میری اس صورتِ حال میں شریعت ِمطہرہ میں میرے لئے کیا حکم ہے؟ ( معروف حسن احمد، مانچسٹر)
جواب: صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ دوسری طلاق کے وقت شوہر کا ذہنی توازن درست نہ تھا، ایسی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوئی۔ صحیح بخاری کے ترجمة الباب میں حضرت عثمانؓ سے منقول ہے: لیس لمجنون ولا لسکران طلاق ''دیوانے اور نشئ کی طلاق قابل اعتبار نہیں۔'' اور ابن عباسؓ نے کہا کہ طلاق السکران والمستکرہ لیس بجائز
'' نشئی اور مجبور شخص کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔''
الغرض جب شدتِ مرض کی بنا پر آدمی کے ہوش حواس قائم نہ ہوں تو طلاق شمار نہیں ہوگی۔ عقل و شعور کی مضبوطی کی صورت میں ہی طلاق واقع ہوتی ہے جبکہ محل بحث میں معاملہ برعکس ہے۔ اور تیسری طلاق کا معاملہ بھی دوسری طلاق سے مختلف نظر نہیں آتا، البتہ اگر اس کا وقوع عقل و شعور سے ہوا ہے تو پھر شمار ہوگی، بہرصورت رجوع کی گنجائش موجود ہے۔
حوالہ جات
1.دارقطنی: رقم 834
2. (197/11)
3. تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو المغنی :11؍219
4. سنن ابن ماجہ:رقم 615