حُبِّ رسول ﷺ کے تقاضے

قرآن پاک اور مستند احادیث کی رو سے تو یہ بات ثابت ہے ہی کہ رحمتِ و عالم، نبی برحق حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ گرامی کو محبوب جاننا ایمان کا حصہ ہے، خالص مادی نقطۂ نظر سے بھی یہ بات بہت ضروری ہے۔

شرافت کا یہ لازمی وصف ہے کہ اگر کسی نے کسی قسم کا ادنیٰ سا احسان بھی کیا ہو تو نہ صرف اس احسان کا اعتراف کیا جائے بلکہ اپنے محسن کے احترام و اکرام میں کسر نہ رکھی جائے۔ اور جب یہ بات ضروری ٹھہری تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ جس محترم ہستی کے صدقے میں ہمیں دین اور دنیا کی بے شمار برکتیں حاصل ہوئیں۔ ہمارے سینے ایمان کے نور سے منور ہوئے، ہمارے دماغوں کو علم کی روشنی میسر آئی اور جس کے پسینے کی خوشبو اور مبارک پیشانی سے بہت ہوئے لہو کے رنگ نے اس خاکدانِ تیرہ کو نسلِ انسانی کے رہنے اور بسنے کے قابل بنایا۔ اس کے لئے ہمارے دلوں میں محبت نہ ہو!

یقیناً وہی شص پکا اور سچا مسلمان ہے جس کا دل افضل الانبیاء ﷺ کے عشق کی چنگاری سے منور ہو چکا ہے۔ جس دل میں یہ نور نہیں آتا وہ کسی اور نور کے اکتساب کے قابل بن ہی نہیں سکتا البتہ اس سلسلے میں یہ سوال بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اس مقدس محبت کی علامت اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟

کیا یہ کہ انسان ایک خاص قسم کی وضع قطع اختیار کر لے اور اس کے اٹھنے بیٹھنے اور رہنے سہنے کے خاص انداز ہوں!

یا یہ کہ اخلاق و عادات اور اعمال و افعال کے لحاظ سے اس کی زندگی ایک ایسے سانچے میں ڈھل جائے کہ اس کی بات بات سے سیرت رسول ﷺ کی خوشبو آئے!

قومی تشخص اور حُبِّ رسول ﷺ کا تقاضا یقیناً یہ بھی ہے کہ انسان کی شکل و صورت اور وضع قطع ایسی ہو جیسی آقائے دو جہان ﷺ کی تھی لیکن سچ یہ ہے کہ اس سے زیادہ ضروری بات اس اندازِ فکر اور لائحہ عمل کو اپنا لینا ہے جس اسلام کا فلسفۂ زندگی کہا جاتا ہے کیونکہ قرآن کی رو سے انسان کا اصل لباس اس کا تقویٰ ہے۔ یا کم از کم یہ بات تو بہرحال ضروری ٹھہرتی ہے کہ جو شخص وضع قطع میں مسلمان ہو اس کے کردار اور سیرت میں اسلام کے اصولوں کی جھلک اور چمک بھی ضرور نظر آنی چاہئے۔

ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی تعداد ستر اور اسی کروڑ کے درمیان ہے اور خدا کے فضل سے یہ پورے کرۂ ارض پر پھیلے ہوئے ہیں۔ پانچوں برّ اعظموں اور معلوم جزائر میں سے شاید ہی کوئی بڑی بستی ایسی ہو گی جہاں کوئی کلمہ گو تو آباد نہ ہو گا لیکن اسی قوم کے اثر و اقتدار کا یہ حال ہے۔ کہ یہ ہر جگہ کافروں او مشرکوں کی دبیل اور اکثر معاملات میں ان کی دست نگر ہے، جب کہ قرونِ اولیٰ میں جب توحید کے علمبردار طوفانی لہروں کی طرح روئے زمین پر پھیل گے تھے اور کوئی طاقت ان کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکی تھی ان کی گنتی چند لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔

آخر ہم کیوں غائب و خاسر اور وہ کیوں سر بلند و کامگار تھے؟ یقیناً اس لئے کہ وہ حبِّ رسول ﷺ کے تقاضوں سے پوری طرح آشنا تھے اور قرآن کی تعلیمات ان کے رگ و ریشے میں اس طرح رچ بس گئی تھی کہ وہ اپنے محبوب رسول کے کسی حکم سے بھی انحراف نہ کرتے تھے۔

• جب ان سے کہا گیا خدائے واحد کے سوا تمہارا سر کسی کے سامنے نہیں جھکنا چاہے تو پھر یہ تو ہوا کہ ظلم کی تلواروں نے ان کے سر تن سے جدا کر دیئے مگر یہ کبھی نہ ہوا کہ بہ رضا و رغبت ان میں سے کسی کا سر غیر اللہ کے سامنے جھک گیا ہو۔

• جب ان سے کہا گیا، شرک کے علاوہ زنا، جوا، شراب نوشی، جھوٹ، غیبت، عیب جوئی، اتہام تراشی، چوری، دختر کشی اور ایسے ہی تمام اعمال قبیحہ سے تائب ہو جاؤ اور پھر کسی صورت میں بھی ان کے قریب نہ جانا! تو وہ ایسے طاہر و مطہر ہو گئے کہ شاید فرشتوں کو بھی ان کے تقدس اور طہارت پر رشک آتا ہو گا۔

• جب ان سے کہا گیا خاندانی غرور، نسل اور رنگ کا فخر، طاقت کا نشہ، دولت کی مستی، آپس کا بیر اور ناروا نفرت سب ترک کر دینے کے قابل ہیں۔ رنگ و نسل اور زبان کے اختلاف کے باوجود جو شخص مسلمان ہو جائے وہ تمہارا بھائی ہے اور تمہارے سگے عزیزوں میں سے جو کوئی اس راہ ہدایت کو نہ اپنائے وہ تمہارے لئے غیر ہے تو ان کی بستیاں امن کا گہوارہ اور ان کے قلوب محبت و مروّت کی دنیا بن گئے۔

• جب اُن سے کہا گیا۔ خدا کی زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرنے اور مظلوموں کو ظالموں کے ظلم سے نجات دلانے کے تلوار لے کر جہاد کے لئے نکلو! تو وہ اس سج دھج اور جوش و جذبے سے میدانِ دغا کی طرف بڑھ گئے۔ کہ نہ مال و دولت اور جائیدادوں کی محبت ان کے پیروں کی زنجیر بن سکی۔ نہ جان کا خطرہ ان کے لئے خطرہ بنا اور نہ طاقتور دشمنوں کا خوف ان پر غالب آسکا۔ وہ حجلۂ عروسی میں عروسِ نو کو چھوڑ میدان کار زار میں آگئے اور انہوں نے جنت کے باغوں کی ٹھنڈی چھاؤں اور آبِ خنک کے شوق میں دامن کی کھجوریں فرشِ خاک پر پھینک دیں۔

• جب ان سے کہا گیا اللہ کے لئے اپنا وطن چھوڑ کر دیارِ غیر کو اپنا وطن بنا لو اور اپنے ان رشتہ داروں سے قطع تعلق کر کے جن کا خون تمہاری رگوں میں گردش کر رہا ہے ان لوگوں کو اپنا بھائی اور عزیز تصور کرو جن سے اتحادِ فکر و خیال کے سوا تمہارا کوئی رشتہ نہیں تو دنیا نے دیکھا بلال حبشی سلمان فارسی اور صُہیب رومی رضی اللہ علیہم اجمعین نجیب الطرفین قریش کے محفلوں میں زانو سے زانو ملا کر بیٹھے ہیں اور ابو لہب اور ابو جہل جیسے قریشی سردار لعنت کے مستحق ٹھہرائے گئے۔

یہ سب کچھ کیوں ہوا نہ صرف اس لئے کہ یہ احکام انہوں نے اپنے اس محبوب پیغمبر ﷺ کی مبارک زبان سے سنے جسے وہ اپنی جانوں، اپنے اموال اور اپنی آل اولاد سے زیادہ محبوب جانتے تھے۔ خدا کو تو انہوں نے دیکھا ہی نہ تھا۔

اور جب ہزار خوبیوں کی یہ خوبی اور ہزار برکتوں کی یہ برکت ان کی زندگی پر سایہ فگن ہوئی تا بادشاہوں کے تاج ان کے قدموں میں ڈال دیئے گئے اور انہیں پوری زمین کا وارث بنا دیا گیا۔ اس کروفر کے ساتھ کہ تمام انسانی بستیوں کے فیصلے ان کی منشاء کے مطابق طے پاتے تھے۔

ان مقدس لوگوں کے مقابلے میں جو ہر لحاظ سے خلافتِ ارضی کے مستحق تھے ہمارا حال کیا ہے؟ کہ یہ نہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر حکم کو ڈھٹائی سے توڑتے ہیں اور قریب قریب ہر معاملے میں بغاوت کا علم بلند کیے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں انتہائی شرمناک صورت یہ ہے کہ عمل کے میدان میں ان حضرات کا حال بھی قوم کے جہلا سے مختلف نہیں جو حُبِّ رسول ﷺ کے دعویدار اور اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا ثابت کرنے پر اصرار کرنے والے ہیں۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں دنیا کی محبت اور مال و دولت کی حرص سے دامن بچانے کا حکم دیا اور ہمارا حال یہ ہے کہ بعض حالات میں ہم نے حبِ رسول کے دعویٰ تک کو دنیا حاصل کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے! انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ہم تک قرآن مجید کا یہ روشن اور واضح حکم پہنچایا۔ کہ اللہ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھامے رکھنا اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔ لیکن ہم موت اور تباہی کو اپنے سروں پر مسلط دیکھ کر بھی آپس کی سر پھٹول سے باز نہیں آتے۔ ہم نے دین کی سب سے بڑی خدمت ہی اسی بات کو سمجھ رکھا ہے کہ ایک دوسرے کو بے آبرو کریں اور کافر قرار دے کر اس کے درپئے آزار ہو جائیں۔

اللہ کے رسول ﷺ نے جہاد کے احکام ہم تک بھی اسی طرح پہنچائے ہیں جس طرح اپنے زمانے کے مسلمانوں کو پہنچائے تھے لیکن عملی طور پر ہمارا حال حضرت موسیٰؑ علیہ السلام کے ان اُمتیوں سے بھی بدتر ہے جنہوں نے کہہ دیا تھا۔ جا تُو اور تیرا خدا ہی جہاد کرے۔ ہمیں اپنے اموال یہودیوں سے زیادہ عزیز اور اپنی جانیں زنخوں سے زیادہ پیاری ہیں۔

اللہ کے سچے رسول حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے ہمیں حق شناسی، انصاف نیک چلنی اور ایمانداری کا حکم دیا ہے لیکن ہم نے ہر بے ایمانی اور بد چلنی کو اپنے لئے جائز اور ہر اچھائی کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے۔ ہماری بستیوں میں جوئے خانوں، عصمت فروشی کے اڈوں، نشہ بازوں کے تکیوں اور لہو و لعب میں مبتلا رہنے والوں کی محفلوں کی کس قدر کثرت ہے، اور ہم رشوت جعلسازی کذب و افترا اور دوسرے کبائر پر کس قدر دلیر ہو گئے ہیں! بلا مبالغہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے متقی بھی جب بات کرتے ہیں تو ان کے منہ سے فساد کی بُو اور عناد کی سڑاند آتی ہے۔

ہم نے مقدس قرآن اور اللہ کے رسول ﷺ کی احادیث میں معانی و مفہوم سمجھنے کی حد تک اس قدر تحریف کر لی ہے کہ نہ کوئی برائی ہمارے ایمان کے لئے خطرہ بنتی ہے اور نہ کسی آلودگی سے ہمارے تقویٰ کا لباس میلا ہوتا ہے۔ ہم وحشی جانوروں کی طرح ایک دوسرے پر غراتے ہیں اور ڈاکوؤں اور چوروں کی طرح ایک دوسرے کا حق تلف کرتے ہیں۔ یہ سب کیوں ہے؟ یقیناً اس لئے کہ ہم نے حُبّ رسول ﷺ کے حقیقی مفہوم کو بھلا کر ایک خود ساختہ مفہوم اپنا لیا ہے۔ اپنے اعمال و افعال اور اقوال کو قرآن و حدیث کے مطابق بنانے کی جگہ ہم صرف اپنے زبانی دعوؤں اور قولی عبادات کو تو حبِ رسول ﷺ کی نشانی خیال کرتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم اوہام کے اس گنبد سے باہر نکل کر قرآن اور حدیث کی روشنی میں حبِ رسول ﷺ کے تقاضوں کو سمجھیں اور نور محمدی ﷺ کی مقدس مشعلیں لے کر انسانی بستیوں کو روشن کر دیں، دوسروں کا کیا ذکر خود ہماری آبادیاں اور ہمارے اپنے بچے اس روشنی کو ترس رہے ہیں۔