سُود کیا ہے؟...کیا تجارتی سود بھی حرام ہے؟

(مختلف اعتراضات ؍شبہات کی وضاحت)


گذشتہ دنوں جب والد ِگرامی مولانا عبد الرحمن مدنی سپریم کورٹ کے معاون کی حیثیت سے عدالت میںپیش ہوتے رہے تو سود کے بارے میں مختلف مجالس میں شرکت کاموقعہ ملا، مختلف اعتراضات اور ان کی وضاحتیں سامنے آئیں۔ محدث کے مضامین کی تیاری اور ایڈیٹنگ کے دوران بھی اس موضوع پر سوچنے کا موقعہ میسر آیا۔ شروع میں تو کوئی ایسا پروگرام نہیں تھا کہ اس موضوع پر لکھا جائے لیکن محدث کی تکمیل کے دوران ہی اس امر کا احساس شدید ہوتا گیا کہ متعدد نکات ایسے ہیں جو ترتیب اور جدید اُسلوب میں ڈھلنے کے متقاضی ہیں۔ گو کہ ان کے بارے میں علماء عرصہ دراز سے لکھتے آرہے ہیں اور مستقل کتب بھی موجود ہیں لیکن سود نمبر کی جامعیت اور بہتر ترتیب کی غرض سے میں نے بھی اس کارِخیر میں حصہ لینا سعادت خیال کیا۔

یہ مباحث بڑے دقیق ہیں او ران میں درست رائے اپنانا بڑی علمی بصیرت کا متقاضی ہے۔ اس لئے عین ممکن ہے کہ بعض مقامات پر مجھ سے غلطی ہوگئی ہو جس کے لئے میں اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہوں... (حسن مدنی)

ربا کی تعریف

رِبا عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی زیادتی، بڑھوتری اور اضافہ کے ہیں۔ اُردو زبان میں اس کے لئے سود کا لفظ استعما ل کیا جاتا ہے ،۱ سی سے ہی سودو زیاں ( نفع و نقصان )کالفظ بھی استعمال ہوتاہے۔ انگریزی میں Interest اور Usury ربوا کے ہم معنی ہیں۔

شریعت کی اصطلاح میں سود کی تعریف؍مراد

''وہ مشروط اضافہ ہے جو معاہدئہ لین دین میں بغیر کسی حق کے حاصل کیا جاتا ہے'' (۱)

قرآ نِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿قالوا إِنَّمَا البَيعُ مِثلُ الرِّ‌بو‌ٰا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا...٢٧٥﴾... سورة البقرة

''سود خور وں نے کہاکہ سود اور تجارت ایک ہی چیز ہیں جبکہ اللہ نے بیع (کے اضافے) کو تو حلا ل کیا ہے اور سود کے اضافہ کو حرام کیا ہے''

تجار ت اور سود میں فرق

اس آیت ِکریمہ کے منشا ومرادتک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ بیع او رسود کے اضافہ میں فرق کا جائزہ لیا جائے کہ آخر کس بنیاد پر بیع کا منافع تو جائز ہے اور سود کا اضافہ جائز نہیں۔ یہ فرق درج ذیل ہیں:

(1) تجارت میں نفع کا حصول یقینی نہیں ہوتا بلکہ نفع کے ساتھ نقصان کا بھی امکان ہوتا ہے جبکہ سود کی صورت میں یہ نفع ؍اضافہ لازمی ہوتا ہے اور سود دینے والے کو اس اضافے کے حصول میں کسی رِسک( خطرے )سے دو چار نہیں ہونا پڑتا۔

(2) تجارت کی صورت میں کسی جنس کو نقدی کے بدلے خریدا یافروخت کیا جاتا ہے اور اس جنس کی تیاری میں انسانی قوتیں صرف ہو کر اس کو قابل فروخت بناتی ہیں اور حاصل ہونے والا نفع دراصل اِن انسانی کاوشوں کا ثمرہ ہوتا ہے۔ جبکہ سود کی صورت میں رقم(Money)کا رقم سے سودا ہوتا ہے اور حاصل ہونے والا فائدہ صرف رقم کو مخصوص مہلت کے عوض دینے پر حاصل کیا جاتا ہے۔

(3) تجارت میں یہ معاہدئہ لین دین عموماًمختصر مدت کے بعد ختم ہوجاتا ہے جبکہ سود کی صورت میں طویل عرصے بلکہ لامحدود مدت کے لئے جاری رہتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے صفحہ۲۰۱ )

مشروط اِضافہ

شریعت کی نظر میں صرف اسی اضافے کو سود کہاجائے گاجس کے حصول کا قرض دینے والے کو پہلے یقین ہوجائے۔ اور اگر کسی اضافے کی شرط نہیں کی گئی اور مقروض ادائیگی کے وقت مرضی سے کوئی اضافی مال یا تحفہ دے دیتا ہے تو وہ سود میں شمار نہیں ہوگا۔ اصل قرض سے زیادہ دینا نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے جبکہ سود کا شبہ پڑنے یا رواج پاجانے کا خطرہ نہ ہو اور اس کو حسن قضاء الدین کہا جاتا ہے جس کی نبی اکرمﷺ نے تعریف کی ہے۔ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ

''نبی اکرمﷺ نے ایک شخص سے اونٹ قرض لیا۔ جب وہ شخص اپنا اونٹ واپس لینے آیا تو آپ نے صحابہ ؓ کو وہ اونٹ دینے کو کہا۔ صحابہ ؓ نے فرمایا کہ اس کے دیئے اونٹ کی عمر کا اونٹ تو موجود نہیں، اس سے بڑی عمر کا (بہتر) اونٹ موجود ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہی دے دو، کیونکہ تم میں وہ شخص بہتر ہے جو قرض اچھی طرح ادا کرے۔ '' (صحیح بخاری:باب حسن القضاء )

اسی طرح صحیح بخاری کی ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جابر بن عبداللہ ؓسے ان کا ایک اونٹ ادھار پرخریدا اور ادائیگی کے وقت مقررہ قیمت سے کچھ زیادہ ادا کیا۔(صحیح بخاری: ایضاً)

٭ بعض لوگوں نے قرض کی ترغیب دینے کے لئے یہ تجویز پیش کی ہے کہ حکومتی اور عوامی سطح پر قرض کی ادائیگی کے وقت تحفہ دینے کو رواج دیا جائے۔ لیکن شریعت کی رو سے اس کی اجازت نہیں ہے بلکہ یہ سود کو جائز کرنے کا حیلہ ہے۔ کیونکہ شرعی قاعدہ ہے کہ المعروف کالمشروط ''وہ شے جس کا رواج بن جائے وہ بھی شرط کے حکم میں ہی ہوتی ہے'' چنانچہ قرض دینے والے کے ذہن میں اگر کسی بھی قسم کا فائدہ حاصل کرنے کا کوئی امکان ہو چاہے قرض دار کی عادت کے طور پر یا رواج کے طور پر تو یہ قرض پر اضافہ کے ضمن میں ہی آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مقروض سے تحفہ وصول کرنے سے منع کرتے ہوئے اسے رِبا قرار دیا ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں:

«اِذَا اَقْرَضَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فَلاَ یَاْخُذْ ھَدِیَّة» (بخاری في تاریخه)

''جب کوئی شخص دوسرے شخص کو قرض دے تو اُس سے تحفہ قبول نہ کرے''

ایک او رحدیث میں کسی شخص کی دوسرے سے نیکی (مثلاً سفارش) کرنے پراسے تحفہ دینے کو آپ نے سود کاعظیم دروازہ کھولنے کے مترادف قرار دیا ( صحیح سنن أبو داود:باب في الهدیة لقضاء الحاجة)

رسول اللہﷺ نے حضرت جابر کو اونٹ کی ادائیگی میں جو مال زیادہ دیا تھا، اس کا نہ اعلان ہوا تھا اور نہ حضرت جابر ؓکے علم میں یہ تھا کہ مجھے مقررہ قیمت سے زیادہ بطورِ احسان ملے گا۔

٭ بعض لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اضافہ اگر بہت زیادہ ہو تو حرام ہے لیکن اگر مناسب یا کم ہو تو جائز ہے۔ جبکہ شریعت میں قرض پر اضافے کی کمی بیشی کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ یہ اُصول ہے: ما أسکر کثیرہ فقلیله حرام ''جس کا زیادہ حرام ہو، اس کا قلیل بھی حرام ہے'' (جامع ترمذی) شراب کا ایک گھونٹ بھی ویسے ہی حرام ہے جیسا چھلکتا ہوا جام۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:

''سود کا ایک درہم جو آدمی کھاتا ہے اور وہ اس کے سودی ہونے کا جانتا ہے ، گناہ میں زنا سے ۳۶ گنا زیادہ سنگین ہے'' (مسند احمد، دارمی بحوالہ مشکوٰۃ: کتاب البیوع)(۲)

ایک اور حدیث میں نبی اکرم کا یہ فرمان بھی آیا ہے:

''سود کے اگر سو حصے بھی کئے جائیں تو اس کا کمترین حصہ بھی (گناہ میں) اپنی ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے'' (ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ: کتاب البیوع)

معروف فقیہ ابن عبد البر مالکی (م ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں:

''مسلمانوں کا اپنے نبی کے کہنے پر اس امر پر اجماع ہو چکاہیکہ اُدھارپر اضافے کی شرط لگانا سود ہے اگرچہ وہ اضافہ ایک مٹھی گھاس ہو یا ایک دانہـ۔ '' (التمہید: ج۴، ص ۶۸)

اِس بحث کی وجہ در اصل یہ ہے کہ اہل مغرب نے اپنے ہاں مناسب شرح سود کو تو جائز قرار دیا ہوا ہے جسے وہ Interest کا نام دیتے ہیں جبکہ زیادہ ؍ظالمانہ شرح سود کو وہ معاشرتی جرم سمجھتے ہیں اور اس کے اِنسداد کے لئے باقاعدہ قوانین موجود ہیں، اس کا نام انہوں نے Usury رکھا ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے اہل مغرب کا یہ صرف ایک لفظی دھوکہ ہے ورنہ انٹرسٹ اور یوژری میں کوئی فرق نہیں کیونکہ مناسب شرح سود کا آج تک تعین نہیں کیاجاسکا۔ جس جگہ وہ سود کو جائز قرار دینا چاہیں تو اسے انٹرسٹ کہہ لیتے ہیں اور جہاں سود سے ان کے زور آور طبقات کے مفادات پر زد پڑتی ہو وہاں اسے یوژری کا نام دے دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ شرح سود ۲ فیصد بھی ظالمانہ ہوتی ہے اور بعض اوقات ۲۹ فیصد بھی مناسب، اسی طرح ایک ہی وقت میں ایک ہی شہر میں مختلف مقاصد کیلئے حاصل کئے جانے والے قرضوں پر سود کی شرح میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ (دیکھئے ص ۱۷۹ ) اسلامی شریعت کی رو سے شرح سود میں کمی بیشی کا کوئی اعتبار نہیں ۔

٭ بعض لوگ قرآنِ کریم کی آیت ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلُوا الرِّ‌بو‌ٰا أَضعـٰفًا مُضـٰعَفَةً...١٣٠﴾... سورة آل عمران" سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں سود مرکب کو حرام کیا گیا ہے یعنی سود در سود کو جبکہ سود مفرد حرام نہیں ہے...یہ استدلال درست نہیں ہے ـ۔قرض پر سود کی مختلف شکلیں ہیں:

(1) پہلی شکل یہ ہے کہ مقروض ایک سال کے بعد قرض ادا کردے تو کوئی اضافہ دینا ضروری نہیں ہوگالیکن اگر اس مخصوص مدت کے بعد ادائیگی نہ کی جاسکی تو تب اس پر اضافہ دینا لازمی ہوگا۔

(2) سود مفرد: یعنی مال کو اس شرط پر قرض دیا جائے کہ ادائیگی کے وقت اس میں اضافہ کرنا ہوگا۔

(3) سود مرکب: اگر طے شدہ مدت پر ادائیگی ہوگئی تو اس میں مخصوص اضافہ دینا ہوگا۔ اور اگر طے شدہ مدت پرادائیگی نہ کی جاسکی تو اس رقم میں سود شامل کرکے سرمایہ پر مزید ہر سال یا مخصوص مدت گزرنے پر مخصوص اضافہ مسلسل ہوتا رہے گا۔ یہ سود در سود یا سود مرکب کہلاتا ہے۔

(4) ایک شخص نے دوسرے سے ایک شے ۱۰۰ روپے میں خریدی اور۳ ماہ بعد قیمت کی ادائیگی کا وعدہ کرکے اس کو تحریر وصولی (پوسٹ ڈیٹ چیک یا ہنڈی وغیرہ) لکھ دی۔ اگر بیچنے والا طے شدہ مدت سے پہلے اپنی رقم وصول کرناچاہے تو بنک (یا متعلقہ ذمہ دار) اس کو ۹۰ روپے یا کچھ کٹوتی کرکے ادا کردے۔اس کو 'ڈسکائونٹ ' کا نام دیا جاتا ہے او راس میں معاملہ برعکس ہوتاہے۔

شریعت کی رو سے یہ سب صورتیں اور اس کے علاوہ ہر مشروط اضافہ سود کے ضمن میں آتا ہے، اور سب ہی حرام ہیں،قرآنِ کریم میں اللہ فرماتے ہیں:﴿وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُ‌ءوسُ أَمو‌ٰلِكُم...٢٧٩﴾... سورة البقرة ''اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے لئے صرف تمہارے اپنے مال حلال ہیں''

امام بغوی ؒاور قاضی ابن العربی ؒفرماتے ہیں:

''ربا عربوں میں ایک معروف چیز تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ وقت مقررہ تک قرض کا کوئی معاملہ کرتا، مدت پوری ہونے پر مقروض مزید مہلت طلب کرتا تو اس کے عوض قرض کی مالیت میں اضافے کا وعدہ کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی سود کو حرام کردیا'' (معالم التنزیل:ج۱،ص۳۱۴؍ اَحکام القرآن:ج۱، ص۳۲۰،۳۲۱ )

اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرض دینے یا مال پر ہونے والا ہر ایک اضافہ حرام ہے چاہے وہ سود مفرد کی شکل میں ہو یا مرکب کی صورت ۔ جہاں تک قرآن کریم کی آیت ﴿أَضعـٰفًا مُضـٰعَفَةً﴾ سے استدلال کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ قرآن کریم کی اس آیت میں قرض دینے والوں کی عام عادت کا ذکر کیا جارہا ہے کہ عموماً قرض دینے والے سود در سود کی طرز پر قرض دیتے ہیں نہ کہ اس کو بطورِ شرط بیان کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر یہی اسلوبِ بیان موجود ہے جیساکہ سورۂ نور:۳۳ میں ﴿وَلا تُكرِ‌هوا فَتَيـٰتِكُم عَلَى البِغاءِ إِن أَرَ‌دنَ تَحَصُّنًا﴾ ''اپنی لونڈیوں کو زنا پر مجبور نہ کرو ،اگر وہ پاکدامن رہنا چاہتی ہوں'' میں 'اگر وہ پاکدامن رہنا چاہتی ہوں' کا جملہ بطورِ شرط کے نہیں کیونکہ زنا زبردستی سے کروایا جائے یا مرضی سے ، ہر دو کے قبیح جرم ہونے میں کوئی شبہ نہیں،قرآنِ کریم میں ہے: ﴿وَلا تَقرَ‌بُوا الزِّنىٰ ۖ إِنَّهُ كانَ فـٰحِشَةً وَساءَ سَبيلًا ٣٢﴾... سورة الاسراء ''زنا تو کھلی بے حیائی ہے ، اس کے قریب بھی مت جائو، یہ برائی کا راستہ ہے''

ربا کی تعریف میں بعض نکات کی طرف اشارہ

''معاہدئہ لین دین میں بغیر کسی حق کے حاصل کئے جانے والے مشروط اضافے ''کو ربا کہا جاتا ہے

... معاہدئہ لین دین کے ذریعے صرفی قرض کے سود کے ساتھ تجارت کے سود کو بھی شا مل کیا گیا ہے کیونکہ قرآن مجید کی رو سے تجارتی سود بھی حرام ہے(دیکھیں ص ۵۵)

... بغیر کسی حق سے مراد یہ ہے کہ مال میں اضافہ صرف کسی حق کی بنیاد پر لینا درست ہے۔ بعض لوگوں نے یہاں ''بغیر عوض'' کا لفظ بھی استعمال کیا ہے لیکن درحقیقت حق کا لفظ، عوض سے زیادہ جامع ہے کیونکہ کچھ لوگ مال میں اس اضافے کو وقت کا عوض قرار دیتے ہیں کہ'' میں فلاں شخص کو اتنے وقت کے عوض مال دینے کی بنا پر مال میں اس قدر اضافہ کا تقاضا کرتا ہوں''۔ وقت کو عوض قرار دینے کا حیلہ درست نہیں کیونکہ معاوضہ صرف اسی شے کا درست ہے جس کا انسان مالک ہو اور وقت انسان کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور اسلام کی نظر میں روشنی،ہوا،اور پانی کی طرح وقت بھی اللہ کی ایک عمومی نعمت ہے۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا:

«لاَ تسبُّوا الدَّھر فإن اللہ هو الدهر»ر( صحیح مسلم : باب النهي عن سبِّ الدهر)

''زمانے (وقت)کو گالی نہ دو ،کیونکہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ زمانہ ہیں''

چنانچہ زریا کسی بھی جنس کو صرف کچھ وقت کے عوض دینے پر اس میں اضافہ حاصل کرنا حرام ہے۔کسی چیز سے فائدہ اٹھانے کا معاوضہ لیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ چیز قابل استعمال ہو ۔اگر کوئی شے قابل استعمال نہیں تو اس کو صرف کچھ عرصہ دوسرے کے پاس رکھنے کے عوض فائدہ حاصل کرنا شریعت کی نگاہ میں حرام ہے۔بظاہر یہ ایک بڑا باریک نکتہ ہے لیکن یہ سود کی حرمت کا اور اسلام کے اقتصادی نظام کااہم ترین نکتہ ہے۔اسی نکتہ کو سمجھ لینے سے سود اور کرائے میں جوہری فرق بھی واضح ہو جائے گا۔بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جس طرح مختلف اشیاء کا کرایہ لینا اسلام میں جائز ہے ، اس طرح سود بھی تو نقدی کا کرایہ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اسلام اشیاء ؍اجناس کے کرائے کو تو جائز قرار دیتا ہے او رنقدی کے کرائے کو حرام ۔ ذیل میں اسی سوال کی وضاحت پیش کی جاتی ہے:

سود او رکرائے میں فرق

کرایہ وقت گزرنے کا نہیں بلکہ کسی شے سے استفادے کاہوتا ہے:ہرشخص وہی سامان ،جنس یا انسان کی مزدوری کرائے ؍اجرت پر لیتا ہے جس سے اسے کچھ فائدہ اٹھانے کا امکان ہو ۔مثال کے طور پر بے کار گاڑی ،بنجر زمین ،ناقابل رہائش مکان کو کوئی شخص کرایہ پر نہیں لے گا نہ ہی بے ہنر اور نکمّے آدمی کو اُجرت پر حاصل کرے گا ۔ درحقیقت ہر شخص کرایہ شدہ یا اُجرت شدہ چیز کو کسی مفاد یا استعمال کے لئے حاصل کرتا ہے اور وقت کے ذریعے اس استفادے کی پیمائش کرتا ہے ۔چنانچہ آجر اپنے فائدہ ؍ استعمال کے عوض کرایہ ؍ اجرت ادا کرتا ہے نہ کہ وقت کے عوض۔وقت صرف پیمائش کا ایک ذریعہ ہوتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ سارا دن کام کے بجائے فارغ بیٹھ رہنے والے آدمی کو دیہاڑی کی اُجرت نہیں دی جاتی۔اسی طرح اگر کوئی اوزار یا آلہ کرائے پر حاصل کیا جائے اور وہ کسی خرابی کی بنا پر کام نہ کرے تو اگلے دن اَوزار کے مالک کو یہ کہا جاتا ہے (جس کا مشاہدہ ہمیں آئے روز ہوتا رہتا ہے) کہ ''اس آلہ نے کام نہیں کیا'' جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں اس کے کرائے کا پابند نہیں اور ہمیں علم ہے کہ اس امر کی جانچ پڑتال کے بعد اگر واقعتا وہ آلہ کام کے قابل نہ ہو تو اس کا مالک کرایہ وصول نہیں کرتا۔ اس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ کرایہ ؍اُجرت وقت کے عوض نہیں بلکہ فائدہ کے عوض ہوتی ہے۔ اور جو شے بے فائدہ ہو اس کا کرایہ نہیں ہوتا جبکہ سود کی صورت میں قرض دینے والا اپنے زَرکو کچھ عرصہ دینے کے عوض فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔مزید وضاحت کے لئے سود اور کرائے میں فرق نکات وار درج کئے جاتے ہیں:

(1) روپیہ بذات ِخود قابل استعمال شے نہیں جبکہ باقی اَجناس قابل استعمال ہوتی ہیں۔روپیہ اپنی اصل حیثیت میں رہتے ہوئے کوئی فائدہ دینے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا ،نہ اسے کھایا جاسکتا ہے، نہ پہنا جاسکتا ہے اور نہ اس میں رہائش رکھی جاسکتی ہے۔ کرنسی کا تو ایک ہی مصرف ہے کہ اس سے کچھ خریدا جائے اور اس خریدی ہوئی چیز سے استفادہ کیا جائے۔غرضکرنسی کا بنیادی وظیفہ قابل فائدہ ہونا نہیں بلکہ مفید شے کو خریدنے کی صلاحیت رکھنا ہے ۔(۳) چنانچہ بالفرض اگر سونا چا ندی کی صورت میں کرنسی زیور کی شکل میں آجائے تو زیور سے چو نکہ (زیب وزینت کا) فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے،اس لئے زیور کا کرایہ درست ہوگا۔ مزیدوضاحت کے لئے ہمیں کرنسی ؍مال کے بنیادی وظائف کو سا منے رکھنا ہوگا۔بنیادی طور پر کرنسی تین مقاصد کے لئے رواج پایااور ارتقائی شکل اختیارات کرتے کرتے موجودہ کرنسی کی شکل کو پہنچا۔کرنسی کا تمام ارتقاء بھی انہی تین نکات کے گرد گھو متا ہے:

(i)کسی شے کی حقیقی قدر کے تعین کے لئے

(ii) درمیانی واسطہ کے طور پر: مختلف اجناس میں تبادلہ ہر وقت ممکن نہیں ہوتا،ہر ہر شخص کو اپنی مطلوبہ جنس وقت پر بآسانی میسرنہیں آتی،ایک درمیانی ذریعہ ؍واسطہ ضروری تھا کہ اس کی مدد لیکر اپنی چیز کو فروخت کرکے معاشرہ کی ضروریات کے مجموعی حجم میں شامل کیا جائے او راس کی قیمت وصول کر لی جائے اور اس قیمت کے ذریعے اپنی مطلوبہ جنس سے ضرورت پو ری کر لی جائے۔

(iii) کرنسی کے لئے محفوظ ہونے اور آسان نقل و حمل کی صلا حیت رکھنا بھی ضروری تھا کیونکہ انسانوں کی ضروریات ایک مخصوص علا قہ میں پوری نہیں ہو تیں ،بعض علاقے اگر اچھی فصلیں پیدا کرتے ہیں تو دوسرے مقامات پر بہتر ہنر مند ؍کاریگر دستیاب ہیں ۔ چنانچہ اجناس کو محفوظ صورت میں منتقل کرنے اور آزادانہ نقل وحمل میں آسانی کیلئے کرنسی کا نظام وجود میں آیا ۔(پال اے سیموئل سن)

ان تین مقاصد کے علاوہ کرنسی کا کوئی چوتھا مقصد ابھی تک انسانی شعور نے قبو ل نہیں کیا۔ گوکہ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے چار بنیادی ذرائع پیداوار میں مال ؍کرنسی کو شامل کر کے اس کوذریعہ پیداوار بنایا او راس کا حاصل سود(۴) کو قرار دیا ہے لیکن یہی سرمایہ دارانہ نظام میں مالیاتی طبقاتی تقسیم کی بنیاد ہے اور آج تک سلیم الذہن انسان اس کو قبول نہیں کر سکے ۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا رقم؍کرنسی بذاتِ خود عامل پیداوارہے یا نہیں؟علم معاشیات کی روسے بھی زر کے بنیادی وظائف میں یہ بات شامل نہیں جیسا کہ معروف ماہر معاشیات پال اے سیموئل سن نے کرنسی کا ذریعہ پیداوار ہونا تسلیم نہیں کیا۔اوراسلام کی نظر میں بھی کسی جنس ؍قابل استعمال شے کا توکرایہ لیا جاسکتاہے جبکہ اشیاء کے حصول کے ایک وسیلہ (زَر) کا کرایہ لینا درست نہیں۔ کیونکہ کرایہ استفادے کا لیا جائے نہ کہ صرف وقت گزرنے کا ! ...معروف فلسفی ارسطو اپنی کتاب السیاسۃ میں لکھتا ہے:

''پیسہ فطری طور پر بنجر ہے۔ اور پیسے کا پیسے کو جنم دینا ایک بالکل غیر فطری عمل ہے۔لہٰذا پیسے پر سود وصول کرنا قابل تحقیر ہے... پیسے کابنیادی مقصد تبادلہ اشیاء ہے نہ کہ سود کے ذریعے بڑھنا۔ سود میں نقد کو استعمال کی شے بنایا جاتاہے جو اس کی طبیعت کے خلاف ہے، نقد اس لئے وجود میں لایا گیاہے کہ وہ مبادلے کا ذریعہ بنے۔'' (بحوث فی الربا از ابو زہرہ مصری)

بعض علماء نے اس لیے سود اور کرائے میں یہ فرق کیا ہے کہ سود کی صورت میں کرایہ شدہ زر کی ماہیت میں تبدیلی لانا ضرور ی ہے جس کے بغیر زَر سے فائدہ ہی نہیں اٹھایا جاسکتا ۔جبکہ کرایہ کی دوسری صورتوں میں اس کرایہ شدہ جنس میں تبدیلی لانا ضروری نہیں ہوتا۔

(2) قابل استفادہ چیز کے بارے میں یہ بھی اصول ہے کہ وہ استعمال سے کم ہوتی ہے ۔ چنانچہ قابل کاشت زمین، سواریاں ،رہائش ،مشینری میں استعمال کے بعد نقص واقع ہوتا ،جن کی تکمیل ان کا مالک حاصل شدہ فائدے سے کرتا ہے۔ اس طرح جاندار سے کام کروانے کی صورت میں بھی اس کو اپنا خونِ جگر جلانا پڑتا ہے او راپنی ضائع شدہ توانائی کی خوراک او ر جسمانی آرام کے ذریعے تلافی کرنا پڑتی ہے۔ چنانچہ حدیث ِنبویؐ میں ہے : «في کل ذات کبد رطبة أجر»

''ہر تر جگر والے کی محنت کا اَجر (بدلہ) ہے '' (صحیح بخاری: حدیث نمبر ۲۴۶۶)

بعض لوگ قابل کاشت زمین کے بارے میں اعتراض کرتے ہیں کہ ان میں کیا کمی واقع ہوتی ہے۔ تحقیق کی رو سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ فصل کے ساتھ زمین کی پیداواری صلاحیت میں بھی کمی ہوتی رہتی ہے (۵) جبکہ کرنسی چونکہ خود قابل استعمال شے نہیں، اس لیے اسے اپنی مکمل صورت میں ہی قرض دینے والا واپس حاصل کرلیتا ہے ۔ جس کااسے کوئی عوض بھی نہیں دینا پڑتا ۔

(3) کرایہ کی صورت میں کرایہ دار مالکانہ حقوق نہیںبلکہ استفادے کے حقوق رکھتا ہے ۔ ا ور ملکیت اصل مالک سے منسلک رکھتی ہے ۔ جبکہ مال کو کرائے پر دینے کی صورت میں ملکیت میں تبدیلی ہونا لازمی اَ مر ہے۔کیونکہ سود کی صورت میں قرضدار کرنسی میں کلی تصرف کا اختیار رکھتا ہے اور ایک مخصوص عرصے کے بعد ہی وہ کرنسی کی ادائیگی کا پابند ہوتا ہے۔ جبکہ کرایہ کی دوسری صورتوں میں کرایہ شدہ شے کی ملکیت اصل مالک سے منسلک رہتی ہے۔اور کرایہ دار اس شے میں کلی تصرف یا ہر قسم کی تبدیلی کا مجاز نہیں ہوتا۔ ... اس اعتبار سے درج ذیل نکات اس بحث سے نکلتے ہیں :

(1) اسلام کی رو سے سرمایہ ذریعہ پیداوار نہیں ۔

(2) وقت کی اُجرت لینا حرام ہے کیونکہ اللہ کی دوسری نعمتوں روشنی اورہواکی طرح یہ بھی ایک عمومی نعمت ہے جس میں سب بغیر کسی معاوضے کے شریک ہیں۔

(3) کرایہ ؍اجرت کسی قابل فائدہ شے کا ہوتا ہے ،چاہے وہ بے جان چیز سے فائدہ ہو یا جاندار سے !

(4) فائدہ اٹھانے کے عوض شے میں کمی واقع ہوتی ہے جس کے تلافی کے لیے کرایہ ، اجرت حاصل کی جاتی ہے ۔ ( کرائے او راجرت میں تلافی کے علاوہ نفع کاپہلوبھی موجود ہوتا ہے)

(5) سرمائے سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس کی ماہیت بدلنا ضروری ہے ۔

(6) کرایہ میں مالکانہ حقوق مالک کے پاس رہتے ہیں جبکہ سود میں قرضدار مال میں آزادانہ تصرف کا اختیار رکھتا ہے ۔

(7) علم معاشیات کی رو سے بھی کرنسی کے وظائف ؍مقاصد میں ذریعہ پیداوار ہونا شامل نہیں ۔

اس بحث سے اس سوال کا جواب باسانی مل سکتا ہے کہ اسلام نے کرایہ کو کیوں جائز قرار دیا ہے اور سود کو کیوں حرام۔ اور ہر دو میں کون سے وہ بنیادی فرق ہیں جن کا شریعت نے لحاظ رکھا ہے...

ربا الفضل

قرض پر سود (ربا النسیئة) تو ربا کی وہ معروف صورت ہے جس میں قرض پر کوئی مشروط اضافہ حاصل کیا جاتا ہے۔ یہی وہ صورت ہے جو اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب ، معاشروں اور دانشوروں کے ہاں زمانہ قدیم سے حرام سمجھی جاتی رہی ہے۔ یہ ربا کی واضح ترین صورت ہے جبکہ شریعت ِمحمدی ؐنے ربا کی ایک اور صورت بھی متعارف کرائی ہے جسے ربا الفضل کہا جاتا ہے۔ ربا الفضل کے بارے میں نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے: (بروایت ِحضرت ابوسعید خدریؓ) (صحیح مسلم: حدیث نمبر ۱۵۸۴)

''سونا سونا کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے (ان کا سودا)برابربرابر اور نقد و نقد کرنا جائز ہے۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا تو اس نے سودی معاملہ کیا۔ لینے اور دینے والا اس میں برابر ہیں''

ذخیرئہ احادیث میں ربا کی پہلی صورت یعنی ربا النسیئۃ کے حوالے سے تقریباً ڈیڑھ سو احادیث ملتی ہیں جبکہ ربا الفضل کے بارے میں آنے والی احادیث کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے، جس میں اس کی مختلف صورتوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس اعتبار سے یہ احادیث متواتر کا درجہ رکھتی ہیں، یاد رہے کہ متواتر حدیث کسی شرعی حکم کو ثابت کرنے میں علما ء کے متفقہ موقف کے مطابق قرآن کی طرح ہی قطعی ہوتی ہے۔

ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ بالا مخصوص اَجناس کااسی جنس سے سودا کیا جائے تو دو شرطیں ملحوظ رکھنا ضروری ہیں:

(1) سودا نقد و نقد ہو۔یعنی ادھار کی صورت میں نہیں بلکہ ہاتھوں ہاتھ ہونا ضروری ہے۔

2) دونوں اَجناس کے وزن میں بھی برابری ضروری ہے۔

٭ اگر ان اجناس میں ایک جنس کا غیرجنس سے سودا ہو تو تب وزن میں کمی و بیشی تو ہوسکتی ہے لیکن نقد ہونا ضروری ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :

«فإذا اختلفت ھذہ الأصناف فبیعوا کیف شئتم إذا کان یدا بید»

''پھر اگر جنس مختلف ہو جائے تو جیسے چاہو لین دین کر لو، بشرطیکہ یہ تبادلہ دست بدست یعنی نقد و نقد ہو'' (صحیح مسلم : حدیث ۱۹۷۰)

اگر دونوں میں سے ایک شرط بھی ساقط ہوجائے تو یہ سود کا معاملہ ہوگا اور سود کی مذمت میں وارد جملہ مناہی کی زد اس پر پڑے گی۔ بعض احادیث میں چاندی کی جگہ ورق (چاندی کا سکہ) اور بعض احادیث میں منقیٰ (ساتویں جنس) کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ اسی طرح بعض روایات میں طَعَام کا لفظ بھی آیا ہے۔

کیا رباالفضل صرف چھ اَجناس میں حرام ہے؟:اس بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے صفحہ ۸۶) اگر بنظرعمیق ان اَجناس کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں دو جنسیں(سونا چاندی) تو وہ ہیں جو عموماً ثمن کی بنیاد ہوتی ہیں اور باقی تین اَجناس (گندم، کھجور، جو اور بعض احادیث کے مطابق منقیٰ ) وہ ہیں جو قُوت یعنی مختلف معاشروں میں خوراک کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔ جبکہ چھٹی جنس (نمک) وہ ہے جو خوراک کو جزوِبدن بناتا ہے۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان اَجناس میں ثمن اورقوت ہونے کا عنصر حاوی ہے۔ خوراک ہونے کے غالب عنصر ہونے کو ہی بعض احادیث میں طعام کے مطلق لفظ سے تعبیر کیا گیاہے۔

معلوم ہوتاہے کہ ان کی بیع میں نقد و نقد او ربرابر برابر ہونے کی شرط لگا کر دراصل شریعت ان بنیادی ضرورت کی اَجناس کی دستیابی کو آسان ترکر نا چاہتی ہے۔ یعنی ان کو حاصل کرنے میں نوعِ انسانی کو زیادہ مشکلات اور خرید و فروخت کی پیچیدگیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ان کے سودے کی حدود پہلے ہی معین کردی جائیں۔شریعت کی یہی حکمت اس حدیث سے بھی واضح ہے، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

«المسلمون شرکاء في ثلاث:الما ء والنار والکلإ» ( أبو داود:باب في منع الماء)

''مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں :پانی، آگ اور گھاس ''

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی بہت سے بنیادی ضرورت کی چیزوں میں اگر کسی کے پاس فالتو شے ہو تو اسے تجارت کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ بنیادی ضرورت کی حد تک اسے دوسرے کا حق سمجھے ۔

ربا الفضل کے حرام ہونے کی حکمتیں:

(1) الغرض ربا الفضل صرف مخصوص اشیاء میں ہی حرام ہے اور وہ مخصو ص اشیاء (جن کی شریعت نے حد بندی کردی ہے) وہ ہیں جو غالباً ثمن یاقوت کی بنیاد ہوتی ہیں۔اور شریعت اس پابندی کے ذریعے ایسی اشیاء کی خرید وفروخت میں آسانی پیدا کرنا چاہتی ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ربا الفضل فی نفسہٖ بھی حرام ہے ۔جیسا کہ نبی کریم نے اس کو عین سود سے تعبیر کیا ہے۔ دیکھئے گذشتہ صفحے پرحدیث ِ مسلم او راگلے صفحہ پر حدیث ِابی سعید میں خط کشیدہ الفاظ)

(2) حضرت عمر فاروقؓ ان چھ اَجناس میں دو شرطوں کے ضروری ہونے کی یہ حکمت بھی قرار دیتے ہیں کہ ''تم اس کے ذریعے اصل سود میں مبتلا نہ ہوجائو'' چنانچہ شاہ ولی اللہؒ، حافظ ابن قیم ؒاور امام شاطبیؒ وغیرہ نے یہ کہا ہے کہ ''ربا الفضل کے حرام ہونے کی حکمت، دراصل حقیقی ربا کا راستہ بند کرنا ہے''

(3) عقلی طور پر یہ بات بڑی عجیب سی لگتی ہے کہ اعلیٰ قسم کی گندم کو کمتر درجہ کی گندم کے ساتھ برابر وزن میں ہی بیچا جائے ۔ چنانچہ نبی اکرمﷺ سے بھی صحابہ نے یہ سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس کا حل یہ ہے کہ ان کو پہلے درہم دینار کے عوض بیچ لیا جائے اور اس درہم و دینار کے عوض مطلوبہ گندم کی زیادہ یا کم مقدار حاصل کر لی جائے۔ اس سلسلے میں حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت ہماری رہنمائی کرتی ہے : (صحیح بخاری، کتاب البیوع)

''حضرت بلالؓ رسول اللہﷺ کے پاس برنی کھجور (اعلیٰ قسم) لائے۔ آپؐ نے پوچھا: کہاں سے لائے؟ کہا: ہمارے پاس ناکارہ کھجوریں تھیں، تو میں نے ایک صاع کے بدلے دو صاع کے حساب سے بیچ دیں۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ تو خالص سود ہے، یہ تو خالص سود ہے۔ ایسا مت کرو، ہاںجب ایسا ارادہ ہو تو اپنی کھجور الگ بیچو اور اس رقم سے دوسری کھجور خرید لو''

اس سے معلوم ہوا کہ شریعت ان بنیادی ضرورت کی اشیاء میں بالکل کھرے اور واضح لین دین کو رواج دینا چاہتی ہے یعنی اگر کسی جنس کو مال سے بیچ کردوسری جنس کو خریدا جائے گا تو اس سے ہر دو کی حقیقی قدر کا تعین ہوجائے گا اور کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہ رہے گی۔ کیونکہ کرنسی کا بنیادی وظیفہ یہ بھی ہے کہ وہ مال کی حقیقی قدر کا تعین کر دیتی ہے اور ایک جنس کے سودے میں اس کی قدر کا واضح تعین اور شک و شبہ کا کلی اِنسداد دَراصل اس جنس کی خریدوفروخت میں آسانی پیدا کردیتاہے۔ خرید و فروخت میں آسانی کا لازمی نتیجہ ان اَجناس کی آزادانہ اور وسیع تر خریدوفروخت میں نکلے گا۔

کیا ربا صرف اُدھار میں ہی ہوتا ہے؟ اوپر بیان کردہ بحث سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ربا الفضل بھی سود کے زمرے میں شامل ہے۔ احادیث ِنبویہ میں واضح الفاظ میںاس کو ربا شمار کیا گیا ہے (دیکھیں مذکورہ بالا حدیث میں خط کشیدہ الفاظ) ۔ آئندہ صفحات میں ہم واضح کریں گے کہ ربا الفضل کی زد میں کون کون سے سودی لین دین آتے ہیں ...عا م طو ر پر جن دلائل کے ذریعے ربا کو صرف ادھار کے سود تک محدود کیا جاتا ہے ، ذیل میں ان کی وضاحت پیش کی جاتی ہے :

(1) عام طور پر ربا کی تعریف «کلّ قرض جرّ منفعة فھوربا» (ہر ایسا قرض جو نفع کو لائے) کے الفاظ سے کی جاتی ہے اور انہیں حدیث ِنبوی باور کرایا جاتا ہے جبکہ اس کی سند میں سوار بن مصعب نامی راوی ضعیف ہے ۔ اس حدیث کی دیگر شواہد روایات بھی موجود ہیں جن کا جائزہ لینے پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نبی اکرمﷺ کے الفاظ نہیں بلکہ محمد بن سیرین ؒتابعی کا قول ہے یعنی حدیث ِمقطوع ۔ اسی طرح بعض صحابہ مثلاً فضالہ بن عبیدہ سے بھی اسی سے ملتے جلتے الفاظ مروی ہیں۔چنانچہ اس کو زیادہ سے زیادہ صحابی کا قول کہا جاسکتا ہے۔

یہ تو اس حدیث کے فرمان نبوی ہونے کی حقیقت ہے جہاں تک اس کے مفہوم کا تعلق ہے تو یہ ربا کی مکمل تعریف نہیں بلکہ ربا کے ایک حصے صرفی قرض کے سود تک محدود ہے۔

(2) اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس ؓکے قول «لاَ رِبَا اِلاَّ فِیْ النَّسِیْئَة» (بخاری: ج۱ ص۱۳۸) سے بھی یہ مغالطہ دیا جاتا ہے کہ آپ ؓصرف بصورت ِادھار سود کے قائل تھے۔ جبکہ عربی زبان میں ایسا اسلوب ِبیان معنی میں قوت پیدا کرنے کے لئے اور بیان کردہ امر کو اہمیت دینے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے﴿وَما مُحَمَّدٌ إِلّا رَ‌سولٌ﴾ محمدﷺ صرف اللہ کے رسول ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ آپ کی بہت صفات ہیں لیکن آپ کی صفت ِرسالت کا تسلیم کرنا ہی ایمان کا بنیادی تقاضاہے۔ اسی طرح حضرت ابن عباسؓ کے قول کا مطلب بھی یہ ہے کہ عموماً ادھار کی بنا پر لین دین میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ بعض روایات کی رو سے حضرت ابن عباس پہلے صرف ادھار سود کے قائل تھے پھر انہوں نے حضرت ابوسعید خدریؓ سے مذکورہ بالا حدیث سننے پر ربا الفضل کی حرمت بھی تسلیم کرلی اور اپنے قول سے رجوع کرلیاتھا۔( معجم کبریٰ طبرانی: ج۱ ص۲۷،۲۸؍ اضواء البیان: ج۱، ص۲۹۵ تا ۳۰۹)

إن ألفاظ کل قرض جرّ منفعة فھو ربا اور لا ربا إلا في النسیئة والی حدیث ِموقوف پر بنیا دی اعترا ض یہی واردہوتاہے کہ ان دونوںمیںربا کی صر ف ایک قسم یعنی ربا النسیئۃ یا صرفی قرض پر سودکو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔اگر ان کو ربا کی تعریف تسلیم کر لیا جائے تو ربا الفضل ان کے دائرے میں شامل نہیںہوتا (نہ ہی تجارتی سود اس کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ قَرض کا لفظ صرف ذاتی مقاصد کے لئے حاصل کئے جانے والے اُدھار کے لئے مخصوص ہے)۔ جب کہ نبی اکرم کے فرمان کے بموجب ربا الفضل بھی ربا میں شامل ہے... واضح رہے کہ علماء ِامت میں ان چھ اَجناس میں دو شرطوں کو ملحوظ رکھے بغیر لین دین کو ربا الفضل سمجھتے ہوئے حرا م ہونے پر اتفا ق رہا ہے ۔

ہمیں ربا الفضل کو ربا کی تعریف اور مباحث میں شامل کرنے پر اس لئے اصرار ہے کہ اس کے بغیر ربا کا دائرہ بہت محدود ہوجاتاہے جبکہ شریعت میں اس کا دائرہ کار وسیع اور اس کی ممنوعیت کی حکمتیں بہت زیادہ ہیں۔ جس میں ایک طرف ضرورت کی بنیادی اشیاء کی آسان اور سادہ بیع کی ترویج شامل ہے تو دوسری طرف ثمن یعنی کرنسی کے لین دین بھی اس میں شامل ہیں۔ رباالفضل کو شامل کرنے سے تجارتی سود لازماً ممنوعہ سود میں شامل ہوجاتاہے کہ رباالفضل کا تعلق ہی بیوع یعنی کاروبارسے ہے۔وہ لوگ جو ربا الفضل سے جان چھڑانا چاہتے ہیں ، دراصل وہ اس طرح تجارتی سود کو سند جواز بخشنے کی سعی ٔ نامشکور کا ارتکاب کرتے ہیں۔

بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ربا النسیئۃ (ادھار کا سود) تو ربا القرآن ہے۔ جبکہ ربا الفضل، ربا الحدیث ہے کیونکہ قرآن کریم میںصرف ادھار پر سودکی حرمت موجود ہے اورربا الفضل کی ممانعت صرف حدیث میں آئی ہے۔

یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں کیونکہ قرآن کریم میں ہر دو کی بنیادیں موجود ہیں، اسی طرح ربا النسیئۃ جس کو یہ لوگ رباالقرآن کہتے ہیں،کے بارے میں ڈیڑھ سو احادیث ملتی ہیں۔ قرآن کریم تو ہرقسم کے سود کو حرام قرار دیتا ہے جس میں صرفی (ذاتی ضرورت کے لئے) سود کے ساتھ ساتھ تجارتی سود بھی شامل ہے( دیکھئے ص۵۵)۔اسی طرح ربا الفضل میں بھی پہلی شرط یعنی نقدونقد ہونے کی شرط ربا النسیئۃ کی قبیل سے ہے اور برابر وزن ہونے کی شرط ربا الفضل کی بنیاد پر۔ شریعت قرآن اور حدیث ہر دو میں پھیلی ہوئی ہے اور دونوں ایک دوسرے کی تکمیل و توضیح کرتے ہیں۔ چنانچہ اس طرح کے دعوے صرف من مانی تاویلوں کی گنجائش نکالنے اور سود کے چور دروازے تلاش کرنے کے مترادف ہیں۔ علماء قرآن اور حدیث دونوں کو شرعی حکم کے ثابت کرنے میں برابر کا درجہ دیتے ہیں کیونکہ دونوں ہی شریعت اور وحی الٰہی ہیں۔ بالخصو ص اس وقت جبکہ کوئی حدیث ِنبوی متواتر کے درجے کو پہنچ جائے تو وہ شرعی حکم کے ثبوت میںقرآن کا سا درجہ رکھتی ہے اور قطعی الثبوت ہوتی ہے، جیساکہ پیچھے گزر چکا ہے۔

تجارتی سود ( کمرشل انٹرسٹ )


بعض دین بیزار لوگ جب شریعت میں سودکی اس قدر شدید حرمت اور مذمت پاتے ہیں تو عموماً درج ذیل اعتراضات کے ذریعے سود کے بارے میں شبہات پیدا کرتے ہیں:

(1) اسلام نے زیادہ شرح سود کو حرام کیا ہے جس میں قرض لینے والے پر ظلم ہوتاہے، جبکہ مناسب شرح سود (Interest) کو جائز قرار دیا ہے۔

یہ شبہ تو وہ لوگ پیدا کرتے ہیںجن کے ذہن پر مغرب کی اندھی تقلید کا بھوت سوار ہے۔ چونکہ وہ سود کے بارے میں اہل مغرب کا طرزِ عمل یہی دیکھتے ہیں، اس لئے اسلام سے بھی اس کو ثابت کرنا چاہتے ہیں ، جبکہ اسلام میںزیادہ اور کم شرح سود کے حرام ہونے میں کوئی فرق نہیں۔ اس شبہ کی وضاحت تفصیل سے پیچھے گزر چکی ہے( دیکھیں ص۴۴)

(2) بعض لوگ کہتے ہیں کہ عرب میں تجارتی سود کاوجود نہ تھا، صرف ذاتی حاجات کے لئے قرضے لئے جاتے تھے، اس لئے شریعت میں بھی انہیں ہی حرام کیا گیا ہے اسی طرح موجودہ بنکنگ کا نظام وغیرہ بھی جدید دور کی پیداوار ہے، اسلام میں بنکوں سے لئے جانے والے قرضوں کی حرمت کا کیسے ذکر ہوسکتا ہے؟

(3) قرآن کریم میں صرف ذاتی حاجات کیلئے حاصل کئے جانیوالے قرضے پر سود کی حرمت موجود ہے

اُصولی طور پر یہ اعتراضات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ سب میں قدرِ مشترک یہی ہے کہ کسی بہانے سے سود کی بعض صورتوں کو حلال کر لیا جائے اور اپنے ضمیر کے علاوہ دوسرے سادہ لوح مسلمانوں کو بھی دھوکہ دے کر سودی لین دین کو رواج دے دیا جائے۔

(1) کیا قرآنِ کریم میں تجارتی سود کا تذکرہ موجود نہیں؟

قرآن کریم میں سورۂ بقرہ (جہاں تفصیل سے سود کے بارے میں آیات موجود ہیں) میں صدقات کی آیات کے فوراً بعد سود کی حرمت اور مذمت والی آیات لائی گئی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم صدقات کے بعد سود کی حرمت ذکر کرکے قرض لینے والے کی ضرورت کو صدقات سے پورا کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ شبہ یہ پیدا کیا جاتا ہے کہ سود کے بالمقابل صدقات کی ترویج کا مطلب یہ ہے کہ صرف وہی سود حرام ہے جو ذاتی حاجات کے لئے لیا جائے کیونکہ صدقات فقراء کیذاتی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہی دیئے جاتے ہیں۔

یہ اِستدلال درست نہیں کیونکہ قرآن کریم میں ایک طرف ﴿يَمحَقُ اللَّهُ الرِّ‌بو‌ٰاوَيُر‌بِى الصَّدَقـٰتِ﴾( اللہ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتاہے) میں سود کے خاتمہ کے لئے صرفی قرضوں کا حل صدقات تجویز کیا گیاہے تو دوسری طرف ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا﴾ ( اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام) کے ذریعے ربا کو تجارتی معاہدوں کے بالمقابل بھی پیش کیا گیا ہے

یہی وجہ ہے کہ سورۂ بقرہ میں آیات ِسود سے پہلے اگر صدقات کی ترغیب موجو دہے تو آیاتِ سود کے فوراً بعد تجارتی قرضوں کے تفصیلی اَحکام پر مبنی ایک پورا رکوع بھی موجود ہے ۔ جو﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا تَدايَنتُم بِدَينٍ﴾ (اے مسلمانو! جب تم تجارتی قرضے دینے لگو تو اسے لکھ لیا کرو) سے شروع ہو کر ان آیات پر ختم ہو تا ہے کہ ﴿وَإِن تُبدوا ما فى أَنفُسِكُم أَو تُخفوهُ يُحاسِبكُم بِهِ اللَّهُ﴾ ''جو تم اپنے اندر چھپاتے ہو یا اسے ظاہر کرتے ہو، اللہ سب کا خوب حساب لینے والا ہے''

اس آخری آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ سود خوروں کو یہ تنبیہ فرما رہے ہیں کہ ''سود خوری کے لئے حیلے، بہانے تلاش نہ کرو، تمہیں علم ہونا چاہئے کہ اللہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے وہ روزِ قیامت ظاہری طرزِ عمل کے ساتھ ساتھ دلوں کے بھید اور پوشیدہ اغراض کا بھی خوب حساب لے گا۔ اس لئے خلوصِ دل کے ساتھ سود سے اجتناب کرو''

چنانچہ آیاتِ سود کے متصل رکوع میں تجارت کے اَحکام موجود ہیں۔ اس کے لئے یہ نکات پیش نظر رہنا چاہئیں:

(i) قرض اور دَین کالفظ عموماً مترادف سمجھا جاتاہے جبکہ عربی زبان میں ان دونوں میں فرق ہے ۔ قرض اس اُدھار پر بولا جاتا ہے جو ذاتی ؍ صرفی مقاصد کے لئے لیا جائے۔ جبکہ دَین کا لفظ ذاتی اور تجارتی ہر دو قسم کے قرضوں پر بولا جاتاہے۔ اس لحاظ سے قرض اور دین میں عام و خاص کی نسبت ہے۔ قرض خاص ہے اور دین عام (مترادفات القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی، ص۱۲۸)

دَین کا درست ترجمہ ذمہ داری یا انگریزی میں Liability (ادائیگی کی ذمہ داری ) ہوگاجس میں کاروباری قرضے بھی شامل ہوتے ہیں۔

(ii) حضرت ابن عباسؓ ﴿إِذا تَدايَنتُم بِدَينٍ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى...٢٨٢﴾... سورة البقرة" کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ''یہ آیت خصوصی طور پر بیع سَلَمکے بارے میں اتری ہے (طبری:ج۳، ص۱۱۶)

قرآنِ کریم اللہ جل شانہ کا کلام ہے اور اس میں ایک ایک لفظ بڑی معنویت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے قرآنِ کریم کے اندازِ بیان ، محاورہ اور الفاظ کے باریک تر انتخاب سے بھی استدلال کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اس آیت میںقرض کی بجائے دین کا لفظ استعمال کرنابڑی معنویت رکھتا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ اس رکوع کو صرفی قرضوں تک محدود کرنا قطعاً غیر درست ہے۔ بلکہ اس میںتجارتی و صرفی ہر دو قسم کے قرضوں کا بیان اور اَحکام موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عباسؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے اس کو بیع سَلَم کے بارے میں مخصوص کیاہے اور ہمیں علم ہے کہ عربی زبان میں بیعتجارتی لین دین کو ہی کہا جاتا ہے۔

(iii) سورۂ بقرہ کی اسی آیت ۱۸۲ میں اَمانت کے اَحکام کا تذکرہ بھی موجود ہے اور کچھ شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اَمانت سے تجارت کرنے کا ثبوت صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل سے ملتا ہے، اِس سے بھی معلوم ہوا کہ اس آیت کے احکامِ تجارت کو بھی شامل ہیں۔ حضرت زبیر ؓبن عوام کا طرزِ عمل اس حدیث میں موجود ہے:

''حضرت زبیر بن عوامؓ کے پاس لوگ بڑی بڑی رقمیں امانت کے لئے رکھا کرتے تھے۔ مگر وہ کہتے کہ میں اَمانت نہیں بلکہ قرض لیتا ہوں جس سے میں تجارت کروں گا۔ چنانچہ ان کی شہادت کے بعد جب ان کے بیٹے نے حساب کیا تو یہ تجارتی قرضے (اَمانتیں) ۲۲ لاکھ درہم تھے جو ان کی جائیداد سے ادا کئے گئے۔'' (بخاري: کتاب الجهاد،باب برکة الغازي في ماله)

قرآن کریم میں تجارتی سود کی حرمت کے مزید دلائل یہ ہیں:

(1) سورۃ البقرہ کی آیت ۲۷۹ میں اللہ تعالیٰ سود خوروں سے اعلانِ جنگ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

﴿وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُ‌ءوسُ أَمو‌ٰلِكُم﴾

''اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے صرف تمہارے رأس المال (سرمایہ؍اصل مال) حلال ہیں''

جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ قرآنِ کریم میںالفاظ کا انتخاب بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ آیت کریمہ میں اصل مال کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ حقیقی یاذاتی مال کے بجائے رأس المال (Capital Investment) کالفظ ہے اورہم جانتے ہیں کہ رأس المال تجارت کی اصطلاح ہے۔ تجارت میں شامل کئے جانے والے اصل مال کو جس کے ذریعے مزید منافع کمانا مقصود ہوتا ہے ، رأس المال کہا جاتا ہے۔

(2) سورئہ روم کی آیت نمبر ۳۹ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَما ءاتَيتُم مِن رِ‌بًا لِيَر‌بُوَافى أَمو‌ٰلِ النّاسِ فَلا يَر‌بوا عِندَ اللَّهِ...٣٩﴾... سورة الروم

''اور جو سودی قرض تم اس لئے دیتے ہو کہ دوسرے کے مال میں پروان چڑھے تو وہ اللہ کے ہاں پروان نہیں چڑھتا''

اس آیت کے الفاظ پر ذ را غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ تجارتی قرضوں کو بھی شامل ہے کیونکہ ذاتی مقاصد کے لئے حاصل کئے جانے والے قرض کا مقصد حاجت پوری کرنا ہوتا ہے، مال میں اضافہ کرنا نہیں۔ اگر سود صرف صرفی قرضے تک محدود ہوتا تو اس طرح کے الفاظ ہونے چاہئے تھے کہ ''جو قرض تم لوگوں کی حاجات پوری کرنے کے لئے دیتے ہو یا جو قرض اس لئے دیتے ہو تاکہ تمہارے مال میں اضافہ ہو'' جبکہ یہاں یہ الفاظ ہیں کہ اس ادھارسے دوسرے (منفعت بخش کاروبار کریں اور) اپنے مالوں میں اضافہ کریں... اللہ تعالیٰ تجارتی مقاصد کے لئے دیئے جانے والے قرضوں کے بارے میں بھی فرماتے ہیں کہ اللہ کے ہاں مال میں اس طرح اضافہ نہیں ہوتا ۔اس کاایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ اضافہ حاصل کرنا حرام ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ امر واقعہ یہ ہے کہ سود مال میں اضافہ نہیں کرتا جس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔

(3) ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَر‌وا ما بَقِىَ مِنَ الرِّ‌بو‌ٰا...٢٧٨﴾... سورة البقرة

''اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جائو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو''

مشہور مفسر قرآن حافظ ابن جریرؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت تجارتی سود کے بارے میں نازل ہوئی (تفسیر طبری: ج۳، ص۱۰۷) مزید تفصیل آگے ملاحظہ کریں ۔

تجارتی سود شامل ہونے کے دیگر دلائل

(1) ربا کی تعریف علمائے امت کے ہاں الزیادة في الدین سے کی جاتی ہے نہ کہ الزیادة في القرض سے۔ا س سے معلوم ہوا کہ دَین (یعنی صرفی و تجارتی قرضے ہر دو) میں مشروط اضافے کو رِبا کہا جاتا ہے۔

(2) ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا﴾ اور ﴿وَذَر‌وا ما بَقِىَ مِنَ الرِّ‌بو‌ٰا﴾ وغیرہ کے قرآنی الفاظ میں ربا کے لفظ پر اَل موجود ہے۔ اور عربی قواعدکی رو سے یہ اَل استغراق کا ہے جوتمام اقسام کو اپنے تحت شامل کرنے کا معنی دیتا ہے۔

یعنی الربوا عام ہے اور اصولِ فقہ میں عَام اسے کہا جاتاہے جو ''ان تمام افراد و اقسام پر صادق آئے جو اس کے مفہوم میں شامل ہوسکتے ہوں'' ...عَام کو پہچاننے کے صیغوں میں اَل استغراقی بھی داخل ہے۔ (اصولِ سرخسی: ج۱،ص۱۵۱)

غرض عربی قواعد کی رو سے الربوا کا لفظ ہر قسم کے سود کو شامل ہے چاہے وہ تجارتی ہو یا صرفی، مرکب ہو یا مفرد۔

ظہورِ اسلام کے وقت عرب میں تجارت

علماء نے اس موضوع پر بڑی تفصیل سے عہد ِنبوی میں تجارت کے وجود پر تفصیلات جمع کی ہیں۔ ذیل میں ان کے چیدہ چیدہ نکات درج کئے جاتے ہیں :

جزیرئہ عرب کرئہ ارضی کے مختلف آباد علاقوں کے وسط میں واقع ہے۔ چنانچہ مشرق و مغرب یعنی ہندوستان اور اس کے اردگرد کے ممالک کی مصر، سوڈان، الجزائر، تیونس (براعظم افریقہ) اور بلادِ شام سے تجارت جزیرئہ عرب کے راستے ہی ہوتی تھی۔ اسی طرح شمال سے جنوب یعنی یمن، جنوبی افریقہ کی عراق، ایران اور بلادِ یورپ سے تجارت بھی جزیرئہ عرب کے واسطے سے ہوتی۔ عرب کی سرزمین پہاڑوں، ناقابل کاشت میدانی علاقوں او ربے آب و گیاہ صحرائوں پر مشتمل ہے اور زراعت کو عرب میں معزز پیشہ بھی خیال نہیں کیا جاتا لہٰذا اہل عرب کی گزر بسر ان تجارتی قافلوں میں اپنا قابل فروخت سامان شامل کرکے ہوتی تھی۔ یا قافلوں کو لوٹ مار کر اپنا دانہ پانی پورا کیا جاتا۔ بعض لوگ انہی قافلوں کو بحفاظت گزارنے کے عوض ٹیکس بھی وصول کرتے۔ گویا جزیرئہ عرب مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں بین ُالاقوامی منڈی بنا ہوا تھا جس میں شہر مکہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ قرآن کریم کی سورئہ قریش میں انہی تجارتی قافلوں کا ذکرموجود ہے :

﴿لِإيلـٰفِ قُرَ‌يشٍ ١ إۦلـٰفِهِم رِ‌حلَةَ الشِّتاءِ وَالصَّيفِ ٢ فَليَعبُدوا رَ‌بَّ هـٰذَا البَيتِ ٣ الَّذى أَطعَمَهُم مِن جوعٍ وَءامَنَهُم مِن خَوفٍ ٤ ﴾... سورة قريش ''اس واسطے کہ مانوس رکھا قریش کو، مانوس رکھنا سردی اور گرمی کے سفر میں، انہیں چاہئے کہ اس گھر کے رب کی بندگی کریں جو بھوک میں ان کے کھانے کا بندوبست کرتا اور انہیں خوف سے امن میں رکھتاہے۔''

٭ یاد رہنا چاہئے کہ جنگ ِبدر کا پیش خیمہ بھی ابوسفیان کی سرکردگی میں آنے والا قافلہ ہی بنا تھا جس میں سامان سے لدے ہوئے دو ہزار اونٹ شامل تھے۔

٭ ابوسفیان تجارتی قافلے کے سربراہ کے طور پر ہی شام گیا تھا جب اُس سے ہرقلؔنے سوال وجواب کئے

٭ کئی مؤرخین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ درآمد و برآمد کی تجارت ۵۰ لاکھ دینار یعنی ۴ ؍اَرب روپے سالانہ تک پہنچتی تھی۔

٭ انہی تجارتی قافلوں سے سامان کی خریداری کے لئے قریش میں چار بڑے میلے بھی مشہور ہیں جن میں عکاظ کے میلے کی مناسبت سے بعض واقعات احادیث میں موجود ہیں۔

٭ احادیث میں تجارت کی بیسیوں ایسی اقسام کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سے بیشتر آج بھی رائج ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عرب میں تجارتی کاروبار نہایت عروج پر تھا۔

٭ صحابہ کرامؓ میں متعدد لکھ پتی تاجر بھی تھے۔ حضرت عثمانؓ اور دوسرے صحابہ کے اپنے تجارتی سامان کو اللہ کی راہ میں دینے کے واقعات مشہور ہیں۔

ان حالات میں یہ فرض کر لینا کہ عہد ِنبوی میں تجارت نہایت پرخطر تھی لہٰذا برائے نام رہ گئی، ایک بے معنی مفروضہ ہے جس کی مخالفت تاریخ سے بھی ہوتی ہے اور قرآن سے بھی۔ ہم انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مضمون "Banks"کے اس اقتباس پر اپنی بات ختم کرتے ہیں جس کو مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب سُود میں درج کیا ہے:

''جزیرۃ العرب کے آس پاس ملکوں (عراق، مصر، شام، یونان اور روم) میں تجارتی، صنعتی اور ریاستی اَغراض کے لئے دیئے گئے قرضوں پر سود لیا جاتا اور دیا جاتا تھا۔ ان ممالک کے ساتھ عربوں کے تجارتی تعلقات تھے تو یہ کیسے فرض کر لیا گیا کہ عرب تجارتی سود سے باخبر ہی نہیں تھے؟''

صحابہ کرامؓ میں تجارتی قرضے ... اَحادیث کی روشنی میں

(1) حضرت عمر ؓ کے بیٹے عبداللہ ؓاور عبیداللہ ؓایک لشکر میں شام ہو کرعراق گئے۔ واپسی پر بصرہ کے امیر ابوموسیٰ اشعریؓسے ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ ''میرے پاس بیت المال کا کچھ حصہ ہے جسے میں امیرالمؤمنین کو بھیجنا چاہتا ہوں۔تم وہ مال مجھ سے قرض لے کر عراق سے اس کا سامان خرید لواور مدینہ پہنچ کر منافع پر بیچ دینا،اور اصل رقم امیر المومنین کو ادا کرکے منافع خود رکھ لو''حضرت عمرؓ کے بیٹوں نے کہا: ٹھیک ہے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (موطأ امام مالک، باب ماجاء فی القراض)

(2) ہندؓ بنت عتبہ نے حضرت عمرؓ سے بیت المال سے ۴ ہزار درہم کا قرض (تجارت کے لئے) مانگا جو انہوں نے دے دیا۔ ہند ؓبنت عتبہ کو کاروبار میں خسارہ ہوگیا لیکن انہوں نے بیت المال کو پورا قرضہ اداکردیا۔ (تاریخ طبری: ۲۹؍۵)

(3) حضرت زبیر بن عوامؓ کے پاس لوگ بڑی بڑی رقمیں امانت کے لئے رکھا کرتے تھے۔ مگر وہ کہتے کہ میں اَمانت نہیں بلکہ قرض لیتا ہوں۔ جس سے میں تجارت کروں گا۔ چنانچہ ان کی شہادت کے بعد جب ان کے بیٹے نے حساب کیا تو یہ تجارتی قرضے (اَمانتیں) ۲۲ لاکھ درہم تھے جو ان کی جائیداد سے ادا کئے گئے۔ (بخاری: کتاب الجهاد،باب برکة الغازي في ماله)

حرمت ِسود سے قبل سودی تجارتی قرضے

(1) حضرت ابن جریر آیت ﴿وَذَر‌وا ما بَقِىَ مِنَ الرِّ‌بو‌ٰا﴾ کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

''دورِ جاہلیت میں بنو عمرو اور بنو مغیرہ کے درمیان سودی قرضوں کا لین دین تھا۔ جب اسلام آیا اور سود حرام ہوا تو بنو مغیرہ کے ذمے بنو عمرو کا بہت سا مال واجب الادا تھا۔ جس کو بنو مغیرہ نے سود کی حرمت نازل ہونے کے بعد ادا کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر بنو عمرو نے عتاب بن اُسیدؓ (امیرمکہ) کے پاس اپنا دعویٰ دائر کردیا۔ حضرت عتاب ؓنے نبی اکرمﷺ سے اس سود کے بارے میں پوچھاتو اللہ نے یہ آیت اتار دی۔ ''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے، اس کو چھوڑ دو، اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو'' رسولِ اکرمﷺ نے یہ آیت لکھ کر عتابؓ (امیرمکہ) کو بھجوائی اور ساتھ یہ ہدایت کی کہ اگر بنو عمرو سود چھوڑنے پر راضی نہ ہوں تو ان کو جنگ کا الٹی میٹم دے دو'' (تفسیر ابن جریر طبری: ج۳، ص۱۰۷)

ابن جریر نے عکرمہؒ سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ

''بنوعمرو کے جو اَفراد بنو مغیرہ کو قرض دیا اور لیا کرتے تھے، ان میں [تین بھائی] مسعود ثقفی عبدیالیل، حبیب [بن عمرو بن عمیر]اورربیعہ وغیرہ شامل ہیں'' (ابن جریر طبری: ج۳، ص۱۰۷)

ان حضرات کا طائف کے سرداروں میں شمار ہوتا تھا او ریہ محتاج اور بھوکے ننگے نہیں بلکہ مالدار لوگ تھے۔ واضح سی بات ہے کہ ان کے یہ قرضے ذاتی اغراض و اِحتیاج کی تکمیل کے لئے نہیں، تجارتی مقاصد کے لئے تھے۔ چنانچہ اسی آیت کی تفسیر میں ابن جریر فرماتے ہیں:«کان ربا یتبا يعون به في الجاهلیة» ''یہ وہ سود تھا جو جاہلیت میں لوگ تجارتی مقصد کے لئے لیتے تھے''

(2) صاحب ِتفسیر خازن مذکورہ بالا آیت (سورۃ البقرہ۲:۲۸۷) کے تحت تجارتی سود کے بعض مزید واقعات درج کرتے ہیں:

''حضرت عباسؓ اور حضرت خالدؓبن ولید زمانہ جاہلیت میں باہمی شراکت سے سودی کاروبار کیا کرتے تھے۔ وہ طائف کے قبیلہ بنو عمیر کو کاروباری مقاصد کے لئے سود دیتے تھے۔ اس آیت کے نازل ہونے پر انہوں نے اپنا کافی زیادہ سود (جو بنوعمیر کے ذمے تھا) چھوڑ دیا۔ یہ وہی سود تھا جس کا تذکرہ نبی کریمﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں ان الفاظ سے کیا:

''جاہلیت کے تمام سود باطل کر دیئے گئے ہیں اور میں سب سے پہلے اپنے خاندان یعنی عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں'' (مسلم :کتاب الحج، باب حجۃ النبیؐ)

سورۃ البقرہ کی یہ آیت ﴿وَذَر‌وا ما بَقِىَ مِنَ الرِّ‌بو‌ٰا﴾ نبی اکرمﷺ کی وفات سے صرف چار ماہ پیشتر نازل ہوئی۔ اسی لحاظ سے حجۃ الوداع اور اس آیت کا زمانہ نزول قریب قریب ہے۔

کاروباری سود کا یہی واقعہ ابن جریر ؒاپنی تفسیر میں سدی ؒکے حوالے سے یوں روایت کرتے ہیں:

''حضرت عباس بن عبدالمطلب اور بنو مغیرہ کا ایک شخص (حضرت خالد ؓبن ولیدبن مغیرہ ) آپس میں کاروباری شریک تھے۔ انہوں نے بنو عمرو( طائف )کو تجارتی قرضے دیئے۔ جب اسلام کا دور آیا تو ان کا بہت سال مال سود میں واجب الادا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿وَذَر‌وا ما بَقِىَ مِنَ الرِّ‌بو‌ٰا﴾ (تفسیر ابن جریر: ج۳، ص۱۰۷)

مذکورہ بالا واقعات کے علاوہ دیگر بیسیوں ایسے شواہد موجود ہیں جو یہ مفروضہ بالکل غلط ثابت کردیتے ہیں کہ عہد ِنبوی میں تجارتی قرضوں کا کوئی تصور نہ تھا اور صرف ذاتی (صرفی) مقاصد کے لئے (مہاجنی) قرضے لئے جاتے تھے۔ اس زمانہ کی تجارت اور ہمسایہ ممالک میں تجارتی قرضوں وغیرہ کی تفصیلات کے لئے دیکھئے مولانا مودودیؒ کی کتاب سود (ص ۲۰۰ تا ۲۱۵، مطبوعہ ۱۹۹۷ء) اور مولانا عبدالرحمن کیلانی کی تصنیف: تجارت کے اَحکام و مسائل ،باب۵: سود)

سود کے جواز کے لئے مختلف بہانے

سود کو جائز قرار دینے کے لئے مختلف بہانے یوںتراشے جاتے ہیں:

(1) باہمی رضا مندی سے سود لینا جائز ہونا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں: ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلوا أَمو‌ٰلَكُم بَينَكُم بِالبـٰطِلِ إِلّا أَن تَكونَ تِجـٰرَ‌ةً عَن تَر‌اضٍ مِنكُم...٢٩ ﴾... سورة النساء ''اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے نہ کھائو مگر یہ کہ باہمی رضا مندی سے تجارت کے ذریعے''

(2) سود کے حرام ہونے کی علت ظلم ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں: ﴿وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُ‌ءوسُ أَمو‌ٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ٢٧٩﴾... سورة البقرة ''اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے صرف تمہارے اصل مال لینا حلال ہیں، نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے '' ...چنانچہ اگر سود میں ظلم کا عنصر نہ پایا جائے تو سود حلال ہونا چاہئے۔

(3) جس سود میں ظلم کا عنصر نہ ہواوروہ باہمی رضا مندی سے ہو، اس کے ساتھ منفعت بخش مقاصد (مثلاً تجارت) کے لئے ہو تواس سود کو تو بالا ولیٰ جائز ہونا چاہئے۔ کیونکہ تجارت کا مقصد بھی منافع حاصل کرنا ہی ہوتا ہے اور اسلام میں اس کی تعریف کی گئی اور خوب ترغیب دی گئی ہے۔ اسی طرح ذاتی مقصد کے لئے حاصل کردہ قرض پر سود تو حرام ہے لیکن تجارتی مقصد کے لئے سود کی حرمت سمجھ سے بالا تر ہے۔

ان اعتراضات کے شافی جوابات کے لئے ضرورت تو اس بات کی ہے کہ تفصیل سے ہر ہر نکتہ کو عقل و نقل کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھا جائے اور غلط استدلال کی قلعی کھولی جائے۔ لیکن چونکہ ان موضوعات پر مستقل مباحث الگ سے موجود ہیں جن میں سے بعض محدث کے حالیہ شمارے میں بھی شامل ہیں لہٰذا حسب ِضرورت ان کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ بالاختصار ان کا جائزہ لینے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ذیل میں ہم بعض عنوانات کے تحت ان کی وضاحت پیش کرتے ہیں:

(2) کیا باہمی رضا مندی سے سود لینا جائز ہے؟

(1) اس بحث میں پڑنے سے پہلے ہم اس استدلال کا جائزہ لیتے ہیں جو قرآنِ کی آیت سے لیا گیا ہے:

''اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے نہ کھائو۔ مگر یہ کہ تمہارے درمیان باہمی رضا مندی سے تجارت ہو'' (النساء:۲۹)

اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ اگر سود باہمی رضا مندی سے ہو تو اس وقت سود لینا جائز ہے۔ کیونکہ اس آیت میں باطل طریقوں میں باہمی رضا مندی کے الفاظ سے حلال طریقوں کو مستثنیٰ کیا جارہا ہے۔

(i) اس آیت کے الفاظ پر ہی معمولی غور کرنے سے اس استدلال کا بودا پن معلوم ہوجاتا ہے۔ اس آیت میں سود کے اَحکام کا تذکرہ ہی نہیں بلکہ تجارت اور معاہدے کی شرائط ذکر ہو رہی ہیں او روہ یہ کہ تجارتی معاملہ میں باہمی رضا مندی شرط ہے﴿إِلّا أَن تَكونَ تِجـٰرَ‌ةً عَن تَر‌اضٍ مِنكُم﴾ مگر یہ کہ وہ تجارت ہو تمہاری باہمی رضامندی سے۔ ہم پیچھے یہ بحث کر آئے ہیں کہ تجارت اور سود دونوں میں واضح طور پر فرق ہے اور ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا﴾''اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا ہے'' دونوں میں عمل کے لحاظ سے اگر اتنے واضح فرق نہیں تو نتائج کے اعتبار سے زمین آسمان کا فرق ہے (دیکھئے ص ) یہی وجہ ہے کہ شریعت میں سود کی شدید ترین مذمت آئی ہے تو تجارت کی واضح ترغیبات موجود ہیں۔ اس لئے ﴿إِلّا أَن تَكونَ تِجـٰرَ‌ةً﴾ کے الفاظ کو نظر انداز کرنا نری من مانی اور قرآن کے منہ میں اپنی بات ڈالنے کے مترادف ہے۔

(ii) قرآن وحدیثسے مسائل اَخذکرنے کا مسلمہ اُصول یہ ہے کہ ایک موضوع پر میسر آنے والے تمام اَحکام کو یکجا کرکے ان سے مشترکہ اَحکام نکالے جائیں۔ کسی مقام پر موجود کسی ایک لفظ کو سیاق و سباق سے جدا کرکے اپنے مطلب میں استعمال کر لینا اِلحاد و زندقہ کا طور طریقہ تو ہوسکتا ہے، اسلام کا نہیں۔ قرآنِ کریم اور احادیث میں جو متعددبار سود کی واضح ترین حرمت اور مذمت آئی ہے حتیٰ کہ قرآن میں اسے اللہ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے تو باہمی رضا مندی سے سود کو حلال کرنے والوں کی نگاہوں سے یہ آیات اور احادیث کیوں اوجھل ہیں۔ جو انہیں اس آیت کی اِتباع کا اس قدر شوق چرایا ہے۔ یہ تو صریحاً اس آیت کے مصداق ہے :

﴿أَفَتُؤمِنونَ بِبَعضِ الكِتـٰبِ وَتَكفُر‌ونَ بِبَعضٍ ۚ فَما جَزاءُ مَن يَفعَلُ ذ‌ٰلِكَ مِنكُم إِلّا خِزىٌ فِى الحَيو‌ٰةِ الدُّنيا ۖ وَيَومَ القِيـٰمَةِ يُرَ‌دّونَ إِلىٰ أَشَدِّ العَذابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغـٰفِلٍ عَمّا تَعمَلونَ ٨٥ ﴾... سورة البقرة ''کیا تم شریعت کاکچھ حصہ لے لیتے ہو اور کچھ کو چھوڑ دیتے ہو، ایسا کرنے والوں کی اس کے سوا کیا جزا ہے کہ دنیا میں انہیں رسوائی ہو اور آخرت میں برے عذاب کے سپرد کیا جائے۔جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے قطعا ً غافل نہیں''

(2) شریعت کا مطلب ہی ''بنائی ہوئی چیز'' کے ہیں۔ یعنی یہ زندگی گزارنے کا ایسا طریقہ ؍ راستہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کے ذریعے اپنی مخلوق کے لئے جس طرزِ حیات کو ان کی زندگی بہتر گزارنے کے لئے مناسب اور موزوں سمجھا ہے، وہ اس نے ہم پرناز ل کی اورہم مسلمان (فرمانبردار) ہونے کے ناطے اس کو قبول کرچکے ہیں اور اب اس طریقے کے پابند ہیں۔ اللہ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے فلاح کے راستے کا تعین انسانوں پر نہیں چھوڑا بلکہ اس کا تعین اپنی حکمت ِبالغہ سے خود فرما دیا۔اس طریقے میں کسی تبدیلی کے مجاز نہ ہم خود ہیں، نہ ہی نبی کریمﷺ کی ذاتِ بابرکات تھی۔ قرآنِ کریم میں ہے:

﴿وَلَو تَقَوَّلَ عَلَينا بَعضَ الأَقاويلِ ٤٤ لَأَخَذنا مِنهُ بِاليَمينِ ٤٥ ثُمَّ لَقَطَعنا مِنهُ الوَتينَ ٤٦ فَما مِنكُم مِن أَحَدٍ عَنهُ حـٰجِزينَ ٤٧﴾... سورة الحاقة

''اے نبی! اگر آپ بھی کوئی بات اپنی طرف سے گھڑ کر ہم سے منسوب کریں گے تو ہم آپ کو اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑ لیں گے اور آپ کی شہ رگ کاٹ ڈالیں گے، اور تم میں سے کوئی ہمیں اس (سزا دینے) سے روک نہیں سکتا''

نبی کریمﷺ کا فریضہ صرف تبلیغ و رسالت ہے خواہ وہ وحی جلی کی صورت میں ہو یا خفی (حدیث وسنت )کی صورت میں: ﴿وَما مُحَمَّدٌ إِلّا رَ‌سولٌ﴾ ''محمدﷺ تو صرف پہنچانے والے ہیں'' چنانچہ اگر نبی اکرمﷺ کی ذات پر شارِع کا لفظ کبھی بولا جاتا ہے تو وہ مجازی معنی میں ہے، حقیقی میں نہیں کہ آپ شریعت کو پہنچانے والے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک امر کو اللہ تعالیٰ کے حرام قرار دینے کے بعد مسلمان باہمی رضا مندی سے حلال کرسکتے ہیں۔ بعض ایسے مسلمان جو سود کی اَندھی وکالت کرتے ہوئے باہمی رضا مندی سے سود کھانے کے جواز کا فتویٰ دینا چاہتے ہیں، ہم ان سے پوچھتے ہیںکہ کیا خیال ہے باہمی رضا مندی سے زنا کے بھی حلال ہوجانے کے بارے میں یا شراب اور قتل کے جائزہونے کے بارے میں ؟...کیا کوئی مسلمان یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ اسلام کے اَحکام اس گنجائش کے متحمل ہیں۔ اس لئے ذرا کھلی آنکھوں کے ساتھ بصیرت سے اپنے دعویٰ کی زد میں آنے والے دیگر اَحکام کو بھی ایک نظر دیکھ لینا ضروری ہے۔

(3) مندرجہ بالا دلائل تو لفظی اور شرعی نوعیت کے تھے۔ لیکن ذرا واقعاتی طور پر اس کا جائزہ لیں کہ آیا کوئی شخص خوشدلی سے سود دینے پر راضی ہوسکتا ہے۔ زیادہ گہرے غوروفکر کی ضرورت نہیں، اگر ایک شخص کو ایک لاکھ روپے قرض درکار ہے اور اس کو سود بلکہ کم شرح سود کے ساتھ ساتھ دوسری جگہ سے بغیر کسی شرط کے بلا سود بھی ایک لاکھ مل سکتے ہوں تو کون ایسا شخص ہے جو بغیر کسی وجہ کے سود ادا کرنا پسند کرے۔

یہ تو یوں ہی ایک فریب اور ڈھکوسلا ہے کہ قرضدار اپنی رضا مندی سے سود ادا کرتے ہیں۔ اگر انہیں بلا سود قرض دستیاب ہوسکے تو وہ کبھی سود پر قرض حاصل نہ کریں۔ یہ تو ان کی مجبوری کو رضا مندی سے تعبیر کرنے کا محض ایک فریب ہے۔ اسلام ہی وہ خدمت ِانسانی کا جذبہ، باہمی ایثارو محبت اور خلوص کے وہ جذبات پیدا کرتا ہے جو ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی ضرورت نہ صرف قرض بلکہ قرضِ حسنہ (جس میں ادائیگی کی مدت کا بھی تعین نہ ہو) کی صورت میں پوری کرتا ہے کیونکہ مسلمان کا تصورِ فلاح اپنے رب کی اطاعت اور حصولِ درجات سے جڑا ہوتا ہے اور وہ اُخروی مقاصد کے تحت ایسا کرتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے صفحہ۲۲۰)

بہت کم صورتوں میں ایسا ہوتا ہے کہ سودی معاہدہ فریقین کی رضا مندی سے ہو لیکن ایسا اکثر اس سے بڑے شر کے حصول کے لئے اور ہوس پرستانہ مقاصد کے تحت ہوتا ہے۔ جس طرح بنکوں میں بچتیں جمع کرانے والے لالچ اور ہوسِ زر میں سودی اکائونٹ کھول لیتے ہیں اور بنک اس لئے سود ادا کرنے پر راضی ہوجاتا ہے کہ وہ اس رقم سے اس سے زیادہ شرحِ سود وصول کرے گا۔ بالفرض اگر رضامندی سے سودی معاہدہ ہوبھی جائے تو اس سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سود کی حرمت کی بنیاد شریعت کے اَحکام ہیں نہ کہ باہمی رضامندی جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے

(3) کیا سود کی حرمت کی علت' ظلم' ہے؟

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَر‌وا ما بَقِىَ مِنَ الرِّ‌بو‌ٰاإِن كُنتُم مُؤمِنينَ ٢٧٨ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَر‌بٍ مِنَ اللَّهِ وَرَ‌سولِهِ ۖ وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُ‌ءوسُ أَمو‌ٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ٢٧٩﴾... سورة البقرة

''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو۔ اگر واقعی تم مؤمن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور اگر سود سے توبہ کر لو تو تم اپنے اصل سرمایہ کے حق دار ہو، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے''

اِن آیات میں سود کی حرمت اور مذمت کرتے ہوئے ، سود چھوڑنے کا طریقہ بیان کیا گیا اور آخر میں نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے، کے الفاظ سے سود کی حکمت بیان کی گئی ہے۔ بعض حضرات یہ بات کہتے ہیں کہ سود کی حرمت کی بنیادی وجہ ظلم کا ہونا ہے۔ چونکہ قرض لینے والا محتاج اور فقیر ہوتا ہے اور اپنی ضرورت کی تکمیل کے لئے قرض کا تقاضا کرتا ہے لہٰذا قرض دینے والا اس کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس پر ظلم کرتا ہے۔ سود در سود (سود مرکب) کی شکل میں یہ ظلم شدید ترہوتا جاتا ہے۔ بالفرض اگر کسی صورت میں قرض لینے پر ظلم کا اِ رتکاب نہ ہوتا ہو اور سود سے منفعت بخش کاروبار کرنا چاہے تو سود لینا جائز ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے بھی اپنے فیصلہ مقدمہ سود کے پیرا ۴۲ میں سود کی حرمت کی علت ظلم کو قرار دیا ہے۔

والد ِگرامی حافظ عبدالرحمن مدنی نے اپنے عدالتی بیان میں اس نکتہ کی خوب وضاحت کی ہے۔ یہ عدالتی بیان محدث میں بھی شائع ہو رہا ہے۔ جس کے صفحات ۷۸ تا ۸۱ خصوصیت سے قابل توجہ ہیں۔

علت اور حکمت اُصولِ فقہ کی اصطلاح میں دو مختلف چیزیں ہیں۔ علت تو اس بنیاد کو کہا جاتا ہے جس پر کوئی شرعی حکم موقوف ہوتا ہے۔ اگر وہ علت باقی نہ رہے تو وہ شرعی حکم بھی ساقط ہوجاتا ہے۔ جبکہ حکمت سے مراد و ہ مصلحت ہے جس کو شارع اس حکم کی تشریع کے ذریعے پورا کرنا چاہتاہے، یہ مصلحتیں متعدد بھی ہوسکتی ہیں ۔ یاد رہے کہ شرعی حکم کسی حکمت کے وجود یا عدمِ وجود پر موقوف نہیں ہوتا۔ بسااوقات کسی حکمت کے ساقط ہونے پر شریعت بعض دیگر ذرائع سے اس مقصد ؍ حکمت کو حاصل کر لیتی ہے لہٰذا اس حکمت کے ختم ہونے پر شرعی حکم کو ساقط نہیں کیا جاسکتا...واضح رہے کہ علت کی تلاش ایک مشکل او رپیچیدہ اَمر ہے کہ شارع نے کسی شرعی حکم کو کیوں لاگو کیا ہے۔ علت کے لئے متعدد شرطیں بھی ضروری ہیں جو اُصولِ فقہ کی کتب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ظلم سود کی حرمت کی حکمت ہے یا علت؟ سود کے مفاسد کا بنظر غائر جائزہ لیں تو ظلم کو اس کی علت قرار دینا درست نظر نہیں آتا۔ ہماری رائے میں ظلم کا وجود سود کی حرمت کی ایک اہم حکمت ہے ،کیونکہ سود کی حرمت صرف اس کی بنا پر نہیں ہے۔ بعض ایسی صورتیں بھی ہوسکتی ہیں جہاں بظاہر ظلم نہ ہورہا ہو لیکن سود حرام ہو۔

(4) منفعت بخش مقاصد کے لئے سود کی حرمت؟

یہ گذشتہ اعتراض کا ہی ایجابی پہلو ہے... جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ سود کی حرمت صرف ظلم کے وجو دپر ہی موقوف نہیں، علماء نے سود کے بے شمار مفاسد گنوائے ہیں ۔بعض اس کو تکنیکی وجوہ کی بنا پر حرام سمجھتے ہیں اور بعض علماء اس کے اَخلاقی اورمعاشرتی مفاسد کو اس کی حرمت کی وجہ بتاتے ہیں۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی ؒلکھتے ہیں : (تجارت اور لین دین کے احکام :ص ۷۸)

''سود اسلامی تعلیمات کا نقیض اور اس سے براہِ راست متصادم ہے ۔اس کا حملہ بالخصوص اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام پرہوتا ہے ۔اسلام ہمیںایک دوسرے کا بھائی بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔وہ آپس میں مروّت ،ہمدردی ،ایک دوسرے پر رحم اور ایثار کا سبق سکھلاتا ہے ۔ اللہ نے مسلمانوں پر آپس کے بھائی چارے کو اپنا خاص اِحسان قرار دیا (آل عمران :۱۰۳)اور یہی چیز رسولِ اکرم ﷺکی زندگی بھر کی تربیت کا ماحاصل تھا جبکہ سود انسان میں ان سے بالکل متضاد صفات یعنی بخل،حرص ،لالچ،مفاد پرستی اور شقاوتِ قلبی پیدا کرتا ہے جو اسلامی تعلیمات کی عین ضد ہے ...اسلام کے معاشی نظام کا ما حاصل یہ ہے کہ دولت گردش میں رہے اور اس گردش کا بہائو امیر سے غریب کی طرف ہو ،اسلام نے نظامِ زکوۃ و صدقات کو اس لئے فرض کیا ہے ،قانونِ میراث اور حقوقِ باہمی اسی کی تائید کرتے ہیں جبکہ سودی معاشرہ میں دولت کا بہائو ہمیشہ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے ۔اس لحاظ سے بھی سود اسلام کے معاشی نظام کی عین ضد ہے''

ان سب باتوں سے اتفاق کے ساتھ ساتھ ہم ان پر یہ اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ دراصل سود منفعت بخش ہوتا ہی نہیں۔ کیونکہ اوّل تو سود کے ذریعے تخلیق مال (تخلیق منافع) ہوتا ہی نہیں بلکہ یہ صرف ناروا تقسیم مال (اغتصابِ مال) کا ایک ہتھکنڈا ہے ۔سود میں 'انسانی محنت ' کا وہ بنیادی عنصر ہی موجود نہیں جس سے منافع تخلیق ہوتا ہے ۔ یہ صرف نقد کے ذریعے دوسرے کی کمائی کو غصب کرنے کا ایک بہانہ ہے ۔

دوسرے ،سود میں اگر ذاتی سطح پر ظلم ، اَذیت اور ضرر موجود نہ بھی ہو تو قومی معاشرتی سطح پر سود کے ذریعے آخر کار ان کاوجود ضرور پایا جاتاہے۔ معاشرتی سطح پر اذیت اور ظلم انفرادی اور شخصی اذیت سے کہیںزیادہ تباہ کن اور دور رَس ہوتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں بھی رونما ہونے والی قومی اور معاشرتی مشکلات کے پیچھے سود کا ظالمانہ عنصرضرور کار فرما ہے ۔چونکہ سود ہر حال میں مقروض کو ادا کرنا ہوتا ہے، اس لیے شرحِ سود سے زیادہ نفع کمانے کے لیے مقروض کو ہر جائز او رناجائز حربہ استعمال کرناضرور ی ہو جاتا ہے جس کے لیے وہ کاروبار میں ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ اور ناجائز وحرام ذرائع استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔نفع کو شرحِ سود سے بلند تررکھنے کے لیے کارکنوں کی اُجرت کم سے کم تر رکھ کر او روقت سے زیادہ کام لیکر ان کا استحصال کیا جاتا ہے ،اور ان تمام ناروا ہتھکنڈوں سے ناجائزمنافع کما کر قرض دینے والے کو صرف اس لیے ادا کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس نے سود پر پیسے دئیے تھے ۔جب کہ اس اضافے کی تحصیل میں اس نے نہ کوئی محنت صرف کی ، نہ کسی قسم کے رِسک سے دوچار ہوا او رنہ کاروباری مشکلات اور تقاضوں میں اس نے کوئی حصہ ڈالا۔صرف اپنے پیسے کی بنیاد پر مال میں اضافہ وصول کرنا اس کا استحقاق ٹھہرا ۔ دوسری طرف مظلوم یا خون پسینے کی محنت سے معمولی اُجرت حاصل کرنے والا طبقہ جب اس طرح اپنی محنت کا حقیقی معاوضہ وصول نہیں کرپا تا ، اور اپنی محنت کے بل بوتے پر دوسرے کو عیش وعشرت کرتا اورگلچھر ے اڑاتا دیکھتا ہے تو مایوسی ، بیچارگی اور افسردگی کا شکار ہو کر ناروا طریقوں سے اور اپنے زورِ بازو سے اپنا حصہ خودوصول کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے ۔جب مزدروں کا حق غصب ہوتا ہے تو ردّ عمل کے طور پر وہ معاشرہ کی ہر چیز اور فرد سے بددل ہو کر انتقام کی ٹھان لیتے ہیں ۔ ان رویوں او رقانون شکنیوں کا معاشرہ پر جو اثر پڑتا ہے اس کی تصویر آج ہم کھلی آنکھوں اپنے معاشرے میں بھی دیکھ رہے ہیں۔اختصار کی غرض سے اشارہ کرنے پر ہی اکتفا کیاجاتا ہے ( تفصیل کیلئے ص ۲۰۷) اس کے بعد کیا یہ دعویٰ کرنا درست دکھائی دیتا ہے کہ منفعت بخش مقاصد کے لیے سود جائز ہونا چاہیے۔

سود کو اللہ نے حرام کیا ہے اور اس کی شدید ترین مذمت کرتے ہوئے اس کو اپنے سے جنگ کے مترادف قرار دیا، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سود شرمحض ہے ۔ سود کی بناپر ہونے والے کسی معاہدے یا معاملے میں خیر کا وجود محال ہے ،اگر سود میں ایسی کوئی گنجائش ہوتی تو اس کی وضاحت شریعت ِمطہر ہ میں ضرور کردی جاتی ۔ قرآنِ کریم اور فرامین نبویہ ؐ میں نہ صرف سود کو مطلقاًحرام کیا گیابلکہ اس پر گواہی دینے والے اور اس کو لکھنے والے سب کو گناہ میں برابر کا شریک قراردیا گیاہے ۔شریعت میں ہر قسم کا سود حرام ہے چاہے وہ صرفی ہو یا تجارتی ،نیک مقاصد کیلیے یا ناروا مقاصد کے لیے ۔ سود ہر لحاظ سے حرام ہے اور اسلام کا بنیاد ی تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر طرح کے سود سے کلی نفرت اور مکمل اجتناب کیا جائے اور سود کو ختم کرنے کی ہر ممکن سعی کی جائے ۔

اسلام نے سود کوکیوں حرام قرار دیا ہے؟


یوں تو مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لئے اس سوال کی زیادہ اہمیت نہیں رہ جاتی بلکہ مسلمان کا تو کام یہ ہے کہ اگر اسے کسی شے کے بارے میں شرعی حکم کا یقینی دلائل سے علم ہوجائے تو دل و جان سے اس کو قبول کرے کہ یہی تقاضائے مسلمانی ہے۔ اس کے باوجود بعض ضعیف ُالاعتقاد مسلمانوں کی تشفی کے لئے علماء اور ماہرین معیشت نے ان متعدد وجوہات کو درج کیا ہے جو اسلام کے اس حکم کی تائید کرتی ہیں۔ حسن اتفاق کہئے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ تمام الہامی مذاہب ، فلاسفہ اور دانشوروں کے ہاں سود قدیم سے حرام چلا آرہا ہے۔ عیسائیوں کے ہاں بھی سود نہ صرف مذہبی بلکہ معاشرتی بنیادوں پر حرام تھاجسے وہ Usury کا نام دیتے۔ Usury کی مذمت میںاس قدر زیادہ لٹریچر پھیل چکا ہے او راس لفظ کے تاریخی استعمال نے اس شدت سے سامعین کے ذہنوں کو جکڑ رکھا ہے کہ وہ Usury کی تائید میں کوئی اچھا کلمہ سننے کو تیار نہیں۔ چنانچہ من چاہے مقاصد کے حصول کے لئے اہل یورپ کے بااثر طبقہ نے سود کو رواج دینا چاہا تو اس کے لئے انہیں Usury کے بجائےInterest کا لفظ تخلیق کرنا پڑا۔ اور اب تک Interest ایسے معصوم لفظ کے لبادے میں Usury کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ حقیقت اور امر واقعہ آج بھی وہی ہے کہ ہر دو میں کوئی خط ِامتیاز اور حد ِفاصل سرے سے ہی نہیںہے۔ یہ صرف ایک لفظی کھیل ہے جو Usury کے نفرت آمیز پس منظر سے چھٹکارا حاصل کرنے کو شروع ہوا۔ (تفصیل کے لئے ص:۱۸۰)

یوں تو معاشیات میرا موضوع نہیں ہے اور فنی طور پر میں اس کی بیشتر اصطلاحات سے ناواقف ہوں لیکن ایک عام سی سمجھ بوجھ رکھنے والے فرد ہونے کے ناطے اور اس موضوع پر مطالعہ کے بعد درج ذیل نتائج کو پہنچا ہوں:

(1) سود صرف مال کی ظالمانہ تقسیم کرتا ہے، مال میں واقعاتی اضافہ نہیں کرتا: اسلام نے سود کے بالمقابل تجارت کو قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تجارت میں فی الواقع مال میں نشوونما ہوتی ہے۔ جبکہ سود صرف مال کی ناروا تقسیم کا کھیل ہے۔ جس میں متعددمحتاج ہاتھوں سے پیسہ آہستہ آہستہ چند مقتدر ہاتھوں کی طرف جمع ہوتا رہتا ہے۔ سود کے اس چکر میں بعض نچلے طبقوں کی رقم آہستہ آہستہ طبقہ امرا کو منتقل ہوتی رہتی ہے۔ کیونکہ سود میں صرف زَرکو ذریعہ پیداوار تسلیم کرکے کچھ مال سے مزید مال جمع کرنے (نہ کہ پیدا کرنے) کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ مال دار کو چونکہ اپنے اصل مال میں کمی کا کوئی امکان نہیں بلکہ اضافے کا یقین ہوتا ہے لہٰذا آہستہ آہستہ وہ اس مال سے مزید مالدار ہوتا چلا جاتا ہے۔ کیونکہ سود کی صورت میں پیسہ ، پیسے کو کھینچتا ہے۔

اس صورت میں معاشرے سے متوسط طبقہ آہستہ آہستہ ختم ہو کر صرف دو طبقات باقی رہ جاتے ہیں، ایک توبے شمار وسائل و ذرائع رکھنے والے امراء کا طبقہ اور دوسرا انتہائی ناکس، مجبور اور مظلوم طبقہ۔ ٹھیک یہی تصویر سرمایہ دارانہ نظام پیداکرتا ہے کیونکہ اس میں مال کو ذریعہ پیداوار تسلیم کیا گیا ہے اور اس کا حاصل سود قرار دیا گیا ہے۔ سود کی ترویج میں طبقاتی نظام پیدا ہونا ایک لازمی تقاضا ہے۔ دولت کا صرف چند ہاتھوں میں جمع ہونے کا یہ مفروضہ حقیقت کا روپ یوں دھارتا ہے کہ قرض دینے والوں کا تو سود کی صورت میں مال میں اضافہ یقینی ہے اور یہ بات ہم جانتے ہیں کہ سود کے ذریعے مال میں اضافہ نشوونما کے ذریعے نہیں بلکہ ناروا تقسیم کے ذریعے ہوتا ہے۔ لازمی سی بات ہے کہ نسبتاً کم تر وسائل رکھنے والے افراد کے مال ہی سود کی صورت میں بڑے مالدار وںکی طرف جمع ہوتے جائیں گے ۔اس سرکل کو جس طرح بھی بیان کر لیا جائے، نتیجہ ایک ہی رہتاہے۔

اس کے بدلے میں سود معاشرے کے نچلے طبقوں میں مایوسی، چڑچڑاپن، ناداری اور محتاجی کو رواج دیتا ہے جس کے نتیجے میں پسا ہوا طبقہ اپنی محنت سے نہیں بلکہ غیر قانونی ہتھکنڈوں سے مال و دولت کے حصول کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً چوربازاری، ڈاکہ اور لوٹ مار کے واقعات عام ہوجاتے ہیں۔ذرا تفصیل میں جائیں تو اس کے مفاسد مزید کھلتے ہیں۔ اگر کوئی سرمایہ دار تجارتی قرضہ حاصل کرتا ہے تو اسے یقینی طور پر سود کی ادائیگی کے لئے مصارف پر کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔ جس کے لئے وہ ملازمین کی تنخواہوں میںکمی، اِستعداد سے زیادہ کام اور اپنی مصنوعات کاحق سے زیادہ منافع وصول کرتا ہے۔ نتیجتاً استحصال، ذخیرہ اندوزی اور دھوکہ دہی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ لیکن تنخواہوں میں کمی، استعداد سے زیادہ کام، ذخیرہ اندوزی اور دھوکہ دہی سے قیمتوں میں گرانی کا سارا اثر صارف پرپڑتا ہے۔ نتیجتاً سود کا تمام بوجھ آخر کار ایک طبقہ پر آن پڑتا ہے اور دوسرا طبقہ مال دار سے مال دار ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ معاشرے میں متوسط طبقہ ختم ہو کر صرف دو طبقے باقی رہ جاتے ہیں۔

مصر کے نامور عالم ،معروف دانشور اور شیخ الازہر شیخ محمد عبدہ ؒفرماتے ہیں:

''جب نقد بجائے خود ذریعہ پیداوار بن جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دولت ان لوگوں کے پاس جمع ہوجائے گی، جن کا کام ہی یہ ہوتاہے کہ نقد سے نقد کمایا جائے'' (تفسیر المنار :ج۳، ص ۱۰۹)

(2) تجارت سے مال میں نشوونما ہوتی ہے: سود کی صورت میں صرف مال، مال سے ٹکڑا کر مزید مال اکٹھا کرنے کا وسیلہ بنتا ہے ۔یہی بات صدیوں پہلے ارسطو نے بھی کہی تھی:

''سود ایسا طریقہ کسب ہے جس میں نقد سے نقد کمایا جاتا ہے ...دولت حاصل کرنے کے طریقوں میں یہ سب سے بدترین ہے۔'' (بحوث فی الربا از مصری فقیہ ابو زہرہ م ۱۹۷۴ئ)

دولت کمانے کے اس طریقے میں انسان کی کاوِش کو توکوئی تحفظ حاصل نہیں ہوتا جبکہ مال ہر طرح محفوظ ہوتا ہے۔ جبکہ کائنات میں ہر شے انسان کے دم بدم سے قائم اور اس کے لئے ہی تیار کی گئی ہے۔ انسان کی محنت و صلاحیت ہی وہ حقیقی جوہر ہے جو زمین سے لہلہاتے کھیت اور فصلیں، درختوں سے خوبصورت فرنیچر، مٹی سے بلند و بالا عمارتیں او رمادے سے اپنے کام کی بے شمار چیزیں بناتا ہے۔ اگر ان میں سے انسان کی ہنرمندی اور محنت و مشقت کو نکال دیا جائے تو کوئی شے بھی وہ صورت اختیار نہ کرسکے جو آج ہمیں ہردم نظر آتی ہے۔

تجارت کی صورت میں دراصل انسان کی محنت کو ہی تحفظ میسر آتا ہے۔ اسلام نے مضاربت کی صورت میں نقصان ہونے پر ایک طرف محنت کرنے والے کی محنت کے ضیاع کو قبول کیا ہے اور دوسری طرف سرمایہ والے پر سرمائے کا تمام نقصان برداشت کرنا لازمی ٹھہرایا ہے۔ اس لئے وہی نظام حقیقی معنوں میں انسان کی مشکلات کا مداوا کرسکتا ہے جو انسان کی جہدوکاوش کا پوری طرح محافظ ہو۔

سود کی صورت میں دونوں طرف مال کا عنصر ہوتاہے، تیسرا عنصر کوئی نہیں جس سے مال میں نشوونما نہیں ہوسکتی، ہاں ظالمانہ طور پر مزید مال کا حصول ضرور ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ جبکہ تجارت میں تیسرا اہم ترین عنصر انسانی محنت کا ہے جس سے مال میں حقیقی نشوونما ہوتی ہے اور قومی معیشت ترقی کرتی ہے ۔ انسان کی محنت کا صحیح بدلہ میسر آنے پر معاشرے میں محنت کو فروغ ملتا اور ہنرمندی و لیاقت کی قدر دانی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اسلامی اصولِ تجارت یعنی مضاربت ومشارکت وغیرہ میں کوئی شخص ضرورت پڑنے پر اپنا سرمایہ فوراً علیحدہ نہیں کرسکتا بلکہ اس کا نقصان وابستہ ہونے کی بنا پر اسے کاروبار کے حالات ملحوظِ خاطر رکھنا پڑتے ہیں۔ جبکہ سود خور کو صرف اپنے پیسے سے دلچسپی ہوتی ہے اور وہ عین ایسے وقت اپنے پیسے کا تقاضا کر بیٹھتا ہے جب کاروبار کے لئے اس کے بغیرجاری رہنا ممکن نہیں ہوتا۔کیونکہ سود خور کا مفاد تو محفوظ ہوتا ہے اور وہ اسے ہر صورت مل کر رہتا ہے۔ بلکہ ایسے حالات میںپیسے کا تقاضا اس کے سودی کاروبار کو (سود در سود یا دوبارہ سودی معاہدے کی شکل میں) مزید ترویج دینے کا باعث بنتا ہے ۔اس سے مطلب پرستی اور سنگدلی کے جذبات معاشرے میں فروغ پاتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں سود کی حرمت نہ صرف اقتصادی اور تکنیکی بنیادوں پر قائم ہے بلکہ اخلاقی اور معاشرتی وجوہات کی بنا پر بھی سود حرام ہے کیونکہ سود کی ترویج کی صورت میں معاشرہ میں انتشار ،ظلم ،بخل،مطلب پرستی، اسرف ،مایوسی اور لوٹ مار پروان چڑھتے ہیںـ۔

(ii) اگر تجارت سود سے زیادہ نفع بخش نہ ہو تو سوال پیداہوتا ہے کہ بنکوں سے سود پر تجارتی قرضے لینے والے کیونکر یہ قرضے حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ سرمائے سے انسانی محنت کو شامل کرکے اس قدر زیادہ منافع کمانے میں کامیاب ہوجائیں گے جس سے وہ بنک کا سود بھی ادا کرلیں گے اور خود بھی خوشحال اور مالدار بن سکیں گے۔

(3) سود ایک مخصوص شرح تک نفع بخش ہوسکتا ہے ، اس کے بعد تجارت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ بات عملی تجربے کے بعد پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ چونکہ سود مال میں نشوونما نہیں کرتا بلکہ ایک طرف تو معاشرتی ناہمواری پیدا کرتا ہے ۔ دوسری طرف ایک مخصوص سطح تک پہنچنے کے بعد سودی کاروبار میں مزید اضافے اور ترقی کے امکانات نہیں رہتے۔ وہ ممالک جن کی معیشت ترقی پذیر ہے، وہاں سود سے فائدہ اٹھانے کے مواقع موجود ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں سود کا مستقبل روشن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ نصف دہائی میں ایک طرف یورپ کے بے شمار بڑے بنک دیوالیہ ہوکر صفحہ ٔہستی سے مٹ چکے ہیں تو دوسری طرف کافی بنک دوسرے بنکوں سے اِدغام کرنے پر مجبور ہیں۔ حتیٰ کہ بعض بنک بڑی علامتی شرح سود کے ذریعے اپنا کاروبار جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔ اس کے بجائے وہاں بھی تجارتی بنیادوں پر سرمایہ کاری کا رجحان فروغ پا رہا ہے کیونکہ اس میں انہیں زیادہ شرح منافع میسر آتی ہیں۔( تفصیل کے لئے صفحہ۱۸۸)

(4) سود میں پیسے کو بند اور جمع کرنے کا رجحان ہے: جبکہ گردشِ دولت سے ہی معیشت میں ترقی ہوتی ہے۔ معاشیات کا مسلمہ اصول ہے کہ گردشِ دولت معیشت میں خوشحالی لاتی ہے۔ دولت جتنے زیادہ ہاتھوں سے ہو کر گزرے گی، اتنے زیادہ طبقات اس پر اپنی محنت صرف کرکے اس سے اپنا حصہ وصول کریں گے۔ معاشیات میں یہی بات ایک اور انداز سے یوں بھی کہی جاتی ہے کہ ایک شخص کا خرچ دوسرے کی آمدنی ہوتا ہے۔ ایک شخص جتنی زیادہ اشیاء خریدتا ہے، اتنے زیادہ لوگ اس سے مختلف سودوں کی وجہ سے آمدنی حاصل کریں گے۔ ہم بھی اپنے روز مرہ تجربے کی بنا پر خوب سمجھتے ہیں کہ ایک سامان جتنے زیادہ واسطوں سے ہم تک پہنچے گا، ا س قدر زیادہ مہنگا ہوگا، یعنی اس قدر زیادہ لوگ اس میں اپنا حصہ وصول کریں گے۔ ان سب مثالوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ گردشِ دولت کا دائرہ جتنا وسیع ہوگا، اتنے ہی لوگ اس سے اپنا کام و دہن کا سامان کرسکیں گے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہوں گے۔ تجارت انہی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ جبکہ سود میں ذخیرہ اندوزی اور جمع کرنے کا رجحان غالب ہے۔ کیونکہ سود پر پیسہ دینے والا یہ یقین رکھتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ رقم اس کے پاس موجود ہو تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ قرض دے کر سود جمع کرسکے۔ اگر وہ تجارت میں رقم لگائے گا تو اس کو نقصان کا خطرہ رہے گا۔ جبکہ یہی نقصان کا خطرے اسے سود سے زیادہ اضافے کا حقدار بناتاہے۔ لیکن سود خوری ایک مزاج تشکیل دیتی ہے اور وہ ہے بغیر کسی محنت و کاوش کے مال جمع کرنے کی ہوس۔یہی وہ لوگ ہیں جو ہر وقت اپنا مال گنتے رہتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ہے ﴿وَيلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ ١ الَّذى جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ ٢﴾... سورة الهمزة

'' ہرچغلی خور اورغیبت کرنیوالے پر افسوس ہے جو مال جمع کرتا رہتا اور اسے گن گن کر رکھتا ہے' '

سودی لین دین کا ایک بنیادی عنصر بچت ہے جو سرمایہ دارانہ نظام میں حیات بخش خون کہلاتی ہے سود کی جو صورتیں ہمارے معاشرے میں مروّج ہیں، ان میں لوگ اپنی بچتیں بنکوں میں جمع کروا دیتے ہیں ۔ اس طرح بھی صنعت کاری وتجارت کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے...کاروباری معیشت کی بنیاد ایسے اُصول پر ہے جہاں ایک کی ضرورت دوسرے کے لئے رسد کی فراہمی کا ذریعہ اور ایک کی آمدنی دوسرے کا خرچ ہے۔ اگر یہ دائرہ کار درست گردش کرتا ہے تو معیشت کی ترقی اورفروغ یقینی ہے لیکن اگر گردشِ سرمایہ محدود ہو اور طلب ورسد میں رکاوٹ حائل ہو تو بے روز گاری، مہنگائی ، قرض وغیرہ کو رواج ملتا ہے۔

بنک انٹرسٹ کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سودی قرض لینے کا اہل وہی شخص ہے جو اس کے مقابل کوئی اور اسی قیمت کا اثاثہ رہن رکھوا سکے لہٰذا قرضے کی گردش امراء تک محدود رہتی ہے جبکہ علم معاشیات کا مسلمہ اصول ہے کہ گردشِ دولت کی رفتار جتنی تیز اور جتنے وسیع دائرہ کار ہوگی، معاشرہ کی معیشت بھی اسی رفتار سے ترقی کرے گی۔

مولانا عبدالرحمن کیلانی ؒ مرحوم (راقم کے نانا مرحوم) نے اپنی کتاب میں بڑی خوبصورتی سے اسلام میں گردشِ دولت کے فلسفے کو واضح کیا ہے جس میں سے ایک نکتہ کی وضاحت بڑی مفید ہوگی۔ آپ کہتے ہیں کہ ۱۰۰۰ روپے اگر کسی امیر شخص کے پاس ہوں تو دوسرے مال کی موجودگی میں اس کے خرچ کی نوبت دیر سے آئے گی اور وہ کچھ عرصہ محفوظ پڑا رہے گا۔ جبکہ یہ ۱۰۰۰ روپے اگر کسی غریب شخص کے پاس ہوں تو وہ ایک دو روز میں اس کو خرچ کرنے (گردش میں لانے) پر مجبور ہوگا۔ اسی طرح اسلام زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے امراء کو اپنا مال فقراء او رمساکین میں تقسیم کرنے کے احکام اور ترغیبات دے کر گردشِ دولت کی رفتار کو تیز تر کر دیتا ہے۔

(5) سود افراطِ زر پیدا کرتا ہے: سودی نظام کا ایک نتیجہ بے روز گاری کی صورت نکلتا ہے۔ ملک میں جتنی بھی صنعت کاری کی جائے گی یا تجارتی معاملات میں جو روپیہ استعمال ہوگا، صنعت کار یا تاجر اس پر بنکوں کو سود ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ صنعت کار یا تاجر سود کی اس رقم کو اپنی جیب سے نہیں دیتا بلکہ اس سود کو بھی اپنی Product کی قیمت میں شامل کر دیتا ہے لہٰذا اس اضافی رقم کے باعث قیمت ِخرید میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کا اثر براہ ِراست صارف کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ سود کی شرح کے تناسب سے ہی قیمت ِخرید میں اضافہ ہوگا اور گرانی ٔاشیاء کا تناسب بھی معاشی مشکلات کا باعث بنے گا۔ جس تناسب سے اشیاء کی قیمت ِخرید میں اضافہ ہوگا، اسی تناسب سے صارفین کی تعداد میں کمی واقع ہوگی جس کے باعث طلب ورسد میں کمی واقع ہوگی جس کے نتیجے میں صنعت وتجارت نقصان کا سامنا کرنے کے بعد بند ہو جائے گی اور اس کا منفی اثر ملکی معیشت پر پڑے گا۔

افراط ِزر جو اس وقت ہماری ملکی معیشت کا سنگین ترین مسئلہ ہے، کا تعلق سود سے بھی ہے۔ حکومتیں عوام سے رقم حاصل کرنے کے لئے بنکوں میں زیادہ شرح سود پر قرض جمع کرانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ جبکہ ملکی معیشت میںمندی کے باعث تجارت کرکے بھی اس قدر اضافہ حاصل کرنامشکل ہوتاہے۔ چنانچہبنک اس شرح سود کی ادائیگی میں اپنا خسارہ پورا کرنے کے لئے سٹیٹ بنک سے تقاضا کرتے ہیں ۔ بنکوں کے خسارے سے سٹیٹ بنک اور حکومت متاثر ہوتی ہے، چنانچہ اس خسارے کو کرنسی کی قیمت گرا کر، دوسرے لفظوں میں زیادہ نوٹ چھاپ کر حکومت پورا کرلیتی ہے۔

معاشی ماہرین یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ زیادہ شرح سود ، ایک ناکام معیشت کی علامت ہوا کرتی ہے۔وہ حکومتیں جو مالی مشکلات کا شکار ہوں ، عوام کو بنکوں کے ذریعے زیادہ شرح سود کا لالچ دے کر فوری طور پر تو سٹیٹ بنک کے دائرہ اختیار میں کافی رقم جمع کرلیتی ہیں لیکن یہ صورتحال در اصل ناکام معیشت کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔عین یہی صورتحال ان دنوں وطن عزیز میں بھی حکومت نے آمدن جمع کرنے کے لئے اپنا رکھی ہے۔

یورپی ممالک میں یہی وجہ ہے کہ کچھ برسوں سے بہت کم شرح سود متعارف کرائی جارہی ہے۔ہمارے ہاں اگر یہ شرحِ سود ۱۵ فی صد کے لگ بھگ ہے تو جاپان اور یورپ میں بعض بنک ایک فیصد شرح سود پر بھی قرضے دے رہے ہیں۔ او ر وہ ا س سے بھی زیادہ کم کرنا چاہتے ہیں۔ جدید دنیا آج معیشت کی کامیابی کے لئے شرح سود کو ختم کرنے یا بالکل کم کرنے کے درپے ہے ، اورتجربات کے بعد اسے کامیاب معیشت کی ضمانت قرار دے رہے ہیں اور ہم اسلام کے نام لیوا ، اللہ کے واضح احکامات اور سود کے مفاسد خوب جاننے کے باوجود سود میں گھٹنے گھٹنے دھنسے ہوئے ہیں،ہمارے لئے یہ مقامِ فکر ہے!٭


نوٹ

(۱) ربا کی مختلف تعریفات میں امام سرخسیؒ کی تعریف ''هوالفضل الخالي عن العوض المشروط إذا دخل في البیع'' سب سے جامع ہے لیکن دورِ حاضر میں اٹھائے جانے والے بعض شبہات کی وجہ سے اس میں معمولی سی وضاحت کی ضرورت ہے۔چنانچہ تعریف میںعوض کی بجائے 'بغیر کسی حق' کا لفظ استعمال کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ (دیکھئے صفحہ۴۶،۸۳)

(۲) حافظ ہیثمی فرماتے ہیں: اسے احمد بن حنبلؒ نے روایت کیا ہے کہ اور سند کے راوی صحیح حدیث کے رواۃ کی شرط پر پورے اترتے ہیں (مجمع الزوائد:ج۴، ص۱۱۷) علامہ ابن جوزیؒ نے راوی حسین بن محمد کی وجہ سے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے لیکن حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ حسین بن محمد بخاری و مسلم دونوں کے نزدیک قابل استدلال ہے( القول المسدد)

(۳) جب میں نے ابتدا میں اس دعویٰ پر غور کیا تو ذہن نے فوری طور پر اسے قبول نہ کیا کیونکہ یہ کہنا بڑی عجیب سی بات ہے کہ کرنسی بے فائدہ چیز ہے۔ ہمارا روزمرہ کا تجربہ ہے کہ بیسیوں خواہشات کی تکمیل صرف نقدی کی ہی محتاج ہوتی ہے۔ لیکن جب اس نکتہ پر غور کرتا گیا تو بات کھلتی گئی۔ آپ بھی اس مثال سے اس کو سمجھ سکتے ہیں:فرض کریں کہ ایک شخص کسی ویرانے یا جزیرے میں اکیلا جا پہنچتا ہے اور اسے چند دن وہاں گزارنے ضروری ہیں۔ اس شخص کے پاس سوئے اتفاق سے کوئی جنس تو موجود نہیں لیکن ایک لاکھ ڈالر موجود ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک لاکھ ڈالر اس کو کیا فائدہ دے سکتے ہیں۔ کیا وہ انہیں کھا سکتاہے یا ان میں حفاظت؍پناہ لے سکتا ہے یا ان کی کشتی ؍ سواری بنا کر اس جگہ سے جلد چھٹکارا

پاسکتا ہے۔ اس امر پر غور کریں تو یہ بات کھل جائے گی۔ دراصل کرنسی کو ہمارے موجودہ معاشرتی سسٹم نے ایک اہمیت ؍ افادیت دے رکھی ہے اور اشیاء کے حصول کا وسیلہ بنا رکھا ہے۔ کرنسی اپنی ذات کے اعتبار سے قابل فائدہ نہیں اور یہی ہمارا موقف ہے۔ جو شے اپنی بنیاد کے اعتبار سے قابل فائدہ نہ ہو، اس سے کرایہ کا فائدہ اٹھانا درست نہیں۔ ضروری ہے کہ کسی قابل فائدہ جنس میں تبدیل کرکے اس سے کرایہ کا فائدہ حاصل کیا جائے۔ اِس طرح اس کرنسی کا اس قدر ہی کرایہ لیا جاسکے گاجس قدر کرنسی سے متبدل جنس کی حیثیت ہے۔ کیونکہ زرفی ذاتہ کچھ نہیں، اسکا اعتبار اپنی قوت ِتبدیل کی بنا پر ہے

(۴) سرمایہ دارنہ نظام میں ذرائع پیداوار چار ہیں: زمین، محنت ، سرمایہ اور انتظام جس کے حاصل بالترتیب کرایہ، اُجرت سود اورمنافع ہیں۔ اس نظام میں روپے کو ذریعہ پیداوار تسلیم کرکے سود کو اس کا حاصل قرار دیا گیاہے۔

(۵) جدید زرعی تحقیقات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہے کہ کسی زمین میں مسلسل ایک ہی فصل کی پیداواراس میں مخصوص نمکیات کی قلت پیدا کردیتی ہے چنانچہ اس کی تلافی کے لئے ماہرین زراعت وہاں ایسی فصلوں کو تجویز کرتے ہیں جن کے ذریعے کم ہونے والے نمکیات کو دوبارہ پیداکیا جاتاہے۔ انہی مقاصد کے لئے کھادوں او رزرعی دوائیوں کو بھی استعمال میں لایا جاتاہے، جس سے معلوم ہوتاہے کہ زمین میں بھی استعمال سے کمی واقع ہوتی ہے، لیکن اس کمی کے تناسب میں فرق ضرور ممکن ہے۔