’تحفظ حقوقِ نسواں بل‘ کے اسلام سے متصادم پہلو

حدود قوانین کے خلاف حکومتی مہم کے سلسلے میں 'محدث' کا ابتداسے ہی نمایاں کردار رہا ہے۔ زیر نظربل کے تین مرحلے ہیں: اگست2006ء کے آغازمیں مختلف لوگوں نے اخبارات میں اس بل کا مجوزہ خاکہ پیش کیا تو اس وقت ان مجوزہ ترامیم پر ایک تفصیلی مضمون محدث کے شمارئہ اگست میں شائع ہوا۔ بعد ازاں 21؍اگست کو قومی اسمبلی میں یہ بل پیش کردیاگیا تو پیش کردہ بل کا شرع وقانون کی روشنی میں تفصیلی جائزہ محدث کے شمارئہ ستمبر میں لیا گیا۔ پھر سلیکٹ کمیٹی نے اس بل میں 8 ترامیم اور سیاسی جماعتوں نے مزید 4 ترامیم پیش کیں اور اسی شکل میں اسے منظور کرلیا گیا، چنانچہ زیر نظر مضمون اس منظور شدہ بل کے جائزہ پر مبنی ہے۔اِنہی دنوں اس بل کے جائزے کے لئے مرکزی جمعیت ِاہل حدیث نے ایک علماء کمیٹی تشکیل دی جس میں مولانا ارشاد الحق اثری، حافظ صلاح الدین یوسف، حافظ عبد الرحمن مدنی، مولانا محمد اعظم ، راقم الحروف اور رانا شفیق پسروری شامل تھے۔ دو طویل مجالس کے بعد مذکورہ علماء کرام نے راقم الحروف کو پیش کردہ بل کا جائزہ لکھنے کی ہدایت کی۔ بعد ازاں اس تحریر پران علما نے نظرثانی فرمائی اور مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے بعض مقامات پر مفید اضافے بھی کئے جو حواشی میں درج ہیں۔ (ح م)



اسلامی ریاست کے ایک بنیادی تقاضے کی تکمیل اور نظام مصطفی کی طرف اہم پیش رفت کرتے ہوئے 10؍فروری 1979ء کو جنرل ضیاء الحق نے حدود آرڈیننس نافذ کیا، بعد میں 1985ء کی اسمبلی نے اس کی توثیق کرکے اُنہیں آرڈیننس سے 'حدود قوانین' کا درجہ دیا۔ اس کے بعد ملک میں کئی اسمبلیاں بنیں اور ختم ہوئیں لیکن اُنہوں نے حدود قوانین کی ترمیم وتنسیخ کی بجائے ان کو برقرار رکھ کر اپنی مہر تصدیق ثبت کی۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے متعدد بار اور سرحد اسمبلی نے 2003ء میں ان قوانین کے مطابق ِاسلام ہونے کی قرارداد منظور کی۔ دو مرتبہ پیپلز پارٹی نے اسمبلی میں ان قوانین کی تنسیخ کا بل پیش کیا، لیکن اُنہیں سند ِقبولیت نہ مل سکی !

گذشتہ ڈیڑھ دو برس سے ان قوانین کے خلاف مغرب زدہ این جی اوز کی سرگرمیوں میں تیزی آئی۔ بعض ابلاغی اداروں کے اشتراک کے ساتھ روشن خیال حکومت نے اس بل کو منظورکرانا اپنا اوّلین ہدف قراردیاتاکہ اپنے نظریاتی حامیوں کی کلی تائید اور بیرونی حمایت حاصل کی جاسکے۔ میڈیا کے یکطرفہ پروپیگنڈے اور ملک میں فردِ واحد کے اقتدار کے بل بوتے پر ایک ایسا قانون پاکستان کی پارلیمنٹ سے منظور ہوا، جو نہ صرف اسلام اور دستورِ پاکستان سے متصادم ہے بلکہ اس میں مسلم معاشرے کی تہذیبی روایات اور مسلمہ اقدار کو پامال کرنے کی کھلم کھلاجسارت بھی کی گئی ہے۔

پہلے تو 'حدود قوانین' کو مسلسل کئی ماہ میڈیا پر ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر جولائی؍اگست میں اقتدار کے ایوانوں میں اس پر بحث مباحثہ شروع ہوا، اور 21؍اگست2006ء کو اسے قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔ اس بل کا اصل نام تو 'فوجداری ترمیمی بل2006ئ' تھا، لیکن خواتین کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے سلیکٹ کمیٹی کی اوّلین ترمیم کی روسے اس کا نام 'تحفظ ِخواتین بل2006ء' رکھنا قرار پایا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے کا سارا بل زنا کی شرعی سزا میں ترمیم وتخفیف کے گرد ہی گھومتا ہے۔ بل کی 29 ترامیم ہیں جن کے ذریعے 22؍ دفعات پر مشتمل 'حد زنا آرڈیننس1979ئ' کی 12 دفعات کو منسوخ اور 6 کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ ایسے ہی اس بل کے ذریعے 'حد قذف آرڈیننس' کی 20 دفعات میں سے بھی 8 کو منسوخ اور 6 میں حذف و ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کے بعد حد زنا آرڈیننس میں محض 4 دفعات اور حد قذف آرڈیننس میں محض 6دفعات اپنی اصل صورت میں، صحیح سالم باقی رہ گئی ہیں۔

قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد بل کو سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا، 15؍رکنی سلیکٹ کمیٹی نے 4ستمبر کو اس میں 8 ترامیم تجویز کیں۔ انہی دنوں حکومت کی دعوت پر ملک کے ممتاز علما نے 11؍ستمبر کو تین ابتدائی ترامیم پیش کیں۔ حکومت نے اُنہیں بل میں شامل کرنے کا نہ صرف وعدہ کیا بلکہ انہیں شامل کرنے کا خو ب ڈھنڈورا بھی پیٹا، لیکن مقامِ افسوس ہے کہ اسمبلی سے منظور ہونے والے حالیہ بل میں، ان میں سے ایک ترمیم بھی شامل نہیں کی گئی۔ دوسری طرف 13؍نومبر کومختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس بل میں مزید 4 ترامیم تجویز ہوئیں اور آخر کار 15؍ نومبرکو سلیکٹ کمیٹی کی 8 ترامیم سمیت، 13؍نومبر کی مزید 4 ترامیم شامل کرکے قومی اسمبلی نے حدود قوانین میں ترمیم کا بل پاس کرلیا۔

ملک کے ممتاز اور جید علما (جو کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں) کا موقف پہلے بھی یہ تھا کہ حکومت کا تیار کردہ بل خلافِ اسلام ہے، اگر اس بل میں یہ تین ترامیم کردی جائیں تو بل کی خامی میں قدرے کمی واقع ہوسکتی ہے، لیکن وعدے کے باوجود ان ترامیم کو نظرانداز کیا گیا۔ اب 15؍ نومبرکو منظور ہونے والے بل کے بارے میں بھی ملک بھر کے تمام علماے کرام کا متفقہ موقف یہی ہے کہ یہ بل اسلام سے متصادم ہے۔یاد رہے کہ اس بل کے خلافِ اسلام ہونے پر کسی ایک عالم دین یا کسی دینی حلقہ کا بھی آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حتیٰ کہ حدودآرڈیننس پر شدید تنقید کرنے والے دانشور بھی اس بل کے غلط ہونے پر علماے کرام کے ہم نوا ہیں، اسکے باوجود حکومت لگاتار اپنے دعوے اور 'فتوے' پر ہی مصر ہے!!

تحفظ حقوق نسواں بل میں خلافِ اسلام ترامیم
بل کی ترمیم نمبر7 کے الفاظ یہ ہیں :
''496ب) زنا :(1) ایسے مرد اور عورت جن کی آپس میں شادی نہ ہوئی ہو، اگر رضامندی سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو وہ زنا کے مرتکب ہوں گے۔
(2) زنا کے مرتکب مرد وعورت کو جو سزا دی جائے گی، وہ زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید ہوسکتی ہے اور اُنہیں10 ہزار روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی۔(i)
496ج) زنا کے جھوٹے الزام کی سزا: جو کوئی بھی کسی شخص کے خلاف زنا کا جھوٹا الزام لگائے یا گواہی دے وہ زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک قید اور زیادہ سے زیادہ 10ہزار روپے کے جرمانے کا مستوجب ہوگا۔''

تبصرہ:(1)اس ترمیم کے ذریعے تعزیراتِ پاکستان میں دو دفعات کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اسلام کا معمولی علم رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ ان دونوں جرائم کی سزائیں صریحاً خلاف ِاسلام ہیں۔ زنا کی سزا قرآنِ کریم میں یہ بیان ہوئی ہے :
ٱلزَّانِيَةُ وَٱلزَّانِى فَٱجْلِدُوا كُلَّ وَ‌ٰحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ...﴿٢﴾...سورۃ النور
''زانی عورت اور زانی مرد میں سے ہر ایک کو 100 کوڑے کی سزا دو۔''

قرآنِ کریم کا واضح حکم یہ ہے کہ زانی کی سزا 100 کوڑے ہے، جبکہ منظور کردہ بل میں اس کی سزا زیادہ سے زیادہ 5سال قیدیا جرمانہ رکھی گئی ہے۔ یعنی کم سے کم سزا محض چند روز قید اور چند روپے جرمانہ بھی ہوسکتی ہے۔ کیا زنا کی سزا میں یہ ترمیم خلاف ِاسلام نہیں ؟؟

ممکن ہے ،کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس سزا میں پارلیمنٹ یا حاکم وقت کو ترمیم یا تخفیف کا اختیار ہے۔ لیکن ایسا دعویٰ محض قرآن وسنت سے لاعلم شخص ہی کرسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں واضح طورپر بتا دیا ہے :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى ٱللَّهُ وَرَ‌سُولُهُۥٓ أَمْرً‌ا أَن يَكُونَ لَهُمُ ٱلْخِيَرَ‌ةُ مِنْ أَمْرِ‌هِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ ٱللَّهَ وَرَ‌سُولَهُۥ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَـٰلًا مُّبِينًا ﴿٣٦...سورۃ الاحزاب
''کسی مؤمن اور مؤمنہ کے لئے جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ فرما دیں تو اپنے پاس سے نئے فیصلے کرنا شروع کردیں۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو وہ واضح گمراہی کا شکار ہوگیا۔''

اللہ کی طے کردہ عقوبات (حدود اللہ ) میں حاکم وقت یا پارلیمنٹ تو کجا، کسی شیخ الاسلام اور مجتہد العصر کو بھی ترمیم کا کوئی اختیار نہیں۔ اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی حیثیت کسی کی نہیں ہوسکتی، لیکن ان حدود اللہ میں کوئی ترمیم یا کمی بیشی کرنے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجاز نہیں۔ دورِ نبویؐ کا ایک مشہور واقعہ مختصراً یوں ہے کہ ''قریشی قبیلہ کی فاطمہ نامی ایک عورت نے چوری کا ارتکاب کیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک محبوب صحابی حضرت اسامہؓ بن زیدؓ کے ذریعے صحابہ کرامؓ اس عورت (فاطمہ) کا ہاتھ نہ کاٹنے کی سفارش لے کر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اس جسارت پر سخت ناراض ہوئے اور یہ تاریخ ساز جملہ ارشاد فرمایا:
(أتشفع في حد من حدود اﷲلو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطع محمد یدها)1
''کیا تم حدود اللہ کے بارے میں سفارش کرتے ہوـ؟ اگر (میری بیٹی ) فاطمہ بنت ِمحمدؐ بھی چوری کرتی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے۔''

اس مشہور واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حدود اللہ میں تبدیلی کا اختیار روے کائنات میں کسی کے پاس بھی نہیں، اشرفُ المخلوقات اورسیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اگر یہ اختیار ہوتا تو آپ اپنے پیارے صحابہؓ کی بات تسلیم کرلیتے اور اس قریشی عورت کی سزا میں تخفیف فرما دیتے۔

پارلیمنٹ کا زنا کی حد میں ترمیم کرنا اپنے اختیار سے صریحاً تجاوز ، اسلام سے بے وفائی اور اپنے حلف سے غداری ہے۔ مزید برآں دستورِ پاکستان کی دفعات کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ جس طرح کسی پارلیمنٹ کی ایسی قانون سازی... کہ بہن بھائی آپس میں شادی کرسکتے ہیں... کی اسلام کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں، اسی طرح زنا کی شرعی سزا میں ترمیم یا تخفیف کی بھی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے۔یہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے کھلم کھلا جنگ ہے!!

(2) جس طرح اسلام میں زنا کی سزا اللہ تعالیٰ نے مقرر کردی ہے اور اس میں تبدیلی کا کوئی بھی مجاز نہیں، اسی طرح اسلام نے زنا کے جھوٹے الزام (تہمت یا قذف) کی سزا بھی متعین کردی ہے۔ موجودہ بل میں زنا کی تہمت (قذف) کی شرعی حد میں بھی ترمیم کی جسارت کی گئی ہے۔ تہمت یا قذف کی سزا بڑی مشہور ہے، جس کی بنیاد قرآنِ کریم کی یہ آیت ِکریمہ ہے :
وَٱلَّذِينَ يَرْ‌مُونَ ٱلْمُحْصَنَـٰتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْ‌بَعَةِ شُهَدَآءَ فَٱجْلِدُوهُمْ ثَمَـٰنِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَـٰدَةً أَبَدًا...﴿٤﴾...سورۃ النور
''جولوگ پاک دامن عورتوں پرزنا کا جھوٹا الزام لگاتے ہیں، اُنہیں 80 کوڑے مارو اور آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔''

زنا کی تہمت کی سزا ایک طرف قرآنِ کریم بیان کرتا ہے اور دوسری طرف ہماری حکومت اسے بھی پانچ سال قیدمیں تبدیل کررہی ہے۔ اوپر درج کردہ قرآنی آیات اور فرامین ِرسولؐ کی رو سے کس نے حکومت یا اَراکین ِپارلیمنٹ کو حدود اللہ میں ترمیم وتخفیف کا یہ اختیار دیا ہے؟


(3) تحفظ ِخواتین بل 2006ء کی ترمیم نمبر 5 کے الفاظ یہ ہیں کہ
''کسی مرد کو زنا بالجبر کا مرتکب کہا جائے گا، جب وہ کسی عورت کے ساتھ مندرجہ ذیل پانچ حالات میں کسی صورت میں مباشرت کرے :
(1) عورت کی مرضی کے خلاف

(2) اس کی رضامندی کے بغیر
(3) جب مرضی ہلاکت یاضرر کا خوف دلا کر لی گئی ہو

(4) عورت کو اپنا شوہر ہونے کا مغالطہ ہو...
(5) لڑکی کی رضا مندی یا اس کے بغیر، جب کہ وہ 16 برس سے کم عمرکی ہو۔''

اس ترمیم سے پہلی بات تو یہ معلوم ہورہی ہے کہ عورت کی مرضی کے خلاف یا اس کی رضامندی کے بغیر کیا جانے والا جنسی فعل 'زنا بالجبر' کہلائے گا۔ اس قانون کی رو سے کوئی شوہر اگر اپنی بیوی کی رضامندی کے بغیر اس سے جماع کرتا ہے تو وہ بھی زنابالجبر کا مجرم قرار دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ حدزنا آرڈیننس کی دفعہ 6 سے اس قانون کو یہاں منتقل کیا گیا ہے اور وہاں زنا بالجبر کی تعریف میں شوہربیوی کا استثنا موجود ہے جسے یہاں عمداً حذف کردیا گیا ہے۔

یہ ترمیم اسی مطالبے کی بازگشت ہے جو مغربی حقوقِ نسواں اور این جی اوز کی پروردہ عورتیں کافی عرصہ سے کررہی ہیں اور چند ماہ قبل پیپلز پارٹی کی ایک رکن ِقومی اسمبلی کا یہ مطالبہ قومی اخبارات میں شائع بھی ہوچکا ہے۔یہ تو روشن خیال اور مغرب نواز لوگوں کا مطالبہ ہے جس کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی پڑھ لیجئے کہ
(إذا دعا الرجل امرأته إلی فراشه فأبت فباتَ غضبان علیها لعنتها الملائکة حتی تصبح) 2
''جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے اور شوہر اس سے ناراضی کی حالت میں رات بسرکرے تو فرشتے ایسی بیوی پر صبح ہونے تک لعنتیں بھیجتے رہتے ہیں۔''

اس ترمیم کے خلاف ِاسلام ہونے میں کسی شخص کو معمولی سا شک وشبہ بھی نہیں ہوسکتا۔

(4) اوپر درج کردہ ترمیم کو صورت نمبر 5کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا نتیجہ یہ بھی نکلتاہے کہ 16 برس سے کم عمر کی لڑکی کا ہرزنا، زنابالجبر قرار پائے گا۔ یاد رہے کہ زنا بالجبر کی صورت میں عورت سزا سے مستثنیٰ ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ 16 برس سے کم عمرکی ہر لڑکی زنا کی سزا سے مستثنیٰ قرار پائے گی۔ اس ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بل کے آخر میں درج کردہ 'بیانِ اغراض ووجوہ' کا پیرا نمبر 14 ملاحظہ ہو :
''عصمت دری کاالزام لگانے کے لئے عورت کی مرضی [مرد کے] دفاع کے طورپر استعمال کی جاتی ہے۔ یہ انتظام کیا جارہا ہے کہ اگرعورت کی عمر 16 سال سے کم ہو تو مذکورہ مرضی کو دفاع کے طورپر استعمال نہ کیا جائے۔''

یہ ترمیم بھی خلافِ اسلام ہے کیونکہ اسلام نے زنا کی سزا کو عمر کی بجائے جسمانی بلوغت کی علامتوں کے ساتھ منسلک کیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2470میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا واقعہ بھی موجود ہے۔(ii)

ایسے ہی یہ ترمیم خلافِ قانون بھی ہے کیونکہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 83 کی رو سے 7 تا 12 برس کا بچہ؍بچی فوجداری جرم کی مسئولیت سے مستثنیٰ ہے، اس سے بڑی عمر کے بچے کو یہ رعایت حاصل نہیں۔ پھر زنا کے جرم کو ایسا کیا خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ عورت کو 16برس تک زنا کے جرم سے چھوٹ دے دی جائے؟ یوں بھی زنا کا تعلق بنیادی طورپر ذہنی بلوغت کی بجائے جسمانی بلوغت سے ہے جو مختلف وجوہ کی بنا پر مختلف عمروں میں حاصل ہوتی ہے۔ اس کی ایک عمر مقرر کردینے کانتیجہ یہ نکلے گا کہ 16 برس سے کم عمر بالغ لڑکیوں کے جانے بوجھے زنا کے ارتکاب کے باوجود قانون ان پر گرفت نہیں کرسکے گا !!

اس ترمیم کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لڑکیوں کو16 سال تک زنا کے جرم سے چھوٹ ملنے کے بعد بچوں میں بدکاری پھیل جائے گی، اور ایسی بری عادات کا شکار بچے مستقبل میں بھی جنسی بے راہ روی کا شکار رہیں گے۔ اس امر سے بھی کسی کو مجالِ ا نکار نہیں کہ 16 سال سے کم عمر لڑکیاں اپنی رضامندی سے جنسی فعل کی مرتکب ہوتی ہیں جیسا کہ لاس اینجلس ٹائمز کی 4؍مارچ 2005ء کی رپورٹ میں اسی شہر کے چھٹی کلاس کے طلبہ وطالبات کا ایک سروے شائع کیا گیا تو 70 فیصد بچے جنسی بے راہ روی کے مرتکب پائے گئے۔ ایسے ہی آئے روز سکولوںکی طالبات کے حاملہ ہونے کی خبریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔

(6) قومی اسمبلی میں منظور ہونے والے بل کی شق نمبر5 کے ذریعے زنا بالجبر کو تعزیراتِ پاکستان میں (دفعہ 375 کے تحت) شامل کردیا گیا ہے۔ اسلام کی رو سے زنا رضامندی سے ہو یا زبردستی سے، ہردو کو زنا ہی کہا جاتا ہے۔ شریعت ِاسلامیہ نے زنا کو رضا اور جبر کی بجائے شادی شدہ او رغیرشادی شدہ میںتقسیم کیا ہے۔ جس طرح زنا کے بعض کیسوں میں عورت کو قتل بھی کردیا جاتا ہے لیکن زنا بالقتل جرم وسزا کی کوئی اصطلاح نہیں، اسی طرح زنا بالجبر بھی اسلامی شریعت کی کوئی اصطلاح نہیں ہے۔ زنا جیسے بھی ہو، اس کے لئے کتاب وسنت میں حدود اللہ بیا ن کردی گئی ہیں، چنانچہ زنا بالجبر کی نئی اصطلاح وضع کرکے فعل زنا کی بعض واقعاتی صورتوں کو حدود اللہ سے نکالنا خلافِ اسلام ہے۔فعل زنا کی تمام صورتوں کو حدود آرڈیننس میں ہی ہونا چاہئے۔ حدود آرڈیننس سے زنا کی سزا کو نکالنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جبری زنا کی صورت میں زنا کی شرعی حد کی بجائے صرف تعزیری سزا ہی دینا ممکن ہوگا۔ یہ امر خلافِ اسلام ہے کہ فعل زنا کی سزا حد کی بجائے محض تعزیری بنا دی جائے !

(7) بل کی شق نمبر 5 کے ذریعے تعزیراتِ پاکستان میں شامل کی جانے والی دفعہ 376 میں زنابالجبر کی سزا کو سزائے موت قرار دیا گیا ہے۔اسلام میں عورت سے جبری زنا ہو تو اس صورت میں بھی زانی کی سزا موت نہیں بلکہ کنوارے کے لئے 100 کوڑےعلاقہ بدری اور شادی شدہ کے لئے سنگساری کی سزا ہے۔ موطأ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ودیگرکتب ِحدیث میں حضرت ابو بکر صدیق ؓکے دور کا مشہور واقعہ موجود ہے کہ
''ایک شخص نے حضرت ابو بکرؓ کو شکایت کی کہ اس کے مہمان نے اس کی بہن سے جبراً زنا کا ارتکاب کیا ہے۔آپؓ نے اس سے تفتیش کی تو اس نے اعتراف کرلیا۔حضرت ابو بکرؓ نے اسے 00 1کوڑے لگائے او رایک برس کے لئے فدَک کے علاقے میں جلاوطن کردیا۔ اور عورت کو نہ تو کوڑے لگائے، نہ ہی جلاوطن کیا کیونکہ زانی نے اسے مجبور کیا تھا۔( ایک سالہ جلاوطنی کے بعد) حضرت ابو بکرؓ نے زانی کو حکم دیا کہ اب اسی عورت سے نکاح کرو۔'' 3

ایسا ہی ایک واقعہ صحیح بخاری اور دوسری کتب ِ حدیث میں حضرت عمرؓ فاروق کے دور کا بھی موجود ہے جب خلیفہ عمرؓفاورق نے جبری زنا کرنے والے مرد کو کوڑوں کی سزا دی۔

اگر زنا بالجبر کی سزا موت ہوتی تو پھر ابوبکر صدیق ؓزانی کو مجبور عورت سے نکاح کرنے کا حکم کیونکر دے پاتے؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زنا بالجبر کی سزا موت قرار دینا خلاف ِاسلام ہے۔

جن لوگوں کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں جبری زنا کی سزا بیان نہیں ہوئی، وہ سورة النور میں زنا کی سزائوں کے بعد اسی سورہ کی اگلی آیات کو نظر انداز کردیتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے جبری زنا کی شکار عورت کو زناکی سزا سے مستثنیٰ کردیا ہے :
وَمَن يُكْرِ‌ههُّنَّ فَإِنَّ ٱللَّهَ مِنۢ بَعْدِ إِكْرَ‌ٰ‌هِهِنَّ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣٣...سورۃ النور
''اور جواِن خواتین پر زبردستی کرے تو اللہ تعالیٰ ان کی زبردستی کے بعد (ان خواتین کو)بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔''

اسلام کی رو سے مجبور عورت کا محض یہ دعویٰ کرلینا کہ اس سے جبر ہوا ہے، اور اس دعویٰ کی قرائن سے تصدیق ہوجانا عورت کی بریت کے لئے کافی ثبوت ہے۔ ایسی صورت میں مجبور عورت کو زنا کے الزام میں سزا دینا، اور پولیس کااُ نہیں جیلوں میں ڈال دینا نہ صرف فرامین نبویؐ کی صریح خلاف ورزی بلکہ عدالت ِعالیہ کے فیصلوں اور وفاقی شرعی عدالت کے احکامات کی توہین کے مترادف ہے۔

 زنا بالجبر کو ایک طرف تعزیرات میں ڈال کر اس کی شرعی سزا (حد) کا خاتمہ کیا گیا ہے تو دوسری طرف زنا کے شرعی نصابِ شہادت کو بدل کر زنا بالجبر کو عام قانونِ شہادت کے تابع کردیا گیا ہے جس کے بعد زنا بالجبر کے ملزم مرد کو سزا دینے کے لئے چار گواہوں کی ضرورت نہیں رہی اور عورت بھی اس کی گواہ بن سکتی ہے۔ یہ امر بھی خلافِ اسلام ہے کہ زنا کے شرعی طریقۂ ثبوت کو بدل دیا جائے اور قرآنی آیات اور فرامین نبوی کے باوجود زنا کے سلسلے میں عورت کو گواہی کیلئے گھسیٹا جائے، مزید تفصیل کے لئے محدث کا شمارئہ اگست ملاحظہ کریں۔ 4

(7) تحفظ ِخواتین بل میں خلافِ اسلام امر یہ بھی ہے کہ اقدامِ زنا، مبادیاتِ زنا یا بوس وکنار وغیرہ کی تعزیرات ؍ سزائیں منسوخ کردی گئی ہیں۔جبکہ حدود آرڈیننس 1979ء میں نہ صرف ان جرائم کی سزائیں بھی مقرر کی گئی تھیں بلکہ اس کی دفعہ 20 کی شق اوّل میں یہ بھی قرار دیا گیا تھا کہ اگر عدالت کو بعض دیگر ایسے چھوٹے موٹے جرائم کا علم ہوجائے جو اس کے دائرئہ اختیار میں ہوں تووہ ان کی سزا بھی سنا سکتی ہے۔ لیکن موجودہ بل نے نہ صرف اس دفعہ20 بلکہ حدود آرڈیننس میں درج دیگر سزائوں مثلاً سرعام فحاشی، برہنہ کرنا یا اقدامِ زنا وغیرہ کو بھی ختم کردیا ہے۔ نامعلوم اس سے عورتوں کو تحفظ دیا جارہا ہے یا ان کے خلاف جنسی جارحیت کی ترغیب دی جارہی ہے ؟

طرفہ تماشا ہے کہ اس ملک میں اقدامِ قتل کی سزا تو موجود ہے تو لیکن اقدامِ زنا کی کوئی سزا موجود نہیں جبکہ اسلام نے اگر زنا کو حرام قرار دیا ہے تو اس کے مبادیات اور اس کی طرف لے جانے والے مراحل بھی ممنوع کردیے ہیں۔ سید المرسلین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اجنبی مرد عورت کی خلوت کو حرام قرار دیا 5

بلکہ یہاں تک فرمایا :
(العینان تزنیان والیدان تزنیان والرِّجلان تزنیان ویحقّق ذلك الفرج أو یکذبه) 6
''آنکھیں بھی زناکرتی ہیں، ہاتھ او رپائوں بھی۔ اور شرمگاہ اس (زنا) کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔'' یعنی اسے پایۂ تکمیل تک پہنچاتی یا ردّ کردیتی ہے۔

ایسے ہی دوسرے کے گھر میں جھانکنے پر اگر کوئی شخص اس کی آنکھ پھوڑ دے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آنکھ کے ضیاع کو رائیگاں قرار دیا ہے۔ 7

اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی نظر میں صرف زنا ہی اکیلا جرم نہیں بلکہ دوسروں کے حَرَم (قابل احترام جگہ یا خواتین) سے نظربازی کرنا بھی سنگین جرم ہے۔

(8) پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے بل میں خلاف ِاسلام شق یہ بھی ہے کہ اسکے ذریعے حدود اللہ کی دیگر قوانین پر برتری کو ختم کردیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ حدزنا آرڈیننس 1979ء کی شق نمبر3 کے ذریعے ان قوانین کو دیگر تمام قوانین پر برتری دی گئی تھی جسے حالیہ بل کی ترمیم نمبر12 نے ختم کردیا ہے۔ یہ اقدام بھی اسلام سے کھلا انحراف ہے کیونکہ قرآن کا واضح حکم ہے :
فَلَا وَرَ‌بِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ‌ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَ‌جًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥...سورۃ النساء
''اے نبیؐ!تیرے ربّ کی قسم،یہ لوگ کبھی بھی ایمان والے نہیں بن سکتے حتیٰ کہ آپ کے فیصلوں کودل وجان سے تسلیم نہ کرلیں،پھر ان کے دلوں میں اس پر کوئی خَلش باقی نہ رہ جائے جو آپ نے فیصلہ فرما دیا ہے۔ اور یہ اس کو صمیم قلب سے تسلیم کریں۔''

مذکورہ بالامنسوخی دستورِ پاکستان کے بھی خلاف ہے۔کیونکہ یہ ترمیم دستورِ پاکستان1973ء کی شق نمبر 227؍ اے سے بھی متصادم ہے جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ
''تمام موجودہ قوانین کو اسلام کے احکام... جیسے کہ وہ قرآنِ حکیم اورسنت ِرسول میں بیان ہوئے ہیں...کے مطابق بنایا جائے گا۔ دستور میں جس طرح اسلام کے احکام کا حوالہ دیا گیا ہے، ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو اسلام سے متصادم ہو۔''

کتاب وسنت پرمبنی قوانین کی برتری کے خاتمہ کی مذموم کوشش اس حلف کے بھی مخالف ہے جسے پاکستان کا ہرصدر، وزیر اعظم، وفاقی وزرا، سپیکر ،ڈپٹی سپیکر، چیئرمین سینٹ، صوبائی گورنرز او رجملہ اراکین ِاسمبلی وسینٹ اپنے عہدہ کے آغاز میں اُٹھاتے ہیں۔ 1973ء کے آئین کے شیڈول 3 میں اس حلف کے یہ الفاظ موجود ہیں کہ''میں حلف اُٹھاتا ہوں کہ میں اسلامی نظریہ کے تحفظ کی ضرور بھرپور جدوجہد کروں گا جو کہ قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے۔''

قابل غور امریہ ہے کہ قرآن وسنت سے صریح متصادم ایسی قانون سازیوں کے بعد مملکت کے ان اہم ترین عہدوں پر فائز حضرات کیا اپنے حلف سے منحرف تونہیں ہوگئے؟ کیا ایسے بل کو منظور کرکے اُنہوں نے دستورِ پاکستان کی خلاف وزری کا ارتکاب تونہیں کیا اور سب سے بڑھ کر، قرآن وسنت کے فیصلوں کو نہ ماننے والے اللہ کے واضح فرمان کے مطابق کیا دائرئہ اسلام سے ہی خارج تو نہیں ہوگئے؟ ... ان سوالات کا جواب قوم کو خودتلاش کرنا چاہئے!!

(9) حدود اللہ کی برتری کی یہ دفعہ محض تبرک یا تقدس کے حصول کے لئے نہیں تھی بلکہ اس کی عملاً ضرورت تھی جس کے خاتمے کے لئے یہ سنگین اقدام کیا گیا ہے۔تفصیل ملاحظہ فرمائیے

تحفظ ِخواتین بل کے بعدزنا کے بارے میں بیک وقت تین ضوابط وجود میں آگئے ہیں :
(1) 'زنا بالجبر' سزا: موت یا 25 برس قید (بحوالہ ترمیم نمبر5)
(2) 'زنا' سزا:زیادہ سے زیادہ 5 سال قید (بحوالہ ترمیم نمبر7 و 9 کا جدول8)
یہ دونوں قوانین مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں رکھے گئے ہیں اور تیسرا حدود آرڈیننس میں:
(3) 'زنا'پربظاہر شرعی سزائیں، شادی شدہ کو سنگساری اور کنوارے کو 100 کوڑے+ جلاوطنی (حدود آرڈیننس کی دفعہ نمبر5 کو بحال رکھنے کی بنا پر)

آئیے غور کریں کہ ایک ہی جرم (یعنی' زنا') کے لئے تین سزائیں رکھنے سے مقصد کیا ہے؟ اس کا پہلا مقصد تو یہ ہے کہ یہ دعویٰ کیا جائے کہ ہم نے شرعی سزائیں منسوخ نہیں کیں اور زنا کی 5 سال سزا کا دعویٰ کرنے والوں کو جھٹلایا جائے کہ ایسا نہیں بلکہ اس کی تو شرعی سزا موجود ہے۔اسی لئے زنا کی نئی وضع کردہ سزا(5سال قید) کوبل کے اُردو متن میں عمداً چھپا دیا گیا ہے اور پورے بل میں اس کا سراغ محض ترمیم 9 کے جدول ہشتم کے ذریعے ملتاہے۔

شرعی نقطہ نظر سے یہ تینوں جرائم دراصل زنا ہی کی تین صورتیں ہیں۔ 'زنا بالجبر' کے نام پر زنا کی بعض صورتوں کو شرعی سزائوں سے نکال لینا خلافِ اسلام ہے۔ پھر 'زنا' کی تعریف ''غیر منکوحہ سے رضامندی سے جنسی تعلقات قائم کرنا''سے مراد دراصل زنا بالرضا ہے جس کی سزا پانچ سال قید ہے۔ اب زنا کی تیسری یعنی شرعی سزا کو معطل رکھنے کے لئے حدود آرڈیننس کی برتری کی شق منسوخ کردی گئی ہے جس کے بعد زنا کی شرعی سزا کی حیثیت محض نمائشی رہ جاتی ہے۔

علاوہ ازیں ایک ہی جرم پر سزائوں میں یہ تفاوت متضاد قانون سازی کو بھی جنم دے رہا ہے لہٰذا قابل استرداد ہے۔ مثال کے طورپرتعزیراتِ پاکستان میں مندرج زنا (بالرضا) کی رو سے شادی شدہ مرد کے زنا کی سزا محض 5 سال قید ہے جبکہ حدود آرڈیننس کی رو سے اس کی سزا سنگساری ہے۔ دونوں سزائوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اب عملاً زنا کی سزا حدود آڑڈیننس کی بجائے تعزیراتِ پاکستان کے مطابق ہی ہوگی، البتہ دکھانے کے لئے شرعی سزا بھی حدود آرڈیننس میں موجود رہے گی لیکن اس کی برتر حیثیت کا خاتمہ کردیا گیا ہے جس کے بعد ایک جرم کے بارے میں دو مختلف نوعیت کے قوانین سامنے آگئے ہیں۔ اب قانون دان حلقے اپنی ذہنی وابستگی، تربیت اورعلمی صلاحیت کی بنا پر تعزیراتِ پاکستان کو ہی اختیار کریں گے اورپورا نظام اور عدالتوں کی پریکٹس بھی اسی کو تحفظ دے گی اور جاری رکھے گی۔ مزید برآں بعد میں آنے والا قانون سابقہ قوانین پر اس اعتبارسے عملی فوقیت رکھتا ہے کہ نئے پیش آمدہ حالات میں پارلیمنٹ نے ا س قانون کو مناسب خیال کیا ہے، اِلایہ کہ سابقہ قانون میں برتری کی کوئی خصوصی شق موجو د ہو۔

بعض حضرات کے نزدیک اگر حدود قوانین کی برتری برقرار رکھی جائے تو اس سے اسلام دوست جج حضرات کے لئے شرعی سزا دینا ممکن ہوجاتا ہے، لیکن یہ محض سادہ لوحی ہے کیونکہ اس مضمون کے آخرمیں 'قانون کے اجرا کے طریقہ کار'پر اگر ایک نظر ڈال لی جائے تو معلوم ہوگا کہ شرعی سزا کے اجرا کے ضمن میں بھی ایسی قانون سازی عمل میں لائی جا چکی ہے کہ عملاً حد کی شرعی سزا دینا کسی صورت ممکن نہیں رہتا۔تفصیل آگے ملاحظہ فرمائیے!

(10) جیسا کہ پیچھے ذکر ہوچکا ہے کہ حدود اللہ میں کوئی ترمیم وتخفیف یا معافی نہیں دے سکتا۔ اسی لئے حد زنا آرڈیننس 1979ء کی دفعہ 20 کی شق 5 کے ذریعے حدود آرڈیننس میں درج جرائم کو ضابطہ فوجداری کے ان جرائم سے مستثنیٰ کردیا گیا تھا جن میں صوبائی حکومت(iii)، صدر یا کرسی اقتدار پر موجود شخص معافی دے سکتا ہے۔لیکن حالیہ تحفظ ِخواتین بل کی ترمیم نمبر 18 کے ذریعے حدود آرڈیننس کی اس شق کو حذف کردیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی ملزم قانونی گنجائشوں کی اس قدر لمبی چوڑی تفصیلات کے باوجود اس قدر' بدقسمت' ہے کہ اسے حدود اللہ کے تحت سزا سنا ہی دی گئی ہے تو زیادہ پریشانی کی بات نہیں، کیونکہ عام جرائم کی طرح اس کی سزا کو کوئی بھی مجاز اتھارٹی معاف کرسکتی ہے۔ ایک طرف حدود اللہ میں ترمیم کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اختیار نہیں تو دوسری طرف آپؐ کا ایک ادنیٰ اُمتی بے دھڑک آپ سے بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ اس بات کو خلافِ اسلام سمجھنے یا قرار دینے کے لئے کسی گہری سمجھ بوجھ کی ضرورت نہیں!

یہ تو حدود اللہ کی معافی کی بات ہے، اگر معاملہ زنا بالجبر کا ہے جو پہلے ہی تعزیراتِ پاکستان میں شامل کیا جاچکا ہے تو وہاں آئین پاکستان کی شق 45 کے تحت صدر کو سزا میںترمیم یامعطلی اور معافی کی کھلی گنجائش موجود ہے۔ غور کریں کہ اس سے زنا بالجبر کی سزا میں اضافہ کیا جارہا ہے یا اس میں تخفیف ہورہی ہے کہ اس کے مجرم کو معافی ملنے کا امکان پیدا کردیا گیا ہے؟

(11)تحفظ ِخواتین بل 2006ء کی ترمیم نمبر 8 ملاحظہ فرمائیے:
(203؍الف) ''عدالت کا افسر صدارت کنندہ فوری طورپر مستغیث اور جرم کیلئے ضروری دخول کے فعل کے کم ازکم چارچشم دید مسلمان بالغ مرد گواہوں کی حلف پرجانچ پڑتال کرے گا۔''

اسلام کی رو سے فعل زنا کے گواہ مستغیث کے علاوہ چار نہیں ہوتے بلکہ وہ خود بھی گواہوں میں شامل ہوسکتا ہے جبکہ اس بل کے ذریعے مدعی کے علاوہ چار گواہوں کا مطالبہ کیا جارہا ہے، یہ بات بھی خلافِ اسلام ہے۔

مزید برآں اسلام کی رو سے زنا کی سزا محض زانی یا زانیہ کے اعتراف پر بھی دی جاسکتی ہے لیکن نئے مسودئہ قانون میں اس کو سرے سے نکال ہی دیا گیا ہے، یہ بات بھی خلافِ اسلام ہے۔ دورِ نبوی میں کئی سزائیں گناہگاروں کے محض ذاتی اعتراف پر دی گئیں، ایسی صورت میں مزید کسی بھی گواہی کی ضروررت نہیں ہے۔ یہ دونوں باتیں بھی صریحاً خلافِ اسلام ہیں۔

اب ایک نظر اُن ترامیم پر بھی جوحدِ قذف آرڈیننس میں کی گئی ہیں:
(12) جس طرح حد زنا آرڈیننس کی برتری دیگر قوانین پر ختم کردی گئی ہے جس کا تذکرہ پیچھے 8 نمبرکے تحت گزر چکا ہے، اسی طرح تحفظ ِخواتین بل کی ترمیم نمبر 28 نے حد قذف آرڈیننس 1979ء کی دفعہ نمبر19 کو منسوخ کرکے دوسرے قانون پر اس کی برتری کو بھی ختم کردیا ہے جبکہ اسلامی قانون کی برتری کی منسوخی اسلام اور دستورِ پاکستان سے کھلا اِنحراف ہے۔

(13) قذف آرڈیننس 1979ء کی دفعہ نمبر 14 لِعَان کے طریق کار کے بارے میں ہے جس کی دفعہ نمبر3 کی روسے لعان کی کاروائی کو معطل کرنے والے مرد کو سزاے قید تجویز کی گئی ہے۔ اب تحفظ ِخواتین بل کی ترمیم نمبر 25 نے اس دفعہ کو منسوخ کردیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلے گاکہ اگر شوہر بیوی پر لعان کی کاروائی شروع کرکے ، اسے مکمل نہ کرے تو بیوی معلق رہے گی، نہ تو لعان کے ذریعے اپنی بے گناہی ثابت کروا سکے اور نہ ہی اپنا نکاح فسخ کرا سکے۔

اس بل سے ایک طرف خواتین کے تحفظ کی بجائے ان پر ظلم ہورہا ہے تو دوسری طرف اسلام کے تصورِ لعان کو بھی معطل کیا جارہا ہے۔ اسلام نے ایسے شوہر کو جو بیوی پر الزامِ زنا لگائے اور لعان کی کاروائی شروع کرلے، تواسے پابند کیا ہے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچا ہے تو پھر شرعی ضابطہ پورا کرے۔ اب مرد عورتوں پر الزام تراشی کرتے رہیں گے لیکن شرعی ضابطہ پورا نہیں کریں گے... کیا ایسی صورت میں بیوی کو معلق رکھنے سے تحفظ حاصل ہوگا یا وہ عدمِ تحفظ کا شکار رہے گی۔ ویسے بھی یہ صورت شریعت ِاسلامیہ سے متصادم ہے۔

ایک طرف توحد قذف آرڈیننس کی دفعہ6 میں شق 2 کا اضافہ کرکے کے قذف کے مجرم کو فوری طورپر سزا دلوانے کی ترمیم لائی جارہی ہے تو دوسری طرف شوہر کے بیوی پر الزامِ زنا لگانے کی صورت میں سابقہ قانون میں موجود تادیبی کاروائی (قید) کو ہی منسوخ کرکے لعان کے شرعی طریقہ کار کو معطل کیا جارہا ہے تاکہ کسی طرح شرعی ضوابط رو بہ عمل نہ آسکیں۔

(14) لعان کے اسی قانون یعنی دفعہ 14 کی شق نمبر 4 کے الفاظ یہ ہیں کہ
''جو بیوی شوہر کے الزام کو سچ تسلیم کرلے تو اس پر زنا کی شرعی سزا جاری ہوگی۔''

لیکن تحفظ ِخواتین بل نے اس شق کو بھی منسوخ کردیا ہے۔ اسلام کی رو سے اگر کوئی زنا کا اعتراف کرلے تو اس پر حد کی سزا جاری ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی ۔ لیکن یہاں بیوی کے اعتراف کے باوجود اس پر حد کی زنا کو منسوخ کردینا اسلام سے صریح روگردانی ہے۔

اسلام میں لعان کے قانون کا تعلق درحقیقت الزامِ زنا سے ہے،اس لئے یہ فوجداری جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی بنا پر اس کو حدود آرڈیننس میں رکھا گیا تھا لیکن تحفظ حقوقِ نسواں بل کی آخری ترمیم نمبر29 کے ذریعے لعان کو حدود آرڈیننس سے نکال کر قانونِ انفساخِ ازدواجِ مسلمانان 1939ء کی دفعہ نمبر7 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت کردیا گیا ہے، اور اغراض ووجوہ میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ''لعان محض تنسیخ نکاح کی ایک صورت ہے جس کے ذریعے کوئی عورت اپنے شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کرسکتی ہے۔'' واضح رہے کہ لعان کی صورت میں عورت کے اعتراف کو حذف کرینے کی وجہ بھی یہی غلط تصور ہے تاکہ اعتراف کی شکل میں زنا کی حد کا کوئی جواز باقی نہ رہے۔یہ تصور اور ترمیم بھی اسلامی قانون کی روح سے منافی ہے !

خلاصہ:تحفظ ِنسواں بل میں خلاف ِاسلام ترامیم کی فہرست بمعہ حوالہ جات
(1) زنا کی شرعی سزاکو بدل کر 5سال قید اور 10 ہزارروپے جرمانہ کرنا خلافِ اسلام ہے،کیونکہ حدود اللہ میں ترمیم وتخفیف کا اختیار اللہ تعالیٰ نے روئے کائنا ت میںکسی کو بھی نہیں دیا۔ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں۔ [ ترمیم نمبر 7 میں شق نمبر496 ب میں زنا کی تعریف درج ہے، انگریزی مسودہ میں اس کی سزا ساتھ ہی درج ہے جبکہ اُردو مسودہ میں غائب کردی گئی ہے۔ البتہ ترمیم نمبر9 کے جدول ہشتم میں اس جرم کی سزا والے خانہ نمبر7 میں اس کی سزا 5سال قید اور 10 ہزار جرمانہ موجود ہے ۔ زنا کی یہ سزا خلافِ اسلام ہے کیونکہ قرآن نے سورة النور کی آیت 2 میں زنا کی سزا 100 کوڑے یا رجم قرار دی ہے]

(2) زنا کی تہمت کی سزا 5سال قید اور 10 ہزار روپے جرمانہ کرنا بھی حدود اللہ میں ترمیم ہے جو خلافِ اسلام ہے۔ [ ترمیم نمبر 7 میں شق نمبر496 ج کے تحت زناکے الزام کی سزا درج ہے، لیکن سورة النور کی آیت نمبر4 میں یہ سزا 80 کوڑے ذکر ہوئی ہے ]

(3) دفعہ 375 میں زنا بالجبر کی ذکر کردہ تعریف کی رو سے بیوی کی مرضی کے بغیر جماع کرنا بھی زنا بالجبر قرار پاتا ہے جو صریحاً خلافِ اسلام ہے۔

(4) 16 برس سے کم عمر لڑکی کے ہرزنا کو زنابالجبر کا نام دیکر اس کو سزا سے مستثنیٰ کرنا خلافِ اسلام و قانون ہے۔[ترمیم نمبر5، دفعہ نمبر 375اور شق نمبر 5میں 16 برس تک لڑکی کو سزا سے مستثنیٰ کیا گیا ہے جبکہ اسلام میں بلوغت کے بعد لڑکا لڑکی اپنے افعال کے ذمہ دار ہیں ]

(5) زنا کی بعض صورتوں کو 'زنا بالجبر' کا نام دے کر شرعی سزا سے نکال لینا اور تعزیر میں لے آنا خلافِ اسلام ہے۔ایسے ہی زنا کو شادی شدہ کی بجائے زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں تقسیم کرنا غیراسلامی ہے۔[ ترمیم نمبر5 کی پہلی سطر سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا بالجبر کو دفعہ 375،376 کے تحت حدود آرڈیننس سے نکال کر مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں لے جایا گیا ہے]

(6) زنا بالجبرکی سزا موت قرار دینا خلافِ اسلام ہے۔ [دفعہ 376 کے تحت زنا بالجبر کی سزا میں سزاے موت کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے، زنا کی سزا یا تو 100 کوڑے ہے یا سنگساری، شریعت نے سزاے موت سزا نہیں رکھی۔پھر زنا بالجبر کے طریقۂ شہادت میں تبدیلی بھی درست نہیں!

(7) حدود آرڈیننس سے اقدامِ زنا یا مبادیاتِ زنا کی سزائوں کی منسوخی غیر اسلامی ہے۔ [ترمیم نمبر16 نے حدود آرڈیننس کی دفعات10 تا 16 اور 18،19 کو منسوخ کردیا جس میں اقدام زنا یا مبادیات زنا کی سزا دی گئی تھی، اب پبلک مقامات کے ماسوا فحاشی، اور دو غیرمنکوحہ مرد وزن کا رضامندی سے برہنہ ہونا وغیرہ پرسزا موجود نہیں رہی]

(8) حدود اللہ کی دیگر قوانین پر برتری کا خاتمہ اسلام سے بغاوت، دستور سے انحراف اور اراکین پارلیمنٹ کی اپنے حلف سے غداری ہے۔ [ترمیم نمبر11 نے حدود آرڈیننس کی دفعہ 3 کو منسوخ کردیا، اب دیگر قوانین سے اختلاف کی صورت میں اسلامی قانون کو نظرانداز کردیا جائے گا۔ یہ بات ہمارے حلف، آئین ، قرارداد مقاصد اور اسلام کے مخالف ہے]

(9) زنا کی شرعی سزا صرف نمائشی ہے، متوازی اور متضاد قانون سازی کے بعد اس پرعمل ہونا ممکن نہیں۔[زنا کے بارے میں تین قوانین ہیں اور تینوں کی سزائیں مختلف ہیں۔ حدود آرڈیننس (دفعہ 5) کی رو سے شادی شدہ زانی سنگسار لیکن تعزیراتِ پاکستان کی بنا پر زیادہ سے زیادہ 5 سال قید، دونوں میں تضاد ہے، زنا کی دوسری سزا کو ترجیح حاصل ہے]

(10) کتاب وسنت کی رو سے شرعی سزائوں میںکسی کو معافی کا اختیار نہیں، صوبائی حکومت اورصدرکا یہ اختیار حاصل کرنا غیراسلامی ہے۔ [ترمیم نمبر18 نے حدود آرڈیننس کی دفعہ 20 کی شق3 اور 5 منسوخ کردی ہے جس کے بعدصدر کو معافی کا اختیار مل گیا ہے۔ زنا بالجبر اور زنا بالرضا کے تعزیراتِ پاکستان میں جانے سے بھی یہ اختیارات مل گئے ہیں]

(11) زنا کے ثبوت کے لئے پانچ گواہ مقرر کرناغیر اسلامی جبکہ ملزم کے اعتراف کوبھی نکال دینا غیر اسلامی ہے۔ [ترمیم 8 میں دفعہ 203 ؍الف کی شق 2 دیکھیں]

(12) حدزنا آرڈیننس کی طرح حد قذف آرڈیننس کی برتری کا خاتمہ بھی غیر اسلامی ہے۔ [کیونکہ ترمیم نمبر 28 نے حد قذف آرڈیننس 1979ء کی دفعہ نمبر19 کو منسوخ کردیا ہے]

(13) لعان کی کاروائی مکمل نہ کرنے پر شوہر کی سزا کا خاتمہ بیوی کو معلق چھوڑ دیتا ہے جو صحیح نہیں !

(14) ''لعان کی صورت میں بیوی کا اعتراف اس پر شرعی حد عائد کردیتا ہے۔'' اس شق کا خاتمہ خلافِ اسلام ہے۔ [ترمیم نمبر25 جس نے قذف آرڈیننس کی دفعہ 14 کی شق 3 اور 4 منسوخ کردی ہیں] ایسے ہی قانونِ لعان کو قذف آرڈیننس سے خارج کرنا درست نہیں۔

قانون کے اِجرا کا ناقابل عمل طریقہ کار
اگرمذکورہ بالا تمام خلافِ اسلام ترامیم کو درست بھی کردیا جائے تب بھی تحفظ ِخواتین بل میں ان جرائم کی سزاکے طریقہ کار میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں جس کے بعد عملاً معاشرے میں زنا کی روک تھام ناممکن ہوگئی ہے، اس لئے یہ بل ناقابل اصلاح ہے۔ قانون کے اجرا کی بعض تفصیلات حسب ِذیل ہیں:
زیر نظر بل کے ذریعے تعزیراتِ پاکستان میں مزید 9 جرائم (365ب،367؍الف ،371؍ الف وب،376،493؍الف، 496؍الف، ب، ج) کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ حدود آرڈیننس کے محض دو جرائم (زنا آرڈیننس کی دفعہ5 اورقذف آرڈیننس کی دفعہ 7) باقی رکھے گئے ہیں۔ گویا کل 11 جرائم ہوئے۔ اب جن جرائم کی سزا دینا مطلوب ہے، اُنہیں تو پولیس کے دائرئہ عمل میں رکھ دیاگیا ہے اور وہ ہیں تعزیراتِ پاکستان کے7جرائم۔ اورجن جرائم کی محض نمائش مقصود ہے یعنی باقی ماندہ 4 جرائم، اُنہیں پولیس کی ذمہ داری سے نکال لیا گیا ہے۔ اگر معاشرے میں ان کا کوئی ارتکاب کرے تو پولیس کو کوئی اختیار حاصل نہیں کہ اُنہیں روک سکے اور پکڑ کر عدالت میں پیش کرے۔ اگر کسی شہری کو ان پر تکلیف ہے تو وہ بھی اُنہیں روکنے کی بجائے صبح ہونے کا انتظار کرے اور د فتری اوقات میں جاکر عدالتوں میں شکایت درج کرائے۔ اس خصوصی رعایت کے مستحق چار جرائم حسب ِذیل ہیں جن میں حدود آرڈیننس والے دونوں جرائم بھی شامل ہیں :
(1) شرعی حد والا جرمِ زنا c زنا بالرضا (زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید )
(2) شرعی حد والا جرمِ قذف d زنابالرضا کی جھوٹی تہمت (ایضاً)

یاد رہے کہ زنا بالجبر کی سزا دینے میں حکومت کو دلچسپی ہے کیونکہ عورت اس میں سزا سے مستثنیٰ ہے، اسلئے اس کو پولیس کی ذمہ داری میں برقرار رکھا گیا ہے اور اس کا مجرم مرد بلا وارنٹ گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔ ان تفصیلات کیلئے بل کی ترمیم نمبر9 کے جداول ملاحظہ فرمائیں۔

جرائم میں مذکورہ بالا امتیاز کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ معمولی جرائم مثلاً پتنگ بازی وغیرہ کی روک تھام وغیرہ تو پولیس کی ذمہ داری رہے گی لیکن زنا بالرضا اور بدکاری کی شرعی سزائوں وغیرہ سے پولیس کو کوئی سروکار نہ ہوگا۔ اگر کسی شخص کو ان جرائم پر تکلیف ہے تووہ شکایت کنندہ بن کرعدالت کی فیسیں بھرے اور'جرم کے خاتمے کے لئے' انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائے۔

یہاں چندمزید نکات خصوصیت سے قابل ذکر ہیں :
(1) اسلام کی رو سے یہ تمام جرائم 'سنگین معاشرتی جرائم' ہیں اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ جرائم کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرے لیکن اس بل کے ذریعے ان جرائم پرگرفت کو محض کسی فرد کی شکایت تک محدود کردیا گیاہے گویا کہ اگر کوئی شکایت نہ کرے تو ان جرائم کے وقوع پر ریاست کو کوئی پریشانی لاحق نہیں۔یہ تصور صریحاً خلاف ِاسلام ہے کیونکہ قرآنِ کریم نے امر بالمعروف ونہی عن المنکرکو مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ 8

(2) عدالتوں کے اوقات تھانوں کے برعکس کافی محدود ہوتے ہیں ، ان کو مختلف نوعیت کی تعطیلات بھی ہوتی ہیں، جبکہ مجرمان پہلے ہی جرم کے ارتکاب کے لئے مناسب وقت کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایسے ہی تھانوں کے برعکس سیشن عدالتیں ضلع بھر میں ایک ہی ہوتی ہیں، پنجاب کے بعض اضلاع 100 میلوں سے بھی زیادہ وسیع ہیں، عدالتوں میں مقدمات کی کثرت بھی اکثر طوالت اور گواہی میں تاخیر کا سبب بن جاتی ہے۔ ان زمینی حقائق کی بنا پرکسی شخص کا میلوںسفر کرکے عدالتوں میں فوری شکایت درج کرانا گویا زنا کے اندراج کو عملاً ناممکن بنانا ہے۔

یوں بھی وقوعہ پر پولیس کا چھاپہ پڑنے سے کئی واقعاتی شہادتیں حاصل ہوجاتی ہیں اور طبی قرائن بھی مل جاتے ہیں،تاخیر کی صورت میں جن کے ضائع ہوجانے کا احتمال ہے۔ پھر وقوعہ پر پہنچنے سے مجرم پکڑنے میں بھی آسانی رہتی ہے۔ جبکہ وقوعہ انجام پا جانے کے کئی گھنٹوں بعد محض گواہوں کے بیان پر اُسے درست ثابت کرنا اور ملزمان کو قانون کی گرفت میں لانا انتہائی مشکل امر ہے۔

(3) ترمیم نمبر 8میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ ''رپورٹ ؍ شکایت کے مرحلے پر ہی مستغیث کے علاوہ چار تحریری حلفیہ گواہیاں بھی جمع کرائی جائیں۔'' قانون کے اجرا کا یہ طریقہ خلافِ ِاسلام، خلافِ قانون اور خلافِ عقل ہے۔ دورِنبویؐ کے متعدد واقعات میں زنا کی شکایتیں محض ایک شخص کے کہنے پر درج کی گئیں۔مثال کے طور پیچھے ذکر کردہ ایک واقعہ میں حضرت ابو بکرؓ کے دور میں زنا کے واقعہ کی شکایت محض اکیلے میزبان نے درج کرائی تھی۔ 9

یہ ترمیم خلافِ قانون اس طرح ہے کہ پاکستان میں اس سے بھی زیادہ سنگین جرائم مثلاً بغاوت یا قتل وغیرہ کے لئے پہلے مرحلہ پر ہی جرم کو مکمل ثابت کرنے کا تقاضا نہیں کیا جاتا، حدود قوانین کے خلاف ہی یہ امتیاز کیوںبرتا جارہا ہے ؟

اور خلافِ عقل اس لئے کہ ہر جرم کی گواہیاں اس مرحلے پر لی جاتی ہیں جب جرم کا فیصلہ کرکے مجرموں کو سزا سنانا یا بری کرنا مقصود ہو، جبکہ FIR (فرسٹ انفرمیشن رپورٹ) میں تمام گواہیاں ضروری نہیں ہوتیں۔یہ رپورٹ تو دراصل جرم کے خلاف پولیس کے کام میں معاونت ہے کیونکہ جرائم کی روک تھام اور اس کی خلاف ورزی کی شکایت کرنا دراصل پولیس ہی کی ذمہ داری ہے۔

(4) ترمیم نمبر 8 کی ذیلی دفعہ 5 (الف) کے الفاظ یہ ہیں کہ ''اگر عدالت کا افسر صدارت کنندہ مستغیث اور گواہوں کے حلفیہ بیانات کے باوجود یہ فیصلہ دے کہ کارروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہیں ہے تو وہ نالش کو خارج کرسکے گا۔'' اب ترمیم نمبر 21 کو پڑھئے کہ ''عدالت کا افسر صدارت کنندہ مجرم کو بری کرتے ہوئے اگر مطمئن ہو کہ جرمِ قذف مستوجب ِحد کا ارتکاب ہوا ہے تو وہ قذف کا کوئی ثبوت طلب نہیں کرے گا اور حد قذف کے احکامات صادر کرے گا۔''

ان ترامیم سے پتہ چلا کہ چار گواہوں کے بعد بھی زنا کے ملزم کی بریت تو جج کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے اور دوسری طرف مدعی پر از خود قذف کی سزا لاگو ہوجائے گی، اور اس صورت میں مدعی کے خلاف قذف کے کسی ثبوت یا عدالتی کاروائی کی ضرورت نہ ہوگی، محض جج کا ذاتی اطمینان ہی کافی ہوگا۔ ان ترامیم کی رو سے ایک طرف زنا کے ملزمان کو غیر معمولی تحفظ دیا جارہا اور ان کے خلاف رپورٹ کو مشکل تربنایا جارہا ہے اور دوسری طرف رپورٹ کرانیوالے پر قذف کی سزا لاگو کر نے کے لئے محض جج کا اطمینان کافی سمجھا جارہا ہے۔ اس ترمیم کا مقصد ومدعا واضح ہے، ملزم کو ظالمانہ ترجیح کس بنیاد پر اور رپورٹ کرنے والے کو ہراساں کیونکر کیا جارہا ہے؟یہ امتیاز اور ترجیح کیا اسلام اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ہے ؟

(5) تحفظ ِخواتین بل کے آخری پیرا گراف کے الفاظ ہیں کہ
''صرف سیشن کورٹ ہی مذکورہ مقدمات میں سماعت کا اختیار رکھتی ہے۔ اور یہ جرائم قابل ضمانت ہیں تاکہ ملزم دورانِ سماعت جیل میں یاسیت کا شکار نہ رہے۔ پولیس کو کوئی اختیار نہیں ہوگا کہ وہ مذکورہ مقدمات میں کسی کو گرفتار کرے۔ '' (پارلیمنٹ سے منظور شدہ مسودّہ قانون)

مزید برآں ترمیم نمبر9 میں تمام جرائم کی تفصیلات پر مبنی جدولوں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ 11 جرائم میں سے یہی آخری چار جرم ایسے ہیں جن میں وارنٹ گرفتاری جار ی نہیں کئے جائیں گے بلکہ عدالت اگر چار گواہوں کے باوجود مقدمہ کو قابل سماعت خیال کرتی ہے تو وہ ملزم کو حاضر ہونے کے سمن (اطلاع) بھیجنے پر ہی اکتفا کرے گی۔ (دیکھیں جدول ہشتم ونہم)

یہاں ملزم اورشکایت کرنے والوں کے مابین بھی عجیب امتیاز برتا جارہا ہے۔ شکایت کرنے والے وقوعہ کے خاتمے کے کئی گھنٹوں بعد،میلوں کا سفر کرکے آخر کار عدالت میں پیش ہونے میں کامیاب ہوہی جاتے ہیں۔ ساتھ میں گواہ بھی ہمراہ لئے پھرتے ہیں اور ان کی تحریری حلفیہ گواہی بھی دلوا لیتے ہیں۔ پھر جج صاحب کے صوابدیدی اختیارات سے بھی بخیر وعافیت بچ نکلتے ہیں اور جج ان پر تہمت کی سزا عائد کرنے کی بجائے بصد رعایت مقدمہ کے اندراج کا حکم دے دیتا ہے۔ تب بھی قانون کو ملزم صاحب کا اس قدر احترام دامن گیرہے کہ وہ ان کی عدالت میں حاضری یقینی بنانے کے لئے گرفتاری کے احکامات جاری کرنے کی بجائے محض سمن جاری کرنے پر ہی اکتفا کرے۔اور قابل صد احترام ملزم کی کمالِ عنایت و مہربانی کہ وہ شرافت سے عدالت میں تشریف لے آئے، وگرنہ عام طورپر تو ملزمان عدالتی سمنوں سے بڑا برا سلوک کرتے ہیں اور کئی مہینے ان کی وصولی میں ہی گزر جاتے ہیں۔

ملزم کی حاضری یقینی بنانے کے لئے عدالتیں دوسروں کی ضمانت بھی حاصل کرتی ہیں لیکن زنا کے ملزم کو یہ خصوصی استحقاق بھی حاصل ہے کہ اس سے ذاتی مچلکہ کے ماسوا مزید کسی ضمانت کا تقاضا کرنا بھی غیرقانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کے بعد کوئی بیوقوف یا انتہائی شریف، زنا کا ملزم ہی ہوگا جو قانون کے احترام میں ازخود عدالت میں حاضر ی دیتا رہے۔

(6) قانون بنانے والوں کی ذ ہنی رجحانات کی نشاندہی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ان کی نظر میں زنا بالرضا اور تہمت کی سز ا ئیں بالکل برابر ہیں یعنی زیادہ سے زیادہ 5 سال قید۔ لیکن اگر جرم کی سزا کے طریقہ کار پر غو رکیا جائے تو تہمت کی سزا زیادہ سنگین قرار پاتی ہے کیونکہ جج کے صوابدیدی اختیارات کے تحت بل میں اسے تو فی الفور نافذکرنے کا حکم دیا گیا ہے :

''تہمت کے ملزم [دراصل شکایت کنندہ اور گواہ] کو اظہارِ وجوہ کا موقع فراہم ہونے کے بعد اگر عدالتی افسر صدارت کنندہ مطمئن ہو کہ اس دفعہ کے تحت جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے تو اسے [اپنے اطمینان کے ماسوا] مزید ثبوت کی ضرورت نہ ہوگی اورفی الفور فیصلہ سنانے کے لئے کاروائی عمل میں لائے گا۔''
(ترمیم نمبر 7 کا آخری پیرا گراف)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ زنا کے ملزم کو تو سمن بھیج کربلایا جائے گا، جہاں اس کے لئے قانون سے بچنے کے مزید امکانات موجود ہیں، لیکن قذف کے مجرم کو اندراجِ مقدمہ میں ناکامی کے ساتھ ہی سزا کا 'فوری' فیصلہ سنادیا جائے گا۔

(7) یاد رہے کہ دیگر7 جرائم کے عین برعکس یہ آخری چاروں جرائم قابل ضمانت بھی ہیں اور قابل معافی بھی، اس لئے اگر کوئی ملزم اس قدر 'بدقسمت' ہے کہ آخرکار قانون کی گرفت میں آہی گیا ہے اور اسے زنا بالرضا کے جرم میں ایک دوسال کی قید ہونے والی ہے یا زنا کی شرعی سزا سنگساری یا کوڑوں کا فیصلہ ہوگیا ہے تو قانون بنانے والوں کی اس کی یاسیت اور محرومی کا پورا احساس ہے ، اس لئے اس کو ضمانت پر آزاد رکھا جائے اور بامر ضرورت اس کو معاف ہی کردیا جائے۔ اس کے بعد کیا ان جرائم کی سزائوں میں اگر اصلاح بھی کر دی جائے تو اس نامعقول طریقہ کار کے باعث کسی مجرم کو زنا کی سزا ملنا ممکن ہے۔ البتہ زنا کے ملزمان کو سزا دلواتے دلواتے کئی شکایت کنندگان ضرور تہمت کی سزا پالیں گے۔

(8) ترمیم نمبر12؍الف کی رو سے ان چار جرائم کی سماعت میں یہ امر ملحوظ رکھا جائے کہ کسی ایک جرم کی کاروائی کو کسی مرحلہ پر دوسرے جرم کے تحت نہ بدلا جائے۔ مثال کے طورپر اگر کوئی شخص زنا کی شرعی سزا دلوانے کا مقدمہ درج کرانے میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے لیکن بعد ازاں 4 گواہوں کی بجائے سماعت کے دوران اسے تین گواہ ہی میسر آتے ہیں تو اس بنا پر وہ زنا بالرضا کے مقدمے کی سزا نہیں دلوا سکے گا کیونکہ اس بل کی رو سے اس کی سزا کے لئے صرف دو گواہ بھی کافی ہیں۔کیا ان ترامیم سے ان چار جرائم کا خاتمہ مقصود ہے یا محض ان کی نمائش ؟

طریقہ کار میں رکاوٹوں کی فہرست
(1) یہ چار جرائم پولیس کے دائرئہ اختیار سے باہر او رکسی شکایت کنندہ کی کوشش پر منحصرہیں۔
(2) مقدمہ کے اندراج کے وقت ہی 2 یا 4 گواہوںکی حلفیہ عینی گواہی ضروری ہے۔
(3) گواہی کے باوجود زنا کے مقدمے کی سماعت کا فیصلہ کرنا جج کی صوابدیدپر منحصر ہے۔
(4)تہمت کا فیصلہ جج کے صوابدیدی اختیارات میں شامل ہے،جسے 'فوری'عمل میں لایا جائے۔
(5) ملزم کی حاضری کیلئے سمن بھیجے جائیں جسے یقینی بنانے کیلئے مالی ضمانت وغیرہ لینا درست نہیں!
(6) یہ جرائم قابل ضمانت ہیں، اگر جرم ثابت ہوبھی جائے تو سزا سے قبل گرفتاری ضروری نہیں۔
(7)یہ جرائم قابل معافی بھی ہیں۔یہ ہے تحفظ ِحقوقِ نسواں بل کی حقیقت!


حوالہ جات
1. صحیح بخاری:رقم 6788
2. صحیح بخاری: 3237
3. مصنف عبدالرزاق: 12796 وموطا: کتاب الحدود، حدیث 13
4. صفحہ 19
5. صحیح بخاری : 4832
6. صحیح ابن حبان : 4496
7. صحیح مسلم: 4014
8. سورة الحج: 41
9. صفحہ نمبر9


i. مذکورہ بالا ترمیم ان چار ترامیم میں سے پہلی ہے جنہیں ١٥ نومبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شامل کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ زیر نظرمضمون کے تمام اقتباسات 'تحفظ ِخواتین بل2006ئ' کے مصدقہ اور تازہ ترین متن سے ماخوذ ہیں ۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ بل کے اُردو متن میںزنا کی سزا غائب کردی گئی ہے جو مستند انگریزی متن میں موجود ہے، البتہ یہ سزا اُردو وانگریزی، ہر دو متنوں میں ترمیم نمبر٩ کے جدول ہشتم میں بھی جرم 'زنا' کی سزا والے خانہ نمبر٧ میں (یعنی زیادہ سے زیادہ 5 سال قید اور 10 ہزار روپے جرمانہ ) ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
ii.  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (وَإِذَا بَلَغَ ٱلْأَطْفَـٰلُ مِنكُمُ ٱلْحُلُمَ...﴿٥٩﴾...سورۃ النور) ''اور جب تمہارے بچے جوانی کو پہنچ جائیں تو اُنہیں اجازت لینی چاہئے۔''حُلُم خواب میں جماع کرنے کو کہتے ہیں اور اس پر اجماع ہے کہ احتلام بلوغت کی علامت ہے۔( فتح الباری: 2775) اور عورت کوحیض آنا اس کی بلوغت کی علامت ہے اور یہ علامات 12 سے لے کر 15 برس کی عمر تک ظاہر ہوتی ہیں۔ (اضافہ از مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ)
iii. ضابطہ فوجداری 1908ء کے باب نمبر29 میں نہ صرف صدرِ مملکت بلکہ صوبائی حکومت کو بھی سزاؤں میں تخفیف یا ا ن کی تبدیلی کا اختیار دیا گیا ہے۔