یوں تو نوعِ انسانی کے بلند پایہ طبقوں میں ہزاروں لاکھوں انسان نمایاں ہیں۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں اپنے بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے مشعلِ راہ اور نمونہ کے طور پر پیش کی ہیں مگر ان کی طویل فہرست میں سے انبیائے کرام کی سیرت ہی بطورِ خاص عوام الناس کے لئے اسوہ اور بہترین نمونہ ہیں۔ کیونکہ ان کی سیرتیں ہر لحاظ سے بے داغ اور ان کا دامن حسنِ اخلاق و کردار سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔ پھر اس گروہ انبیاء میں سے بھی حضرت محمد ﷺ کی سیرت سب سے زیادہ درخشاں اور تاباں ہے۔ جملہ انبیائے کرام اپنی امتوں کو وعظ و نصیحت فرماتے ہیں رہے۔ انہیں عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے اجر و ثواب اور انعامات کے حصول کے لئے ترغیب و تحریص دیتے رہے۔ بعض انبیاء نے اپنی امتوں کوظالم و سفاک بادشاہوں کے پنجہ استبداد سے بھی نجات دلائی۔ مگر ان انبیاء کا دائرہ کار محدود تھا۔ وہ اس وعظ و نصیحت، انداز و تبشیر، ترغیب و تحریص یا بصورتِ بعض فرعونی و نمرودی طاقتوں سے نجات و آذادی سے آگے نہ بڑھ سکی۔ لیکن حضرت محمد ﷺ کی ذات ہمہ صفت موصوف تھی۔ آپ کو تاباں و درخشاں شریعت دے کر اللہ تعالیٰ نے بہت سے اہم مناصب بیک وقت مرحمت فرما دیئے تھے۔ آپ ایک جلیل القدر پیغمبر اور نبی آخر الزمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نظریاتی فلاحی ریاست کے بانی بھی تھے۔ اس طرح اگر آپ ﷺ مصلحِ اعظم تھے تو ایک بے نظیر سیاستدان بھی۔ قائدِ لشکر تھے تو عظیم فاتح بھی۔ اگر عظیم سربراہِ مملکت تھے تو بے عدیل قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) بھی۔ اگر عدیم المثال تاجر تھے تو مہربان شوہر شفیق باپ اور مخلص دوست بھی۔ غرض آپ کی ذاتِ گرامی میں ہر قسم کی خوبیاں جمع ہو گئی تھیں۔ نپولین نے ٹھیک کہا ہے کہ عظماءِ تاریخ میں سے ہر ایک صرف کسی ایک گوشے میں عظیم ہوتا تھا، اور ایک آدھ خوبی کا مالک ہوتا تھا۔ مگر پیغمبرِ اسلام میں انسان عظیم کے تمام خصائص موجود تھے۔ آنحضور ﷺ کی سیرت کو خود اللہ تعالیٰ نے کامل ترین سیرت قرار دیا ہے۔﴿وَإِنَّكَ لَعَلىٰ خُلُقٍ عَظيمٍ ٤﴾... سورة القلم
اور بلاشہ ایک کامل ترین سیرت ہی انسان کے لئے ایک بہترین اسوہ بن سکتی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ...٢١﴾... سورة الاحزاب
آنحضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجا تھا۔ آپ ﷺ، معاشرے کی فلاح و بہبود اور اصلاح و تربیّت کے لئے دنیا میں تشریف لائے تھے۔ آپ ﷺ آزادی کے علمبردار، حریتِ فکر کے نقیب، باعزت زندگی کی طرف بلانے والے داعیٔ اعظم اور اخوت و مساوات کے بانیٔ مبافی تھے۔
انسانی تاریخ کے تاریک ترین دور میں جزیرہ نمائے عرب جیسے غیر مہذب ملک میں پیدا ہوئے۔ جہاں کے مکین خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے جو تہذیب و تمدّن اور شائستگی سے یکسر نا آشنا تھے۔ معمولی معمولی باتوں پر ان میں معرکہ آرائیاں ہوتیں اور پھر مدتہائے دراز تک ان کا سلسلہ کہیں ٹوٹنے میں نہ آتا تھا۔ قتل و غارت، مار دھاڑ، لوٹ کھسوٹ ان کی رگ و پے میں خون کی طرح سرایت کر چکا تھا، وہ وحدت و یگانگت کے دشمن، قبائلی حمیّت وغیرت پر مر مٹنے والے۔ حکومت و تنظیم سے بالکل ناواقف، شجر و حجر، نجوم و قمر اور نام نہاد اصنام کے پجاری، اجڈ اور وحشی، علم و ہنر سے یکسر کورے تھے، زنا قمار بازی و شراب خوری کے قبیل کی ہر برائی ان میں تھی۔ ایسے ماحول اور ایسی فضا میں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا آپ نے انہیں بتوں کی پوجا پاٹ سے منع فرمایا۔ توحید اور اخوت و مساوات کی طرف دعوت دی۔ انہیں آزادیٔ فکر و عمل سے بہرہ مند کیا۔ علم و معرفت اور تہذیب و تمدّن سے آشنا کیا۔ انہیں اتحاد، تنظیم اور وحدت کی لڑی میں پرو دیا اور جسدِ واحد کی طرح متفق و منظم کر دیا۔ جن لوگوں نے آپ کی عوت پر لبیک کہی انہیں فرشتہ خصلت بنا دیا۔ آپ کے متبعین چمنستانِ حق کے وہ گُلِ خوشبو تھے کہ ان ہی نے عظیم ترین راہبر و راہنما، مصلح و سپہ سالار پیدا ہوئے، جنہوں نے آپ ﷺ کے بعد زمامِ حکومت سنبھالی اور جلد ہی روم و ایران کی عظیم مملکتوں کو زیر و زبر کر کے روئے زمین کے آدھے حصے پر الٰہی حکومت کا پھریرا لہرا دیا۔ انہوں نے علومِ نقلی و عقلی کی مجلسیں اور محفلیں آراستہ کیں۔ جن سے بڑے بڑے مفسرین، محدثین، فقہاء، قاضیوں، فلسفیوں وغیرہ نے جنم لیا۔ اس طرح حضرت محمد ﷺ نے ایک عظیم امت کی تشکیل کی۔
بلاشبہ عظیم شخصیتیں ہی تاریخ ساز ہوتی ہیں کیونکہ تاریخ عظیم کارہائے نمایاں انجام دینے والوں اور صفحہ ہستی پر انمٹ نقوشِ کارکردگی ثبت کرنے والوں کے تذکرے کا ہی نام ہے۔ آپ سے پہلے روم و ایران کا نام تاریخ تھا۔ اور روئے ارضی پر انہی کا سکّہ رواں دواں تھا۔ انہی کی تہذیب و تمدّن، علوم و فنون کا ہر جا چرچا تھا، انہی کا ہر جگہ دبدبہ، رعب اور غلغلہ تھا۔ آپ اُٹھے تو تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ آپ ﷺ نے نہ صرف روم و ایران کی سطوت و شوکت کو ختم کیا بلکہ تمام اقوامِ عالم پر اپنی بالا دستی قائم کر دی۔
اس مختصر سے مقالے میں حضرت محمد ﷺ کی شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں میں سے ایک پہلو یعنی ''انسانِ اعظم بحیثیت تاجر'' پر قدرے تفصیل سے بحث کریں گے۔ کیونکہ ہمارے اس مضمون کا مرکزی نقطہ یہی ہے۔ اس پہلو پر گفتگو کرنے کے لئے ہمیں جزیرہ نمائے عرب کے ماحول پر نگاہ ڈالنی ہو گی، جو ایک بالکل بے آب و گیاہ علاقہ ہے۔ جہاں کھیتی باڑی کرنے یا مویشی پالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور چونکہ اس دور میں اہلِ عرب علم و ہنر اور فنون سے بھی نا آشنا تھے۔ اس لئے ان کے لئے معاش کے طور پر ایک پیشہ تجارت ہی بہترین قرار پا سکتا تھا۔ ویسے بھی جزیرہ نمائے عرب دنیا کے عین وسط میں ہونے کی بنا پر مختلف مملکوں کے درمیان ایک بہترین مقامِ اتصال تھا۔ اس لئے یہاں کے باشندوں کا عام پیشہ تجارت تھا۔ اور وہ تجارت کے سلسلہ میں دور دراز کے ممالک کی طرف سیاحی کرتے رہتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے ایک جانب تو بحر ہند سے لے کر بحیرۂ روم تک اور دوسری جانب جنوبِ عرب میں عمان و یمن سے لے کر شمال میں فلسطین و شام تک چلتے رہتے تھے، اس طرح یہ بڑی بڑی تجارتی شاہراہیں انہی کے قبضہ میں تھیں اور ان کے بڑے بڑے تجارتی کاروان مال و اسباب سے لدھے ہوئے آتے جاتے رہتے تھے۔ موسم گرما میں ان کے سفر شمال میں شام کی طرف ہوتے اور موسم سرما میں جنوب میں عمان و یمن کی طرف۔ آبادی کا بیشتر حصہ اسی تجارت پر گزر بسر کرتا، اپنا بیشتر سرمایہ تجارتی کاموں میں لگائے رکھتا۔ قافلوں کی واپسی پر منافع آپس میں تقسیم ہوتے۔
یہ تاجر پیشہ لوگ دوسرے باشندوں کی نسبت اور آسودہ تھے۔ ان میں سے قبیلہ قریش کا تجارتی مقام تو بہت بلند تھا، بلکہ وہ عرب کی پوری تجارت پر حاوی تھے جس کی شہادت قرآن کریم خود فراہم کرتا ہے۔
﴿لِإيلـٰفِ قُرَيشٍ ١ إۦلـٰفِهِم رِحلَةَ الشِّتاءِ وَالصَّيفِ ٢﴾... سورة قريش
(قریش کے خوگر ہونے کی بنا پر۔ یعنی اپنے جاڑے اور گرمی کے سفروں سے خوگر ہونے کی بنا پر)
عصرِ حاضر کے مشہور محقّق ڈاکٹر محمد حمید اللہ اپنی فاضل کتاب ''رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی'' میں لکھتے ہیں۔'' چین و عرب کی تجارت عرب ہی سے ہو کر یورپ جاتی تھی، قریش کا عرب کی تجارت پر حاوی رہنا، مصر و شام، عراق و ایران، یمن و عمان، حبش و سندھ وغیرہ سے انہوں نے جو تجارتی معاہدے (ایلاف) کر کھے تھے اور ''رحلة الشتاء والصيف'' کے باعث شمال و جنوب کے جس طرح قلابے ملاتے رہتے تھے۔ وہ سب سب جانتے ہیں۔ (ص ۳۷)
حضرت محمد ﷺ (فداہ أبي و أمي ) نے خانوادۂ قریش میں ہی آنکھیں کھولیں۔ اور اسی تجارتی ماحول میں نشوونما پائی۔ لہٰذا آپ تجارت جیسے مقدس پیشہ سے الگ کیسے رہ سکتے تھے۔ آپ کے چچا حضرت ابو طالب بھی تاجر تھے اور تجارت کے لئے دور دراز کے سفر اختیار کیا کرتے تھے۔ دادا کی وفات کے بعد انہوں نے آپ کی پرورش کا ذمہ اپنے کندھوں پر اُٹھایا اور آپ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب رکھا۔ اسی محبت کی بنا پر آپ کو اپنے ساتھ ان سفروں پر لے جانے لگے۔ آپ ﷺ پہلی بار بارہ ۱۲ سال دو ماہ کی عمر میں اپنے چچا ابو طالب کی معیّت میں شام کی طرف روانہ ہوئے۔ اسی سفر میں عیسائی (یا بقولِ بعض یہودی) راہب 'بحیرا' کی آپ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے حضور ﷺ کے پُر نور و پُر جلال چہرے پر علاماتِ نبوت مرتسم دیکھیں اور آپ کو آنے والے نبی کی پیشین گوئی کا مصداق پایا تو حضرت ابو طالب کو تاکید کی کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر عظیم انسان بنے گا۔ لہٰذا اسے شام کے یہودی دشمنوں سے بچایا جائے۔ چنانچہ حضرت ابو طالب نے فی الفور آپ ﷺ کو مکہ واپس بھیج دیا۔
آپ کو تجارت سے بڑی دلچسپی تھی۔ آپ ﷺ اپنے پیارے چچا ابو طالب کے کندھوں کو جو پہلے ہی کثیر العیال تھے مزید گرانبار نہ کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے تجارت کو جاری رکھا۔ آپ اپنے تجارتی معاملات بڑی دیانتداری سے نبھاتے۔ راستبازی اور صدق و دیانت کا بڑا خیال رکھتے۔
کاروبار کی کامیابی اور اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے صدق و دیانتداری کے دو سیدھے سادھے اصول ہیں، بالفاظ دیگر راستبازی اور دیانتداری پر ہی دوکانِ تجارت کا چمکنا ممکن ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت محمد ﷺجلد ہی اپنے اوصاف کی بنا پر مکہ کے کامیاب ترین تاجر ثابت ہوگئے۔ اور پوری قوم میں آپ ﷺ کا نام 'صادق' اور 'امین' مشہور ہو گیا۔ آپ کی راستبازی اور حسنِ کردار کا سکہ ہر فرد بشر کے دل پر بیٹھ گیا اور مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور مالدار یہ خواہش کرنے لگے کہ آپ ﷺ ان کے سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے کر ان کے کاروبار چمکائیں۔ آپ ﷺ کچھ دیر تک سائب بن قیس مخزومی کے سرمایہ سے تجارت کرتے رہے۔ بلکہ انہوں نے ہی آپ ﷺ کو تاجر امین کا لقب دیا تھا۔
ان دنوں مکہ میں سب سے زیادہ مال دار ایک معزز خاتون خدیجہ بنت خویلد تھیں۔ جو دوبارہ بیوہ ہو چکی تھیں۔ انہوں نے باپ سے کثیر جائیداد ورثے میں پائی تھی۔ اور اب تمام تر توجہ تجارت کی طرف مبذول کر رکھی تھی۔ انہوں نے حضورِ کریم کی تعریف سنی تو خواہش ظاہر کی کہ آپ ﷺ ان کا سامانِ تجارت سر زمینِ شام کی طرف لے جائیں اور معاملہ یہ طے ہوا کہ وہ آپ کو دوسرے لوگوں کی نسبت دوگنا منافع دیں گی۔ انہوں نے اپنے غلام میسرہ کو بھی آپ کے ہمراہ کر دیا۔ آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب سے مشورہ کرنے کے بعد یہ پیش کش قبول کر لی اور میسرہ کے ہمراہ ۲۳ یا ۲۴ برس کی عمر میں دوسری بار شام کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر میں حضرت خدیجہ کو پہلے کی نسبت تگنا چگنا نفع حاصل ہوا۔ ساتھ ہی میسرہ نے آپ کے حُسنِ معاملت اور صداقت و امانت کی چشم دید داستان سنائی تو حضرت خدیجہ آپ ﷺ سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ اپنی سہیلی یا کنیز نفیسہ کے ہاتھ فی الفور آپ کو شادی کا پیغام بھجوا دیا۔ آپ ﷺ نے اپنے چچا سے مشورہ کرنے کے بعد بشرح صدر ان کا یہ پیغام قبول فرمایا۔ اس طرح یہ پچیس سالہ نوجوان اپنے سے پندرہ برس بڑی خاتون سے جو پہلے دو دفعہ بیوہ ہو چکیں تھیں، رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گیا۔
نکاح کے بعد حضرت خدیجہؓ نے اپنا سال مال حضور ﷺ کے قدموں پر نچھاور کر دیا۔ مگر آپ نے ان کا سارا مال غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی امداد پر صرف کر دیا اور اپنی معاشِ تجارت کو برقرار رکھا۔ اسی سے اپنے کنبے کی گزر بسر کرتے۔
اس دورِ جاہلیت کا ایک واقعہ حضرت عبد اللہ بن الحمساء سے منقول ہے، کہ بعثت سے قبل خرید و فروخت کے معاملے میں انہوں نے حضور ﷺ کے ساتھ وعدہ کیا کہ آپ یہاں ٹھہریں میں ابھی گھر سے قیمت لے کر آتا ہوں۔ مگر گھر جا کر وہ اپنے وعدے کو بھول گئے اور بات آئی گئی ہو گی۔ تیسرے روز اتفاقاً عبد اللہ کا گزر اسی مقام سے ہوا۔ تو دیکھا کہ آنحضور ﷺ اسی جگہ قیام فرما ہیں۔ آپ کو دیکھ کر انہیں اپنا وعدہ یاد آیا تو آپ سے معذرت کی آپ ان سے ناراض ہوئے نہ ڈانٹ ڈپٹ کی، بس اتنا کہہ کر خاموش ہو گئے۔ ''عبد اللہ تم نے مجھے بڑی زحمت دی ہیں، میں تین دن سے اسی جگہ کھڑا ہوں۔'' (ابو داؤد)
عرب میں ہر سال جو مشہور تجارتی میلے منعقد ہوتے۔ تو حضور کریم ﷺ بھی اپنا سامان تجارت ان میلوں میں لے جایا کرتے آپ کی دیانتداری کی بنا پر آپ کا سامان میلے میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتا۔ ایک دفعہ ایک میلے میں آپ بیس اونٹ لائے مگر اسی وقت کسی کام سے باہر جانا پڑ گیا، تو اپنے غلام کو تاکید کر گئے کہ ان اونٹوں میں سے ایک لنگڑا ہے۔ اس کی نصف قیمت وصول کی جائے۔'' فارغ ہو کر آپ واپس تشریف لائے تو اونٹ فروخت ہو چکے تھے۔ غلام سے دریافت فرمایا تو اس نے معذرت کی کہ مجھے خریداروں کو لنگڑے اونٹ کی بابت بتانا یاد نہ رہا۔ اور میں نے اس کی بھی پوری قیمت وصول کر لی۔ آپ نے خریداروں کا اتا پتا دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ یمن کی طرف سے آئے تھے۔ آپ ﷺ کو اس واقعہ پر بڑا ملال تھا، فوراً غلام کو ساتھ لیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر ان کی تلاش میں چل دیئے۔ ایک دن اور ایک رات کی مسافت طے کرنے کے بعد ان کو جا لیا۔ اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ اونٹ کہاں سے خریدے ہیں۔ وہ بولے کہ ہمارے مالک نے ہمیں یمن سے میلے میں محمد ﷺ بن عبد اللہ کے تمام اونٹ خریدنے کے لئے بھیجا تھا اور تاکید کی تھی کہ اس کے سوا کسی اور سے کچھ سامان نہ خریدنا۔ ہم وہاں تین دن تک محمد ﷺ کے مال کو تلاش کرتے رہے۔ آخر تین دن کے بعد ان کا مال منڈی میں آیا۔ تو ہم نے اطلاع پاتے ہی خرید لیا، آپ نے فرمایا بھائیو! ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ لنگڑا ہے۔ سودا کرتے ہوئے میرے ملازم کو بتانا بھول گیا۔ اب وہ اونٹ مجھے دے دو اور اس کی قیمت واپس لے لو، یا پھر اس کی آدھی قیمت مجھ سے وصول کر لو۔ اتفاق سے انہیں ابھی تک اونٹ کے لنگڑے پن کا علم نہ ہوا تھا، مگر آپ ﷺ نے وہ اونٹ فوراً پہچان لیا اور وہ اونٹ ان سے لے کر اس کی قیمت واپس کر دی۔ بعد میں جب آپ ﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا تو انہوں نے کہا ہم تو پہلے ہی سوچتے تھے کہ ایسا شخص کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا۔ فوراً خدمتِ اقدس میں پہنچے اور شرفِ اسلام سے بہرہ مند ہو گئے۔
یہ اسی راستبازی کا اثر تھا کہ لوگ اپنی قیمتی امانتیں بلا کھٹکے آپ کے پاس رکھ جاتے اور جب چاہتے صحیح سلامت واپس لے لیتے۔ اعلانِ نبوت کے بعد بھی آپ کے جانی دشمن اپنی امانتیں آپ ہی کے پاس رکھا کرتے۔ حتیٰ کہ ہجرت کی رات کو جب کہ اعداءِ اسلام نے ننگی تلواروں کے ساتھ آپ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو فرمایا۔ تم آج رات میرے بستر پر لیٹ جاؤ، اورکل ہر ایک کی امانتیں واپس کر کے مدینہ آجانا۔''
تجارت کی خاطر آپ نے بصریٰ اور مدینہ کی جانب بھی کئی تجارتی سفرکئے اور انہی سفروں کے درمیان آپ ﷺ قریش کی تجارتی شاہراہوں کے ہر پیش و خم سے آگاہ ہو گئے۔ خصوصاً مدینہ کی سیاسی اور جغرافیائی حیثیت اچھی طرح سمجھ لی ۔
چالیس برس کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصبِ نبوّت سے سرفراز فرمایا اور بتدریج آپ کے کندھوں پر تمام دنیا کی ہدایت و رہبری کا بوجھ ڈال دیا۔ اب آپ نے اپنی گوناگوں مصروفیات کی بنا پر تجارت کو خیر باد کہا۔ اپنے تمام تر قویٰ اور صلاحیتیں اپنے عظیم تر مشن یعنی تحریکِ اسلامی کی تبلیغ پر صرف کر دیں۔ اس نئی تحریک اور نئے دین کی تبلیغ میں تن و من دھن کی بازی لگا دی، آخر تیرہ سال کی زہرہ گداز اور جانگسل کشمکش کے بعد آپ مدینہ منورہ میں ایک فلاحی اسلامی مملکت کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس اسلامی ریاست میں تمدّن کے ہر شعبے میں گوناگوں انقلاب انگیز اور روح پرور اصلاحات نافذ فرمائیں۔ جن کی بنیاد خدا ترسی، ایمانداری توحید و رسالت، راستبازی صدق و امانت اور آخرت میں جوابدہی کے احساس پر رکھی۔ اس طرح دین و دنیا، مذہب و سیاست، معیشت و معاشرت، اخلاق و اعمال حقوق اللہ و حقوق العباد غرض کہ ہر شعبہ زندگی کو رضائے الٰہی کے تابع کر دیا۔
اس دور میں آنحضور ﷺ نے ایک انقلابی ضابطہ اخلاق مقرر فرمایا یہ ضابطۂ اخلاق اتنا تابندہ و درخشندہ ہے کہ اس کے کسی اصول یا قانون پر کسی کو انگلی اُٹھانے یا حرف گیری کرنے کی مجال نہیں اور اس پر عمل پیرا ہونے سے کسی قوم مالی بحران پیدا نہیں ہو سکتا۔ زراعت یا کسی دوسرے ذریعۂ معاش کی نسبت آپ تجارت کو بہت پسند فرماتے تھے ۔
آپ سے ایک بار سوال ہوا کہ کونسی کمائی پاکیزہ ترین ہے؟ فرمایا ''اپنے ہاتھوں سے کام کرنا اور ہر حلال و جائز بیع۔'' (احمد عن رافع بن خدیج)
''دینی فرائض کی بجا آوری کے بعد سب سے بڑا فرض حلال طریقے سے اپنی معاش حاصل کرتا ہے۔''
تجارت میں حلال اور جائز ذرائع اختیار کرنے پر بڑا زور دیا اور ہر طرح کے ناجائز کاروبار سے منع فرمایا۔ ایک بار ایک شخص کا ذکر کیا جو سفر پر سے آرہا ہو۔ سفر کی وجہ سے گرد و غبار میں اٹا ہوا اور پراگندہ بال ہوں۔ وہ ہاتھ اُٹھا کر بآواز بلند بارگاہ الٰہی سے التجا کرے ''اے میرے رب''۔ ''اے میرے رب'' حالانکہ اس کا کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا اور خوراک و لباس سب حرام آمدنی کے ہیں سو اس کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے؟'' (مشکوٰۃ بحوالہ مسلم)
تجارت میں حسنِ معاملہ، صداقت و دیانت اور راستبازی کی ہر دم تاکیدی نصیحت فرماتے رہتے فرمایا ''قیامت کے روز تاجر فُجَّار کی حیثیت سے اُٹھائے جائیں گے بجز اس تاجر کے جو اپنے معاملات میں خدا ترس رہا۔ لوگوں سے حسنِ سلوک کیا اور ہر معاملہ میں سچائی کا دامن تھامے رکھا۔ (عن عبید بن رفاعہ)
ایک گندم کے ڈھیر کے پاس سے گزرے، اس میں ہاتھ ڈال کر دیکھا و آپ کی انگلیاں نم آلود ہو گئیں۔ فرمایا۔ ''اے گندم کے مالک یہ کیا بات ہے؟'' عرض کی ''یا رسول اللہ گندم بارش سے بھیگ گئی تھی۔'' یہ سن کر آپ نے فرمایا۔ ''تو تو نے اس گیلی گندم کو ڈھیر کے اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ خریدنے والے اس کو دیکھ سکتے۔ یاد رکھ جس نے دھوکہ فریب سے کام لیا۔ اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں۔'' (مشکوٰۃ بحوالہ مسلم)
اس طرح آپ نے ملاوٹ دجل و فریب اور دھوکہ دہی کی ہر قسم کو منع قرار دیا۔ کسی عیب دار چیز کا عیب گاہک کو بتائے بغیر اسے فروخت کرنے سے روکتے ہوئے فرمایا:
''جو شخص کوئی عیب دار چیز اپنے گاہک کو مطلع کرنے کے بغیر فروخت کر دے تو اس پر اللہ تعالیٰ ناراض رہتا ہے اور فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔''
اسلام جس قسم کا سماج پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس کی اہم خصوصیّت یہ ہے تو ایک طرف تو لوگوں کو مکارمِ اخلاق کی تکمیل پر ابھارتا ہے۔ ان مکارمِ اخلاق کی بنیاد اگر ایک طرف وہ اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کی جوابدہی کے احساس پر قائم کرتا ہے تو دوسری طرف لوگوں کو اپنے حقوق سے زیادہ، دوسروں کے حقوق کا لحاظ رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ ساتھ ساتھ اس کے دل سے خود غرضی اور مادی فائدوں کی نسبت نکالنے کے لئے اُخروی سزاؤں سے بھی ڈراتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کاروباری معاملات میں کوتاہی کرنے والوں کو جسمانی سزائیں دینے، جرمانہ کرنے یا قید و بند کی دھمکیاں دینے کی بجاے اپنے پیروؤں کو ہر وقت حشر اور اس کی باز پرس کی یاد دہانی میں مصروف رہتے۔ آپ نے ہمیشہ اللہ کی ناراضگی اور اخروی سزاؤں کا خوف تاجروں کے ذہنوں میں پیدا کیا۔ چنانچہ بلیک مارکیٹنگ جس میں خود غرض بندۂ زر اپنی ہوسِ زر کی تسکین بہم پہنچانے کے لئے ارزاں نرخوں پر بنیادی ضروریاتِ زندگی خرید کرتے ہیں پھر ان کو ایک دم کھلے بازار سے غائب کر دیتے ہیں۔ بعد میں چور بازاری میں ان کو مہنگے داموں فروخت کر کے اپنی تجوریاں بھر لیتے ہیںِ اس چور بازاری کے متعلق آپ نے فرمایا:
''جو شخص چالیس دن کے لئے غلّہ روک لے، چاہے بعد میں اسے خیرات بھی کر دے تب بھی اس کے گناہ کا کفارہ ادا نہیں ہو سکتا'' اور ''جو شخص مسلمانوں کا غلہ روک لے تو اسے اللہ تعالیٰ جذام (بدنی ابتلاء) اور افلاس (مالی نقصان) میں مبتلا کر دے گا۔
سٹہ بازی کی قبیح لعنت بھی کم و بیش ہر تاجر میں پائی جاتی ہے، آپ ﷺ نے اس سے سختی سے منع فرمایا ''جو شخص کسی سے کوئی چیز ادھار خریدے، پھر اس پر پوری طرح قبضہ کیے بغیر اسے آگے فروخت نہ کرے، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور نے جس بات سے منع فرمایا وہ یہ ہے کہ غلہ پر قبضہ ہونے سے پہلے ہی اسے فروخت کیا جائے۔ اور میرے خیال میں ہر چیز کا معاملہ یکساں ہے۔ (متفق علیہ)
کاروباری امانت و دیانت سے اگر شخص اخلاق بہت بلند ہو جاتا ہے تو دوسری طرف یہ چیز سماج کی تعمیر ترقی اور بقا کے لئے بھی بہت ضروری ہے، یہ صاف ستھری تجارت جس میں انسان ہر قسم کے مادی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر امانتداری کے اصولوں کو اپناتا ہے۔ یہ اس کے لئے دنیا میں ہر اعتبار سے مفید رہتی ہے۔ اسی سے باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ بائع اور خریدار چاہے فرد کی سطح پر ہوں یا گروہوں یا قوموں کی سطح پر، ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں اور بالآخر یہ بھروسہ اور اعتماد کی فضا ہی تاجروں کی ساکھ اور شہرت کو قائم کر کے ان کے لئے خوشحالی اور ترقی کے دروازے کھولتی ہے۔ اخروی لحاظ سے بھی دیانتدار تاجر ہی کامیاب ترین ثابت ہو گا، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
''امانت دار اور راستباز تاجر قیامت کے روز صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا۔''
اس کے برعکس تجارتی معاملات میں بد دیانتی اور کروبار میں لوگوں سے دھوکہ فریب اگر ایک طرف خود انسان کو مادہ پرست اور پست اخلاق بناتا ہے تو دوسری طرف اس کی زد قوم کے ہر فرد بشر پر پڑتی ہے۔ جب یہ ذہنیت پروان چڑھنے لگتی ہے کہ تاجر اپنا حق پورا وصول کرنے اور دوسروں کا حق مار لینے کو ہی اپنا فائدہ سمجھتا ہے تو اس سے بے شمار اخلاقی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، اور زندگی کا پورا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ آپس کا بھروسہ و اعتماد جاتا رہتا ہے۔ تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ ہر شخص دوسرے سے بڑھ کر بے ایمانی اور بد معاملگی کرنے پر تُل جاتا ہے۔ اور پھر یہ برائی ہر قدم پر دوگنی او چوگنی ہوتی ہے، بالآخر پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک ملاوٹ ہی کو لیجیے۔ جس سے ایک مفید اور خاص چیز عمداً اپنی ذاتی مفاد کی خاطر مضر اور مسموم بنا کر تاجر عوام کی صحت پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور عوام کو صنعت کاروں اور کارخانہ داروں کے خلاف اکساتے ہیں۔ جس سے امیر و غریب کی طبقاتی جنگ پیدا ہوتی ہے۔
اسی لئے آپ نے بطور اہم اصول و قانون کے مسلمانوں کو وزن و تول وغیرہ کا پورا پورا خیال رکھنے کا حکم دیا۔
﴿وَأَوفُوا الكَيلَ إِذا كِلتُم وَزِنوا بِالقِسطاسِ المُستَقيمِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ٣٥﴾... سورة الاسراء
(پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو۔ اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو، یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی بہر ہے)
اس کے برعکس ناپ تول میں کمی بیشی کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی۔ تجربہ شاہد ہے کہ انفرادی و اجتماعی ہر لحاظ سے تقویٰ پیدا کرنا اور اُخروی عذاب سے بچنے کی تلقین و ترغیب دلوں کے اندر پیدا کرنا سخت جسمانی سزاؤں اور مالی جرمانوں سے کہیں مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
﴿وَيلٌ لِلمُطَفِّفينَ ١ الَّذينَ إِذَا اكتالوا عَلَى النّاسِ يَستَوفونَ ٢ وَإِذا كالوهُم أَو وَزَنوهُم يُخسِرونَ ٣ أَلا يَظُنُّ أُولـٰئِكَ أَنَّهُم مَبعوثونَ ٤ لِيَومٍ عَظيمٍ ٥ يَومَ يَقومُ النّاسُ لِرَبِّ العـٰلَمينَ ٦﴾... سورة المطففين
(ہلاکت ہے (ناپ تول میں) کمی بیشی کرنے والوں کے لئے کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا لیں۔ اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیں تو گھٹا کر دیں۔ کیا انہیں اس بات کا یقین نہیں کہ وہ دوبارہ اُٹھائے جائیں گے ایک بڑے سخت دن جس دن کہ لوگ اپنے رب کے روبرو کھڑے ہوں گے۔)
چنانچہ آپ کبھی کبھی بازار نکل جاتے، اور اوزان اور پیمانوں کی دیکھ بھال کرتے (بعد میں اسی بناء پر یہ چیز اسلامی حکومت کے فرائض میں داخل ہو گئی کہ وہ ہر قسم کی بد دیانتی اور بے ایمانی کو روکے) آپ خرید و فروخت میں زیادہ قسمیں کھانے کو بڑا ناگوار سمجھتے اور نصیحت فرماتے:« إِیَّاکُمْ وَکَثْرَةَ الْحلف في البیع فإنه ینفق ثُمَّ یَمْحَقُ »(مسلم عن ابی قتادۃ) (یعنی بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے احتیاط برتو، کیونکہ اس طرح مال تو بک جاتا ہے، مگر برکت جاتی رہتی ہے۔
مسلم کی دوسری روایت میں ابو ذر سے مروی ہے کہ جھوٹی قسموں سے اپنا سامان بیچنے والے شخص کی طرف اللہ تعالیٰ روزِ قیامت قطعاً نظرِ التفات نہ فرمائے گا، نہ ان سے کلام کرے گا، نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا۔ آپ تجارت میں ہمیشہ نرم روی، احسان کرنے اور درگزر کرنے کی تلقین فرماتے۔ آپ نے بیان فرمایا کہ پہلی امتوں میں سے ایک شخص فوت ہونے لگا۔ ملک الموت نے اس کی روح قبض کرتے وقت اس سے پوچھا۔ ''تم نے کبھی کوئی نیک کام کیا ہے؟ وہ بولا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ فرشتہ بولا غور کرو، اس نے عرض کی۔ مجھے اتنا معلوم ہے کہ میں تجارت میں لوگوں سے حسنِ معاملہ سے پیش آتا۔ امیر کو مہلت دیتا اور نادار کو معاف کر دیتا۔'' تو اللہ نے اسے اسی عمل کے بدلے جنت میں داخل کر دیا۔ (بخاری و مسلم)
مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ ''میں اس سے زیادہ معاف کرنے کا سزاوار ہوں۔ اس لئے میرے بندے سے درگزر کرو۔''
آپ ﷺ کا ذاتی اسوہ:
سعید بن قیس کا بیان ہے کہ میں نے اور مخرمہ عبدی نے ہجر سے کچھ کپڑا خریدا اور مکہ میں فروخت کرنے لگے۔ رسول اکرم ﷺ ہمارے پاس سے گزرے ہم سے کچھ پاجاموں کا سودا کیا۔ وہاں قریب ہی ایک شخص مزدوری پر کچھ تول رہا تھا۔ آپ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا زِنْ وارْجح تولو مگر دیکھو جھکتا تولنا۔ (راوی کا بیان ہے کہ اس سے پہلے ہم نے ایسا عمدہ کلام نہیں سنا تھا)
حضرت جابر بیان کرتے ہیں، میرا کچھ قرض حضور اکرم ﷺ کے ذمے واجب الادا تھا۔ آپ نے مجھے قرض بھی ادا کیا اور کچھ مال مزید بھی۔ (بطور شکریہ و امتنان) مرحمت فرمایا۔ (ابو داؤد)
عبد اللہ بن ابی ربیعہ سے مروی ہے حضور ﷺ نے مجھ سے چالیس درہم قرض لیے۔ جب آپ ﷺ کے پاس مال آیا تو آپ ﷺ نے مجھے قرض ادا کر دیا اور دعا فرمائی اللہ تعالیٰ تیرے اہل و عیال اور مال و منال میں برکت دے قرض کا عوض شکریہ کے ساتھ ادائیگی ہے۔ (نسائی)
ایک شخص نے رسالت مآب ﷺ سے اپنے قرض کا تقاضا کرتے ہوئے کچھ درشت کلامی کی۔ جو صحابہ کرامؓ کو بڑی ناگوار گزری۔ مگر آپ نے فرمایا اسے کچھ نہ کہو۔ صاحبِ مال کو بولنے کا حق ہے۔ اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ اس نے آپ کو جو اونٹ دیا تھا ہمیں ویسا مل نہیں رہا البتہ اس سے عمدہ مل سکتا ہے۔ فرمایا وہی خرید کر دے دو تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو ادائیگی میں اچھا ہے۔
ایک دفعہ آپ ﷺ کے پاس ایک غلام حاضر ہوا اور آپ ﷺ کے دستِ مبارک پر ہجرت کی بیعت کی۔ (آپ کو اس کے غلام ہونے کا علم نہ تھا) بعد میں اس کا آقا آیا۔ اور آپ ﷺ سے اپنے غلام کا مطالبہ کرنے لگا۔ آپ ﷺ نے اسے خرید لینے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ بمشکل دو حبشی غلاموں کے بدلے اسے فروخت کرنے پر آمادہ ہوا۔ آخر آپ ﷺ نے اسے دو غلاموں کے بدلے میں خرید لیا۔ اور آئندہ کے لئے جب بھی کسی سے بیعت لیتے تو اس سے پوچھ لیتے آیا آزاد ہے یا غلام۔
مدینہ میں ایک تجارتی قافلہ وارد ہوا۔ اور شہر سے باہر ٹھہرا۔ اتفاقاً حضرت اُدھر سے گزرے۔ آپ نے ایک اونٹ کا سودا کر لیا اور یہ کہہ کر اونٹ لے آئے کہ ابھی قیمت بھجوائے دیتا ہوں۔ بعد میں قافلے والوں کو تشویش ہوئی کہ بغیر کسی تعارف کے معاملہ کر بیٹھے۔ اس پر سردارِ قافلہ کی خاتون بولی۔ ''مطمئن رہو میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا تھا۔ جو چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن تھا۔ اس جیسا شخص کبھی تمہارے ساتھ بد معاملگی نہ کرے گا اگر بالفرض وہ رقم ادا نہ کرے تو مطمئن رہو میں اپنے پاس سے رقم ادا کر دوں گی۔'' یہ واقعہ طارق بن عبد اللہ بن بیان کیا جو خود شریک قافلہ تھے۔ بعد میں حضور ﷺ نے طے شدہ اور قیمت سے زیادہ مقدار میں کھجوریں بھجوا دیں۔
نوٹ
[1] آپ کی امانت و دیانت کی متعدد مثالیں ہمیں آپ کی سیرتِ مقدسہ میں نظر آتی ہیں۔ مثلاً نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد جب آپ کو اعلانِ توحید واشگاف الفاظ میں سنانے کا حکم ہوا تو آپ کوہِ فا پر چڑھ گئے اور پوری قوم کو ندا دی۔ جب عوام الناس اکٹھے ہو گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک حملہ آور فوج چلی آرہی ہے۔ تو کیا مجھ پر اعتماد کرو گے۔‘‘ تمام مجمع بیک زبان پکارا۔ ’’کیوں نہیں ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے پایا ہے۔‘‘
قبیلہ اراش کے ایک شخص کا قصہ بڑا دلچسپ ہے۔ وہ کسی کام کے لئے مکہ آیا۔ اس کے پاس ایک اونٹ تھا۔ ابو جہل نے اس سے اونٹ کا سودا کر لیا۔ مگر قیمت ادا کرنے میں لیت و لعل کی۔ وہ مکہ میں اجنبی تھا۔ اس لئے یکے بعد دیگرے اشرافِ مکہ کی مجلس جمی ہوئی تھی، فوراً وہاں پہنچا۔ اور تمام اہل مجلس سے اپیل کی کہ مجھ جیسے بے آسرا مسافر کو کوئی شخص ابو جہل سے اونٹ کی قیمت دلا دے۔ مگر تمام مجلس میں سے کسی کو یہ جرأت نہ ہو سکی۔ آخر ان میں سے ایک شخص ازراہِ تمسخر بولا۔ محمد ﷺ (فداہ ابی و امی) کے پاس جاؤ تمہیں قیمت وصول ہو جائے گی۔ (ان دنوں ابو جہل کی عداوتِ رسول اپنے پورے جوبن پر تھی۔ وہ غریب فی الفور حضور ﷺ کے پاس پہنچا۔ اور ماجرا بیان کر کے مدد کی درخواست کی۔ آپ فوراً اس کے ساتھ چل دیئے ابو جہل کے مکان پر تشریف لائے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ ابو جہل نے دروازہ کھولا۔ اس شخص کو آپ کے ہمراہ دیکھ کر اس کا رنگ فق ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس شخص کا حق اسے ادا کر دو۔ ابو جہل نے بے چون و چرا فوراً قیمت ادا کر دی۔ بعد میں ابو جہل نے شرکائے مجلس سے اعتراف کیا۔ ’’اس شخص (محمد ﷺ ) نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا و اس کی آواز سن کر یکایک مجھ پر ناقابلِ بیان رعب طاری ہو گیا۔ ف
[1] مدینہ سے واقفیت آپ کے لئے بعد از نبوت مدنی دور میں بڑی اہم ثابت ہوئی، اسی کی بنا پر آپ کو مدینہ جاتے ہی اہل مکہ کو مرعوب کرنے اور فوری دباؤ کی پالیسی بنانے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ دوسری طرف تاجر بن کر کاروانوں میں شریک رہنے کی بناء پر آپ ﷺ قریش کے بڑے بڑے تجارتی ذرائع سے بخوبی واقف ہو چکےتھے۔ چنانچہ مدنی دور میں بڑی سوجھ بوجھ اور دُور اندیشی سے طلایہ گردی کی مہمّات اطرافِ عرب میں کامیابی سے بھیجتے رہے۔
[1] بیع کرنے والوں کا نام سب سے پہلے آپ نے ’’تاجر رکھا‘‘۔ پہلے انہیں ’’سماسرا‘‘ کہا جاتا تھا اور اس نئے نام کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔