جاوید احمد غامدی اور ان کے نام نہاد’امام‘

فاضل مقالہ نگار محمد رفیق چودھری جناب جاوید احمد غامدی کے ان ابتدائی ساتھیوں میں سے ہیں جب غامدی صاحب ابھی محمد شفیق عرف 'کاکو شاہ' سے نام تبدیل کر کے غامدی کے لاحقہ کے بغیر صرف 'جاوید احمد' کہلاتے تھے۔ یہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد کا دور ہے، جب جاوید احمد بی اے کرنے کے بعد اپنی طلاقت ِلسانی کی بدولت پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب حامد مختار گوندل کو متاثر کر کے اوقاف کے خرچ پر 29؍جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں دائرة الفکرکے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈال رہے تھے اور عمومی مجلسوں میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور جماعت ِاسلامی پر تنقید کرنے کاخصوصی شوق فرماتے تھے۔

جناب جاوید احمدنے اسی زعم میں ان دنوں جماعت ِاسلامی کے مقابلہ میں 'تحریک ِاسلامی' کے نام سے ایک تنظیم کا افتتاح کیا تو محترم محمد رفیق چودھری بھی اس کے فعال رکن تھے۔پھر جلد ہی قدرت نے اُنہیں مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت ِاسلامی میں بڑی پذیرائی ملی۔ رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شے ہے، ان کے حواری اُنہیں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا 'جانشین' بتانے لگے کیونکہ مولانا مرحوم نے غالباًجاوید احمدکی جولانی ٔ طبع کو آزمانے کے لیے ان کو دارالعروبة کی خالی ہونے والی کوٹھی 4؍ذیلدار پارک،اچھرہ، لاہور نہ صرف مفت دے رکھی تھی بلکہ ایک ہزار روپیہ مزید ماہوار تعاون کا وعدہ بھی فرمایا۔ اس طرح جاوید احمد کو جماعت ِاسلامی کے متاثرین میں پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملا۔

اس وقت جاوید احمد ابھی عربی گرامر کے طالب علم تھے اور ہر وقت معتزلہ کے امام'زمخشری'کی علم نحو پر کتاب المُفصّلان کی بغل میں ہوتی اور تفسیر میں الکشاف سے استفادہ کرنے کا اُنہیں خصوصی شوق دامن گیر رہتا۔ اس فکری ارتقا کو ہم کسی اور فرصت میں عرض کریں گے ۔إن شاء اللہ

جب جناب جاوید احمد کو اپنے ابتدائی امتحان میں کچھ اُلجھنوں کے حوالے سے جماعت ِاسلامی کے حلقوں سے واسطہ پڑا تو جماعت ِاسلامی سے 1957ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ سے روابط کا شوق اُنہیں اُن کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا۔ یہ ان کی تحریکی سفرکی بہت مختصر روداد ہے۔ جناب رفیق احمدچودھری اس سارے سفر کے قریبی ساتھی ہیں اورجناب جاوید احمد صاحب کے اس سارے دورانئے میں علمی ارتقا اور فکری خدوخال کے چشم دید گواہ بھی ہیں ۔ آپ کا 'مسئلہ رجم' پر اختلاف ایک طرف جاوید احمد سے جدائی کا باعث بنا تو دوسری طرف 'غامدیہ' کا واقعہ رجم جاوید احمد کو 'غامدی' کے لقب سے آشنا کر گیا۔ یہ سارا قصہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد کا ہے اور اب سقوطِ کابل کے بعد کا دور جاوید احمد غامدی کے خصوصی عروج کا دور ہے،کیونکہ اس وقت وہ بر سراقتدار جرنیل تو کجا امریکہ بہادر کی نمک حلالی بھی فرما رہے ہیں ۔

علمی میدان میں ان کا بڑا زعم'عربی دانی اور قرآن فہمی' کا ہے جس کو قبولیت ِعام دینے کے لیے اُنہوں نے مولانا امین احسن اصلاحی کو 'مولانا' کی بجائے 'امام' کے لقب سے نوازا ہے۔اگرچہ غامدی صاحب اپنے حلقہ میں خود بھی 'امامت' کے درجہ سے قریب ترہونے کے وہم میں مبتلا ہیں ، اسی بنا پر اکثر تبصرے اور اختلافی مضامین خواہ وہ خود لکھیں یا لکھوائیں ،ان کے حاشیہ نشینوں کے نام سے شائع ہوتے ہیں جس میں وہ غامدی صاحب کو 'اُستاذِ محترم' ہی لکھتے ہیں ۔ غامدی صاحب کی اس حکمت ِعملی کا فائدہ یہ ہے کہ اگر کل کلاں کسی فکری تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو تو آسانی رہے۔ بہر صورت یہ ان کا ہر دم بدلتا فکر ہے جسے ان کے اپنے حلقہ میں جاوید احمد غامدی صاحب کا فکری ارتقا باور کرایا جاتا ہے۔

جناب محمد رفیق چودھری نے اگرچہ عرصہ سے جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے الحادی فکر کا تنقیدی جائزہ چھوڑ رکھا ہے تا ہم کسی جذبہ محرکہ نے ان کے قلم کو مہمیز دی ہے اور اُنہوں نے جاوید احمد غامدی اور ان کے نام نہاد امام امین احسن اصلاحی کی عربی دانی اور قرآن فہمی کے 'مشتے از خروارے' چند نمونے سپردِ قلم کیے ہیں ۔ ہم اُمید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے 'نادر افکار' کا بھی گاہے بگاہے اسی طرح جائزہ لیتے رہیں گے جس طرح ایک عرصہ قبل ان کے جذبہ ایمانی نے ایک جزوی 'مسئلہ رجم' پر اُنہیں جاوید احمد سے داغِ جدائی دیاتھا۔ زیر نظر مقالہ سے قبل 'سقوط ِڈھاکہ سے سقوطِ کابل' تک بننے والی شخصیت کایہ تاریخی حلیہ پیش خدمت رہے ۔(محدث)

جناب جاوید احمد غامدی اُس 'حلقہ فکر ِفراہی' کے ایک نمائندہ فرد ہیں جس نے دورِ حاضر میں تجدد اور انکارِ حدیث کی نئی طرح ڈالی ہے اور اپنے چند خود ساختہ اُصولوں کو تحقیق کے نام سے پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔

زیرنظر مضمون مںو ہم ان کے ایک مخصوص اُصولِ ترجمہ و تفسیر کا علمی جائزہ لیں گے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ ان کے من گھڑت اُصولوں کی زد کہاں کہاں تک پہنچتی ہے اور کس طرح اس کے نتیجے میں ایک نئی شریعت ایجاد ہوجاتی ہے؟

چنانچہ قرآن فہمی کے حوالے سے وہ اپنے بعض اُصولوں کویوں بیان فرماتے ہیں :
''اس (قرآن) کے الفاظ کی دلالت اس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہے۔ یہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے پوری قطعیت کے ساتھ کہتا ہے اور کسی معاملے میں بھی اپنا مدعا بیان کرنے سے ہرگز قاصر نہیں رہتا۔ اس کا مفہوم وہی ہے جو اس کے الفاظ قبول کرلیتے ہیں ، وہ نہ اس سے مختلف ہے نہ متبائن۔ اس کے شہر ستانِ معانی تک پہنچنے کا ایک ہی دروازہ ہے اور وہ اس کے الفاظ ہیں ۔ وہ اپنا مفہوم پوری قطعیت کے ساتھ واضح کرتے ہیں ۔'' 1

پھر اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
''قرآن کا کوئی لفظ اور کوئی اُسلوب بھی اپنے مفہوم کے اعتبار سے شاذ نہیں ہوسکتا۔ وہ اپنے مخاطبین کے لئے بالکل معروف اور جانے پہچانے الفاظ اور اسالیب پر نازل ہواہے۔ زبان کے لحاظ سے اس کی کوئی چیز اپنے اندر کسی نوعیت کی غرابت نہیں رکھتی، بلکہ ہر پہلو سے صاف اور واضح ہے۔ چنانچہ اس کے ترجمہ و تفسیر میں ہر جگہ اس کے الفاظ کے معروف معنی ہی پیش نظر رہنے چاہئیں ، ان سے ہٹ کر ان کی کوئی تاویل کسی حال میں قبول نہیں کی جاسکتی۔'' 2

اس کے بعد اپنے موقف کودرج ذیل مثالوں سے واضح کرتے ہیں :
''وَٱلنَّجْمُ وَٱلشَّجَرُ يَسْجُدَانِ میں النَّجْمُ کے معنی 'تاروں ' ہی کے ہوسکتے ہیں ۔ إِلا إِذَا تَمَنّٰى میں لفظ تَمَنّٰی کا مفہوم خواہش اور ارمان ہی ہے۔ أفَلاَ يَنْظُرُوْنَ إلَى الإِبِلِ میں الإبل کا لفظ اونٹ ہی کے لئے آیا ہے۔ كَأَنَّهُنَّ بَيضٌ مَّكنُوْنٌ میں بَیْض انڈوں ہی کے معنی میں ہے۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ میں نحر کا لفظ قربانی ہی کے لئے ہے۔ اور اُسے 'بوٹیوں ' اور 'تلاوت' اور 'بادل' اور انڈوں کی چھپی ہوئی جھلی اور سینہ پر ہاتھ باندھنے کے معنی میں نہیں لیا جاسکتا۔'' 3

اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک:
(1) قرآن کے الفاظ کی دلالت اس کے مفہوم پربالکل قطعی ہوتی ہے اور قرآن کا ہر طالب علم اپنے طور پر اس کے الفاظ کا ایک قطعی مفہوم آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔
(2) قرآن کے ترجمہ و تفسیر میں ہر جگہ اس کے الفاظ کے صرف معروف معنی ہی لئے جاسکتے ہیں اور ان سے ہٹ کر ان کی کوئی تاویل قابل قبول نہیں ہوسکتی۔گویا قرآن کے الفاظ کے ایک سے زیادہ ترجمے یا تفسیریں نہیں ہو سکتیں ۔
(3) قرآن کے معانی تک پہنچنے کا ایک ہی دروازہ ہے اور وہ اس کے الفاظ ہیں ، لہٰذا فہم قرآن کے لیے حدیث وسنت کی کوئی ضرورت نہیں ۔

ہمارے نزدیک غامدی کے یہ تینوں اُصول ہی غلط ہیں اور قرآن مجید کی ایک مثال کے ذریعے ہم ان کے اُصولوں کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَٱلسَّارِقُ وَٱلسَّارِقَةُ فَٱقْطَعُوٓاأَيْدِيَهُمَا...﴿٣٨﴾...سورۃ المائدہ

اگر غامدی صاحب کے اصولوں کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ
''تم ان دونوں (چوری کرنے والے مرد اور عورت) کے سارے بازو کاٹ دو۔''

کیونکہ قرآنِ کریم کے الفاظ میں (جمع ) مطلق آیا ہے اور قاعدہ ہے:'' '' ''جب لفظ مطلق استعمال ہو تو اس سے فرد کامل مراد ہوتا ہے۔'' چونکہ کی کامل حد کندھوں یا بغل تک ہے، اسی لیے وضو کی آیت میں 'کامل ید' میں سے کہنی تک ( ) کی حد بندی کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآن کے الفاظ کو دیکھا جائے تو بظاہر مفہوم یہی بنتا ہے کہ چور کا سارا ہاتھ (بازو تک) کاٹ دیا جائے،لیکن حدیث رسولؐ نے اس اِجمال کی تفصیل پیش کر دی ہے کہ چوری کی حد اور سزا کی صورت ہاتھ کے جوڑ ( پہنچہ) سے کاٹا جائے گا۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : '' قرآن مجمل اُترا ہے یہاں تک کہ اس اجمال کی وضاحت رسولِ کریمؐ کرتے ہیں ۔ شریعت کی رو سے قرآن اور رسولؐ کا چولی دامن کا ساتھ ہے، لہٰذا ''قرآن کے الفاظ قطعی الدلالہ ہیں ۔'' کا اُصول اس مفہوم میں غلط ہے کہ اس کی تشریح میں سنت وحدیث کی ضرورت نہیں کیونکہ قرآن فی ذاتہ کتنا بھی محکم اور قطعی ہو، اللہ تعالیٰ نے اسے رسولِ کریمؐ کی 23؍سالہ زندگی میں پرو کر اسی لیے اُتارا ہے کہ سنت وحدیث سے اس کی تشریح وتفسیر ہوتی چلی جائے۔ گویا قرآن کی دلالت مخاطب کے لحاظ سے اسی وقت قطعی ہوتی ہے جب مخاطب اسے رسول اللہؐ کی زندگی (اُسوئہ حسنہ) کی روشنی میں سمجھتاہے ورنہ مختلف مغالَطوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

اب غامدی صاحب کے اُصولوں کی روشنی میں یہ ترجمہ کرنا کہ ''چور کے دونوں بازو کاٹ دیے جائیں ۔'' کیا درست ترجمہ ہوگا اور کیا اسلامی شریعت میں چوری کی یہی سزا ہے؟ کیا پوری اُمت ِمسلمہ میں سے کوئی ایک مجتہد، فقیہ اور مفسر اس بات کو صحیح تسلیم کرتا ہے؟ کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری کی سزا پر کسی چور کے دونوں ہاتھ کاٹے تھے۔ ھاتوا برھانکم إن کنتم صادقین !

بلکہ اسلامی شریعت میں جس امر پر اجماعِ اُمت ہے جو ایک سنت ِثابتہ اور غامدی صاحب کے نزدیک تواتر عملی ہے یعنی جو امر اُمت کے متوارث عمل سے ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ جرم ثابت ہونے پرچور کا صرف ایک ہاتھ کاٹا جائے گا اور وہ بھی دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا، بایاں نہیں کاٹا جائے گا اور یہ دایاں ہاتھ اس وجہ سے نہیں کاٹا جائے گا کہ چوری کا صدور دائیں ہاتھ سے ہوا ہے بلکہ اس لئے کہ چوری کی حد یہی ہے کہ چور کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے خواہ اُس نے چوری بائیں ہاتھ سے کی ہو۔

یہ صرف ایک مثال ہے، ورنہ غامدی صاحب کے خود ساختہ تمام اُصولوں کو اگر تسلیم کرلیا جائے تو اسلام کے متوازی ایک نئی شریعت ایجاد ہوجائے گی جس میں احادیث ِصحیحہ اوراجماع کا انکار ہوگا، جس میں مرتد کی سزا قتل نہیں رہے گی۔شادی شدہ زانی کے لئے صرف سو کوڑے کی سزا ہوگی، اسے سنگسار نہیں کیا جائے گا۔ البتہ جو کنوارا زنابالجبر کرے گا اُسے سنگسار کیا جائے گا۔ حدود میں بھی عورت کی گواہی ہوگی اور مرد کی گواہی کے برابر ہوگی۔ قتل خطا میں مرداور عورت کی دیت برابر ہوجائے گی۔ قرآن کی صرف ایک قراء ت (حفص) صحیح ہوگی باقی قراء تیں عجم کا فتنہ قرار پائیں گی اور اُمت ِمسلمہ کے اجماعی عقیدے کے بر خلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہوگی۔ اگر کوئی اللہ کا بندہ اعتراض کرے گا تو جواب میں تاویلاتِ فاسدہ کا انبارلگا دیا جائے گا۔

خودساختہ اُصولوں کی خود مخالفت
اب ہم غامدی صاحب کے ایسے کھلے تضادات واضح کریں گے جن میں اُنہوں نے اپنے خود ساختہ اُصولوں کا خود ہی خون کیا ہے۔ اس سلسلے میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
(1) پہلی مثال: غامدی صاحب نے اپنی اُلٹی تفسیر (میں اِسے اُلٹی اس لئے کہتا ہوں کہ یہ آخری سورتوں سے ہوتی ہوئی پیچھے کو آرہی ہے اور ابھی صرف پہلی جلد طبع ہوئی ہے جوسورة الملک سے سورة الناس تک ہے اور باقی تفسیر ابھی نامکمل ہے) کے الفاظ { }کا ترجمہ غامدی صاحب نے یوں کیا ہے کہ
''ابولہب کے بازو ٹوٹ گئے۔'' 4

اور اُن کے 'استاذ امام' امین احسن اصلاحی نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ
''ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے ۔'' 5

اب یہ فیصلہ کرنااہل علم کا کام ہے کہ لفظ '' کے معروف معنی 'بازو' کے ہیں یا'دونوں ہاتھ' کے۔کیونکہ استاد امام اور شاگرد رشید دونوں ہی معروف معنی لیتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ مذکورہ دونوں ترجموں میں ایک معنی ہی معروف ہوسکتے ہیں اوردوسرے معنی لامحالہ 'غیر معروف' یا'مجہول' قرار پائیں گے۔

(2) دوسری مثال: سورة العلق کی پہلی آیت { } کا ترجمہ غامدی صاحب نے یوں کیا ہے کہ
''اُنہیں پڑھ کرسناؤ (اے پیغمبرؐ) اپنے اُس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا ہے۔'' 6

ان کے اُستاذِ گرامی نے اسی آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے :
''پڑھ، اپنے اُس خداوند کے نام سے جس نے پیدا کیا ہے۔'' 7

اب یہ فیصلہ کرنا اہل علم کا کام ہے کہ عربی زبان میں لفظ (بغیر کے صلہ) کے معروف معنی'پڑھ' کے ہیں یا'اُنہیں پڑھ کرسناؤ' کے ہیں ۔ اور اُستاد اور شاگرد میں سے کس نے اپنے ہی بنائے ہوئے اُصولوں کا صحیح تتبع کیا ہے۔

(3) تیسری مثال: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
قُلْ هُوَ ٱلَّذِى ذَرَأَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ...﴿٢٤﴾...سورۃ الملک

اس کا ترجمہ غامدی صاحب نے یہ کیا ہے کہ
''ان سے کہہ دو، وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں بویا۔'' 8

اور اُن کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے اسی آیت کا درج ذیل ترجمہ کیا ہے:
''کہہ دو کہ وہی ہے جس نے تم کو زمین میں پھیلایاہے۔'' 9

اب قارئین خود دیکھ سکتے ہیں کہ میں (ذال کے ساتھ)کے معروف معنی 'بونے' کے ہیں یا'پھیلانے' کے ۔ ہمارے خیال میں اس مقام پر غامدی صاحب کے اُستاد کا ترجمہ صحیح اور معروف کے مطابق ہے جبکہ اُن کا اپناترجمہ 'غیرمعروف' اور 'مجہول' ہوگیا ہے اورعربی کے ایک اور لفظ '' (زاء کے ساتھ)کا ترجمہ بن گیا ہے۔ اس مثال میں بھی غامدی صاحب نے اپنے بنائے ہوئے اُصول کی خود خلاف ورزی کی ہے۔

(4) چوتھی مثال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
كَلَّا ۖ بَل لَّا يَخَافُونَ ٱلْـَٔاخِرَةَ ﴿٥٣...سورۃ المدثر

اس آیت کا ترجمہ غامدی صاحب نے یوں کیا ہے کہ
''بلکہ (واقعہ یہ ہے کہ) یہ قیامت کی توقع نہیں رکھتے۔'' 10

اور اُن کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کا درج ذیل ترجمہ کرتے ہیں :
''ہرگز نہیں ، بلکہ وہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔''11

اب یہ فیصلہ کرنا اہل علم کا کام ہے کہ آیت کے لفظ '' کی قطعی دلالت اور اس کے معروف معنی بقول غامدی صاحب 'توقع رکھنے' کے ہیں یااُن کے استاد نے اس لفظ کو اس کے معروف معنوں میں لیا ہے: 'خوف رکھنا یاڈرنا' ۔ہماری رائے میں غامدی صاحب کے استاد کا ترجمہ صحیح ہے اور یہی اس کا معروف مفہوم ہے جبکہ غامدی صاحب نے اپنے ہی اُصول کے خلاف اس لفظ کا ایک'غیرمعروف' اور'مجہول' ترجمہ کیا ہے۔

پانچویں مثال: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَأَمَّا ٱلْقَـٰسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا ﴿١٥...سورۃ الجن

اس آیت کا ترجمہ غامدی صاحب نے یوں کیا ہے کہ
''اور جو نافرمان ہوئے (اُن کا انجام پھر یہی ہے) کہ وہ دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔'' 12

اب یہ جاننااہل علم کا کام ہے کہ قرآنی لفظ کے معروف اور قطعی معنی کیا ہیں ، 'نافرمان' یا کچھ اور؟ کیونکہ 'نافرمان' تو '' کا ترجمہ ٹھہرے گا جو یہاں مستعمل نہیں ہوا۔ اُن کے استاد نے اس مقام پراس لفظ کے معنی 'جوبے راہ ہوئے' کے کئے ہیں ۔

مولانا امین احسن اصلاحی کی عربیت کی ایک مثال
جہاں تک غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی عربیت کا معاملہ ہے تو واضح رہے کہ ہمیں غامدی صاحب کے علاوہ اس بارے میں اصلاحی صاحب پر بھی اعتماد نہیں ہے۔ تفسیر 'تدبر قرآن' میں کئی مقامات پر عربیت کے خلاف ترجمہ و تفسیر موجود ہے۔ مثال کے طور پر ایک مقام ملاحظہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَٱلسَّمَآءَ بَنَيْنَـٰهَا بِأَيْيدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ﴿٤٧...سورۃ الذاریات

وہ اس آیت کا پہلے یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ
''اور آسمان کو ہم نے بنایا قدرت کے ساتھ اور ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں ۔''

پھر اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
''أَیْدٍ کے معروف معنی تو ہاتھ کے ہیں لیکن یہ قوت و قدرت کی تعبیر کے لئے بھی آتا ہے ... یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس قدرت و عظمت کی طرف توجہ دلائی ہے جس کا مشاہدہ ہرشخص اپنے سر پر پھیلے ہوئے آسمان اور اس کے عجائب کے اندر کرسکتا ہے۔'' 13

اس مقام پر مولانا اصلاحی صاحب کی پہلی غلطی یہ ہے کہ اُنہوں نے لفظ کو ( کی جمع )سمجھ لیا جو کہ غلط ہے کیونکہ پہلے لفظ کا مادہ ہے جبکہ دوسرے لفظ کامادّہ ہے۔ عربی میں پہلے کے معنی 'قوت و طاقت 'کے آتے ہیں اور دوسرے کے'ہاتھ' کے۔

پھر یہاں پر مولانا صاحب کی دوسری غلطی یہ ہے کہ اُنہوں نے بزعم خویش ایک لفظ کے معروف معنی چھوڑ کر خود اس کے'غیر معروف' معنی مراد لے کر اُس کی تفسیر کردی۔ جو اُن کے اپنے اُصول کے خلاف بھی ہے اور اُن کے شاگردِ رشید غامدی صاحب کے اُصول کے خلاف بھی کہ قرآنی الفاظ کے صرف معروف معنی ہی لئے جاسکتے ہیں ۔

قرآن مجید میں پہلے لفظ کی مثالیں اور نظیریں یہ ہیں :
(1) {وَٱذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا ٱلْأَيْدِ...﴿١٧﴾...سورۃ ص} میں ذا الأَیْدِکے معنی 'قوت والا' کے ہیں ۔
(2) اسی'أییْد'کے افعال و مشتقات میں ماضی یعنی ٗ، اور مضارع یعنی أیَّدَہ، أَ یَّدَھُمْ،أَیَّدَکَ،أَیَّدَکُمْ،أَیَّدْنَا اور مضارع یعنی یؤَیَّدُکے الفاظ قرآنِ مجید میں مستعمل ہیں ۔

دوسرے لفظ یَدکے قرآنی نظائر یہ ہیں :
(1) واحد کی شکل میں یَدٌ،یَدٍ،یَدَہ ٗ اور،یَدَکَ وغیرہ
(2)تثنیہ کی صورت میں یَدَا،یَدَاکَ، اور یَدَاہ ٗ وغیرہ
(3)جمع کے طور پر أیدي أَیْدِيْ،أَیْدِيَ،اَیْدِیْنَا،أَیْدِیَھُمْ ،أَیْدِیَھُنَّ اور وغیرہ

گویا کے یہ تمام قرآنی نظائر 'ایک ہاتھ'، 'دو ہاتھ' اور 'سب ہاتھ' کے معنوں میں جا بجا موجود ہیں ۔یہاں لفظ رسم عثمانی میں کے علاوہ ایک اضافی دندانے کے ساتھ لکھا جاتا ہے ، تاکہ کا سے باقی نہ رہے ۔ کیونکہ مادّہ (Root) کے اعتبارسے کا پہلا حرف ہمزہ ''ہے۔ جبکہ کا پہلا اور آخری لفظ دونوں ''ہیں ۔

اب سوچنے کی یہ بات ہے کہ جو لوگ قرآنی الفاظ کے مادّوں (Roots)ہی سے بے خبر ہوں اوراس کے دو مختلف الفاظ میں امتیازنہ کرسکتے ہوں ، اُن کی عربیت پرکیسے اعتماد کیاجاسکتا ہے؟ ... اور جب اُن کی عربیت کا یہ حال ہے تو اُن کی تفسیر کا کیا حال ہوگا؟؟


حوالہ جات
1. میزان:صفحہ 24 ، طبع دوم
2. میزان:صفحہ 18 ، طبع دوم، اپریل 2002ء
3. حوالہ مذکور: ص18،19
4. البیان: ص260
5. تدبر قرآن: جلد9؍ ص631
6. البیان: ص207
7. تدبرقرآن:جلد9؍ ص451
8. البیان: ص25،26
9. تدبرقرآن، جلد8؍ صفحہ 489
10. البیان، ص81
11. تدبر قرآن، جلد9؍ ص42
12. البیان: ص61
13. تدبر قرآن:7؍626