اسلام میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر ہے جو کہ حد شرعی ہے ۔اس حد کو بدلنے کا کسی کو اختیار نہیں ۔اس کے نفاذ کو روکنے کے لیے سفارش کرنا بھی نا پسندیدہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ زانی پر رجم یعنی سنگساری کی سزا نافذ فرمائی ہے۔کبھی مجرم کے اعتراف (Confassion) پر اور کبھی چار گواہوں کی شہادت(Witness) دینے پر یہ حد جاری کی گئی۔ اب جولو گ اس حد شرعی کو اپنے طور پر یا کسی بیرونی اشارے سے بدلنا یا منسوخ کرنا یا تعزیر میں تبدیل چاہتے ہیں ، وہ در اصل اسلامی شریعت کو اپنی خواہشاتِ نفسانی کا کھلونا بنانا چاہتے ہیں ۔ان کی یہ آرزو ان شاء اللہ کبھی پوری نہیں ہوگی اور ایسی ہر مذموم کوشش ناکام ہو کر رہے گی۔ کتب ِاحادیث سے رجم کرنے کے واقعات ملاحظہ فرمائیں ۔ ان احادیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ آزاد زانیوں پر کوڑوں کی بجائے رجم کی سزانافذ کی۔ اس سلسلے میں ہم پہلے فرامین ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے بعد فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں :
(1) ا قوالِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(1) عن عبادة بن الصامت قال: قال رسول اﷲﷺ (خذوا عني،خذوا عني،خذوا عني فقد جعل اﷲ لہن سبیلا،البکر بالبکر جلد مائة ونفي سنة والثیب بالثیب جلد مائة والرجم) 1
'' مجھ سے حکم لے لو، مجھ سے حکم لے لو، مجھ سے حکم لے لو۔ بدکار عوتوں کے لیے اب اللہ نے راستہ بنا دیا۔(یعنی حکم نازل فرما دیا) اور وہ یہ ہے کہ غیر شادی شدہ کوسو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ کو کوڑے اور رجم کی سزا دی جائے گی۔''
(2) قال زید سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول:(الشیخ والشیخة إذا زنیا فارجموها البتة) 2
'' زید بن ثابت کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ کہتے تھے کہ شادی شدہ مرد(i) اور عورت زنا کا ارتکاب کریں تو اُنہیں لازماً رجم کر دو۔''
(3) عن عبداﷲ قال: قال رسول اﷲ ﷺ (لا یحل دم امرئ مسلم یشھد أن لا إله إلا اﷲ وأني رسول اﷲ إلا بإحدی ثلاث: النفس بالنفس والثیب الزاني والمفارق لدینه التارك للجماعة) 3
''حضرت عبداللہ (بن مسعودؓ) سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کسی مسلمان کا خون جائز نہیں جب کہ وہ یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں مگر تین حالتوں میں اس کا خون مباح ہوگا۔ پہلی یہ کہ قصاص کی حالت میں ، دوسری یہ کہ شادی شدہ زانی ہونے کی صورت میں اور تیسری یہ کہ دین کو چھوڑنے اور جماعت ِمسلمین سے الگ ہونے کی شکل میں ۔''
(4) عن عائشة قالت: قال رسول اﷲ ﷺ (لا یحل دم امرئ مسلم یشھد أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدًا رسول اﷲ إلا في إحدٰی ثلاث: رجل زنیٰ بعد إحصان فإنه یرجم ورجل خرج محاربًا باﷲ ورسوله فإنه یقتل أو یصلب أو ینفی من الأرض أو یَقتل نفسا فیُقتل بھا)4
''حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''کسی مسلمان کا خون بہاناجائز نہیں ہے جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ، مگر تین صورتوں میں اس کا خون مباح ہوجاتا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ وہ شادی کے بعد زنا کا ارتکاب کرے، اس جرم پر اسے سنگسار کیا جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت کرے تو (اس جرم کی پاداش میں ) اسے قتل کیا جائے گایا اسے سولی دی جائے گی یا اسے جلاوطن کردیا جائے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی کو قتل کردے تو اس پر اسے بھی (قصاص کے طور پر) قتل کردیا جائے گا۔''
(5) عن أبي أمامة بن سھل قال: کنا مع عثمان وھو مع عثمان وھو محصور في الدار، وکان في الدار مدخل من دخله سمع کلام من علی البلاط، فدخله عثمان، فخرج إلینا وھو متغیر لونه فقال: إنھم لیتواعدونني بالقتل آنفا، قال: قلنا یکفیکم اﷲ یا أمیر المؤمنین قال: ولم یقتلونني؟ سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول: (لا یحل دم امرئ مسلم إلا بإحدی ثلاث: کفر بعد إسلام، أو زنا بعد إحصان، أو قتل نفس بغیر نفس) فواﷲ ما زنیت في جاھلیة ولا في إسلام قط، ولا أحببتُ أن لي بدینی بدلا منذ ھداني اﷲ، ولا قتلت نفسا، فبم یقتلوننی؟
''حضرت ابوامامہ بن سہلؓ کہتے ہیں کہ میں اور دوسرے لوگ حضرت عثمانؓ کے پاس موجود تھے جب وہ اپنے گھر میں محصور تھے اور اس گھر کا ایک راستہ تھا جس کے اندر کھڑا آدمی مقام بلاط پرکھڑے لوگوں کی بات بآسانی سن سکتا تھا۔ حضرت عثمانؓ وہاں تشریف لائے، ان کے چہرے کا رنگ متغیر تھا، وہ باہر نکلے اور فرمایا: ابھی یہ لوگ مجھے قتل کردینے کی دھمکی دے رہے تھے۔'' ہم نے عرض کیا: ''اے امیرالمؤمنین ان کے مقابل میں اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے۔ '' فرمایا: '' یہ لوگ کیوں میرے قتل کے درپے ہیں ؟'' میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ''کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ، سواے اس کے کہ تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت واقع ہو: وہ اسلام لانے کے بعد کفر اختیارکرے یا شادی کے بعد زنا کا ارتکاب کرے یا کسی کوناحق قتل کردے۔ اللہ کی قسم! میں نہ تو جاہلیت میں زنا کا مرتکب ہوا اور نہ اسلام لانے کے بعد، دوسرے یہ کہ میں نے اپنا دین بدلنا بھی کبھی پسند نہیں کیا، جب سے مجھے اللہ نے ہدایت کی توفیق دی ہے۔ تیسرے یہ کہ میں نے کسی کو ناحق قتل بھی نہیں کیا، پھر یہ لوگ کس بنا پر قتل کرنا چاہتے ہیں ۔'' 5
ان فرامین ِنبویہؐ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ازروے سنت شادی شدہ زانی کے لئے کوڑوں کی بجائے قتل بصورتِ رجم کی سزا مقرر ہے۔
(2) فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(1) عن بریدة قال جاء ماعز بن مالك إلی النبي ﷺ فقال یا رسول اﷲ! طهرني فقال: (ویحك ارجع فاستغفر اﷲ وتب إلیه) قال: فرجع غیر بعید ثم جاء فقال: یا رسول اﷲ! طهرني۔فقال رسول اﷲ ﷺ: )ویحك ارجع فاستغفر اﷲ وتُب إلیه) قال: فرجع غیر بعید ثم جاء فقال: یا رسول اﷲ! طهرني فقال النبي ﷺ مثل ذلك۔ حتی إذا کانت الرابعة قال له رسول اﷲ ﷺ: (فیم أُطهرك؟) فقال: من الزنا۔ فسأل رسول اﷲ ﷺ : (أبه جنون؟) فأُخبِر أنه لیس بمجنون فقال: (أشرب خمرا؟) فقام رجل فاستنکه فلم یجد منه ریح خمر۔قال: فقال رسول اﷲﷺ: (أزنیتَ؟) فقال نعم۔ فأمر به فرُجم 6
''بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ ماعز بن مالکؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسولؐ!مجھے پاک کر دیجئے۔ آپؐ نے فرمایا:تیرا ستیاناس ہو، چلا جا اوراللہ سے بخشش مانگ اور توبہ کر۔تھوڑی دور بعدوہ پھر لوٹ آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے پاک کر دیجئے۔ اللہ کے نبیؐ نے پھر اسی طرح کہا حتیٰ کہ جب چوتھی مرتبہ ایسا ہوا تو آپ ؐ نے پوچھا میں تجھے کس چیز سے پاک کروں ؟اُنہوں نے کہا: زناسے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ دیوانہ تو نہیں ؟ بتایا گیا کہ یہ مجنوں نہیں ۔ پھر آپ ؐنے پوچھا کیا اس نے شراب پی ہے؟ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور ان کو سونگھا تو شراب کی بو نہ پائی، پھر آپؐ نے فرمایا :کیا تو نے زنا کیا ہے ؟ ماعز ؓ بولے: ہاں ! پس آپؐ کے حکم پر اُنہیں رجم کر دیا گیا۔''
(2) عن جابر بن عبد اﷲ أن رجلا من أسلم جاء إلی رسول اﷲ ﷺ فاعترف بالزنا فأعرض عنہ ثم اعترف عنہ، حتی شھد علی نفسہ أربع شہادات فقال لہ النبي: (أبك جنون؟) قال: ''لا'' قال:(أحصنت)قال: ''نعم'' قال: فأمر به النبي ﷺ فرُجم في المُصلّٰی، فلمّا أذلقته الحجارة فَرَّ،فأدرك فرُجم حتی مات 7
''حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ اَسلم کا ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جرمِ زنا کا اعتراف کیا، آپؐ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا، اس نے پھراقرار کیا اور جب چار دفعہ قسم کھا چکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا:کیاتو پاگل ہے؟'' اُس نے جواب دیا:'نہیں ' آپؐ نے پوچھا: ''کیا تو شادی شدہ ہے؟''وہ بولا: 'جی ہاں ' پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔لوگ اسے عیدگاہ کی طرف لے گئے اور رجم کرنے لگے۔جب اسے پر پتھر پڑے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، لوگوں نے تعاقب کرکے اسے پھر جالیا اور سنگسار کردیا۔''
(3) عن أبي ھریرة أنه قال أتی رجل من المسلمین رسول اﷲ ﷺ وھو في المسجد فناداہ فقال یا رسول اﷲ! إني زنیت فأعرض عنه فتنحّٰی تلقاء وجھه۔ فقال له یارسول اﷲ! إني زنیتُ فأعرض عنه حتی ثنی ذلك علیه أربع مرات۔فلما شھد علی نفسه أربع شهادات دعاہ رسول اﷲ ﷺ فقال: (أبك جنون؟) قال: لا۔قال: (فھل أحصنت؟) قال: نعم۔ فقال رسول اﷲ ﷺ :(اذھبوا به فارجموہ) 8
''حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس شخص نے آواز دی اور کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں ۔'' حضورؐ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ اس نے دوبارہ کہا: ''اے اللہ کے رسولؐ! میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں ۔'' آپؐ اس پر بھی متوجہ نہ ہوئے۔ اس نے چار دفعہ اپنی بات دہرائی، پھر جب اس نے چار مرتبہ قسم کھا کر اپنے جرم کا اقرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر پوچھا: ''تو پاگل تو نہیں ؟ بولا: 'نہیں !' پھر آپؐ نے پوچھا: کیا تو شادی شدہ ہے؟ وہ بولا: 'جی ہاں ' (میں شادی شدہ ہوں ) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے لے جاکر سنگسار کردو۔''
(4) عن أبي ھریرة قال: أتی رجل رسول اﷲ ﷺ وھو في المسجد فناداہ فقال یا رسول اﷲ! إني زنیت فأعرض عنه حتی ردَّدَ علیه أربع مرات، فلما شھد علی نفسه أربع شھادات، دعاہ النبي ﷺ فقال: (أبك جنون؟) قال: لا۔قال:(فھل أحصنت؟)قال : نعم۔ فقال النبي! : (اذھبوا به فارجموہ) 9
''حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضورؐ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس آدمی نے آپؐ کو آواز دی اور کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میں نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔'' آپؐ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ فرمائی، اس آدمی نے آپ کو چار مرتبہ متوجہ کرنے کی کوشش کی پھر جس وقت اس نے چار دفعہ قسم کھا کر اپنے جرم کا اقرار کرلیاتو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر پوچھا: ''کیا تو پاگل ہے؟ وہ بولا: 'نہیں ' آپؐ نے پوچھا: ''کیا تو شادی شدہ ہے؟'' جواب ملا: 'جی ہاں ' اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: ''لوگو! اسے لے جاکرسنگسار کردو۔''
(5) جاء ته امرأة من غامد من الأزد فقالت: یا رسول اﷲ! طهرني فقال: (ویحك ارجعي فاستغفري اﷲ وتوبي إلیه) فقالت: أراك ترید أن تردّدني کما ردّدت ماعز بن مالك قال: (وما ذاك؟) قالت: إنها حبلی من الزنا فقال: (آنتِ) قالت: نعم فقال لها: (حتی تضعي ما في بطنك) قال فکفلها رجل من الأنصار حتی وضعت قال: فأتي النبي ﷺ فقال قد وضعت الغامدیة فقال: (إذًا لا نرجمها وندع ولدها صغیر لیس له من یرضعه) فقام رجل من الأنصار فقال إلیَّ رضاعه یا نبي اﷲ۔قال: فرَجَمَها 10
'' آپؐ کے پاس اَزد قبیلے کی شاخ غامد کی ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول ؐ! مجھے پاک کر دیجئے ۔آپؐ نے فرمایا: تیرا ستیاناس ہو، چلی جا اور اللہ سے بخشش طلب کر اور توبہ کر۔ کہنے لگی: آبؐ مجھے ماعز بن مالکؓ کی طرح واپس کرنا چاہتے ہیں ۔آپ ؐنے پوچھا:تیرا کیا معاملہ ہے؟ کہنے لگی: میں زنا کی وجہ سے اُمید سے ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو خود؟ اس نے کہا: جی ہاں ۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا (تو اس وقت تک انتظار کر) جب تک تیرا حمل وضع نہ ہو جائے۔ ایک انصاری صحابی ؓ نے اس کی دیکھ بھال کا ذمہ اُٹھایا، جب وضع حمل ہو گیا تو وہ انصاری ؓ نبیؐ کے پاس آیا اور غامدیہ کے وضع حمل کی اطلاع دی۔آپؐ نے فرمایا: ہم اسے اس کے بچے کے دودھ پینے کے انتظام کے نہ ہونے کی وجہ سے ابھی رجم نہیں کریں گے۔ایک انصاری صحابی ؓنے کہا : اللہ کے رسول بچے کو دودھ میں پلواؤں گا تب آپؐ نے اس کو رجم کیا۔''
(6) عن أبي ھریرة وزید بن خالد الجُھني أنھما قال: إن رجلا من الأعراب أتی رسول اﷲ فقال: یا رسول اﷲ ! أنشدك اﷲ ألا قضیتَ لي بکتاب اﷲ، فقال الخصم الآخر وھو أفقه منه: نعم، فاقض بیننا بکتاب اﷲ وائذن لي۔ فقال رسول اﷲ ﷺ(قُل)قال: إن ابني کان عسیفا علی ھذا فزنی بامرأته وإني أُخبرت أن علی ابني الرجم فافتدیت منه بمائة شاة وولیدة۔فسألت أھل العلم فأخبروني أنما علی ابني جلد مائة وتغریب عام وأن علی امرأة ھذا الرجم۔ فقال رسول اﷲ ﷺ:(والذي نفسي بیدہ لأقضین بینکما بکتاب اﷲ: الولیدة والغنم ردّ،وعلی ابنك جلد مائة وتغریب عام،واغد یا أنیس إلی امرأة هذا،فإن اعترفت فارجمھا)قال فغدا علیھا فاعترفت فأمربھا رسول اﷲﷺ فرجمت۔ 11