’مفکر ِقرآن‘ بمقابلہ ’مصورِ قرآن‘
ہر جعل ساز کو یہ علم ہے کہ اس کے کھوٹے سکے صرف اُسی وقت قابل قبول ہوں گے، جب اُنہیں اصلی اور کھرے سکوں کے رُوپ میں پیش کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہر ابلیس، اپنے فساد کو اِصلاح کے لباس میں، اور ہر شیطان اپنے جھوٹ کو سچ کے بھیس میں پیش کرنے پر مجبور ہے اور اِس کے ساتھ ہی یہ ابالیس و شیاطین یہ پراپیگنڈا بھی شروع کردیتے ہیں کہ افکار ونظریات کے یہ سکے فلاں فلاں قابل ِاحترام بزرگوں کے ہاں مقبول و مسلّم رہے ہیں۔
یہودیوں نے اپنے دورِ ماضی میں جب کتاب اللہ کو پس ِپشت ڈال کر سحر و ساحری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تو اس کفریہ علم کے کھوٹے سکوں کو عوام الناس میں مقبول بنانے کے لئے یہ ڈھنڈورا پیٹنا بھی ضروری سمجھا کہ یہ تو وہ برگزیدہ علم ہے جو حضرت سلیمان ؑکے پاس بھی تھا، بلکہ ان کی بے مثال حکومت اِسی 'شاندار علم' کے باعث قائم تھی اور پھر قرآن کو یہ کہہ کر یہودیوں کی تردید کرنا پڑی :
وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَـٰنُ وَلَـٰكِنَّ ٱلشَّيَـٰطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ ٱلنَّاسَ ٱلسِّحْرَ...﴿١٠٢﴾...سورۃ البقرۃ
'' اور سلیمان نے ارتکابِ کفر نہیں کیا، لیکن شیطانوں نے یہ کفر کیا تھا کہ وہ لوگوں کو سحر کی تعلیم دیا کرتے تھے۔''
اہل کتاب نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے بعد جب دین اسلام کی جگہ 'یہودیت' اور 'عیسائیت' کو اپنا لیا اور اسلام کے حوالے سے خود کو مسلمان کہنے اور کہلوانے کی بجائے جب 'یہودی' اور'عیسائی' کہنے اور کہلوانے لگ گئے تو اپنے مذہب کے ان کھوٹے سکوں کو لوگوں میں پھیلانے کے لئے یہ منادی کرنا بھی شروع کردی کہ ہمارے بڑے بڑے بزرگ اور مورّثین وپیشوا ابراہیم ؑ، اسمٰعیل ؑ، اسحق ؑ، یعقوب ؑ اور ان کی آل اولاد اور اسباط و احفاد، سب کے سب اِسی مسلک کے علمبردار تھے :
أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَٰهِـۧمَ وَإِسْمَـٰعِيلَ وَإِسْحَـٰقَ وَيَعْقُوبَ وَٱلْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَـٰرَىٰ...﴿١٤٠﴾...سورۃ البقرۃ
''کیا تم یہ کہتے ہو کہ ابراہیم، ؑاسمٰعیل ؑ، اسحق، ؑیعقوب ؑاور انکے افرادِ نسل یہودی یا عیسائی تھے؟''
اور پھر قرآن مجید کو ان کے مختلف افکار و نظریات کی متفرق مقامات پر تردید کرنا پڑی، کبھی یہ کہہ کر{ءَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ ٱللَّهُ}''کیا تم اللہ سے بڑھ کر حقیقت ِحال کو جانتے ہو؟'' اور کبھی یہ کہہ کر کہ ان سب کا عمر بھر کا دین اسلام تھا یہاں تک کہ جب ان پر موت آئی تو ان کے اپنے اعتراف کے مطابق وہ مسلم یکسو تھے اور صرف اور صرف ایک اللہ ہی کے پرستار و فرمانبردار تھے (سورة البقرة:133) اور چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہود و نصاریٰ، بلکہ مشرکین مکہ تک کے بزرگ پیشوا اور مورّثِ اعلیٰ تھے، اس لئے اِن کا خاص طور پر نام لے کر یہ کہا گیا کہ وہ نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی عیسائی یا مشرک تھے، بلکہ سیدھے سادے مسلم حنیف تھے۔ رہی تمہاری یہودیت اور نصرانیت تو مذہب کے یہ تمام کھوٹے سکے ان کے صدیوں بعد کی پیداوار ہیں :
يَـٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِىٓ إِبْرَٰهِيمَ وَمَآ أُنزِلَتِ ٱلتَّوْرَىٰةُ وَٱلْإِنجِيلُ إِلَّا مِنۢ بَعْدِهِۦٓ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٦٥﴾ هَـٰٓأَنتُمْ هَـٰٓؤُلَآءِ حَـٰجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِۦ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِۦ عِلْمٌ ۚ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٦٦﴾ مَا كَانَ إِبْرَٰهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ﴿٦٧﴾...سورۃ آل عمران
''اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑکے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو، جب کہ تورات و انجیل اُتاری ہی ان کے بعد گئی ہیں، پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ ابراہیم ؑ، نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی عیسائی بلکہ وہ تو (صرف اللہ کی طرف رُخ کرنے والے) مسلم یکسو تھے، اور وہ مشرکوں میں سے بھی نہ تھے۔''
الغرض جس طرح یہود و نصاریٰ کی یہ عادت تھی کہ اپنے افکارِ فاسدہ کے کھوٹے سکوں کو چلانے کے لئے حضرت ابراہیم ؑ جیسی قابلِاحترام اور معتمد علیہ ہستیوں کا نام استعمال کیا کرتے تھے، بالکل اِسی طرح ہمارے دور میں غلام احمد پرویز نے اپنے باطل نظریات کو مقبولِ عام بنانے کے لئے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا نام خوب استعمال کیا ہے، حالانکہ پرویز اور اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے، لیکن ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کی انتہا ہے کہ نظریات کے اس قدر بعد و اختلاف کے باوجود بڑی بلند آہنگی سے یہ ڈھول پیٹا جاتا ہے کہ انکارِ حدیث میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور پرویز ہم مسلک تھے۔ جس طرح قرآنِ مجید نے یہودو نصاریٰ کے جھوٹے دعوؤں کی قلعی کھولی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ مسلک ِابراہیم ؑ اور مذہب ِاہل کتاب میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اسی طرح آج وقت کا یہ تقاضا ہے کہ پرویز صاحب (اور طلوعِ اسلام) کے ایسے ہی باطل دعاوی کی بھی قلعی کھولی جائے، اور یہ بات بے نقاب کردی جائے کہ مذہب ِپرویز اور مسلک ِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ میں مشرق و مغرب کا سا بعد پایا جاتا ہے۔
مندرجہ ذیل چند اختلافی اُمور بطورِ نمونہ مشتے از خروارے، نذرِ قارئین ہیں :
پہلااختلاف بسلسلۂ حجیت ِحدیث
حجیت ِحدیث کے بارے میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور پرویزدونوں کا موقف ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔ پرویز صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی اُن کی ہی طرح یکے از منکرین حدیث تھے، چنانچہ طلوعِ اسلام اپنے ہی خیالات کی دنیا میں گھوم پھر کر جن اشخاص پر 'انکارِ حدیث' کا لیبل چپکاتا ہے، ان میں ایک علامہ اقبال بھی ہیں۔ ''تین بڑے بڑے منکرین حدیث'' کے زیر عنوان طلوعِ اسلام نے (نومبر 1952ء میں، صفحہ 62 پر) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اس مسلک کا حامل قرار دیا ہے اور ابھی حال ہی کے ایک شمارہ میں، پھر اسی دعویٰ کو بایں الفاظ دہرایا گیا ہے:
''اگر انصاف پسندی کوئی اُصول ہے تو ہم اِن ناقدان پرویز سے التماس کریں گے کہ یا تو وہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو بھی منکرین ِحدیث میں شمار کریں، کیونکہ ان کے موقف ِحدیث اور علامہ پرویز کے موقف ِحدیث میں سرمو فرق نہیں ہے اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو کم از کم اُنہیں اپنے تضادِ فکر و نظر پر کچھ تو ندامت محسوس کرنی چاہئے۔''
حقیقت یہ ہے کہ سچائی کی تو کوئی حد ہوتی ہے جس سے آگے کوئی راست باز شخص تجاوز نہیں کرسکتا، لیکن جھوٹ کی تو کوئی حد ہی نہیں ہوتی جہاں پہنچ کر کوئی کاذب و مفتری رُک جائے۔ منکرین حدیث کے چند نمایاں اکاذیب و اباطیل میں سے ایک واضح جھوٹ یہ ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی منکر ِ حدیث اور منکر ِ سنت تھے۔
اگرچہ منکرین حدیث کے اس جھوٹ کا پول طلوعِ اسلام ہی کے اقتباسات کی روشنی میں ماہنامہ محدث میں پہلے ہی کھولا جاچکا ہے، لیکن پھر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ طلوعِ اسلام ہی کی فائل سے دو اور اقتباسات بھی پیش کردیے جائیں :
کسی اعلیٰ قوم یا بہترین جماعت کے لئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ جن امتیازات کو ضروری گردانتے ہیں، ان میں سے ایک امتیازیہ بھی ہے کہ وہ ''قرآن کے ساتھ ساتھ سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما قرار دے۔'' چنانچہ بقول طلوعِ اسلام:
''اعلیٰ جماعت یا قوم کے لئے، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے آٹھ خصائص کو بنیادی شرط قرار دیا ہے، اوّل: توحید پرستی۔ دوم: نبوت و رسالت پر ایمان۔ سوم: کتاب و سنت کی رہنمائی۔ چہارم: مرکزیت۔ پنجم:نصب العین ملّی۔ ششم : غلبہ و استیلاء یاقوت ِتسخیر۔ ہفتم:اجتماعی خودی۔ ہشتم :حفظ و احترامِ اُمومت۔ 1
اس کے بعد ان کے بکثرت اشعار میں سے صرف ایک شعر پیش کیا جاتا ہے جس میں وہ ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں :
b علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ِتمسک بالحدیث اُن کے مندرجہ ذیل شعر سے واضح ہے :
زندگی از دہر و دہر از زندگی است
لا تسبوا الدھر فرمانِ نبی است 2
''زندگی زمان ہے اور زمان زندگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ زمانے کو بُرا مت کہو۔'' 3
اس شعرمیں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی وابستگی حدیث نے پرویز صاحب کو جس قلبی تضیق سے دوچار کیا ، اس کے زیراثر وہ لکھتے ہیں :
''یہ حدیث بھی بتا رہی ہے کہ یہ اس زمانے میں وضع ہوئی جب مسلمانوں میں اس قسم کے تصوف آمیز فلسفہ کی بحثیں شروع ہوگئیں۔'' 4
نفس مسئلہ نہ تو یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا غلط، اور نہ ہی یہ کہ یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس دور میں منظر ِعام پر آیا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اگر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ واقعی منکر حدیث تھے تو پھر وہ تمسک بالحدیث کا دم کیوں بھر رہے ہیں؟ پرویز صاحب کی ذہنی عیاری ملاحظہ فرمائیے کہ وہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث سے وابستگی کو تو نظر انداز کردیتے ہیں (جو کہ ان کے اعتقاد برحدیث کی دلیل ہے) اور بحث یہ شروع کردیتے ہیں کہ حدیث وضعی ہے اور یہ فلاں عہد میں وضع ہوئی تھی۔
پرویز صاحب خود ہوں یا کوئی اور منکر ِحدیث ہو ، اُنہوں نے کبھی یہ سو چنے کی زحمت نہیں کی کہ جھوٹی احادیث آخر گھڑی کیوں گئیں؟ اگر وہ حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عناد و تعصب اور ضد و ہٹ دھرمی کو بالائے طاق رکھ کر اس سوال پر غور کرتے تو ان پر یہ حقیقت واضح ہوجاتی کہ
''ان کے گھڑے جانے کی وجہ یہی تو تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفعل حجت تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایک غلط بات منسوب کرکے جھوٹے لوگ کوئی نہ کوئی فائدہ اُٹھانا چاہتے تھے۔ اگر وہ حجت نہ ہوتا اور کسی شخص کے لئے اپنے کسی دعویٰ کے حق میں حدیث لانا اور نہ لانا یکساں بے فائدہ ہوتا تو کسی کو کیا پڑی تھی کہ ایک غلط بات تصنیف کرنے کی تکلیف اُٹھاتا۔ دنیا میں ایک جعل ساز وہی نوٹ تو بناتا ہے جو بازار میں قدروقیمت رکھتا ہو۔ جس نوٹ کی کوئی قدروقیمت نہ ہو، اسے آخر کون احمق جعلی بنائے گا؟'' 5
مقالہ کی طوالت کے پیش نظر صرف انہی دو اقتباسات پر اکتفا کیا جاتا ہے، جو لوگ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک ِحجیت ِحدیث کے بارے میں تفصیلاً جاننے کے خواہشمند ہیں وہ ماہنامہ 'محدث' کا شمارہ اپریل 1990 ء اور جولائی 2005ء کا پرچہ دیکھیں۔
دوسرا اختلاف انسانی فطرت کے بارے میں
کیا انسان کی کوئی فطرت ہے؟ اس سوال کے جواب میں بھی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے موقف اور پرویز صاحب کی رائے میں واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ یہ کہہ کر انسانی فطرت کا اعتراف و اقرار کرتے ہیں :
از غلامی فطرت او دوں شدہ
نغمہ ہا اندر نئے او خوں شدہ 6
''غلامی کی وجہ سے انسانوں کی فطرت پست ہوگئی،انسانیت کی نے کے نغمے خوں آلود تھے۔'' 7
لیکن اس کے برعکس پرویز صاحب یہ کہہ کر انسانی فطرت کا انکار کرتے ہیں :
''فطرتِ انسانی کا عقیدہ وحی کے منکرین نے وضع کیا، لیکن اس کی تبلیغ ان لوگوں کی طرف سے ہوتی ہے جو وحی پر ایمان رکھنے کے دعویٰ سے مسلمان کہلاتے ہیں۔'' 8
یہ کہتے ہی پرویز صاحب کے جذباتِ غیظ و غضب میں شدت پیدا ہوجاتی ہے،غصے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، مزاج کے گرم تو وہ تھے ہی، فرطِ غضب اور جوشِ غیظ میں وہ انسانی فطرت کے قائلین پر یوں برسنا شروع ہوجاتے ہیں :
''حرام، جو یہ لوگ کبھی کھڑے ہوکر سو چیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں اور ایسا کہنے کے اثرات ونتائج کیا ہیں۔ بس بھیڑوں کی ایک قطار ہے جو صدیوں سے اس راستے پر چلی جارہی ہے جس پر کبھی کوئی پہلی بھیڑ چلی تھی {وَمَثَلُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ ٱلَّذِى يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَآءً وَنِدَآءً ۚ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴿١٧١﴾...سورۃ البقرۃ}'' 9
پسماندگانِ پرویز اور وابستگانِ طلوعِ اسلام سے یہ درخواست ہے کہ وہ ذرا سوچ کر یہ بتائیں کہ کیا واقعی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں ''جو وحی پر ایمان رکھنے کے دعویٰ سے مسلمان کہلاتے ہیں'' لیکن پھر''انسانی فطرت کے عقیدہ کی تبلیغ بھی کرتے ہیں'' حالانکہ ''یہ عقیدہ منکرین وحی کا وضع کردہ عقیدہ ہے۔'' اور کیا واقعی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے متعلق 'مفکر قرآن' کایہ انکشاف ہے کہ''حرام، جو یہ لوگ کبھی کھڑے ہوکر سوچیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ایسا کہنے کے اثرات و نتائج کیا ہیں؟'' نیز کیا واقعی ، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ (معاذ اللہ) ان جانوروں میں شامل ہیں جن کے متعلق 'مفکر ِقرآن' نے کوثر و تسنیم میں دُھلی ہوئی زبان کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ ''بس بھیڑوں کی ایک قطار ہے جو صدیوں سے اس راستے پر چلی جارہی ہے جس پر کبھی کوئی پہلی بھیڑ چلی تھی۔''
مرگ ِپرویز کے بعد وابستگانِ طلوع اسلام کے ذمہ ان سوالات کا جواب دینا لازم ٹھہرتا ہے، کیونکہ وہ فکر ِاقبال کے شارح اور وارث ہونے کے دعویدار ہیں۔
تیسرا اختلاف مفہوم 'قصاص' میں
اسلامی تعزیرات و عقوبات میں ایک کثیر الاستعمال لفظ 'قصاص' ہے، اس کا مفہوم کیا ہے؟ اس میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور پرویز صاحب باہم برسراختلاف ہیں۔ پرویز صاحب نے دورِ جدید میں اسلام کا جو ترقی یافتہ مفہوم پیش کیا ہے، اس میں سزا کا کوئی تصور نہیں ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
''یہ ہے کہ ملزم کا اسی طرح پیچھا کیا جائے کہ وہ مؤاخذہ سے بچ نہ سکے۔'' 10
''قصاص اس کے معنی سزا دینا نہیں بلکہ اس کے معنی ہیں، مجرم کا اس طرح پیچھا کرنا کہ وہ بلا گرفت نہ رہ جائے، یعنی قرآنی نظام میں کسی جرم کو (Untraced)نہیں رہنا چاہئے۔ وہ اس قسم کے محکم نظامِ تفتیش میں حیاتِ اجتماعیہ کا راز بتاتا ہے: {وَلَكُمْ فِى ٱلْقِصَاصِ حَيَوٰةٌ يَـٰٓأُولِى ٱلْأَلْبَـٰبِ..﴿١٧٩﴾...سورۃ البقرۃ} 11
قصاص 'سزا' نہیں ہے بلکہ یہ 'محکم نظامِ تفتیش' اور 'تعاقب ِمجرم' کا نام ہے، اگر مجرم بھاگ کر ملکی سرحدوں سے باہر نکل جائے اور پولیس نے ملکی حدود کی حد تک اس کا 'تعاقب' کرلیا تو بس یہی 'تعاقب' قصاص ہے اور اسی 'تعاقب ِمجرم' میں 'حیاتِ اجتماعیہ کا راز' ہے۔
لیکن علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قصاص کا مفہوم وہی ہے جسے علماے تفسیر،ماہرین حدیث، فقہاے اسلام،اصحابِ تاریخ و سیر اور ائمہ لغت ہمیشہ سے تسلیم کرتے چلے آرہے ہیں، یعنی یہ کہ
''(القصاص) أن یوقع علی الجاني مثل ما جنی: النفس بالنفس والجرح بالجرح'' 12
''قصاص یہ ہے کہ مجرم پر وہی اور اتنی ہی چیز کو واقع کیا جائے جیسی اور جتنی اس کی جنایت تھی، جان کے بدلہ جان اور زخم کے بدلہ زخم۔''
حقیقت یہ ہے کہ قصاص کا معنی 'محکم نظامِ تفتیش' نہیں ہے بلکہ یہ سزا ہی کا نام ہے جو مجرم کو اس کے جرم کی مثل دی جاتی ہے، جبکہ 'مفکر ِقرآن' فرماتے ہیں کہ'قصاص کسی سزا کا نام ہی نہیں ہے، بلکہ 'مجرم کا محض پیچھا کرنا' ہے۔
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ خجند کے سلطان مراد کی وہ حکایت بیان کرتے ہیں جس میں بادشاہ نے معمار کا ہاتھ کاٹ دیا، تو وہ طلب ِانصاف اور حصولِ قصاص کے لئے قاضی کے سامنے پیش ہوا۔ اپنی بپتا سنائی، قاضی نے سلطان کو حاضر ٍعدالت ہونے کا حکم دیا۔ بادشاہ اپنے کئے پر شرمندہ و نادم تھا، اس نے جب اپنے جرم کا اعتراف کیا تو
گفت قاضی في القصاص آمد حیٰوة
زندگی گیرد بایں قانوں ثبات
عبد مسلم کمتر از احرار نیست
خون شہ رنگین تر از معمار نیست
چوں مراد ایں آیۂ محکم شنید
دست خویش از آستیں بیروں کشید
13
'' قاضی نے کہا : زندگی کا دارومدار قانونِ قصاص پر ہے، اسی قانون سے زندگی استحکام پاتی ہے۔ مسلمان غلام آزاد سے کمتر نہیں، نہ بادشاہ کا خوں معمار کے خون سے زیادہ سرخ ہے۔
جب سلطان مراد نے یہ آیۂ محکم سنی تو قصاص کے لئے اپنی آستیں سے ہاتھ نکال کر آگے بڑھا دیا۔'' 14
اب انہی اشعار ِ اقبال کا وہ مفہوم بھی پرویز صاحب کی زبان سے ملاحظہ فرمائیے جو انہوں نے اس وقت پیش کیا، جب وہ قصاص کے 'ترقی یافتہ' مفہوم سے واقف نہیں ہوپائے تھے، اس متجددانہ مفہوم سے، ان کی زنبیلِ تضادات میں ایک اور تضاد کا اضافہ ہوگیا ہے :
''قاضی نے بادشاہ سے کہا کہ قرآن نے جرم کے لئے قصاص کا حکم دیا، اور اس کی حکمت و غایت یہ بتائی ہے کہ اس میں انسان کے لئے راز ِ حیات ہے، اگر جرم کی سزا نہ دی جائے تو معاشرہ کا نظام درہم برہم ہوجائے اور نوعِ انسانی کے لئے جینا دشوار ہوجائے اور چونکہ قرآن کی رو سے ہر فرزند ِقوم یکساں احترام کا مستحق ہے، اس لئے اس کے قانون میں جان کا بدلہ جان ہے بلا تمیز اس کے کہ وہ جان ایک مزدور کے قالب میں ہے یا شہنشاہ کے پیکر میں۔ اسی اُصول کے مطابق مسلمان غلام کی جان کی قیمت، آزاد مرد سے کسی صورت میں کم نہیں، اور یہ واقعہ ہے کہ بادشاہ کا خون، معمار کے خون سے زیادہ سرخ نہیں ہوتا۔ اس لئے قصاص کے معنی یہ ہیںکہ مزدور کے ہاتھ کے بدلہ بادشاہ کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ جب شہنشاہ مراد نے قرآن کی یہ آیت سنی تو خدا کے حکم کے سامنے سرجھکا دیا اور اپنا ہاتھ آستین سے باہرنکال کر، قطع کردینے کے لئے پیش کردیا۔'' 15
لیکن آج 'مفکر قرآن' کے نزدیک' قصاص' کسی سزا کا نام ہے ہی نہیں۔
چوتھااختلاف بسلسلۂ قوامیت ِمرداں و قنوت ِ نسواں
قرآن کریم نے گھریلو زندگی میں صراحت کے ساتھ مردوں کو قوّام بنایا ہے اور خواتین کو قنوت کے مقام پر رکھا ہے۔ قنوت کا معنی و مفہوم 'اطاعت و فرماں برداری' ہے۔ ہمارے 'مفکر ِقرآن' اس معنی کو تو مانتے ہیں، مگر وہ عورتوںکو شوہروں کا مطیع و فرماں بردار تسلیم کرنے کی بجائے مفہومِ آیت یہ بیان کرتے ہیں کہ مرد اور خواتین سب کے سب اللہ ہی کے مطیع و فرماں بردار ہیں۔ حالانکہ یہ معنی صرف وہاں مراد لیا جاسکتا ہے جہاں اطاعت و فرماںبرداری کے اللہ (یا اس کے رسولؐ) کے لئے مخصوص ہونے کا قرینہ موجود ہو لیکن جہاں یہ لفظ (قنوت) شوہروں کے قرینہ کے ساتھ عائلی زندگی سے متعلقہ ہدایات کے حوالہ سے مذکور ہو، وہاں اسے شوہروں کی اطاعت و فرماں برداری کے مفہوم میں نہ لینا، ایک بے جا بات ہے اور قرآن کی محولہ بالا آیت (سورة النسائ:24) میں چونکہ مردوں کی قوامیت کے مقابلہ میں عورتوں کے قنوت کا ذکر ہے، اور اس سے بھی آگے بڑھ کر قطعی دلیل یہ ہے کہ اسی آیت کے آخر میں یہ کہا گیا ہے کہ {فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ۔ ۔ ۔} یعنی اگر یہ بیویاں، تمہاری اطاعت پر اُتر آئیں (اور اپنی نُشوز [نافرمانی]کی روش ترک کردیں) تو پھر ان پر زیادتی کرنے کی راہیں نہ ڈھونڈو اور پھر شوہروں کے لئے یہ اطاعت بھی، حکم خدا ہی پر موقوف ہے۔ اس لئے بیویوں کا اپنے شوہروں کے سامنے مطیع و فرماں بردار ہونا ایک قطعی قرآنی امر ہے اور اطاعت و فرماں برداری کا کمال یہ ہے کہ خواتین کی پسند و ناپسند ان کے شوہروں کی پسند و ناپسندمیں ڈھل جائے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ٹھیک اسی اعلیٰ درجے کی اطاعت و فرماں برداری کے قائل ہیں۔ وہ خود حضرت فاطمہ ؓ کو جملہ خواتین ِاسلام کے لئے اُسوۂ کاملہ قرار دیتے ہوئے اُنہیں یوں خراجِ عقیدت پیش فرماتے ہیں:
نوری و ہم آتشی فرما نبرش
گم رضایش در رضاے شوہرش
16
''نوری و آتشی سب آپؓ کے فرمانبردارتھے۔ آپؓ نے اپنی رضا کو شو ہر کی رضا میں گم کردیا تھا۔''17
لیکن چونکہ 'مفکر قرآن' صاحب تہذیب ِ مغرب کی زلف ِ گرہ گیر کے اسیر تھے، اس لئے قرآن اور اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یہ نظریہ ان کے لئے قابل قبول نہ تھا، بلکہ وہ اس کے برعکس ابتداء ً مرد وزن کو عائلی زندگی میں مساوی المرتبہ قرا ر دیا کرتے تھے، لیکن پھر آخر کار وہ مغرب سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر'روشن خیالی' کا دم بھرتے ہوئے یہ کہا کرتے تھے کہ مرتبہ و مقام کے اعتبار سے خواتین کو مردوں پر فوقیت حاصل ہے، اور'دلیل ' یہ پیش کیا کرتے تھے:
''چونکہ ازدواجی میزان میں عورت کا پلڑہ بمقابلہ مرد کے جھکتا ہے (یعنی عورت کی قدروقیمت مرد کے مقابلہ میں زیادہ ہے) اسی لئے مرد کے لئے ضروری قرار دیا گیا کہ وہ کچھ تحفہ عورت کو دے۔'' 18
ہمارے 'مفکر قرآن' اپنی تضاد گوئی میں بھی ایک بے مثال ولاجواب شخصیت تھے یہاں تو اُنہوں نے عورتوں کے مقام و مرتبہ کو مردوں کے مقابلہ میں بلندتر قرار دیا ہے، لیکن اپنے اسی مقالہ میں وہ ایک صفحہ پہلے دونوں اصناف بشر کو مساوی المرتبہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
''نکاح سے مرد اور عورت دونو ں پریکساں فرائض عائد ہوتے ہیں، سورة البقرة میں ہے: {وَلَهُنَّ مِثْلُ ٱلَّذِى عَلَيْهِنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ} قاعدے اور قانون کے مطابق، عورت کے بھی اتنے ہی حقوق ہیں جتنی اس کی ذمہ داریاں ہیں۔'' 19
بہرحال اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور قرآن، دونوں ہی خواتین کی یہ خوبی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے شوہروں کی فرمانبردار ہوں، یہاں تک کہ ان کی پسند و ناپسند شوہروں کی پسند و ناپسند میں ڈھل جائے لیکن پرویز صاحب کے نزدیک یہ سراسر غیر قرآنی تصور ہے۔ وہ اس کی تردید میں لکھتے ہیں:
''دوسرے مصرعہ میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ بیوی کی بلند ترین سیرت یہ ہے کہ اس کی مرضی اپنے خاوند کی مرضی میں گم ہوجائے، اس میں شبہ نہیں کہ جذباتی طور پر یہ چیز بڑی خوش آیند معلوم ہوتی ہے، لیکن قرآن کی یہ تعلیم نہیں کہ بیوی کی اپنی مرضی کچھ نہ ہو، وہ ہر بات میں میاں کی مرضی کے تابع چلے، میاں اور بیوی دونوں کو قوانین خداوندی کے تابع چلنا چاہئے۔'' 20
قرآنِ کریم اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف 'مفکر ِقرآن' کا یہ استدلال ایک ملمع ساز منطق (Fallacious Logic) ہے، اور یہ کہتے ہوئے کہ' 'میاں بیوی، دونوں کو قوانین خداوندی کے تابع چلنا چاہئے'' ... 'تہذیب کا یہ فرزند' یہ بھول جاتا ہے کہ خود خدا ہی اپنا یہ قانون بیان کررہا ہے کہ بیویاں (نشوز کی روش چھوڑ کر) شوہروں کی اطاعت اختیار کریں :
فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا...﴿٣٤﴾...سورۃ النساء
''اگر وہ تمہاری اطاعت کریں، تو اُن پر دست درازی کی راہیں نہ تلاش کرو۔''
پانچواں اختلاف بسلسلۂ اطاعت ِ والدین
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ماں باپ کے احترام و اطاعت کو تعلیمِ دین سمجھتے تھے، وہ احترامِ ماں کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:
گفت آں مقصود حرفِ کُن فکاں
زیر پائے اُمہات آمد جناں 21
'' وہ ذات جو حرفِ کُن فکان کے مقصود ہیں، اُنہوں نے فرمایا ہے کہ جنت ماں کے پاؤں کے نیچے ہے۔'' 22
رہا والد کا احترام اور اس کی اطاعت تو علامہ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ہمیشہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ واقعہ رہا، جس میں وہ اپنے فرزند ِارجمند حضرت اسمٰعیل ؑ سے یہ فرماتے ہیں کہ ''بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے (اللہ کی راہ میں) قربان کررہا ہوں، تیری کیا رائے ہے؟'' بیٹا یہ سن کر سرتسلیم خم کرتے ہوئے عرض گزار ہے کہ ''ابا جان! جس بات کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے، اسے کرگزریئے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابر پائیں گے۔'' اولاد کی ایسی دینی تربیت اور پھر بیٹے کی ایسی بھرپور اطاعت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اُنہیں یوں خراجِ تحسین پیش فرماتے ہیں:
یہ فیضانِ نظر تھا، یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی 23
ایک اور مقام پر حضرت اسماعیل ؑ کی اس قربانی کے ساتھ حضرت حسین ؓ کی قربانی کا یوں ذکر فرماتے ہیں:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسماعیل ؑ 24
خو د علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا دامن ِکردار اطاعت ِوالدین کی خوبی سے مزین تھا، اور مندرجہ ذیل واقعہ کو خودپرویز صاحب نے تائیداً بیان کیا ہے :
''علامہ کی مثنوی 'اسرارِ خودی' کے خلاف جب یہ ہنگامہ گرم تھا، اُنہی دِنوں علامہ سیالکوٹ تشریف لائے، اور باپ بیٹے جب یکجا بیٹھے تو مثنوی پر حلقۂ صوفیا کی برہمی کا ذکر آیا۔ علامہ نے فرمایا: ''میں نے حافظ کی ذات اور شخصیت پراعتراض نہیں کیا، میں نے صرف ایک اُصول کی تشریح کی ہے، اس کا افسوس ہے کہ مسلمانانِ وطن پر عجمی اثرات اس قدر غالب آچکے ہیں کہ وہ زہر کو آب ِ حیات سمجھتے ہیں۔'' علامہ کے والد بزرگوار نے بڑی مرنجاں مرنج طبیعت پائی تھی۔ اُنہوں نے اس پرفرمایا کہ اگر حافظ کے عقیدت مندوں کے جذبات کو ٹھیس لگائے بغیر اُصول کی تشریح کردی جاتی تو اچھا تھا۔ علامہ نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ'حافظ پرستی' بھی تو 'بت پرستی' سے کم نہیں۔ اس پر ان کے والد نے فرمایاکہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے تو بتوں کو بھی بُرا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لئے مثنوی کے وہ اشعار جن پر عقیدت مندانِ حافظ کو اعتراض ہے، آئندہ ایڈیشن میں ان کا حذف کردینا ہی مناسب ہوگا۔ علامہ نے اس پر زبان سے کچھ نہیں کہا، بس مسکرا کر رہ گئے اور اپنے والد محترم سے بحث کرنے کی بجائے، ان کے حضور سرتسلیم خم کردیا (اور ان اشعار کو حذف کردیا)۔ 25
حیات ِاقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یہ واقعہ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ وہ اطاعت ِوالدین کے قولاً اور عملاً قائل اور عامل بھی تھے، لیکن 'مفکر ِقرآن' صاحب کے نزدیک اطاعت والدین کا تصور غیر قرآنی تصور ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
(1) ''اس (قرآن) نے ماں باپ کی اطاعت کو کہیں فرض قرار نہیں دیا۔ بلکہ کہا تو یہ کہ ان کے ساتھ حسن ِسلوک کرو۔'' 26
(2) '' ایک صحیح العقل نوجوان کے لئے ماں باپ کی اطاعت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہ ان سے مشورہ لے سکتا ہے، ان کے فیصلوں کا پابند نہیں ہوسکتا۔'' 27
جہاں تک مشورہ لینے کا تعلق ہے، اس میں والدین کی کیا تخصیص ہے، وہ تو زید، بکر،عمر ہر ایک سے لیا جاسکتا ہے، اور انسان کسی کے بھی فیصلوں کا پابند نہیں ہے۔ پھرآخر والدین ہی کے بارے میں ایسے تاکیدی احکام کیوں کہ اشکرلي ولوالدیک اور یہ کہ بالوالدین إحسانا اور پھر ان احکام کو قرآن میں عبادتِ خداوندی کے حکم کے ساتھ متصل اور مقرون کرکے بیان کیا گیا ہے۔ نیز کیا والدین کے ساتھ کوئی حسن ِسلوک ان کی نافرمانی کی صورت میں بھی ممکن ہے؟ اب کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کوئی 'صحیح العقل نوجوان' نہیں تھے؟ کیونکہ اُنہوں نے باپ کے سامنے سرتسلیم خم کردیا یا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ تھے تو 'صحیح العقل' لیکن ان کی اطاعت ِوالد کی یہ 'حرکت' قطعاً 'غیرقرآنی عمل ' ہے؟
امر واقعہ یہ ہے کہ اطاعت ِوالدین کا نظریہ خود قرآن میں موجود ہے۔ وہ ایک خاص صورتِ حال میں (جبکہ اُنہیں شرک یا مخالفت ِ حکم خدا پر اُکسایا جارہا ہو) والدین کی اطاعت سے منع کرتا ہے۔ خاص صورتِ حال میں، اطاعت ِوالدین سے منع کرنا بجائے خود اس کی دلیل ہے کہ عام حالات میں اطاعت ِوالدین لازم ہے۔
چھٹا اختلاف بسلسلۂ 'الہام'
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں الہام و القا کے قائل و معتقد تھے، کیونکہ قرآن میں دیگر واقعات کے علاوہ الہامِ خداوندی کا یہ واقعہ موجود ہے جس میں ولادتِ موسوی پر جب ان کی والدہ کو فرعو ن کی قتل ابناے بنی اسرائیل کی پالیسی کے تحت خوف لاحق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں الہاماً یہ فرمایا:
وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰٓ أُمِّ مُوسَىٰٓ أَنْ أَرْضِعِيهِ ۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِى ٱلْيَمِّ وَلَا تَخَافِى وَلَا تَحْزَنِىٓ ۖ إِنَّا رَآدُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ ٱلْمُرْسَلِينَ ﴿٧﴾...سورۃ القصص
''ہم نے اُمّ موسیٰ کو وحی کی کہ بچے کو دودھ پلاتی رہ، جب تجھے اس کی جان پر خوف لاحق ہو تو اسے سمندر میں ڈال دینا اور کسی خوف و غم میں مبتلا نہ ہونا۔ ہم اسے تیری طرف لوٹا دیں گے اور اسے رسول بنا دیں گے۔''
قرآنِ کریم میں مذکور واقعاتِ الہام کی بنا پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ الہام کے قائل تھے، جیسا کہ ان کے مندرجہ ذیل اشعار سے واضح ہے :
ہو بندۂ آزاد، اگر صاحب الہام
ہے اس کی نگاہ فکروعمل کے لئے مہمیز
اس کے نفس گرم کی تاثیر ہے ایسی
ہوجاتی ہے خاکِ چمنساں شرر آمیز
شاہین کی ادا ہوتی ہے بلبل میں نمودار
کس درجہ بدل جاتے ہیں مرغان سحرخیز
اس مردِ خود آگاہ و خدا مست کی صحبت
دیتی ہے گداؤں کو شکوہِ جم و پرویزن 28
ہاں البتہ وہ ایسے الہامِ محکوم سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں جو غیروں کی غلامی میں جکڑ دے اور آزاد اقوام پر چیرہ دستیوں کے ساتھ چنگیزانہ آقائی مسلط کردے :
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گر اقوام ہے وہ صورتِ چنگیزه 29
الہام تو رہا ایک طرف، اقبال تو ایسی نبوت کے بھی قائل نہیں جو مسلمانوں کو سلاطین کی غلامی و پرستاری میں مبتلا کر ڈالے :
وہ نبوت ہے مسلماں کے لئے برگِ حشیش
جس نبوت میں نہ ہو قوت وشوکت کا پیام 30
لیکن 'مفکر قرآن' صاحب اس معاملہ میں بھی مصورِ پاکستان سے اختلاف کرتے ہیں، وہ الہام کے قائل نہیں۔ ان کے نزدیک: ''الہام کا تصور بے بنیاد ہے۔'' 31
نیز یہ کہ وہ الہام کو (بالکل اور بہرصورت وحی سمجھتے ہوئے) اسے عقیدۂ ختم نبوت کے منافی سمجھتے ہیں:
''الہام کا لفظ قرآنِ کریم میں اور کسی جگہ نہیں آیا، اس لئے خدا سے براہِ راست علم حاصل کرنے کے لئے یہ کہنا کہ یہ وحی نہیں ہے، کشف یا الہام ہے، محض لفظی تبدیلی سے ختم نبوت کی مہر توڑ دینے کے مترداف ہے۔'' 32
اس مقالہ کا مقصد صرف اور صرف علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور غلام احمد پرویز کے درمیان واقع باہمی اختلافات کو پیش کرنا ہے۔ فی الحال نہ تو ان اختلافات میں سے کسی پر محاکمہ کرنا ہمارے پیش نظر ہے اور نہ ہی کسی ایک پر بسط واطناب سے تفصیلی بحث کرنا، ہمارا مطمح نظر ہے، اور نہ ہی اس مختصر مقالہ میں ایسی شرح و تفصیل کی گنجائش ہی ہے۔
حوالہ جات
1. طلوع اسلام، اپریل 1950ئ، ص31
2. اسرار و رموز (مع ترجمہ میاں محمد شفیع) ص170
3. اسرار و رموز (مع ترجمہ میاں محمد شفیع) ص171
4. طلوع اسلام، مئی 1957ئ، ص40
5. سنت کی آئینی حیثیت، ص347
6. اسرار و رموز ،ص232 تا233
7. اسرار و رموز ،ص232 تا233
8. طلوع اسلام، جولائی 1969ئ، ص58
9. طلوع اسلام، جولائی 1969ء ص58
10. طلوع اسلام، فروری 1981ئ، ص6
11. تفسیر مطالب الفرقان، ج3، ص174
12. المعجم الوسیط، ج2، ص740
13. اسرار و رموز ،ص242تا243
14. ا سرار و رموز، ص242تا243
15. طلوع اسلام، جنوری 1957ئ، ص29
16. ا سرار و رموز، ص334
17. اسرار و رموز، ص335
18. طلوع اسلام، اگست 1962ئ، ص16
19. طلوع اسلام، اگست 1962ئ، ص15
20. طلوع اسلام، اگست 1959ئ، ص14
21. اسرار و رموز ،ص328
22. اسرار و رموز، ص329
23. کلیات اقبال اُردو، (شیخ غلام علی اینڈ سنز، طبع سوم، جون1996ئ) ،ص306
24. ایضا:ص355
25. تصوف کی حقیقت، ص307
26. تفسیر مطالب الفرقان، ج2، ص347
27. طلوع اسلام، فروری 1954ء ، ص26
28. کلیات اقبال ،ص516
29. کلیات اقبال ،ص516
30. کلیات اقبال ،ص518
31. تصوف کی حقیقت، ص54
32. تصوف کی حقیقت ، ص21