جون 2006ء

علامہ جاوید الغامدی کی روشنی طبع

اخباری اطلاع کے مطابق اسلام آباد میں ایک تعلیمی کانفرنس کے دوران جہاںوزیراعظم شوکت عزیز بھی تقریب میںموجود تھے۔ ممتاز عالم دین محقق اور دانشور علامہ جاوید الغامدی جو کہ حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل آف پاکستان کے رُکن مقرر کئے گئے ہیں، نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ قرآنِ حکیم اور اسلامیات کی تعلیمات بچوں کو دوسری جماعت کے بجائے پانچویں جماعت کے بعد شروع کی جانی چاہئیں۔

وزیراعظم شوکت عزیز نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ قرآنِ حکیم اور اسلامیات کی تعلیم دوسری جماعت کے بعد بچوں کو شروع کرائی جانی چاہئے۔پوری قوم وفاقی حکومت کی اس تجویز پر مسلسل احتجاج کررہی ہے کہ بچوں کو اسلامیات تیسری جماعت کے بعد پڑھائی جائے اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ابتدا سے ہی قرآن حکیم اور اسلامی تعلیمات شروع کرا دینی چاہئیں۔ مگر اس کے جواب میںعلامہ جاوید الغامدی نے روشن خیالی اور جدیدخیالات کی حامل وفاقی حکومت سے بھی کئی قدم آگے چل کر ایسے خیالات پیش کئے ہیں جن کو پڑھ کرعام آدمی حیران ہے کہ جب عہد حاضر کے علما ہی اس حد تک آگے چل جائیں تو آدمی امریکہ اور اس کے دریوزہ گر حکمرانوں پر کیا الزام دھرے۔

مسلمان بچوں کی اسلامی تعلیم تو گہوارے میں ہی شروع ہوجاتی ہے، جب ان کی مائیں اُنہیں بولنے کے لئے کلمہ طیبہ اور بسم اللہ سکھاتی ہیں۔ ویسے بھی انسانی ذہن کی تشکیل تین سال سے آٹھ سال کی عمر میںمکمل ہوتی ہے اور بعد ازاں اس کی نشوونما جاری رہتی ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت ایک منافع بخش نوکری ہے، مگر ایسی بھی نہیں کہ اس کے لئے علامہ جاوید الغامدی قرآنِ حکیم اور اسلامیات کی تعلیم کو فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی اور ملائیت سے تعبیر کرنے لگیں۔ علامہ جاوید الغامدی اپنی لسانی اورعلمی صلاحیتوں کو محض سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ہر روز ٹی وی مباحثو ں میں نئی نئی اختراعات کرنے اور حاکموں کا قرب حاصل کرنے کے لئے اُس دین اورعلم کی جڑیں نہیں کاٹنی چاہئیں جس کی وجہ سے اُنہیں یہ عزت حاصل ہے۔ علامہ صاحب کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ علماے حق کبھی حکومتوں کی حمایت میں اس قدر سرگرم اور پُرجوش نہیں ہواکرتے۔

خواتین کے جھرمٹ میں بیٹھ کر ٹی وی چینلز کی چکاچوند روشنیوں میں اسلام کی یہ بخیہ گری کم از کم علامہ جاوید الغامدی کو زیب نہیں دیتی جو علامہ امین احسن اصلاحی کے فیض یافتہ اور سلسلۂ فراہی کی علمی روایت کے امین سمجھے جاتے ہیں۔ نام نہاد روشن خیال کا یہ دورزیادہ طویل نہیں، علامہ صاحب اپنے آپ کوغلام محمد، ایوب خان اوربھٹو دور کے ان اصحابِ علم کی صف میں شامل نہ کریں جن کے نام تک آج کسی کو یادنہیں اور ان کے افکار و خیالات تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوچکے ہیں۔ (ادارتی شذرہ روزنامہ نوائے وقت: مؤرخہ5؍جون2006ء)