مدنی دَور:
خصوصیات اور مسائل:
ہجرت سے قبل نبی کریم ﷺ کا بیشتر خطاب مشرکینِ عرب سے تھا جن کے لئے اسلام کی آواز ایک نئی اور غیر مانوس آواز تھی۔ اب ہجرت کے بعد سابقہ یہودیوں سے پیش آیا۔ جن کی بستیاں مدینہ سے بالکل متصل ہی واقع تھیں۔ یہ لوگ توحید، رسالت، وحی، آخرت اور ملائکہ کے قائل تھے۔ اس ضابطۂ شرعی کو تسلیم کرتے تھے، جو خدا کی طرف سے ان کے نبی موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا اور اصولاً ان کا دین وہی اسلام تھا، جس کی تعلیم محمد ﷺ دے رہے تھے، لیکن صدیوں کے مسلسل انحطاط نے ان کو اصل دین سے بہت دور ہٹا دیا تھا۔ ان کے عقائد میں بہت سے غیر اسلامی عناصر کی آمیزش ہو گئی تھی، جن کے لئے تورات میں کوئی سند موجود نہ تھی۔ ان کی عملی زندگی میں بکثرت ایسے رسوم اور طریقے رواج پا گئے تھے، جو اصل دین میں نہ تھے اور ان کے لئے تورات میں کوئی ثبوت نہ تھا۔ خود تورات کو انہوں نے انسانی کلام کے اندر خلط ملط کر دیا تھا اور خدا کا کلام جس حد تک لفظاً یا معناً محفوظ تھا۔ اِس کو بھی انہوں نے اپنی من مانی تاویلوں اور تفسیروں سے مسخ کر رکھا تھا۔ دین کی حقیقی روح ان میں سے نکل چکی تھی اور ظاہری مذہبیت کا محض ایک بے جان ڈھانچہ باقی تھا، جس کو وہ سینہ سے لگائے ہوئے تھے۔ ان کے علماء اور مشائخ ان کے سرداران قوم اور ان کے عوام سب کی اقتصادی، اخلاقی اور عملی حالت بگڑ گئی تھی۔ اور اپنے اِس بگاڑ سے ان کو ایسی محبت تھی کہ وہ اصلاح قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے۔ صدیوں سے مسلسل ایسا ہو رہا تھا کہ جب کوئی اللہ کا بندہ انہیں دین کا سیدھا راستہ بتانے آتا تو وہ اسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے اور ہر ممکن طریقے سے کوشش کرتے تھے کہ وہ کسی طرح اصلاح میں کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ لوگ حقیقت میں بگڑے ہوئے مسلمان تھے جن کے ہاں بدعتوں اور تحریفوں، موشگافیوں اور فرقہ بندیوں، استخواں گیری اور مغز افگنی، خدا فراموشی اور دنیا پرستی کی بدولت انحطاط اس حد کو پہنچ چکا تھا کہ وہ اپنا اصلی نام 'مسلم' تک بھول گئے تھے۔ محض یہودی بن کر رہ گئے تھے اور اللہ کے دین کو انہوں نے محض نسل اسرائیل کی آبائی وراثت بنا کر رکھ دیا تھا۔ پس جب نبی کریم ﷺ مدینہ پہنچے تو آپ ﷺ نے اصل دین کی طرف دعوت دی، ان کی تاریخ اور اخلاقی و مذہبی حالت پر تنقید کی اور اس کے بالمقابل حقیقی دین کے اصول پیش کیے۔
مدینہ پہنچ کر اسلامی دعوت ایک نئے مرحلہ میں داخل ہو چکی تھی، مکہ میں تو معاملہ صرف اصولِ دین کی تبلیغ اور دین قبول کرنے والوں کی اخلاقی تربیت تک محدود تھا۔ مگر جب ہجرت کے بعد عرب کے مختلف قبائل کے وہ سب لوگ جو اسلام قبول کر چکے تھے ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہونے لگے اور انصار کی مدد سے ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑ گئی تو اب آپ کا کام یہ بھی تھا کہ تمدن، معاشرت، معیشت، قانون اور ریاست کے دائروں میں نئے نظامِ زندگی کی تعمیر اسلام کی اساس پر کریں۔
ہجرت کے بعد اسلام اور کفر کی کشمکش بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ ہجرت سے پہلے اسلام کی دعوت خود کفر کے گھر میں دی جا رہی تھی اور متفرق قبائل میں سے جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے وہ اپنی جگہ رہ کر ہی دین کی تبلیغ کرتے اور جواب میں مصائب و مظالم کا تختۂ مشق بنتے تھے مگر ہجرت کے بعد جب یہ منتشر مسلمان مدینہ میں جمع ہو کر ایک جتھا بن گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی آزاد ریاست قائم کر لی، تو صورتِ حال یہ ہو گئی کہ ایک طرف ایک چھوٹی سی بستی تھی اور دوسری طرف تمام عرب اس کا استیصال کر دینے پر تلا ہوا تھا۔ اب اس مٹھی بھر جماعت کی کامیابی کا ہی نہیں بلکہ اس کے وجود و بقا کا انحصار بھی اس بات پر تھا کہ اولاً وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے مسلک کی تبلیغ کر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کرے، ثانیاً وہ مخالفین کا بر سرِ باطل ہونا اس طرح ثابت و مبرہن کر دے کہ کسی ذی عقل انسان کو اس میں شبہ نہ رہے۔ ثالثاً بے خانماں ہونے اور تمام ملک کی عداوت و مزاحمت سے دو چار ہونے کی بناء پر فقر و فاقہ اور ہمہ وقت بے امنی اور بے اطمینانی کی جو حالت ان پر طاری ہو گئی تھی اور جن خطرات میں وہ چاروں طرف سے گھر گئے تھے ان میں وہ ہراساں نہ ہوں، بلکہ پورے صبر و ثبات کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں اور اپنے عزم میں ذرا تزلزل نہ آنے دیں۔ رابعاً وہ پوری دلیری کے ساتھ ہر اس مسلح مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں جو ان کی دعوت کو ناکام کرنے کے لئے کسی طاقت کی طرف سے کی جائے اور اس بات کی ذرا پروا نہ کریں کہ مخالفین کی تعداد اور ان کی مادی طاقت کتنی زیادہ ہے۔ خامساً ان میں اتنی ہمت پیدا کی جائے کہ عرب کے لوگ اگر اس نئے نظام کو، جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے، فہمائش سے قبول نہ کریں تو انہیں جاہلیت کے فاسد نظامِ زندگی کو بزور مٹا دینے میں بھی تامّل نہ ہو۔ نبی اکرم کی مدنی زندگی ان پانچوں تقاضوں کو بحسن و خوبی ادا کرنے ہی کا نام ہے۔
مدینہ آکر ایک نئے عنصر سے بھی واسطہ پیش آیا۔ یہ منافقین کا عنصر تھا۔ اگرچہ نفاق کے ابتدائی آثار مکہ کے آخری زمانہ میں بھی نمایاں ہونے لگے تھے مگر وہاں صرف اس قسم کے منافق پائے جاتے تھے جو اسلام کے برحق ہونے کے معترف تو تھے اور ایمان کا اقرار بھی کرتے تھے لیکن اس کے لئے تیار نہ تھے کہ اس کی خاطر اپنے مفاد کی قربانی اور اپنے اپنے دنیوی تعلقات کا انقطاع اور مصائب و شدائد کو بھی برداشت کر لیں، جو اس مسلکِ حق کو قبول کرنے کے ساتھ ہی نازل ہونے شروع ہو جاتے تھے۔ مدینہ پہنچ کر اس قسم کے منافقین کے علاوہ چند اور قسموں کے منافق بھی اسلامی جماعت میں پائے جانے لگے۔ ایک قسم کے منافق وہ تھے، جو قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض فتنہ برپا کرنے کے لئے جماعت مسلمین میں داخل ہو جاتے تھے۔ دوسری قسم کے منافق وہ تھے، جو اسلامی جماعت کے دائرۂ اقتدار میں گھِر جانے کے بعد اپنا مفاد اسی میں دیکھتے تھے کہ ایک طرف مسلمانوں میں اپنا شمار کرائیں اور دوسری طرف مخالفین اسلام سے بھی ربط رکھیں تاکہ دونوں طرف کے فوائد سے متمع ہوں اور دونوں طرف کے خطرات سے محفوظ رہیں۔ تیسری قسم ان لوگوں کی تھی، جو اسلام اور جاہلیت کے درمیاں متردد تھے۔ انہیں اسلام کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نہ تھا۔ لیکن چونکہ ان کے قبیلے یا خاندان کے بیشتر لوگ مسلمان ہو چکے تھے اس لئے یہ بھی مسلمان ہو گئے تھے۔ چوتھی میں وہ لوگ شامل تھے، جو امرِ حق ہونے کی حیثیت سے تو اسلام کے قائل ہو چکے تھے مگر جاہلیت کے طریقے اور اوہام اور رسمیں چھوڑنے اور اخلاقی پابندیاں قبول کرنے اور فرائض اور ذمہ داریوں کا بار اُٹھانے سے ان کا نفس انکار کرتا تھا۔
انقلابِ امامت:
نبی کریم ﷺ کی اسلامی تحریک دراصل اس تحریک کی تکمیل کر رہی تھی، جسے ابراہیم علیہ السلام نے برپا کیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عالمگیر دعوت پھیلانے پر مامور کیا تھا۔ انہوں نے پہلے خود عراق سے مصر تک اور شام و فلسطین سے ریگستانِ عرب کے مختلف گوشوں تک برسوں گشت لگا کر اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری (یعنی اسلام) کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ پھر اپنے اس مشن کی اشاعت کے لئے مختلف علاقوں میں خلیفے مقرر کیے۔ شرقی اُردن میں اپنے بھتیجے لُوطؑ کو، شام و فلسطین میں اپنے بیٹے حضرت اسحاقؑ کو اور اندرونِ عرب میں اپنے بڑے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو مامور کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکہ میں وہ گھر تعمیر کیا، جس کانام کعبہ ہے اور اللہ ہی کے حکم سے وہ اس مشن کا مرکز قرار پایا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے دو بڑی شاخیں نکلیں۔ ایک حضرت اسماعیلؑ کی اولاد، جو عرب میں رہی اور عرب کے بعض دوسرے قبائل کا تعلق اسی شاخ سے تھا اور جو عرب قبیلے نسلاً حضرت اسمٰعیلؑ کی اولاد نہ تھے وہ بھی چونکہ ان کے پھیلائے ہوئے مذہب سے کم و بیش متاثر تھے۔ اس لئے وہ اپنا سلسلہ انہیں سے جوڑتے تھے۔ دوسرے حضرت اسحاق کی اولاد، جن میں حضرت یعقوب، یوسف، موسیٰ، داؤد، سلیمان، یحییٰ، عیسیٰ اور بہت سے انبیاء علیہم السلام پیدا ہوئے اور چونکہ حضرت یعقوب کا نام اسرائیل تھا اس لئے یہ نسل بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی۔ ان کی تبلیغ سے جن دوسری قوموں نے ان کا دین قبول کیا۔ انہوں نے یا تو اپنی انفرادیت ہی ان کے اندر گم کر دی یا وہ نسلاً تو ان سے الگ رہے مگر مذہباً ان کے متبع رہے۔ اسی شاخ میں جب پستی و تنزل کا دور آیا تو پہلے یہودیت پیدا ہوئی پھر عیسائیت نے جنم لیا۔
حضڑت ابراہیمؑ کا اصل کام دنیا کو اللہ کی اطاعت کی طرف بلانا اور اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کے مطابق انسانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا نظام درست کرنا تھا۔ وہ خود اللہ کے مطیع تھے۔ اس کے دیئے ہوئے علم کی پیروی کرتے تھے، دنیا میں اس کا علم پھیلاتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ سب انسان مالک کائنات کے مطیع ہو کر رہیں۔ یہی خدمت تھی جس کے لئے وہ دنیا کے امام و پیشوا بنائے گئے تھے، ان کے بعد امامت کا یہ منصب ان کی نسل کی اس شاخ کو ملا، جو حضرت یعقوب اور حضرت اسحاق سے چلی اور بنی اسرائیل کہلائی۔ اسی میں انبیاء پیدا ہوتے رہے اسی کو راہ راست کا علم دیا گیا، اسی کے سپرد یہ خدمت کی گئی کہ اس راہِ راست کی طرف اقوامِ عالم کی رہنمائی کرے اور یہی وہ نعمت تھی جسے بار بار اس نسل کے لوگوں کو یاد دلایا جاتا ہے۔ اس شاخ نے حضرت سلیمان کے زمانے میں بیت المقدس کو اپنا مرکز قرار دیا اس لئے جب تک یہ شاخ امامت کے منصب پر قائم رہی۔ بیت المقدس ہی دعوتِ الی اللہ کا مرکز اور خدا پرستوں کا قبلہ رہا۔
بنی اسرائیل نے اس نعمت کی انتہائی ناقدری کی۔ ان کا حال یہ ہو گیا کہ نہ صرف یہ کہ انہوں نے منصبِ امامت کا حق ادا کرنا چھوڑ دیا۔ بلکہ خود بھی حق اور راستی سے پھر گئے اور ایک صالح عنصر کے علاوہ پوری امت میں کوئی صلاحیت باقی نہ رہی۔ نبی اکرمﷺ کی بعثت اس امر کا اعلان تھی کہ امامت ابراہیم کے نطفے کی میراث نہیں ہے۔ یہ حضرت ابراہیمؑ کو اس لئے عطا ہوئی کہ انہوں نے سچی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی ہستی کو گم کر دیا تھا۔ یہ امامت ان لوگوں کا حق ہے جو ابراہیمؑ کے طریقے پر خود چلیں اور دنیا کو اس طریقے پر چلانے کی خدمت انجام دیں، بنی اسرائیل اس رستے سے ہٹ گئے تھے اور اس خدمت کی اہلیت پوری طرح کھو چکے تھے لہٰذا انہیں امامت کے منصب سے معزول کر دیا گیا اور اعلان کر دیا گیا کہ امامت کی مستحق وہ امت ہے، جو اب اِس رسول ﷺ کی پیروی کرے۔ اس لئے کہ رسول ﷺ کا طریقہ وہی ہے، جو ابراہیم، اسماعیل، اسحٰق، یعقوب اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کا تھا۔ وہ اور اس کے پیرو ساری دنیا کو اسی راستے کی طرف بلاتے ہیں جس کی طرف سارے انبیاء دعوت دیتے چلے آئے ہیں۔
تبدیلیٔ امامت کے ساتھ ہی تحویلِ قبلہ کا اعلان بھی ضروری تھا۔ جب تک بنی اسرائیل کی امامت کا دور تھا، بیت المقدس مرکزِ دعوت رہا اور وہی قبلۂ اہلِ حق بھی رہا۔ خود نبی عربی ﷺ اور آپ ﷺ کے پیرو بھی بیت المقدس ہی کو قبلہ بنائے رہے۔ مگر جب بنی اسرائیل اس منصب سے باضابطہ معزول کر دیئے گئے تو بیت المقدس کی مرکزیت آپ سے آپ ختم ہو گئی اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ اب وہ مقامِ دین الٰہی کا مرکز ہے جہاں سے اس رسول ﷺ کی دعوت کا ظہور ہوا چنانچہ حکم ہوا ہے کہ:
فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِط وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ
''مسجد حرام کی طرف رُخ پھیر دو، اب جہاں کہیں تم ہو اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو۔''
یہ حکم رجب یا شعبان ۲ھ میں نازل ہوا۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ نبی ﷺ بشر بن براء بن مفرور کے ہاں دعوت پر گئے ہوئے تھے، وہاں ظہر کا وقت آگیا اور آپ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھانے کھڑے ہوئے۔ دو رکعتیں پڑھا چکے تھے کہ تیسری رکعت میں یکایک وحی کے ذریعہ سے یہ آیت نازل ہوئی اور اسی وقت آپ ﷺ کی اقتدا میں جماعت کے تمام لوگ بیت المقدس سے کعبے کی طرف پھر گئے۔ اس کے بعد مدینہ اور اطرافِ مدینہ میں اس کی عام منادی کی گئی۔ براء بن عازب کہتے ہیں کہ ایک جگہ منادی کی آواز اس حالت میں پہنچی کہ لوگ رکوع میں تھے۔ حکم سنتے ہی سب کے سب اسی حالت میں کعبے کی طرف مڑ گئے۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ بنی سلمہ میں یہ اطلاع دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت پہنچی۔ لوگ ایک رکعت پڑھ چکے تھے کہ ان کے کانوں میں آواز پڑی۔ ''خبردار رہو، قبلہ بدل کر کعبے کی طرف کر دیا گیا ہے۔'' سنتے ہی پوری جماعت نے اپنا رُخ بدل دیا۔
خیال رہے کہ بیت المقدس مدینے سے عین شمال میں ہے اور کعبہ بالکل جنوب میں۔ نماز باجماعت پڑھتے ہوئے قبلہ تبدیل کرنے میں لا محالہ امام کو چل کر مقتدیوں کے پیچھے آنا پڑا ہو گا اور مقتدیوں کو صرف رُخ ہی نہ بدلنا پڑا ہو گا بلکہ کچھ نہ کچھ انہیں بھی چل کر اپنی صفیں درست کرنی پڑی ہوں گی۔
قرآن نے یہ بھی کہا کہ ''ہم تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا دیکھ رہے ہیں۔'' اور یہ کہ ''ہم اسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسندکرتے ہو۔'' اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تحویلِ قبلہ کا حکم آنے سے پہلے نبی ﷺ اس کے منتظر تھے۔ آپ خود یہ محسوس فرما رہے تھے کہ بنی اسرائیل کی امامت کا دور ختم ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ بیت المقدس کی مرکزیت بھی رخصت ہوئی۔ اب اصل مرکز ابراہیمی کی طرف رخ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ مسجد حرام کے معنی ہیں حرمت اور عزت والی مسجد۔ اس سے مراد وہ عبادت گاہ ہے جس کے وسط میں خانہ کعبہ ہے۔
اُمّتِ وسط:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو۔
یہ امتِ محمد ﷺ کی امامت کا اعلان ہے۔ ''اسی طرح'' کا اشارہ دونوں طرف ہے۔ اللہ کی اس رہنمائی کی طرف بھی جس سے محمد ﷺ کی پیروی کرنے والوں کو سیدھی راہ معلوم ہوئی اور وہ ترقی کرتے کرتے اس مرتبہ تک پہنچ گئے کہ ''امتِ وسط'' قرار دیئے گئے اور تحویلِ قبلہ کی طرف بھی کہ نادان محض اسے ایک سمت سے دوری طرف کا پھرنا سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ دراصل بیت المقدس سے کعبے کی طرف سمتِ قبلہ کا پھرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دنیا کی پیشوائی کے منصب سے باضابطہ معزول کر دیا اور امتِ محمدیہ کو اس پر فائز کیا۔
''اُمتِ وسط'' کا لفظ اس قدر وسیع معنویت رکھتا ہے کہ کسی دوسرے لفظ سے اس کے ترجمہ کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے جو عدل و انصاف اور توسط کی روش پر قائم ہو، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔
پھر یہ جو فرمایا کہ تمہیں ''اُمت وسط'' اسی لئے بنایا گیا ہے کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔'' تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں جب پوری نوعِ انسانی کا حساب لیا جائے گا تو اس وقت رسول ﷺ ہمارے ذمہ دار نمائندے کی حیثیت سے تم پر گواہی دے گا کہ فکرِ صالح اور عملِ صالح اور نظامِ عدل کی جو تعلیم ہم نے اسے دی تھی وہ اس نے تم کو بے کم و کاست پوری کی پوری پہنچا دی اور عملاً اس کے مطابق کام کر کے دکھا دیا۔ اس کے بعد رسول ﷺ کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو عام انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اُٹھنا ہو گا اور یہ شہادت دینی ہو گی کہ رسولﷺ نے جو کچھ تمہیں پہنچایا تھا وہ تم نے انہیں پہنچانے میں اور جو کچھ رسول ﷺ نے تمہیں دکھایا تھا وہ تم نے انہیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اسی طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی در حقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسول ؐ اللہ اس امت کے لئے خدا ترسی کی زندہ شہادت بنے، اسی طرح اس امت کو بھی تمام دنیا کے لئے زندہ شہادت بننا چاہئے حتیٰ کہ اِس کے قول اور عمل اور برتاؤ، ہر چیز کو دیکھ کر دنیا کو معلوم ہوکہ خدا ترسی اس کا نام ہے، راست روی یہ ہے، عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لئے رسولؐ اللہ کی ذمہ داری بہت سخت تھی حتیٰ کہ اگر وہ اس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے۔ اسی طرح دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اِس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت جو تیرے رسولؐ کے ذریعے سے ہم تک پہنچی تھی، تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے تو ہم بہت بری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں لے ڈوبے گا۔ ہماری امامت کے دور میں واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں ان سب کے لئے ائمۂ شر اور شیاطین انس و جن کے ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دنیا میں معصیت، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا تو تم کہاں مر گئے تھے۔
یہاں سے حضور ﷺ اور حضور ﷺکی جماعت دورِ جہاد میں داخل ہو گئی اور متعدد معرکہ ہائے جہاد، بدر سے فتح مکہ تک پیش آئے۔ ان معرکوں کی تفصیل یہاں پیش کرنے میں صفحات کی تنگ دامانی مانع ہے۔
ضعف سے قوت تک:
اب یہ وقت آگیا تھا کہ عرب میں اسلام ایک ناقابلِ شکست طاقت نظر آنے لگا اور اسلامی ریاست ایک طرف نجد تک، دوسری طرف حدودِ شام تک، تیسری طرف ساحلِ بحرِ احمر تک اور چوتھی طرف مکہ کے قریب تک پھیل گئی۔ احد میں جو زخم مسلمانوں نے کھائے تھے وہ ان کی ہمتیں توڑنے کے بجائے ان کے عزم کے لئے ایک تازیانہ ثابت ہوا۔ وہ زخمی شیر کی طرح بپھر کر اُٹھے اور تین سال کی مدت میں انہوں نے نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ ان کی مسلسل جدوجہد اور سرفروشیوں کا ثمرہ یہ تھا کہ مدینہ کے چاروں طرف ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو سو میل تک تمام مخالف قبائل کا زور ٹوٹ گیا۔ مدینہ پر جو یہودی خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا تھا اس کا ہمیشہ کے لئے استیصال ہو گیا۔ اور حجاز میں دوسرے مقامات پر بھی جہاں جہاں یہودی آباد تھے سب مدینہ کی حکومت کے بارج گزار بن گئے۔ اسلام کو دبانے کے لئے قریش نے آخری کوشش غزوہ خندق کے موقع پر کی اور اس میں وہ سخت ناکام ہوئے۔ اس کے بعد اہلِ عرب کو اس امر میں کچھ شک نہ رہا کہ اسلام کی یہ تحریک اب کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتی۔ اب اسلام محض ایک عقیدہ اور مسلک ہی نہ تھا جس کی حکمرانی صرف دلوں اور دماغوں تک محدود ہو، بلکہ وہ ایک ریاست بھی تھا جس کی حکمرانی عملاً اپنے حدود میں رہنے والے تمام لوگوں کی زندگی پر محیط تھی۔ اب مسلمان اس طاقت کے مالک ہو چکے تھے کہ جس مسلک پر وہ ایمان لائے تھے بے روک ٹوک اس کے مطابق زندگی بسر کر سکیں اور اس کے سوا کسی دوسرے عقیدہ و مسلک یا قانون کو اپنے دائرۂ حیات میں دخل انداز نہ ہونے دیں۔
پھر ان چند برسوں میں اسلامی اصول اور نقطۂ نظر کے مطابق مسلمانوں کی اپنی ایک مستقل تہذیب بن چکی تھی، جو زندگی کی تمام تفصیلات میں دوسروں سے الگ اپنی ایک امتیازی شان رکھتی تھی۔ اخلاق معاشرت، تمدن ہر چیز میں اب مسلمان غیر مسلموں سے بالکل ممیّز تھے۔ تمام اسلامی مقبوضات میں مساجد اور نماز باجماعت کا نظم قائم ہو گیا تھا۔ ہر بستی اور ہر قبیلے میں امام مقرر تھے۔ اسلامی قوانین دیوانی و فوجداری بڑی حد تک تفصیل کے ساتھ بن چکے تھے اور اپنی عدالتوں کے ذریعہ سے نافذ کیے جا رہے تھے۔ لین دین اور خرید و فروخت کے پرانے معاملات بند اور نئے اصلاح شدہ طریقے رائج ہو چکے تھے۔ وراثت کا مستقل ضابطہ بن گیا تھا۔ نکاح اور طلاق کے قوانین، پردہ شرعی اور استیذان کے احکام اور زنا و قذف کی سزائیں جاری ہونے سے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی ایک خاص سانچے میں ڈھل گئی تھی۔ مسلمانوں کی نشست و برخاست، بول چال، کھانے پینے، وضع قطع اور رہنے سہنے کے طریقے تک اپنی ایک مستقل شکل اختیار کر چکے تھے۔ اسلامی زندگی کی ایک ایسی مکمل صورت گری ہو جانے کے بعد غیر مسلم دنیا اس طرف سے قطعی مایوس ہو چکی تھی کہ یہ لوگ جن کا اپنا ایک الگ تمدن بن چکا تھا۔ پھر ان میں کبھی آملیں گے۔
صلح حدیبیہ سے پہلے تک مسلمانوں کے راستہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ وہ کفار قریش کے ساتھ ایک مسلسل کشمکش میں الجھے ہوئے تھے اور انہیں اپنی عوت کا دائرہ وسیع کرنے کی مہلت نہ ملتی تھی۔ اس رکاوٹ کو صلح حدیبیہ کی ظاہری شکست اور حقیقی فتح نے دور کر دیا۔ اس سے ان کو نہ صرف یہ کہ اپنی ریاست کے حدود میں امن میسر آگیا بلکہ اتنی مہلت بھی مل گئی کہ گرد و پیش کے علاقوں میں اسلام کی دعوت کو لے کر پھیل جائیں چنانچہ اس کا افتتاح نبی ﷺ نے ایران، روم، مصر اور عرب کے بادشاہوں اور رئیسوں کو خطوط لکھ کر کیا اور اس کے ساتھ ہی قبیلوں اور قوموں میں مسلمانوں کے داعی، خدا کے بندوں کو اس کے دین کی طرف بلانے کے لئے پھیل گئے۔