رابطہ کونسل ’مجلس فضلاء جامعہ‘ کا پہلا اجلاس

14 ؍ ستمبر 2005ء بروز بدھ نمازِ عصر کے بعدمجلس التحقیق الاسلامی 99 جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں سالانہ تقریب ِختم بخاری کے موقع پر' مجلس فضلاء جامعہ لاہور الاسلامیہ'اوران کی 'رابطہ کونسل ' کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اوّل الذکر کا تعلق جامعہ لاہور الاسلامیہ کے تمام قدیم و جدید فاضلین کے ساتھ ہے جبکہ 14 رکنی 'رابطہ کونسل ' کی نوعیت اس کی 'مجلس عاملہ' کی ہے۔

14؍ستمبر کے تاسیسی اجلاس میں درج ذیل فیصلے کیے گئے تھے:
(1) دین ِاسلام کی صحیح تعبیر و شناخت کو فروغ دینے کے لئے تمام فاضلین جامعہ کی دینی خدمات کو مربوط و منظم کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے جامعہ اپنے فاضل ابنا کے ساتھ 'رابطہ کونسل' کے ذریعہ رابطہ رکھے گا۔ نیز اس مجلس کے ذریعے فاضلین جامعہ کے باہمی رابطے کو یقینی بنانے کی بھی راہ ہموار کی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
(2) اس مجلس کے ذریعے جامعہ سے سند فضیلت حاصل کرنے والے طلبہ کے اپنی مادر علمی پر اعتماد کو بھرپور بنایا جائے گا، اور ایسے اقدامات کئے جائیں گے جن سے جامعہ کے طلبہ بعد از فراغت اپنے میدانوں میں زیادہ مؤثر ہوسکیں۔ علاوہ ازیں اس مجلس کے ذریعے ان کی بعض ضروریات یا جائز شکایات کی تلافی کے لئے بھی مدد لی جائے گی۔
(3) تمام فاضلین کو جامعہ کا علمی و تحقیقی مجلہ ماہنامہ 'محدث' اعزازی طور پر جاری کیا جائے گا۔
(4) ہر تقریب ِبخاری کے موقع پر تمام فاضلین جامعہ مدعو کئے جائیں گے۔
(5) سیکرٹری رابطہ مختلف علاقوں کی ضروریات معلوم کرکے فاضلین کی تعیناتی کروائیں گے۔
(6) فضلا ایک دوسرے کو اپنے اپنے علاقوں میں تبلیغی پروگراموں میں مدعو کریں گے۔
(7) فاضلین جامعہ سے استدعا کی گئی کہ وہ رابطہ کو مزید کارآمد بنانے کے لئے اپنے پتہ جات، تعلیمی کوائف اوروقتاً فوقتاً تعمیری آرا سیکرٹری جنرل کے نام پر رابطہ کونسل کو بھیجیں تاکہ ان کی روشنی میں کونسل اپنے اہداف اور طریقہ کار کو مزید بہتربناسکے۔
ملک بھر میں پھیلے جامعہ کے سابق طلبہ تک اس پروگرام کو پھیلانے کے لئے ا س پروگرام کو مختلف جماعتی رسائل میں مشتہر کیا جائے گا۔ مزید برآں رابطہ کونسل کے اراکین بھی اپنے اپنے علاقوں میں فاضلین جامعہ کے صحیح ایڈریس بمعہ فون نمبر جمع کرکے ارسال کرنے میں سرگرمی دکھائیں گے۔ ایسے ہی جن فضلا کے پتہ جات مکمل نہیں، اُنہیں اپنے مکمل ایڈریس بھیجنے کی یاددہانی بھی کرائی جائے گی۔
(8) تمام فاضلین کے پتہ جات کی جامع فہرست 'ڈائریکٹری' کی شکل میں شائع کی جائے گی۔
(9) مجلس فضلاے جامعہ کی کارکردگی وسیع ہوتے ہی سالانہ ایسی ڈائری شائع کرنے کا اہتمام کرے گی جس میں جملہ فضلا کے دستیاب پتہ جات، دس ممتاز فضلا کی سالانہ کارکردگی کا تذکرہ، جامعہ کے سابق اور موجودہ اساتذہ کرام کا مختصر تعارف اور جامعہ سے متعلق اہم واقعات کی سالانہ رپورٹ ہوا کرے گی۔
(10) شیخ الجامعہ حافظ عبد الرحمن مدنی اور شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی کے قدیم و جدید جملہ شاگردانِ رشید کی ایک جامع فہرست بھی تیا رکی جائے گی۔
(11) فیصلہ کیا گیا کہ رابطہ کونسل کا اجلاس ہر تین ماہ بعد ہوا کرے گا۔
اس موقعہ پر رابطہ کونسل کے اراکین کے آئندہ اجلاس کی تاریخ 11؍دسمبر 2005ء مقرر کی گئی۔ رابطہ کونسل کے تاسیسی اجلاس کے فیصلہ کی تعمیل میں کونسل کا دوسرا باضابطہ اجلاس 11؍دسمبر2005ء کو منعقد ہوا جس کی رپورٹ حسب ِذیل ہے:

'مجلس فضلاجامعہ' کی تشکیل کے تقریباً تین ماہ بعد اس کی 'رابطہ کونسل ' کا پہلا باقاعدہ اجلاس طلب کیا گیا۔ اس سلسلہ میں بذریعہ ڈاک دعوت نامے ارسال کرنے کے علاوہ ٹیلیفون کے ذریعے بھی متعلقہ احباب کو دعوت دی گئی جس میں درج ذیل فضلاے جامعہ نے شرکت کی:
(1) شیخ الجامعہ حافظ عبدالرحمن مدنی (مؤسس جامعہ ہذا وبانی مجلس التحقیق الاسلامی)

(2) حافظ حسن مدنی (مدیر انتظامی مجلس التحقیق الاسلامی و مدیر ماہنامہ 'محدث' لاہور)
(3) مولانا محمدشفیق مدنی (فاضل مدرّس و نگران رابطہ کونسل فضلا)
(4) حافظ عبدالوحید ( مدیر ہفت روزہ 'الاعتصام' لاہور)
(5) قاری صہیب احمد میر محمدی (مدیر کلیة القرآن پھول نگر،ضلع قصور، ادارة الاصلاح)
(6) عبدالصمد رفیقی (مدرس جامعہ مرآة القرآن والحدیث للبنات منڈی واربرٹن، شیخوپورہ)
(7) مولانا زبیر احمد شاکر
(8) مولانا شاہد عزیز
(9) حافظ انس نضر مدنی (انچارج ، اسلامک انسٹیٹیوٹMail Wing)
(10) مولانا ابراہیم شاہین (سیکرٹری رابطہ کونسل)
(11) قاری خالد فاروق ( ناظم دفتر کلیة القران)
(12) مولانا محمد اسلم صدیق (ریسرچ فیلو مجلس التحقیق الاسلامی)
(13) مولانا محمد اصغر (لائبریرین مکتبہ رحمانیہ)
(14) حافظ زبیر احمدتیمی (مدرس جامعہ و ریسرچ سکالر قرآن اکیڈمی، لاہور)

اس اجلاس میں نظامت کے فرائض مولانا حافظ عبدالوحید نے انجام دیے۔ آغاز میں قاری صہیب احمد میرمحمدی نے اُصولِ تجوید سے مزین خوبصورت آواز میں سورة ابراہیم کی آیات نمبر 24،25 تلاوت کیں جن میںکلمہ طیبہ کو مضبوط تناور درخت سے تشبیہ دے کر اس کی پائیداری کو بیان کیا گیا ہے جبکہ کلمہ خبیثہ کوخود روجھاڑی سے تشبیہ دے کراس کی ناپائیداری کو واضح کیا گیا ہے۔اس کے بعد افتتامی خطاب کے لئے شیخ الجامعہ جناب حافظ عبدالرحمن مدنی سے درخواست کی گئی۔ خطبہ مسنونہ کے بعد اُنہوں نے فرمایا:

سورة الفتح کی آخری آیت کے مفہوم کی روشنی میں بلا شبہ ہر کام کا آغاز کمزور ہوتا ہے لیکن اگر نیت خالص، منزل واضح، اور جہد مسلسل ہو تو پھر وہ قوت پکڑتا چلا جاتا ہے۔ اجتماعات ہمیشہ رابطے کو مضبوط بناتے ہیں۔ رابطہ مستحکم ہو تو ایک لائحہ عمل تشکیل پاتا اور پروان چڑھتا ہے۔ ہر کارکن کو خود بھی تجربات ہوتے ہیں مگر اسے دوسروں کے تجربات سے بھی استفادہ کرنا چاہئے۔

آپ نے اپنے خطاب میں عصر حاضر کے نظام تعلیم کا ایک جائزہ بھی پیش کیا کیونکہ ان دنوں دینی مدارس کے نصابات کی اصلاح پر بہت زور دیا جارہا ہے۔ 'تعلیمی منہاج (Educational Method) کی اصلاح' کے حوالے سے اُنہوں نے فرمایا:
(1) کتاب دراصل نوٹس کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس کی اہمیت بھی اپنی جگہ ہے مگر اصل اہمیت استاد کی ہوتی ہے۔ اگر استاد سلیم الفکر، قابل اور محنتی ہے تو وہ کسی بھی کتاب کو بہترین طریقے سے سمجھا اور پڑھا لے گا اور اگر ایسا اُستاد میسر نہ ہو تو پھر نصاب تعلیم کتنا بھی اعلیٰ کیوں نہ ہو مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔
(2) مکتب ِفکر ہمیشہ اُستاد اور شاگرد کے ملنے سے بنتا ہے جو باہم مل کر ایک فکرومنہاج کو تشکیل دیتے ہیں اور پھر اس کے مطابق پورا معاشرہ ڈھلتا جاتاہے...جدید فہم قرآن کورسوں کا اصل کام تو یہ ہے کہ عصری تعلیم یافتہ طبقے کو دین آشنا بناکر حکیمانہ انداز سے ان کی صحیح دینی تربیت بھی کی جائے مگر افسوس کہ بعض متجددین نے بھی فہم قرآن کے عنوان سے دین سے نابلد لوگوں کو لو گوں کو اپناعلما بیزار الحادی لٹریچر پڑھا کر اُنہیں اپنا ہم آزاد خیال بنانے کا پروگرام شروع کررکھا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عصری تعلیم یافتہ طبقے کو دین آشنا عالم دین بنانے کے لئے ایسا نصاب تشکیل دیا جائے جس سے اُنہیں ان کے ذہنی معیار کے مطابق خیرالقرون کے فکر و عمل کی صحیح روشنی بھی ملے۔عربی زبان کے علاوہ سنت سے وابستگی کا خصوصی رجحان شامل ہوبلکہ ان میںعلمی اصطلاحات سے واقفیت کے ذریعے تحقیق و مطالعہ کی استعداد پیدا ہو جائے تا ادھورا یا کچا پن نہ رہے نیز وہ فرقہ واریت کا حصہ بننے کی بجائے براہِ راست کتاب و سنت سے مستفید ہوں۔
(3) جہاں تک کہنہ مشق اہل علم پیدا کرنے کے لیے دینی مدارس و جامعات کا تعلق ہے تو ان کے لئے بھی ایسا نصاب وضع کرنے کی ضرورت ہے جسے پڑھ کر فارغ ہونے والے طلبہ علومِ اسلامیہ کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ زمانہ کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوں لیکن نصاب میں اضافہ کرنا اس وقت تک مفید و مؤثر ثابت نہیں ہوسکتا جب تک پہلے نصاب کی تہذیب نہ ہو۔ کانٹ چھانٹ کے بغیر نصاب میں اضافہ کرتے جانے کی مثال اس اناڑی ڈاکٹر کی ہے جو مرض کی صحیح تشخیص نہ کرسکے اورنسخہ میں بہت سی دوائیں تجویز کردے کہ کسی نہ کسی سے تو فائدہ ہوگا۔
آخر میں مدنی صاحب نے اعلان کیا کہ فہم قرآن کورسوں کے نصابِ تعلیم سے متعلق ان توجہ طلب مسائل کے حل کے لئے تعلیمی ماہرین کاایک مستقل اجلاس بلایا جائے گا جو مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لے کر لائحہ عمل تیار کرے گا۔علاوہ ا زیں دینی مدارس کے نصابات کی بہتری کے متعلق علما اور ماہرین تعلیم کے مسلسل اجلاسوں کی ضرورت ہے جو نصاب ومنہاج کی تیاری کے ساتھ عملی اقدامات بروئے کار لاسکیں۔

تاسیسی اجلاس (14؍ ستمبر 2005ء) کے فیصلوں پر عمل درآمد کا جائزہ لیتے ہوئے مدیر 'محدث' حافظ حسن مدنی نے اپنے خطاب میں کہا :
فاضلین جامعہ کے پتہ جات کی جامع فہرست شائع کرنے کے لئے 285 فاضلین کے پتہ جات حاصل ہوچکے ہیں اور تقریباً اتنے ہی مزید فضلا کے ایڈریس درکار ہیں تا کہ پہلی قسط کم از کم پانچ سوفضلا پر مشتمل ہو۔... دسمبر 2005ء کا ماہنامہ محدث میسر پتہ جات پر تمام فاضلین کو اعزازی طور پر روانہ کردیا گیا ہے ... البتہ شیخ الحدیث حافظ ثنا ء اللہ مدنی حفظہ اللہ کے 1980ء میں جامعہ لاہور الاسلامیہ میں آنے سے قبل کے شاگردان کی فہرست کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوسکا ... رابطہ کونسل کو جامعہ کے فاضلین کی طرف سے خاطر خواہ تجاویز وآرا ابھی تک موصول نہیں ہوئی... فاضلین جامعہ کے پتہ جات کی اشاعت کے لئے ڈائرکٹری (پہلی قسط) کی تیاری اور اس کی فوری اشاعت کی ضرورت ہے۔ بالخصوص ڈائرکٹری کے خاکہ کا تعین بھی ضروری ہے تاکہ وہ مفید سے مفید تر ہو سکے ۔

اُنہوں نے کہا کہ کام میں بہتر نتائج کے حصو ل کے لئے مناسب ہوگا کہ رابطہ کونسل کے تمام اراکین کو علیحدہ علیحدہ ذمہ داریاں تفویض کی جائیں تاکہ وہ اس اپنے اپنے میدان میں اعلیٰ کارکردگی پیش کرسکیں۔ اُنہوں نے اس مجلس فضلا کے متنوع مقاصد کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ا س کا پہلا مقصد ان فاضل اہل علم کی صلاح وفلاح اوراُنہیں مفید ومؤثر بنانے کی کوششیں بروئے کار لانا ہے۔ اس کا دوسرا مقصد اس مادرِ علمی کی خیرخواہی اور اس کی کامیابی کی کوششوں کو فروغ دیتاہے۔یہ مجلس جس طرح ان تمام فضلا کے باہمی رابطہ کی بنیاد بنی ہے اسی طرح اس کو زندگی میں فضلاے جامعہ کو معاشرے میں اعلیٰ مقام تک پہنچانے کا ذریعہ بھی بننی چاہیے ۔آج کے اس اجلاس کا اہم مقصد ان رہنما خطوط کا تعین کرنا بھی ہے جس کے ذریعے ان مقاصد کے حصول کی راہ ہموار ہوسکے تا کہ یہ علمی نظم برقرار رہ کر زیادہ سے زیادہ مفید ہوسکے۔

میرے نزدیک مذکورہ بالا باتوں کا خلاصہ دینی مشن کی طرف نمایاں پیش قدمی ہے کیونکہ یہی وہ اہم مقصد ہے جو اس درسگاہ کے قیام، طلبہ کے تحصیل علم اور اس مجلس فضلا کے قیام کا باعث بنا ہے۔ ہمیں ان چاروں نکات کو پیش نظر رکھ کر اپنی تجاویز دینا چاہئیں۔ آج جن نکات کو طے کرکے ہم اپنی کارکردگی کا آغاز کریں گے، کل کو اسی کے ثمرات حاصل ہوں گے۔

مولانا ابراہیم شاہین (سیکرٹری رابطہ کونسل) نے بتایا کہ فاضلین جامعہ کے تاسیسی اجلاس سے اب تک جامعہ کی وساطت سے 14 فاضلین کو مختلف مقامات پرعلمی خدمات کے لئے متعین کروایا گیا ہے۔ تاہم بعض مقامات پر ایسا بھی ہوا کہ لوگوں کی خواہش کے مطابق افراد دستیاب نہیں ہوئے جس کی وجہ یہ ہے کہ تمام فاضلین کے پتہ جات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ افراد سے رابطہ نہیں ہوپاتا۔

اُنہوں نے جامعہ کے تمام سابقہ فضلا کو یہ پیغام دیا کہ انہیں اپنا رابطہ مزید بہتر بنانے کے لئے کوششیں کرنا چاہئیں اور اس سلسلے میں اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں تجاویز و آرا بھی بھیجنا چاہئیں۔ رابطہ کے سیکرٹری ہونے کے ناطے تمام فضلاء مجھے ہمیشہ اپنی مادر علمی میں چشم براہ پائیں گے۔ان شاء اللہ

حافظ عبدالوحید نے فاضلین جامعہ کو مواقع خدمت کی فراہمی کے سلسلے میں تعاون کو انتہائی خوش آئند اور بہتر نتائج کا حامل قرار دیا۔

اجلاس میں اس امر کو بھی زیر بحث لایا گیا کہ دہلی کے مشہور دار الحدیث رحمانیہ اور دیگر درسگاہوں کی سابقہ روایات کے مطابق جامعہ ہذا کے فضلا کو بھی ایک امتیازی نسبت اختیار کرنا چاہئے تاکہ اس علامت سے وہ ہر مقام پر بآسانی پہچانے جاسکیں، اس سے انہیں آپس میں رابطہ کرنے اور دوسروں کو بھی ان سے تعاون لینے میں آسانی ہوگی۔ ا س سلسلے میں کئی نسبتیں زیر بحث آئیں جن میں 'رحمانی' کا لقب سرفہرست ہے،لیکن سردست کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا اور اس معاملے کو آئندہ اجلاس پرملتوی کر دیا گیا۔

تجاویز وآراء
ہم آخر میں اجلاس میںزیر غور تجاویز وآرا کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں جو حسب ِذیل ہے:
رابطہ کو مستحکم کرنا ہماری اوّلین ضرورت ہے لہٰذا آئندہ ہر سال سالانہ تقریب ِصحیح بخاری میں تمام فاضلین جامعہ کو مدعو کرناچاہیے ، وسائل کی کمی کے پیش نظر سالانہ ڈائری کی بجائے ابھی فضلا کے پتہ جات کی ڈائریکٹری تیار کرکے اسے تمام فضلا میں تقسیم کیا جائے۔ (حافظ عبد الرحمن مدنی)

رابطہ کونسل کا سب سے پہلا کام 'رابطہ'ہے۔ رابطوں میں جس قدر تیزی، وسعت اور مضبوطی آئے گی، ہمارا کام اتنا ہی سہل ہوگا۔ ہر رکن اپنے علاقے میں موجود فاضلین کا پتہ لگا کرمرکزکو اس سے باخبر کرے ، باقی کام خود سیکرٹری رابطہ کرلیں گے۔ (حافظ حسن مدنی)

مختلف لوگوں کی ضروریات کے مطابق افراد کا دستیاب نہ ہونا قابل توجہ امرہے۔ میرے خیال میں ہمارے فضلا میں ہر صلاحیت کے افراد موجود ہیں، مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، اگر ان فضلا کے لئے فوری طور پر ایک تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا جائے تو یہ بہت بہتر ہے۔ جہاں تک علمی میدان میں فضلاے جامعہ کی کارکردگی مؤثر بنانے کا تعلق ہے تو اس کے لئے بھی متنوع ریفریشر کورس ہونے چاہیں جس میں اُنہیں تحقیقی مصادر و مراجع سے استفادے کی بنیادی سہولت اور تربیت دی جائے تاکہ وہ تدریس یا تحریر کے میدان میں جاندار اور مؤثر کردار ادا کرسکیں۔(مولانا عبدالصمد رفیقی)

ملازمتوں کی فراہمی کے سلسلے میں یہ امر پیش نظر رہنا چاہئے کہ مختلف علاقوں یاحلقوں کی ضروریات یا معیار مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا ان کی خواہش پر وہی شخص متعین ہونا چاہئے جو مطلوبہ معیار کا حامل ہو۔ (قاری صہیب احمدمیرمحمدی)

رابطہ کونسل کو جامعہ کے تمام فضلا کا اتہ پتہ نہ صرف معلوم ہونا چاہئے، بلکہ اس پہلو سے کہ فضلاء میںکن کن صلاحیتوں کے حامل افراد موجود ہیں، اس سے بھی مکمل آگاہی ہونی چاہیے تب ہی فاضل حضراتبہتر خدمت کرسکتے اور متعلقہ حلقے بھی ان سے بہتر استفادہ کرسکتے ہیں۔(مولانا زبیر شاکر )

ہر فاضل جامعہ کے پاس ذاتی طور پر مصادر و مراجع ،خصوصاً شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کا ایک بنیادی ذخیرہ موجود ہونا چاہیے۔میری تجویز ہے کہ سب اراکین مجلس فضلا اپنے علاقے کے فضلا کے پتہ جات کے ساتھ ساتھ ان کی حالیہ مصروفیات بھی تحریر کرکے بھیجیں۔ فاضلین جامعہ جہاں ایک دوسرے کو اپنے اپنے علاقوں میں دعوتی کاموں کے لئے بلائیں وہاں ہر ایک کو اپنے ساتھی کی دعوت قبول بھی کرنی چاہیے۔ (مولانا شاہد عزیز )

فیصلے
(1) رابطہ کونسل کا اجلاس ہر تین ماہ بعد ہوا کرے گا،البتہ نیا تعلیمی سال شروع ہونے اور موسم حج کی وجہ سے آئندہ اجلاس 7مئی 2006ء کو ہوگا۔
(2) دفتر میں موجود پتہ جات کی نقل رابطہ کونسل کے جملہ اراکین کو دی جائے۔
(3) ہر رکن اپنے علاقے کے فاضلین کے صحیح ایڈریس بمعہ فون جمع کرکے ارسال کرے۔
(4) جن فضلا کے پتے ادھورے ہیں، انہیں مکمل پتے ارسال کرنے کی یاددہانی کرائی جائے۔
(5) حافظ حسن مدنی تمام پتہ جات کی کمپوزنگ کروا کر پروف ریڈنگ اور ڈائریکٹری مرتب کرنے کے لئے حافظ عبدالوحید صاحب کو بھیجیں ۔
(6) حافظ عبدالوحید صاحب ڈائریکٹری مرتب کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھدینی رسائل ومجلات میں فاضلین جامعہ کے لئے مواقع خدمت کااشتہار بھی دیں گے۔
(7) تاسیسی اجلاس کی رپورٹ پر مشتمل شمارہ (اکتوبر 2005ء) تمام فاضلین کو بھیجا جائے ۔
(8) آئندہ اجلاس سے بہت پہلے موجودہ اجلاس کی کارروائی سے تمام فضلا کو مطلع کیا جائے تاکہ وہ اپنی تجاویز بھیج سکیں۔
(9) مولانا اصغر صاحب حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب سے مشاورت کے ذریعے انکے شاگردوں کی فہرست کی تیاری کے لئے کسی مناسب شخص کا تقرر کرائیں ۔
(10) فی الحال فہم قرآن کورس کی نصاب سازی کے سلسلہ میں ماہرین کاایک اجلاس بلایا جائے گا۔اسی طرح مدارس وجامعات کے لیے مناسب ترمیمی نصاب کی تجاویز تیار کرنے کیلئے تجربہ کار اہل علم اور ماہرین تعلیم کے مسلسل اجلاسوں کا اہتمام کیا جائے گا۔ ان شاءاللہ