مفید الاحناف
قسط نمبر 1
ایک صورتِ ایتلاف!
اصل دین کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد سامنے آتا ہے تو مسلمان لومۃ لائم سے بے نیاز ہو کر اس کے سامنے جھک جائے، اسلاف اور بزرگوں کا یہی طریقہ تھا۔ مندرجہ بالا مضمون یعنی مفید الأحناف اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس میں مصنف نے ثابت کیا ہے کہ یہ سب حنفی بزرگ تھے لیکن جب ان کے سامنے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحیح حدیث آگئی، تو انہوں نے مسلکی تعصب کو جگہ نہیں دی۔ بلکہ ایک سچے مومن اور خدا سے رنے والے ایک بندۂ حنیف اور مخلص مسلم کی طرح قرآن و حدیث کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ اللہ تعالیٰ ان پاک باز بزرگوں اور اپنے نیک بندوں پر اپنی رحمت کی بارش کرے جنہوں نے یہ ''اُسوۂ حسنہ'' پیش کر کے مسلمانوں کو سیدھی راہ دِکھائی۔
بات مسئلے کی نہیں، فکر و نظر کی ہے، خدا کے سچے غلام مسئلے کو نہیں دیکھتے، خدا اور رسول ﷺ کو دیکھتے ہیں، حضرت ابن عمرؓ سے کسی نے مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے بتا دیا۔ اس نے کہا۔ ''آپ کے ابا جان حضرت عمر فاروقؓ تو یوں فرماتے ہیں۔'' فرمایا۔ '' اتباع، رسولﷺ کا چاہیے یا میرے ابا جان کا؟'' اس نے کہا۔ رسول پاکﷺ کا۔ آپ نے اس پر فرمایا۔ تو پھر رسول پاکﷺ نے تو ایسا ہی کیا ہے۔ بس اسی فکر و نظر کی کمی ہے۔ اگر یہ کسر پوری ہو جائے تو دنیا و آخرت کی سرفرازی کچھ زیادہ دور نہیں رہ جاتی۔ (ادارہ)
اعتذار:
مدیر ''محدث'' کی علالت کے سبب سے عربی عبارتوں کا لفظی ترجمہ بامحاورہ ہونے سے رہ گیا ہے، إن شا اللہ باقی تمام میں اسکا اہتمام کیا جائیگا، ادارہ اس پر اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہے۔ (ادارہ)
سوال:
منہ اور ناک میں ایک ہی دفعہ پانی دینا دورانِ وضو جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
جائز ہے اور مسنون۔ رد المحتار المعروف بشامی مطبوعہ مصر ۱۲۹۴ھ حاشیہ در مختار کے ص ۱۲۰ میں ہے:۔
«في البحر عن المعراج إن ترك التکرار مع الإمکان لا یکرہ وأیدہ في الحلیة بأنه ثبت عنه صلی اللہ علیه وسلم إنه تمضمض واستنشق مرة » کما أخرجه أبو داود
یعنی بحر الدقائق میں معراج سے نقل کیا ہے کہ وضو میں دو بار یا تین بار دھونے کو چھوڑ دینا باوجود قدرت کے مکروہ نہیں اور تائید کی ہے کہ اس کی حلیہ میں ساتھ اس بات کے کہ ثابت ہوا ہے آنحضرتﷺ سے یہ کہ آپﷺ نے کلی کی اور ناک میں پانی دیا ایک ہی دفعہ جیسا کہ اس کو ابو داود نے روایت کیا۔
سوال:
مسواک کرنا جیسا کہ وقتِ وضو کرنے کے مستحب ہے۔ اسی طرح وقت ہر نماز پڑھنے کے قبل بھی مستحب ہے یا نہیں؟
جواب:
مستحب ہے چنانچہ رد المحتار کے صفحہ ۱۱۸ میں لکھا ہے۔
«إنه مستحب في جمیع الأوقات ویؤکد استحبابه عند قصد الوضوء فسن ویستحب عند کل صلوٰة اٰه وممن صرح باستحبابه عند الصلوٰة أیضاالحلبي في شرح المنیة الصّغیر وفي ھدیة ابن العماد ایضاوفي التتار خانیة عن التتمة ویستحب السواك عندنا عندکل صلوٰة ووضوء»
یعنی بہ تحقیق مسواک کرنا مستحب ہے، سب وقتوں میں اور مؤکد ہے مستحب ہونا اس کا وقت ارادہ کرنے وضو کے پس مسنون یا مستحب ہے نزدیک ہر نماز کے الخ اور جنہوں نے تصریح کی ہے ساتھ مستحب ہونے مسواک کے وقت نماز کے ان میں سے ایک حلبی ہے، شرح منیہ میں اور ہدیةابن العماد میں بھی اور تتار خانیہ میں تتمہ سے نقل کیا ہے کہ مستحب ہے مسواک کرنا نزدیک ہمارے وقت ہر نماز اور وضو کے الخ
اور عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ میں ملک العلماء مولانا محمد عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔
«ووقته في الوضوء عند المضمضة ویستحب أیضا عند کل صلٰوة اٰہ»
یعنی اور وقت مسواک کرنے کا وضو میں وقت کلی کرنے کے ہے اور نیز مستحب ہے وقت ہر نماز کے الخ
سوال:
اذان میں وقت سماع أشھد أن محمداً رسول اللہ کے دونوں ابہامِ دست کے ناخن کو دونوں آنکھوں پر رکھ کر چومنا مرفوعاً مروی و صحیح ہے یا نہیں؟
«ثم قال ولم یصح في المرفوع من کل ھذا شيء»
یعنی پھر کہا کہ صحیح نہیں ہے بیچ حدیث مرفوع کے کچھ بھی اس سے مولانا محمد عبد الحی قدس سرہ نے سعایہ میں لکھا ہے۔
«والحق أن تقبیل الظفرین عند سماع اسم النبوي في ا لإقامة وغیرھا کلما ذکر اسمه علیه الصلوٰة والسلام مما لم یرو فیه خبر ولاأ ثر ومن قال به فهو المفتري الأکبر فهو بدعة شنیعة لا أصل لھا في کتب الشریعة ومن ادعی فعلیه البیان الخ»
اور حق یہ ہے کہ چومنا دونوں ناخنوں کا سنے نام نبیﷺ کے اقامت وغیرہ میں جب کہ ذکر کیا جائے نام آپﷺ کا اس قسم سے ہے کہ نہیں وارد ہوئی ہے اس میں کوئی خبر اور نہ کوئی اثر اور جو شخص قائل ہو اس کا وہ مفتری بڑا ہے۔ پس ناخن کا چومنا بری بدعت ہی نہیں اصل اس کی کتب شریعت میں اور جو کوئی دعویٰ کرے ناخن چومنے کی سنت ہونے کا اس پر واجب دلیل لانا۔
سوال:
دعا بعد الاذان میں لفظ والدرجة الرفیعة کی اصل ہے یا نہیں؟
جواب:
نہیں۔ رد المحتار کے صفحۃ ۴۱۳ میں شرح منہاج ابن حجر سے نقل کیا ہے:
«وزیادة والدرجة الرفیعة وختمه بیا أرحم الراحمین لا أصل لھما»
یعنی زیادہ کرنا لفظ والدرجة الرفیعة کا اور ختم کرنا اس کا لفظ یا أرحم الراحمین کے نہیں اصل ہے واسطے ان دونوں کے۔
سوال:
نماز میں نیت زبان سے کرنا بدعت ہے یا نہیں؟
جواب:
بدعت ہے۔ چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ جلد اول مکتوب صد و ہشتا دو ششم ۱۸۶ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
''وہم چنیں ست آنچہ علما در نیت نماز مستحسن داشتہ اند کہ باوجود ارادۂ قلب بزبان نیز باید گفت و حالانکہ ازاں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام ثابت نشدہ نہ بروایت صیح و نہ بروایت ضعیف و نہ از اصحاب کرامؓ و تابعین عظامؒ کہ بزبان نیت کردہ باشند بلکہ چوں اقامت مے گفتند تکبیر تحریمہ مے فرمودند پس نیت بزبان بدعت باشد آہ۔''
اور مولانا محمد عبد الحی رحمہ اللہ نے عمدة الرعایة میں لکھا ہے:۔
«أحدھما الاکتفاء بنیة القلب وھو مجزی اتفاقا وھو الطریقة المشروعة الماثورة عن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وأصحابه فلم ینقل عن أحد منھم التکلم بنویت أو أنوي صلٰوة کذا في وقت کذا ونحو ذٰلك کما حققه ابن الھمام في فتح القدیر وابن القیم في زاد المعاد»
کہ پہلا اس کا اکتفا کرنا ہے ساتھ نیت ِدل کے اور دل کی نیت کافی ہے بالاتفاق اور یہی طریقہ مشروع اور منقول ہے۔ رسول اللہﷺ اور آپ کے اصحاب سے اور ان میں سے کسی ایک سے بھی منقول نہیں ہوا کہ انہوں نے زبان سے یوں کہا ہو کہ نیت کی میں نے یا نیت کرتا ہوں میں فلاں نماز کی فلاں وقت میں اور نہ مثل ان الفاظ کے کوئی اور لفظ کہتے۔ ابن ہمامؒ نے فتح القدیر میں اور ابن قیمؒ نے زاد المعاد میں ایسا ہی تحقیق کیا ہے۔ اور مولانا محمد عبد الحی رحمہ اللہ نے ''آکام النفائس'' میں ارقام فرمایا ہے:۔
(تنبیہ) «کثیرا ما سئلت عن التلفظ بالنیة ھل ثبت ذلك من فعل رسول اللہ ﷺ وأصحابه وھل له أصل في الشرع فأجبت بأنه لم یثبت ذٰلك من صاحب الشرع ولا من أحد من أصحابه الخ»
کہ زبانی نیت کرنے کا مسئلہ مجھ سے بہت دفعہ پوچھا گیا کہ آیا یہ رسول اللہﷺ اور ان کے اصحاب سے ثابت ہے یا نہیں اور آیا شرع میں اس کی کوئی اصل بھی ہے؟ تو میں نے یہی جواب دیا کہ نہ تو شارع علیہ السلام ہی سے یہ ثابت ہوا اور نہ ان کے صحابیوں میں سے کسی ایک سے ثابت ہوا۔
اور مولانا محمد عبد الحی مغفور نے سعایہ میں تحریر فرمایا ہے:
«نقل في المرقاة عن زاد المعاد في ھدی خیر العباد ابن القیم کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا قام إلی الصلٰوة قال اللہ أکبر ولم یقل شیئا قبلها ولا تلفظ بالنیة ولا قال أصلی کذا مستقبلا للقبلة أربع رکعات إماما أو مأموما ولا قال أداء ولا قضا ولا فرض الوقت وھذہ بدع لم ینقل عنه أحد قط لا بسند صحیح ولا بسند ضعیف ولا مسند ولا مرسل بل ولا عن أحد من أصحابه وما استحبه أحد من التابعین ولا الأئمة الأربعة ألخ وفي فتح القدیر قال بعض الحفاظ لم یثبت عن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بطریق صحیح ولا ضعیف إنه کان یقول عند الافتتاح أصلي کذا ولا عن أحد من التابعین بل المنقول أنه إذا قام إلی الصلوٰۃ کبر فھذہ بدعة»
یعنی مرقاۃ میں ابن قیمؒ کی کتاب ''زاد المعاد في هدي خیر العباد'' سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو اللہ أکبر فرماتے اور اس سے پہلے کچھ نہ فرماتے اور نہ زبانی نیت کرتے اور نہ یوں کہتے کہ میں فلاں نماز کی چار رکعت کعبہ کی طرف منہ کر کے امام یا مقتدی ہو کر پڑھتا ہوں اور ہ ادا یا قضا ءیا فرض کا نام لیتے اور یہ سب بدعات ہیں کسی نے آپﷺ سے کبھی نقل نہیں کیا۔ نہ سند صحیح سے اور نہ سندِ ضعیف سے اور نہ مسند سے اور نہ مرسل سے بلکہ آپﷺ کے صحابہ میں سے بھی کسی سے منقول نہیں ہوا اور تابعین میں سے بھی کسی نے اس کو مستحب نہیں کہا اور نہ چاروں اماموں نے الخ۔ اور فتح القدیر میں ہے کہ بعض حفاظِ حدیث نے کہا ہے کہ رسول اللہﷺ سے نہ تو صحیح طریق سے ثابت ہوا ہے اور نہ ضعیف سے کہ آپﷺ شروع نماز کے وقت کہتے ہوں کہ میں فلاں نماز پڑھتا ہوں اور نہ تابعین میں سے کسی سے ثابت ہوا بلکہ آپﷺ سے تو یہی منقول ہوا ہے کہ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اللہ أکبر فرماتے۔ لہٰذا یہ بدعت ہے۔
سوال:
نماز میں دونوں ہاتھ سینہ پر باندھنا کسی معتمد صوفی حنفی کا فعل ہے یا نہیں؟
جواب:
ہے۔ مولوی شاہ نعیم اللہ بھڑائچی در معمولات کہ در احوال شیخ میر زا مظہر جان جاناں علیہ الرحمۃ تالیف کردہ مے نویسند:۔
''معمول چنیں بود کہ صلوٰت خمسہ راور اوقاتِ مخصوصہ و مستحبہ ادامے نمود ند درغایت اعتدال رکوع و سجود و قیام و قعود و قومی و جلسہ بجامے آوردندومے فرمودند کہ شریعت عبارت از ہمیں اعتدال و اقتصاد ست و دست را برابر سینہ مے بستند و مے فرمودند کہ ایں روایت ارجح است از روایاتِ زیر ناف۔ اگر کسے گوید کہ دریں صورت خلافِ حنفیہ بلکہ انتقال از مذہب بمذہب لازم مے آید۔ گویم بموجب قول ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ إذا ثبت الحدیث فھو مذھبی از انتقال در مسئلہ جزئی خلاف مذہب لازم نمے آید بلکہ موافقت در موافقت است'' ابجد العلوم میں ہے:۔
«ومن أجلة أصحابه المتأخرین الشیخ شمس الدین العلوی من ذریة محمد ابن الحنفیة المعروف بمیرزا مظهر جانجاناں کان ذا فضائل کثیرة وقرء الحدیث علی الحاج السیالکوتی وأخذ الطریقة المجددیة عن أکابر أھلھا کان له في اتباع السنة والقوة الکشفیة شان عظیم وله شعر بدیع ومکاتیب نافعة وکان یری الإشارة بالمسبحة ویضع یمینه علی شماله تحت صدره ویقوي قراءةالفاتحة خلف لإمام عام وفاته عاش حمید امات شهیدا اٰه»
یعنی ان کے اجل اصحاب متاخرین میں سے شیخ شمس الدین علوی رحمہ اللہ ہیں جو محمد بن حنفیہ کی اولاد ہیں اور میرزا مظہر جانجاناں کے نام سے مشہور ہیں۔ بہت فضیلتیں رکھتے تھے اور انہوں نے حاجی سیالکوٹی سے حدیث پڑھی اور طریقہ مجددیہ کو اس کے اکابر اصحاب سے اخذ کیا۔ اتباع سنت اور قوت کشفیہ میں بڑی شان رکھتے تھے اور ان کے اشعار عجیب اور مکتوباتِ نافعہ ہیں اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کے قائل تھے اور سینے کے نیچے ہاتھ باندھنے اور امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو قوی فرماتے۔ ان کی وفات کا سال تاریخی ''عاش حمیدا مات شہیدا'' ہے۔'' اور مصباح الہدایہ ترجمۂ عوارف میں ہے:۔
سوال:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا جس طرح قبل سورۂ فاتحہ کے نماز میں پڑھنا سنت ہے۔ اسی طرح نماز میں اس کا درمیان فاتحہ و سورۃ کے پڑھنا حسن ہے یا نہیں۔
جواب:
حسن ہے۔ رد المحتار کے صفحہ ۵۱۱ میں ہے:۔
«صرح في الذخیرة والمجتبی بأنه إن سمي بین الفاتحة والسورة المقروءة سرا أو جھرا کان حسنا عند أبي حنیفة رحمه اللہ ورجحه المحقق ابن ھمام وتلمیذہ الحلبي لشبھة الاختلاف في کونھا أیة من کل سورة بحراه»
یعنی تصریح کی ہے ذخیرہ اور مجتبےٰ میں اس بات کی کہ اگر بسم اللہ پڑھے درمیان سورہ فاتحہ اور سورت کے جو پڑھی گئی آہستہ یا جہر سے ہو گا بہتر نزدیک امام اعظمؒ کے اور ترجیح دیا ہے، اس کو محقق ابن ہمام اور شاگرد ان کے حلبی نے واسطے شبہہ اختلاف کے بیچ ہونے بسم اللہ کے آیت ہر سورت سے نقل کیا ہے اس کو بحر الدقائق سے
اور عمدۃ الرعایۃ میں ہے:۔
«إما عدم الکراھة فمتفق علیه ولھذا صرح في الذخیرة والمجتبٰی بأنه لو سمٰی بین الفاتحة والسورة کان حسنا عندأبي حنیفة رحمه اللہ سوا ءکانت السورة مقروة جھرا أو سرا ،ألخ»
لیکن نہ مکروہ ہونا بسم اللہ کے پڑھنے کا، پس اتفاق کیا گیا ہے اس پر، اور اسی لئے ذخیرہ اور مجتبےٰ میں تصریح کی ہے بایں طور کہ اگر بسم اللہ پڑھے درمیان سورۂ فاتحہ اور سورۃ کے ہوگا بہتر نزدیک ابو حنیفہؒ ک خواہ وہ سورت پڑھی گئی ہو بآواز یا آہستہ الخ۔
سوال:
سورۂ فاتحہ کا امام کے پیچھے پڑھنا کیسا ہے؟
جواب:
قراءۃا لفاتحہ خلف الإمام کو کتب فقہیہ میں احتیاطاً مستحسن لکھا ہے۔ چنانچہ مجتبیٰ شرح قدوری میں ہے:۔
«في شرح الکافي للبزدوي إن القراءة خلف الإمام علی سبیل الاحتیاط حسن عند محمد و مکروہ عندھما وعن أبي حنیفة رحمه اللہ إنه لا بأس بأن یقرء الفاتحة في الظھر والعصر وبما شاء من القرآن اٰه»
یعنی بزدوی کی شرح کافی میں یہ ہے کہ پڑھنا پیچھے امام کے احتیاطاً حسن ہے نزدیک امام محمدؒ کے اور مکروہ ہے امام ابو حنیفہؒ و ابو یوسفؒ کے نزدیک اور روایت ہے ابو حنیفہؒ سے یہ کہ نہیں مضایقہ ہے اس میں کہ پڑھے سورۂ فاتحہ ظہر اور عصر میں اور جو کچھ چاہے قرآن سے، او ربنا یہ شرح ہدایہ میں ہے:۔
«ویستحسن أي قراءة المقتدي الفاتحة احتیاطا ورفعا للخلاف فیما روی بعض المشائخ عن محمد رحمه اللہ وفي الذخیرة لو قرء المقتدي خلف الإمام في صلوٰة لا یجھر فیھا اختلف المشائخ فیه فقال أبو حفص عن بعض مشائخنا أن الإمام لا یتحمل القراءة عن المقتدي في صلوٰة المخافتة»
اور مستحسن ہے یعنی پڑھنا مقتدی کو سورۂ فاتحہ احتیاطاً اور واسطے دور کرنے خلاف کے اس میں کہ روایت کیا ہے بعض مشائخ نے محمدؒ سے اور ذخیرہ میں ہے کہ اگر پڑھے مقتدی پیچھے امام کے اس نماز میں جس میں جہر نہیں کیا جاتا ہے اختلاف کیا مشائخ نے بیچ اس کے پس کہا ابو حفص اور بعض مشائخ نے ہمارے نہیں مکروہ ہے بیچ قول محمدؒ کے اور مطلق ذکر کیا مصنف نے کلام کو ان کے اور مراد ان کی حالت قرأت سری میں ہے نہ جہری میں اور امام رکن الدین علی سغدی کی شرح جامع میں ہے کہ ہمارے بعض مشائخ سے مروی ہے کہ نماز سری میں امام مقتدی کی قراءت کو اس کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا۔ ۱۲
اور ہدایہ میں ہے:۔
«ویستحسن علی سبیل الاحتیاط فیما یروي عن محمد رحمه اللہ اٰه»
اور احتیاط کی نظر سے پڑھنا مستحسن ہے بموجب اس قول کے جو امام محمدؒ سے مروی ہے۔ ۱۲ اور علینی نے شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے:۔
«وبعض مشائخنا یستحسنون ذلك علی سبیل الاحتیاط في جمیع الصلوٰة وبعضھم في السریة فقط وعلیه فقھاء الحجاز والشام اٰه»
یعنی بعض مشائخ ہمارے مستحسن سمجھتے ہیں پیچھے امام کے سورہ فاتحہ پڑھنے کو ازراہِ احتیاط کے سب نمازوں میں اور بعض مشائخ نماز آہستہ والی میں اور اسی پر ہیں فقہا حجاز اور شام کے الخ
اور ملا علی قاری نے شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے:۔
«الإمام محمد من أئمتنا یوافق في القراءة خلف الإمام في السریة اٰه»
امام محمدؒ ہمارے اماموں میں سے موافقت کرتے ہیں امام شافعیؒ کی بیچ پڑھنے سورۂ فاتحہ کے پیچھے امام کے نماز سریہ میں ۱۲
اور عبد الوہاب شعرانی نے میزان کبریٰ میں لکھا ہے:۔
لأبي حنیفة و محمد قولان: ۔۔۔۔ أحدھما عدم وجوبھا علی المأموم ولا یسن له وھذا قولھما القدیم وأدخله محمد في تصانیفه القدیمة واشتهرت النسخ إلی الأطراف وثانیھما استحسانھا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراھتھا عند المخافتة للحدیث المرفوع لا تفعلوا إلا بأم القراٰن وفي روایة لا تقرؤوا بشيء إذاجھرإلا بأم القراٰن وقال عطاء کانوا یرون علی المأموم القراءة فیما یجھر فیه الإمام وفیما یسر فرجعا من قولھاإلی الثاني احتياطا أه
کہ امام ابو حنیفہؒ و محمدؒ کے دو قول ہیں پہلاؔ نہ واجب ہونا قراءت فاتحہ کا اوپر مقتدی کے اور نہ مسنونن ہونا واسطے اس کے اور یہ قولِ قدیم ہے ان دونوں کا اور داخل کیا اس کو محمدؒ نے اپنی تصانیفِ قدیمہ میں اور مشتہر ہوئے نسخے اطراف میں۔ دوسرا مستحسن ہونا قراءۃِ فاتحہ کا ازراہِ احتیاط کے اور نہ مکروہ ہونا وقت آہستہ پڑھنے کے بسبب حدیث مرفوع کے کہ نہ کرو قراءت مگر ساتھ سورۂ فاتحہ کے اور ایک روایت میں ہے نہ پڑھو کچھ جس وقت بآواز بلند پڑھوں میں قراءت مگر سورۂ فاتحہ اور کہا عطا نے تھے یعنی صحابہ قائل اس بات کے کہ مقتدی قراءت کرے اس نماز میں کہ بآوازِ بلند پڑھتا ہے امام اور اس میں کہ آہستہ پڑھتا ہے۔ پس رجوع کیا دونوں نے یعنی امام ابو حنیفہؒ اور محمؒد نے اپنے قول اول سے طرف قول ثانی کے احتیاطاً الخ اور ملا جیونؒ نے تفسیر احمدی میں تحریر کیا ہے:۔
«فإن رأیت الطائفة الصوفیة والمشائخین الحنفیة تراھم یستحسنون قراءة الفاتحة للمؤتم کما استحسنه محمد أیضا احتیاطا»
پس اگر دیکھے تو گروہِ صوفیہ اور مشائخینِ حنفیہ کو دیکھے گا تو ان کو کہ اچھا جانتے ہیں پڑھنا سورۂ فاتحہ کا واسطے مقتدی کے جیسا کہ مستحسن جانا سورۂ فاتحہ پڑھنے کو امام محمدؒ نے بھی ازروئے احتیاط کے اور حضرت شاہ شیخ رفیع الدین بہاری قدس سرہٗ کے ملفوظات مسمیٰ بخوان پر نعمت میں ہے:۔
''ازیں جاباز بیچارہ عرض داشت کہ قرأتِ فاتحة خلف الإمام مقتدی را وعید است آنجاچہ کند فرمود قرأت فاتحہ بکند و مشائخ ہم مے خوانند الخ
ابجد العلوم میں تحت ترجمہ حضرت میرزا جانجاناں رحمہ اللہ تعالیٰ کے لکھا ہے:۔
«ویقوي قراءة الفاتحة خلف الإمام اٰه»
اور قوت دیتے تھے پڑھنے سورۂ فاتحہ کو پیچھے امام کے الخ
عمدۃ الرعایۃ میں مولانا عبد الحی لکھنوی مغفور تحریر فرماتے ہیں:۔
«ومنھم من تفوہ بفساد صلٰوة المقتدي بھا وھو قول شاذ مردود و روي عن محمد أنه استحسن قراءة الفاتحة للمؤتم في السریة وروي مثله عن أبي حنیفة صرح به في الھدایة والمجتبٰی شرح مختصر القد وري وغیر ھما وھذا ھو مختار کثیر من مشائخنا وعلی ھذا فلا یستنکر استحسانھا في الجھریة أیضا أثناء سکتات الإمام بشرط أن لا یخل بالاستماع الخ»
اور بعض فقہا میں وہ شخص ہے کہ بكواس کی ہے اس نے ساتھ فاسد ہونے نماز مقتدی کے بسبب قراءۃ فاتحہ کے اور یہ قول شاذ و مردود ہے اور روایت کیا گیا ہے امام محمدؒ سے یہ کہ مستحسن جانا ہے انہوں نے پڑھنا سورۂ فاتحہ کا واسطے مقتدی کے نماز آہستہ میں اور روایت کیا گیا ہے مثل اس کے امام ابو حنیفہؒ سے تصریح کی اس کی ہدایہ و مجتبیٰ شرح مختصر قدوری میں اور یہ مختار اکثر مشائخین ہمارے کا ہے اور بنا بر اس کے پس نہیں انکار کیا جا سکتا مستحسن ہونا سورۂ فاتحہ کا پڑھنا نمازِ جہریہ میں بھی درمیان سکتات امام کے بشرطیکہ مخل نہ ہو سننے میں۔
ایجنٹ حضرات کو حسب ذیل کمیشن دیا جاتا ہے:
ماہانہ ۲۵ عدد سے کم پر ۲۵%
ماہانہ ۲۵ یا اس سے زائد پر ۳۳%
بقیہ تفصیلات براہِ راست خط و کتابت سے طے کریں۔ (ادارۂ محدث)