اسلام سرمایہ داریت ہے نہ اشتراکیت

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ''سرمایہ داری'' اور ''اشتراکیت'' زندگی کے صرف معاشی پہلو سے تعلق رکھتے ہیں اور انسان کی سماجی، سیاسی اور دینی زندگی سے ان کا کوئی واسطہ نہیں، وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور ان دونوں نظاموں سے واقف نہیں، کیوں کہ سرمایہ داروں اور اشتراکیوں نے اپنی اپنی کتابوں اور اعلانات کے ابتدائی صفحات میں ہی ان تمام باریک نکات کو واضح کر دیا ہے جن کے اتباع کی وہ دعوت دیتے ہیں، ''سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی'' اور ''اشتراکیت'' پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں اور جو بیانات شائع ہو چکے ہیں وہ ان دونوں مذاہب کی تعلیم سے متعلق ہمارے لئے حجت قاطعہ ہیں اور کسی انسان کو خواہ وہ عالمِ دین ہو یا فلسفی، یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ''سرمایہ داری'' یا ''اشتراکیت'' کا اطلاق کسی ایسی چیز پر کرے جو ان کتابوں اور بیانات کی مذکورہ اصطلاح کے منافی ہو۔۔۔۔ اور جس شخص نے بھی ''سرمایہ داری'' اور اشتراکیت کی مذکورہ تصریحات کے خلاف ان کا استعمال کیا ہے وہ یا تو جھوٹا ہے یا ان میں تحریف اور تغیر و تبدل کا مجرم ہے یا پھر وہ علم سے کلیۃً بے بہرہ ہے کہ بغیر کسی تحقیق اور بغیر کسی علم کے ان اصطلاحوں کو استعمال کرتا ہے، یہ دونوں باتیں غلط اور شر انگیز ہیں۔

جو صاحبِ نظر ان کتابوں اور ان بیانات پر غور کرتا ہے جو اشتراکیوں اور سرمایہ داروں نے اپنے اپنے مذاہب کے بارے میں تالیف کی ہیں وہ اس بات کو واضح طور پر جان لیتا ہے کہ یہ دونوں مذہب انسان کی صرف اقتصادی زندگی سے ہی بحث نہیں کرتے بلکہ اس کی سماجی، دینی اور سیاسی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہیں اور ان مذاہب کا جس طرح معاشیات کے بارے میں خاص نقطہ نگاہ ہے اسی طرح زندگی کے تمام پہلوؤں پر حلت و حرمت کے احکامات موجود ہیں (اس ثبوت کے لئے) ہر صاحبِ نظر کمیونزم کے بانی مسٹر کارل مارکس کے چارٹر میں، جو کہ اشتراکی نقطۂ نظر کی بنیاد ہے، دیکھ سکتا ہے کہ اس میں اقتصادیات کے ساتھ ساتھ عائلی زندگی، شادی سے متعلق نظریات اور جنسی اختلاط سے متعلق ہر قسم کا مواد موجود ہے۔ بعینہٖ یہی حال دوسرے کمیونسٹوں اور ''انقلابی اشتراکیت'' کے دعویداروں کی کتابوں اور بیانات کا ہے۔

اشتراکیوں کی طرح ''سرمایہ داری'' کی کتابوں کی ورق گردانی اور ان کے بیانات کا جائزہ لینے سے بھی میاں بیوی کے تعلقات اور سماجی اور معاشرتی احکامات کی تفصیلات مل جاتی ہیں، سرمایہ داری میں بھی روحانی فکر، سیاست سے متعلق احکامات اور نظامِ ریاست کے ساتھ ساتھ اقتصادی ڈھانچے کی بھی ساری جزئیات شامل ہوتی ہیں۔ قارئین کرام کے استفادے کی خاطر ہم دونوں مذاہب کے اہم بنیادی اصولوں کو مختصراً بیان کرنے میں کوئی عیب نہیں سمجھتے۔

(اول) سرمایہ داری:

اسے سرمایہ داروں نے ''مذہبِ آزادی'' کا نام بھی دیا ہے۔ یہ مذہب ہر حال میں فرد کی آزادی کی ضمانت کا دعویدار ہے۔''

(1) اقتصادی نظریہ:

نظامِ معیشت کے متعلق سرمایہ داری کا اصول یہ ہے کہ انسان کو ہر طریقہ سے دولت جمع کرنے کی آزادی ہے حتیٰ کہ سود، ذخیرہ اندوزی، قحبہ گری اور شراب و شاہد کے ذریعے سے حاصل کردہ دولت بھی جائز ہے جس طرح فرد کو ہر طریق سے دولت سمیٹنے کا اختیار ہے اِسی طرح اسے اپنی دولت کے خرچ کرنے میں بھی پوری آزادی ہے کہ وہ اپنی دولت شراب و کباب، لہو و لعب، جوا بازی، رنڈی بازی حتیٰ کہ رقص و سہرود کی محفلوں پر بھی خرچ کر سکتا ہے۔ کسی انسان بلکہ حکومت کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرتے ہوئے اسے بعض اخراجات سے روک دے۔ اگر کوئی ریاست یا حکومت فرد کی پرائیویٹ زندگی میں مداخلت کرتی ہے تو یہ زیادتی اس کی زندگی کے ارتقاء میں رکاوٹ متصور ہو گی اور مذہب سرمایہ داری کے اصولِ آزادی تصرف کے یکسر منافی ہو گی۔

(2) سماجی نقطۂ نگاہ:

کے لحاظ سے سرمایہ داری میں عائلی زندگی اور زدواج کو تو تسلیم کیا گیا ہے مگر ساتھ ہی سرمایہ داری میں مرد اور عورت کا بغیر نکاح کے اتصال بھی جائز ہے اور اگر طرفین (مرد اور عورت) اِس اتصال (بدکاری) کے لئے باہم رضا مند ہوں تو یہ کوئی عیب نہیں اور نہ وہ کسی سزا کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

(3) سرمایہ داری میں دینی زندگی:

میں بھی فرد کو ہر قسم کی آزادی ہے، وہ اچھے یا برے جس قسم کے عقائد و اعمال اپنانا چاہے اپنا سکتا ہے اور معاشرے میں ایک فرد کو دوسرے فرد کے دینی خیالات یا عقائد میں دخل اندازی اور دینی نظریات کی تحقیر کی اجازت نہیں ہوتی، ان کے ہاں دین صرف قدیم اور محدود پیرائے میں انسان اور اس کے معبود میں عبادت کے اظہار کا ایک وسیلہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں دین رہبانیت کا دوسرا نام ہے، جس کا زندگی کے ہنگاموں سے کوئی سروکار نہیں اور حلت و حرمت کے پیمانوں کا دین سے کوئی واسطہ نہیں۔ پس سرمایہ دار، مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ تسلیم کرتے ہیں۔

(4) جہاں تک سرمایہ داری میں طرزِ حکومت:

کا تعلق ہے یہ جمہوریت کے طریق کو تسلیم کرتے ہیں اور جمہوریت کی تعریف، جیسا کہ جمہوریت کے کار پروازوں نے اسے بیان کیا ہے۔ یہ ہے ''عوام کی حکومت'' عوام کے ذریعے سے اور عوام کی خاطر۔'' اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو جمہوریت کی حکومت بنانے کا کلی اختیار ہے۔ وہ اپنے اوپر حکومت کے لئے جس کو چاہیں منتخب کر سکتے ہیں اور ان عوامی نمائندوں کو ہی ریاست اور افراد سے متعلق قوانین بنانے اور نظم و نسق کے قواعد و ضوابط تیار کرتے پڑتے ہیں۔

دوم: مار کسی اشتراکیت یا کمیونزم:

عرف عام میں ایک خاص جماعت کے فکر و نظر کو اس مذہب کی اساس مانا گیا ہے اور اس مذہب میں فرد کو کسی بھی چیز میں جو وہ چاہتا ہو آزادی اختیار حاصل نہیں بلکہ وہ تو فرد کو (مشین کے پہیے میں فٹ) ایک پرزے سے تشبیہ دیتے ہیں جو جماعت کے گرد اس طرح گردش کرتا ہے، جس طرح مشین کے ایک جزو کی حیثیت سے پہیہ حرکت کرتا ہے اور اس لحاظ سے فرد کو (جماعتی نظام پر) کسی قسم کے اعتراض یا نکتہ چینی کا حق حاصل نہیں ہے۔

(1) اقتصادی نظریے:

کے مطابق یہ مذہب انسان کو ذاتی ملکیت کے حق سے محروم گردانتا ہے۔ اس کا اعلان یہی ہے کہ فرد کو زمین ہو، کارخانہ ہو، یا ضروریاتِ زندگی ہی کیوں نہ ہوں، ان میں ذاتی ملکیت کا حق حاصل نہیں ہے، ملکیت کا حق اگر کسی کو حاصل ہے تو ان کے نزدیک صرف وہ جماعت ہے جو حکومت کرتی ہے، اور رعایا حکومت کی غلام متصور ہوتی ہے، جس پر ریاست کے تمام احکام کو بجا لانا فرض ہوتا ہے۔ فرد کو خوا کسی جگہ پر بھی متعین کر دیا جائے، اس کو حکومت کے اس فیصلے پر کسی اعتراض کا حق نہیں ہوتا، اس خدمت کے معاوضے کے طور پر حکومت ان کے طعام، قیام اور لباس مہیا کرنے پر اکتفاء کرتی ہے، اور قیام و طعام کا معیار ریاست کی اپنی منشاء کے مطابق ہوتا ہے۔

(2) سماجی حالت:

کمیونزم میں خاندانی زندگی اور شادی کو فرد کی ترقی اور مساوات میں ایک رکاوٹ تصور کیا گیا ہے۔ پس اس لحاظ سے یہ مذہب عائلی زندگی اور نکاح جیسی پابندیوں کی یکسر نفی کرتا ہے اور اس بات کو باعثِ فضیلت تسلیم کرتا ہے کہ جو مرد جس عورت سے چاہے میل ملاپ رکھ سکتا ہے۔ میل ملاپ کے بعد اولاد کی پرورش کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے۔ یہ نظریہ لینن کے زمانہ ۱۷۱۷؁ میں کمیونزم کی پہلی انقلابی تحریک میں ہی نافذ العمل ہو گیا تھا، لیکن جس طرح اقتصادی نظام میں قلت پیداوار کی بدولت اپنے ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی پسماندگی کو دیکھ کر اشتراکیوں نے اب زرعی زمین کی ملکیت کو ''اگرچہ محدود پیمانے پر ہی'' جائز تسلیم کر لیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے حسب و نسب اور نسل کے خاتمہ کے خوف سے مرد اور عورت کے عام میل ملاپ کے خود ساختہ اصولوں سے بھی اب تھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ہے۔

(3) دینی حالت:

دین سے متعلق کمیونزم کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود، رسولوں کا آنا اور یومِ آخرت کا تسلیم کرنا محض خرافات اور گمراہی کی باتیں ہیں، جنہیں قرونِ وسطیٰ میں دین کے نام نہاد پیشواؤں نے اپنے ذہنوں سے گھڑ لیا تھا تاکہ وہ لوگوں کو غلام بنائے رکھیں اور عوام ان سے اس قدر خوف کھائیں کہ زندگی کی دوسری ضروریات کا مطالبہ نہ کریں۔ پس اس خاص مقصد کی خاطر انہوں نے عوام کے لئے خدا، یومِ آخرت، جنت، دوزخ اور اس قسم کے تصورات کو گھڑ لیا ہے۔ اسی خاص نقطہ نظر کے پیش نظر وہ دین و امان کی ہر قسم کے خلاف نبرد آزما رہتے ہیں۔۔۔۔۔ اگرچہ اپنے سیاسی اجتماعات میں وہ اس دین دشمنی کو چھپاتے اور منافقت کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا یہ قول زبانِ زد خاص و عام ہے۔'' مذہب عوام کے لئے افیم ہے'' الدین افیون الشعوب

(4) سیاسی حالت یا طرزِ حکومت:

کمیونزم کی بنیاد پرولتاری ڈکٹیٹر شپ پر قائم ہے۔ مراد یہ ہے کہ کسان اور مزدور زندگی کے تمام شعبوں پر حکومت کرتے ہیں اور کمیونسٹوں کے علاوہ کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے، گورنمنٹ کے فیصلوں پر تنقید کرے یا یہ امید رکھے کہ حکومت میں کوئی شخص اس کی رائے کو بھی پیش کرے۔ یہ ایسا جرم ہے جس کی سزا موت ہے اور جس کو اس تیزی سے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔۔۔۔ مختصر مگر جامع نکات سے ان دونوں مذہبوں کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ ان کا دائرہ اختیار صرف معاشی نظام اور اس کے احکام تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے متعلق بھی بحث کرتے اور ان کے لئے ضروری احکامات جاری کرتے ہیں۔

''سرمایہ داری'' اور ''اشتراکیت'' کو صرف اقتصادی نظامِ تسلیم کرنے کی غلطی، گمان باطل کا نتیجہ ہے اور بہت سے لوگ حتیٰ کہ علماء حضرات اور مسلم مصنفین کی ایک جماعت بھی اسی رو میں بہہ گئی ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اسلام کو ''سرمایہ داری'' یا اشتراکیت کا نقیب کہنا یا اسے ''سرمایہ دارانہ اسلام'' یا ''اسلامی اشتراکیت'' کا نام دینا اسلام کی تحقیر اور تذلیل کے مترادف ہے۔ اور اسلام کے متعلق اس قسم کی حاشیۂ آرائی ان اسلامی حقائق پر عدم غور و فکر کا نتیجہ ہے۔جن کے بارے میں چاہئے یہ تھا کہ ان کی اچھی طرح تحقیق کی جاتی، پھر اس علمی تحقیق اور واضح دلائل و براھین کی روشنی میں اسلام کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر کیا جاتا۔

شاید کوئی یہ کہے:۔ کہ اسلام کے بارے میں یہ جلد باز جو کبھی ''اشتراکیت'' کے نام کے ساتھ اس کی تذلیل کرتے ہیں اور کبھی ''سرمایہ داری'' سے منسوب کر کے اس کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ شاید وہ حسنِ نیت کے مفروضے پر ہی اپنے خیالات کی بنیاد رکھتے ہیں تو نیتوں کو تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں لیکن اس قسم کی دیدہ لیری جس سے اسلام کی تذلیل ہو اور اس کو ایسے ناموں اور نظریات سے منسوب کیا جائے جو اسلامی احکام سے کلیۃً متعارض ہیں۔ بہت بڑی جسارت ہے جس کو حسنِ نیت کے نام نہاد دعوے کی بنا پر جائز تسلیم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ ایسے نظریات ہیں جن کو احمق کافروں کے ہاتھوں نے ترتیب دیاہے اور اپنے شیطانی دماغوں جھوٹی ملمع کاری کے ذریعے خود تسلیم کیاہے، کیونکہ اِس طرح اسلام کو مسخ کرنے اور اس کے اُن سچے اور سُچے احکام کا حلیہ بگاڑنے میں انہیں آسانی ہوتی ہے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان سے نازل فرمایا ہے۔ اس بدترین جرم کے مرتکب لوگوں کی حسنِ نیت (اگر اس کو حسنِ نیت ماننے کی کوئی گنجائش ہو) ان کا دفاع کبھی نہیں کر سکتی اور کر بھی کیونکر سکتی ہے؟ جو اسلام کو ہر وہ لباس پہنانے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے جوہر زمانے کے شیاطین کے ہاتھوں تیار ہوتا آیا ہے۔

یہ مسلمہ اصول ہے کہ جو جہالت کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں، ان کا دفاع کوئی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کو ٹامک ٹوئیاں مارنے سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے:۔

﴿وَلا تَقفُ ما لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ ۚ إِنَّ السَّمعَ وَالبَصَرَ‌ وَالفُؤادَ كُلُّ أُولـٰئِكَ كانَ عَنهُ مَسـٔولًا ٣٦﴾... سورة الاسراء

ترجمہ: جس چیز کا تجھے علم نہ ہو اس سے متعلق اٹکل پچو باتیں نہ کیا کرو، بے شک کان، آنکھیں اور دِل ان تمام چیزوں سے باز پرس ہو گی۔

ان احمقوں کو جو اسلام کو ہر جدید نام کا لباس پہنا کر خوشی محسوس کرتے ہیں یہ کس طرح لائق ہے کہ وہ اسلام پر لفظ اشتراکیت کا اطلاق کریں؟؟

کیا اسلام جائز طریق پر حاصل کردہ فرد کی ذاتی جائیداد سے بھی اسے محروم کرتا ہے؟

کیا اسلام پاکیزہ عائلی زندگی اور ازدواج کے مقدس نظام کو ٹھکرا کر اسے زنا اور بدکاری میں تبدیل کرنے کا حکم دیتا ہے؟؟

یا کیا اسلام وجود باری تعالیٰ، یومِ آخرت اور رسولوں کی رسالت کو انکار کرتا اور اسے خرافات قرار دیتا ہے؟؟

بلکہ کیا اسلام ڈکٹیٹر شپ اور رعایا کی گردن زدنی کو حکام کی اپنی منشا کے مطابق جائز اور صحیح گردانتا ہے؟؟

یہ ہیں انقلابی اشتراکیت کے اہم ترین بنیادی نکات، اگر اسلام ان نکات کو تسلیم کرتا ہے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام اور اشتراکیت میں باہم کوئی تضاد نہیں (جب دونوں ایک ہیں۔ تو) اس حال میں اشتراکیت کے لفظ کا اسلام پر اطلاق کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں، اور جب یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ اسلام اِن نظریات اور گمراہیوں کا مخالف ہے تو پھر اس کو یہ نام (اشتراکیت) دینا کیا معنی رکھتا ہے اور یہ کتنا گھناؤنا جرم ہے کہ ہم اسلام پر اشتراکیت کا نام چسپاں کریں؟ یا یہ۔۔۔۔۔

٭ کہ لوگوں کے لئے کس طرح جائز ہے کہ وہ اسلام پر سرمایہ داری کا لیبل لگائیں؟؟

٭ (یہ بتائیے کہ) کیا اسلام آج بھی ہر (جائز و ناجائز) طریقے سے مال جمع کرنے کی اجازت دیتا ہے خواہ وہ سود اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ سے ہی کیوں نہ ہو؟؟

٭ کیا اب بھی اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مال کو جس طریق پر انسان چاہے خرچ کرے حتیٰ کہ وہ اسے شراب و کباب، لہو و لعب اور اس بازار کی رقص کرتی ہوئی سرخ اور روشن راتوں کی نظر کر دے؟؟

٭ بلکہ ....کیا اسلام ایک مرد کو عورت سے باہمی رضا مندی کی بنا پر زنا کی اجازت دیتا ہے؟؟

٭ یا .....کیا اسلام اس بات پر اکتفا کرتا ہے کہ اسے اس قدر تنگ اور محدود مانا جائے کہ اسلام بندے اور اس کے معبود کے درمیان صرف عبادات کے محدود ترین مفہوم کے ساتھ ایک تعلق کا نام ہے اور اسلام کے احکام کو زندگی کی مشکلات کو حل کرنے، کسی چیز کو جائز قرار دینے، اسے ناجائز گرداننے اور انسانی زندگی کی حلت و حرمت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں؟؟

٭ کیا اسلام اس نظریے کی تائید کرتا ہے کہ دین الگ اور سیاست الگ ہے۔۔ اور۔۔۔ کیا اسلام میں زندگی کے مسائل اور حوادثات میں احکامِ خداوندی کو چھوڑ کر لوگوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ اپنی اصلاح و تعمیر سے متعلق جس طریق کو وہ مناسب سمجھیں اُسے اپنا لیں؟؟

٭ یہ ہیں سرمایہ داری (یعنی مذہب آزادی) کے اہم بنیادی نکات ۔۔۔ اگر اسلام ان نکات کو بھی تسلیم کرتا ہے تو پھر ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ۔۔۔ کہ اسلام کا سرمایہ داری سے بھی کوئی ٹکراؤ نہیں اور اگر اسلام ان نکات کو تسلیم نہیں کرتا تو پھر بہتان تراشی اور افترا پردازی کے ذریعے اسلام پر سرمایہ داری کا اطلاق کس طرح جائز ہے؟؟

٭ کیا ایمانداروں کے لئے یہ لائق اور مناسب نہیں ہے کہ وہ اولاً تو اسلام کو اچھی طرح ذہن نشین کریں اور ثانیاً نئے مذاہب کی جدت طرازیوں کی ان کے اصلی ماخذوں کی روشنی میں تحقیق کریں اور پھر ان نظریات کے بارے میں اسلام کی صحیح رائے پیش کریں، جہاں تک اسلام کو سرمایہ داری یا اشتراکیت سے متصف کرنے والوں کے بزعم خویش نیک اور عمدہ مقصد کا تعلق ہے (وہ مناسب نہیں) اور جس طرح بعض اسلامی ادیبوں میں سے ایک نے اپنی کتاب کے مقدمے میں اسلامی اشتراکیت کی صراحت کرتے ہوئے یوں لکھا ہے: یہ اصطلاح (اسلامی سوشلزم) عوام میں مقبول عام ہو گئی ہے، لہٰذا میری مراد اس سے عوام کو اپنی طرف مائل کرنا ہے۔ پس اسی لئے میں نے اس لفظ کو اسلام کے ساتھ نتھی کر دیا ہے۔۔۔ یہ تو ایک بڑی انوکھی بات ہے، صرف انوکھی ہی نہیں، بلکہ عجیب و غریب بھی ہے!!۔۔۔ (کیا میں پوچھ سکتا ہوں؟) اگر بالفرض لفظ نصرایت اور یہودیت بھی عوام میں محبوب ہو جائیں۔ تو کیا یہ جائز ہو گا کہ ہم اسلام کو ان الفاظ سے بھی پیوند کر دیں اور یوں کہیں ''اسلامی نصرانیت'' یا ''اسلامی یہودیت''۔۔۔ ﴿سُبحـٰنَكَ هـٰذا بُهتـٰنٌ عَظيمٌ﴾ (ترجمہ: ''یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ پروردگار! تیری ذات ہی پاک ہے۔'')

٭ اے مسلمانو! اے مومن نوجوانو! ان دسیسہ کاریوں اور ان ناموں (سوشلزم اور سرمایہ داری) کو مکمل طور پر ذہن نشین کر لو جن کے ذریعے وہ حقیقتِ اسلام سے نفرت دِلانے، اس کی حاکمیت کو مٹانے اور اسلام کو زندگی کی کشمکش سے الگ کرنے کی سازشیں کرتے ہیں۔۔۔ اور تم اچھی طرح جان لو کہ اسلام، وہی اسلام ہو، جس کی قرآن مجید اور سنت صحیحہ میں وضاحت موجود ہے۔ اور اس اسلام سے جو بھی رو گردانی کر یگا۔ وہ دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہو گا۔ وما توفیقی إلا باللہ العلی العظیم۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین