حمد
رنگِ گل، رنگِ چمن، رنگ بہاراں دیکھا ذرہ ذرہ سے ترا حسن نمایاں دیکھا
دیدۂ کوہ سے بہتے ہوئے چشمے دیکھے سینۂ بحر سے اُٹھتا ہوا دھواں دیکھا
پتے پتے کی زباں سے تری رُوداد سنی غنچے غنچے کے جگر کو ترا خواہاں دیکھا
جن و انساں ہوں، فرشتے ہوں کہ حیوان وطیور ساری مخلوق کا تنہا تجھے نگراں دیکھا
جن کی شہرت تھی زمانے میں مسیحائی کی ان کو بھی در پہ ترے طالبِ درماں دیکھا
اپنی قربت سے جسے جتنا نوازا تو نے تجھ سے اتنا ہی اسے خائف و لرزاں دیکھا
غیب داں تیرے سوا کوئی دوعالم میں نہیں شاہد اس بات پہ ہم نے ترا قرآن دیکھا
ہو کوئی تاج بہ سر دہر میں یا کاسہ بکف
جس کو دیکھا ترا شرمندۂ احساں دیکھا
ذرے ذرے کی جبیں ہے ترے جلووں کی امیں گوشے گوشے میں ترا حسنِ فروزاں دیکھا
جن کا دنیا میں کوئی دوست ہے باقی نہ حبیب اِن غریبوں کا الٰہی تجھے پرساں دیکھا
ہو گیا وہ ترے الطاف کا قائل یا رب
جس نے عاجزؔ پہ ترا لطفِ فراواں دیکھا