حضرت مجدد الف ثانی سرہندی
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں علامہ اقبال رحمہ اللہ کا یہ مصرعہ تو مشہور ہے، مگر بہت کم لوگ واقف ہوں گے کہ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے یہ مصرعہ کس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے؟
قارئین کرام! ہر زمانے میں کچ لوگ ایسے پیدا ہوتے رہے ہیں جنہو نے دینِ اسلام کی خاطر سختیاں برداشت کیں ، شاہانِ وقت انہیں صراطِ مستقیم سے ہٹانے کے لئے اپنے عام وسائلِ بروئے کار لاتے رہے مگر وہ عزم و ہمت کی چٹان بن گئے۔ کوئی دھمکی اور کوئی خوف انہیں راہِ راست سے نہ ہٹا سکا۔ ؎
ستیزہ کار رَہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
کے مصداق مغل شہنشاہِ اکبر (۹۶۳ھ تا ۱۰۱۴ھ) کے عہد حکومت میں اسلام کے سرسبز و شاداب چمن پر ایک بار پھر کفر و الحاد، زندقہ اور بدعت و ضلالت کی گھٹا ٹوپ آندھیاں چھا گئیں ، شاہِ وقت جو کبھی صحیح العقیدہ مسلمان تھا، علمائ، سوئ اور غلط کار درباریوں کی سازشوں کا شکار ہو کر گمراہ ہواتھا۔ اس نے دین حنیف میں ترمیم کر کے ایک نئے دین کی بنیاد رکھی ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے ایک ایسا مذہب ایجاد کیا گیا جو شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والتحیۃ کے سراسر مخالف اور قرآن و سنت سے اکار و انحراف کے مترادف تھا۔
ہمایوں کے عہد میں جس شجرۂ خبیثہ نے سر اُٹھانا شروع کیا وہ اکبری عہد میں برگ و بار لایا،
دینِ اسلام کی صداقت و عظمت کا وہ چراغ جو ایک ہزار سال سے روشن تھا، شاہ وقت، علماء، سوء، اور جاہل صوفیوں کے ہاتھوں میں ٹمٹمانے لگا۔ دین اسلام کی حالت زار جو شہنشاہ اکبر اور اس کے بعد جہانگیر کے ہاتھوں رہی تھی۔ اس کی طرف حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے اپنے ایک خط میں جو انہوں نے جہانگیر کے ایک مقرب کو لکھا، یوں بیان فرمائی:
’’اسلام کی بے کسی کا یہ حال ہے کہ کفار کھلم کھلا اس پر طعن توڑتے ہیں اور اسلام کے نام لیواؤں کی مذمت کرتے ہیں ۔ وہ ہر کوچہ و بازار میں بے خوف و خطر کفر کے احکام جاری کرتے اور کفار کی مدح و ستائش کرتے ہیں ، مسلمان اسلامی احکام کی بجا آوری سے قاصر اور شریعت محمدیہ پر عمل پیرا ہونے سے عاجز ہیں ۔‘‘ پھر ایک ہی شعر کے ذریعے سے اسلام کی کس مپرسی کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں : ؎
پری نہفتہ رو و دیو در کرشمہ و ناز بسوخت عقلم زحیرت کہ این چہ بو العجبی است؟
’’پری (شرافت و نجابت کا نشان یعنی اسلام) منہ چھپائے ہوئے ہے اور دیو (استبداد و گمراہی) ناز و انداز دکھا رہا ہے۔ اس بو العجبی پر میری عقل حیرت و استعجاب سے جل کر راکھ ہو گئی ہے۔‘‘ حضرت مجدد اس شعر کے بعد فرماتے ہیں :۔
’’سُبْحَانَ اللہ وبحَمْدِہ، اَلشَّرْعُ تَحْتَ السُّیُوْفِ شرع کی تجدید تلواروں کے سائے میں بھی کی جاتی ہے اور دین کی عظمت بادشاہوں کے طرزِ عمل پر منحصر ہوئی ہے، لیکن اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔ افسوس صد افسوس!
’’النَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِہِمْ‘‘ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین کو جلد اپنا لیتے ہیں اور تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اکبر نے جس دین کی بنیاد رکھی اور جس عقیدہ و عمل کی نیو استوار کی رعایا نے بھی اس کو اختیار کر لیا۔ ملا مبارک ناگوری اور اس کے دونوں بیٹوں ابو الفضل اور فیضی نے اسلام میں ایسی ایسی بدعتیں ایجاد کیں کہ اس کا لیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ ’’دین الٰہی‘‘ کو رعایا کے تمام طبقوں کے لئے قابلِ قبول بنانے کے لئے عقیدۂ توحید میں اس قدر ترمیم کی گئی کہ ہندوؤں کی بت پرستی، مجوسیوں کی آتش پرستی اور دیدوں میں بیان کردہ دو رازکار فلسفیانہ موشگافیوں کو نئے دین میں سمیٹ لیا گیا ہے، اس طرح اکبر کا دینِ الٰہی مختلف مذاہب کے عقائد و خیالات کا ایک ملغوبہ بن گیا۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو دین کی اصل بنیاد تھی، وہ
طاق نسیاں پر رکھ دی گئیں ، سورج کی پرستش چاروں طرف لازمی قرار دی گئی، آگ، پانی، درخت اور گائے کو پوجنا جائز ٹھہرا، اکبر ہر روز خود صبح اُٹھ کر سورج کی پرستش کرتا، اس کے بعد مشتاقانِ دید کے لئے دیوانِ عام میں آبیٹھتا تھا، لوگ شہنشاہ کے لئے سجدہ تعظیمی بجا لاتے جسے اس وقت کے دین فروش ملاؤں نے جائز قرار دیدیا تھا۔ اس کے برعکس اسلامی شعائر کو درخور اعتنانہ سمجھا گیا اور بادشاہ کو یہ بتلا دیا گیا کہ دین اسلام ایک ہزار سال گزر جانے کے بعد نعوذ باللہ بالکل اسی طرح بے کار اور ناکارہ ہو گیا ہے، جس طرح کہ اسلام سے پہلے کے مذاہب اقتدار زمانہ کے ہاتھوں معطل ہو چکے ہیں ۔ [1]
ہندو عورتوں سے شادیاں کر لینے کے بعد اکبر کے دِل میں ہندوؤں کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو گیا تھا۔ حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر ہندو فائز تھے، اپنے اقتدار اور شاہ وقت کی نظر عنایت نے انہیں اس قدر دلیر کر دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی ہر آن ہر لمحہ دل آزاری کرتے، مسجدیں شہید کر کے وہاں مندر بنائے گئے، ہندوؤں کے برت کا دن آتا تو مسلمانوں کو دن میں کھانے پینے سے حکماً روک دیا جاتا، انہیں حکم ہوتا کہ ان کے چولہوں میں آگ نہ جلے لیکن جب رمضان المبارک آتا تو ہندو سرِ عام کھاتے، رمضان کی عزت و حرمت کی حفاظت کے لئے بادشاہ کوئی فرمان جاری نہ کرتا تھا۔
دین کے لئے یہ کوئی کم فتنہ انگیز بات نہیں کہ شاہِ وقت گمراہ ہو جائے لیکن اگر بادشاہ وقت کے ساتھ ساتھ دین کے نام لیوا بھی اس کے ہاتھ پر بِک جائیں تو پھر دین کا خدا ہی محافظ ہوتا ہے۔ اکبری عہد میں یہ سب کچھ ہوا، بہت سے علما اور فضلا نے بھی طاقت کو سجدہ جائز قرار دیا۔ جو زبانیں کبھی دین اسلام کی عظمت اور اس کی سر بلندی کے لئے وا ہوتی تھیں وہ گنگ ہو چکی تھیں ، صوفیا کا طبقہ۔۔۔ جو لوگوں کے تزکیہ نفس کی خدمت سر انجام دیتا ہے۔۔۔۔ بھی اپنے اصل مشن کو چھوڑ کر شاہی دستر خوان سے تن پروری میں مصروف تھا۔ غرضیکہ حالات اس حد تک ناساز گار تھے کہ دین کے پنپنے کی کوئی اُمید نظر نہ آتی تھی۔ مگر ہمیشہ یہ ہوا کہ جب بھی دین اسلام پر کوئی آزمائش کا وقت آیا رحمتِ حق میں ارتعاش
پیدا ہوا۔ دین حق کی حفاظت کے لئے کوئی نہ کوئی ہستی ان تیرہ و تار فضاؤں میں نمودار ہوئی جس کی نورانی کرنوں سے کفر و الحاد کی تاریکیاں چھٹ گئیں جس کی ضیا بار تابانیوں س بعت و ضلالت کی آندھیاں ڈھل گئیں جس کی ضوفشاں شعاعوں سے زند قت کے اندھیرے بھی منور ہوئے اور توحید و سنت کی مشعلیں چمک اُٹھیں ۔
جب کفر و شرک، بدعت و ضلالت اور زندقہ و الحاد کی آندھیاں اپنی تمام تاریکیوں سمیت ہندوستان کی فضا پر چھا گئیں تو آسمانِ ’’سر ہند‘‘ پر سنت و ہدایت کا آفتاب طلوع ہوا جس کو لوگ شیخ احمد سر ہندی کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ اس آفتاب کی ضیا پاشیوں سے ظلمت و گمراہی کے اندھیرے کافور ہوئے، اکبر نے جس دین کی بنیاد رکھی تھی اور اعوان و انصارِ حکومت جس کی تبلیغ میں ہمہ تن مصروف تھے، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو بیخ و بن سےے اُکھاڑنے کا تہیہ کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حق اپنی تمام جلوہ سامانیوں سے طلوع ہوتا ہے۔ تو باطل کافور کی مانند تحلیل ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ بشارت دی گئی ہے:
جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ البَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔
’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، تحقیق باطل مٹنے والی چیز ہے)
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے دین حنیف کے احیا کا بیڑا اُٹھایا۔ اس وقت اکبر کا دار الحکومت آگرہ تھا۔ شیخ احمد سر ہندی رحمہ اللہ ’’سرہند‘‘ سے آگرہ روانہ ہوئے۔ دربار اکبری کی شان و شوکت سے لوگ مبہوت ہو جاتے تھے۔ اس جاہ و حشمت سے ان کی زبانوں پر مہر سکوت لگ جاتی تھی، مگر شیخ احمد سر ہندی رحمہ اللہ دربار کی شان و شوکت سے ذرا متاثر نہ ہوئے۔ آپ نے درباریوں سے مخاطب ہو کر بلا خوف و خطر یہ کہا:
’’اے لوگو! تمہارا بادشاہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے منحرف اور اس کے دین سے باغی ہو گیا ہے۔ میری طرف سے اُسے یہ کہہ دو کہ دنیوی شان و شوکت اور تخت و تاج کی یہ سطوت سب فانی ہیں ، وہ توبہ کرے اور خدا کے دین میں از سرِ نو داخل ہو جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے، ورنہ خدا تعالیٰ کے غضب کا انتظار کرے۔‘‘
علمائے سو جو حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے علم و فضل سے بغض رکھتے، ان کے مرتبہ ولایت سے
جلتے تھے انہیں یہ بہانا ہاتھ آگیا کہ اِس طرح اکبر کے پاس حضرت مجدد رحمہ اللہ کے یہ کلمات پہنچا کر انہیں بادشاہ کی شان میں گستاخی کا مرتکب ٹھہرائیں گے۔ اس طرح حضرت مجدد شاہی انتقام کا نشانہ بن جائیں گے اور ان کی آتشِ انتقام سرد ہو جائے گی۔ اکبر نے حضرت مجدد رحمہ اللہ کے الفاظ سن کر مباحثے کا چیلنج کیا۔ آپ نے اِسے فوراً قبول کر لیا۔ مباحثے کا وقت آیا تو اکبر اپنے درباری مولویوں ک ہمراہ تخت شاہی پر فروکش ہوا، حضرت مجدد رحمہ اللہ بھی اپنے بوریہ نشین ساتھیوں کے ہمراہ جا پہنچے، مباحثے کا انتظام ہو چکا تھا مگر خدا تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا کہ اکبر جیسے بے دین بادشاہ کے دربار میں شاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غلام کی رسوائی ہو۔ ابھی مباحثے کا آغاز نہ ہوا تھا کہ ایک زور دار آندھی آئی جس سے دربار اکبری تہہ و بالا ہو گیا۔ خیموں کی چوبیں اُکھڑ جانے سے اکبر اور اس کے تمام ساتھی زخمی ہوئے لیکن حضرت مجدد رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کو خراش تک نہ آئی، بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ ان ہی زخموں کی وجہ سے اکبر کی موت واقع ہوئی اور مرنے سے پہلے اکبر اپنے عقائد سے توبہ کر کے دوبارہ حلقہ بگوش اسلام ہو گیا تھا۔
اکبر کی وفات کے بعد شہنشاہِ نور الدین جہانگیر ہندوستان کے تخت پر برا جمان ہوا۔ جہانگیر کے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ لکھا ہے:
ہمایوں کے بعد جب اکبر تخت پر بیٹھا تو اس نے زندقت اختیار کی اور جہالت و گمراہی کے علم ہر طرف لہرانے لگے، مختلف مذاہب اور قوموں کے لوگ اکبر کے دین الٰہی میں داخل ہوئے اور انہوں نے عظیم فتنے پیدا کئے، اکبر کے بعد دائم الخمر جہانگیر سریر آرائے سلطنت ہوا تو ہندوؤں نے سر اُٹھایا، رافضیوں نے اُبھرنا شروع کیا، دیانتیں ضائع ہو گئیں ‘‘ ۔۔۔۔۔۔ جہانگیر کا اپنا بیان ہے:۔ ؎
ر و دولت بادشاہی من حالا ایں سلسلہ است
پدر دیواں کل، پسر وکیل مطلق، دختر ہمراز و مصاحب
میری حکومت کے در و دولت کا یہ حال ہے۔ اس (نور جہان) کا باپ دیوانِ کل ہے، (آصف جاہ، نور جہاں کا بھائی) وزیر اعظم ہے اور بیٹی (نور جہاں خود) ہمراز اور صاحب کم ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ تخت دہلی پر جہانگیر متمکن تھا مگر سکہ اس کی ملکہ نور جہاں کا چلتا تھا، اس کا
بھائی آصف جاہ امور سلطنت میں نور جہاں کا دستِ راست اور وزیر اعظم تھا، جہانگیر خود کہا کرتا تھا۔
’’ہم نے ایک سیر شراب اور آدھ سیر گوشت (کباب) کے بدلے سلطنت نور جہاں کو دیدی ہے۔‘‘
لیکن ان ناگفتہ حالات میں بھی حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ جس مشن کے لئے نکلے تھے اسے پورا کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اکبر کے مقابلہ میں آپ نے جس جرأت ۔۔۔ استقامات اور حق گوئی و بے باکی کا مظاہرہ کیا تھا اس کا عوام الناس پر بہت اثر ہوا۔
فَاجْعَلْ اَفْئِدۃ مِنّ النَّاسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِمْ (قرآن مجید)
’’لوگوں کے دِل ان کی رف مائل کر دے۔‘‘
لوگوں کے دل آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ حکومتِ وقت کے بڑے بڑے عہدے دار بھی آپ کے علم و فضل اور ان کی روحانی قوت کے قائل ہو کر آپ کے مریدوں میں شامل ہو چکے تھے۔ تبلیغ دین جاری تھی اور کفر، شرک اور بدعت و ضلالت کے گڑھ (ہندوستان) میں دین حنیف کا ایک چشمۂ صافی جاری ہو رہا تھا جس سے تشنۂ لب سیراب ہو ہو کر نکلتے تھے۔ حضرت مجدد رحمہ اللہ نے اعلائے کلمۃ الحق کے لئے تحریر و تقریر دونوں کا سہارا لیا۔ عوام الناس سے گزر کر تبلیغ کی آواز اُمرائے سلطنت کے ایوانوں سے بھی ٹکرانے لگی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رافضیو کے اس ٹولے کو جو سلطنت پر چھایا ہوا تھا حضرت مجدد رحمہ اللہ کی تبلیغ سے سخت تکلیف ہوئی، نور جہاں ، وزیر اعظم آصف جاہ، آصف الدولہ اور مرزا غیاث اور ان کے دوسرے ساتھی حضرت مجدد رحمہ اللہ کے دشمن بن گئے۔ ان لوگوں نے بعض دین فروش ملاؤں کو ساتھ ملایا، جاہل صوفیا کی خدمات حاصل کیں ، اور ان تینوں گروہوں نے مل کر جہانگیر کو یہ تأثر دیا کہ شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ تبلیغ دین کے بہانے سے عوام الناس کو اپنا گرویدہ بنا رہے ہیں اور تخت شاہی پر متمکن ہونے کے خوا دیکھ رہے ہیں ۔ یہی وہ وقت جب ہندوستان کے بعض علما نے آپ کو واجب القتل قرار دیا۔ حضرت مجدد رحمہ اللہ کے ایک خط کے اقتباس سے فائدہ اُٹھا کر شاہ کو بھڑکایا، جو آپ رحمہ اللہ نے اپنے شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی رحمہ اللہ کو لکھا تھا۔ حاسدوں نے جہانگیر سے کہا کہ شیخ احمد سر ہندی رحمہ اللہ اپنے آپ کو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بھی افضل سمجھتا ہے۔ یہ خط ایک صاحب صوفی ولی اللہ کا تھا جس میں انہوں اپنے استاذ اور پیر و مرشد کو اپنے سلسلۂ تصوف
کے مقامات اور مشاہدات کے بارے میں لکھا تھا، بہرحال جہانگیر کو اس بات پر تشویش ہوئی، اِس نے حضرت مجد رحمہ اللہ کو طلب کیا۔ باز پرس ہوئی، آپ نے جواب میں فرمایا کہ میرے خلاف یہ الزام کہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہوں یکسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جس طرح میں اب آپ کے دربار میں آپ کے تمام مقربین بارگاہ کی موجودگی میں بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور شرفِ گفتگو بھی مجھے حاصل ہے مگر کیا یہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں میرا مرتبہ آپ کے تمام وزرا اور مقربین سے افضل ہے؟ یا یہ میرے لئے کس طرح لائق ہے کہ میں یہ دعویٰ کروں کہ میں تمام مقربینِ بارگاہ سے افضل ہوں ۔ جہانگیر اس مدلل جواب سے مطمئن ہو گیا اور حضرت مجدد رحمہ اللہ کو اعزاز و اکرام سے رخصت کیا۔
اس اعزاز و اکرام سے دشمنوں کے دِل و دماغ حسد کی آگ سے جل اُٹھے، ان کی چال ناکام ہو چکی تھی، مگر یہ لوگ بھی چپ رہنے والے نہیں تھے، انہوں نے کچھ دِن بعد کان بھرے کہ حضرت مجدد رحمہ اللہ کا زور روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، حکومت کے سربرآوردہ اشخاص ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو کر حضرت مجدد رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کر رہےہیں اور یہ حلف اُٹھا رہے ہیں کہ بادشاہ کے ان احکام کی اطاعت نہ کریں گے جو اسلام کے خلاف ہوں گے، سجدۂ تعظیمی جو کہ اکبر کے وقت شروع ہوا تھا، جہانگیر کے زمانے میں بھی رائج تھا۔ اور لوگ ؎
وہ سجدہ جو ماوراے حرم ہو
ادا تیرے در پر کیا چاہتا ہوں
کی صدائیں لگا رہے تھے۔ آصف جاہ جو ضرت مجدد رحمہ اللہ کا سخت ترین دشمن تھا۔ اس نے جہانگیر کو یہ یقین دلایا کہ ’’حضرت مجدد رحمہ اللہ آپ کی حکومت کے باغی ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ آپ کے لئے تعظیمی سجدہ بھی روا نہیں رکھتا حالانکہ سلطنت دہلیہ کے بہت سے علما اس کے حق میں فتویٰ دے چکے ہیں بلکہ شیخ احمد سر ہندی رحمہ اللہ تو سجدۂ تعظیمی کو حرام قرار دیتا ہے۔ اگر اس بات کا یقین نہ ہو تو جہاں پناہ دربار میں بلا کر اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں ۔‘‘ جہانگیر نے آخر کار اس تصدیق کی خاطر حضرت مجدد رحمہ اللہ کو شاہی فرمان کے ذریعے بلا بھیجا اور آپ کی زیارت کا اشتیاق ظاہر کیا۔ حضرت مجدد رحمہ اللہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دربار شاہی میں داخل ہوئے اور سجدۂ تعظیمی ادا نہ کیا جس کی جہانگیر آس لگائے بیٹھا تھا۔ بلکہ آپ نے سلام تک نہ کیا۔
جہانگیر غصہ سے تلملا اُٹھا اور کہا:
’’تم درباری آداب کیوں بجا نہیں لائے؟‘‘
آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’اسلام کا یہ حکم ہے کہ ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو السلام علیکم کہا جائے۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ میر سلام کا جواب نہیں دیں گے۔ لہٰذا میں نے السلام علیکم کہنا بھی گوارا نہ کیا۔‘‘
جہانگیر نے مطالبہ کیا کہ آپ درباری آداب کو ملحوظ رکھیں اور مجھے سجدہ کریں ،
حضرت مجدد رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’خدا کا بندہ خدا کے علاوہ کسی کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتا جو احکم الحاکمین کی بارگاہ میں جھکنا جانتا ہو وہ کسی فانی حاکم کے جاہ و حشمت کے سامنے اپنا سر نہیں جھکا سکتا۔ اپنے ہی جیسے ایک مجبور انسان کو سجدہ ہرگز روا نہیں ۔ شریعتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ والتحیہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں ۔ ؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
مفتی عبد الرحمن نے جو اس وقت شیخ الاسلام کا درہ رکھتا تھا کتب فقہ سے سلاطین کے لئے تعظیمی سجدہ کا جواز پیش کیا اور کہا کہ میں فتویٰ دیتا ہں کہ اس وقت شہنشاہ کو تعظیمی سجدہ جائز ہے، مگر حضرت مجدد رحمہ اللہ
اَفْضَلُ الْجِھَادِ مَنْ قَالَ کَلِمَۃَ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ
(سب سے افضل جہاد اس شخص کا ہے جو ظالم بادشاہ کو سچی بات کہہ دے) کی عملی تفسیر بن گئے۔ آپ کی گردن شہنشاہ ہندوستان نور الدین جہانگیر کی سطوت و جبروت کے سامنے خم نہ ہوئی۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ؎
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
جہانگیر کو گمان بھی نہ تھا کہ حضرت مجدد رحمہ اللہ حکم عدولی کریں گے۔ بادشاہت کا یہ دستور ہے کہ جو سر شہنشاہ کے سامنے جھکنا نہ جانے اسے قلم کر دیا جائے۔ جہانگیر کے غیظ و غضب کی آگ بھڑک اُٹھی، اس نے فی الفور حضرت مجدد رحمہ اللہ کے قتل کا حکم دے دیا، مگر حق گوئی و بے باکی کے اس عظیم پیکر اور عزم و ثبات کے اس ہمالے کی پیشانی پر خوف و ہراس کے کوئی آثار نظر نہ آئے، جہانگیر کا خیال تھا کہ اس انتہائی سزا کے خوف سے حضرت مجدد رحمہ اللہ فوراً گھٹنے ٹیک کر فوراً تعظیمی سجدہ بجا لائیں گے، مگر جب اس نے دیکھا کہ حضرت مجدد صاحب اس مرحلۂ عشق میں سولی پر لٹک جانے کے لئے بھی تیار ہیں تو اس نے کچھ سوچ کر فیصلہ بدل دیا اور حضرت امام کو گوالیار کے قید خانے میں بند کر دیا۔۔۔ حضرت مجدد رحمہ اللہ نے فرمایا:
ھَنِیْئاً لِّاَرْبَابِ النَّعِیْمِ نَعِیْمُھَا
وَ لِلْعَاشِقِ الْمِسْکِیْنِ مَا یَتَجرَّع
دولت مندوں کو ان کی دولت مبارک، لیکن مسکین عاجز کے لئے درد و الم کے گھونٹ مبارک ہوتے ہیں ۔
قارئین کرام! تاریخ شاہد ہے کہ آخر دو سال بعد جہانگیر نے حضرت مجدد رحمہ اللہ کو قید خانے سے نکال کر اُن کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کا اتنا گروید ہوا کہ آپ کو شاہی مہمان کی حیثیت سے اپنے پاس رکھا، تین، چار سال تک اسلامی احکام نافذ ہوتے رہے۔ آخر شہزادہ خرم (شاہجہاں ) کو بھی آپ کی بیعت کا حکم دیا۔
جہانگیر اپنے گناہوں پر بہت نادم تھا۔ حضرت مجدد رحمہ اللہ سے اپنی مغفرت کے لئے دُعا کی اور سفارش کی درخواست کی، حضرت مجدد رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’جب احمد سرہندی کو خدا جنت میں لے جائے گا تو وہ جہانگیر کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار (علامہ اقبال)
[1] آج پھر بھی مادہ پرست اور لادین ترقی پسند اسی کج روز ذہنیت کے باعث اسلامی نظام حکومت کو رجعت پسندی سے تعبیر کرتے ہیں ۔