فتاوی

کیا نبی کریم ﷺلکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے؟نبیﷺکی طرف سے حج وعمرہ بدل کرنا ؟



اُمت ِمحمد یہؐ میں شرک پر نبویؐ پیشین گوئی؟
 سوال: ہمارے علاقے میں ایک تنظیم کی طرف سے ایک حدیث کی وال چاکنگ کروائی گئی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ مجھے اپنی اُمت کے شرک میں مبتلا ہونے کا ڈر نہیں۔ جب کہ ایک دوسرے حدیث میں ہے کہ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک عورتیں ذوالخلصة نامی بت کے گرد طواف نہ کرنے لگیں۔ کیا یہ دونوں احادیث صحیح ہیں؟اگر صحیح ہیں تو ان میں تطبیق کی کیا صورت ہے ؟ (آپ کا شاگرد :عبدالستار ، گوجرانوالہ)
جواب: ایسی کوئی حدیث نہیں کہ ''مجھے اپنی اُمت کے شرک میں مبتلا ہونے کا کوئی ڈر نہیں۔'' البتہ صحابہ کرامؓ کے بارے میںصحیح مسلم وغیرہ میں یہ بشارت موجود ہے:
واﷲ ما أخاف علیکم أن تشرکوا بعدي ولکن أخاف علیکم أن تتنافسوا فیھا 1
''اللہ کی قسم! مجھے اس بات کا تو ڈر نہیںکہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے خوف اس بات کاہے کہ کہیں تم دنیا کے بن کر نہ رہ جاؤ ۔ ''

اور ذوالخلصة والی حدیث صحیح بخاری اور مسلم وغیرہ میں موجود ہے کہ قربِ قیامت جاہلی دور لوٹ آئے گا۔ لہٰذا یہاں روایات کا کوئی تعارض نہیں۔جوکچھ صحیح روایات میں بیان ہوا وہ برحق ہے۔

قبر میں آگ سے پکی اینٹ استعمال کرنا
سوال: کیا آگ میں پکی چیز مثلاً سیمنٹ کی سلیں وغیرہ کو قبر میں استعمال کیا جاسکتا ہے ؟
جواب: جس چیز کو آگ نے چھوا ہو، اس کو قبر میں استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ حدیث ہے کہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے مرض الموت میں فرمایا: الحدوا لي لحدا وانصبوا علی اللبن نصبًا کما صنع برسول اﷲ ! 2
''میری قبر بغلی بنانا اور اس پر کچی اینٹیں لگانا جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کچی اینٹیں لگائی گئی تھیں۔''

شارح صحیح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وقد نقلوا أن عدد لبناته ! تسع
''اہل علم نے نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی (قبر مبارک میں ) کچی اینٹوں کی تعداد نو تھی۔''

اللبن کی تعریف اہل علم نے یوں بیان کی ہے: المضروب من الطین مربعا للبناء قبل الطبخ فإذا طبخ فھو الأجر3
''مربع شکل میں پکنے سے پہلے عمارتی اینٹ کا نام ہے اور جب پک جائے تو وہ الأجر سے موسوم ہے۔''

مختصر الخرقي میں ہے: ولایدخل القبرأجرا ولاخشبا ولا شیئا مسَّتْه النار 4
''قبر میں پکی اینٹ،لکڑی اور کوئی بھی ایسی چیزجو آگ سے تیار ہوئی ہو استعمال نہ کی جائے۔''

فقیہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کچی اینٹ اور کانے کا استعمال مستحب ہے۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے لکڑی کو مکروہ کہا ہے۔ ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ سلف صالحین کچی اینٹ کو مستحب کہتے اور لکڑی کے استعمال کو مکروہ سمجھتے تھے۔ اس سے معلوم ہواکہ قبر کو بند کرنے کے لئے اصل کچی اینٹ ہے۔ اور عوام الناس میں آج جو سلیں لگانے کا رواج ہے، یہ نادرست ہے جس سے احتراز کرنا چاہئے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج و عمرہ بدل کرنا
سوال: کچھ لوگ عمرہ و حج کرنے کے لئے جاتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے آپؐ کی طرف سے حج و عمرہ ادا کرتے ہیں۔ کیا شریعت نے اس کی اجازت دی ہے؟ آپؐ کے قول و فعل سے کوئی ایسی بات صادر ہوئی یاپھر صحابہ ؓ، تابعین رحمۃ اللہ علیہ کا عمل ایسا ہوا؟
دوسری بات یہ ہے کہ جیسے حج بدل ادا کیا جاتاہے، ایسے عمرہ بدل بھی ادا ہوسکتا ہے؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج یاعمرہ کرنا کتاب و سنت کی نصوص اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت نہیں، اگر اس کا کوئی وجود ہوتا تو صحابہ کرامؓ زیادہ حقدار تھے۔
حج بدل کی طرح عمرہ کے بدل کا بھی جواز ہے اور دونوں کاحکم یکساں ہے۔

شرعی ثالثی کے ایک جزوی فیصلہ کی حیثیت؟
سوال: پارٹی نمبر1یک نے پارٹی نمبر2 کے مکان پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے۔ تنازعہ کے حل کے لئے دونوں شرعی عدالت میں پیش ہوئے۔ پارٹی نمبر2 اپنا مکان بازاری نرخ پربیچنے کے لئے تیار ہے اور پارٹی نمبر1نے بازاری نرخ پرخریدنے کی خواہش ظاہر کی،لیکن شرعی عدالت نے مارکیٹ ریٹ کا پتہ کئے بغیر بہت کم قیمت پر دینے کا فیصلہ فرما دیا۔ کیا پارٹی نمبر2 شرعی عدالت کے اس فیصلہ کے ماننے کی پابند ہے ؟ (ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا، لاہور)
جواب: صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ فریقین نزاعِ ہذا میں شرعی فیصلہ پر رضا مندی کا اظہار کرچکے ہیں جو مستحسن بات ہے۔شرعی عدالت نے جو فیصلہ دیاہے۔ اس کے واجبات میں سے یہ تھا کہ بازاری ریٹ کا دقت ِنظر سے جائزہ لے کر فیصلہ صادر کرتی جبکہ ایسا نہ ہوسکا۔ چنانچہ عدالت کوچاہئے کہ اپنے فیصلے پرنظرثانی کرے۔ حدیث ِنبویؐ ہے:
المسلمون علی شروطھم ( صحیح 5
''شروط کی پابندی کرنا مسلمانوں پرلازم ہے۔''

ایسے ہی مقاطع الحقوق عند الشروط یعنی حقوق کا فیصلہ شرطوں پر ہے، سے بھی رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ 6 واﷲ ولي التوفیق !

کا غذ پر تین مرتبہ طلاق
سوال: میرے ایک دوست نے اپنی بیوی کو آج سے تقریباً ایک سال چار ماہ قبل سعودی عرب سے ایک دفعہ کاغذ پر تین بار طلاق لکھ کر بھیج دی۔ اس کے بعد نہ تحریری اور نہ زبانی کوئی طلاق نہ دی، وہ دوست سعودی عرب سے پاکستان آگیا ہے۔ اس کی پانچ بچیاں ہیں اوروہ دوبارہ رجوع کرنا چاہتا ہے۔شریعت کا کیا حکم ہے؟ ( عبدالرشید، اسلام آباد)
جواب: بالا صورت میں راجح مسلک کے مطابق طلاقِ رجعی واقع ہوئی تھی اور عدت گزرنے کی بنا پر سلسلۂ ازدواج منقطع ہوچکا ہے، ہاں البتہ دوبارہ نکاح کی گنجائش ہے۔ قرآن میں ہے: ﴿فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَٰجَهُنَّ....﴿٢٣٢﴾..سورۃ البقرۃ}
''تم ان کو اپنی (سابقہ) بیویوں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔''
کیونکہ علیحدگی طلاقِ رجعی کی صورت میں ہوئی ہے، اس لئے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے؟
سوال: جو خطوط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں کو لکھے، کیاوہ آپ نے اپنے دست مبارک سے لکھے تھے؟ یا کسی کاتب سے لکھوائے تھے کیونکہ آپ تو اُمی تھے ۔ روم کے بادشاہ ہرقل کے نام خط کی ایک فوٹو سٹیٹ ارسالِ خدمت ہے، ہمارے علاقے میں بعض لوگ اسے متبرک سمجھ کر تقسیم کررہے ہیں۔ اصل صورتِ حال کیاہے؟
جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اُمی تھے، لکھنا نہیں جانتے تھے اور جن روایات میں لکھنے کی نسبت آپؐ کی طرف کی گئی ہے وہ محض حکم دینے والے کی حیثیت سے ہے۔ حافظ ابن حجرؓ مسئلہ ہذا پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: وأطلق کَتَبَ بمعنی أَمَرَ بالکتابة وھو کثیر کقوله کتب إلی قیصر وکتب إلی کسرٰی والحقّ أن معنی قوله فکتب أي أمر علیًّا أن یکتب 7
''لکھنے کا حکم دینے کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کتابت کی نسبت کی گئی ہے اور حکم صادر فرمانے پریہ اطلاق بہت عام ہے جس طرح کہ کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر کی طرف چٹھی لکھی اور کسریٰ کی طرف چٹھی لکھی۔ حق بات یہ ہے کہ آپؐ کے قول فکتب کامفہوم یہ ہے کہ حضرت علیؓ کولکھنے کا حکم دیا۔''

پھر حضرت مسورؓ کی حدیث میں یہ تصریح بھی ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر حضرت علیؓ کاتب تھے۔ مزید برآں بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ خطوط و رسائل مبارک ہیں، بالخصوص اس حیثیت سے بھی کہ ان میںموجود تعلیمات پرعمل کیا جائے اور جہاںتک تعلق ہے، ان کوچومنے اور چاٹنے کا سو یہ سلف صالحین کے عمل سے ثابت نہیں۔


حوالہ جات
1. رقم : 2296
2. صحیح مسلم :7؍34
3. اتحاف الکرام:ص160
4. مع المغني وبشرح الکبیر: 2؍384
5. الإرواء :5؍142
6. باب الشروط في النکاح
7. فتح الباری:7؍504