تعلیم و تربیتِ نسواں

افراط و تفریط کے درمیان اسلام کی راہِ اعتدال

 

(قسط اوّل)


اِس مسئلہ میں لوگوں کی تین مختلف آرا ہیں۔

پہلی رائے:

یہ ہے کہ کو بغیر کسی تفہیم و تفسیر کے صرف سادہ قرآن مجید کی تعلیم دی جائے۔ ان کی نظر میں یہی رائے عمدہ ترین اور یہی نظریہ باقی تمام نظریات سے درست ہے، ہمارے آباؤ اجداد۔۔۔۔ جو ہم سے بہتر تھے۔۔۔۔۔ ان کی روشن بھی یہی تھی۔ تعلیم نسواں ان کے اخلاق کو بگاڑ دیتی ہے، کیونکہ ناخواندہ عورت شیطان سیرت مردوں کی دسترس سے دور رہتی ہے، بدیں وجہ کہ قلم بھی۔۔۔۔ جیسا کہ کسی پر مخفی نہیں۔ ایک زبان ہے جس کے شر سے اَن پڑھ عورت محفوظ رہے گی۔ اس پر مستزادیہ کہ جب وہ حجاب متین اور پردۂ کثیف اوڑھ لے گی تو دوسری زبان کے شر سے محفوظ ہو کر جنسی بے راہ روی سے مکمل طور پر امن میں رہے گی۔ ہم کتنی طالبات کو جانتے ہیں کہ وہ بحالت اسلام، پارسائی، عربی مروت اور اس کی پاسبانی کے ہوتے ہوئے بھی تعلیم اور صرف تعلیم ہی کی وجہ سے برائی کی لپیٹ میں آگئیں!! چہ جائیکہ عصر حاضر ہو جس میں عیش و عشرت کی رو ہلاکت کے گڑھے تک پہنچ چکی ہے، بیماری معالج کے اختیار سے باہر ہے، تو ایسے دور میں تعلیم نوجوان لڑکی کے پاکیزہ ذہن کو پراگندہ، غیروں سے آشنائی کا جذبہ اور گندے خیالات کو جنم دینے کا باعث بنے گی۔

حدیث میں ہے،« لَا تُسْکِنُوْھُنَّ الُغُرَفَ وَلَا تُعلِّمُوْھُنَّ الْکِتَابَة وَعَلِّمُوْھُنَّ الْمِغْزَلَ وَسُوْرۃ النُّوْرِ» ان کی رہائش بالا خانوں پر نہ رکھو، لکھائی نہ سکھائو، بلکہ تکلہ (یعنی کاتنے)، اور سورہ نور کی تعلیم دو۔''

تو یہ ہے عورت کی صحیح تربیت، کیونکہ لکھنے کا سلیقہ بدکار آدمیوں سے خط و کتابت کا ذریعہ ہے بالا خانوں میں رہائش گفت و شنید کا سبب بنے گی، خواہ اشاروں کنایوں سے ہی کیوں نہ ہو، اور تکلہ (کاتنے) کی تعلیم نفع بخش مشغلہ ہے، کیونکہ اس میں بدن اورر دماغ کی ریاضت اور محنت کے علاوہ مادی فوائد بھی موجود ہیں، جو گزر اوقات میں معاون ہوں گے، سورۂ نور کی تعلیم انہیں پاکیزہ زندگی پر آمادہ کریگی اس لئے کہ اس سورۃ میں حد زنا، بہتان تراشی اور ان سے متعلقہ زجر و توبیخ کا ذِکر حکم لعان ، اس سے پیدا ہونے والی عار اور رسوائی کا بیان ہے، نیز اس میں ایک بہت بڑے طومار کا ذکر ہے، جو ایک نہایت پاکباز اور بے قصور خاتونؓ پر باندھا گیا۔ اور یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص، ایماندار، پاکباز اور بے قصور عورتوں پر بھی افترا پردازی سے بھی باز نہ آئے اس کے لئے اللہ رب العزت نے دنیا و آخرت میں کس درجہ کی شدید ترین سزا مقرر فرمائی ہے، اس سورہ میں ایماندار مرد ہوں، یا عورتیں، ان کو اللہ تعالیٰ نے نگاہ نیچی رکھنے کا حکم صادر فرمایا ہے، نیز عورتوں کو اجنبیوں یعنی جن سے نکاح حلال ہو لیکن نکاح نہ ہوا ہو، ان کے سامنے اظہار زیبائش اور نمائش حسن سے روک دیا ہے۔

قسم خدا کی! یہ نوجوان لڑکی کے لئے بہترین ادب ہے، اگر لوگ اس حدیث پر عمل کرتے تو عورتوں کی اصلاح ہو جاتی اور لوگ ان میں نیکی اور پارسائی کے وہ نمونے پاتے جو زمانۂ قدیم سے مفقود ہیں،

دوسری رائے:

عورتوں کو انگریزی تہذیب کے دعویداروں کے طریقۂ تعلیم کے مطابق تعلیم دی جائے، ان کا کہنا ہے کہ ہمیں زیادہ قیل و قال اور فضول جھگڑوں میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں دنیا میں بعض قومیں اوج ترقی پر فائز ہیں اور خوش قسمتی ان کے قدم چومتی ہے جب کہ کئی دوسری قومیں ذلت، پستی، غلامی اور بد بختی سے دو چار ہیں، غور کرنے سے معلوم ہوا کہ ان کی خوش قسمتی اور ان کی بد قسمتی کا سبب محنت اور مال ہے جس کی بنا پر ہم تہیہ کر چکے ہیں، کہ ترقی یافتہ قوموں کی تقلید کریں تاکہ ہمیں وہی مقام حاصل ہو جائے، ہم درس و تدریس میں، تعلیم و تربیت میں، اندازِ فکر، لباس، معاشرہ اور نظامِ دستور میں غرضیکہ ہر معاملہ میں ان کے نقش قدم پر چلیں گے اور اسی ضمن میں تعلیم نسواں، عورتوں کی آزادی اور ہر ممکن معاملہ میں بلا قید و بند مرد عورت کے حقوق کی مساوات بھی ہے، ہمارا اسی پر ایمان ہے اور اس کی تنفیذ کے لئے کوشاں ہیں۔

لیکن تمہارا یہ کہنا کہ عورتیں اپنے گھروں میں دفن رہیں، انہیں اپنے مال و متاع اور ضروریاتِ زندگی میں کسی قسم کا تصرف کا حق نہ ہو حتیٰ کہ کھلی فضا میں سانس تک نہ لے سکیں اور ضرورت پڑنے پر گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں اسے دیکھنے سے روک دینا۔ پھر تم نے یہاں تک غلو کیا کہ اس کی آواز کو بھی موجب شرم قرار دیا۔ اس کا حق وراثت مرد کی نسبت ناقص یعنی آدھا قرار دیا لیکن اے کاش، اس کا نصف بھی تو سالم رہ جاتا کہ اس پر پردہ نشینی لازم اور لابدی قرار دی گئی تو اس کے خارجی امور کا نگران، اس کا بھائی، باپ اور چچازاد ٹھہرا، تو یوں سمجھو کہ آپ کا عطا کردہ نصف بھی ہضم ہو گیا اس لئے کہ بسا اوقات یہی قریبی رشتہ دار از خود اس کے مال پر ناگ بن جاتا ہے اور سب کچھ غصب کر کے کھا جاتا ہے، لیکن عورت، تو وہ بوجہ حجاب اپنے جائز حق کو تلف ہوتے دیکھ کر بھی کسی کچہری یا عدالت میں مطالبہ تک پیش نہیں کرتی صرف وہ گھر کی جیل میں پردہ نشین ہو کر اپنے خدا سے مردوں کے جو روستم کا شکوہ کرتی رہتی ہے، پھر معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ یہ دنیا، اپنے نصف جن سے مراد مستورات وغیرہ ہیں۔

ان کے بارے میں خواہ یورپین قوموں کی رائے تسلیم کر لیں کہ یہی نصف افضل ہے، خواہ اسے باقی ماندہ نصف یعنی مردوں کے ہم پایہ تسلیم کر لیا جائے۔ ان کی رونق سے محروم ہو جاتا ہے، کیا ایسی قوم دنیا میں زندہ رہ سکتی ہے جس کا نصف تو بالکل مردہ ہو اور باقی جہالت اور پستی کی وجہ سے بالکل ناکارہ ہو حالانکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ ترقی ناقابلِ تقسیم ہے، یا تو ماں، باپ اور اولاد سب ترقی یافتہ ہوں اور یا پھر سب ذلت اور رسوائی کی زندگی بسر کر رہے ہوں، کیا کبھی ایسی قوم بھی سننے میں آئی ہے کہ مرد تو شائستہ اور مہذب ہوں، لیکن عورتیں جہالت، وحشت اور بددیت کی زندگی بسر کر رہی ہوں۔

اور کیا وجہ ہے کہ عورت حکمران، ملکہ، صدر مملکت، وکیل، نوابوں کی مجلس کی نائب اور پبلک کے ذمہ دار اور صاحب حیثیت لوگوں کی سربراہ نہیں بن سکتی؟ کیا ان تمام امور کے انتظام کا دارومدار عقل و تدبر اور فہم و فراست پر نہیں؟ کیا آپ لوگ اتنے دلیر ہیں کہ عورت کو عقل و فہم اور سوچ بچار سے کلیۃً عاری سمجھتے ہیں اور آپ کے نزدیک اس کا کام ڈھور ڈنگر کی طرح صرف افزائش نسل ہے۔ اگر تمہارے یہی خیالات ہیں تو تم نے اپنی ہی ماؤں کو نہایت ذلیل و خوار کیا۔

مجھے اپنی عمر کی قسم ہے کہ ایسے خیالات کا نتیجہ ماسوائے اس کے کچھ نہیں ہو گا کہ قوموں کو اوج ترقی سے ذلت کے گڑھے میں پھینک کر ان پر سستی او کاہلی کی چادر پھیلا دیں۔ اسی پر ہی اکتفا نہیں بلکہ قوموں کو جہالت اور دیوانگی کے قبرستان میں دفن کر دیں۔

کئی لاکھ عورتیں آخری جنگ عظیم میں شریک ہوئیں۔ اگر تمہاری اس بری رائے کو من و عن تسلیم کر لیا جائے تو کوئی ایک عورت بھی ایسی نہ ملے گی جو کہ گھروں کے قبرستانوں سے نکل کر وطن کے دفاع میں ایک تیر تک چلا سکے۔

اور جو تم نے عفت و عصمت کی رٹ لگا رکھی ہے تو یہ صرف ایک عادت ہے اور عادتیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں، اگرچہ زمانۂ ماضی میں اس پاک دامنی کا اعتبار تھا لیکن آج اس کی حیثیت مذاق اور تمسخر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، مطلق العنان حکومتیں اور دنیاوی جاہ و جلال سے بہرہ مند ملکوں میں تمام شریف لوگ جن میں فلسفی، عالم، امیر اور وزیر شامل ہیں۔ وہ ایسے معاملات کی ہرگز پرواہ نہیں کرتے اور نہ ہی ایسی باتوں کا محاسبہ کرتے ہیں، ان کا طرزِ عمل یہی ہے کہ لڑکی جب سن بلوغت کو پہنچ جائے تو وہ اپنے نفس کی خود مختار ہے، جو چاہے کرے، جس سے چاہے تعلقات پیدا کرے دن رات اکیلی پھرے ہم تو ان قوموں کے طرزِ عمل کو ہی اپنائیں گے اور ہر معاملہ میں ان ہی کی تقلید کریں گے۔

تیسری رائے:

یہ رائے پہلی دونوں آراء کے بین بین ہے، یہ رائے پچھلی دونوں رایوں کے نقائص اور غلطیوں سے پاک اور ان کی خوبیوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے، اور یہ اس طرح کہ اولاً ان کی ایسی تعلیم سے انکار نہیں کیا جا سکتا جن سے عورت امور خانہ داری، گھریلو سہولتوں او ان کے انتظام سے واقفیت اور نیک بچے اور بچیوں کے لئے ایک نیک ماں بننے کی صلاحیت سے متصف اور بہرہ مند ہو سکے۔ ثانیاً جس سے عورت زندگی کے تمام شعبوں میں، خواہ وہ معاش سے متعلق ہوں، حرب و ضرب سے یا طبیعات سے ہر شعبۂ حیات میں مرد کی ممد اور معاون ثابت ہوں۔

تیسری رائے رکھنے والوں کی نظر میں، پہلی رائے کے قائل افراط میں مبتلاء ہیں جبکہ دوسری رائے رکھنے والے تفریط کا شکار ہیں اور یہ دونوں ہی قابل نقد و جرح ہیں ابھی پہلی رائے کا حال سنئے۔

اَوّل الذکر رائے کی غلطی:

آپ کا عورت کو تعلیم سے بالکل منع کر دینا یا صرف سادہ قرآن مجید کی تعلیم تک محدود رکھنا جادۂ مستقیم سے بہت دور ہے، کیونکہ یہ نہ تو اسلامی رائے ہے اور نہ ہی یہ عقل اور سائنس کا تقاضا ہے، خواہ تم اس اسلام کا نام دیتے رہو اور اسی پر تفریعات (فروعی مسائل) پیدا کرتے رہو (یہ اسلامی نہیں ہو سکتی) حتیٰ کہ آپ نے (اپنی رائے کو مضبوط کرنے کے لئے) محدثین کے نزدیک ایک کمزور ترین اور ساقط الاعتبار حدیث سے حجت پکڑی یہ تو بلحاظِ روایت ہے، اور اگر سند سے قطع نظر صرف معنی کی طرف غور کریں تو وہ بھی اس حدیث کے بطلان کا غماز ہے، کیونکہ ازواج مطہرات امہات المؤمنین بھی خواندہ تھیں، ان کے علاوہ اور بھی کئی صحابیات تابعیات اسی طرح وہ محدثات و حافظات خواتین ۔۔۔ جن سے محدثین کرام روایات اخذ کرتے تھے۔ بھی لکھنا پڑھنا جانتی تھیں حتیٰ کہ کتب اسماء الرجال (وہ کتابیں جن میں حدیث کے راویوں کے حالات زندگی پر تبصرہ ہوتا ہے) مثلاً تہذیب التہذیب، میزان الاعتدال، لسان المیزان، خلاصہ تہذیب الکمال اور ان سے پہلے طبقات ابن سعد اور کئی دوسری کتب تاریخ و رجال میں بے شمار عالم، فقیہ اور ادیب عورتوں کے حالات زندگی درج میں۔ اور یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ چار دانگ عالم میں اسلامی عظمت کا ڈنکا بج رہا تھا اور دشمنانِ اسلام ذلت اور شکست سے دو چار تھے۔

ہاں تمہارے وہ متأخرین آباؤ اجداد جن کے اتباع میں تم اپنی عورتوں کو جہالت کے اندھیروں میں رکھنا چاہتے ہو، وہ کبھی بھی اتباع کے اہل نہیں تھے، کیونکہ ان کا زمانہ جہالت کا دوسرا دور تھا، اور آج اسلام جن مصائب سے دو چار ہے وہ ان ہی کی کرم فرمائیوں کا نتیجہ ہے، اس کے باوجود ہم یہ بات تسلیم کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں کہ تمہارے آباؤ اجداد میں اہل علم حضرات بھی ایسی نکمی باتیں کیا کرتے تھے اور یہ تسلیم کیونکر کریں کیونکہ ان کے دور میں بھی ادیب اور عالم عورتیں اگرچہ تعداد میں بہت کم تھیں لیکن خیر و برکت کا وجود بالکل عنقاء نہیں تھا۔ تمہارا یہ مزعومہ کہ قلم بھی ایک زبان ہے اور جب عورت اس زبان سے ناواقف ہو، اور سخت قسم کے پردے میں ملبوس رہے تو ہر دو زبان کے شر سے محفوظ رہے گی، تو یہ سخت غلطی ہے، کیا آپ اس بات سے ناواقف ہیں کہ جس عورت کی تربیت غلط ہو خواہ وہ گونگی بہری ہی کیوں نہ ہو اور کسی ڈبیہ میں ہی بند کیوں نہ ہو اس کی حفاظت نا ممکن ہو جاتی ہے لیکن جو لڑکی عفت اور پاکدامنی میں پروان چڑھتی ہو وہ پردوں میں رہ کر بھی بغیر کسی شک و شبہ کے برائی سے بچ جاتی ہے، چنانچہ خواتین (غلبۂ اسلام کے دور میں) میدانِ جنگ میں اپنے مردوں کے ساتھ ہوتیں، اور رسول اللہﷺ کے ساتھ آپ کی ازواجِ مطہرات بھی غزوات اور حج میں ہم سفر ہوتیں، صحابہ کرامؓ کی بیگمات اپنے گھروں کی چار دیواری میں ہی پردہ نشین ہو کر ہی نہ بیٹھی رہتیں بلکہ ضرورت پڑنے پر گھروں سے باہر آجاتیں، گھوڑوں کو چارہ ڈالتیں، اپنی ملکیت میں محنت کرتیں، اور عورتیں رسول اللہ (ﷺ) کے بعد بھی جنگوں میں شریک ہوئیں، یہ سب کچھ کتب حدیث میں مذکور ہے، جنہیں ذکر کر کے مضمون کو طول نہیں دینا چاہئے اور یہ تمام امور ان عورتوں کے پختہ ایمان اور کمال عفت کی وجہ سے ان کے لئے نقصان دہ نہ ہوئے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ صرف تعلیم نہ تو عورت کو نیک بناتی ہے اور نہ ہی برائی کی طرف رغبت دیتی ہے۔ اگر وہ خود نیک ہوئی تو یہ تعلیم اس کو نیکی کے ہتھیاروں سے مسلح کر دے گی۔ اور اگر اس کی تربیت غلط ہوئی تو تعلیم کے بعد اور بگڑ جائیں گے، کیونکہ خواندگی اور لکھنے کا ڈھنگ ایک آلہ کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں اچھے برے ہر مقام میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

رہا سورۂ نورہ کی تعلیم، تو یہ اخلاق و آداب سکھانے کا بہترین گر ہے، یہ بیش قیمت ذخیرہ اور بہت بڑا خزانہ ہے، لیکن نوجوان لڑکی کو چاہئے کہ قرآن مجید کی دوسری سورتوں کی علم سے بھی غافل نہ ہو، پھر تعلیم قرآن قرأت کے بغیر ناممکن ہے، جو معرفت معانی اور مفاہیم کے بغیر نتیجہ خیز نہیں اور یہ (یعنی معانی و تفسیر) صرف، نحو اور لغت کے علوم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے، جنہیں حاصل کرنے کے لئے پڑھنا لکھنا سیکھنا ضروری ہے، جس سے تم نے منع کیا تھا۔ اور یہ تناقض ہے جس کا تمہیں احساس بھی نہیں ایسے ہی لوگوں کے لئے شاعر نے کہا ہے:

یصیب وما یدری ویخطی وما دری
وکیف یکون النوک الاکذالکا!


ترجمہ: (صحیح کرے تو بھی ناواقفیت میں، غلط کرے تو بھی لاعلمی میں جہالت اور بیوقوفی اسی کا نام ہے۔)

تکلہ کی تعلیم یہ چیز تو اچھی ہے، لیکن معاشرہ میں اس سے زیادہ اہمیت کم از کم امور خانہ داری اصول حفظان صحت اور تیمار داری وغیرہ کو حاصل ہے۔

آپ کا یہ کہنا بجا ہے کہ نوجوان لڑکی اِس زمانے میں اگر خواندہ ہو تو مخرب الاخلاق اخبارات اور رسائل پڑھ کر مختلف قسم کی بری چیزیں اس کے ذہن میں سرایت کر جاتی ہیں، لیکن ان پڑھ عورت کو بھی ایسی واقفیت سینما بینی سے حاصل ہو سکتی ہے، خواہ اپنے نگران کی غیر حاضری سے فائدہ اُٹھا کر ایک ہی فرصت میں حاصل کر سکے۔ یہی خبریں اسے ریڈیو کے ذریعے بھی پہنچ سکتی ہیں، اسی طرح یہی خیالات مہمان خواتین کی آمدورفت اور گفت و شنید سے بھی پیدا ہو سکتے ہیں، جب فضا ہی خراب ہو جائے تو عزلت پسند کو اس کی علیحدگی فائدہ نہیں دے گی۔

دراصل کرنے کا کام جو ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم نسواں کی کلیۃً مخالفت کی بجائے ان کے موجودہ نصاب تعلیم پر تنقید کر کے اور اصلاحی تجاویز پیش کر کے حکومت سے ایسے مکمل نصاب تعلیم کے نفاذ کا مطالبہ کریں جس میں نوجوان لڑکیوں کی صحیح تربیت کی ضمانت ہو، تو یہ نہایت ہی موزوں ہو گا۔

ثانی الذکر رائے کی غلطی:

اس کے برعکس دوسری رائے پیش کرنے والے لوگوں نے افراط سے کام لیا ہے، اور شرعی اور اخلاقی حدود سے تجاوز کر گئے ہیں، ہم ان کے دلائل کا بھی تجزیہ کرتے ہیں۔ اور ان کے دماغ میں جو لا طائل اور مردود بہانے ہیں ان کا پول کھولتے ہیں، جو مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہیں۔

آپ کا یہ کہنا درست ہے کہ اقوام عالم دو طرح کی ہیں: کچھ ترقی پذیر اور خوش بخت ہیں اور دوسری ذلیل اور بد بخت ہیں۔ اور آپ کا یہ قول۔۔۔ کہ بخت آور اقوام اپنی محنت اور حالات کی مساعدت سے اس مقام دشوار پر پہنچے ہیں۔۔۔ بھی صحیح ہے لیکن یہ ایک مجمل کلام ہے، جس کی تفصیل اور وضاحت ضروری ہے، کیونکہ اسی اجمال کے بل بوتے پر آپ کو مغالطہ دینے کا موقع ہاتھ آیا ہے، اور اس اجمال کی تفسیر یہ ہے کہ خود اقوام یورپ (جن کو آپ ترقی پذیر سمجھتے ہیں) کی عادات و اطوار ایک دوسری سے نہایت مختلف ہیں، جن کی بناء پر ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں۔

چنانچہ کیتھولک فرقہ کا مقلد شخص کسی پروٹسٹنٹ عقیدہ والی عورت سے شادی نہیں کر سکتا اور اگر کوئی شخص ایسی جرأت کر بیٹھے تو گرجا کی طرف سے اس پر عقاب محرومیت (جسے ہمارے ہاں حقہ پانی بند کہتے ہیں) نازل ہوتا ہے، اور یہ ایک بہت بڑی اجتماعی مصیبت ہوتی ہے، البتہ تحدید تعزیر میں اختلاف ہے، حتیٰ کہ یہی سزا (بسا اوقات) بغیر کسی رو رعایت کے ایک دوسرے کی موت کا سبب بن جاتی ہے، عورتوں کے بارے میں بھی ان کے نظریات یکساں نہیں بلکہ متضاد ہیں، چنانچہ بعض نظریات تو عورت کی نگرانی اور مکمل حفاظت کرتے ہیں، جب کہ بعض دوسری اقوام قانونی طور پر سنِ بلوغت پر پہنچنے کے بعد اسے مطلق العنان سمجھ کر ہر طرح کی آزادی دے دیتے ہیں اور بعض قومیں مثلاً تینوں اس منطق کا سہارا لے کر کہ معاشرے کی خرابی ایک ہی جگہ پر منحصر رہے اور سارا معاشرہ گندا نہ ہوا ایک متعین اور محدود مقام کے لئے عصمت فروشی کو قانونی طور پر جائز قرار دیتے ہیں، یہ لوگ کسبیوں کے ساتھ کچھ نرمی کا سلوک کرتے ہیں اور بعض قومیں مثلاً جرمن اور برطانوی ایسی بھی ہیں جو قانونی عصمت فروشی کو حرام قرار دیتے ہیں اور یہ بدکار عورتوں پر نہایت سختی کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ انہیں مکھیوں کی طرح قابل نفرین اور حقیر طبقہ خیال کرت ہیں۔ اس صورت میں کسی فاحشہ عورت کے لئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ شرفاء اور اصحاب مروت لوگوں سے ملاقات بھی ہو سکے، ان کی حیثیت بقول شاعر ؎

لتصعدن منی مقعد القصی
منی ذی القاذورۃ المقلی


''تو ضروری اور واجبی طور پر مجھ سے اچھی طرح ہٹ کر رہے گا، جس طرح قابل نفرت اور راندھے ہوئے لوگ دور رہتے ہیں، ''پھر زیر غور مسئلہ میں اقوام یورپ کا تساہل (بے پرواہی برتنا) ان کے تمدن اور ترقی کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس تساہل کا ان دونوں مسئلوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں یہ تو ایک عادت ہے جو انہیں زمانہ جاہلیت و نادانی کے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملی ہے، اسی طرح بحر ابیض متوسط کے جوار میں ایسی غیر یورپین اقوام موجود ہیں جنہیں بربری کہتے ہیں جن کے ہاں اسلام کا صرف نام باقی ہے، مثلاً آبم مکیلا، آیت سخمان، اشتیرن، آیت اسحاق اور آیت ہلودی وغیرہ، یہ لوگ اپنے رنگ اور ٹھنڈے خون کی وجہ سے شمالی یورپ کے باشندوں سے ملتے جلتے ہیں، ان میں غیرت کالعدم ہے۔ میں نے انہیں خود دیکھا ہے کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کرتا ہوا دیکھ لے تو ہوائی فائر کرتا ہے۔ غرض یہ نہیں ہوتی کہ ان دونوں میں سے کسی کو گزند پہنچے بلکہ غرض یہ ہوتی ہے کہ اس وقوعہ کی اطلاع عام ہو جائے۔ ہوائی فائر سن کر لوگ ہر طرف سے اُمڈ آتے ہیں۔ خاوند کہتا ہے کہ لوگو! گواہ رہنا کہ فلاں شیخ کو میں نے اپنی بیوی کے ساتھ بدفعلی کرتے دیکھا ہے۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تیری تائید میں چشم دید واقعے کی گواہی دیں گے۔ پھر جب عام قبیلہ اکٹھا ہو جاتا ہے تو خاوند اسے عدلیہ میں لے جاتا ہے۔ جب اپنے پیشواؤں اور صاحب حیثیت لوگوں کے سامنے پیش ہو جاتا ہے تو اس پر دعویٰ دائر کر دیتا ہے، گواہ بھی آکر گواہی دے جاتے ہیں، ان سب چیزوں کے باوجود مجرم صاف مکر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ تو اس کے سر پر ایک طبق (تھال) رکھ دیتے ہیں جس کا مدعا یہ ہوتا ہے (اس جرم کی پاداش میں بطور جرمانہ اور سزا) خاوند کو ایک عدد مینڈھا اور چھ ریال دیدے، لیکن مجرم پھر بھی اپنے انکار پر مصر رہتا ہے، جس پر خاوند اسے قتل کرنے کے در پے ہو جاتا ہے مگر لوگ بیچ بچاؤ کر کے صلح کی کوشش کرتے ہیں، چنانچہ خاوند جرمانے کی ایک شق کو معاف کر دیتا ہے، خواہ مینڈھا یا چھ ریال کوئی ایک معاف کر دیتا ہے اور دوسری چیز لے لیتا ہے، (یعنی خاوند کے ہاں بیوی کی آبرو ریزی صرف چھ ریال یا مینڈھا کے عوض برداشت کی جا سکتی ہے) ہم دور کیوں جائیں، صحیح بخاری میں ہے ''کہ ایک شخص کے ہاں کوئی نوکر تھا جس نے اس کی بیوی سے بدکاری کی، اس نے ایسے لوگوں سے مسئلہ پوچھا جن کے متعلق وہ گمان میں تھا کہ یہ عالم ہیں۔ انہوں نے فتویٰ یہ دیا کہ نوکر عورت کے خاوند کو سو بکری دیدے جسے نوکر کے باپ نے اپنے بیٹے کی طرف سے ادا کر دیا۔ پھر اس نے حضورﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر سارا ماجرا سنایا۔ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے فیصلے کو غلط گردانا اور فرمایا کہ بکریاں نوکر کے باپ کو واپس دلائی جائیں اور نوکر کو (۱۰۰) سو درے مارے جائیں اور ایک برس کی جلا وطنی کی مزید سزا دی جائے۔ عورت کے متعلق انیس نامی ایک شخص کو (معاملے کی تحقیق کے لئے) بھیج کر فرمایا کہ اگر وہ اقبال جرم کرے تو اسے رجم کر دو۔''

مدعا یہ ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کے عربوں میں بھی ایسے بربری طرز کے فیصلے پائے جاتے تھے، جنہیں اسلام نے منسوخ کر دیا۔ بشر بہر حال بشر ہے، کوئی قوم کسی دوسری قوم سے صرف اخلاقِ انبیا اور علومِ تمدن کے زیر اثر ہی ممتاز ہو سکتی ہے، اور جس شخص کو یہ دونوں چیزیں میسر ہوں اِسے بہت بڑی سعادت نصیب ہوئی۔

قصہ کوتاہ! کہ اقوام یورپ کا عورتوں کے بارے میں بے پرواہی برتنا ان کی جدید ترقی کا نتیجہ نہیں بلکہ اس سلسلے میں وہ اپنے اسلاف کے پیروکار ہیں۔ جسے انہوں نے اپنے عمل کے علاوہ تمثیلی کہانیوں (فلموں) کی اختراعات و تصنیفات سے برقرار رکھا ہے۔

عورت کی آزادی اِسے صرف بے نقاب کرنے یا آبرو کو خطرے میں ڈالنے پر ہی موقوف نہیں بلکہ پردہ نشینی کمال عفت اور پارسائی کے باوجود بھی عورت آزاد رہ سکتی ہے، جبکہ عصمت کی انتہائی بے راہ روی کے باوصف عورت غلامی کا شکار ہوتی ہے۔ (مسلسل)


نوٹ
جب خاوند بیوی پر تہمت لگائے اور گواہ نہ ہوں تو وہ عدالت میں حاضر ہو کر چار عدد قسمیں کھاتا ہے کہ وہ سچا ہے، اور پانچویں دفعہ کہتا ہے کہ مجھ پر خدا کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں، اگر عورت خاموش ہو جائے تو وہ سنگسار کی جاتی ہے، لیکن اگر وہ بھی جواب میں اسی طرح چار قسمیں کھالے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو اگر وہ سچا ہو تو وہ اس سزا سے بچ جاتی ہے۔ اگر اس موقعہ تہمت کی اولاد پیدا ہو جائے تو وہ اگرچہ عورت کی ہو گی، لیکن پھر بھی عورت کو زانی نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی مرد کو جھوٹا کہا جاتا ہے، بلکہ ان کا معاملہ خدا کے سپرد کر کے یہ کہا جاتا ہے کہ خدا جانتا ہے، کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے اسے شریعت مطہرہ میں لعان کہا جاتا ہے کہ ہر ایک لعنت اور غضب کی قسمیں کھاتا رہے۔ (مترجمہ)