قرضوں کی اِشاریہ بندی
کاغذی کرنسی سے پیدا شدہ مسائل میں ایک اہم مسئلہ افراطِ زر (Inflation)کا بھی ہے۔ معاشی تکنیک کے حوالے سے افراطِ زر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس کی جملہ وجوہات کا احاطہ کرنا یہاں مقصود نہیں، البتہ کاغذی کرنسی اور افراطِ زر کے درمیان جو لازمی تعلق ہے، اسے آئندہ سطور کے حوالے سے پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
افراطِ زر کے مسئلے کی کوئی ایک جہت نہیں بلکہ معاشیات کی اصطلاح میں یہ ایک ہمہ جہت مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر کاروباری قرضوں، تنخواہوں، امانتوں اور بچتوں سمیت کئی معاملات میںافراطِ زر کے مسائل درپیش ہیں۔ ان مسائل پر قابو پانے کے لئے اقتصادی ماہرین جو حل تجویز کرتے ہیں ان میں عام طور پر سب سے مقبول اور سب سے زیادہ کامیاب تصور کئے جانے والے حل کو اشاریہ بندی (Indexation) کہتے ہیں یعنی اشاریہ بندی کے ذریعے افراطِ زر کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسئلے کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔
افراطِ زر کے نتائج اور اشاریہ بندی کی تکنیک کو سمجھنے کے لئے اس عام مثال پرغور کریں :
زید نے بکر سے 10000 روپے 1990 ء میں اس وعدہ پر قرض لئے کہ یہ رقم 1994ء میں واپس کردی جائے گی۔ 1994 ء میں جب یہ رقم واپس کی گئی تو قوتِ خرید میں کمی کے باعث 10000 روپے کی رقم حقیقتاً 8000 روپے کے برابر آچکی تھی۔ بالفاظِ دیگر چار سال کے عرصے میں افراطِ زر نے جو صورت اختیار کی اس کی وجہ سے 10000 روپے رقم کی حقیقی قیمت میں کمی واقع ہوئی اور اس کے نتیجے میں بکر کو(قوتِ خرید میں کمی کے باعث) 2000 روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔
معاشیات میں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اشاریہ بندی کا طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے، یعنی ''معاشی تخمینہ لگا کر ایسا توازن بروئے کار لانا جس کی وجہ سے قوتِ خرید میں جو کمی ایک مقررہ مدت کے درمیان واقع ہوئی ہے اس کو دور کیا جائے'' ... یہ حل اِشاریہ بندی کہلاتا ہے۔
مذکورہ بالا تکنیک اشاریہ بندی کی مکمل تعریف نہیں بلکہ صرف اس کی تفہیم کے لئے ایک مثال ہے۔ اشاریہ بندی کی مخصوص تعریف کا ذکر آگے ہوگا جہاں اس کے لئے استعمال میں آنے والے طریقہ ہائے کار کی بھی وضاحت کی جائے گی۔
اشاریہ بندی Indexationکیا ہے؟
پال ۔اے سموئل سن (Paul A. Samuelson) کے مطابق
"[Indexation is] a mechanism by which wages, prices and contracts are partially or wholly adjusted to compensate for changes in the general price level."(1)
''اشاریہ بندی ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے قیمتوں کی عام سطح میں تبدیلیوں کی تلافی کرنے کے لئے تنخواہوں، قیمتوں اور معاہدات میں جزوی یا کلی توازان پیدا کیا جاتاہے''
جب کہ جے ایل ہانسن (J. L. Hansan) کے مطابق
"A system of relating income especially from investment the retail price index in a time of inflation in order to offset the fall in the value of money."(2)
''ایک ایسا نظام جس میں بالخصوص سرمایہ کاری سے حاصل ہونیوالی آمدن کا افراطِ زر کے وقت قیمتوں کی پرچون سطح سے اس طرح تعلق قائم کرنا تاکہ روپے کی قدر میں کمی کا ازالہ کیا جاسکے''
مندرجہ بالا دونوں اور اسی نوعیت کی دیگر تعریفات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ افراطِ زر کی بنا پر تنخواہوں، قیمتوں اور معاہدات کو جو خطرات لاحق ہوتے رہتے ہیں ان سے پیدا شدہ نقصانات کو دور کرنے کے لئے جو طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے، اسے اِشاریہ بندی کہتے ہیں۔
کرنسی کی قوتِ خریدمیں کمی کے علاج کے لئے ہر حل'' اشاریہ بندی'' نہیں کہلاتا: یہاں یہ امر خاص طور پر قابل غور ہے کہ اشاریہ بندی کے لئے چند مخصوص طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ افراطِ زر سے قوتِ خرید میں جو کمی واقع ہوتی ہے اس کے علاج کے لئے تجویز کردہ ہر طریقے کو اشاریہ بندی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ وضاحت اس لئے بھی ضروری ہے کہ سپریم کورٹ میں حافظ عبدالرحمن مدنی کے بیان کے حوالے سے جو غلط فہمی انجینئر سلیم اللہ اور بعض دوسرے حضرات کو لاحق ہوئی ہے، وہ دراصل اس غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ افراطِ زر کا ہر ممکنہ حل اشاریہ بندی کی طرف جاتا ہے۔ اس بارے میں مضمون کے آخر میں چند گذارشات پیش کی جائیں گی، فی الوقت اس نکتہ کو مد ِنظر رکھنا ضروری ہے۔
قرضوں کی اشاریہ بندی... بنیادی مسئلہ
جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ اشاریہ بندی نے تنخواہوں، امانتوں اور قرضوں سمیت کئی معاملات کو اپنے احاطہ میں لے رکھا ہے۔ جہاں تک تنخواہوں وغیرہ کا تعلق ہے، اس ضمن میں ہر سال افراطِ زر کا تخمینہ لگا کر تنخواہوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ شرعی نقطہ ٔ نظر سے اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ اسلامی نظامِ پیداوار میں مزدور کی اُجرت اور سرمائے کو برتنے کے پیمانے مختلف ہیں۔ یعنی مزدور کو مقررہ تنخواہ دی جاسکتی ہے اور اس میں حسب ِحال مخصوص اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے جبکہ سرمائے کے لئے متعین ،لازمی منافع طے کرنا جائز نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اشاریہ بندی کا مسئلہ تجارتی قرضوں کے حوالے سے زیادہ اہم ہے اور عام طور پر بنکوں کے حوالے سے جب افراطِ زر اور اشاریہ بندی کی بات ہوتی ہے تو اس سے قرضوں کی اشاریہ بندی ہی مراد ہوتی ہے، آئندہ سطور میں اشاریہ بندی کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں بحث کا اصل محور ''قرضوں کی اشاریہ بندی'' ہی ہے۔
کاغذی کرنسی... شرعی حیثیت
چونکہ دورِ حاضر میں افراطِ زر کا بڑا مسئلہ براہِ راست کاغذی کرنسی کا پیدا کردہ ہے، اس لئے ضروری ہے کہ کاغذی کرنسی کی اصل حیثیت کا تعین کر لیا جائے۔ جب سے 'اشاریہ بندی' کا معاملہ سامنے آیا ہے، کاغذی کرنسی کی اصل حیثیت کی بحث بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ اس ضمن میں متعدد ملکوں کی فقہ اکیڈمیوں نے اپنے اپنے طور پر سیمینار منعقد کروائے اور مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں کسی تفصیل میں جائے بغیر سامنے آنے والی ان نمائندہ آرا ء کاخلاصہ درج ذیل ہے:
کرنسی نوٹ کی حیثیت کے بارے میں علمائے کرام میں مندرجہ ذیل آراء پائی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں سب سے جامع بحث مکہ مکرمہ ہائیکورٹ کے جسٹس ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان المنیع نے عربی زبان میں کی ہے۔ تفصیل کے شائقین اصل کتاب کی طرف رجوع کریں(3)جس کا اُردو ترجمہ بھی پاکستان میں ''کاغذی کرنسی کی تاریخ، ارتقائاور شرعی حیثیت کے نام سے فضلی سنز لمیٹڈ، اردو بازار، کراچی نے شائع کیا ہے۔
1۔ کرنسی نوٹ بحیثیت دستاویز
اس نظریے کے مطابق کرنسی نوٹ جاری کنندہ کی طرف سے (اُدھارکی)دستاویز ہے اور شرعی احکامات لگاتے وقت اس کے اس کردار کو مد ِنظر رکھا جائے گا۔
2۔نظریہ عروض
بعض ماہرین نے یہ رائے پیش کی ہے کہ کرنسی نوٹ عروضِ تجارت میں سے ایک عرض ہے یعنی اس کی حیثیت سامان کی سی ہے۔ چنانچہ سامانِ تجارت کے شرعی احکام اس پر لاگو ہوں گے۔
3۔ کرنسی نوٹ کا معدنی سکوں سے اِلحاق
اس نظریہ کے حاملین کے مطابق کرنسی نوٹ اسلامی قرونِ وسطی کے فُلوسسے مشابہت رکھتے ہیں اور فلوس کی قیمتوں میں تغیر و تبدل کے حوالے سے فقہائے کرام کی آراء کرنسی نوٹوں پر بھی لاگو تصور کی جائیں گی۔
4۔نظریہ بدل
اس موقف کے حامی ماہرین کے مطابق کرنسی نوٹ اپنے اصل کا عوض یا بدل ہیں اور ان کا اصل سونا ،چاندی یا کوئی قیمتی شے(Commodity) ہے۔یعنی کرنسی اصل کی نمائندہ ہے۔
5۔ ثمن حقیقی
اس نظریے کے مطابق سابق تمام نظریات کے برعکس کرنسی نوٹوں کی ثمنیت کسی خارجی شے پر موقوف نہیں (i)بلکہ اب یہ مستقل ثمن حقیقی کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں اور ان پر شرعی احکامات بھی اسی لحاظ سے وارد ہوں گے۔
کرنسی نوٹوں کے بارے میں یہ نمائندہ آراء عبداللہ بن سلیمان المنیع نے پیش کی ہیں اور ہر رائے کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے۔ مندرجہ بالا آراء میں سے کسی ایک کو بھی اختیار کرنے کے جو نتائج و عواقب یا شرعی اشکال وارد ہو سکتے ہیں ، انہوں نے ان پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ نیز صاحب ِکتاب نے مؤخر الذکر رائے کو علمی غوروخوض کے بعد قبول کر لیا ہے۔ اس ضمن میں اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ، اسلامی ترقیاتی بینک، بین الاقوامی ادارہ برائے اسلامی اقتصادیات اسلام آباد اور اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے منعقد کردہ سیمینارز اور قراردادیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔(4)
پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف جو فیصلہ دیا تھا اس میں اس پہلو پر بھی بحث کی گئی تھی کہ فقہاء نے قیمتوں میں ردّوبدل کے حوالے سے لین دین کی جو شروط پیش کی ہیں، آیا ان سے اشاریہ بندی کے جواز کا کوئی پہلو برآمد ہوتا ہے کہ نہیں؟ چنانچہ علامہ ابن عابدینؒ، ابن قدامہؒ اور فتاویٰ عالمگیری کے متعدد حوالہ جات سے اس تاثر کو زائل کیا گیا تھا کہ فقہاء کرام کی بعض تحریریں اشاریہ بندی کاجواز لئے ہوئے ہیں۔(5) یہ تفصیل کا موقع نہیں، اس پہلو کو پیش نظر رکھنے کے لئے صرف اشارہ مقصود تھا۔
قرضوں کی اشاریہ بندی کی شرعی حیثیت
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اشاریہ بندی کا اصل تعلق کاغذی کرنسی کی فقہی حیثیت کے تعین کے ساتھ ہے، چنانچہ اس سلسلے میں علماء اورماہرین معیشت کو دو واضح گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
اول: اس گروہ میں وہ علماء ؍دانشورشامل ہیں جو اشاریہ بندی کے قائل ہیں، ان میں رفیق مصری، سلطان ابوعلی، ایم اے منان، ضیاء ُالدین احمد، سلیم چشتی، عمر زبیر، گل محمد، مولانا محمد طاسین اور دیگر کئی علماء شامل ہیں۔(6)
دوم: اس دوسرے گروہ میں وہ علماء ؍دانشور شامل ہیں جو اشاریہ بندی کے مخالف ہیں اور متعدد وجوہ کی بنا پر اسے ناجائز بتلاتے ہیں ان میں محمد عمر چھابرا، حامد اللہ کاف، محمد نجاتُ اللہ صدیقی، محمد حسن الزمان، مولانا تقی محمدعثمانی، علی احمد سالوس اور دیگر کئی علماء اور ماہرین معیشت شامل ہیں(7)۔ اسی نقطہ نظر کو مختلف ممالک کی اسلامی فقہ اکیڈمیوں نے بھی اختیار کیا ہے(8)۔ اسلامی معیشت کے عام ماہرین اور اساتذہ کی رائے میں یہی رائے راجح ہے۔ ذیل میں ہم ہر دو فریقین کے دلائل کا مختصراً جائزہ لیں گے۔
مُجوِّزین کے دلائل
قرضوں کی اشاریہ بندی کے حامی مندرجہ ذیل دلائل سے استفادہ کرتے ہیں:
کاغذی کرنسی کی شرعی حیثیت کے بارے میں مجو ّزین کا نقطہ ٔ نظر: وہ تمام حضرات جو کاغذی کرنسی کو ثمن حقیقی قرار نہیںدیتے بلکہ دیگر آراء میں سے کسی رائے کے حامی ہیں ،وہ کسی حد تک اِشاریہ بندی کے حامی ہوسکتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ سب ہی اشاریہ بندی کے حامی ہوں مگر عام طور پر اِشاریہ بندی کے حامی اور قائلین انہی آراء کے حامل نظر آتے ہیں۔ کیونکہ جب یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ کاغذی کرنسی ثمن حقیقی کی حیثیت اختیار کر گئی ہے تو اشاریہ بندی کا دروازہ خود بخود بند ہوجاتا ہے، اس ضمن میں وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔
(1) چنانچہ قائلین اِشاریہ بندی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب کاغذی کرنسی کی ثمنیت کسی اور چیز پر موقوف ہے تو افراطِ زر کے نتیجے میں وہ دوسری شے بنیاد بن سکتی ہے اور اس کو بنیاد بنا کر قوتِ خرید میں جو کمی واقع ہوئی ہے، اس کے نقصان کی تلافی ممکن ہے۔
اگر بغور دیکھا جائے تو یہ رائے درست نہیں، کیونکہ کاغذی کرنسی کے ضمن میں راجح رائے یہی ہے کہ وہ ثمن حقیقی ہے۔ اس راجح رائے کو قبول کرنے سے یہ سارا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔ بنا بریں اگر اس راجح رائے کو نہ لیا جائے بلکہ کسی دوسری رائے مثلاً نظریہ بدل کو قبول کیا جائے(جیسا کہ مولانا مدنی نے اپنے بیان میں کہا ہے) تو بھی اشاریہ بندی ایک لازمی حل کے طور پر سامنے نہیں آتی، بلکہ کسی دوسرے قابل قبول اور منصفانہ حل کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ بقول مولانا مدنی اشاریہ بندی استحصالی ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے اور اس ضمن میں جو طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے وہ نہ صرف غیر معقول بلکہ بہت حد تک ظالمانہ ہے۔
(2) اشاریہ بندی کے قائلین کے دیگر جملہ دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی اَحکامات عدل و انصاف کے بارے میں واضح ہیں۔ افراطِ زر سے ناانصافی جنم لیتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ظلم کا عنصر نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے، چنانچہ ''لاضرر ولا ضرار'' کے قاعدے کے تحت اِشاریہ بندی کو قبول کیا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ یہ واضح ہے کہ افراطِ زر سے نااِنصافی اور ظلم کا باب کھلتا ہے، مگر کیا یہ ضروری ہے کہ ایک ظلم کو ختم کرنے کے لئے دوسرا ظلم شروع کردیا جائے۔ اِشاریہ بندی کا نظام بذاتِ خود اس حد تک ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہے کہ اس کو کسی مثبت حل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ لا ضرر و لا ضرار کا قاعدہ بھی یہاں لاگو نہیں ہوتا کیونکہ افراطِ زر سے اگر دائن(قرض دینے والے)کو ضرر لاحق ہوتا ہے تو اشاریہ بندی سے یہ ضرر مَدین(قرضدار)کی طرف منتقل ہونے کا خطرہ ہے۔
قائلین اشاریہ بندی کے جملہ دلائل کا خلاصہ یہی ہے اور عام فہم شخص بھی یہ محسوس کرسکتا ہے کہ افراطِ زر سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کی نشاندہی کی حد تک تویہ نقطہ ٔ نظر بالکل درست ہے مگر جہاں تک علاج کا تعلق ہے وہاں سے ایک دوسری غلطی کا آغاز ہوجاتا ہے۔
مانِعین کے دلائل
اشاریہ بندی کے مخالفین کے دلائل کو نوعیت کے اعتبار سے دو اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
اول: اشاریہ بندی کے تکنیکی اور اقتصادی نقصانات
ڈاکٹر حسن الزمان نے اشاریہ بندی کی مخالفت میں وفاقی شرعی عدالت میں جو بیان دیا تھا، اس میں مندرجہ ذیل عقلی دلائل شامل تھے:(9)
(1) کرنسی کی قیمت ایک اضافی اصطلاح ہے، اس سے کرنسی کی اصل یا اندرونی خصوصیات کا اظہار نہیں ہوتا اور نہ ہی کرنسی کی قیمت کا دارومدار ہمیشہ اس کی ذاتی خصوصیات پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کئی مرتبہ یہ قیمت طلب و رسد کے نظام میں کسی تبدیلی کی بنیاد پر کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ اس صورت میں اشاریہ بندی سے اس کا علاج... جس کا براہِ راست تعلق کرنسی سے ہے... کسی طور پر درست نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں خرابی کے ذمہ دار عناصر خارجی ہیں۔
اور پھر یہ بھی کہ کرنسی کے نظام میں خرابی یا افراطِ زر کے ذمہ دار عناصر کا ٹھیک طور پر تعین ممکن نہیں۔ اس لئے آنکھیں بند کرکے اشاریہ بندی کو بطورِ حل استعمال کرنا... جبکہ اس کے استعمال کا محل ہی نہیں ... کسی طور پر مناسب نہیں۔
(2) اشاریہ بندی کے پس منظر میں یہ مقصد کارفرما ہے کہ قوتِ خرید میں کمی کے باعث دائن کو جو نقصان مستقبل میں لاحق ہوگا اس کی تلافی کی جائے۔ یہ مستقبل قرض کی ادائیگی کے وقت سے نہیں بلکہ فوری طور پر شروع ہوجاتا ہے۔ اشاریہ بندی کے لئے مستقبل میں قوتِ خرید میں ہونے والی کمی کو مدنظر رکھا جاتا ہے حالانکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ کرنسی کی متوقع قوتِ خرید کو بھی یقینی بنایا جائے۔ یہ ایک ایسی شرط ہے کہ اس پر عمل تقریبا ً ناممکن ہے اور اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے یہ دعویٰ کہ اشاریہ بندی میں عدل و انصاف مضمر ہے خود ہی باطل ہوجاتا ہے۔
(3) اشاریہ بندی کے لئے جو طریقہ کار عام طور پر متداول ہے وہ بھی ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہے۔ اس کے لئے صارف کی ٹوکری کا (Consumer's Basket) کا طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے، صارف کی اس ٹوکری میں کئی ایسی اشیاء شامل ہیں جن کا عام صارف سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس طرح اشاریہ بندی کا نظام کئی لوگوں کے لئے غیر منصفانہ حمایت کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
(4) بچتوں کے حوالے سے اشاریہ بندی کا طریقہ اور زیادہ مضحکہ خیز تصور پیش کرتا ہے۔ تمام بچت کنندگان کی بچتوں کو Consumer's Basket کے حوالے سے برتا جاتا ہے اور اس طرح بزعم خویش نقصان کی تلافی کی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے بچت کنندگان ایسے ہیں جو (Consumer's Basket) خریدنے کے لئے بچت کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں! ایک ایسا شخص جو سونا خریدنے کے لئے بچت کر رہا ہے، ا س کی بچت کردہ رقم کی قوتِ خرید میں ہونے والی کمی کو پورا کرنے کے لئے (Consumer's Basket)کو معیار بنانا مضحکہ خیز نہیں تو او رکیا ہے؟ ایسے شخص کے لئے تو منصفانہ قدم یہ ہے کہ (Consumer's Basket) کے بجائے سونے کو معیار بنایا جائے۔ علی ہذا القیاس ہر بچت کنندہ کے اپنے مقاصد ہیں۔ ہر بچت کے پس منظر میں کارفرما مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اشاریہ بنانا یقینا ناممکن ہے۔ سو اشاریہ بندی کا یہ نظام بھی فائدہ مند نہیں۔
(5) اس پر مستزاد یہ کہ قرض دینے کا عمل افراطِ زر کا باعث نہیں بنتا بلکہ عام طور پر بچتوں کا عمل افراطِ زر کے پس منظر میں کارفرما ہوتا ہے۔ چنانچہ قرض دار سے اشاریہ بندی کی بنا پر زائد رقم لینا بذاتِ خود ایک غیر منصفانہ قدم ہے۔
(6) قیمتوں میں تغیر و تبدل ایک لازمی اَمر ہے۔ خاص کر ایک ایسے معاشرے میں جہاں معاشی تبدیلیاں زیادہ کار فرما ہوں وہاں قیمتوں میں یکسانیت اور وہ بھی ایک طویل مدت کے لئے ناممکن ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ترقی کے ساتھ ساتھ قیمتوں میں تغیر و تبدل لازمی اَمر بن جائے وہاں اشاریہ بندی ناقابل عمل بن جاتی ہے۔
(7) اشاریہ بندی کے حامی معیشت کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جہاں افراطِ زر کے عمل کو ہمیشگی اور دوام حاصل رہے۔ جب کہ عقل کا تقاضا ہے کہ تصویر کا دوسرا رُخ بھی سامنے رکھا جائے یعنی تفریط ِزر کے دوران اشاریہ بندی کا کردار کیا ہوگا؟ اس پر تاحال خاموشی ہے۔
(8) افراط زر کے باعث نقدی کی جملہ خصوصیات متاثر ہوتی ہیں مگر اشاریہ بندی ان میں سے صرف چند ایک کا علاج کرتی ہیں اور باقی کو اسی طرح چھوڑ جاتی ہے، مثلاً Store of Value کا علاج تو اشاریہ بندی سے ممکن ہے مگر Measure of Valueکا مسئلہ جوں کا توں برقرار رہتا ہے۔
(9) جیسا کہ زیادہ تر بلا سودی قرضے غیر پیداواری ہوتے ہیں چنانچہ نقصان کی تلافی کے لئے مَدین (دَین دار)سے رجوع کرنا غیر منصفانہ ہوگا۔
(10) اگر افراطِ زر کی شرح، منافع کی شرح سے زائد ہوجائے گی تو بینک اور دوسرے مالیاتی ادارے قرضوں کے کھاتے قبول کرنے سے اِحتراز کریں گے۔ نیز ایکویٹی Equityکی بنیاد پر رقوم کی فراہمی میں بھی تعطل پیدا ہوجائے گا۔
(11) اشاریہ بندی کے عمل کو اگر عام کردیا گیا تو معاشرے میں ایک ہی کرنسی کی مختلف قیمتیں رائج ہوجائیں گی۔ یعنی کاروباری مقصد کے لئے مختلف قیمت، اشاریہ بندی کے لئے مختلف قیمت، اِفراطِ زر کے دوران ایک نئی قیمت، غرض یہ کہ بنیادی یونٹ ہونے کے ناطے کرنسی کی جو اہمیت ہے وہ ختم ہو کر رہ جائے گی۔
یہ تو اشاریہ بندی کے وہ نقصانات تھے جو اقتصادی اور عقلی نقطہ ٔ نظر سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ شرعی نقطہ ٔنظر سے سب سے اہم اعتراض اس حوالے سے یہ ہے کہ اشاریہ بندی کا عمل سود سے مماثلت رکھتا ہے۔ یعنی اس میں ربا الفضل کا عنصر پایا جاتا ہے۔
(2) اشاریہ بندی اور ربا الفضل
اشاریہ بندی پر سب سے زیادہ سنگین اعتراض شرعی نقطہ ٔ نظر سے یہ ہے کہ اس میں ربا الفضل کا پہلو پایا جاتا ہے۔ اس بنا پر علمائِ کرام کی اکثریت نے اسے ناجائز قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر منصوری اس ضمن میں لکھتے ہیں:
''... کیونکہ یہ شریعت کا غیر متنازع فیہ اصول ہے کہ قابل مبادلہ شے اس کی مثل کی صورت میں واپسی کی جائے گی، یہ مثلیت جنس کے ساتھ ساتھ وزن و مقدار میں برابری کی شکل میں ہوگی۔ کاغذی نوٹ بھی، جو تمام علماء کرام کے متفقہ فیصلہ کی رو سے درہم و دینار کے مشابہ ہیں، اس اُصول کے تابع ہوں گے اور ان کا مبادلہ چاہے صرف کی صورت میں ہو یا قرض کی صورت میں، مقدار میں برابری کی بنیاد پر ہوگا، مقدار کی اس مثلیت سے ذرا بھی انحراف ربا الفضل کے زمرے میں آئے گا''(10)
طرزِ استدلال بالکل واضح اور صحیح ہے۔ کیونکہ حدیث عبادہ بن صامتؓ اس باب میں اصل ہے اور اگر اشاریہ بندی پر اس کا انطباق کیا جائے تو نتیجہ ربا الفضلکے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔ ربا الفضل اور اشاریہ بندی کے باہمی رشتے کے بارے میں محققین نے سیر حاصل بحثیں کی ہیں جن کا اِحاطہ یہاں ممکن نہیں۔ دلچسپی رکھنے والے حضرات اصل مباحث کو دیکھ سکتے ہیں۔ اشاریہ بندی میں ربا الفضل سے مشابہت کا جو پہلو ہے اس کے پیش نظر اسلامی نظریاتی کونسل (ii)اور وفاقی شرعی عدالت نے بھی قرضوں کی اشاریہ بندی کو خلافِ شرع قرار دیا ہے۔ نیز یہ سلسلہ اب کسی حد تک اجماعی شکل اختیا رکرتا چلا جارہا ہے۔ اسلامی ترقیاتی بینک جدہ اور انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس اسلام آبا دکے زیراہتمام اشاریہ بندی کے موضوع پر منعقد سیمینار ۱۹۸۷ء نے قررا دیا تھا کہ:
''ربا اور قرض کی احادیث میں مذکورہ یکسانیت اور مساوات سے وزن، پیمائش اور مقدار کی مساوات مراد ہیں، مالیت کی برابری مراد نہیں۔ یہ بات متعلقہ احادیث سے بھی ظاہر ہے جن میں اموالِ ربویہ کے لین دین میں ان کی قدر کو مد ِنظر رکھا جاتا ۔ اس نکتہ پر امت کا اجماع ہے(iii) اور اس پر اسی طرح عمل ہوتا چلا جارہا ہے۔''(11)
چنانچہ یہ بات پایہ ٔثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ربا الفضلکے پہلو کی بنا پر اشاریہ بندی ناجائز ہے۔
(3) غرر اور جہالت
شرعی نقطہ ٔ نگاہ سے اشاریہ بندی پر دوسرا اہم اعتراض یہ ہے کہ اس میں غرر اور جہالت کا عنصر نمایاں ہے اور معلوم ہے کہ ایسے تمام عُقود باطل ہیں جن میں غرر اور جہالت کا عنصر موجود ہو۔ اشاریہ بندی میں ایک عوض کو مستقبل کے حوالے سے مجہول چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس بنا پر غرر اور جہالت لازم آتے ہیں۔
ممکنہ حل
اشاریہ بندی سے قطع نظر ماہرین نے افراطِ زر کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل طریقے وضع کرنے کی کوشش کی ہے:
(1) فہیم خان کا پیش کردہ حل
افراطِ زر کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے فہیم خان نے گولڈ اکائونٹ کا نظریہ متعارف کرایا ہے۔ (12) اس سلسلے میں وہ بینکوں میں رقوم جمع کروانے اور بینکوں سے قرض لینے کے عمل میں تفریق کرتے ہیں۔جہاں تک رقوم جمع کروانے کا تعلق ہے اس سلسلے میں فہیم خان کہتے ہیں کہ جب بینک رقم لے، اس وقت سونے کی مروّجہ قیمت کے مطابق اسے تبدیل کر لے اور مُودِع(Creditor) جب اپنی رقم نکلوائے تو اس سونے کی قیمت کے حساب سے رقم نکلوائے، مثلا زید نے ۱۹۹۰ء میں بینک میں اتنی رقم جمع کروائی کہ اس سے۱۰۰ گرام سونا خریدا جاسکتا تھا۔ اب ۱۹۹۵ء میں زید جب یہ رقم نکلوانا چاہتا ہے تو اسے اتنی رقم واپس کی جائے گی کہ اس سے ۱۰۰گرام سونا خریدا جاسکے، قطع نظر اس حقیقت سے کہ ظاہری طور پر یہ رقم جمع شدہ رقم سے زیادہ ہے یا کم۔
جہاں تک بینکوں سے قرض لینے کا تعلق ہے، اس ضمن میں فہیم خان قرضوں کو دو گروپوں میں تقسیم کرتے ہیں ، یعنی: -i تجارتی قرضے -ii گھریلو قرضے
تجارتی قرضوں کے ضمن میں وہ یہ حل پیش کرتے ہیں کہ اس سارے نظامِ کو شراکت کی بنیاد پر حل کیا جائے۔ البتہ گھریلو قرضوں کے لئے بینکوں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ ایسے قرضے قرضِ حسنہ کی صورت میں جاری کئے جائیں اور اگر بینک اس کے لئے آمادہ نہ ہوں تو اس ضمن میں گولڈ اکائونٹ والا طریقہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جائزہ : فہیم خان کی یہ تجویز اپنی نوعیت کے اعتبار سے کوئی نئی تجویز نہیں۔ اشاریہ بندی کے وسیع تر مفہوم کے قائلین اسے بھی اِشاریہ بندی قرار دیتے ہیں۔ البتہ اشاریہ بندی کو چند مخصوص طریقہ کار تک محدود سمجھنے والے اسے اشاریہ بندی سے ہٹ کر ایک علیحدہ تصور قرار دیتے ہیں۔ اوّل ُالذکر صورت میں اس پر وہ تمام اعتراضات وارد ہوتے ہیں جو اشاریہ بندی پر ہوتے ہیں۔
مگر مؤخرالذکر نظریے کو اپنایا جائے تو اس ضمن میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ مودِع (Creditor) بینک میں نقد رقم جمع کراتا ہے اور واپسی کے وقت وہ سونے کو معیار بنا کر واپسی لیتا ہے۔ یہاں گفتگو ایک مرتبہ پھر کاغذی کرنسی کی شرعی حیثیت کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔ راجح رائے کے مطابق کاغذی کرنسی بذاتِ خود ثمن حقیقی ہے۔ چنانچہ اس کی قیمت کا تعین سونے یا کسی دوسری شے کے حوالے سے کرنا کسی طور پر درست نہیں۔
(2) شیخ محمود احمد کا پیش کردہ حل(13)
شیخ محمود احمد نے اس ضمن میں متبادل قرض کی رائے پیش کی کہ اگر ایک شخص بینک سے ۱۰؍ہزارروپے کی رقم قرض کے طور پر لیتا ہے تو بینک کو اس کے جواب میں ایک ہزارروپے قرض دے۔ مدین Debtor (جو خود دائِنCreditor بھی ہے) اور بینک (جو خود Debtorبھی ہے) دونوں مقررہ مدت تک اپنی اپنی رقوم سے کاروبار کریں اور پھر ایک دوسرے کو اصل زر واپس کردیں۔ اس دوران جو منافع کمائیں وہ دونوں کی ملکیت ہوگا۔ اس بارے میں شیخ محمود احمد نے ایک خاکہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی پیش کیا تھا جو (سو د سے مشابہت کی بنا پر) مشکوک قرار دے کر مسترد کردیا گیا تھا۔
اِسی حل کی بنیادی سکیم ہی متعدد شرعی اُصولوں سے متصادم ہے۔ حدیث ِنبوی ؐ میں قرض کی رقم سے منفعت اُٹھانے کی جو ممانعت آئی ہے وہ اور قاعدہ کلیہ بمعنی ''کل قرض جرّ منفعۃ فھو وجہ من وجوہ الربا'' کے تحت اس پر جو اعتراضات لازم آتے ہیں وہ بہت واضح ہیں اور شیخ محمود احمد ان کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔
(3) اسلامی نظریاتی کونسل کا پیش کردہ حل
اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی مجموعی سفارشات برائے اسلامی نظامِ معیشت میں قرار دیا کہ:
''لہٰذا اگر ڈالر کو معیار قرار دینے میں کوئی عملی سہولت ہے تو اس کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ جن صنعت کاروں کو بیرونی مشینری درآمد کرنے کے لئے قرض دیا جارہا ہے، انہیںپاکستانی روپے کی بجائے ڈالر قرض دے... بلکہ اگر ڈالر قرض دینے کے بعد انہی سے اس وقت کی شرح سے پاکستانی روپے کے عوض میں وہ ڈالر خرید لئے جائیں تب بھی ادائیگی ڈالر کے حساب ہی سے واجب ہوگی''(14)
خط کشیدہ الفاظ پر غور فرمائیں۔ حیلہ ساز ذہنوں کی حیلہ سازی یہاں بھی بالکل واضح ہے اور یہ حل کسی بھی تبصرے سے مبرا ہے۔ کاغذی نوٹ کو ثمن حقیقی تسلیم کرتے ہوئے بھی ڈالر کو معیار مان لینا غلط نہیں۔ لیکن اگر یہی حل سونے کے حوالے سے پیش کیا جائے تو اشاریہ بندی کے حامی ہونے کا فتویٰ صادر کردیا جاتا ہے۔ شیخ محمود احمد نے بجا لکھا تھا کہ:
''شرعی حیلے تو کئے جاسکتے ہیں، پہلے بھی کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں اور (اسلامی نظریاتی کونسل کی) رپورٹ میں بھی متعدد نئے حیلے بیان کردیئے گئے ہیں، ان کی مدد سے تو اسلامی نظام قائم نہیں ہوسکتا...''(15)
اس کے علاوہ بھی افراطِ زر کے مسئلے سے نپٹنے کے لئے کئی حل پیش کئے گئے ہیں۔ مثلا ً منور اقبال کا فِکسڈ ویلیو یونٹس (Fixed Value Units) پر مشتمل مجوزہ حل جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے فہیم خان کے گولڈ اکائونٹس سے مختلف نہیں۔ (16)نیز اس مضمون میں ان تمام تفصیلات کا احاطہ مقصود نہیں۔
سپریم کورٹ میں حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب کا بیان اور اس سے پیدا شدہ غلط فہمی
سپریم کورٹ (شریعت اپلیٹ بنچ) میں حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے بطور معاوِن جو بیان دیا تھا، اس کے متعلق بعض اخبارات کے رپورٹروں نے بے احتیاطی کی بنا پر غلط سلط رپورٹنگ کی جس کی بنا پر بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ حافظ صاحب چونکہ افراطِ زر کی واقعاتی صورت تسلیم کررہے ہیں، اس لئے ان کا موقف اِشاریہ بندی (Indexation)کی حمایت میں ہے۔ جہاں تک اس تاثر کا تعلق ہے اسی کی تردید ''محدث'' (اگست ۹۹ء ) میں واضح طور پر کردی گئی۔ علاوہ ازیں مدنی صاحب کے داخل کردہ تحریری بیان کا مطالعہ بھی اس سلسلے کیصورتِ حال کو واضح کرتا ہے۔ میں یہاں صرف یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اخبارات کے رپورٹرز کی غلط فہمی سے قطع نظر کہ ان کا مبلغ علم معرو ف ہے، بعض اہل علم کو جو غلط فہمی ہوئی ہے، اس کا حقیقی سبب کیا ہے؟
اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے کاغذی کرنسی کی شرعی حیثیت کے ضمن میں جوموقف اختیار کیا ہے کہ کاغذی کرنسی ثمن حقیقی نہیں بلکہ کاغذی کرنسی کسی Commodityکا قائم مقام ؍بدل ہے اور یہ واضح ہے کہ یہ رائے اس رائے سے مختلف ہے جو مولانا گوہر الرحمن، انجینئر سلیم اللہ یا دیگر حضرات نے اختیار کی ہے یا جسے راقم الحروف نے گزشتہ سطور میں راجح رائے قرار دیا ہے۔ بہرکیف حافظ صاحب نے بدل ؍قائم مقام کے موقف کو راجح ترقرار دے کر گفتگو کا آغاز کیا تھا۔ اب ہمارے ہاں ماحول یہ بن گیا ہے کہ ان تمام حضرات کو جو کاغذی کرنسی کو ثمن حقیقی قرار نہیں دیتے بلکہ دیگر آراء میں سے کسی رائے کے حامل ہیں، انہیں اشاریہ بندی کا حمایتی سمجھ لیا جاتا ہے۔
اس بات کو اگر دوسرے زاویہ سے لیا جائے تو صورتحال یوں بنتی ہے کہ کاغذی کرنسی کو ثمن حقیقی قرار دینے والے حضرات... کم از کم پاکستان کی حد تک... افراطِ زر کے مسئلے کو بطور ِمسئلہ حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کاغذی کرنسی کے ساتھ ناگزیر ہے اور اس کا ہر ممکنہ حل اشاریہ بندی کی طرف لے جاتا ہے۔ چنانچہ اس غلط فہمی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فکر نے حافظ صاحب کو بھی اِشاریہ بندی کا حامی قرار دے دیا۔ حالانکہ کاغذی کرنسی کو ثمن حقیقی تسلیم نہ کرنے اور اشاریہ بندی کے درمیان کوئی لازمی تعلق نہیں کہ ایک کا انکار دوسرے کے اقرار کو لازم کردے۔
یہاں اسی حقیقت کا اظہار بھی مقصود ہے کہ اشاریہ بندی کے غلط مفہوم کی وجہ سے یہ لازمی تعلق قائم کرنے والا ذہن پیدا ہوا ہے۔ افراطِ زر کرنسی کو لاحق ہونے والی بیماری ہے اور اس کا ہر علاج اشاریہ بندی کے زمرے میں نہیں آتا۔ اگر ایسا ہوتا توکم از کم فہیم خان اور منور اقبال جیسے ماہرین معیشت یہ غلطی نہ کرتے کہ دونوں حضرات نے اشاریہ بندی کے عمل کو مسترد کرکے جو متبادل حل پیش کئے ہیں وہ اگر کلی طور پر نہیں تو اُصولی طور پر ضرور مدنی صاحب کے پیش کردہ حل سے مماثلت رکھتے ہیں۔ یہ حضرات خوب سمجھتے ہیں کہ اشاریہ بندی کا دائرہ کار کہاں تک وسیع ہے اور اس کی حدود کہاں ختم ہوجاتی ہیں۔
اس ساری بحث کا مقصد یہ نہیں ہے کہ حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے جو موقف اختیار کیا ہے اس کی صحت کو ثابت کیا جائے۔ حافظ صاحب کے موقف سے اختلاف ممکن ہے مگر ان کے موقف کی صحیح روح کو سمجھنے کے بعد ہی یہ اختلاف فائدہ مند ہے۔ بصورت ِدیگر خلط ِمبحث ہوجائے گا۔
خلاصہ
اس ساری بحث کو سمیٹا جائے تو مندرجہ ذیل اُمور ہمارے سامنے آتے ہیں:
1۔ افراط ِزر کا مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے او راس کا قباحتوں سے پاک شرعی حل تلاش کرنا ہوگا۔
2۔ اس مسئلے سے نپٹنے کے لئے اب تک جو طریقے سامنے آئے ہیں وہ ناقابل عمل ہیں، کیونکہ:
(الف) وہ حضرات جو کاغذی کرنسی کو ثمن حقیقی قرار دیتے ہیں، ان کی طرف سے تو اس مسئلے کا کوئی حل پیش ہی نہیں کیا گیا۔
(ب) وہ حضرات جو نظریہ بدل کے قائل ہیں ان کا حل تھیوری سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے اور موجودہ نظام میں اس کا آگے بڑھنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
(ج) باقی رہ گیا اشاریہ بندی کے ذریعہ اس کا حل، اس میں جو مفاسد ہیں وہ بالکل واضح ہیں۔
چنانچہ تمام تر سنگینی کے باوجود یہ مسئلہ بدستور اپنی جگہ قائم ہے۔ راقم کی ناقص رائے یہ ہے کہ اسلامائزیشن کے عمل (خواہ معیشت کے حوالے سے ہو یا سیاست کے حوالے سے) کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے جب تک ہم بحیثیت ِامہ مثبت قدم نہیں اٹھاتے، مسائل کا حل ممکن نہیں۔ اس وقت ہمارا طریقہ کار پیوند کاری (Grafting) کا رجحان لئے ہوئے ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت کے شجر خبیثہ میں کیسی ہی پاک اور مبارک قلم کی پیوند کاری کیوں نہ کی جائے، مثبت نتائج کی توقع رکھنا عبث ہے۔ کیونکہ اس نظام کا بنیادی استعارہ ...استحصال ہے اور رہے گا !!
حوالہ جات
۱۔ پال اے سموئل سن، اکنامک، ۱۹۹۲ء ،سنگاپور، ص ۷۳۸
۲۔ جے ایل ہانسن، ڈکشنری آف اکنامکس اینڈ کامرس، پانچویں اشاعت، لندن، ص۲۵۵
۳۔ ڈاکٹر عبداللہ بن سلیمان بن منیع، کاغذی کرنسی کی تاریخ، ارتقائ، شرعی حیثیت، ۱۹۹۸ئ، کراچی، مبحث خامس
۴۔ مجموعہ سفارشات سیمینار بابت اشاریہ بندی اور اسلامی معیشت پر اس کے اثرات، اپریل ۱۹۸۷ء
۵۔ محمودالرحمن فیصل بنام سیکرٹری منسٹری آف لائ، پی ایل ڈی ۱۹۹۲ء ، ص۱۵۲ سے آگے
۶۔ محمد طاہر منصوری، فکر ونظر، ج۳۳ شمارہ ۲۵، اکتوبر؍ دسمبر ۱۹۹۵ئ، ص۶۸،۶۷، استادِ محترم منصوری صاحب نے تفصیلی حوالہ جات نقل کئے ہیں۔
۷۔ محولہ بالا
۸۔ مثال کے طور پر دیکھئے:مجموعہ سفارشات سیمینار برائے اشاریہ بندی ۱۹۸۷ئ، اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ کی قراردادیں (۱۹۹۴ـ ئ؍ ۱۹۹۵ئ) اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی رپورٹ ۱۹۸۰ئ، اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے مذکورہ موضوع پر خصوصی سیمینار کی روداد
۹۔ پی ایل ڈی ۱۹۹۲ء ، ص۱۳۰ نیز حسن الزماں، اشاریہ بندی، ایک اسلامی نقطہ ٔنظر، جریدہ برائے اسلامی معیشت، ج۲، شمارہ ۲، ص۴۹
۱۰۔ محمد طاہر منصوری، فکرونظر، ج۳۳، شمارہ ۲، اکتوبر؍ دسمبر ۱۹۹۵ئ، ص۶۸
۱۱۔ مجموعہ سفارشات سیمینار بابت اِشاریہ بندی اور اسلامی معیشت پر اس کے اثرات، اپریل ۱۹۸۷ء
۱۲۔ محمد فہیم خان، قرضوں کی اشاریہ بندی، اسلامی نقطہ ٔ نظر سے چند نظری مباحث (انگریزی) پیش کردہ برائے سیمینار بابت اشاریہ بندی (۱۹۸۷ئ) ص ۲۵
۱۳ـ۔ محمود احمد شیخ، سود کی متبادل اَساس، ادارہ ثقافت ِاسلامی، لاہور، ۱۹۹۱ئ، ص۸۳
۱۴۔ پی ایل ڈی، ۱۹۹۲ء ، ص۱۳۱
۱۵۔ محمود احمد شیخ، سود کی متبادل اَساس، لاہور ۱۹۹۱ئ، ص۲۷
۱۶۔ منور اقبال، مقالہ پیش کردہ برائے سیمینار بابت اشاریہ بندی اور اسلامی معیشت (۱۹۸۷ئ) ص۳۲