بسنت ہندؤوانہ تہوار ہی ہے!

کسی تہوار کوہندوانہ رسم ثابت کرنے کے لئے تاریخی حقائق اگر کچھ اہمیت رکھتے ہیں ، تو یہ بات تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہے کہ بسنت ہندوانہ تہوار ہے۔ وہ لوگ جو ان تاریخی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں اور بسنت کومحض ایک موسمی اور مسلمانوں کاثقافتی تہوار کہتے ہیں ، ان کی رائے مغالطہ آمیز اور غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ ہم اس موضوع پر ایک دوسرے مضمون میں تفصیلاً بحث کر چکے ہیں ۔ (دیکھئے شمارہ محدث: فروری 2002ئ) یہاں درج ذیل تاریخی حوالہ جات کو یکجا کردیا گیا ہے تاکہ قارئین ان مختصر حقائق کی روشنی میں بسنت کے تہوار کی حقیقی حیثیت کا فوری طور پر ادراک کرسکیں ۔

(1) 'کتاب الہند'
ہندوانہ تہوار بسنت کے متعلق قدیم ترین مستند حوالہ معروف مسلمان ریاضی دان اور مؤرخ ابوریحان البیرونی کے ہاں ملتا ہے۔ البیرونی نے آج سے تقریبا ً ایک ہزار سال قبل ہندوستان کاسفر کیا تھا، کلر کہار ضلع چکوال کے نزدیک کٹاس کے مقام پر اس زمانے میں معروف یونیورسٹی جہاں انہوں نے ہندو فضلا و حکما اور پنڈتوں سے ہندوستانی علوم سیکھے، انہوں نے اسی مقام پر 'کتاب الہند' تحریر کی جس میں یہاں کے باشندگان، ہندوستانی کلچر، ہندوؤں کے رسوم و رواج، علوم وفنون اور مذہب و فلسفہ کے متعلق بیش بہا معلومات فراہم کی ہیں ۔ اس کتاب میں 'بسنت' کے بارے میں ان کی یہ عبارت آج بھی سند مانی جاتی ہے۔
''عید بسنت: اسی مہینے (یعنی بیساکھ) میں استواء ربیعی ہوتا ہے جس کا نام بسنت ہے۔ ہندو لوگ حساب سے اس وقت کا پتہ لگاکر اس دن عید کرتے ہیں اور برہمنوں کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ جیٹھ کے پہلے دن جو اجتماع یعنی اماؤس کادن ہے، عیدکرتے ہیں اور نیا غلہ تبرکاً پانی میں ڈالتے ہیں ۔'' 1

استواء ربیعی جو البیرونی کی عبارت میں 'عید بسنت' کے دن کے تعین کے طور پر استعمال ہوا ہے، کسے کہتے ہیں ؟ سورج سال میں دو مرتبہ خط استواء پر آتا ہے۔ ایک مرتبہ سردیوں کے اختتام اور بہار کے آغاز پر، اس کو 'استواء ربیعی' کہتے ہیں ۔ ربیع کا مطلب ہے بہار، دوسری مرتبہ گرمیوں کے اختتام اور خزاں کے آغاز پر، اسے استواء خریفی کہتے ہیں ۔ خریف بمعنی خزاں ...'' 2

(2) 'ہندو تیوہاروں کی اصلیت اور ان کی جغرافیائی کیفیت'
یہ منشی رام پرشادماتھر بی۔ اے کی کتاب کا عنوان ہے۔ اس کتاب کے سرورق پریہ الفاظ تحریر ہیں : ''اس میں منطقہ حارہ، ریگستان کی صورت، بکری فصل، ہجری، اور عیسوی سنوں کی ضرورت، دعا کی قوت، اور خدا کی عجیب حکمت کا اظہار کرکے ہندؤوں کا زبردست اخلاقی اور تمدنی انتظام بیان کیا گیاہے اور ہندو تیوہاروں کی ضرورت کو ثابت کیا گیا ہے'' یہ کتاب علامہ اقبال کی زندگی میں شائع ہوئی کیونکہ اس کے متعلق تعارف میں یہ لکھا گیا ہے کہ مصنف نے اس کتاب کا ایک نسخہ علامہ اقبال کو بھی بھجوایا تھا جو انہوں نے پسند فرمایا، اس کتاب پرمصنف کو بھارت مہامنڈل خطاب بھی عطا کیا گیا اور یہ کتاب ہندوستان کے پرائمری سکولوں کے نصاب میں بھی شامل رہی ہے۔ اس کتاب میں رام پرشاد لکھتے ہیں :
''بسنت پنچمی: اب فصل کے بارآور ہونے کا اطمینان ہوچلا۔ اور کچھ عرصہ میں کلیاں کھل کر تمام کھیت کی سبزی زردی میں تبدیل ہونے لگی۔ اس لئے کاشتکار کے دل میں قدرتی امنگ اور خوشی پیدا ہوئی ہے۔ وہ زرد پھولوں کو خوش خوش لا کر بیوی بچوں کو دکھاتاہے اور پھر سب مل کر بسنت کا تیوہار مناتے ہیں اور زرد پھول اپنے اپنے کانوں میں بطور زیور لگاتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے پرتما ! ہماری محنت کا پھل عطاکر اور پھولے ہوئے درختوں میں پھل پیدا کر۔ '' 3

(3) 'ہندو تیوہاروں کی دلچسپ اصلیت'
یہ بھی منشی رام پرشاد ماتھر کی ایک دوسری کتاب کا عنوان ہے۔ اس کتاب میں بھی بسنت پنچمی کا ذکر وہ کئی جگہ کرتے ہیں ۔ مثلاً
(i) ''صفحہ نمبر 126 پر بسنت پنچمی کی تقریباً مندرجہ بالا تفصیلات درج کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں : ''بسنت پنچمی کو وشنو بھگوان کا پوجن ہوتا ہے'' (صفحہ :126)
(ii) اسی کتاب کے ایک باب ''ہماری ضروریات کے لحاظ سے تیوہاروں کی تقسیم'' میں علوم وفنون کے تیوہاروں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ'جاڑوں میں بسنت پنچمی' ہوتا ہے۔ (ص:195)
(iii) اس کتاب کے باب''تیوہاروں کے انتظامی حالات و وجوہ'' میں مختلف تہواروں کا ذکر کرتے ہوئے سیریل نمبر 36 پر بسنت پنچمی کے متعلق لکھا ہے:
''فصل میں پھول پیدا ہونے اور کلیاں کھلنے کی خوشی اور قدرتی نظارے کے لطف کا دن'' 4
(iv) مذکورہ کتاب کے باب'مختلف صوبہ جات کی مختلف رسمیات' کے نام سے شامل باب میں بسنت پنچمی کا تذکرہ یوں ملتا ہے:
''بسنت پنچمی: یہ تیوہار گجرات، پنجاب، ممالک متحدہ اور راجپوتانہ وغیرہ میں زیادہ منایا جاتا ہے۔ دکھن میں بہت کم ہوتا ہے، وہاں اس روز امیر لوگ گاتے بجاتے ہیں اور مندروں میں اوتسو ہوتا ہے۔ راجپوتانہ میں بسنتی کپڑے پہنے جاتے ہیں ، بنگالہ میں اس کوسری پنچمی کہتے ہیں اور سرستی کی پوجا کرتے ہیں ۔ قلم دوات نہیں چھوتے۔ اگر لکھنے کا ضروری کام آجاتا ہے تو تختی پرکھریا سے لکھتے ہیں ۔شام کو بچے قسم قسم کے کھیل کھیلتے ہیں اور دوسرے دن سرستی کی مورتی کسی تالاب میں ڈال دیتے ہیں ۔ اس روز کہیں کہیں 'کامدیو' اور اس کی بی بی 'رتی' کی پوجا ہوتی ہے۔ اضلاع اودھ اور قرب و جوار میں اس روز نوا کی رسم ہوتی ہے، یعنی لوگ نیا اناج استعمال کرتے ہیں ۔ اوکھلا اور بندک پور (جی آئی پی ریلوے) میں بسنت کا میلہ تین دن تک ہوتا ہے۔ ممالک ِپورب وغیرہ میں بھی موسم بہار کا اسی قسم کا ابتدائی تیوہار ہوتاہے۔''
(v) اس کتاب میں مختلف ہندو تہواروں کا جدول اور فہرست شامل کی گئی ہے جس سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ ہندومت میں مختلف تہواروں کو کس طرح اہمیت دی گئی ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس جدول کا ایک صفحہ یہاں ہوبہو نقل کیا جاتا ہے :
نمبر
نام تیوہار
مہینہ وتتھ
کس نے کس کو بتایا
کتاب
کیفیت


49
بسنت پنچمی
ماگھ سدی پنچمی
اس روز کا مدیون اور رتی کی پوجا ہوتی ہے کامدیو کو شیو جی نے بھشم کر دیا وہ مچھلی کے پیٹ سے نکلا اور پرومن ہوا، اس کی جھنڈی پر مچھلی کی شکل تھی۔


50
سیتلا گھشٹی
ماگھ سدی چھٹہ
کھشٹی دیوی نے بڈھی برہمنی کو
بنگالہ اور مشرقی ہند میں یہ تیوہار ہوتا ہے۔


51
چلا ستمی یا سوریہ ستمی
ماگھ سدی سمی
بشٹ جی نے اندومتی رنڈی کو اور سری کرشن نے جدھشٹر کو
بھوشرترپران
یہ برت مہاراشٹر میں ہوتا ہے اور سخت بیمار اچھے ہو جاتے ہیں ۔اندومتی مہاراجہ سمر کی رنڈی تھی اس نے بشٹ جی سے اپنی نجات کی ترکیب پوچھی انہوں نے یہ برت بتایا۔

52
بھشما اشٹمی
ماگھ سدی اشٹمی
پدم پران
اس روز بھیشم پتامہ کا انتقال ہوا تھا،یہ ان کے شرادھ کا دن ہے یہ شرادھ باپ کی زندگی میں ہر لڑکا بھی کر سکتا ہے۔

53
آسمانی کا پوجن
بیساکھ ، اساڑھ
یہ برت لڑکے کی ماں کرتی ہے۔ نمک نہیں کھاتی ، یہ امید کی دیوی کیس
نمب کس نے کس کو بتایا
حوالہ کتاب
کیفیت

54
ماگھ اتوار کے روز
پوجا ہے۔ ایک راجہ نے اپنے شریر لڑکے کو ملک سے نکال دیا۔امید کی دیوی نے اسے چار کوڑیاں دیں جن کے اثر سے وہ دوسرے شہر کے راجہ سے جوئے میں جیت گیا اور اس کی لڑکی بیاہ لی اور اپنے والدین کے پاس آیا۔ اس کی کامیابی پر اس پرت کا رواج ہوا۔

55
شیور اتری
پھاگن بدی تردوشی دیا چودس
شیو جی نے پاربتی جی کو اور مندر کے برہمنوں کے ذریعے سے ایک شکاری کو
لنگ پر ان اسکندھ پران اور ایشان سنگھتا
یہ تیوہار نیپال اور تمام ہندوستان میں ہوتا ہے ایک شکاری نے ہرنی اور ہرن پر رحم کھا کر شکار نہیں کیا دو ہرنی اور اس کے پیچھے ہرن ان تین ستاروں سے مرگشر نکشتر بنا ہے جو آسمان میں موجود ہے۔

56
ہولی
پھاگن پرنماشی
بشٹ جی نے راجہ پرتھو کو ناروحی نے راجہ جدھڑ کو
بھوشرترپران
منجملہ 14 منو کے اس روز ایک منو کا جنم ہوا ہے۔ہولی جلا ناکئی شاستر کاروں نے بسنے آنے کا گیہ یہ بتایا ہے، بعض اس کو سمت کے شروع میں اگن سروپ

(4) 'فرہنگ ِآصفیہ'
یہ معروف لغت مولوی سید احمد دہلوی کی تالیف کردہ ہے۔ اسے 'اردو سائنس بورڈ' لاہور نے چھاپا ہے۔ اس میں ''بسنت'' کے لفظ کے نیچے اس کے مطالب دیئے گئے ہیں اور اس کی تاریخی حیثیت کی وضاحت بھی کی گئی ہے، وہ بسنت کا ایک مطلب یوں بیان کرتے ہیں : ''وہ میلہ جو موسم بہار میں بزرگوں کے مزار اور دیوی دیوتاؤں کے استھانوں پر سرسوں کے پھول چڑھا کر کرتے ہیں '' اس کے بعد اس کی مزید تفصیل یوں درج ہے:
''اگرچہ اصل رت بیساکھ کے مہینے میں آئی ہے، مگر اس کا میلہ سرسوں کے پھولتے ہی ماگھ کے مہینے میں شروع ہوجاتا ہے۔چونکہ موسم سرما میں سردی کے باعث طبیعت کو انقباض ہوتا ہے اور آمد بہار میں سیلان خون کے باعث طبیعت میں شگفتگی، امنگ اور ولولہ اور ایک قسم کی خاص خوشی اور صفراتی پیدائش پائی جاتی ہے۔ اس سبب سے اہل ہند اس موسم کو مبارک اور اچھا سمجھ کر نیک شگون کے واسطے اپنے اپنے دیوی دیوتاؤں اور اوتاروں کے استھانوں میں مندروں پر ان کے رجھانے کے لئے یہ مقتضائے موسم سرسوں کے پھول کے گڑوے بنا کر گاتے بجاتے لے جاتے ہیں اور اس میلے کو بسنت کہتے ہیں ۔ بلکہ یہی وجہ ہے کہ وہ رنگ کو اس سے مناسبت دینے لگے... پہلے اس میلہ کا مسلمانوں میں دستور نہ تھا'' ... ہندو کالی دیوی یا کالکا دیوی کے مندر پر گڑوے بنا بنا کر خوشی خوشی گاتے بجاتے چلے جاتے ہیں ۔''5

(5) ابوالفضل
مغل شہنشاہ اکبر کے نورتن ابوالفضل نے لکھا ہے کہ ہندو ماگھ کے مہینے میں تیسری، چوتھی، پانچویں اور ساتویں تاریخ کو چار تہوار مناتے ہیں ۔ پانچویں تاریخ کو بسنت کابڑا جشن ہوتاہے اس روز رنگ اورعنبر ایک دوسرے پر چھڑکے جاتے ہیں ، نغمہ و سرود کی مجلس منعقد کرتے ہیں ۔'' 6

(6) 'بہار دیوی'
ہندو دیو مالا میں موسم بہار کو بھی دیوی کا درجہ حاصل ہے اور ا س کی پوجا کی جاتی ہے۔ دیگر قدیم مذاہب اور تہذیبوں کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ وہاں بھی اسے مختلف ناموں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ بہار دیوں کے مصر میں آئسس، شام و عراق میں عشار، یونان میں وینس، ایران میں ناہید، روم میں رسیرس، چین میں شیس، ہند میں درگا دیوی اور قدیم عرب میں زہرہ کہا جاتاتھا۔ 7

(7) بال ٹھاکرے
بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیم شیو سینا کے سربراہ لاہو رمیں بسنت تہوار منانے پر ہر سال خوشی کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ بسنت 2002ء کے موقع پر انہوں نے بیان دیا:
''لاہور میں بسنت ہندو مذہب کی عظیم کامیابی ہے۔ مسلمان تقسیم ہند سے پہلے بھارتی ثقافت اپنا لیتے تو لاکھوں افراد کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ انہوں نے چھتوں سے گر کر ہلاک ہونیوالے نوجوانوں کو اپنا شہید کہا۔'' 8

(8) کلدیپ نیئر
کلدیپ نیئر نامور بھارتی صحافی ہیں ۔ ان کے مضامین روزنامہ نوائے وقت اور 'ڈان' میں تواتر سے شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ 1998ء میں وہ بسنت کے موقع پر لاہو رمیں موجود تھے۔ پاکستانیوں کا جوش و خروش دیکھ کر انہوں نے اخباری بیان دیا:
''پاکستان میں بسنت کا تہوار بھارت سے بھی زیادہ جوش سے منایا جاتا ہے۔ یہاں پر بسنت منانے کا انداز بھارت سے دیوالی کے میلے سے ملتا جلتا ہے۔ میں اس جشن سے بہت متاثر ہوا ہوں اور اہل لاہور کا جوش و خروش دیکھ کر حیران ہوں ۔ یہاں سے اور بھارت کے ماحول میں کافی مماثلت پائی گئی ہے۔'' 9

(9) وجے کمار
وجے کمار بمبئی کا ایک ہندو نوجوان ہے جو 2000ء میں بسنت کے موقع پر لاہور آیا تھا، بعد میں اس نے ایک مضمون میں اپنے تاثرات بھی بیان کئے تھے۔ اس نے کہا:
''زندہ دلان لاہور کے بسنت منانے کے انداز کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ہمارا نہیں بلکہ تمہارا مذہبی تہوار ہے۔''10

(10) اندرجیت سنگھ
یہ بھی ایک ہندوستانی نوجوان تھا جو 2001ء میں بسنت کے موقع پر لاہور آیا تھا۔ اس نے بیان دیا:
'' جس قدر لاہور میں بسنت کی دھوم دھام دیکھنے میں آئی ہے، اس سے تو یوں لگتا ہے کہ لاہور ہندوستان کا ہی حصہ ہے۔ ہمیں تو یہاں بسنت منا کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہم ہندوستان میں ہیں یا پاکستان میں ۔'' 11

(11) سونیا گاندھی
کانگریسی لیڈر سونیا گاندھی جو پاکستان کو ثقافتی طور پر فتح کرنے کا اظہار کرتی رہتی ہیں ۔ 1998ء میں بسنت کے موقع پر ان کا بیان شائع ہوا :
''ہم سیاسی طور پر نفرت کی بنیادیں ہلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور یہی ہمارا سب سے بڑا مقصد تھا۔'' 12

مندرجہ بالا سطور میں درج شدہ تاریخی حوالہ جات اور ہندوؤں کے بیانات پڑھنے کے بعد کیا کوئی ایسا صحیح الفکر انسان ہے جو اس بات میں شک کا اظہار کرے کہ بسنت ہندوانہ تہوار ہے۔ بال ٹھاکرے اور دیگر ہندوستانی شہریوں کے بیانات ہماری دینی غیرت اور قومی حمیت کے لئے عبرت ناک تازیانہ نہیں ہیں ؟ یہ ہم سب پاکستانیوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو آج بھی نہایت خلوص سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا تاکہ یہاں اسلام کے روشن اُصولوں کو نافذ کیا جاسکے اور جو پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر دیکھنے کے تصور سے اب تک دست بردار نہیں ہوتے ہیں ۔

مزید تفصیل کے لئے درج ذیل کتب دیکھیں :
'تاریخ لاہور' از کنہیا لال صفحات : 210، 211
پنجاب انڈر دی لیٹر مغل از بخشش سنگھ نجار صفحہ: 279
ٹرانسفر میشن آف سکھ ازم از ڈاکٹر گوگل نارنگ چند
پنجاب ؛تاریخی وتمدنی جائزہ از ڈاکٹر انجم رحمانی صفحات: 426،458
بسنت ؛لاہور کا ثقافتی تہوار از نذیر احمد چودھری صفحہ: 16


حوالہ جات
1. کتاب الہند، از البیرونی، ترجمہ سید اصغر علی، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، اردو بازار لاہور، صفحہ :238
2. 'بسنت کیا ہے؟ از مولوی احمد حسن' صفحہ :23
3. صفحہ:102
4. صفحہ :191
5. صفحہ 394،395
6. مغل شنہشاہوں کے شب و روز۔ مصنف سید صباح الدین عبدالرحمن۔ صفحہ 347، نگارشات، میاں چیمبرز، 3؍ ٹیمپل روڈ، لاہور
7. نوائے وقت: 9 فروری 2003ء
8. ضربِ مؤمن جلد5شمارہ 9، روزنامہ جنگ 20 ؍فروری2001ء
9. روزنامہ جنگ: 23؍ فروری 1998ء
10. خبریں ، کتابچہ 'واہ رے مسلمان' از سلیم رؤوف
11. روزنامہ جنگ ، 21؍ فروری 2001ء
12. روزنامہ جنگ: 22؍ فروری 1998ء