عورت، نکاح میں ولی کی محتاج کیوں ہے؟
قسط نمبر1
(اس قسط میں قرآنی آیات سے اس مسئلہ کو واضح کیا گیا ہے، آئندہ اشاعت میں احادث کی روشنی میں اس پر بحث کی جائے گی)
مسئلہ:
عورت نکاح کرنے میں ولی کی محتاج کیوں ہے اور مرد محتاج کیوں نہیں؟
جواب:
اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ عورت ناقص عقل، کمزور فطرت، کوتاہ بین، دھوکہ فریب کھانے والی ہے جیسا کہ قرآن و حدیث اور تاریخ سے ثابت ہے۔ اِس واسطے وہ مرد کی محتاج ہے تاکہ وہ اس کو نقصان اُٹھانے سے بچائے اور یہ عورت کی ہمدردی اور خیر خواہی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ برخلاف اس کے مرد کاملِ عقل، طاقت ور، دور اندیش، مجاہد، شجاع اور حکمران پیدا ہوا ہے۔ لہٰذا وہ ولی کا محتاج نہیں۔
آئندہ سطور میں اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں
مرد کا مقام اور عورت کی حیثیت
ذمہ داریوں کا بار تمام تر مرد پر ہے
اور وہی اس کا اہل ہے۔
زمین کی خلافت و حکومت کا بار اُٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے صرف مرد (آدمؑ) کو منتخب فرمایا ہے اور تعلیم بھی اسی کو دی ہے تاکہ اس میں خلافت کی اہلیت پیدا ہو جائے اور مسجودِ ملائکہ بھی اسی کو بنایا تاکہ اس کی خلافت سے کوئی انکار کی جرأت نہ کرے اور جس نے ا نکار کیا اس کو ملعونِ ابدی بنا دیا تاکہ اوروں کو تنبیہ ہو۔ حواؑ کو نہ تعلیم دی، نہ مسجودِ ملائکہ گردانا، نہ انتخابِ حکومت میں آئیں۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿إِنّى جاعِلٌ فِى الأَرضِ خَليفَةً...٣٠﴾... سورة البقرة1
یعنی میں زمین میں (آدمؑ) کو اپنا خلیفہ (نائب) بنانا چاہتا ہوں۔
جامع البیان میں ہے:
یعنی «اٰدم فھو خلیفة اللہ في أرضه ینفّذ قضاء اللہ وأحکامه»
جلالین میں ہے:
«یخلفني في تنفیذ أحکامي فیها وھو اٰدم»
یعنی آدمؑ زمین میں اللہ تعالیٰ کے نائب اور کائنات پر حاکم ہیں۔ وہ اللہ عزوجل کے احکام اور فیصلہ جات دنیا میں جاری فرمائیں گے۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے داؤد سے فرمایا:
﴿يـٰداوۥدُ إِنّا جَعَلنـٰكَ خَليفَةً فِى الأَرضِ...٢٦﴾... سورة ص
یعنی اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ (نائب) کیا۔
یہ خلافت و حکومت بہت بڑی خدمت و ذمہ داری ہے جس کی برداشت صرف مرد ہی کر سکتا ہے۔ عورت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے نبوت اور حکومت مردوں کے ساتھ خاص کر دی ہے۔ عورت نبی ہو سکتی ہے نہ حاکم۔ چنانچہ ارشاد ہے:
﴿وَما أَرسَلنا مِن قَبلِكَ إِلّا رِجالًا نوحى إِلَيهِم...١٠٩﴾... سورة يوسف
یعنی اے نبی ﷺ ہم نے آپ سے پہلے جتنے انبیاؑ بھیجے ہیں، سب مرد ہی تھے۔ اور حدیث میں ہے:۔
«لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أمْرَھُمْ امْرَأَة»4
یعنی وہ قوم ہرگز کامیاب نہ ہو گی جس نے عورت کو اپنا حاکم بنایا۔
جب نائبِ خدا اور شاہِ ارض مرد ہے اور کل کائنات پر احکام جاری کرنے کا وہی حقدار ہے تو عورت پر بھی احکامِ نکاح طلاق وغیرہ جاری کرنے کا وہی حقدار ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کی امانت (احکامِ شریعت) کا بار بھی مرد (آدمؑ) نے ہی اُٹھایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
﴿إِنّا عَرَضنَا الأَمانَةَ عَلَى السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ وَالجِبالِ فَأَبَينَ أَن يَحمِلنَها وَأَشفَقنَ مِنها وَحَمَلَهَا الإِنسـٰنُ...٧٢﴾... سورة الاحزاب
یعنی ہم نے اپنی امانت آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کی انہوں نے اُٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمؑ نے اس کو اُٹھا لیا۔
ابن جریر میں ہے:
«عن ابن عباس قوله إنا عرضنا الأمانة الطاعة عرضنا علیها قبل أن یعرضها علی اٰدم فلم تطقها فقال لاٰدم إني قد عرضت الأمانة علٰی السمٰوٰت والأرض والجبال فلم تطقها فھل أنت آخذھا فقال یارب وما فیھا قال إن أحسنت جزیت وإن أسأت عوقبت فأخذھا اٰدم فتحملھا فذلك قوله ﴿وَحَمَلَها الْاِنْسَانُ اِنَّه كَانَ ظَلُوْماً جَهوْلاً﴾
یعنی ابن عباس سے مروی ہے کہ امانت سے مراد طاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا۔ وہ اُٹھا نہ سکے پھر آدمؑ سے فرمایا اے آدمؑ میں نے امانت آسمان زمین پہاڑوں پر پیش کی۔ وہ اُٹھا نہیں سکے کیا تو اس کو اٹھائے گا۔ آدمؑ نے عرض کیا اس میں کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تو نیکی کرے گا جزا دیا جائے گا اور برائی کرے گا تو سزا پائے گا۔
آدمؑ نے اس کو اُٹھا لیا۔ پس اللہ تعالیٰ کے قول و حملھا الإنسان سے بھی یہی مراد ہے۔
اور ابن زید کے قول میں ہے:۔
«قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وعرضها اللہ علی اٰدم فقال بین أذني وعاتقي»
یعی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے امانت آدمؑ پر پیش کی تو اس نے کہا میں نے یہ امانت اپنے کندھے پر اُٹھالی۔
نیز ابن عباسؓ سے ہے:
«الأمانة الفرائض التي افترضها اللہ علی العباد»
یعنی امانت سے مراد فرائض ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کئے ہیں۔
قتاوہؒ نے کہا:۔
یعني به الدین والفرائض والحدود
یعنی امانت سے مراد دین کے فرائض اور حدود ہیں۔ ان اقوام اور ان جیسے دیگر اقوال سے جو ابن جریر نے باسند روایت کیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ امانت اللہ تعالیٰ نے آدمؑ پر پیش کی تھی جو اس کی اہلیت اور استطاعت رکھتے تھے۔ حوا پر پیش نہیں کی کیونکہ وہ اس کی متحمل نہیں ہو سکتی تھیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسی کٹھن ذمہ داری جس کو سخت سے سخت تر مخلوق آسمان زمین پہاڑ نہ اُٹھا سکے آدمؑ نے اُٹھا لی تو اصل حامل شریعت مرد ہی ہوا، بالتبع عورت بھی ہوئی مگر تعبدی احکام نماز، وغیرہ میں، سیاسی امور جنگ جہاد اور حکومت وغیرہ مرد کا ہی حصہ رہا۔ لہٰذا نکاح طلاق وغیرہ جو سیاست (انتظام) سے تعلق رکھتے ہیں مرد کے اختیار میں رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے جس طرح مرد کو تمام کائنات پر حکومت بخشی ہے اسی طرح اپنی ہم جنس عورت پر بھی حاکم بنایا ہے۔ ارشاد ہے:۔
﴿الرِّجالُ قَوّٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ وَبِما أَنفَقوا مِن أَموٰلِهِم...٣٤﴾... سورة النساء
یعنی مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔
تفسیر جمل میں ہے:
یعنی«إن اللہ تعالیٰ فضل الرجال علی النساء بأمور منها زیادة العقل والدین والولایة والشهادة والجهاد والجمعة والجماعات وبالإمامة لان منھم أنبیاء والخلفا ءوالأئمة ومنها إن الرجل یتزوج بأربع نسوة ولا یجوز للمرأة غیر زوج واحد و منها زیادة النصیب في المیراث وبیدہ الطلاق والنکاح والرجعة وإلیه الانتساب فکل ھذا یدل علی فضل الرجال علی النساء»1
''یعنی اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر بہت سے امور میں فضیلت دی ہے منجملہ ان کے عقل، دین، ولایت اور شہادت مردوں میں زیادہ ہے۔ اور جہاد، جمعہ اور جماعت مردوں پر فرض ہے اور انبیا، خلفا (بادشاہ) اور ائمہ بھی مرد ہی ہوتے ہیں اور مرد چار عورتیں کر سکتا ہے عورت کے لئے بیک وقت ایک خاوند سے زیادہ جائز نہیں۔ اور مرد کو میراث سے زیادہ حصہ ملتا ہے اور طلاق، نکاح اور عورتِ مطلقہ سے رجوع کرنا بھی مرد کے اختیار میں ہے اور سلسلۂ نسب بھی مرد سے چلتا ہے۔''
پس یہ تمام چیزیں دلیل ہیں کہ مرد عورتوں سے افضل ہیں۔ صاحبِ جمل نے اس آیت سے عورت پر مرد کی فضیلت کا استدلال کرتے ہوئے تصریح کی ہے کہ:۔
بیدہ الطلاق والنکاح والرجعة یعنی طلاق، نکاح اور رجعت مرد کے اختیار میں ہے۔ یعنی عورت خود مختار نہیں۔ پس عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی۔
جس طرح دنیا کے کل امور کی حفاظت اور اصلاح نیز مرد وزن کے کل مسائل کی ذمہ داری مردوں پر ہے اسی طرح آخرت کی اصلاح و فلاح کی ذمہ داری بھی مردوں پر عائد کی گئی ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارًا...٦﴾... سورة التحريم
یعنی مومن مردو! تم اپنے نفسوں اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔
حاصل یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کے کل امور میں سردار، مختار، ذمہ دار اور جواب دہ مرد ہی ہے اور طلاق و نکاح کرنے کرانے کا اختیار بھی مرد کو ہی ہے۔ عورت نکا ح میں ولی نہیں ہو سکتی اور نہ اپنا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کرا سکتی ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ یہاں تک مختصر طور پر مرد کی غرضِ پیدائش اور اس کا مقام بیان کیا گیا۔ آگے عورت کی حیثیت ملاحظہ فرمائیے۔
حضرت حواؑ کی غرضِ پیدائش کے متعلق ارشاد ہے:
﴿هُوَ الَّذى خَلَقَكُم مِن نَفسٍ وٰحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنها زَوجَها لِيَسكُنَ إِلَيها...١٨٩﴾... سورة الاعراف
یعنی اللہ ایسا قادر و منعم ہے جس نے تم کو ایک تن واحد (آدمؑ) سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا (حواؑ) بنایا تاکہ وہ اس جوڑے سے انس حاصل کرے۔
دیگر عورتوں کی غرضِ پیدائش کے متعلق یوں ارشاد ہے:
﴿وَمِن ءايـٰتِهِ أَن خَلَقَ لَكُم مِن أَنفُسِكُم أَزوٰجًا لِتَسكُنوا إِلَيها وَجَعَلَ بَينَكُم مَوَدَّةً وَرَحمَةً...٢١﴾... سورة الروم
یعنی اللہ کی قدرت کی نشانیوں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ ان سے اُنس و آرام حاصل کرو اور تمہارے اور تمہاری بیویوں کے درمیان محبت اور رحمدلی پیدا کی۔
دوسری غرض عورت کی پیدائش سے اولاد ہے۔ ارشاد ہے۔
نسائکم حرث لکم3 تمہاری بیویاں تمہارے لئے بمنزلہ کھیت کے ہیں کہ ان سے اولاد پیدا ہوتی ہے۔
تیسری غرض عورت سے اولاد کی تربیت اور گھر بار کی حفاظت و نگرانی ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿وَالوٰلِدٰتُ يُرضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ...٢٣٣﴾... سورة البقرة
یعنی مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔
نیز فرمایا:
﴿فَالصّـٰلِحـٰتُ قـٰنِتـٰتٌ حـٰفِظـٰتٌ لِلغَيبِ﴾1
جامع البیان میں ہے:
«مطیعات لأزواجهن تَحْفَظُ في غیبته نفسَها ومالَه»
یعنی نیک عورتیں وہ ہیں جو خاوندوں کی تابعدار اور ان کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور ان کے مال کی حفاظت کرتی ہیں۔
حدیث میں ہے:
«والمرأة راعیة علی بیت زوجها وولده وھي مسئولة عنھم»2
یعنی عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد پر نگران ہے اور وہ ان سے پوچھی جائے گی۔
اس آیت و حدیث اور دیگر آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ عورت اپنے نفس اور خاوند کے گھر بار، مال و اولاد کی مالک نہیں صرف نگران ہے۔ اسی واسطے وہ اپنے اور اپنی اولاد کے نان و نفقہ وغیرہ کی ذمہ دار نہیں بلکہ اس کا ذمہ دار مرد ہے جیسا کہ ارشاد ہے:۔
﴿وَعَلَى المَولودِ لَهُ رِزقُهُنَّ وَكِسوَتُهُنَّ بِالمَعروفِ﴾3
یعنی ان کا رزق اور لباس دستور کے مطابق باپ پر ہے۔
پس مذکورہ بالا سطور سے واضح ہو گیا کہ عورت کی غرضِ پیدائش گھر کی نگرانی، بچوں کی تربیت، خاوند کا آرام و راحت اور خدمت ہے۔ فقط اس سے زیادہ اس کو اختیار دینا خلاف منشا الٰہی ہے لہٰذا وہ ولی نکاح میں نہیں ہو سکتی نہ اپنا نکا ح خود کرا سکتی ہے۔
بایں ہمہ عورت عقل و دین میں ناقص بھی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿أَوَمَن يُنَشَّؤُا فِى الحِليَةِ وَهُوَ فِى الخِصامِ غَيرُ مُبينٍ ١٨﴾... سورة الزخرف
حاصل معنی یہ ہے کہ عورت ناقص عقل ہے۔ اسی واسطے وہ ادنیٰ چیزوں زیور وغیرہ کی دلدادہ ہے اور مراتبِ آخرت حاصل کرنے سے غافل ہے۔ نیز ہات کرنے میں کمزور ہے۔
حدیث میں ہے:
«ما رأیت من ناقصات عقل و دین أذھب للب الرجل الحازم من أحدٰکن قلن وما نقصان دیننا وعقلنا یا رسول اللہ، قال: ألیس شهادة المرأة نصف شهادة الرجل، قلن: بلی، قال: فذٰلك من نقصان عقلها، قال: ألیس إذا حاضت لم تُصَلِّ ولم تَصُمْ، قلن: بلٰی، قال: فذلك من نقصان دینها» متفق علیه
ترجمہ: رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ میں نے عورتوں سے زیادہ ناقص عقل و دین کسی کو نہیں دیکھا۔ یہ عقل مند کی عقل بھی کھو دیتی ہے۔ عورتوں نے عرض کیا کہ یا حضرت ؐ! ہمارے دین و عقل کا نقصان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا عورت کی گواہی مرد کی نصف گواہی کے برابر ہوتی ہے۔ یہ ان کے عقل کا نقصان ہے اور جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نماز روزہ نہیں کرتی یہ ان کے دین کا نقصان ہے۔
اس حدیث میں آپ نے اس آیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
﴿فَإِن لَم يَكونا رَجُلَينِ فَرَجُلٌ وَامرَأَتانِ مِمَّن تَرضَونَ مِنَ الشُّهَداءِ أَن تَضِلَّ إِحدىٰهُما فَتُذَكِّرَ إِحدىٰهُمَا الأُخرىٰ...٢٨٢﴾... سورة البقرة
یعنی اگر دو مرد گواہ نہ ملیں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنا لو۔ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے گی۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ عورت ناقص عقل اور کمزور فطرت ہے اور اس کی غرضِ پیدائش صرف مرد کا آرام و راحت و خدمت اور گھر کی نگرانی اور بچے جننا ہے تو اہم امور خلافت، نبوت، امامت، حکومت، جہاد، نکاح کرنا کرانا اور طلاق اس کے اختیار میں دنیا عقلمندی نہیں۔ اس واسطے اللہ تعالیٰ عالم الغیب نے یہ تمام کام اس کے اختیار میں نہیں دیئے بلکہ ان سب کا مالک و مختار مرد کو بنایا ہے۔
اگر طلاق عورت کے ہاتھ میں ہوتی تو کوئی خانہ آباد اور کوئی مرد سکھی نہ ہوتا اور کسی آدمی کو چین اور سکون کی زندگی میسر نہ ہوتی۔ بات بات پر ناراض ہو کر طلاق دے کر رخصت ہو جاتی۔
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں:۔ شبے ماند شبے دیگر نمے ماند
اسی طرح اگر نکاح کرنا کرانا اس کے اختیار میں ہوتا تو وہ اپنی کم عقلی، کوتاہ بینی، کم علمی اور کمزور فطرت کے باعث غیر مناسب اور غلط کار لوگوں کے دام فریب میں پھنس کر ان کی آرائش و زیبائش ظاہری سے دھوکہ کھا کر ان سے نکاح کر لیتی اور عمر بھر تلخیاں برداشت کرتی اور اپنے ورثاء اولیاء کو بھی مصائب میں مبتلا کر دیتی جیسا کہ حضرت حواؑ نے آدمؑ کو اور خود اپنی ذات کو مصائب میں ڈال دیا:
«لو لا حواء لم تخن أنثٰی زوجها الدهر» (بخاری و مسلم)
یعنی اگر حوا خیانت نہ کرتیں تو کوئی عورت اپنے خاوند کی کبھی خیانت نہ کرتی۔
اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے جو ارحم الراحمین ہے اور رسول اللہﷺ نے جو رحمۃ للعالمین ہیں، عورت پر شفقت کی کہ ولی کو اس کا شریکِ کار فرمایا اور بغیر اجازت ولی کے نکاح کی اجازت نہیں دی تاکہ وہ سوچ سمجھ کر اس کے لئے بہتر اور موزوں جگہ تجویز کرے اور تکلیف و نقصان سے بچائے۔ (باقی آئندہ)
طلبۂ دینی مدارس کے لئے خصوصی رعایت
’’محدث‘‘ شمارہ ۳،۲ اشاعت جنوری، فروری ۱۹۷۱ میں ماہنامہ ’’محدث‘‘ لاہور کے زر سالانہ کے سلسلہ میں ضروری وضاحت ہو چکی ہے کہ طلبہ کے لئے بھی زرِ سالانہ ۱۰ روپے ہی ہے۔ کیونکہ ہمارے قارئین کی اکثریت طالبانِ علم کی ہے۔ نیز طلبہ مدارس عربیہ کے لئے خصوصی طور پر ہم عربی مضمون شامل اشاعت کرتے ہیں۔ جس کا اردو ترجمہ اگلے شمارہ میں دیا جاتا ہے۔ اب دینی مدارس کے طلبہ کا شوق اور مالی حالت کے پیش نظر ادارۂ ’’محدث‘‘ نے صرف سالانہ خریداری پر ’’۲۵ فیصد رعایت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے طلبہ ۷/۵۰ روپے زر سالانہ ارسال کریں۔ زر ششماہی ۵ روپے ہی ہو گا۔ (ادارہ)
حوالہ جات
بخاری
کتب القتل والقتال علیناوعلی النساء جر الذیول ترجمہ: ہم پر نگ اور قتل و غارت فر کی گئی لیکن عورتوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دامن کھینچتی پھریں۔
تفسیر جمل جلد ۱: ۳۷۸
بخاری و مسلم
بخاری و مسلم