سب تعریفیں اللہ ربّ العزت کے لئے اور لاکھوں درود و سلام سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل و اصحاب پر ... ڈنمارک میں ہونے والے اُن واقعات کو کسی طرح بھی قبول نہیں کیا جاسکتا جن میں اہانت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارتکاب کیا گیا اور ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو نشانہ بنایاگیا ہے۔ اس سے پوری اُمت ِمسلمہ کی دل آزاری ہوئی ہے اور اقوامِ عالم کے مابین اصلا حِ احوال کے اعلیٰ ترین مقصد کے حصول کے لئے اس قرآنی حکم سے رُوگردانی کی گئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ''اور ہم نے تمہیں قبائل اور اقوام کی صورت میں اس لئے پیدا فرمایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔
اس صورت حال کے پیش نظر ہم درج ذیل اقدامات کی توثیق کرتے ہیں:
(1) ہم شانہ بشانہ اس اُمت کے ساتھ ہیں جو نصرت ِ رسولؐ اور تحفظ ناموسِ رسالت کیلئے اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔اس ردِ عمل سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ اُمت کے اس اقدام میں پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ضابطہ اخلاق کی عکاسی ہونی چاہئے جس کا پرتو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے افعال و کردار میں جھلکتا نظر آتا تھا۔
(2) ہم ڈنمارک کی حکومت اور متعلقہ مجاز افسران سے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف دُنیا بھر سے بلکہ اپنے معاشرے سے بھی اُٹھنے والی اس غیر جانبدار، سچی اور کھری پکار کے سامنے سرتسلیم کرتے ہوئے اپنے قبیح جرم کی مذمت کریں، معافی مانگیں اور اس بحران کو ختم کریں۔ایسا اس لئے کرنا ضروری ہے تاکہ ڈنمارک عالمی برادری سے الگ نہ ہوجائے۔ اُس عالمی برادری سے جو آزادی کا احترام کرتی ہے اور جو مذاہب ِعالم کی مقدس ہستیوں پر رکیک حملے کرنے سے روکتی ہے اور کسی بھی مذہب یا نسل کے خلاف عناد اور دشمنی کی فضا پیدا کرنے سے منع کرتی ہے۔ ہمارا ان ممالک سے بھی یہی مطالبہ ہے جو اہانت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قبیح جرم کا دفاع کرتے ہیں۔ دُنیا میںایسے کسی معاشرے کا کوئی وجود نہیں ملتا جو مطلق آزادی کا حامی ہو اور جس نے ایسے جرائم پر قابو پانے کے لئے قانون سازی نہ کی ہو، تاکہ کوئی کسی کے عقائد اور جذبات کو مجروح نہ کرسکے، تاہم ایسے قوانین اور ضابطوں کے معیارات مختلف ممالک میں مختلف ہیں۔
(3) یہ با ت مسلمہ اور طے شدہ ہے کہ ہمارا مذہب آزادئ اظہار کی ضمانت دیتا ہے، بشرطیکہ اس کا مقصد وضاحت طلب کرنا یا اپنے مقصد کے لئے تبادلہ خیال کرنا ہو، نہ کہ توہین و تضحیک۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے: '' اور ان سے بحث کرو ا حسن ترین طریقے سے۔'' عقل سلیم رکھنے والے سب لوگ اسے تسلیم کرتے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کی تمام دستاویزات میں اسے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں درج کیا گیا ہے۔
(4) ہم تمام مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ضبط ِنفس کا مظاہرہ کریں اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ ہم کسی جارحانہ اقدام اور کسی ایسے ردِعمل کو تسلیم نہیں کرتے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔مثال کے طورپران معاہدات کی خلاف ورزی جو ہماری شریعت کی نظر میں بھی محترم ہیں یا سفارت خانوں پرحملے اور بے گناہ عوام یا دیگر مقامات کو نشانہ بنانے کے اقدامات۔ اس طرح کا پُرتشدد رد ِعمل ہماری عدل و انصاف پر مبنی اپیل کو بے اثر کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں دُنیابھر میں ہونے والے مذاکرات اور اس اہم معاملے پر عالمی سطح پرہونے والے تبادلہ خیال سے خارج بھی کرسکتا ہے۔ نیز ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے رُوگردانی کرکے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی کوئی خدمت نہیںکرسکتے۔
(5) جن مذہبی اکابرین اور عالمی رہنماؤںنے غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرتے ہوئے اہانت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قبیح جرم کی مذمت کی ہے، ہم ان کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ ہم یہ تاکید بھی کرتے ہیں کہ وہ غیر مسلم لوگ جو مسلم یا غیر مسلم ممالک میں رہ رہے ہیں، انہیں اس جرم کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔ اس اُصول کی بنیادیں بھی قرآنی تعلیمات پر رکھی گئی ہیں۔ ارشاد ہے : ''اور کوئی انسان کسی دوسرے کے عمل کا ذمہ دار نہیں۔'' (الانعام:164)
اور ''کیا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ اور بھی ہے؟'' (الرحمن:60)
(6) ہم اسلامی کانفرنس کی تنظیم (OIC)، مسلم ممالک اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتے ہیںکہ وہ اقوام متحدہ پر زور دیں تاکہ وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت عیسیٰ وموسیٰ علیہما السلام اور دیگر برگزیدہ پیغمبروں کی اہانت کو جرم قرار دینے کا اعلان کرے۔
(7) ہم اس موقع پر مسلمانوں کو یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہوئے حضور کی سنت پر اور آپ کے اُسوۂ حسنہ اور ہدایات پر عمل کرکے ان سے اپنا ربط وتعلق استوار کریں اور نصرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو لہر اس وقت مسلمانوں کے دل کو گرما گئی ہے، وہ محض ہوا کا جھونکا ثابت نہ ہو جسے گزر جانے پر بھلا دیا جائے بلکہ ایسی رغبت اور میلان مسلمانوں کے اندر ہمیشہ ہی زندہ رہنا چاہئے۔
(8) ہم بار ِ دگر تاکید کرتے ہیں کہ ہمارا یہ فرض بنتا ہے اور اس کے لئے ہم ذمہ دار ہیں کہ ہم اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص و فضائل اور اخلاقِ حسنہ کی دوسروں کو تعلیم دیتے رہیں۔ یہ کام تحریر و تقریر دونوں طریقوں سے کرنا ہوگا۔ لیکن اس کا بہترین طریقہ بلا شبہ ہمارا کردار اور دوسروں کے ساتھ ہمارا حسن عمل ہی ہوسکتا ہے۔ یہاں یہ بھی امر لازمی ہے کہ متعلقہ ادارے اور مخیر حضرات آگے آئیں اور اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس جدوجہد کی بھرپور تائید اور حمایت کریں۔
اللہ ربّ العزت سے ہماری دُعا ہے کہ وہ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم وہ کام سرانجام دے سکیں جس سے اس کو محبت ہے اور جو اسے بے حد پسند ہے۔ آمین!
اعلامیہ پر دستخط کرنے والے مسلم سکالرز