حدود قوانین کا ’میڈیا ٹرائل ‘

پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا اور اسلام کی رو سے کسی مملکت کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے میں بنیادی اہمیت اس امر کو حاصل ہے کہ وہاں اللہ کا قانون نافذ ہو اور عدل وانصاف کے لئے اللہ کی قائم کردہ میزان پر فیصلے کئے جاتے ہوں۔ قیامِ پاکستان کے کئی عشروں بعد اسلامیانِ پاکستان کو اس امر کی توفیق ملی کہ وہ مملکت ِخداداد میں بعض اسلامی قوانین کا نفاذ (گو بظاہرہی) کرسکیں۔ پاکستان میں اسلامی قوانین کو لاگو کرنے کے لئے اب تک تین آرڈیننس نافذ کئے جا چکے ہیں : حدود قوانین، قانونِ قصاص ودیت اور قانونِ توہین رسالتؐ۔ البتہ اس میں قانونِ شہادت کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن قانونِ شہادت بنیادی قانون کی بجائے دراصل 'پروسیجرل لائ' کا حصہ ہے۔

مسلمانانِ پاکستان کے لئے انتہائی افسوس کا مقام اور ربِّکریم سے کئے گئے وعدوں سے انحراف کی صورتِ حال یہ ہے کہ موجودہ دورِ حکومت میں تدریجا ًان تینوں قوانین کو غیر مؤثر کرنے کی طرف ہی قدم بڑھائے گئے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کے قانونِ توہین رسالتؐ کا تعلق ہے تو اس پر گذشتہ دو تین سال حکومتی وعوامی حلقوں میں ایک جنگ کی سی کیفیت رہی، آخرکار حکومت نے اصل قانون کو منسوخ کرنے کی بجائے اکتوبر 2004ء میں ایک ترمیم (دی کریمنل لاء امینڈمنٹ ایکٹ 2004ء) کی رو سے اس کے طریقہ کارمیں ایسی تبدیلی کی کہ عملاًیہ قانون معطل ہوکر رہ گیا،لیکن راقم کے حالیہ سرکاری دورئہ امریکہ میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ملاقات کے دوران امریکی آفیسرز نے اس ترمیم پر بھی اعتراض کیا اور اصل قانون کو ہی منسوخ کرنے کاتقاضا کیا۔ قصاص ودیت کے قانون میں بھی اسی مذکورہ بالا ایکٹ میں ایسی ہی ترامیم تجویز کی گئی ہیں، اسکے بعد عملاً وطن عزیز میں محض حدود آرڈیننس ہی واحد اسلامی قانون کے طورپر باقی رہ جاتاہے جس سے ملک کا رہا سہا اسلامی تشخص برقرار ہے۔

حدود قوانین کی منسوخی کا مطالبہ اس کے یومِ نفاذ سے ہی وہ لوگ کر رہے ہیں جن کی نظرمیں اس ملک کا اسلامی ریاست ہونا ہی ایک امتیازی اور اضافی مسئلہ ہے۔ مغربی افکار کے پروردہ ان حلقوں کو مطمئن کرنے کے لئے ہر حکومت خواتین کمیشن(i) قائم کرتی رہی۔ اِن دنوںبھی وفاقی وزیر قانون جناب وصی ظفر کے بقول حدود قوانین کے بارے میں تجاویز اورمسودئہ قانون حکومت کو پیش کیا جاچکا ہے اوراس پر عنقریب بحث ہونے والی ہے۔

یہ ہے وہ پس منظر جس کے لئے پاکستان کے ایک اہم ابلاغی ادارے نے اپنے تمام اُردو؍ انگریزی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر حدودقوانین کے خلاف 'میڈیا(ii) ٹرائل' شروع کررکھا ہے۔ ملک کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کرکے اس امرکو اس قدر اہمیت دی گئی ہے گویا یہ وطن عزیز کا اہم ترین مسئلہ ہے۔

دوسری طرف اسی ملک میں عائلی قوانین 1961ء اور قتل غیرت کے نام سے حالیہ قانون سازی وہ اہم اقدامات ہیں جن میں اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کیا گیا ہے لیکن ان کو مقدس گائے بناکر دینی وعوامی حلقوں کے احتجاج کو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی، مفرور لڑکیوں کے نکاح پر متعدد فاضل جج صاحبان قانون سازی کی سفارش کرچکے ہیں، لیکن یہاں بھی اصلاحِ احوال کی بجائے معاشرتی اقدار کی شکست وریخت پر اسمبلیوں میں گھمبیر خاموشی طاری ہے۔

حدود قوانین کی اہمیت
اس گرما گرم بحث میں آج تک حدود قوانین کی اصل اہمیت کو اجاگرنہیں کیا گیا۔ پاکستان میں پہلی بار اس قانون کی رو سے زنا کو جرم قرار دیا گیا تھا۔ سابقہ قانون 'تعزیراتِ پاکستان' کی دفعہ 497 اور حدود قوانین کی دفعہ 4 کا تقابلی مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ حدود قوانین سے پہلے پاکستان میں کسی غیر شادی شدہ عورت مثلاً کنواری، بیوہ یا مطلقہ سے زنا قانوناً جرم ہی نہیں تھا۔ انگریز کے دور سے چلے آنے والے سابقہ قانون میں زنا کے جرم ہونے کی بجائے محض اسے شوہر کے حق میں مداخلت قرار دیتے ہوئے صرف اس زنا کو جرم باور کیا جاتا تھا جہاں بیوی شوہر کی رضامندی کے بغیر غیر مرد سے جنسی تعلقات قائم کرے۔ اس لحاظ سے اُس وقت صرف شوہر ہی زنا کا مقدمہ درج کراسکتا تھا اور وہ بھی اسی وقت جب اس سے بیوی نے اجازت نہ لی ہو۔ جبکہ حدود قوانین کی رو سے زنا ایک ناقابل راضی نامہ اور ناقابل ضمانت جرم ہے جس کا اطلاق بغیر نکاح کے ہونیوالے ہر جنسی تعلق پر کیا جاسکتا ہے۔

زنا کاری اسلام کی نظر میں اس قدر سنگین جرم ہے کہ فرمانِ رسالتؐ کے مطابق :''روئے کائنات میں اس فعل بد پر اللہ عزوجل سے زیادہ کسی کو غیرت نہیں آتی۔''(1) اور''اسی غیرت کی وجہ سے اللہ نے حرام کاریوں کی سنگین سزا مقرر کر رکھی ہے۔''(2) حدود قوانین کا یہ اکیلا اعزاز ہی اتنا اہم ہے کہ مغرب سے مرعوب لوگ اس کو برداشت نہیں کرسکتے کیونکہ مغرب میں زنا بالرضا بذاتِ خود جرم ہی نہیں، محض زنا بالجبر کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ مغرب میں نکاح کی حیثیت وقتی رضامندی کودی گئی ہے جو شادی سے قبل حاصل ہو تب بھی جنسی مواصلت میں کوئی مضائقہ نہیں اور نکاح کے بعد بیوی وقتی طورپر راضی نہ ہو تو یہ 'ازدواجی زنا بالجبر' بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میڈیا ٹرائل میں اس سوال کو بھی بڑے شدومد سے اُٹھایا گیا کہ حدود قوانین میں زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں کوئی فرق کیوں نہیں؟ یہ سوال خود مغربی تہذیب سے مرعوبیت اور اباحیت پسند انہ طرزِ فکر کی نشاندہی کرتاہے۔ کیونکہ اسلام میں زنا کی سنگینی کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ، البتہ عورت سے جبر بھی ایک اضافی جرم ہے، حالات وقرائن سے ثبوت ملنے پر نہ صرف متاثرہ عورت کو بری قرار دیا جائے گا بلکہ اس کے حق عصمت پر دست درازی کی وجہ سے اس کو تاوان(iii) (مہرمثل) بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ یوں بھی یہ پروپیگنڈہ درست نہیں کہ حدود قوانین میں زنا بالجبر اورزنا بالرضا میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ دونوں کی تعریف اور تفصیلات علیحدہ علیحدہ دفعہ 4 اور 6 میں بیان کی گئی ہیں اور دفعہ 10 میں شرعی نصابِ شہادت پورا نہ ہونے کی صورت میں زنا کی سزا 10 سال اور زنا بالجبر کی سزا 25 سال بمعہ 30 کوڑے رکھی گئی ہے۔

'حدود آرڈیننس' کیا خدائی قانون ہے؟
پاکستان میں جاری اس حدود ٹرائل 'ذرا سوچئے' میں نہ صرف بے بہا وسائل کے بل بوتے پرپروپیگنڈہ کا ہر ذریعہ استعمال کیا جارہا ہے، بلکہ تصویر کا محض ایک رخ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے ذہن میں کئی ایک مغالطے بھی پیدا کئے جارہے ہیں۔ سوالات وضع کرنے میں جس عقل عیار کو کام میں لایا گیا ہے، وہ بھی قابل دید ہے اور یہ تمام مہم ایک نام نہاددینی ادارے کی سرپرستی میں جاری ہے۔ مثال کے طورپر یہ سوال: ''حدود آرڈیننس کیا خدائی قانون ہے؟'' ایک بے تکا سوال ہے جس سے مخصوص مقاصد وابستہ ہیں۔ اس امر سے کس کو انکار ہے کہ یہ آرڈیننس اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں کیا، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یہ غیر اسلامی ہے۔ یہ قوانین نہ تو حدود اللہ کا عین(بعینہٖ) ہیں اور نہ غیر۔ جس طرح ترجمہ قرآن خود تو قرآن نہیں ہوتا لیکن قرآن کا غیر بھی نہیں۔ کرن خود سورج نہیں ہوتی لیکن سورج سے الگ بھی نہیں۔ سایہ درخت نہیں کہلاتا لیکن درخت کا غیر بھی نہیں۔ ایسے ہی قرآن وسنت کا فہم خود قرآن وسنت بھی نہیں ہوتے لیکن اس کے غیر بھی نہیں۔ دونوں میں وہی تعلق ہوتا ہے جولفظ کا اپنے مفہوم کے ساتھ!!

اس مغالطہ آمیز سوال کا اب یہ نتیجہ نکالنا کہ ان میں ترمیم واصلاح کا دروازہ کھولا جائے، اوّل توموجودہ حکومت کی امریکہ نوازی اور مغربی فکر وفلسفہ سے مرعوبیت کے بعد اس سے کسی بہتر اصلاح کی اُمید کرنا ہی عبث ہے۔ مزید برآں اصل کوتاہی اور اصلاح کی ضرورت ان قوانین کی بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہے۔ سرحد اسمبلی 2003ء میں اور اسلامی نظریاتی کونسل کئی ایک رپورٹوں (مثلاً 2002ء) میں ان حدودقوانین کو عین اسلامی قرار دے چکی ہے۔ پھر محض غلطی کے امکان اور اصلاح کی گنجائش کی بنا پر اگر ان کو تبدیل کیا بھی جاتا ہے تو وہی اساسی سوال پھر سے پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ترمیم شدہ قوانین خدائی ہوں گے، ان میں غلطی یا اصلاح کا امکان کیونکر معدوم ہوگا؟ آج بعض اہل فکر کو اس مسودہ سے اختلاف ہے، کل بعض دوسروں کو اس سے اختلاف ہوگا۔ اس لئے میڈیا پر اُٹھائے جانے والے اس سوال کا اصل جواب تو یہی ہے کہ حدود قوانین خدائی نہیں، الٰہی قوانین صرف قرآن وسنت کے اپنے الفاظ ہیں، اگر ہم خالصتاً الٰہی قانون کو نافذ کرنے میں سنجیدہ ہیں توجس طرح ہم انسانی حقوق کے مغرب سے درآمدہ دستاویز کو بغیر کسی قانون سازی کے قابل عمل سمجھتے ہیں، اسی طرح اسلام بھی 12 صدیاں خلافت ِاسلامیہ میں قرآن وسنت کے اصل الفاظ میں ہی نافذرہا ہے، کیونکہ کوئی انسان اللہ کے اپنے الفاظ (قرآن) سے بہتر الفاظ لانہیں سکتا۔ آج بھی حدود اللہ کا کامل نفاذ اصل قرآن وسنت کے نفاذ سے ہی ہوسکتا ہے جیسا کہ سعودی عرب میں حدود اللہ کو یوں ہی نافذ کیا گیا ہے۔قرآن نے ہر قاضی کو ما أنزَل اﷲ (اللہ کے نازل کردہ ) کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند(iv) بنایا ہے۔ باقی تمام چیزیں اورانسانوں کے فہم سے تیارکردہ قوانین یا کسی شیخ الاسلام کا بہترین فہم بھی ما أنزل اﷲ نہیں ہوتے۔اس لئے کتاب وسنت کو ہی ان کی اصل صورت میں نافذ کیا جائے، تب ہی اسلام کا کاملاً نفاذ ہوسکتا ہے۔

جدید مغربی قانون اور اسلامی شریعت میں یہ ایک بنیادی فرق ہے کہ انسانی قوانین میں مسئلہ پیش آنے سے قبل 'کوڈی فی کیشن ' کرکے ججوں کو اس کا پابند بنایا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام میں قرآن وسنت کو ہی نافذ کرکے مسئلہ پیش آنے پر شرعی اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والا قاضی اپنا فیصلہ صادر کرتا ہے۔ قاضی کواپنے جیسے دوسرے انسانوں کے فہم وتعبیر کا پابند نہیں کیا جاتابلکہ وہ صرف اللہ کی وحی کا پابندہوتا ہے۔ تاریخ میں اسلامی شریعت کے نفاذ کا طریقہ یہی رہا ہے۔

یہ ایک مثالی جواب تو ہے لیکن چونکہ پاکستان انگریزی نظامِ عدل کو اپنائے ہوئے ہے، اس لئے حدود قوانین میں مزید ترمیم کی بجائے محض ایک شق کا اضافہ کردیا جائے کہ جہاں کہیں ابہام یا اختلاف ہو تو اس کا فیصلہ کتاب وسنت کی روشنی میں کیا جائے گا، اس سے اس قانون میں اصلاح اور ترمیم کا دروازہ کھولنے کی بجائے صرف قرآن وسنت کو قانون پر نگران کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ یہ موقف کوئی نیا نہیںبلکہ قانون قصاص ودیت کے نفاذ کے سلسلے میں ایک فیصلہ کرتے ہوئے 1991ء میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے جسٹس افضل ظلہ کی سربراہی میں اور ایک دوسرے کیس میں لاہور ہائیکورٹ کا فل بنچ صلح کے بعد تعزیری سزا پر بھی ایسا ہی فیصلہ صادر کرچکا ہے۔ قانونِ قصاص ودیت کی دفعہ 338 ؍ ایف میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔

کیا حدود قوانین امتیازی ہیں؟
حدود قوانین میں تمام سزائیں عورتوں کے علاوہ جرم کرنے والے مردوں پر بھی مساوی طورپر لاگو ہیں لیکن عورتوں کی نصف گواہی کی بنا پر حدود قوانین کے امتیازی قانون ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے جومحض مغالطہ آرائی ہے۔
حدود قوانین میں زنا کے ثبوت کے دو طریقے ہیں اور ہر دو کی علیحدہ علیحدہ سزا ذکر کی گئی ہے۔ اگر شہادت کے شرعی تقاضے پورے ہوجائیں تو زنا کی شرعی سزا(حد)، وگرنہ شہادت کے عمومی تقاضوں کی رو سے عام سزا (تعزیر) مثلاً 10 سال قید اور 30 کوڑے رکھی گئی ہے۔

جہاںتک عام سزا کا تعلق ہے تو پاکستانی قانون میں عورت کی شہادت بھی معتبر ہے۔ جہاں تک شرعی حد کا تعلق ہے تو یہ مسئلہ امتیاز کا نہیں بلکہ اللہ کے طے کردہ نصابِ شہادت کا ہے جو قرآن میں مذکورہے۔ اگر اللہ نے یہ حق عورتوں کو نہیں دیا تو ان مردوں کو بھی نہیں دیا جن کی تعداد چار سے کم ہو۔ شریعت کے دیگر مسائل میں دو گواہوں سے وقوعہ ثابت ہوجاتا ہے لیکن مغیرہ بن شعبہؓ پر زناکی چار گواہیاں پوری نہ ہونے پر، باقی تین گواہوں پر حضرت عمرؓ نے بہتان کی سزا(v) جاری کی۔گویا نصابِ شہادت کا یہ تقاضا مردوں کے ساتھ بھی امتیازی ہے۔ زنا کی واحد سزا (جو سنگین ترین بھی ہے) کا اتنا کڑا نصاب کیوں ہے؟اس کی حکمتیں بے شمارہیں، جو ایک الگ موضوع ہے۔ البتہ عورتوں کو اس کی گواہیوں سے دور رکھنے کی حکمت یہ بھی ہے کہ دورانِ تفتیش وقوعہ کی عملی تفصیلات پر وکیل کی کڑی جرح سے غیر مردوں کے درمیان نسوانی شرم وحیا متاثر ہوسکتی ہے اورشرم وحیا کی وجہ سے مجرم کو قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کا موقع مل سکتا ہے۔

یوں بھی یہ اعتراض کرنے والے لوگ اس امتیاز کے ذریعے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اُنہیں زنا کی سنگین شرعی سزا دلوانے سے دلچسپی ہے کیونکہ شرعی نصاب کا تقاضا عام سزامیں تو ہے ہی نہیں، جبکہ یہی خواتین ہمیشہ سے شرعی حدود کو ظالمانہ اور وحشیانہ قرار دیتی آئی ہیں، چنانچہ یہ الزامات محض اعتراض برائے اعتراض ہیں!!

بعض خود ساختہ اسلامی دانشورں نے حدود قوانین کو زنابالجبر کا لائسنس بھی قرار دیا ہے کہ جبر کے ثبوت کے لئے بھی عورت کو چار گواہ پیش کرنا ہوں گے، جبکہ شریعت کا 4 گواہوں کا یہ تقاضا شرعی سزا کو لاگو کرنے پر ہی ہے، جبر کے ثبوت کے لئے نہیں، جبر کا علم تو محض عورت کے بیان یا قرائن(vi) کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے۔

حدود قوانین پر تین نقطہ نظر
پاکستان میں اس وقت حدود قوانین کے بارے میں دو تین مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی،انسانی حقوق کمیشن،جاوید احمد غامدی اور ان سے متعلقہ لوگ اس کی کلی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ ملک میں زنا پر عائد قانونی قدغن کو ختم کرکے معاشرے کو مادر پدر آزاد بنانا اور ملک میں اسلامی قانون کی آخری علامت ختم کرکے اس کا اسلامی تشخص مٹانا چاہتے ہیں۔

دوسرے لوگ وہ ہیں جو ان میں معمولی سی ترمیم کے بھی حامی نہیں، کیونکہ موجودہ حکومت سے انہیں کسی اصلاح کی اُمید نہیں ہے اور وہ بہتری کے نام پر قانونِ توہین رسالت کی طرح عملاًان کو معطل نہیں کرواناچاہتے۔ یاد رہے کہ اکتوبر 2004ء میں پاس ہونے والے ترمیمی ایکٹ میں '156 بی' کے تحت اس حد تک زنا کی سزا میں ترمیم بھی کی جاچکی ہے کہ ''زنا کا جرم عدالت کے بغیر عائد نہیں کیا جاسکتا۔'' ایسی ترامیم سے اس حلقے کے شکوک وشبہات کی مزیدتائید ہوتی ہے۔یہی موقف متحدہ مجلس عمل نے 12؍جون کے اجلاس میں اپنایا ہے۔

البتہ بعض مثالیت پسند لوگ بہتری کی گنجائش اور غلطی کے امکان کی بنا پر ان میں ترمیم وتغیر کا راستہ کھولتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ اوّل تو وہ ترمیم بھی خدائی نہیں بلکہ انسانی ہوگی جس سے بعض لوگوں کو اختلاف اورمزید بہتری کی گنجائش باقی رہے گی۔ حدود قوانین کو موجودہ شکل میں ہی باقی رکھا جائے، البتہ محض اس میں کتاب وسنت کی بالادستی او رنگرانی کی ایک شق کا اضافہ کردیا جائے اور باقی تفصیلات شرعی قاضی کی صوابدید پر چھوڑ دی جائیں۔ تینوں رجحانات اور ان کے مضمرات واضح ہیں، دین سے ہماری وابستگی اور اسلام سے ہمارا تعلق معرضِ خطر میں ہے، اور آخر کار سب کو روزِ قیامت اپنی اسلامیت کا ربّ ذوالجلال کے سامنے جواب دینا ہے !!


...... ......


﴿أَفَحُكْمَ ٱلْجَـٰهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ ٱللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿٥٠...سورۃ المائدہ
''کیا یہ لوگ جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں، ایمان لانے والوں کی نظر میں اللہ عزوجل سے بڑھ کر کون اچھا قانون دے سکتا ہے؟''

حدود قوانین اور بعض 'متفقہ' ترامیم ؟
پاکستان کے ایک بڑے ابلاغی ادارہ نے حدود قوانین کو لگاتار موضوعِ بحث بنا کراسے ایک بار پھر عوام کے ذہنوں میں تازہ کردیا ہے۔ اس بحث سے عوام کے ذہنوں میں جہاں اس قانون کے بارے میں کئی ایک اعتراضات او رمغالَطوں نے جنم لیا، وہاں والہانہ انداز میں بپا کی گئی یہ مہم بھی اس ابلاغی ادارے کے بارے میں کئی ذہنوں میںشکوک وشبہات پیدا کرگئی۔ اتوار 10؍جون کو دو گھنٹے کے طویل پروگرام پر اس مہم کونقطہ عروج پر پہنچایا گیااور اس میں چھ افراد اور سامعین کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا۔ دو علما حدود قوانین کے حامی (مولانا عبدالمالک اور مفتی منیب الرحمن)، دو دانشور مخالفت میں(جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر طفیل ہاشمی) اور دو میزبان (حامد میر اور افتخار چودھری)۔ بہت سے لوگوں نے اس پروگرام میں ناظرین کی حیثیت سے شرکت کی۔ گویا واقعتا یہ ایک بھرپور میڈیا ٹرائل تھا جس میں دوطرفہ دلائل اور ان کا جائزہ پیش کیا جاتا رہا۔

ایک مخصوص گروپ کے ذرائع ابلاغ پراوّل روز سے یہ مہم جس ہوشیاری کے ساتھ چلائی جارہی ہے، یہ پروگرام بھی اسی ہاتھ کی صفائی کا شاہکار تھا۔ درمیان میں بعض مراحل پر مظلوم خواتین کی ویڈیوز کے ذریعے جذباتی فضا پیدا کرنے یا این جی اوز کی خواتین کے واک آئوٹ کے ذریعے دبائو ڈالنے کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن ان کا خاطرخواہ اثر نہ ہوا۔ بعض سوالات پر اثر انداز ہونے کے لئے بعض اہل علم کی پہلے سے ریکارڈ شدہ ویڈیوزبھی پردئہ سکرین پر پیش کی گئیں لیکن مباحثہ میں شریک پختہ فکر علما ثابت قدمی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔آخر کار میزبانوں کی ذہانت ہی کام آئی اور اُنہوں نے پروگرام کو اپنے مطلوبہ نتائج تک لے جانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

اس پروگرام میں دونوں طرف کے اہل علم کے مابین متعدد اُمورپر اتفاقِ رائے بھی سامنے آیا، مثال کے طورپر قانون کے اجرا کے طریقہ میں اصلاح، پولیس کا ناروا کردار اور جج حضرات کی کتاب وسنت سے لاعلمی، مردو زَن کے لئے سزائے قیدکا خاتمہ لیکن میزبانوں ؍ منتظمین نے ان اصل نکات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے سوالات کی ساخت اور نشاندہی کے ذریعے محض انہی نکات کو حتمی کرنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھی جس سے بحث کو مخصوص رخ دیا جاسکے۔

یہ پروگرام نہ صرف انتہائی غور وخوض سے ترتیب دیا گیا بلکہ امکانی رجحانات کے پیش نظر متعلقہ آیات واحادیث کی سلائیڈز بھی پہلے سے بنا رکھی گئی تھیں۔ آخر تین متفقہ نکات پر پروگرام کا خاتمہ کیا گیا، ان نکات کے تذکرے کے بعد ان کا ایک جائزہ پیش خدمت ہے :
(1)  زنا کی ایف آئی آر اسی وقت کاٹی جائے جب زنا کے چار عینی گواہ موجود ہوں۔
(2)  خواتین کے لئے قید کی سزا کا خاتمہ کیا جائے۔
(3)  زنا کا الزام غلط ثابت ہونے کی صورت میں عام قانونی طریقہ کار کے برعکس از خود قذف کی کاروائی کی جائے۔
''زنا بالجبر کو 'حرابہ' کے تحت لاتے ہوئے، اس کے لئے محض دو گواہ اور سنگین تر سزا تجویز کی جائے۔'' اس آخری نکتہ پر اتفاق کرانے کی کوششیں تو ہوئیں لیکن عملاً ایسا نہ ہوسکا۔

اسلام کا نظریۂ جرم وسزا یہ ہے کہ چند سنگین سزائوں کے نفاذ کے ذریعے پورے معاشرے میں قانون کی مخالفت کرنے والے عناصر کے خلاف ایک آڑ(Deterrent) قائم کردیا جائے تاکہ اس کے خوف سے لوگ جرم کرنے سے باز رہیں۔ اسلام نہ تو یہ چاہتا ہے کہ شبہات پر سنگین سزائیں دی جائیں اور نہ ان سزائوں کو عملاً معطل کرنے کا رجحان رکھتا ہے۔ لیکن مذکورہ بالا متفقہ ترامیم کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ان کے نتیجے میں اگر گذشتہ 27 برسوں میں کسی ایک شخص پر حد کی سزا عائد نہیں ہوسکی تو ان ترامیم کے بعد آئندہ 50 برسوں میں بھی اس کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ مذکورہ بالا ترامیم بظاہر تو درست نظر آتی ہیں لیکن ان کا مقصود ومدعا اور نتیجہ آخرکار حدود کی معطلی کی صورت میں نکلتا ہے۔ پہلے بھی قانونِ توہین رسالت کو معطل کرنے کے بجائے اس کے طریقہ کار میں ایسی تبدیلی کی گئی کہ عملاً یہ قانون ناقابل عمل ہوکر رہ گیا ، اب یہی چیز حدود قوانین کے ساتھ بھی کی جارہی ہے۔ ممکن ہے بعض لوگ اسے محض بد ظنی پر محمول کریں لیکن یہ دعویٰ حسب ِذیل مثال کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے:
مذکورہ بالا تین متفقہ ترامیم کو اگر تسلیم کرلیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی بھائی، باپ یا معاشرے کا کوئی اور فرد کسی عورت کو زنا میں ملوث دیکھے تو ایف آئی آر درج کرانے کے لئے پولیس کے پاس جانے سے قبل اوّل تو اسے چار عینی گواہوں کو آمادہ کرنا چاہئے یعنی روک تھام سے قبل خود ہی اپنے ہاتھوں اپنی عزت کی نیلامی کرلینی چاہئے، بصورتِ دیگرقذف کی خود بخود لاگو ہونے والی سزا کے لئے تیار ہوکر جانا چاہئے۔ اور آغاز کے اسی مرحلہ پر اگر وہ بفرضِ محال یہ لوازمات پورے بھی کرلیتا ہے تو تب بھی زنا کی مرتکب عورت کو پولیس کی گرفت سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ پولیس اس کو قید نہیں کرسکتی۔ دوسری طرف جس نکتہ کومنظور کرانے کی کوشش کی گئی، اگر وہ منظورہوجاتی تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ زنا بالجبر کی صورت میں نہ توچار گواہوں کی ضرورت ہوتی اور سزا ، زنا بالرضا کی سزا سے بھی سنگین تر اور قابل عمل ہوجاتی۔

مذکورہ بالا ترامیم کا نتیجہ واضح طورپر ملزمان کو رعایت کی صورت میں نکل رہا ہے اور ان پر روک ٹوک کو مشکل سے مشکل تر بنایا جارہا ہے۔پاکستان کے موجودہ حالات میں اس وقت زنا آرڈیننس کا استعمال زیادہ تر والدین کی رضامندی کے بغیر گھر سے فرار ہونے والی لڑکیوں پر زنا کے الزام کے سلسلے میں ہورہا ہے۔اس سلسلے میں معاشرتی اقدار وروایات کی توڑ پھوڑ اور عشق کی شادی کو عدالتی تحفظ ملنے کے بعد حدود قوانین کی متعلقہ شقوں کو غیر مؤثر کرنے کی جسارت کی جارہی ہے۔ عموماً خواتین ہی حمل ، عزت اُچھلنے یا معاشرتی انجام سے گھبرا کرزنا سے گریز کرتی ہیں لیکن اگر عورت کو ہر طرح کی روا اور ناروا رعایات بھی دے دی گئیں بلکہ الزا م ثابت ہونے کے باوجود قید وبند سے بھی استثنا مل گیا تو معاشرے میں زناکاری کس قدر عام ہوجائے گی، اس کا اندازہ ہر صاحب ِنظر بخوبی کرسکتا ہے۔

دراصل کسی بھی معاملہ کی اصلاح کے لئے بیسیوں ترامیم کی جاتی ہیں اورمطلوبہ نتائج کے پیش نظر ویسی ترامیم آگے لائی جاتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ مذکورہ بالا ترامیم غیر اسلامی نہیں لیکن یہ پاکستان کی معاشرتی صورتحال کا صحیح حل بھی نہیں ہیں۔اس امر سے کسی کو انکار نہیں کہ پاکستان میں زنا کاری میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے، بڑے شہروں کے کئی علاقوں اور گلی چوراہوں میں کھلے عام بعض عورتیں رات گئے گاہکوں کی منتظر دکھائی دیتی ہیں، ایک اسلامی معاشرے میں اس صورتحال کی ضرور روک تھام ہونی چاہئے لیکن کیا ان ترامیم سے زناکاری میں اضافہ ہوگا یا کمی ہوگی؟

ذیل میں ہم ان ترامیم کی نشاندہی کرتے ہیں جو مذکورہ مذاکرے میں شریک اہل علم کی مناسب آرا سے ہی اخذ کی گئی ہیں، لیکن ان سے زنا کو عملاً روکنے میں مدد مل سکتی ہے :
(1) پاکستان میں حدود اللہ کو پہلے سے چلے آنے والے انگریزی قانون کے ذریعے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی جس سے عملاً ناکامی کے علاوہ خصوصاً خواتین کے لئے زیادہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جبکہ حدود قوانین نہ صرف 12 صدیاں اسلامی معاشروں میں نافذ رہے ہیں بلکہ آج بھی سعودی عرب میں نافذ العمل ہیں۔ 12 جون کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ عرب امارات میں ایک غیرملکی مرد وعورت کو بغیر نکاح کے باہم جنسی تعلقات کے نتیجے میں شرعی سزا سنائی گئی، عورت کو کنواری ہونے کی وجہ سے 100 کوڑے اور جلاوطنی اور مرد کو شادی شدہ ہونے کی وجہ سے سنگساری کی سزا۔ 3

اس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل مسئلہ حدود قوانین کے قابل عمل ہونے کی بجائے طریقہ نفاذ کا ہے۔ اگر حدود قوانین کے کیس ہرشہر میں قائم شرعی عدالتوں میں براہِ راست درج کرائے جائیں اور اسلامی نظریۂ انصاف کے مطابق ایک دو روز میں ان کا فیصلہ کردیا جائے تو نہ صرف مرد وزن کو قید کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ فوری گواہیاں بھی مل سکتی ہیں جو موجودہ نظام میں کئی ماہ وسال گزرنے کے بعد عملاً ممکن نہیں رہتیں۔گویا اصل مسئلہ موجودہ نظامِ عدل کا ہے جہاں حدود قوانین کے علاوہ دیگر مقدمات میں بھی سالہا سال مظلوم کی داد رسی ممکن نہیں ہوتی۔ اسلامی حدود کو نافذ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے اینگلو سیکسن نظامِ عدل اور پولیس کے ظالمانہ نظام کی علتوں سے پاک کردیا جائے۔

(2)  حدود قوانین کے اجرا کے لئے ان قاضی صاحبان کو متعین کیا جائے جو اسلامی شریعت کا بھرپور علم رکھتے ہوں۔مزید قانون سازی کی بجائے ان ماہر قاضی صاحبان کو اسلامی نظامِ عدل کے تصورات کے مطابق یہ سزائیں جاری کرنے کے اختیارات دیے جائیں۔ایسے ماہرین ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور وہ جدید قانون کی پیچیدگیوں اور طوالت کی بجائے سادہ انداز میں ہر ظالم کو اس کے ظلم کی سزا سنانے کی پوری صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یوں بھی اللہ نے قاضی کو کتاب وسنت کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند بنایا ہے، انسانوں کے خود ساختہ قوانین کے مطابق نہیں۔

(3)  حدود قوانین میں مزید ترمیم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ وہ نئی ترمیمات بھی انسانی ہوں گی، ان سے بھی بعض دیگر لوگوں کو اختلاف ہوگا، پھر ان میں بھی اصلاح کی گنجائش اور غلطی کا امکان باقی رہے گا، اس لئے صرف ایک ترمیم کرنا ہی کافی ہوگا کہ حدود قوانین کے ہر ابہام اور اختلاف کو کتاب وسنت کی رہنمائی میں حل کیا جائے گا۔یہ شق اس سے قبل قانون قصاص ودیت میں 338؍ ایف کے تحت موجود ہے اور سپریم کورٹ کے جسٹس افضل ظلہ کی سربراہی میں فل بنچ اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس خلیل الرحمن خاں کی سربراہی میں فل بنچ میں اسی نوعیت کے فیصلے کئے بھی جاچکے ہیں جن میں قانونی خلا کو کتاب وسنت سے براہِ راست رہنمائی کے ذریعے پورا کیا گیا۔

بنیادی سوال یہی ہے کہ اس قانون میں ترمیم کی نوعیت کیا ہونی چاہئے۔ جو لوگ اس کو خواتین حقوق کے خلاف تصور کرتے ہیں، وہ ایسی تجاویز لاتے ہیں جس سے عملاً یہ قانون غیر مؤثر ہوجائے اور جو لوگ اس کو مؤثر کرنا چاہتے ہیں، وہ اس کو جدید قانون کی آلائشوں سے نکال کر خالص اسلامی دائرئہ عمل میں لانے کی تجویز پیش کرتے ہیں جس اسلام میں انصاف ہی انصاف ہے اور مردوزن میں سے کسی پر بھی ظلم نہیں!! (حافظ حسن مدنی)

 


 

حوالہ جات

1. بخاری: 1044

2. بخاری: 7416

3. روزنامہ 'نوائے وقت' : ص3


i. مثلاً 'عورت کی حیثیت کے بارے میں کمیشن' چیئرپرسن : بیگم زری سرفراز 1985ء 'دی کمیشن آف انکوائری فار ویمن' چیئرمین : جسٹس سعدسعودجان 1994ء ، بعد میں 'خواتین حقوق کمیشن' جسٹس ناصر اسلم زاہد 1996ء 'نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن'، چیئرپرسن جسٹس (ر) واجدہ رضوی 2000ء وغیرہ
ii. روزنامہ جنگ، انقلاب اور دی نیوز اخبارات میں قد آدم اشتہارات کے علاوہ اوّل وآخرصفحہ کے نچلے کالم میں روزانہ 8 10 بیانات، جیو چینل پر روزانہ 5 سے زائد بار حدود پرپروگرام۔ 'ذراسوچئے' کے نام سے مستقل سلسلۂ بحث جس کے بڑے بڑے بورڈ چوراہوں پر، حدود آرڈیننس کے لئے مستقل ویب سائٹ۔ اس پر اکتفا نہیں بلکہ دیگر پروگراموں جوابدہ، آمنے سامنے، الف، کیپٹل ٹاک وغیرہ میں بھی حدود قوانین کو زیر بحث لایا گیا۔ اس لئے اس مہم کو بعض لوگوں نے میڈیا ٹرائل اور بعض نے 'ہفتہ پولیو' یا 'ہفتہ ٹریفک' سے تشبیہ دی ہے۔
iii. حضرت عمر کے دور میں ایک شخص نے جبراً عورت سے زنا کیا، تو آپ نے زانی پر حد لگانے کے علاوہ اسے عورت کی ثلث دیت ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔(مصنف عبد الرزاق: 13663) موطأ امام مالک میں ہے کہ عبد الملک بن مروان نے زانی پر مجبور کی جانے والی عورت کا حق مہر عائد کیا۔(حدیث: 1218) حضرت علی اور ابن مسعود کا یہ موقف ہے کہ کنواری سے زنا بالجبر کی صورت میں اسے کنواریوں کا مہر مثل اور شادی شدہ سے زنا بالجبر کی صورت میں شوہر دیدہ کا مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔(ایضاً: 13657) زہری اور قتادہ نے بھی جبر کی صورت میں زانی پر مہر ادا کرنے کا حکم لگایا ہے۔ البتہ قتادہ کے نزدیک جبر کی علامت یہ ہے کہ عورت چیخ وپکار کرے (ایضاً: 13656) امام مالک اورامام شافعی کا موقف یہ ہے کہ مہر متاثرہ عورت کو ہی ادا کیا جائے گا۔ (المغنی: 7 396) مزید دیکھئے : المغنی: 17112، 347،348 اور360 ، طبع مؤسسة ہجر، قاہرہ
 سنن ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا بالجبر کی شکار عورت سے حد ساقط کر دی۔ (حدیث:1372)

iv. قرآن میں ہے: ﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَ ﴿٤٤...سورۃ المائدہ)
''جو اللہ کے نازل کردہ کے ساتھ فیصلہ نہ کرے، وہی لوگ کافر ہیں ۔''
اس سے اگلی آیات میں ایسے لوگوں کو فاسق اور ظالم قراردیاگیا ہے۔ (المائدة: 45 و 47)
v. حضرت عمر کے سامنے مغیرہ بن شعبہ پر زنا کا الزام لگایا گیااور تین شخصوں نے گواہی دی: ابوبکرہ، نافع اور شبل بن معبد مگر چوتھے شخص زیاد بن ابیہ نے وقوعہ کی تفصیلات سے لاعلمی کا اظہار کیا تو حضرت عمر نے تینوں پر حد قذف جاری کی۔(بخاری تعلیقاً قبل حدیث 2648، سنن بیہقی: 2348، ابن شیبہ: 28824) المغنی:12514
vi.  حضرت ابو بکر کو ایک شخص نے بتایا کہ ایک مہمان نے اس کی بہن سے زنا بالجبر کیا ہے حالانکہ وہ اس پر راضی نہیں تھی۔ حضرت ابو بکر نے مہمان سے تفتیش کی جس کے نتیجے میں مہمان نے اعتراف کرلیا۔ ابوبکر نے اسے سو کوڑے لگائے اور فدک کی طرف جلاوطن کردیا اور عورت پر جبر کی وجہ سے نہ تو اس پر حد لگائی اور نہ اسے جلاوطن کیا، پھر حضرت ابوبکر نے اسے اس عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا۔ (مصنف عبد الرزاق : 12796)
ابو موسیٰ اشعری نے یمن میں ایک غیرشادی شدہ عورت کو حاملہ پایا تو رشتہ داروں کے ہمراہ اسے حضرت عمر کے پاس لئے آئے۔ حضرت عمر نے اس کے اقربا سے اس کے کردار کے بارے میں پوچھ گچھ کی اور اس کے بارے میں اچھے تاثرات ملنے پر عورت کو مجبور قرار دیا۔ پھر قوم کو اس کا دھیان رکھنے کی تلقین کی اور تحائف وہدایا دے کر واپس بھیج دیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 28500)