سپریم کورٹ کے مقدمہ سود میں مدیر اعلیٰ کاتحریری بیان

سپریم کورٹ آف پاکستان (شریعت اپلیٹ بنچ)

اپیل برخلاف فیصلہ مسئلہ سود از وفاقی شرعی عدالت پاکستان مؤرخہ ۱۴؍نومبر ۱۹۹۱ء

درخواست ڈاکٹر محمود الرحمن فیصل وغیرہ بنام سیکرٹری وزارتِ قانون، انصاف اورپارلیمانی اُمور حکومت ِپاکستان وغیرہ: ۱۱۸ مسؤل الیہان

تحریری بیان از حافظ عبدالرحمن مدنی ڈائریکٹر جنرل انسٹیٹیوٹ آف ہائر سٹڈیز (شریعت وقضاء) لاہور

تمہید ...بحث کا طریقہ کار

''سود'' فارسی زبان کا لفظ ہے جو اُردو میںبھی استعمال ہوتاہے ۔ عربی زبان میں اسے ''ربا'' کہتے ہیں اور انگریزی میںاس کے لیے Interest Usury, اورجدیداصطلاحMark-up وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں جن کے معانی یوں تو معروف ہیں لیکن تحقیق میںاس لئے باریک بینی سے کام لیا جاتاہے کہ سود کے تمام پہلو او رمتعلقات واضح ہوسکیں، تاکہ ان پر مناسب شر عی اَحکام کا انطباق کیا جاسکے۔ تفصیل میں جانے سے پہلے میں اپنی بحث کا طریقہ کار متعین کرنا چاہتا ہوں جو یہ ہے :

چونکہ وفاقی شرعی عدالت او رشریعت اپلیٹ بنچ (سپریم کورٹ) آئین میں دئیے گئے اختیارات ہی استعمال کرتے ہیں، اس لیے سب سے پہلے آئین کی دفعات 2 او ر2A کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں :

(2) Islam to be State Religion. Islam shall be the State religion of Pakistan.

(2a) The Objectives resolution to form part of substantive provision. The principles and provisions set out the objectives resolution reproduced in the Annex are here by made substantive part of the Constitution and shall have effect accordingly. (1)

آئین کی دفعہ 2Aمیں قراردادِ مقاصد کو دستور کامستقل اور مؤثر حصہ قرار دیا گیا ہے... اس کاتمہیدی فقرہ یوں ہے :

Where as sovereignty over the entire universe belongs to Allah Almighty alone and the authority which He has delegated to the state of Pakistan, throught's people for being exercised with limits prescribed by him is a sacred trust; (2)

تمہید ہی میں With limits prescribed by himکے الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ ریاست کے تمام ادارے بشمول عدلیہ اپنے مفوضہ اختیارات جوان کے پاس مقدس امانت ہیں ،اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ حدود کے ساتھ ہی استعمال کریں۔اللہ کا انسانوں کے لیے بیان وحی کے ذریعے ہی ہوتا ہے اوراس وقت ہمارے پاس محفوظ وحی ' کتاب وسنت'کی شکل میں ہے گویا ان الفاظ نے قرآن وسنت کو آئین پاکستان کااہم حصہ بنادیاہے۔ اسی طرح قرار دادِ مقاصد کا چوتھا فقرہ یوں ہے :

Wherein the principles of democracy, freedom, equality, tolerance, and social justice are enunciated by Islam shall be fully observed;

''جس کی رو سے جمہوریت ،حریت ، مساوات ،رواداری اورعدلِ عمرانی کے اُصولوں کو اسلام کی بیان کردہ تشریح کے مطابق پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے گا ۔''

اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ دورِ حاضر کے تمام اُصولی مسلمات اورنعرے جن کا خلاصہ اس فقرے میں موجود ہے، آئینی طور پر ان کی وہی تشریح معتبر ہو گی جو اسلام کے مطابق ہو ۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی کلام میں اس نکتہ کا تذکرہ یوں کیا ہے : ؎

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ


آئین پاکستان کی مذکورہ بالا دفعات اور ضمنی فقروں کا حاصل یہ ہے کہ مسئلہ سود پر گفتگو کرتے ہوئے اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا مقصود ہو یا اسلامی عدل وانصاف کے اصولوں کی وضاحت کرنا، اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ حدود کی روشنی میں ہی ہونا چاہیے ۔مذکورہ آئینی دفعات کے ذریعے کتاب وسنت کی آئین میں حیثیت کی وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہم سودکے اسکیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کیے گئے سوال نامے کی شق ۴ کے بارے میں بعض متجددین کے مغالطوں کو دور کرناچاہتے ہیں۔ ان شاء اللہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ سے متعلق اپنے منتخب نکات پر تبصرہ کے بعد ہم ان سوالوں کا جواب بھی دیں گے جس میں ہماری موجودہ آئینی تشریح کی بڑی اہمیت ہے ۔

اِجتہاد اوردورِ حاضرکے مسائل

چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا دین وشریعت نبیﷺ کے ذریعے مکمل کر دیا تھا جو قرآن وسنت کی صورت میں محفوظ ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی شریعت عالم گیر اور رہتی دنیا تک پیش آنے والے واقعات اور حالات کااِحاطہ بھی کر تی ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ کتاب وسنت میں وہ طریقہ کاربیان کر دیا گیاہو جو نت نئے حالات او رتمدنی اِرتقا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کاحل ہو ...اسے فقہی اصطلاح میں اِجتہادکہتے ہیں۔

اجتہاد کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے۔ اسی لیے فقہائِ اسلام نے اجتہاد کے اصول وضوابط کابڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے ، تاکہ اجتہادکا دائرئہ کار متعین ہو جانے کے ساتھ ساتھ فقہی ارتقاء کو بھی تجدد واِلحاد سے بچایا جا سکے۔ اسلام کی حقیقی وسعتوں کاضامن یہی اِجتہاد ہے ۔

اجتہاد کے لغوی معنی انتہائی محنت کے ہیں او ر اس لفظ سے ارد و میں جُہد اورجِہاد کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ جدوجہد کے معنی 'تگ ودو' اور جہاد کے معنی اسلام کے مخالفین کے بالمقابل 'غلبہ دین کے لیے انتہائی کوشش' کے ہوتے ہیں۔

اِجتہاد کی تعریف اوراس کا دائرہ کاریو ں بیان کیا گیا ہے :

«الإجتھاد لغة بذل المجھود واستفراغ الوسع في فعل من الأفعال، ولا یستعمل إلا فیما فیه کُلفة وجُھد، فیقال: أجتھد في حَمل الحَجَر ولا یقال: أجتھد في حمل خَردلة۔وأھل الشرع یستعملونه بمعنی بذل الجُھد في استنباط الحکم الشرعي مما اعتبرہ الشارع دلیلا وھو کتاب اللہ وسنة رسوله، وھذا یشمل الوجوہ الآتیة :
(أولاً) أخذ الحکم من ظواھر النصوص إذا کان محل الحکم ممّا تتناوله تلك النصوص وذلك بعد النظر في عامھا وخاصھا، ومطلقھا ومقیدھا، وناسخھا ومنسوخھا وما إلی ذلك مما یتوقف علیه الاستنتاج من الألفاظ۔
(ثانیاً) أخذ الحکم من معقول النص: بأن کان للحکم علة مصرّح بھا أو مستنبطة ومحل الحادثة مشتمل علی تلك العلّة والنص ـــ وذلك طریق القیاس
(ثالثًا) أن تنزل الوقائع علی القواعد العامة المأخوذة من الأدلّة المتفرقة في القرآن والسنة، وھذا ما یقع تحت اسم الاستحسان والمصالح المرسلة وسدّ الذرائع وما إلی ذلك» (تاریخ الفقہ الاسلامياز محمد علی السائس ص ۳۱ )

''اِجتہاد لغوی طور پر کسی کام میں انتہائی محنت او رقوت کے استعمال کوکہتے ہیںاور اس کا استعمال صرف اس موقع پر ہوتا ہے جب کہ بھرپورمحنت ومشقت کی جائے ،اس لئے یہ تو کہا جاتا ہے: میں نے پتھراُٹھانے کے لیے بھرپور کوشش کی ، لیکن یہ نہیں کہا جاتاکہ میں نے رائی کا دانہ اٹھانے کے لیے بھرپور کوشش کی ۔اہل شریعت لفظ اِجتہاد کا استعمال 'کتاب وسنت کے دلائل سے شرعی اَحکام کا اِستنباط کرنے 'کے معنوں میں کرتے ہیں جو مندرجہ ذیل صورتوں پر مشتمل ہوتا ہے :

(ا) نصوص کے ظاہری الفاظ سے اَحکام کو اخذ کرنا جبکہ محل حکم ایسی چیزوں سے ہو جن کو یہ نصوص شامل ہوں۔اخذ ِاحکام کا یہ کام نصوص کے عموم وخصوص، مطلق ومقید، ناسخ ومنسوخ وغیرہ پر غور وفکر کے ذریعے سے کیا جاتا ہے جن پر الفاظِ نصوص سے استنباط واستخراجِ مسائل موقوف ہوتے ہیں۔

(ب) شرعی احکام نصوص پر غور کرکے حاصل کئے جائیں ۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ شرعی حکم کے اندر جو علت ہے، جس کی صراحت یا تو نص کے اندر ہی ہوتی ہے یا استنباط کے ذریعے معلوم کی گئی ہے، کسی امر حادث پر اسی حکم کا اطلاق کردیا جاتا ہے کیونکہ اس میں بھی وہ علت موجود ہوتی ہے ...فقہ میں یہی قیاس کاطریقہ ہے۔

(ج) پیش آمدہ واقعات کو شریعت کے ان عمومی قواعد پر پرکھا جاتا ہے جوقرآن وسنت کی متفرق دلیلوں سے ماخوذہوتے ہیں۔ اجتہاد کے یہ طریقے استحسان ، مصالح مرسلہ ، سد ِذرائع وغیرہ کے نام سے معروف ہیں۔''

اِجتہاد کی اس بحث کاحاصل یہ ہے کہ اجتہاد شریعت کی وسعتوں کو جاننے ہی کا نام ہے ، نہ کہ شریعت سے مادر پدرآزادی ۔جیسا کہ آج کل عام طو ر پر جب کبھی شریعت سے خلاصی حاصل کر نی ہو تو کہہ دیاجاتا ہے کہ اجتہاد کر لیاجائے ۔فنی انداز میں اس بات کو یوںبھی بیان کیا جاتا ہے کہ پیش آمدہ مسئلہ میں سب سے پہلے صورت ِواقعہ کی پہچان بڑی ضروری ہے ۔ اسے فقہی اصطلاح میں فقہ الواقع کہتے ہیں۔ بعد ازاں واقعہ کے پیش نظراسلامی تعلیمات کی تلاش او ران کا صحیح مفہوم معلوم کرنے کو فقہ الأحکام کہتے ہیں۔ فقہ الاحکام کو فقہ الواقع پر لاگو کرناہی اجتہاد کہلاتا ہے ۔چنانچہ سود کے مذکورہ مقدمہ میں ہمیں اس علمی طریقہ کار کی پابندی کرنا ہوگی ۔

شریعت اور فقہ میں فرق ہے : چونکہ فِقہاجتہاد کا ہی حاصل ہوتی ہے اس لیے فقہاء شریعت وفقہ میں یہ امتیاز بھی کرتے ہیں کہ شریعت ِمحمدی میںوحی الٰہی ہونے کے ناطے اختلاف نہیں ہو سکتا جب کہ اجتہاد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی فقہ علمائے اسلام کی ذہنی کدوکاوش ہونے کی بناپر باہم مختلف ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت ِمحمدیؐ تو ایک ہے اورفقہ میں اختلاف ہونے کی بناپر فقہ جعفری ، فقہ حنفی ،فقہ مالکی ، فقہ شافعی ، فقہ حنبلی ،فقہ زیدی اور فقہ ظاہری وغیرہ میں تقسیم ہے (۳) (الاجتھاد في الفقه الإسلامي ... ضوابطه ومستقبله ص۱۹تا ۲۴ از عبد السلام سلیمانی )

وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے تنقیح طلب نکات

اس بحث سے پہلے میں نے تفصیل سے وفاقی شرعی عدالت کا مذکورہ فیصلہ پڑھا ہے او رسپریم کورٹ کا سوال نامہ بھی سامنے رکھا ہے۔ اس کی روشنی میں مذکورہ فیصلہ کے ۱۲؍ مقامات پر میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ کافی جامع ہے اوراس میں بہت سے شبہات اور اعتراضات کاجواب بھرپور دلائل سے دے دیا گیاہے ،تا ہم کمال کی کوئی حد نہیں ہوتی اور کم ترك الأولون للآخرین (پہلے لوگ بعد والوں کے لیے بہت کچھ چھوڑ جاتے ہیں ) کے مصداق میری نظر میں درج ذیل ۱۲؍مقامات ایسے ہیں جن میں سے بعض سے تو مجھے علمی اختلاف ہے اور بعض سے مجھے اختلاف تو نہیں لیکن ان میں مزید بہتری کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔یہ مقامات حسب ِذیل ہیں :

1۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کاپیرا نمبر ۴۲... سود کے حوالہ سے یہ جائزہ لینا ہے کہ کیا ظُلم سود کی حکمت ہے یا علت ...کیونکہ حکمت اورعلت میں فرق ہے ۔

2۔ فیصلہ کا پیرا نمبر۸۶ جس میں حدیث ''کل قرض جرّ منفعة فھور با'' کوسود کی تعریف قرار دیا گیا ہے ۔

3۔ فیصلے کا پیرا نمبر۷۳ ،۱۳۷جن میں یہ کہا گیا ہے کہ مذکورہ' مقدمہ سود' میں ربا الفضل کی بحث غیر متعلقہ ہے ۔

4۔ پیرا نمبر ۱۸۱ تا ۱۸۳کے ضمن میں ربا الفضل کی علت کیا ہے ؟

5۔ فیصلے کاپیرا نمبر۱۵۲ تا ۲۳۴ جن میں افراط ِزر، کرنسی اور اشاریہ بندی پر بھر پور تبصرہ ہے۔

6۔ پیرا نمبر۱۳۸ جس میں حضرت عمر ؓکے قول فدَعُوا الربا والرِّیبۃ کی بحث ہے ۔

7۔ پیرا نمبر ۹۳ تا ۱۲۹ جس میں سود مرکب کے علاوہ سود مفرد وغیرہ تمام اقسام سود کی بحث ہے ۔

8۔ پیرا نمبر۱۳۰ تا ۱۳۷ میں آیا تِ متشابہات کی بحث ۔

9۔ پیرا نمبر ۵۰ کی شق نمبر ۳ جس میں نہضۃ العلماء کانفرنس (مشرقی جاوا،انڈونیشیا )کے حوالہ سے مصلحت اور اجماع کی بحث کی گئی ہے۔

10۔ پیرا نمبر ۲۴۹ تا ۲۷۸ جن میں سود کی متبادل بعض اقسام بیع کی بحث ہے ۔

11۔ پیرانمبر ۵۶ تا ۶۴ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ پر تبصرہ ۔

12۔ ضمیمہ نمبر ۲ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کا تائیدی اور تنقیدی جائز ہ۔

نوٹ : رباکا لفظ قرآنِ مجید میں مختلف صیغوں(شکلوں) میں ۲۰ جگہ استعمال ہوا ہے اور ربا کے احکامات بالترتیب سورئہ روم ۳۰؍۳۹ ،سورئہ نساء ۴؍۱۶۰ ،۱۶۱، سورئہ آلِ عمران ۳؍۱۳۰،سورئہ بقرہ۲؍۲۷۵تا ۲۸۰ میں نازل ہوئے ۔میں سورہ بقرہ کی آیات ۰ ۲۸سے ۲۸۴تک کا اضافہ اس لیے کررہا ہوں کہ ان میں بیع(تجارت) مع دیانت واَمانت کاذکر ہے جوسود کا متبادل ہے، اسی طرح میں نے سود کے مختلف پہلوئوں پر مشتمل تقریباً ڈیڑھ ہزاراحادیث جمع کی ہیں ۔ مذکورہ بالاتمام آیات اوراحادیث کو ضمیمہ خصوصی کی صورت میںہمرا ہ منسلک کر رہا ہوں ۔ اورسود کی حرمت سے متعلق مذکورہ قرآنی آیات اور احادیث کا ترجمہ بھی کر دیا گیا ہے تا کہ پوری بحث کے دوران شریعت کے اصولوں اورحدود کے تعین کے لیے کتاب وسنت کے احکامات ملحوظ رہیں ۔

وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ میں نامزد ۱۲؍ مقامات پرتبصرہ


اب وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں مذکورہ ۱۲؍ مواقع اور ان پرتبصرہ ملاحظہ فرمائیں:

مقام نمبر 1 : ظلم سود کی علت نہیں بلکہ ایک حکمت ہے!

وفاقی شرعی عدالت پاکستان نے اپنے فیصلے کے پیرا نمبر ۴۲ میں سورۃ البقرہ کی آیت ۲۷۹ کے الفاظ ﴿لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ﴾ کا بطورِ دلیل جائزہ لیاہے ۔ میں یہاں یہ اضافہ کرناچاہتا ہوں کہ آیت ِمذکورہ میں سود چھوڑ کر اصل زَ ر لینے کا جو حکم وار دہوا ہے، اُسی کے ذیل میں قرآن نے یہ ہدایت دی ہے کہ قرض خواہ اصل زَر سے زیادہ مانگ کر ظلم نہ کریں او رنہ ہی قرض داروں کی طرف سے قرض خواہوں پر کسی سابقہ ادا شدہ سود کے حوالہ سے اصل زَر سے کم دے کر زیادتی کی جائے ۔ بعض حضرات نے مذکورہ ظلم کو سو دکی علت قرار دے کر سودکی جائز اورناجائز دو قسمیں کرنے کی کوشش کی ہے جو درست نہیں ہے کیونکہ یہاں ظلم کاذکر بطورِ حکمت ہوا ہے نہ کہ علت کے طور پر ...

علت اور حکمت میں فرق

عراق کے مشہور فقیہ اورقانون دان ڈاکٹر عبد الکریم زیدان کی تصنیف کردہ اُصولِ فقہ کی مشہور کتاب الوجیز فی اصول الفقہ(صفحہ ۲۵۱ تا ۲۷۲) کے اردو ترجمہ جامع الأصولمیں علت کی شرائط کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے ۔ علت اورحکمت کے فرق کے بارے میں ص ۲۵۳ تا ۲۵۶ قابل مطالعہ ہیں جس کا یہ اقتباس خصوصیت سے قابل توجہ ہے۔ ( اگرچہ اس کتاب میںمذکور علت کی شرطوں کی بحث بھی اپنی مثالوں کے ساتھ پیش نظر رہنی چاہیے)

''تشریع اَحکام کا مقصد لوگوں کی مصالح کو پورا کرنا ہے ۔ اسی مصلحت کو حکم کی حکمت یا علامت کہتے ہیں۔چنانچہ حکم کی حکمت یہی مصلحت ہے جو حصولِ منفعت یا دفع مضرت کی صورت میں ہوتی ہے ، جس کو شارع اس حکم کی تشریع کے ساتھ وجود میں لانا چاہتا ہے ۔

شرعی حکم کی بنیاد براہ راست اس کی حکمت پر نہیں رکھی جاسکتی : تا ہم یہ بات قابل لحاظ ہے کہ شریعت نے حکم کو اس کی حکمت کے ساتھ اکثر احکام میں، وجود یاعدم کے اعتبار سے ، براہِ راست مربوط نہیں کیاہے بلکہ ایک دوسری چیز کے ساتھ اس کو مربوط کیا ہے ۔ جومصلحت اس حکم سے مقصود ہے وہ اس دوسری چیز کے ساتھ مربوط کرنے سے پوری ہوجاتی ہے ۔ جیسے رمضان میں کسی سبب سے روزہ نہ رکھنے کا حکم ہے ۔اس حکم کو براہِ راست اس کی حکمت یعنی دفع مشقت کے ساتھ مربوط نہیںکیا بلکہ اس کو ایک دوسری چیز کے ساتھ مربوط کیا ہے ، وہ سفر ہے یابیماری ۔ اس کے ساتھ مربوط کرنے سے حکم کی اس حکمت کی غرض پوری ہو جاتی ہے۔ اس طریقہ کار کی وجہ یہ ہے کہ حکم کی حکمت کبھی پوشیدہ ہوتی ہے ۔ ظاہر میں اس کے وجود کا سامنے آنا ممکن نہیں ہوتا ۔ اس لیے حکم کی بنیاد براہِ راست ا س کی حکمت پر نہیں رکھی جا سکتی ہے ۔اسی طرح خریدوفروخت اورایسے ہی دوسرے معاملات جن میںطرفین سے عوض دیاجاتا ہے،کی اِباحت ہے ۔ خریدو فروخت اورایسے ہی دوسرے معاملات کی اجازت دینے میں حکمت یہ ہے کہ ان کی شرعی حاجتوں کو دور کر کے ان سے تنگی کودور کیا جائے ۔ انسان کی حاجت ایک پوشیدہ چیز ہے ۔ اس لیے شارع نے اس حکم کو ایک دوسری ظاہری چیز کے ساتھ مربوط کر دیا ہے ، جس سے یہ غالب گمان ہوتا ہے کہ وہاں انسان کی حاجت موجود ہے ۔یہ ظاہری چیز اِیجاب وقبول ہے ۔

اورکبھی حکمت غیر منضبط ہوتی ہے، یعنی لوگوں کے اختلاف وتبدیلی ،اور ان کے اندازوں میں تبدیلی سے اس میں تبدیلی آجاتی ہے ،اس لیے حکم کی بنیاد اس پر نہیں رکھی جا سکتی ، کیونکہ یہ چیز اَحکام میں انتشار کی طرف لے جائے گی ۔ اس صور ت میں تکلیف یعنی مکلف ہونے کا حکم ایک چیز پر قائم نہیںرہ سکتا ، او رنہ اس میں عمومیت آسکتی ، اور نہ اس کو باقاعدہ بنایا جاسکتا ہے۔ او راحکام سے راہِ فرار اختیار کرنے کے بہت سے دعوے ہوسکتے ہیں...مثال کے طورپر رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی ا جازت کی مذکورہ مثال کو ہی لیجیے ۔ اس کی حکمت مشقت کو دور کرنا ہے۔ یہ ایک اندازہ سے مقرر کی جانے والی چیز ہے ، اور اس کا کوئی باقاعدہ متعین ضابطہ نہیں ہے ۔ اس لیے شارع نے اس حکم کو ایک ایسی چیز کے ساتھ مربوط کیاہے جو متعین ہے اوراس میں کوئی تبدیلی نہیںہو سکتی ،یہ چیز سفر یا مرض ہے ۔ او ران دونوں میں یہ غالب گمان موجود ہے کہ حکم کی حکمت سے جو چیز مقصود ہے وہ پوری ہو جائے گی ۔ اس کی دوسری مثال ضرر کو دور کرنے کے لیے شُفعہکے احکام ہیں ۔ ضرر کوئی متعین اورباقاعدہ شے نہیں جس میں تبدیلی نہ ہوتی ہو ۔ اس لیے شارع نے اس حکم کوشرکت یا پڑوسی کے ساتھ مربوط کیا ہے کیونکہ شریک یاپڑوسی کو خریدنے والے سے ضرر پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے حکم ان دونوں چیزوں کے ساتھ وابستہ کر دیا ،کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ نقصان انہی دونوںکو پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے ان سے نقصان کو دور کرنے کے لیے ان کے ساتھ حکم کو مربوط کیا ہے اورشارع کا یہی مقصود ہے ۔

حکم کی بنیاد حکمت نہیں بلکہ علت ہوتی ہے: چنانچہ حکمت کے پوشیدہ ہونے یا متعین وباقاعدہ نہ ہونے کے سبب سے اکثر اَحکام کا دارومدار اِس پر نہیں بلکہ ان کو ایک ایسی چیز سے مربوط کیا ہے جو کھلی او رظاہر ہو او رباقاعدہ اور متعین ہو اور غالب گمان یہ ہو کہ حکم کی حکمت سے جو مقصود ہے وہ اس سے پورا ہو جائے گا۔ یہ ظاہر ومتعین وباقاعدہ چیز علمائے اُصول کی اصطلاح میں علّت کہلاتی ہے ۔ اسی کو علت ِحکم ،مناطِ حکم یا مظنّہ حکم کہتے ہیں ۔

اس جائزہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حکم کی علت اور حکم کی حکمت کے درمیان فرق ہے ،جو یہ ہے کہ حکمت سے مراد ''وہ مصلحت ہے جس کو شارع اس حکم کی تشریع سے پورا کرنا چاہتا ہے ۔'' اور ''علّت حکم کی وہ ظاہری ومتعین باقاعدہ صفت ہے جس پر حکم مبنی ہوتا ہے، اور اپنے وجود وعدم کے اعتبار سے اس کے ساتھ مربوط ہوتا ہے ، کیونکہ اس حکم کی تشریع سے جو مصلحت مقصود ہے ، اس سے اس کے پورا ہونے کا غالب گمان (مظنّہ) ہے ۔'' اس لیے علمائِ اُصول یہ کہتے ہیں :''الأحکام تربط بعللھا لا بحکمھا'' یعنی ''شرعی احکام اپنی علتوں کے ساتھ مربوط ہیں، نہ کہ اپنی حکمتوں کے ساتھ، اس کامطلب یہ ہے کہ جب علت موجود ہو گی تو حکم بھی موجود ہو گا۔ اگر چہ بعض اوقات اس کی حکمت موجود نہیں ہوتی۔ اور جب علت موجود نہ ہو گی تو حکم بھی موجود نہ ہوگا،اگرچہ بعض اوقات ا س کی حکمت موجودہوتی ہے ،کیونکہ حکم کے علت کے ساتھ مربوط ہونے میں یہ غالب گمان موجو د ہوتا ہے کہ اس کی حکمت کامقصد اس سے پورا ہو جاتا ہے ۔ اکثر وبیشتر احکام میں ان کی علتوں سے وہ مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے جو ان کی تشریع سے شارع کے ذہن میں ہوتا ہے ۔ شاذونادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس علت سے وہ مقصد پورا نہیں ہوتا ۔تاہم یہ بات واضح رہے کہ اکثریت کااعتبار ہوتا ہے ، شاذونادر کا نہیں ۔ جیسے اگر کوئی طالب ِعلم امتحان میں اچھے درجہ سے کامیاب ہو تو ا س کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے علوم کا اچھی طر ح مطالعہ کیا ہوگا، اوران سے پوری طرح واقف ہوگا ،اورغالب گمان یہی ہے کہ تعلیم کے اس مرحلہ کو مکمل کرنے کی اس میںپوری صلاحیت موجودہوگی۔ نیز احکام کوعلتوں کے ساتھ مربوط کرنا تکلیف ِاحکام کومستقل اوردائمی بنانے ، ان کو باقاعدگی بخشنے ،ان میں عموم پیدا کرنے، تشریع کے عام احکام کو غیر متبدل ،اور ان کوواضح کرنے کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔ یہ بڑے بڑے فائدے ہیں۔ اگر کبھی بعض جزئیات یا خاص واقعات میں حکمت فوت ہو بھی ہو جائے تو اس سے ان پر کوئی اثر نہیںپڑتا ۔ اس اصول کی بناپر اگر کوئی مسلمان سفر کر رہا ہو ، تو ا س کوروزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ، چاہے روزہ رکھنے میںاس کو مشقت نہ ہو ، اور جو شخص اپنے گھر پر ہو ،تو اس کو روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں۔چاہے اس کو اپنے کام میں کتنی ہی تکلیف ومشقت ہو۔ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ زمین میں شریک ہواور اس کاشریک اس زمین کو کسی اجنبی شخص کے ہاتھ فروخت کرے تو اس کوحق شفعہ کے سبب اپنے شریک کے حصہ کا مالک ہونے کاحق حاصل ہے ، چاہے اس خریدنے والے سے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچے، کیونکہ حق شفعہ شرکت یاپڑوس کے ساتھ مربوط ہے ،ایسے نقصان کے ساتھ نہیں جوبالفعل اس کوپہنچتا ہو۔ جوشخص اس زمین میں شریک نہ ہو یا اس کاپڑوسی نہ ہو تو حق شفعہ کے سبب اس کو اس زمین کی ملکیت کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔ اگر چہ خریدنے والے سے ا س کو کتنا بڑا نقصان پہنچے۔ کسی چیز کے فروخت کرنے کی صورت میںاگر اس کی علت پائی جائے ،یعنی ایجاب وقبول موجود ہو، تو اس چیز کی ملکیت خریدنے والے کی طر ف منتقل ہو گی ، او رقیمت کی ملکیت بیچنے والے کی طرف ۔چاہے ظاہری طور پر فریقین میں سے کسی کی بھی حاجت نہ پائی جائے ۔ اسی طرح دوسری مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔'' (جامع الاصول ترجمہ الوجیز صفحہ ۲۵۳ تا ۲۵۶)

اس کے بعد مصنف نے علت کی شروط کا بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ہم صرف علت کی شروط پرمبنی عنوانات کے ذکر پر اکتفاکرتے ہیں:

(1) علت ایک ظاہر وصف ہونا چاہیے

(2) علت ایک منضبط اور غیر متبدل وصف ہونا چاہیے

(3) وصف حکم کے مناسب ہونا چاہیے

چونکہ وصف کی حکم سے مناسبت بہت معرکۃ الآراء مسئلہ ہے لہٰذا ہم اسے صرف ضمیمہ کے طور پر منسلک کر رہے ہیں ۔اسی طرح بعض دیگر شروط بھی ہیںجو مختلف فیہ ہیں، ان کے یہاں ذکر کی ضرورت نہیں۔ بسا اوقات یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ حکمت کیوں علت نہیںبن سکتی ۔لہٰذا واضح رہے کہ کبھی حکمت بھی علت بن جاتی ہے ۔مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ حکمت میںہی علت کی شرائط پائی جائیں۔ملاحظہ ہو مباحث العلة في القیاس عند الأصولین از عبدالحکیم سعدی ص ۱۰۶ تا ۱۱۸

میں اس کتاب سے اُصولیوں کے صرف راجح قول کو نقل کرتا ہوں: (ص ۱۱۳تا۱۱۴ )

«فقد ذھب بعض الأصولیین إلی التفصیل في جواز التعلیل بالحکمة، فأجاز التعلیل بھا إن کان ظاھرة منضبطة بنفسھا، ومنع التعلیل بھا إن کان مضطربة أو خفیة، وھذا ما ذھب إلیه: الآمدي ، وابن الحاجب والصفي الھندي وکثیر غیرھم»

''بعض اصولی حکمت کوعلت بنانے کے سلسلے میں تفصیل یوں پیش کرتے ہیں کہ اگر وہ حکمت خود ظاہری اورمنضبط ہو تو علت بن سکتی ہے ـ۔اگر اس میں خفا اوراضطراب کی کیفیت ہو تو علت نہیں بن سکتی ۔ یہ رائے آمدی، ابن حاجب اور صفی ہندی وغیرہ بہت سے اصولیوں کی ہے''

قرآنِ کریم میں صرفی اور تجارتی سود کی حرمت

سورۂ بقرہ کی آیت ۲۷۹ ﴿وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُ‌ءوسُ أَمو‌ٰلِكُم﴾ میں اصل زَر (رأس المال) لینے کی اجازت مطلقاً آئی ہے ۔یعنی ادھار کا معاملہ خواہ صرفی (ذاتی) مقاصدکے لئے پیش آئے یا تجارتی اَغراض کے لیے ،دونوںصورتوں میں قرض خواہ مقروض سے صرف اصل زَر لے سکتا ہے۔ البتہ اگر سرمایہ کوقرض کی بجائے کاروبار کے لیے دیا جائے تو اس کی تفصیلات قرآن وسنت میں موجود ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے قرض کے ذکر کے فورا بعد دَین مؤجل کاذکر کیا ہے جوسورئہ بقرہ کی آیت ۲۸۲ اور ۲۸۳ میں صراحت سے آیا ہے، اس کے آگے پیچھے آیت ۲۸۱ اور آیت ۲۸۴ میں اُخروی محاسبہ کا ذکر ہے۔ مقصد یہ ہے کہ معاملات کے اندر نیتوں اورمقاصد کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے کاجن کا اصل محاسبہ تو روزِقیامت ہی ہوگا لیکن دنیا میںبھی علامتوں کے بموجب معاملات کی صورتیں متعین کی جائیں گی ۔

قرض او ردَین میں فرق ہے : عام طور پر لفظ قرضاورلفظ دَینمیں فرق نہیںکیا جاتا ۔ ترجمہ کرنے والے دَینکا ترجمہ بھی قرض سے ہی کردیتے ہیں ۔ جیسا کہ بالخصوص انگریزی ترجموں میں آپ ایسی بے احتیاطی زیادہ پائیں گے۔ لیکن دَین کا لفظ عربی زبان میں عام ہے اورقرض کا لفظ خاص یعنی صرف اصل مال واپس لینے کی اجازت قرض کے معاملہ تک محدود ہے اور جو سرمایہ کاروباری مقاصد کے تحت دیا جاتاہے اس پر صرف دَین کا اطلاق ہوتا ہے قرض کا نہیں۔( الفائدہ والربا از سعدی ابو حبیب ص ۱۶ و مترادفات القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی ص ۱۲۷ ، ۱۲۸ )

مفسرین نے سورئہ بقر ہ کی آیت ۱۸۲ کے شروع کے الفاظ ﴿إِذا تَدايَنتُم بِدَينٍ إِلىٰ أَجَلٍ﴾ کے بارے میں تفسیر کرتے ہوئے صحابہ کی تفاسیر سے بیع السّلم اور بیع مؤجّل کا ذکر کیا ہے: وکان ابن عباس یقول نزلت ھذہ الاٰیۃ فی السلم خاصۃ (تفسیر طبر ی :ج ۳ ص ۱۱۶)

'' ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:یہ آیت خصوصی طور پر[ اُس ]بیع سلم کے بارے میں اُتری ہے [جس میں نقد رقم کے بدلے خریدی چیز کو متعینہ صفات کے ساتھ مخصوص مدت کے بعد حاصل کرنے کا سودا ہوتاہے]''

میں توجہ دلانا چاہتاہوں کہ رِباکے فوراً بعد(آیت ۱۸۲میں) تجارتی معاہدوں کا ذکر کر کے قرآنِ مجید نے ان لوگوں کے نظریہ کی تردید کر دی ہے جو کہتے ہیں کہ ربا کا تعلق صرف صرفی مقاصد کے لیے قرض لینے سے ہے، کاروباری معاہدوں سے اس کاکوئی تعلق نہیں ۔ حالانکہ خود قرض کی ایک صورت بھی کاروباری ہوتی ہے یعنی جب قرض لینے والا کاروباری شروط کے بغیر سادہ قرض لے کر ا س سے کاروبار کرے ۔ایسی صورت میں قرض خواہ مقروض سے کوئی منافع تو نہیں لے سکتا، لیکن قرض خواہ کا مال محفوظ رہتا ہے اور وہ اسے پورے کا پورا واپس مل جاتا ہے ۔ جب کہ مضاربت اورمشارکت کی صورتوں میں رأس المال نفع ونقصان کی زد میں آتا ہے۔

سورئہ بقرہ کی آیت ۲۸۳ میں اَمانت کاذکر آیا ہے۔ امانت سے مراد اگرچہ عموماً گروی شے لی جاتی ہے لیکن اس کاایک مفہوم وہ قرض بھی ہے جو مضاربت او رمشارکت کے معاہدوں کے بغیر بطورِ قرض لیا جاتا ہے ۔ لیکن اس سے تجارت کی جاتی ہے لہٰذا اس میں وقت مقررہ کے بعد پور ا رأس المال واپس کر نا ضروری ہے خواہ فائدہ ہوا ہو یانقصان ۔لہٰذا اس صورت میںرأس المال بالکل محفوظ رہتا ہے چنانچہ اس کی طرف اشارہ 'امانت 'کے لفظ سے کیاگیا ہے ۔

مقام نمبر 2: ربا کی جامع مانع تعریف؟

وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلہ کے پیرا نمبر ۸۶ میں ربا کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے :کل قرض جرّ منفعة فھو رِبا ۔ ''ہروہ قرض جو فائدے کا موجب بنے، ربا ہے''یہ الفاظ اگرچہ عموماً بطورِ حدیث ِرسولﷺ بیان کیے جاتے ہیں لیکن تحقیق کے مطابق یہ الفاظ محمدبن سیرین ؒتابعی کے ہیں اگرچہ بہت سے صحابہ جیسے فضالہ بن عبیدؓ وغیرہ سے بھی اس سے ملتے جلتے الفاظ ثابت ہیں۔ تابعی کی بات کو اصطلاح میں حدیث مقطوع اور صحابی کی بات کو حدیث موقو ف کہتے ہیں۔ یہ الفاظ مفہوم کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ حدیث موقوف ہیں ۔ کیونکہ یہ ربا کی مکمل تعریف نہیں بلکہ اس کی ایک قسم قرض کی تعریف ہے،حالانکہ رسو ل اللہ ﷺ سے اگر اس طرح کی تعریف وارد ہوتی تو وہ جامع ہوتی کیونکہ آپ کے امتیازات میں یہ شامل ہے:

«أُعْطِیتُ جوامع الکلم» (صحیح مسلم مع المنہاج ج ۵،۶صفحہ ۸ )

''میں دیگر انبیاء پر یہ امتیاز رکھتاہوں کہ مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ''

بہر صورت اب یہ الفاظ مشہور مقولہ بن گئے ہیں،اس لیے عموماًربا کی تعریف کرتے ہوئے انہیں ذکر کر دیا جاتا ہے ۔ روایتی تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو : إرواء الغلیل از محمد ناصر الدین البانی: ج۵؍صفحہ ۲۳۴تا ۲۳۶ )

واضح رہے کہ تابعی یا صحابی کی بات کو اصطلاحا ًحدیث اس لیے کہہ دیاجاتا ہے کہ زیادہ امکان یہی ہوتا ہے کہ صحابی یا تابعی کی بات کایہ مفہوم رسول کریم ﷺ کی بات ہی ہو۔ اِسی بناپر کل قرض جرّ منفعة فھو ربا کے مقولہ پر حدیث کا اطلاق ان مخصوص معنوں میںدرست ہے ۔تاہم ربا کی یہ تعریف قرض کے ربا تک محدود ہے اور بیوع کے ربا کے لیے اس پر امام سرخسی ؒ کی تعریف کا اضافہ کرنا پڑے گا جو یوں ہے : ھوالفضل الخالي عن العوض المشروط إذا دخل في البیع (کتاب المبسوط ج ۱۲ ص ۱۰۹)

''ربا معاہدئہ بیع میں ایک فریق کے لیے وہ مشروط اضافہ ہے جس کا کوئی بدل نہ ہو''

اگر اس تعریف کو تھوڑا سا بدل دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوجائے گی کیونکہ امام سرخسی ؒ کی مراد ایسی ہی ہے۔ یعنی ''ربا باہمی لین دین کا وہ معاملہ ہے جس میں مشروط اضافہ بلا استحقاق ہو''

اسلام میں وقت ذریعہ پیداوار نہیں: میں نے بیع یا قرض کے بجائے لین دین کے معاملہ (Transaction) کے الفاظ اس تعریف کو جامع بنانے کے لیے استعمال کیے ہیں اور مشروط اضافہ کے ساتھ 'بلا استحقاق' کے الفاظ کا اضافہ اس لئے کیا ہے کہ بعض لوگ سود کو وقت گزرنے کا عوض لینے کا حیلہ بناتے ہیںجبکہ اسلام کی رو سے 'وقت' ہوا اور روشنی جیسی ایک قدرتی نعمت ہونے کی ناطے ذریعہ پیداوار نہیں۔ بعض لوگوں کو ہمارے ہاں مزدوری میں 'وقت کے تعین' سے یہ مغالطہ ہوسکتا ہے کہ وقت کی بھی قیمت ہوتی ہے حالانکہ بیکار وقت کی کوئی اُجرت نہیں ہوتی بلکہ اُجرت تو کام کی ہوتی ہے لیکن اس کا اندازہ وقت کے حساب سے کیاجاتاہے۔ اسی لیے ایک حدیث ِقدسی میں رسول اللہ ﷺ نے زمانہ اور وقت کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر کیا ہے : ( سنن کبریٰ ص ۳۶۵، مسلم مع النووی ص۳؍ ۳۱۰)

«لاتسبّوا الدھر فإن اللہ قال أنا الدهر وفي روایة مسلم فإن اللّٰه هو الدهر»

''زمانہ کوگالی نہ دو کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :میں زمانہ ہوں''

اسلامی ذرائع پیداوار کی تفصیلی بحث آگے آرہی ہے ...

مقام نمبر 3 : ربا الفضل کی بحث غیر متعلقہ نہیں!

فیصلے کے پیرا نمبر۷۳ اور ۱۳۷ وغیرہ میں کہاگیا ہے کہ مذکورہ مقدمہ ربا کے سلسلے میں ربا الفضل کی بحث غیر متعلقہ ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ۔ اس وقت سودی معاہدوں میںعموماً کاغذی کرنسی بطورِ سرمایہ چلتی ہے اور کرنسی کا تعلق ربوالفضل سے ہے، کیونکہ کرنسی کے پیچھے ماضی قریب تک سونا چاندی اَساس کے طور پر موجود رہے ہیں جس کی تعبیر یوں کی جاتی ہے کہ ''کرنسی سونا چاندی کے قائم مقام ہے''...اسی وجہ سے کاروباری معاملات میں سوناچاندی کاتبادلہ ربا الفضل میں بیع صَرف کی قسم سے شمار کیا جاتا ہے۔اس سلسلہ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے سے ہی ہم پیرا نمبر ۱۸۱ میں مذکور حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی حدیث ذکرکرتے ہیں...رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

«الذھب بالذھب والفضة بالفضة والبُرّ بالبُر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالملح مثلاً بمثل سواء بسواء یدا بید۔ فإذا اختلفت ھذہ الأصناف فبیعوا کیف شئتم إذا کان یدا بِیَد» (صحیح مسلم: ص ۳۱۲)

'' سونا کی سونا کے بدلے ،چاندی کی چاندی کے بدلے ،گندم کی گندم کے بدلے ،جو کی جو کے بدلے،کھجور کی کھجور کے بدلے، نمک کی نمک کے بدلے برابربرابر، یکساں طور پراور ہاتھوں ہاتھ خریدوفروخت ہونی چاہیے ،لیکن اگر انہی صنفوں کا مختلف ہوکر سودا ہو تو اضافہ میں کوئی حرج نہیں تا ہم ہاتھوں ہاتھ ہوناضروری ہے ۔''

اِصطلا ح میں اسے ربا الفضل ہی کہتے ہیں جس کی تین قسمیں کی جاتی ہیں :

(1) مذکورہ ہم صنف اشیا کا کمی بیشی سے سودا

(2) مذکورہ ہم صنف اشیاء کا برابری کی صورت میں اُدھار کاروبار

(3) مذکورہ اشیاء صنف میں تو مختلف ہوں لیکن ان کی خریدو فروخت اُدھار کے ساتھ ہو۔

اس کے بارے میں مزیدگفتگو ہم بعد میں کریں گے،فی الحال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ربا الفضل غزوئہ خیبر ۷ھ ؁ کے موقع پر حرام ہوا جس کی دلیل کے طو ر پر درج ذیل دواحادیث ملاحظہ فرمائیں :

(i) ابو سعید خدریؓ اورابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسو لِ کریم ﷺ نے خیبر کے علاقہ پر ایک شخص کو حاکم بنایا تو وہ آپ کے پاس عمدہ کھجوریں لے کر آیا ، آپ نے پوچھا :کیا خیبر کی تمام کھجو ریں ایسی ہی ہیں؟ اس شخص نے جواب دیا: اے اللہ کے رسولﷺ!ایسی بات قطعاً نہیں، ہم ان عمدہ کھجوروں کا ایک صَاع (ایک پیمانہ) ملی جلی کھجوروں کے دوصاعوں یا تین صاعوں کے بدلے میں خریدتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ''ایسا نہ کرو بلکہ ملی جلی کھجوروں کو درہموں کے بدلے بیچ کر پھر ان درہموں سے عمدہ کھجوریں خرید لیا کرو ۔''

(ii) اسی طرح فضالہ بن عبید ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے خیبر کے دن ۱۲؍دینار کے عوض ایسا ہارخریدا جس میں سونا اورجواہرات تھے پھر جب انہوں نے اس ہار کو کھولا تو اس میں۱۲؍ مثقال(دینار) سے زیادہ سونا ملا ۔انہوں نے اس بات کا ذکر رسول اکر مﷺسے کیا تو آپ نے فرمایا کہ ''ایسی چیزیں کھولے بغیر نہ بیچی جائیں'' (کتاب دراسا ت حول الربا والفوائد والمصارف از فیصل مولوی ص۱۴)

ربا الفضل کا ایک حصہ ان چھ چیزوں میں سے سونا چاندی کا باہمی تبادلہ ہے جسے بیع الصرف کہتے ہیں اور دوسرا حصہ بقیہ چار چیزوں کا باہمی تبادلہ ہے ۔اگر یہ سوداہم صنف اشیا میں کمی بیشی کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ بھی ہو تو اُسے رباالفضل کہتے ہیں لیکن مذکورہ اشیا کی مختلف اصناف کی باہمی خرید وفروخت میںکمی بیشی تو جائز ہے لیکن یہ کاروبار اُدھار نہیں ہو سکتا ۔اُدھار ہونے کی صورت میں اسے ربا النسیئۃ کہتے ہیں جو ربا الفضل کی ہی ایک قسم ہے۔الغرض ربا الفضل کی بحث مسئلہ سود سے غیر متعلقہ نہیں بلکہ کرنسی جو عرفاً سونا چاندی کی نیابت کرتی آرہی ہے کے معاملے رباالفضل سے ہی متعلق ہیں

مقام نمبر 4 : ربا الفضل کا ایک مقصد انسانوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی آسان بنانا ہے!

ربا الفضل کی بحث میں پہلی بات یہ ہے کہ کیا ان اشیا کی کمی بیشی یا اُدھار کی شکل انہی اشیاء تک محدود ہے یا کوئی ایسی مشترک علت ہے کہ اس کے پائے جانے سے ربا الفضل کا اِحاطہ وسیع تر ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں فقہا کے اَقوال مختلف ہیں ۔ جن کا خلاصہ تفسیر اضواء البیان از محمد امین شنقیطی ص۱؍ ۳۰۸ تا ۳۱۴ کے حوالے سے ذیل میں دیا جارہا ہے :

اس خلاصہ سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ رباالفضل والی عمومی احادیث میں اگر چہ سونا، چاندی ،گندم ،جو ، کھجور او رنمک کا ذکرہے لیکن تقریباً ۱۰ روایات میں خشک انگور (منقیٰ) کا ذکربھی پایاجاتا ہے۔ ملاحظہ ہومجموعہ احادیث ِربا وقرض ( ضمیمہ خصوصی از حافظ عبدالرحمن مدنی )

تفسیر أضواء البیان کی مذکورہ بالا بحث کا خلاصہ یہ ہے:

امام ابوحنیفہ ؒکے نزدیک تمام دیگر وزنی او رپیمائشی اشیاء بھی ان چھ،سات چیزوں کے ساتھ شامل ہیں۔ جب کہ امام مالک ؒسونا،چاندی کے قیمت بننے کو اورباقی اشیاء کے قابل ذخیرہ غذا ہونے کو علت قرار دیتے ہیں اوریہ شرط بھی لگاتے ہیں کہ اس علاقہ کی وہ غالب خوراک ہوں۔امام شافعی ؒنے سونا چاندی کی حد تک امام مالک ؒسے اتفاق کیا ہے ۔ لیکن باقی اشیاء کے بارے میں صرف خوراک ہونا ہی کافی قرار دیاہے اور امام احمد بن حنبلؒ سے مذکورہ بالا تینوں اماموں کے سے اقوال ملتے ہیں ۔

امام احمد بن حنبلؒ سے تینوں طرح کے اَقوال ملنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ اربعہ کے اقوال باہمی متضاد ہونے کی بجائے اسی طرح ایک چیز کے متنوع پہلو ہیں جس طرح ایک عمارت چاروں طرف سے مختلف نظر تو آتی ہے لیکن عمارت ایک ہی ہوتی ہے۔ آپ دیکھئے کہ امام مالکؒ اورامام شافعی ؒکی خوراک کے بارے میں قابل ذخیرہ اورناقابل ذخیرہ ہونے کی تفریق تمدنی ارتقاء کے نتیجے میں کس طرح ختم ہو کر رہ گئی ہے؟ اب کولڈ سٹوریج اور دیگر وسائل حفاظت سے ہر قسم کے کھانے محفوظ رکھے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح امام ابوحنیفہؒ کی توجیہ پر غور کیا جائے تو نظر یہ آتا ہے کہ وہ وزن اور پیمانہ کے تصور سے ان اشیاء کے معیارو مقدار ہونے پر زور دینا چاہتے ہیں ۔ خوراک کے ساتھ معیار ومقدار کو جمع کیا جائے تو نتیجہ یہ نکلتاہے کہ سونا چاندی اس وقت معیار بنتے ہیں جب کہ وہ مالِ تجارت ہونے کی بجائے صرف ذریعہ تجارت ہوں۔(ملاحظہ ہو کتاب الاقتصاد للمسلمین ازڈاکٹر رفعت عوضی ص۲۲۳تا ۲۴۳ اور إعلام الموقعین از ابن قیم ص ۴۸۷ تا۴۹۶ )

ثمنیّت (قیمت ہونے) کے یہی معنی ہیں اور باقی اشیاء کے معیار بننے کے معنی یہ ہیں کہ ان چیزوں پر کسی علاقہ کی خوراک کے طور پر زندگی کا انحصار ہوگویا کہ وہ علاقہ کی بنیادی خوراک ہوں۔ یہی بات محولہ بالا کتاب دراسات حول الربا کے ص ۲۵ میں ذکر کی گئی ہے

«أما الأجناس الأربعة الأخریٰ وھي (البُرّ والشعیر والتمر والملح) فھی أساس المطعومات ... والأصل فیھا أن لا یقع البیع بمقایضة بعضھا بالبعض الاٰخر، بل یبیع الإنسان ما عندہ بالنقود، ثم یشتري بھا ما یحتاج ، وھذا ینشط التجارة ویقلل المقایضة التي لا تکثر الا في الحیاة البدائیة للشعوب»

'' بہر حال بقیہ چار اجناس: گندم ،جو ،کھجور اور نمک بنیادی خوراک ہیں ۔ اس فرمانِ رسول سے اصل مقصود یہ ہے کہ ان کی خریدو فروخت باہمی اشیاء کے تبادلے (Barter System) کی بجائے نقدی سے ہونی چاہیے ۔ پھر اس نقدی سے جس چیز کی ضرورت ہو وہ خریدی جاسکتی ہے۔ اس طرح تجارت کو فر وغ حاصل ہوگا اورBarter System جو قوموں کی ابتدائی زندگی میں پایا جاتا تھا، زیادہ نہیں پھیلے گا۔''

چونکہ اسلام کے معاملات میں اصل حلت ہے اس لیے چھ منصوص چیزوں کی علت ایسی ہونی چاہیے جوحرمت کو بہت وسیع نہ کردے۔ یہی وجہ ہے کہ امام مالکؒ کی توجیہ کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ الربا والمعاملات المصرفیة في نظرالشریعة الإسلامیةکے مصنف ڈاکٹر عمر بن عبد العزیز المترک سابق چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل سعودی عرب نے یہی بات ائمہ فقہا کی علت کے بارے میں مختلف آراء کاتقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہی ہے ۔ (صفحہ ۱۱۳)

متعلقہ فقرہ کا ترجمہ یہ ہے : بے شک علت قابل ذخیرہ غذا ہونا ہے جو امام مالک ؒکی رائے ہے۔ جس پر غالب خوراک ہونے کی شرط بھی لگائی گئی ہے ۔ کیونکہ یہ توجیہ چاروں چیزوں کو مخصوص کر دیتی ہے ـ۔ یہی بات امام مالک ؒکی توجیہ کے بارے میں صاحب ِاضواء البیان نے کہی ہے ۔ (ج ۱ ؍ص ۳۰۹ )

متعلقہ عبارت کاترجمہ یہ ہے:'' امام مالک نے یہ توجیہ اس لیے کی ہے کہ یہ علت مذکورہ چار اَوصاف میں سے سب سے زیادہ مخصوص ہے ''

بنیادی ضروریات کی فراہمی آسان بنانے کیلئے شریعت نے او ربھی احکامات دئیے ہیں: حاصل یہ ہے کہ رباالفضل کی علت ائمہ فقہاء کی تمام توجیہات کا خلاصہ ہے ۔ اس بنا پر ہر علاقہ کی بنیادی خوراک کا کمی بیشی یا اُدھار سے کیاگیا کاروبار ناجائز ہو جاتا ہے تاکہ بنیادی ضرورتیں ہرشخص کو آسانی سے میسر آجائیں او ران کے حصول میں کسی قسم کی تاخیر کی وجہ سے انتظار نہ کرنا پڑے۔اسلام کی نظر میں انسانی ضرورت کامعاملہ اس قدر اہم ہے کہ وہ جہاں اس سلسلہ میںمعاشرہ اورحکومت کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے، وہاں بہت سی ایسی پابندیاں بھی عائد کرتا ہے کہ لوگ اپنی بنیادی ضرورتیں مساوی حیثیت سے آسانی سے حاصل کر سکیں ۔ اس سلسلہ میں چند ایک ارشاداتِ رسولﷺ ملاحظہ فرمائیں:

حضرت عثمان ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے فرمایا : (جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی :ص ۳؍ ۲۶۷ )

''آدمی کا حق ان تین ضرورتوں کے سوا نہیں ہے: ایک اس کا گھر جس میں وہ رہے ، دوسرا اس کا کپڑا جو اس کی ستر پوشی کرے ، اور تیسرا سوکھی روٹی اور پانی ''

حضرت سلمہؓ سے روایت ہے کہ'' لوگوں کے زادِ سفر کم اور تنگ ہو گئے تو وہ نبیﷺ کے پاس آئے تا کہ اونٹوں کو ذبح کرلیں۔ یہ اجازت حاصل کرنے کے بعد ان کی ملاقات حضرت عمر ؓسے ہوئی تو انہوں نے کہاکہ اونٹوں کے اس طرح ختم ہو جانے کے بعد تم کیسے باقی رہو گے؟ حضرت عمر ؓ انہیں لے کر آپﷺ کے پاس آئے اوراپنا موقف پیش کیا ۔آپ نے لوگوں میں منادی کروا دی کہ وہ اپنے تمام بچے ہوئے زادِ سفر لے کر پہنچ جائیں پھر آپؐ نے ان کے تھیلوں (برتنوں) سمیت ان کو اکٹھا کیا اور برکت کی دعا کی ،تمام لوگوں نے دوزانو ہو کر اکٹھے کھاناکھایا۔''

یہ احادیث امام بخاریؒ نے کتاب الجہاد والسیرکے دو ابواب حمل الزاد في الغزو اور حمل الزاد علی الرقاب کے تحت ذکر کی ہیں۔ (ص ۶۰۴، ۶۰۵ )

بخاری کے بعض نسخوں میں اسی کے متصل ایک باب دسترخوان کے بارے میں بھی ہے یعنی جب تمام لوگ اکٹھے ہو کر کھائیں توان کا حق برابر ہو تا ہے، خواہ ان کے مالوں کی مقدار کم وبیش ہو ۔ چونکہ دسترخوان پر اکٹھے ہو جانے کے بعد دسترخوان پر تمام بیٹھنے والوںکاحق بھی برابر ہو جاتا ہے ،اس لیے ایک دستر خوان والے دوسرے دستر خوان پر بیٹھنے والوں کی اجازت کے بغیر ان سے کھانے کی چیز نہیں لے سکتے، اسلامی آداب کی باریک بینی دیکھئے۔ تا ہم یہ مساوات محدود صورتوں میں اور ہنگامی حالات میں ہی ہوتی ہے ۔ تمام مسافروں کا مال اکٹھا کر کے مل جل کر کھانے کا مسئلہ ہنگامی ضرورت کے تحت تو لازمی ہے لیکن فراخی کی صورت میں سب کا اکٹھے مل کرکھانا ضروری نہیں۔ (۴)

اسی طرح رسولﷺ کا ارشاد: «الناس شرکاء في ثلاث في الکلإ والماء والنار» ''لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں : گھاس،پانی اورآگ '' (سبل السلام مع بلوغ المرام از امیر صنعانی :ج ۳؍ ص ۹۳۲ اور التدابیر الواقیۃ من الربا از ڈاکٹرفضل الٰہی ص ۱۴۸ تا ۱۵۰)

غیر اسلامی معیشت کے ذرائع پیداوار کا اسلام سے تقابل

ہم نے ربا الفضلکی علت کے ضمن میں غذائی اشیاء کے تبادلہ کے بارے میں انسانی ضرورت کاذکر کیا ہے اور اسی کے تحت چند اسلامی تعلیمات کا حوالہ بھی دیا ہے ۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ اسلام انسانی ضرورت کو بڑی اہمیت دیتا ہے ۔ اسلام کی نظر میں انسانی ضرورت کا تصور ایک اہم عامل پیداوار یعنی 'خدمت ' سے وابستہ ہے ۔ اسلام میں خدمت کے امتیازی تصور کو اجاگر کرنے کے لیے مناسب ہوگا کہ میںپہلے مادّی معاشیات کے نقطہ نظر سے ذرائع پیداوار کامختصر ذکر کردوں...

سرمایہ دارانہ معیشت میںچار ذرائع پیداوارشمار کیے جاتے ہیں :

1۔ Capital (سرمایہ) جس کاحاصل سود (Interest)

2۔ Land (زمین ) جس کا حاصل کر ایہ (Rent)

3۔ Labour (محنت) جس کا حاصل اُجرت (Wages)

جدیدسرمایہ دارانہ معاشیات کی تعبیر کے مطابق مذکورہ تینوں عوامل کا نتیجہ متعین ہوتا ہے جب کہ چوتھا ذریعہ پیداوار تنظیم (Organzation)ہے جس کا نتیجہ غیر متعین ہو تا ہے چنانچہ دیگر تمام ذرائع کو متعین نتیجہ سے منسلک کر کے تنظیم کو کھلا ہاتھ دے دیا گیا ہے جس کا حاصل ''منافع'' (Profit)کہلاتا ہے۔ اس کے بالمقابل اشتراکی معاشیات کے ہاں ذرائع پیداوار صرف دو ہیں :

(1) زمین او ر (2) محنت ... لیکن ان دونوں کا حاصل صرف ''انسانی ضرورت '' ہے ۔

اسلامی ذرائع پیداوار میں خدمت بھی شامل ہے ، جو ضرورت کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے اور عند اللہ اجر کے تصور سے وابستہ ہے:اسلام اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام کیذرائع پیداوار کے ضمن میں کی جانے والی خصوصی توجیہ کو پوری طرح تو تسلیم نہیںکرتا لیکن ضرورت کے حوالہ سے یہ کہنا مناسب ہے کہ ضرورت کے پیش نظر اسلام میں ایک اہم اضافی عامل کاتصور بطورِ 'خدمت' کے موجود ہے جس کا حاصل 'ضرورت' ہوتی ہے۔ دوسر ے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیںکہ اسلام میں محنت کاتصور صرف اُجرت میں محدود نہیں ہے بلکہ محنت کے علاوہ ایک اہم عامل 'خدمت ' بھی ہے جس کا امتیاز ہے کہ یہ 'خدمت' انسان پر دنیاوی اُجرت کے مقصد کے بغیر عند اللہ 'اجر' کی امید سے لازمی قرار دی گئی ہے جو انسان پر دوسرے ہر انسان بلکہ غیر انسان کے حق کے طور پر بھی ایک لازمی ذمہ داری ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے ﴿وَيُطعِمونَ الطَّعامَ عَلىٰ حُبِّهِ مِسكينًا وَيَتيمًا وَأَسيرً‌ا ٨ إِنَّما نُطعِمُكُم لِوَجهِ اللَّهِ لا نُر‌يدُ مِنكُم جَزاءً وَلا شُكورً‌ا ٩﴾... سورة الانسان

''اور وہ یتیموں،مسکینوں اور قیدیوں کواپنے کھانے سے محبت کے باوجود کھانا کھلاتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ کی رضاکے لیے کھلا رہے ہیں ہم تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکرگزاری'

اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :« في کل ذات کبد رطبة أجر» (متفق علیہ)

'' ہرتر جگر والے جاندار کا کوئی خدمت انجام دینااجر کا باعث ہے '' (بخاری ،حدیث ۲۴۶۶)

اس خدمت کے تصور کا ضابطہ قرآنِ کریم میں یوں بیان ہوا ہے :

﴿وَمَن كانَ غَنِيًّا فَليَستَعفِف ۖ وَمَن كانَ فَقيرً‌ا فَليَأكُل بِالمَعر‌وفِ...٦﴾... سورة النساء

''خدمت گاراگر غنی ہے تواسے چاہیے کہ وہ یتیم کے مال میں سے کچھ نہ لے لیکن اگر وہ محتاج ہو تو پھر وہ بھلے رواج کے مطابق کچھ لے سکتا ہے''

یہاں سرمایہ دارانہ معاشیات کے طے کردہ ذر ائع پیداوار کے بار ے میں یہ نوٹ فرمائیں کہ جدید معاشیات کے ابتدائی تین عوامل سرمایہ، زمین اور محنت کے بارے میں حتمی نتیجہ کی بات بھی درست نہیں کیونکہ سرمایہ اگر کاروبار میں حصہ کی صورت ہو تواس کا حاصل متعین منافع نہیں ہوتا بلکہ طے شدہ نسبت بھی ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح زمین اگر بٹائی پر ہو تو اس کا منافع متعین نہیں ہوتا۔ اسی طرح محنت کی بھی دو صورتیں ہیں : (1) متعین تنخواہ یا اُجرت

(2) اُجرت ہی کی دوسری شکل حصہ یا کمیشن کی بھی ہو سکتی ہے ۔

٭ سرمایہ کے ضمن میں یہ نکتہ بڑا اہم ہے کہ جدید معاشیات کی رو سے کیا کرنسی کو ''سرمایہ'' قرار دیا جاسکتا ہے ؟کیونکہ کاغذی کرنسی کو بِضاعۃ Commodity) ) کی حیثیت دینے کانظریہ مرجوح ہے جس طرح کہ آئندہ نقدی کی بحث میںآرہا ہے نیز چونکہ کرنسی کا بڑا دارومدار اشیاء اور خدمات (Services) کی طلب ورسد پر ہوتا ہے گویا کرنسی اسی کی نمائندگی کرتی ہے۔ اور اشیاء او رخدمات تو تجارت میںاستعمال ہونے کے بعدہی سرمایہ (Capital) بن سکتی ہیں لہٰذا (Commodity) بنے بغیرمحض کرنسی پر کوئی متعین مشروط اضافہ(سود) سرمایہ کاحاصل نہیں بلکہ صرف ایک اعتباری زَر کاحاصل ہوتا ہے ۔جو عامل پیداوارنہیں ((Economic Paul A Samuelson P:8, 29-30 یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کرنسی کوتجارتی مال Commodity میں تبدیل کرکے تجارتی معاہدہ کرنے کی ہی اجازت دی ہے جو مضاربت اور مشارکت کہلاتی ہے یہی اسلام کا مطلوب ہے ۔

علاوہ ازیں مضاربت اورمشارکت کی صورت میں اسلام نے سرمایہ کو خطرہ (Risk)میں ڈال کر سود کے اس تصور کو بھی باطل کیا ہے کہ صرف مہلت (وقت ) بھی کوئی ذریعہ پیداوار بن سکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکاہے۔

اسلامی معاشیات کے ذرائع پیداوار کا ایک مخصوص مزاج ہے جو اسلامی عقائد کی اَقدار میںگھرا ہوا ہے ۔کسی ایک قدر کو بطورِفلسفہ بھی اختیار نہیں کیاجاسکتا بلکہ تمام پہلو بیک وقت ملحوظ رکھنے پڑتے ہیں۔ مثلاً خطرہ (Risk) ایک قدر ہے جوبہر حال سرمایہ سے متعلق ہے جب کہ کرایہ داری ( اِجارہ) میں دوسری اَقدار ملحوظ رکھی گئی ہیں۔

مقام نمبر 5 : کرنسی کی کیاحیثیت ہے اور اشاریہ بندی کے بارے میںاسلام کاکیا نقطہ ٔنظر ہے ؟

اس کی اَساس پر دورِجدید میں کئی علماء اور دانشورعلمی اُلجھنوں کا شکار ہوئے ہیں ۔وفاقی شرعی عدالت نے بھی اس موضوع کو بہت اہمیت دی ہے جس پرشرعی عدالت کا زیر غور فیصلہ پیرا نمبر ۱۵۲ سے لیکر ۲۳۴ تک پھیلا ہوا ہے۔ میری رائے میں یہ مسئلہ بڑا حساس ہے جس میں عموماً صورتِ واقعہ کے صحیح اِدراک نہ ہونے کی بنا پر اِفراط وتفریط ہو جاتی ہے ۔چنانچہ میری رائے میں فقہ الأحکام سے قبل فقہ الواقع متعین کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر فقہ الواقع پوری طرح سامنے نہ ہو تو خطرہ ہے کہ فقہ الأحکام کا اطلاق ہم اصلی صورت حال پر کرنے میں غلطی کر جائیں جو ایک بڑی اجتہادی غلطی ہو گی۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بنچ کو یہی چیلنج درپیش ہے۔ میں اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق پہلے فقہ الواقع (امر واقعہ) کو لیتا ہوں :

کرنسی کی حیثیت

کرنسی کا وجودتو بہت پرانا ہے اور کہاجاتا ہے کہ چین میںدوہزارسال قبل مسیح کاغذی کرنسی رائج تھی۔ کرنسی کا ارتقاء بارٹر سسٹم (Barter System)کے بعد سونا، چاندی سے لے کر کاغذی کرنسی تک کیسے ہوا ؟یہ پہلو اگرچہ براہِ راست سپریم کورٹ میںزیر بحث نہیں تا ہم یہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ دورِ حاضر کی سپریم پاور(امریکہ )نے ۸۰کی دہائی میں اس کی اَساس سونا(Gold) سے ختم کر کے اِسے صرف زَرِ اعتبار (اعتباری زر)بنا دیاہے۔

چونکہ کاغذی نوٹوں کی اپنی ذاتی قدر کچھ نہیں ہوتی لہٰذا یہ سوال پید ا ہوا کہ فقہی طور پراب کرنسی نوٹوں کی کیا حیثیت رہ گئی ہے ؟کرنسی نوٹوں کے ارتقا کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اس کے بارے میں عموماً چار نظریات زیر بحث آتے رہے ہیں جو درج ذیل ہیں:

(الف) کرنسی نوٹ بحیثیت ِحوالہ اور رسید (Document)

(ب) کرنسی نوٹ بحیثیت ِسامانِ تجارت (Commidity)

(ج) کرنسی نوٹ کامعدنی سکوں سے اِلحاق

(د) کرنسی نوٹ کے بار ے میں نظریہ بدل

اگرچہ ''کرنسی نوٹ'' پر انگریزی اورعربی میں بیش بہا لٹریچر موجود ہے او راب تو اردو زبان میں بھی اس موضوع پر کافی لٹریچرآچکا ہے ۔ تا ہم ا س کی شرعی حیثیت کے بارے میں بہت کم کتب مارکیٹ میں موجود ہیں۔ اس لیے ہم اُردو زبان میں ایک نئی کتاب ''کاغذی کرنسی کی تاریخ، ارتقاء اور شرعی حیثیت'' جوشیخ عبداللہ بن سلیمان بن منیع (جج مکہ مکرمہ ہائیکورٹ و رکن اکابر علماء بورڈ سعودی عرب) کی عربی تصنیف الورق النقدي: حقیقتہٗ، تاریخہٗ، حکمتہٗ کا اُردو ترجمہ ہے، کا اقتباس از صفحہ۲۹تا۶۱ پیش کرتے ہیں۔ جس میں بالخصوص ص ۶۱ کی درج ذیل عبارتیں قابل توجہ ہیں :

٭ '' حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ (بدل ،قائم مقام اورنمائندگی کا نظریہ ) صحیح تر ہے ۔''

٭ آگے اسی نظریہ کی عملی تطبیق کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :''البتہ جاری کنندہ ان کرنسی نوٹوں کا ضامن ہے ، اوریہ ضمانت لازمی طور پر سونے چاندی کی صورت میں نہیں بلکہ پراپرٹی کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔جیسا کہ جرمنی نے کیا ،جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی مالیت کے مساوی واقعی اصل زَر موجود ہو جیسا کہ اکثر آسٹریلوی ممالک میں ہے ۔''

٭ اگرچہ دنیا بھر میں کرنسی نوٹ کا رواج ہے ۔ اور اس کے پیچھے ضمانت صرف اقتدار کی نہیںبلکہ یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ 'اقتدار' مستحکم مالی پوزیشن کا بھی حامل ہے ۔ اسی بنا پر کرنسی زَر کا اعتبار کیا جاتا ہے لیکن کرنسی نوٹ جسے ہم Legal Tender Moneyکہہ سکتے ہیں کے ساتھ ساتھ ایک خالص Credit Moneyبھی رائج ہے جوچیک،ہنڈی وغیرہ کی دستاویزاتی شکل میں چل رہی ہے ،بلکہ اب تو نودولتیوں میںCredit Cardکا بھوت'جنون' کی حد تک سوار ہو رہا ہے۔ اس Credit Moneyکے علاوہ Lets Work کے حوالہ سے اَن گنت سوسائٹیاں معرض وجود میں آرہی ہیںـ۔ جن کی تعداد اگرچہ ۱۹۹۴ئ؁ میں صرف UK(برطانیہ) میں تقریباً ۲۰۰تھی لیکن ان میں ہر ہفتہ ایک دو سو سائٹیوں کا اضافہ ہو تا رہا ۔ اس حساب سے یہ تعداد اب تک صرف UKمیں ایک ہزار تک پہنچ چکی ہو گی اس سے آپ پوری دنیا کاا ندا زہ لگا لیجئے۔''

کرنسی نوٹ اگرچہ اعتبارکی بنیادپرقائم ہے ۔مگر یہ اعتبار صرف یک طرفہ ہے،یعنی اقتدارکا اعتبار...کرنسی کے ذریعہ کمزور جانب کس طرح پامال کی گئی یا کی جاسکتی ہے ؟ اس کا ایک عام آدمی اندازہ نہیں کر سکتا ۔ امریکہ سپر پاور ہونے کی حیثیت سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ قابل اعتبا ر سمجھا جاتا ہے لیکن اس کا شمار دنیا بھر کے مقروض ترین ملکوں میں کیاجاسکتاہے ۔۱۹۹۳ء ؁ میں اس پر صرف امریکی عوام کا قرضہ تقریباً ۶۳۵۰ ؍اَرب ڈالر تھا۔ جس پر ساڑھے ۱۷۵ ؍ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ بھی اضافہ کر لیجئے یہ تمام قرض عراق ،کویت جنگ کے بہانے بھاری مقدار میں تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے خزانوں پر مسلط ہونے کے باوجود ہیں۔ ان قرضوں سے جان چھڑانے کی صورت یہ سوچی گئی ہے کہ نہ صرف امریکہ ان قرضوںکی ادائیگی کی واحد صورت قرض کے برابر کرنسی نوٹ (ڈالر)چھاپ لے بلکہ امریکہ کے جو قرض دوسرے ممالک کے ذمہ ہیں ، ان ممالک کو بھی یہ ترغیب دی جائے کہ وہ اسی طرح کرنسی نوٹ چھاپ کر اپنے قرضوں کی ادائیگی کر دیں۔ اس طرح جب امریکہ کے ہاتھ میں دوسرے ملکوں کی کرنسی بھی آجائے گی تو امریکہ اس غیر ملکی کرنسی سے ان ملکوں کی حساس صنعتیں خرید کر ان ملکوں کواپنی اقتصادی غلامی میں لے سکے گا۔ جو ایک طرح سے''نئے اقتصادی نوآبادیاتی نظام'' کا فروغ ہوگا۔ اس سلسلہ میں John Tomlinson کی کتاب Honest Moneyکا خلاصہ بحث (Conclusion) ص ۱۱۵ تا ۱۱۹ پیش کرنا چاہتا ہوں۔

امریکہ کے قرضوں کے بارے میں جو معلومات میں نے اوپر ذکر کی ہیں وہ بھی ا سی کتا ب کے صفحہ نمبر ۱۱۲ سے حاصل کی گئی ہیں ـ۔

اس صورت ِحال کا نقشہ پیش کر کے میں یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں امن وامان خراب ہونے کی وجہ سے اقتصادی صورت ِحال پریشان کن ہوتی ہے ،اس میں امریکہ کاہاتھ ضرور ہوتا ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں کویت پر عراق کے قبضہ کی وجہ سے را توں رات کویتی دینار بامِ عروج سے انتہائی حقارت کی حد تک جاپہنچا تھا وہاں ایک لبنانی لیرا جو ۱۹۷۰ء ؁میں نصف امریکی ڈالرکے برابر تھا، ۱۹۸۷ء میں وہی امریکی ڈالر ۴۰۰ لبنانی لیراکے برابر ہو گیا۔ یعنی ڈالر کی قیمت صرف۲سے ۲۰۰گنا بڑھ گئی ۔پھر ۱۹۹۳ء میں ۱۰۰ ڈالر، پچاس ہزار لیرا کے برابر ہوگئے یعنی ایک لبنانی لیرا ڈالر کا پانچ سو اں حصہ (1/500) رہ گیا۔ (ملاحظہ ہو کتاب قائدة المثلي والقیمي في الفقہ الإسلامی ص ۱۲۵ )

شریعت ِاسلامیہ ہردم عدل وانصاف کا تقاضا کرتی ہے : پاکستانی روپے کے بارے میں بھی کچھ عرصہ قبل یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ بیس،بائیس سال کے وقفہ میں پاکستانی سو روپے کی قیمت صرف تین سے چار روپے پاکستانی کے برابر رہ گئی ہے ۔ امر واقعہ یہی ہے جس کی بناپر سوال پید ا ہو اکہ کرنسی کی اس تیز رفتاری سے گرتی ہوئی قیمت کی بناپر ان ادائیگیوں کے بارے میں جوخوفناک افراط ِزَر کاشکار ہوتی ہیں، شرع کیا حل پیش کرتی ہے؟حقیقت ِ واقعہ کو جھٹلایا نہیں جاسکتا اورشرعِ محمد یﷺ کاعدل وانصاف کا پہلو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ۔کیایہ انصاف ہوگا کہ ایک عورت کو چالیس سال پہلے کا ۳۲روپے ۶ آنہ کا مہر ،چالیس سال بعد ۳۲ روپے ۶ آنہ ہی دیا جائے یا سترہ سال پہلے عدالت نے کفیل پر ایک بچہ کا جو ماہوار خرچ عائد کیا تھا وہ عدالت کے فیصلے کے مطابق زَر کی اسی ظاہری قدر (Face Value) تک محدودرہے گا۔یہ آخری مثال مجمّع الفقہ الاسلاميکے مجلہ ج ۳ شمارہ ۳کے ص ۱۶۷۹ پردی گئی ہے ...ہماری رائے میں شریعت کی عمومی تعلیمات کی رو سے یہ بے انصافی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ضابطہ دیوانی میں اس پر برابر نظر ثانی کی گنجائش رکھی گئی ہے

امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: (قاعدۃ المثلي والقیمي في الفقه الإسلامي ص۱۳۰ )

مفہوم : ''شرع کا مقصد ''تمام معاہدات میں اصل انصاف ہے، کیونکہ رسولوںکی بعثت اسی غرض سے ہوئی اورتمام آسمانی کتابیں بھی اسی لیے اتاری گئیں ۔'' (فتاویٰ ۲۰ ص۵۱۰ )

اسی طرح فرماتے ہیں :''حاکم کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کے معاملات کی انجام دہی کے لیے کرنسی کو منصفانہ قیمت پر جاری کرے جس میں قطعاًان پر ظلم نہ ہو ۔صاحب ِاقتدار کے لیے کرنسی کے حوالہ سے قطعاً تجارت روا نہیں ۔ '' (مجموع الفتاویٰ :ج ۲۹ ؍ص ۴۶۹ )

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒنے انصاف کے ضمن میں قرآنِ مجید میں وارد حضرت د اود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ جس کے بارے میں حضرت سلیمان ؑکا فیصلہ حضرت داود ؑکے فیصلہ سے بہتر قرار دیا گیا تھا ۔قصہ یوں تھا کہ جب ایک شخص کی بکریوں نے دوسرے شخص کے کھیت کو تباہ کر دیا توحضرت داود ؑکے پاس مقدمہ پیش ہوا ۔آپ نے کھیت کی تباہی کے پیش نظر بکریوں کی ایک بڑی تعداد کھیت والے کو ادا کرنے کافیصلہ دیا ۔ لیکن جب یہی معاملہ حضرت سلیما ن ؑ کے سامنے پیش ہوا توانہوں نے فیصلہ میں یہ تبدیلی فرمائی کہ بکریاں اس وقت تک کھیت والے کے سپرد کردی جائیں جب تک کہ کھیت دوبارہ اِسی حالت میں نہیں آجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیما ن ؑ کے فیصلہ کو بہتر قرار دیا ہے ۔کیونکہ وہ فیصلہ عدل ا و رحالات کے زیادہ مناسب تھا۔(مجموع الفتاو یٰ: ج۲۰ ،ص ۳۵۲ )

ا ن تمام مثالوں سے مقصود یہ ہے کہ شریعت کا عمومی قاعدہ'' عدل وانصاف '' کاہے جس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔

افراطِ زر سے پیدا ہونے والے مسائل انسانوں کے بنائے نظاموں کی پیداوا رہیں: ہمارے ہاں افراطِ زر کے حوالہ سے جن مسائل نے خوفناک شکل اختیار کی ہے ۔ ہم اس گفتگو کے ذریعے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ افراطِ زَر کی ان خرابیوں کا ذمہ دار شریعت کونہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے جیسا کہ ابھی امام ابن تیمیہ ؒکے حوالہ سے حکام کے لیے پرزو ر ہدایت کا ذکراوپرگزر چکا ہے ۔ بلکہ یہ تمام خرابیاں موجودہ مادّ ی نظاموں بالخصوص سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ ہیں ۔چونکہ ہر نظام اپنی خرابیوں کا علاج اپنے مخصوص طریقہ سے کرتا ہے ، اورسرمایہ دارانہ نظام ایک غیر متوازن طبقاتی نظام ہے ،اس لیے اس نے اپنی پیدا کردہ معاشی ناہمواری کو دور کرنے کے لیے جو حل پیش کئے ہیں ۔وہ بھی اسی طرح کے غیر متوازن او رظالمانہ ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام پانچ ستونوں پر قائم ہے: سود ،ٹیکس ، انشورنس ، موجودہ بے اساس کرنسی اور انڈیکسیشن ، اس نظام کا اگرچہ دعویٰ تو یہ ہے کہ یہ تمام ستون ایک دوسرے کا سہارا بن کر سرمایہ دارانہ نظام کی اس عمارت کو قائم رکھیں گے لیکن یہ صرف ایک سراب ہے جسے پانی سمجھ لیا گیا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے ؎

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا


جن لوگوں نے افراطِ زَر کا علاج انڈیکسیشن کے ذریعے یا سود کی شرح بڑھا کر کیا ہے، وہ ایک ظلم کا ظالمانہ حل ہی پیش کر رہے ہیں جسے اسلام ہرگز قبول نہیں کر سکتا ۔

اگرچہ دورِحاضر میں افراطِ زَر کی تشویشناک صورتِ حال کی بڑی وجہ کرنسی کا بے بنیاد ہوجانا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی علمبردار سپریم پاور امریکہ کا ایک ڈیفالٹ Defaultہے اور اس ڈیفالٹ کے واقعاتی اثرات کا اس وقت انکار بھی نہیں کیا جاسکتا تاہم سرمایہ دارانہ کرنسی سسٹم کی خرابیوں کا علاج اسی نظام کے طریقوں سے کرنے کا معنی یہ ہوگا کہ ہم سرمایہ داریت کے چکروں میں اُلجھتے ہی چلے جائیں۔ اس لئے میں مذکورہ ڈیفالٹ کے علاج سے قبل دو پہلو اُجاگر کرنا چاہتا ہوں

(i) یہ کہ اشاریہ بندی کرنسی کے اتار چڑھائو کا کوئی منصفانہ حل نہیں ہے

(ii) یہ کہ سود کا مشروط اضافہ اور اشاریہ بندی کا نام نہاد توازن دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ ان کو آپس میں خلط ملط کرنا درست نہیں۔

(1) اشاریہ بندی(Indexation) کوئی منصفانہ معیار نہیں رکھتی

اِشاریہ بندی ابھی تک مختلف ممالک میں تجرباتی مراحل سے گزر رہی ہے، اس لئے اسے مسلمات میں شمار کرنا زیادتی ہوگی۔ ا سلامی نقطہ نظر سے بھی اس کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے لیکن میں سطورِ ذیل میں صرف چند ایسے بڑے نکات دینا چاہتا ہوں جس سے اندازہ ہوسکے کہ اشاریہ بندی (Indexation)کوئی منصفانہ معیارات نہیں رکھتی۔

(i) اشاریہ بندی کرتے وقت جن اشیا کو بنیاد بنا کر صارف کی ٹوکری (Consumer's Basket) قرار دیا جاتا ہے۔ ان اشیاء کے تعین کے اعتبار سے مختلف اَشخاص کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض اشیاء دوسروں کی نسبت بعض کے نزدیک زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ چنانچہ اشیاء کو اہمیت کے اعتبار سے کوئی حتمی وزن (Weight of Commodity) دینا مشکل اَمر ہے۔ اسی طرح ان اشیاء کے اعتبار سے تمام اشخاص کی ضروریات بھی یکساں نہیں ہوتیں لہٰذا یہ کہنا درست ہوگا کہ صارف کی ٹوکری میں شامل اشیاء کے اصطلاحی 'وزن' سے ترتیب پانے والی اشاریہ بندی کا اصول کوئی منصفانہ طریقہ کار نہیں ہے۔

(ii) اشاریہ بندی کے استعمال کا مشورہ عموماً افراطِ زر کے علاج کے طور پر تو دیا جاتا ہے لیکن تفریط ِزر کے لئے نہیں حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اسے بطورِ اُصول دونوں صورتوں پر لاگو کیا جائے۔ علاوہ ازیں بنک کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے تو اسے تجویز کیا جاتا ہے لیکن کرنسی کے اُدھار، لین دین کے دیگر تمام معاملات میں ایسے توازن کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔ محفوظ پڑی کرنسی پر تو اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

(iii) حکومتیں عموماً 'اشاریے' اپنے مخصوص مفادات کے تحت بناتی ہیں اور اشاریہ میں اشیاء کا اندراج اور وزن اس انداز سے کرتی ہیں کہ قیمتوں میں استحکام کا تاثر سامنے آئے۔ اس طرح کی اشاریہ بندی غیر معیاری اور غیرمنصفانہ ہی ہوگی۔

(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو Indexation of Financial Assets از ڈاکٹر حسن الزماں)

(2) سود کا مشروط اضافہ اور اشاریہ بندی کا توازن دو مختلف اُصول ہیں

چونکہ لوگوں کو اپنی بچتیں بنک میں جمع کرانے کی ترغیب دینے کے لیے بہت سے بنک شرحِ سودکی کمی بیشی کا طریقہ کار بھی اپناتے ہیںاور اس طرح اپنی کارگزاری کو فروغ دیتے ہیںجسے بعض سود پرست لوگ ''افراطِ زر کے باعث ادائیگیوں کا توازن درست کرنے کی صورت ''سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سے یہ تاثر اُبھرا ہے کہ اشاریہ بندی اور سود کی شرح میں اضافہ کے بعض عوامل یکساں ہیں چنانچہ یہ باور کرلیا گیا ہے کہ اشاریہ بندی اور سود کافی حد تک مشابہ اِقدام ہیں۔ اس حد تک یہ بات غلط بھی نہیں کہ دونوں سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے کل پرزے ہیں لیکن دونوں کافی حد تک مختلف بھی ہیں۔ میں ان کے چند نمایاں فرق واضح کرنے کی کوشش کروں گا :

(i) اشاریہ بندی اشیاء و خدمات کی قیمتوں کے اُتار چڑھاؤکے اعتبار سے کرنسی کی ظاہری قیمت (Face Value) اور حقیقی قیمت (Real Value) کے نمایاں فرق کو متوازن بنانے کا ایک طریق کار ہے۔ عموماً اس کا استعمال بھی اُجرتوں اور ادائیگیوں میں اضافہ کی صورت ہوتا ہے لیکن واضح رہے کہ یہ اضافہ تخمینی ہونے کے علاوہ حالات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے جبکہ سودحالات سے قطع نظر اضافہ کا صرف مشروط معاہدہ ہے جس کا نہ صرف افراطِ زر اور تفریط ِزَر کے حالات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ معاشی اُتار چڑھائو سے قطع نظر معاہدہ کی بناپریہ ایک لازمی اضافہ ہوتا ہے۔

(ii) سود معاشی ناہمواری سے قبل ہی ایک طے شدہ اضافہ کا معاہدہ ہوتاہے لیکن اشاریہ بندی بعد میں پیش آنے والے حالات کے جائزہ پر مبنی توازن پیدا کرنے کا طریق کار ہے یعنی سود کا مقصد صرف حرص کی بنا پریک طرفہ طور پر سرمایہ کا تحفظ و اضافہ کرنا ہوتا ہے جبکہ اشاریہ بندی بعد میں پیش آنے والے حالات میں توازن کا ایک تخمینی عمل ہے ۔گویا سود کا تعلق خالص انسانی معاہدوں سے ہے جبکہ اشاریہ بندی زیادہ تر قدرتی حالات کے نتیجہ میں علاج کے طور پر اختیار کی جاتی ہے۔ چنانچہ سود کی ذمہ داری صرف معاہدہ کرنے والے انسان پر عائد ہوتی ہے جبکہ اشاریہ بندی کا محرک بعد میں پیش آمدہ حالات ہوتے ہیں۔ لہٰذا سود اور اشاریہ بندی متقابلات سے ہیں ۔ دونوں کے کردار کا اسی طرح فرق ہے جس طرح ربانی افعال موت، بیماری وغیرہ کا حکم انسانی افعال قتل اور زیادتی وغیرہ سے مختلف ہوتا ہے کہ جرم کا اطلاق صرف انسانی کردار پر ہوتا ہے۔

(iii) جب دو طرزِ عمل دو مختلف میدانوں سے متعلق ہوں تو ''اصولِ فقہ'' کی رو سے دونوں کا آپس میں قیاس نہیں ہوسکتا۔

فقہ الأحکام

اگرچہ کرنسی بے بنیاد تو ماضی قریب میں ہوئی ہے تاہم افراطِ زَر کا شرعی حل تلاش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کرنسی کے اتار چڑھائو کے بارے میں کتاب و سنت اور فقہی مصادر سے ملتی جلتی ایسی صورتوں کا مطالعہ کیا جائے تاکہ ان کی روشنی میں ہم جدید درپیش مسائل کا حل معلوم کرسکیں۔ اس سلسلہ میں ہمیں پہلے یہ جائزہ لینا ہے کہ کرنسی کی قیمت گرنے (کرنسی کی قوتِ خرید کم ہونے) کی صورت میں شریعت کرنسی کی صرف ظاہری قیمت (Face Value) ہی دیکھتی ہے یا اس کی حقیقی قیمت (Real Value) کا بھی لحاظ رکھتی ہے۔

میں نے سب سے پہلے قرآنِ کریم سے کرنسی کے اُتار چڑھائو کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے سورۂ یوسف میں پانچ جگہ بضاعۃ (Commodity) کا ذکر ملا جن میں سے دو جگہ بالخصوص جدید معاشیات کے سلسلہ میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں:

(1) ﴿وَجاءَت سَيّارَ‌ةٌ فَأَر‌سَلوا وارِ‌دَهُم فَأَدلىٰ دَلوَهُ ۖ قالَ يـٰبُشر‌ىٰ هـٰذا غُلـٰمٌ ۚ وَأَسَرّ‌وهُ بِضـٰعَةً ۚ وَاللَّهُ عَليمٌ بِما يَعمَلونَ ١٩ وَشَرَ‌وهُ بِثَمَنٍ بَخسٍ دَر‌ٰ‌هِمَ مَعدودَةٍ وَكانوا فيهِ مِنَ الزّ‌ٰهِدينَ ٢٠﴾... سورة يوسف

'' اور ایک قافلہ آیا اور اس نے اپنے پانی لانے والے کو بھیجا۔ اس نے اپنا ڈول لٹکا دیا، کہنے لگا:واہ ! واہ! خوشی کی بات ہے، یہ تو ایک لڑکا ہے۔ انہوں (قافلہ والوں) نے اسے قیمتی چیز جان کر چھپا لیا اور اللہ اس سے جو وہ کر رہے تھے باخبر تھا ۔اور انہوں (برادرانِ یوسف) نے اسے کٹوتی شدہ (Taxed) قیمت پر گنتی کے درہموں پر بیچ دیا کیونکہ وہ یوسفؑ کے بارے میں بے رغبت تھے۔''

قصہ مختصر کہ جب قافلہ والوں کو پانی کی تلاش میں یوسف ؑ ہاتھ آئے تو انہوں نے انہیںقیمتی چیز سمجھ کر چھپا لیا کہ غلام کی صورت بیچ کر معقول رقم حاصل کریں گے مگر یوسف ؑ کے بھائی جو برابر حالات کی نگرانی کر رہے تھے وہ موقع پر آدھمکے اور انہوں نے اجنبی قافلہ کو ڈرایا کہ وہ ان کا غلام لے کر کہاں جارہے ہیں؟اگرچہ انہیں یوسف ؑ سے کوئی دلچسپی نہ تھی تاہم قافلہ والوں کی گھبراہٹ سے فائدہ اٹھا کر وہ کچھ نہ کچھ وصول کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ گویا اس طرح یوسف ؑ کی قیمت انہیں معمولی بیس تیس (۲۰،۳۰) درہم وصول ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کی تعبیر کے لئے {ثَمَنٍ بَخْسٍ} کا لفظ استعمال کیا ہے جو ایسے مول کو کہتے ہیں جس پر ٹیکس وصول کیا گیا ہو۔ یہ عمل مروّجہ سیل ٹیکس(Sale Tax) کے مشابہ ہے۔ اس آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مصروشام میں دراہم کا استعمال محمدﷺ سے کئی ہزار سال قبل موجود تھا ـ۔یہ دور صرف Barter System کا نہ تھا۔

(2) ﴿فَلَمّا دَخَلوا عَلَيهِ قالوا يـٰأَيُّهَا العَزيزُ مَسَّنا وَأَهلَنَا الضُّرُّ‌ وَجِئنا بِبِضـٰعَةٍ مُزجىٰةٍ فَأَوفِ لَنَا الكَيلَ وَتَصَدَّق عَلَينا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجزِى المُتَصَدِّقينَ ٨٨﴾... سورة يوسف

'' پھر جب یہ لوگ (یوسف کے بھائی) ان کے پا س پہنچے تو کہنے لگے: اے عزیز! ہم اور ہمارا خاندان دکھ میں مبتلا ہیں اس لئے ہم ''گری ہوئی قیمت'' لے کر آئے ہیں لیکن آپ ہمیں غلہ کا پیمانہ پورا دیجئے جو آپکی طرف سے ہم پر صدقہ ہوگا۔ بلاشبہ اللہ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے ''

اس آیت ِکریمہ میں ہمارا محل شاہد ﴿بِبِضـٰعَةٍ مُزجىٰةٍ﴾ (۵) کا لفظ ہے۔

اس لفظ کی تشریح قاضی شوکانی ؒ کی تفسیر فتح القدیر میں ملاحظہ کریں جو امام قرطبی ؒکی مایہ ناز تفسیر الجامع لأحکام القرآن کا ملخص ہے: (فتح القدیر، ج۳؍۵۱)

«وأخرج ابن جریر وابن أبی حاتم عن ابن عباس في قوله (ببضاعة) قال: دراھم (مزجاة) قال: کاسدة... وأخرج أبوعبید وابن أبی شیبة وابن جریر و ابن المنذر و ابن أبی حاتم و أبوالشیخ عنه أیضا (مزجاة) قال: الورق الزیوف التي لا تنفق حتی یوضع منھا »

معروف مفسرین ابن جریرؒاورابن ابی حاتم ؒ مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بضاعۃ مزجاۃ کی تفسیر(رواج کی کمی کی وجہ سے)گری ہوئی قیمت والے درہموں سے کی۔ اسی طرح ابوعبید قاسم بن سلام (جو حدیث و تفسیر ،عربی اَدب کے امام ہونے کے علاوہ علم معاشیات کی خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی اسلامی اقتصادیات کے موضوع پر مایہ ناز کتاب الاموال ،عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکی ہے) ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابوشیخ جیسے نامورمحدثین و مفسرین بھی حضرت ابن عباسؓ سے مزجاۃ کی تفسیر نقل کرتے ہیں

'' وہ پونجی ایسی کھوٹی چاندی تھی جس کی قیمت کم کئے بغیر اس کا بازار میں چلن نہ ہوسکتا تھا ''

حضرت ابن عباسؓ سے منقول دونوں تفاسیر کا حاصل یہ ہے کہ وہ دراہم چاندی کے کھوٹ کی وجہ سے بازار میں چلنے کے قابل نہ تھے جب تک کہ ان کی قیمت کم نہ کر دی جائے۔

قرآن کریم میں کرنسی کی قوتِ خرید میں کمی کی یہ اچھی مثال ہے۔ آج کی کرنسی سے صرف اتنا فرق ہے کہ ان دنوں کرنسی کی اصل بنیاد سونا یا چاندی ہوتی تھی اور آج کی کرنسی بے بنیاد ہے ،تاہم کرنسی کی قوتِ خرید میں کمی کا واقع ہونا دونوں صورتوں میں موجود ہے جو ہمارا اصل موضوع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کم قیمت کرنسی (Devaluated Currency) کے بدلے غلہ کی پوری پیمائش کو برادرانِ یوسف ؑ صدقہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر قیمت کم ہو اور مال پورا تو کم قیمت کے مقابلہ میں پورے مال کا اضافہ صدقہ ہی ہوگا۔

یہ افراطِ زَرسے ملتی جلتی صورت ہے۔ اس سے یہ بھی حاصل ہوا کہ افراط ِزَر کی صورت میں اس کا پورا بدل؍معاوضہ صدقہ ہوتا ہے جو لازمی نہیں بلکہ اِحسان فی سبیل اللّٰہ کی شکل ہے۔

سنت کی روشنی میں

«عن ابن عمرؓ قال: قلت یارسول اللہ، إني أبیع الإبل بالبقیع، فأبیع بالدنانیر وآخذ الدراھم، و أبیع بالدراھم و آخذ الدنانیر آخذ ھذا من ھذہ و أعطی ھذہ من ھذا، فقال رسول اللہﷺ '' لا بأس أن تأخذھا بسعر یومھا مالم تفترقا و بینکما شییء رواہ الخمسة وصحّحه الحاکم» (بحوالہ سبل السلام شرح بلوغ المرام ج۳ ص۸۱۲)

''حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں: میں بقیع کے مقام پر اونٹ بیچا کرتا تھا تو کبھی میں دیناروں میں بھائو کرکے اونٹ بیچتا لیکن وصولی دراہم میں کرتا اور کبھی دراہم میں بھائو طے کرکے وصولی دیناروں میں کرتا۔ اس طرح درہم و دینار کا آپس میں بھی تبادلہ ہوجاتاـ۔ ایک مرتبہ میں حضور ﷺ کے پاس حضرت حفصہ ؓ کے گھر آیا اور آپؐ سے درہم کے بجائے دینار اور دینار کے بجائے درہم کے تبادلہ کی بابت پوچھا۔ آپﷺ نے فرمایا: اس طرح کے معاملہ میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ درہم و دینار کا باہمی تبادلہ، تبادلہ والے دن کے بھائو پر ہو اور تمام لین دین مکمل کئے بغیر جدائی نہ ہو۔'' (سنن ابودائود:ج۳ ؍ص۲۵۰ ... حدیث نمبر ۲۳۵۴)

صورتِ مسئولہ میں محل شاہد درہم کے بدلے دینار اور دینار کے بدلے درہم کا تبادلہ ہے۔ اگرچہ حدیث میں اس امر کی صراحت نہیں کہ درہم و دینار کا تبادلہ اور اونٹوں کی خرید و فروخت کا معاملہ ایک ہی وقت میں ہوتا یا مختلف اوقات میں، تاہم یہ بات واضح ہے کہ بھائو میں طے شدہ درہم و دینار کا باہمی ریٹ اگر ادائیگی کے وقت بدل جائے تو تبادلہ کے وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا، درہم و دینار کا باہمی ریٹ عدد کے اعتبار سے معتبر نہ ہوگا۔ حاصل یہ ہے کہ تبادلہ کرنسی کے معاملات میں عدد (گنتی) اصل نہیں بلکہ قیمت ہے کیونکہ کرنسی قیمت کا بدل (قائم مقام) ہوتی ہے۔ کسی بھی تبدیلی کی صورت میں اصل کا لحاظ رکھا جانا ضروری ہے۔

ائمہ فقہاء کی نظر

اس بات کی تائید امام مالک ؒنے بھی کی ہے کہ کرنسی میں اصل اعتبار کرنسی کے عدد کا نہیں ہوتا بلکہ وزن اور قیمت کا ہوتا ہے: (بحوالہ مؤطا امام مالکؒ مترجم: ج۲ ؍ص۱۸۶،ـ۱۸۷)

«قال مالك الأمر عندنا في بیع الذھب بالذھب، والورق بالورق، مراطلة: أنه لابأس بذلك، أن یأخذ أحد عشر دیناراً بعشرة دنانیر یدا بید إذا کان وزن الذھبین سواء عینا بعین وإن تفاضل العدد۔ والدراھم أیضا فی ذلك بمنزلة الدنانیر»

''کہا امام مالکؒ نے کہ جو شخص سونے کو سونے کے بدلے تول کر بیچے تو کچھ قباحت نہیں اگرچہ ایک پلڑے میں گیارہ دینار چڑھیں اور دوسری طرف دس دینار جب نقدونقد ہوں اور وزن برابر ہو اگرچہ شمار میں کم زیادہ ہوں۔ ایسا ہی حکم دراہم کا ہے۔''

گنتی کے بجائے وزن کا لحاظ قیمت ہی کی وجہ سے ہے، اس کی صراحت امام مالکؒ نے یوں کی ہے:

«قال مالك: السنة التي لا اِختلاف فیھا عندنا ،أن الزکاة تجب في عشرین دینارا عینا کما تجب في مائتی درھم...قال مالك: لیس في عشرین دینارا، ناقصة بینة النقصان، زکاة فان زادت حتی تبلغ بزیادتها عشرین دینارا وازنة ففیھا الزکاة ولیس فیما دون عشرین دینارا عینا الزکاة ولیس في مأتي درھم، ناقصة بینة النقصان، زکاة فإن زادت حتی تبلغ بزیادتھا مأتي درھم وافیة ففیھا الزکاة۔ فإن کانت تجوز بجواز الوازنة رأیت فیھا الزکاة، دنانیر کانت أودراھم...قال مالك: في رجل کانت عندہ ستون و مائة درھم وازنة و صرف الدراھم ببلده ثمانیة دراھم بدینار أنھا لا تجب فیھا الزکاة وإنما تجب الزکاة في عشرین دینارا عینا أو مائتي درھم»

''امام مالکؒ نے کہا کہ ہمارے نزدیک سنت ِاتفاقی یہ ہے کہ زکوٰۃ جیسے دو سو درہم میں واجب ہوتی ہے ویسا ہی سونا کے بیس دینار میں واجب ہوتی ہے''...

امام مالکؒ نے کہا :''اگر بیس دینار اس قدر وزن میں ہلکے ہوں کہ ان کی قیمت پوری بیس دینار کو نہ پہنچے تو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اگر بیس سے زیادہ ہوں اور قیمت ان کی پورے بیس دینار کی ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہے اور بیس دینار سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے''...

امام مالکؒ نے کہا :''اسی طرح اگر دو سو درہم اسی وزن میں کم ہوں کہ ان کی قیمت پورے دو سو درہم کو نہ پہنچے تو ان میں بھی زکوٰۃ نہیں ہے۔ البتہ اگر دو سوسے زیادہ ہوں اور پورے پورے دو سو درہموں کے برابر ہوجائیں تو زکوٰۃ واجب ہے لیکن اگر یہ درہم اور دینار جو وزن میں ہلکے ہوں پورے دینار اور درہم کے برابر چلتے ہوں تو ان میں زکوٰۃ واجب ہے''...

امام مالکؒ نے کہا :''ایک شخص کے پاس ایک سو ساٹھ درہم پورے ہیں اور اس کے شہر میں آٹھ درہم کا ایک دینار ملتا ہے تو زکوٰۃ واجب نہ ہوگی (اگرچہ ساٹھ درہم کے بحساب اس نرخ کے بیس دینار ہوگئے) کیونکہ زکوٰۃ جب واجب ہوتی ہے جب اس کے پاس بیس دینار یا دو سو درہم موجود ہوں '' (بحوالہ مؤطا مالک مترجم ، کتاب الزکوٰۃ، ج۱ ص۳۲۵ و ۳۲۷،۳۲۸)

کرنسی میں قیمت کی اہمیت کے لئے آخری نشان زدہ عبارت خصوصی طور پر قابل توجہ ہے۔

ہماری یہ گفتگو کرنسی کے بارے میں نظریہ بدل (قائم مقام) کے تحت ہو رہی ہے لیکن اسلامی قرونِ وسطیٰ میں درہم دینار سے ملحق ایک ذیلی کرنسی فُلُوْسنامی بھی چلتی رہی ہیـ۔ بعض حضرات حالیہ کرنسی نوٹ کو بھی فُلُوس(معدنی سکوں) سے وابستہ کرتے ہیں لہٰذا مناسب ہوگا کہ اس نکتہ نظر کے تحت بھی کرنسی کی بحث کر لی جائے لیکن یہ نکتہ یادرہے کہ فقہ اسلامی کا یہ مسئلہ ''کرنسی کی گنتی معتبر ہے یا اس کی قیمت ''کے گرد گھومتا ہے...

کرنسی کی گنتی معتبر ہے یا اس کی قیمت ؟ فلوس کے بارے میں جب فلوس کا استعمال گھٹ جائے یا بالکل ختم ہوجائے تو ائمہ فقہاء کی ایک بحث سے مذکورہ بالا نکتہ کے سلسلہ میں استفادہ کیاجاسکتا ہے وہ بحث ابن عابدین شامیؒ تنبیہ الرقود علی مسائل النقود ج۲ ؍ص۶۰،۶۳ میں یوں فرماتے ہیں

«وفي المنتقی إذا غلت الفلوس قبل القبض أو رخصت، قال أبویوسف قولي وقول أبی حنیفة في ذلک سواء ولیس له غیرھا ثم رجع أبویوسف وقال علیه قیمتھا من الدراھم یوم وقع البیع و یوم وقع القبض» (بحوالہ فقہی مقالات از جسٹس محمد تقی عثمانی ص۶۵،۶۶)

'' منتقی میں ہے کہ (کسی چیز کو بیچنے کے بعد اس کی) قیمت پر قبضہ کرنے سے پہلے اگر فلوس کے سکوں کے دام زیادہ ہوجائیں یا کم ہوجائیں، تو امام ابویوسف ؒفرماتے ہیں کہ اس بارے میں میرا اور امام ابوحنیفہ ؒکا ایک ہی قول ہے کہ اس بائع کو ان مقررہ فلوسکے علاوہ اور کچھ نہیں ملے گا۔ لیکن پھر امام ابویوسف ؒنے اپنے اس قول سے رجوع کرتے ہوئے فرمایا: اس مشتری پر فلوس کی وہ قیمت ادا کرنی ضروری ہے جو قیمت دراہم کی نسبت سے بیع کے دن اور قبضہ کے دن تھی''

پھر تمرتاشی ؒسے ان کا قول نقل کیا ہے:

«وفي البزازیة معزیا إلی المنتقیٰ: غلتِ الفلوس أو رَخُصَت، فعند الإمام الأول (أي أبي حنیفة) والثاني (أي أبی یوسف) أوّلاً: لیس علیه غیرھا، وقال الثاني (أي أبي یوسف) ثانیًا: علیه قیمتھا من الدراھم یوم البیع والقبض، وعلیه الفتویٰ»

''اور بزازیہ میں منتقی کی طرف نسبت کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں: فلوس کی قیمت زیادہ ہوجائے یا کم ہوجائے، امامِ اوّل (یعنی امام ابوحنیفہ ؒ) اور امامِ ثانی (یعنی امام ابویوسف ؒ ) کا پہلا قول یہ ہے کہ مشتری پر ان مقررہ فلوس کے علاوہ اور کچھ واجب نہیں، او رامامِ ثانی (یعنی امام ابویوسف ؒ) کا دوسرا قول یہ ہے کہ: مشتری کے ذمہ فلوس کی وہ قیمت واجب ُالادا ہے جو بیع اور قبضہ کے دن تھی، اور اسی پر فتویٰ ہے''

«ھکذا في الذخیرة والخلاصة بالعزو إلی المنتقیٰ، وقد نقلہ شیخنا فی بحرہ وأقرّہ، فحیث صرح بأن الفتویٰ علیه في کثیر من المعتبرات، فیجب أن یعول علیه إفتاء و قضاء»

''ذخیرہ اور خلاصہ میں بھی، اسی طرح منتقیٰ کی طرف منسوب ہے اور اسی بات کو ہمارے شیخ نے بَحر میں بھی اسی طرح نقل کرکے اس کی توثیق کی ہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ بہت سے اہم معاملات میں اسی پر فتویٰ ہے۔ لہٰذا فتویٰ دینے اور فیصلہ کرنے میں اس قول پر اعتماد اور بھروسہ ضروری ہے۔''

اگرچہ ابن عابدین شامیؒ نے یہ بحث فلوس کی قیمت میں کمی بیشی کے بارے میں کی ہے اور انہوں نے قیمت کا لحاظ رکھنے کی رائے کو بھی حنفی مذہب کے فتویٰ کی بنا پر ہی ترجیح دی ہے اور اس بارے میں میری تحقیق بھی یہی ہے لیکن یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ ائمہ فقہاء (متقدمین) کا یہ اختلاف فُلوس کے استعمال گھٹ جانے ( جسے کَسَاد کہتے ہیں) یا بالکل ختم ہوجانے (جسے انقطاع کہتے ہیں) کی صورت میں ہے۔ چونکہ اصل نکتہ 'ظاہر کرنسی ' کے بجائے 'کرنسی کی قیمت' معتبر ہونے کا ہے اس لئے انہوں نے کساداور انقطاع فلوس پر مبنی اختلافِ ائمہ کو کرنسی کی قیمت کے گھٹنے اور بڑھنے پر ہی محمول کردیا ہے لیکن موجودہ صورتِ حال میں کرنسی کا کساد یا انقطاع مخصوص اوقات میں ہونے کے بجائے مسلسل قیمتیںگھٹتی بڑھتی رہتی ہیں اور جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ بسا اوقات افراطِ زر اور Devaluation کی خوفناک صورت پیداہوجاتی ہے۔ اس لئے اس مشکل کو حل کرنے کے لئے مجھے مجمّع الفقہ الاسلامي، جدہ کے رکن ڈاکٹر نزیہ کمال حماد کی رائے زیادہ پسند ہے جو انہوں نے اپنے مقالہ مطبوعہ مجلۃ مجمّع الفقہ الاسلامی ج۳ عدد۳، ص ۱۶۵۵ تا ۱۶۷۹ میں اختیار کی ہے:

«والقول الثالث وجه عند المالکیة، وھو أنّ التغیر إذا کان فاحشا فیجب أداء قیمة النقد الذي طرأ علیه الغلاء أو الرخص، اما إذا لم یکن فاحشا فالمثل»

''تیسرا قول یہ ہے جو مالکیہ کا اختیار کردہ ہے، جب کرنسی کی قیمت میں کمی بیشی بہت زیادہ ہو تو جس کرنسی کو یہ معاملہ درپیش ہو اس کی قیمت ادا کرنی ضروری ہوگی اور اگر خوفناک صورت حال نہ ہو تو پھر کرنسی میں برابرگنتی کا اعتبار ہوگا'' (ایضاً، ص۱۶۷۶ بحوالہ حاشیۃ المدنی ج۵ ص۱۱۸)

آگے لکھتے ہیں:

«والثاني:أن التغیر الیسیر مغتفر تفریعا علی القاعدة الفقهیة الکلیة (ما قارب الشيء یعطي حکمه) بخلاف التغیر الفاحش، فإن الضرر فیه بیِّن والجور فیه محقّق» (بحوالہ ایضاح المسالک الی قواعد الامام مالک ؒللورنشریشی:۱۷۰؍المنشور فی القواعد للزرکشی،ج۳ ص۱۴۴)

''(کرنسی کی معمولی کمی بیشی دو وجہ سے معتبر نہیں) دوسری وجہ یہ ہے کہ معمولی کمی بیشی اس کلی فقہی ضابطہ (Legal Maxim) کی بنا پر نظر انداز کردی جائے کیونکہ ''کسی شے کے قریبی کے لئے اسی شے کا حکم لاگو ہوتا ہے'' البتہ نمایاں کمی بیشی کو نظر انداز کرنے میں (کسی ایک جانب کا ) نقصان واضح ہے اور (اسی طرح) ظلم ثابت شدہ اَمر ہے۔''

مقصد یہ ہے کہ معمولی لین دین پر بھی اگرچہ کرنسی کا مسلسل اُتار چڑھائو اثرانداز ہوتا ہے لیکن اسے مذکورہ بالا ضابطہ کے مدنظر نظرانداز کردیا جائے...

دورِ حاضر کے مذکورہ مسئلہ میں رہنمائی کے لئے فقہی سرمایہ سے استفادہ کے لئے ہم نے اپنے سامنے دو نکات رکھے ہیں:

(1) کر نسی کے بارے میں مختلف نظریات کا جائزہ... کرنسی کے ارتقائی مراحل کی روشنی میں

(2) تبادلہ اشیاء میں مثلی(ظاہری مقدار) اور قیمی (اصل قدروقیمت) کی بحث بالخصوص مثلیاشیاء بھی کب قیمیبن جاتی ہیں؟

پہلے نکتہ کے بارے میں مستقل تصنیف الورق النقدي: حقیقتہ، تاریخہ، حکمتہ از جسٹس عبداللہ سلیمان منیع جس کا اردو ترجمہ ''کاغذی کرنسی کی تاریخ، ارتقائ، شرعی حیثیت ''بھی مطبوعہ ہے اور دوسرے نکتہ کے بارے میں قاعدة المثلي والقیمي في الفقه الاسلامي واثرھا علی الحقوق والالتزامات مع تطبیق معاصر علی نقودنا الورقیة از ڈاکٹر علی محی الدین علی القرہ داغی... علاوہ ازیں شریعت کالج، قطر یونیورسٹی اور اس موضوع کے مجموعی احاطہ کے لیے المعھد العالمی للفکر الاسلامي مصر نے اسلامی اقتصادیات پر جو وقیع سلسلہ تصانیف تیار کیا ہے ا س کی مکمل پینتیسویں (۳۵) جلد تغیّر القیمۃ الشرائیۃ للنقود الورقیۃ (کاغذی کرنسی کی قوتِ خرید میں تغیر و تبدل) از پروفیسر ڈاکٹر ہایل عبدالحفیظ یوسف داود قابل مطالعہ ہیں۔

عربی زبان میں ان موضوعات پر جدید حالات کے پیش نظر بیش بہا لٹریچر معرضِ وجود میں آچکا ہے لیکن اردو اور انگریزی میں فی الحال بہت کچھ نہیں لکھا جاسکا۔ چند ایک مقالوں یامختصرکتابوں میں اسلامی اقتصادیات اور بینکاری کے موضوعات کے ضمن میں ایسے نکات بھی زیربحث آگئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے سہ ماہی مجلہ فکرونظر، اسلام آباد کے چند شماروں میں اس موضوع پر شاہ محی الدین ہاشمی اور ڈاکٹر طاہر منصوری کے مابین ایک مباحثہ شائع ہوتا رہا جن میں شاہ محی الدین ہاشمی کا موقف افراطِ زر کی واقعاتی صورتِ حال کے مدنظر مثلیاور قیمیکی بحث پر زوردارہے اگرچہ ان پراشاریہ بندی (Indexation) کے خلاف ڈاکٹر طاہر منصوری کا تعاقب بھی وزنی ہے۔ یہ بحث فکرونظر کے ۱۹۹۵ء ؁کے چار وںشماروں اور سال ۱۹۹۶ء ؁کے سہ ماہی شمارہ اپریل تا جون میں شائع ہوئی پھر جناب ڈاکٹر طاہرمنصوری کی (Indexation) کی کمزوریوں پر مشتمل بحث کا خلاصہ ادارۂ تحقیقات اسلامی کے انگریزی سہ ماہی مجلہ Islamic Studies شمارہ جولائی تا ستمبر ۱۹۹۸ء صفحات ۱۰۳ تا ۱۱۶ میں بھی دیا گیا۔

کرنسی کو کسی جنس (Commodity)سے وابستہ کیا جائے !

کرنسی کے بارے میں ہمارے فقہاء کے نظریاتی اختلاف کی ایک بڑی وجہ خود کرنسی کا مختلف اَدوار میں مختلف حیثیتیں اختیار کرنا بھی ہے۔ ان ارتقائی مراحل کو پیش نظر رکھا جائے تو وجہ اختلاف کھل کر سامنے آتی ہے تاہم اب کرنسی کا کسی (Commodity) سے کٹ کر بے بنیاد ہوجانا ارتقاء نہیں بلکہ واضح ڈیفالٹ ہے۔ اس لئے اس غلط اقدام کو تسلیم کرکے ظلم کا دروازہ کھولنے کے بجائے ہمارا قدم اس کی اصلاح کی طرف اُٹھناچاہئے اور اس کے لئے میری تجویز یہ ہے کہ کرنسی کے تبادلہ میں کرنسی کو کسی (Commodity) سے وابستہ کرلیا جائے جس طرح ہمارے ہاں دانا لوگ نکاح کے وقت فارم میں مہر کا اندراج کرتے وقت زیور(سونا) کی مقدار مقرر کرکے اس وقت کی قیمت بھی لکھ دیتے ہیں گویا اصل مہر وہ سونا ہوتا ہے نہ کہ اس کی اس وقت کی قیمت۔

اسلامی نظریاتی کونسل اور مولانا غلام رسول سعیدی نے کرنسی کو سونا سے وابستہ کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس سلسلہ میں ہمیں شریعت کے بعض معاملات سے رہنمائی ملتی ہے۔ مثلاً رسول اللہﷺ نے قتل خطا یا شبہ عمد کی دیت میں اونٹ کو بنیاد بنایا ہے کیونکہ اس دور میں عربوں کے ہاں 'اونٹ' ایک مستحکم حیثیتکے حامل تھے لہٰذا تاوان میں انہیں خصوصی طور پر ملحوظ رکھا گیا جس کا حاصل یہ ہے کہ کرنسی کی قدروقیمت کے معاملہ میں اسی (Commodity) کو بنیاد بنانا چاہیے جو زیادہ مستحکم ہو۔ اگر Money کے خصائص دیکھے جائیں تو یہی اصول مناسب معلوم ہوتا ہے:

Money has functions four: Mean, Measure, Standard & Store.

اس رائے پر عموماًجو اعتراض کیا جاتا ہے، ذیل میں ہم اس کی وضاحت پیش کرتے ہیں

اعتراض : کرنسی کو لین دین میں سونا سے وابستہ کرکے کرنسی کی کمی بیشی کا مسئلہ 'حیلہ' شمار ہوگا جو شریعت میں منع ہے۔

جواب : کسی مقصد تک پہنچنے کی خفیہ تدبیر کو حیلہکہتے ہیں (امام راغبؒ) ...حیلہ خفیہ ہونے کی بنا پر اکثر مذموم ہوتا ہے لیکن اسکی مدحت ومذمت کے لئے اصل معیار شرعی مقصد اور مصلحت ہے۔ اگر کسی غلط کام کو صحیح کرنے کیلئے حیلہ کیا جائے تو حیلہ مذموم نہیں ہوتا ، جیسا کہ ان مثالوں سے ظاہر ہے:

(1) جس طرح حضرت ایوب ؑ نے اپنی بیوی کو سو چھڑیاں مارنے کی قسم کھائی تھی تو اللہ کی طرف سے انہیں یہحیلہ اختیار کرنے کی ہدایت ہوئی کہ ایک جھاڑو میں سو تنکے اکٹھے کرکے قسم پوری کر لی جائے۔ قرآن میں ا س کا ذکر موجود ہے: ﴿وَخُذ بِيَدِكَ ضِغثًا فَاضرِ‌ب بِهِ وَلا تَحنَث...٤٤﴾... سورة ص

''اور اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو) لے کر ما رلے اور قسم نہ توڑ''

(2) ہجرت کی طاقت نہ رکھنے والے کمزوروں کو اللہ تعالیٰ نے معافی دیتے ہوئے فرمایا:

﴿إِلَّا المُستَضعَفينَ مِنَ الرِّ‌جالِ وَالنِّساءِ وَالوِلد‌ٰنِ لا يَستَطيعونَ حيلَةً وَلا يَهتَدونَ سَبيلًا ٩٨﴾... سورة النساء

''مگر جو مرد، عورتیں اور بچے بے بس ہیں جنہیں نہ تو کسی چارہ کار (حیلہ) کی طاقت ہے اور نہ کوئی اورراہ پاتے ہیں''

(3) کرنسی کا کرنسی سے گنتی کی کمی بیشی کی صورت میںتبادلہ اگرچہ ظاہری طور پرربوالفضل نظر آتا ہے جو حرام ہے۔ لیکن رسول اللہﷺ نے خود بہتر اور ردّی کھجور کی بیع میں کمی بیشی کے لیے یہ متبادل تدبیر (حیلہ) بتائی ہے کہ انہیں درہم؍ دینار (سونا؍ چاندی) کے ذریعے بیچ کر قیمت میں برابری رکھنے کا طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔فقہا نے اسے بھی'حیلہ صحیحہ'میں شمارکیا ہے۔ہماری رائے میںکرنسی کی اساس کسی Commodity پر قائم کر لی جائے جس طرح پہلے رہی ہے۔ ماضی میں فقہا نے کرنسی کے سارے اَحکام سونا چاندی پر مبنی درہم ؍دینار پر قیاس کیے ہیں۔ ہم امام مالکؒ وغیرہ سے کرنسی میں تبدیلیوں کی بنا پر وزن و قیمت کی اہمیت پیش کرچکے ہیں۔ قرآن و احادیث بھی اس کی تائید کرتے ہیں جیسا کہ گذر چکا ہے۔

٭ تیسری مثال سے ہمارے استدلال کو بعض لوگ قبول نہیں کرتے او رکہتے ہیں کہ اعلیٰ اور ردّی کھجور کی مقدار میں کمی بیشی والی بیع ربا الفضل میں ہی شامل ہے جو حرام ہے۔

جواب: ہم رباالفضل کی علت کی بحث میں یہ بیان کرچکے ہیں کہ یہ معاملہ تمام ہم جنس اشیا میں حرام نہیںہے۔ بلکہ علت کے اشتراک کی بنیاد پر بہرحال محدود ہے۔ جس طرح درہم ؍دینار کا تبادلہ تول کر کمی بیشی سے جائز ہے اور بازار کے چلن میں کم وزن درہم دینار اگر پورے درہم دینار کی قیمت پر چلتے ہوں تو پھر ان کا شمار مکمل درہم دینار کی طرح ہوگا۔

کرنسی کے درمیانی واسطہ (کے حیلہ) کی وجہ سے ربا الفضل میں گنجائش پیدا ہونے کی وجہ دراصل یہ ہے کہ ربا الفضل کی ممانعت کی ایک وجہ اندازے میں ابہام کا ہونا ہے اگر ردّی اور اعلیٰ کھجوروں میں کمی بیشی کرکے سودا کیا جائے تو پھر فرق کے اندازے کا کوئی معیار نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے اسے کرنسی سے بیچ کر اندازہ کرنے کی متبادل صورت خود بتا دی ہے تاکہ ابہام ختم ہوجائے تو تبادلہ اشیا (Barter System) کے بجائے کرنسی والی بیع، مستحسن بیع بن جائے گی۔ موجودہ ظالمانہ افراطِ زر میں کرنسی کی ظاہری گنتی کی برابری پر زور دے کر دوسرے تمام جائز رستے بند کردینا ناجائز سختی ہے۔ شریعت کو مقاصد کے تحت رکھ کر ظلم و زیادتی کا ازالہ کرنا چاہئے نہ کہ ایسے علاج کی بندش کی کوشش کرنا۔ رسول اللہﷺ کا طرزِ عمل آسانی کا تھا:

«مَا خُیِّر بین شیئین إلا اختار أیسرھما: مالم یکن إثما» ( صحیح ابوداود، حدیث ۴۰۰۲)

''رسول اللہﷺ دو اشیاء میں آسان کو اختیار فرماتے جبکہ وہ گناہ نہ ہو'' (ج۳ ص۹۰۸)

نیز ارشاد نبویﷺ ہے:« بُعِثْتُ بالحنیفیة السّمحة»

''میں یکسو آسان دین کے ساتھ مبعوث ہوا ہوں'' (مسند احمد، ج۵ ص۲۶۶۔۲۱۲۶۰)

ربو الفضل میں مقصد کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل واقعہ سے لگائیے:

«عن عطاء بن یسار أن معاویة بن أبی سفیان بَاع سقایة من ذھب أو من ورق بأکثر من وزنھا، فقال له ابوالدرداء: سمعت رسول اللہﷺ ینھی عن مثل ھذا إلا مثلا بمثل فقال معاویة: ما أریٰ بھذا بأسا، فقال له أبو الدرداء: من یعذرني من معاویة اُخْبِرہ عن رسول اللہﷺ و یُخبرنی عن رأیه، لا أسا کنك بأرض أنت بھا ثم قدم أبوالدرداء علی عمر بن الخطاب فذکر له ذلك، فکتب عمر إلی معاویة أن لا یبیع ذلك إلا مثلا بمثل وزنا بوزن» (السنن الکبری للبیہقی: ج۵؍ص۲۸۰)

''عطاء بن یسارؓ بیان کرتے ہیں کہ امیرمعاویہ بن ابی سفیانؓنے ایک سونے یا چاندی کا پیالہ اس کے وزن سے زیادہ سونا ؍ چاندی کے تبادلہ میں فروخت کیا تو ابوالدرداء نے رسول اللہﷺ کا ارشاد سنایا کہ آپﷺ ایسی خریدوفروخت میںبرابری کوضروری قرار دیتے ہیں۔ معاویہ ؓنے رائے دی کہ میں اس سودے میں کوئی حرج نہیں پاتا جس پر ابوالدرداء ( سیخ پا ہوکر) کہنے لگے: ''کس کی جرات ہے کہ وہ معاویہؓ کی طرف سے عذر خواہی کرے؟ میں تو انہیں اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد سنا رہا ہوں اور وہ اپنی رائے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔'' (اے معاویہؓ!) میں اس علاقہ میں تیرے ساتھ رہ ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ ابوالدردائؓ نے حضرت عمرؓ بن خطاب کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ کہہ سنایا جس پر حضرت عمرؓ نے امیر معاویہ ؓکو لکھا کہ وہ ایسی چیز کی فروخت صرف ہم وزن برابر برابر ہی کریں''

بظاہر اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سونے چاندی کے زیورات کی خریدوفروخت کے وقت سونا چاندی (درہم؍ دینار) کے تبادلہ میں برابری اس قدر ضروری ہے کہ زیورات کی صنعت و حرفت کا معاوضہ بھی نہیں لیا جاسکتا جس طرح پیالہ کی صنعت کا معاوضہ زائد سونے چاندی کی صورت میںابوالدرداء نے غلط قرار دیا اور حضرت عمرؓ نے بھی اس کی تائید کی۔لیکن علامہ ابن قیم ؒاس واقعہ کی روشنی میں ایک اصولی نکتہ پیش کرتے ہیں کہ سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال ناجائز ہونے کی بنا پر ان کی صنعت کے بدلے زائد سونا چاندی نہیں لیا جاسکتا لیکن زیورات کا استعمال چونکہ جائز امر ہے لہٰذا ان کی خرید و فروخت میں مزدوری کے طور پر اضافی سونا چاندی جائزہونا چاہئے۔ ان کے کلام کا إعلام الموقعین (مترجم ) جلد ۱ ؍ص۴۹۱ سے ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

''... اگر کوئی صنعت یا زیور قسم حرام سے (مثلاً سونے چاندی کابرتن) ہے توانہیں ان کی جنس سے اور غیر جنس سے تبادلہ حرام ہے۔ اسی کی بیع کا انکار حضرت معاویہؓ پر حضرت عبادہ بن صامتؓ(۶) نے کیا تھا ،اس لئے کہ اس میں حرام صنعت کی قیمت بھی شامل ہے اور یہ جائز نہیں جیسے کہ باجے گاجے کی بیع حرام ہے۔ اگر صنعت از قسم مباح ہو جیسے چاندی کی انگوٹھی، عورتوں کے زیور، ہتھیار وغیرہ کے زیور توکوئی عاقل ایسا نہیں کہ انہیں ان کے وزن کے برابر انہی کی جنس سے بیچ دے۔ اس لئے کہ اس طرح جو دام اسے صنعت پر بیٹھے ہیں وہ ضائع ہوجائیں گے۔ شارع کی حکمت اس سے بہت اعلیٰ ہے کہ وہ اُمت پر یہ لازم کردے۔ نہ ہی شریعت کے لائق یہ حکم ہے''

حاصل یہ ہے کہ رباالفضل کے تحت آنے والی اشیاء کے معاملات میں مقاصد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اگر کرنسی کے قرض یا لین دین میں مشروط اضافہ مقصو د ہو خواہ اس کا نام کچھ بھی رکھ لیا جائے تو وہ 'ربا' شمار ہوگا اور اگر کرنسی میں خوفناک افراطِ زر کی وجہ سے قرض داروں اور قرض خواہوں میںعدل مقصود ہو تو کرنسی کا حساب کسی مستحکم Commodity کی اساس پر کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ کرنسی کی ظاہری گنتی کا جو فرق نظر آرہا ہے وہ حقیقت میں فرق نہیں ہے بلکہ قدروقیمت کی یکسانی کی غرض سے ہے۔ رسول اللہﷺ کا جہاں قرضِ حسنہ کے بارے میں یہ ارشاد ہے کہ وہ صدقہ کے قریب ہے وہاں آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے : عن أبي هریرۃ خیرکم اَحسنکم قضاء ،متفق علیہ

''اور تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو ادھار کی ادائیگی میں سب سے بہتر ہے''

( بحوالہ الربا والقروض في الفقه الاسلامي ص۹۸،۹۹،۱۳۶ از ڈاکٹر محمد عبدالہادی)

مقام نمبر 6 تا 9

6۔ پیرا نمبر۱۳۸ ،جس میں حضرت عمر ؓکے قول فدعوا الربا والریبۃ کی بحث ہے ۔

7۔ پیرا نمبر ۹۳ تا ۱۲۹ ،جس میں سودِ مرکب کے علاوہ سودِ مفرد وغیرہ تمام اقسام سود کی بحث ہے۔

8۔ پیرا نمبر۱۳۰ تا ۱۳۷ میں آیا تِ متشابہات کی بحث

9۔ پیرا نمبر ۵۰ کی شق نمبر ۳ جس میں نہضۃ العلماء کانفرنس (مشرقی جاوا،انڈونیشیا )کے حوالہ سے مصلحت اور اِجماع کی بحث کی گئی ہے۔

میں نے ابتدا میں وفاقی شرعی عدالت کے ۱۴ ؍نومبر ۱۹۹۱ء کے فیصلہ میں بارہ ایسے مقامات نامزد کیے تھے جن کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔ ان میں مقام نمبر ۶ تا ۹ کے متعلق وفاقی شرعی عدالت نے جو فیصلہ کیا ہے ،ا س سے دلائل سمیت مجھے مکمل اتفاق ہے البتہ اندازِ تعبیر کی حد تک میں چند باتیں واضح کرنا چاہتا ہوں جو ذیل میںنکات وار درج ہیں:

(1) ربا کا مسئلہ قطعاً متشابہات سے نہیں ہے: وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلہ کے پیرا ۱۳۰ تا ۱۳۷ میں متشابہات کی عمدہ تشریح کی ہے اور بالکل درست لکھا ہے کہ سود ( ربا) کا مسئلہ متشابہات میں سے نہیں ہے۔اگر سود کی بعض صورتیں مشتبہ ہونے کی وجہ سے واضح نہ ہوتیں تو قطعاً اللہ اور اس کے رسول ﷺسے جنگ جیسی خوفناک دھمکی نہ دی جاتی ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ سورئہ بقرہ ۲؍۲۷۸ میں ﴿وَذَر‌وا ما بَقِىَ مِنَ الرِّ‌بو‌ٰا۟﴾ (جو سود باقی رہ گیا ہے، وہ بھی چھوڑ دو )کے الفاظ سے سابقہ سو دی معاملات میں بقیہ سود تک چھوڑ دینے کا حکم دیں اور اگلی ہی آیت ۲۷۹ ﴿فَأذَنوا بِحَر‌بٍ مِنَ اللَّهِ وَرَ‌سولِهِ ۖ وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُ‌ءوسُ أَمو‌ٰلِكُم﴾ (اگرسودی اضافہ نہیں چھوڑتے تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ قبول کرو اور اگر توبہ کرتے ہوتو صرف ا صل سرمایہ ہی تمہارے لیے ہو گا) میں توبہ اسی صورت میں قبول کریں کہ وہ ادنیٰ سودی اضافہ بھی چھوڑ کر صرف اصل سرمایہ واپس وصول کریں ورنہ جنگ کے لیے تیا ر ہو جائیں؟

شریعت کی مکمل وضاحت کا عقیدہ اسلام کے مسلمہ عقائد میں شامل ہے : سود کی بعض اقسام کو مشتبہ بنانے کے لیے انہیں متشابہات میں شامل کرنے کا مسئلہ صرف فقہی نہیں بلکہ اس کا تعلق مسلمانوں کے مسلمہ عقیدہ سے ہے کہ شریعت اللہ کی طرف سے مکمل ہو چکی ہے اور رسولِ کریم ﷺتما م تر شریعت اُمت کو (سورج کی طرح روشن صورت میں) پہنچا کر دنیا سے رخصت ہوئے جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الرَّ‌سولُ بَلِّغ ما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَ‌بِّكَ ۖ وَإِن لَم تَفعَل فَما بَلَّغتَ رِ‌سالَتَهُ...٦٧﴾... سورة المائدة

''اے رسولﷺ! جو کچھ بھی اللہ کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیاوہ (اُمت تک) پہنچا دیجیے اور اگر ایسانہیں کریں گے تو آپ نے رسالت کی تکمیل نہیں کی''( سورۃ المائدۃ: ۵؍۶۷)

آیاتِ متشابہات کے سلسلہ میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسی چیزوں کے بارے میں وضاحت کے لیے قرآن کریم نے خود آیاتِ محکمات کی طرف رجوع کا حکم دیا ہے جو آیات متشابہات کے لیے 'ماں' کا درجہ رکھتی ہے۔ قرآن کریم میں ہے :

﴿هُوَ الَّذى أَنزَلَ عَلَيكَ الكِتـٰبَ مِنهُ ءايـٰتٌ مُحكَمـٰتٌ هُنَّ أُمُّ الكِتـٰبِ وَأُخَرُ‌ مُتَشـٰبِهـٰتٌ...٧﴾... سورة آل عمران '' ا سی (اللہ تعالیٰ) نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میںمحکم آیا ت ہیں وہی کتا ب اللہ کی ماں( اصل) ہیں اور دوسری متشابہات ہیں ''

لہٰذا متشابہات میں انسانی ضرورت کی اشیا تومحکم آیات کی طرف رجوع کرنے سے ہی واضح ہو جاتی ہیں البتہ بعض مافوق ُالفطرت باتوں کا علم اللہ کے سپرد کرنا ہی پڑتا ہے ۔

(2) حضرت عمر ؓ کے قول کی وضاحت : سود کی بعض اقسام کو مشتبہ بنانے کیلئے حضرت عمر ؓ کے ایک قول کا سہارا لیاجاتا ہے جس کی روایت کتب ِحدیث میں متنوع الفاظ سے کی گئی ہے مثلاً«إن آخرما نزلت آیة الربا وإنّ رسول اللہﷺ قُبِض ولم یفسّرھا لنا فدعوا الربا والریبة» (ابن ماجہ حدیث ۲۲۶۷)

''آیت ِربا آخر ی اُترنے والی آیت ہے اورچونکہ رسول اللہ ﷺ رخصت ہونے سے قبل زیادہ وضاحتیں نہ کر سکے، اس لیے سود بھی چھوڑو ا ور مشکوک معاملات سے بھی اجتناب کرو۔ ''

دوسری روایت مسند احمد حدیث ج ۱ ؍ص ۳۶(حدیث۲۳۸) میں لَنَا کے لفظ کے علاوہ باقی عبارت وہی ہے اورمعنی میں کوئی فرق نہیں پڑا...تیسر ی روایت مسند احمد حدیث ۳۳۱ میں قُبِضَ کی جگہ تُوُفِّیَ کا لفظ ہے ،معنی وہی ہے البتہ باقی عبار ت میں آخِرَ سے قبل مِنْ کا لفظ زیادہ ہے ۔ مفہوم یہ ہے کہ آیت ِربا قرآن کی آخری اُترنے والی آیات میں سے ہے ...چوتھی روایت سنن دارمی حدیث ۱۳۱ میں پوری عبارت کا پیرایہ بیان مختلف ہونے کے علاوہ ولم یفسّرھا لنا کی جگہ ولم یبینھا لنا کا لفظ ہے:

«عن الشعبي أن عمر قال:یأیھا الناس إنا لاندري لعلنا نأمرکم بأشیاء لا تحل لکم ولعلنا نحرم علیکم أشیاء ھي لکم حلال۔ إن آخر ما نزل من القرآن آیة الربا وإن رسول اللہ ﷺ لم یبینھا لنا حتی مات فدعوا ما یریبکم إلی ما لا یریبکم» (ج ۱، ص ۴۹ )

''شعبیؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ہم بعض معاملات کے حلال وحرام ہونے کے بارے میں متردّد ہو جاتے ہیں۔بے شک آیت ِربا قرآن کی آخری اُترنے والی آیت ہے اور رسولﷺ ہمارے لیے تفصیلی معاملات کھولنے سے قبل فوت ہو گئے لہٰذا شک وشبہ کے بجائے پراعتماد صورتوں کو اختیار کرو''

مفہوم اگرچہ وہی ہے لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ سے روایت بالمعنی ہورہی ہے اس لیے حضرت عمرؓ کے الفاظ پر زور دینے کی بجائے حضرت عمر ؓ کا مقصد سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت عمر ؓ خدانخواستہ یہ عقیدہ تو قطعاً نہیں رکھ سکتے کہ رسول اللہ ﷺ شریعت کے اہم مسئلہ سود (ربا) کا معنی واضح کیے بغیر رخصت ہو گئے کیونکہ رِبا عربی زبان کالفظ ہے اور عرب لوگوں کے ہاں اس کامعنی معلوم و معروف ہے ۔اسی طرح حضرت عمر ؓ کا مقصد یہ بھی نہیںہے کہ ربا کی بعض جزئیات آپﷺ چھوڑ گئے کیونکہ یہ عقیدہ تکمیل دین کے خلاف ہے بلکہ آپ کی مراد یہ تھی کہ سود کی صورتیں بدلتے حالات میں نئی سے نئی پیش آتی رہتی ہیں اور کئی نئی صورتوں کے بارے میں نبیﷺ کی صراحت موجود نہیں ہوتی یا عمرؓ کے علم میں نہیں (کیونکہ نبیﷺکا علم تمام صحابہؓ میں پھیلا ہوا تھا اور صحابہ ؓ ایسے انداز کی گفتگو اس لیے بھی کرتے رہتے تھے تا کہ مذاکرہ سے معلومات ملتی رہیں) لہٰذا سود کے بارے میں محتاط رویہ اپنانا بڑا ضروری ہے ۔ حضرت عمر ؓ کے اس قول کی کچھ وضاحت آپ کے ایک دوسرے موقعہ پر خطاب سے ہوتی ہے جو یوں ہے:

«قال عمر بن الخطاب ؓ: إنکم تزعمون أنا لا نعلم أبواب الربا، ولأن أکون أعلمھا أحبّ إلي من أن یکون لي مثل مصر وکورھا، ومن الأمور أمور لا یکن یخفین علی أحد: ھو أن یبتاع الذھب بالورق نسیئا وأن یبتاع الثمرة وھی معصفرة لا تطب، وأن یسلم في سن» (المصنّف لعبد الرزاق ج ۸ ص ۲۶ حدیث ۱۴۱۶۱)

''حضرت عمر ؓ نے فرمایا : تم خیال کرتے ہو کہ ہم سود کی بعض شکلوں سے واقف نہیں ۔اللہ کی قسم! سود کی ایسی صورتوں کا علم میرے نزدیک مصر اور اس کے اضلاع سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ پھر سودی معاملات میں سے بہت سے اُمور ایسے ہیں جو کسی پر بھی مخفی نہیںمثلاً سونے کی چاندی کے بدلے اُدھار خریداری اور درختوں پر موجود پھل کی خریداری جبکہ وہ زرد ہو، پوری طرح تیار نہ ہو اور حیوانات میں بیع سلم ''

حضرت عمر ؓ اپنے مذکورہ بالا خطاب میں ربا الفضل کی دوقسموں (جومذکورہ تین صورتوں میں سے پہلی دو ہیں) کے بارے میں بیان کر رہے ہیں کہ وہ کسی پر مخفی نہیں ہیں البتہ ایک اور قسم(چند مخصوص اشیا کا نقد کمی بیشی سے سودا)صحابہؓ کے درمیان اختلافی امر تھا اس کے بارے میں حضرت عمر ؓاپنے بھر پور اطمینان نہ ہونے کا حسرت سے ذکرکر رہے ہیں ۔

(3) حضرت عمر کے قول کی اسنادی حیثیت اور اس میں ترجیح: حضرت عمر ؓ کے مذکورہ بالا قول کی توجیہ ہم نے اس لیے کر دی ہے کہ کوئی اس قول کا انکار معنوی اجنبیت کی بنا پر نہ کرے۔ اگرچہ بعض حضرات کی یہ رائے بھی ہے کہ یہ قول روایتاً ثابت نہیں ہے کیونکہ حضرت عمر ؓ سے سعید بن مسیبؒ کی سماعت میں اختلاف ہے او ران سے نیچے بعض راوی بھی اعلیٰ معیار کے نہیں یہی وجہ ہے کہ بعض محدثین نے اسے ضعیف حدیث شمارکیا ہے جب کہ جمہور محدثین ضعف کا اِزالہ یوں کرتے ہیں کہ سعید بن مسیبؒ تابعی کی مرسل متفقہ طور پر حجت ہے اورنچلے رواۃ کا ضعف بھی شدید نہیں ہے لہٰذا یہ روایت کم از کم حسن درجہ کی ہے پھر دارمی والی روایت میں سعید بن مسیبؒ کے بجائے شعبیؒ روایت کرتے ہیں اور نچلے رواۃ بھی مختلف ہیں جس سے پہلی روایات کی تائید ہوتی ہے۔ بہر حال محدثانہ طریقہ پر اس حدیث کے صحت وضعف کے اختلاف پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں بالخصوص امام احمد بن حنبل ؒ وغیرہ محدثین کا رویہ معمولی ضعیف احادیث کے بارے میں یہی ہے کہ وہ ایسی احادیث کا انکار کرنے کے بجائے ان کی توجیہ زیادہ پسند کرتے تھے ۔

(4) محدثین کا انداز تحقیق اس امت کا طرئہ امتیاز ہے: ہمیں شکایت ان لوگوں سے ہے جو محدثانہ فنی بحث کرنے کے بجائے اپنی رائے سے احادیث کا انکار کردیتے ہیں یا محدثین کے شاندار فن کو تسلیم ہی نہیں کرتے جو شاید اس اُمت کے معجزات میں سے ایک ہے ۔ کوئی شخص محدثین کے فن کی مہارت حاصل کر کے ا س کو آگے بڑھائے ہم اس کی حوصلہ افزائی کریں گے کیونکہ انسانی کاوِش میںہمیشہ بہتری کی گنجائش ہوتی ہے لیکن اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ فن پر تنقید کر کے سند کے واسطہ کے بغیر ہی من مانی تصحیح وتضعیفکا نیا دروازہ کھول دیا جائے تو بالکل ایسا ہی ہو گا جیسے کوئی شخص عدالتی کاروائی پر عدم اعتماد کر کے کہے کہ جج حضرات کو کسی واقعہ کے بارے میں گواہان کے بغیر ہی اپنی اعلیٰ علمی بصیرت اور بھر پور تجربوں سے فیصلے کرنے چاہئیں اوراس طریقہ کو 'درایت' اور 'تدبر' کا نام دے ۔ ترقی یافتہ قومیں اپنے اَسلاف کے کاموں کوضرور آگے بڑھا سکتی ہیں لیکن ان کے کئے پر پانی پھیر کر نام نہاد 'تحقیق' بصیرت نہیں، جہالت ہوتی ہے ۔

(5) محدثین او رفقہاء کا کام الگ الگ نوعیت کا ہے او ردونوں کے علم وفن کی اپنی جگہ اہمیت ہے:

ہمیں اس سلسلہ میں محدثین اور فقہا کا تقابل کر کے کسی ایک کو ترجیح دینے کا رجحان بھی پسند نہیں کیونکہ حدیث اور فقہ دو مختلف فنون ہیں ۔ فن حدیث کا تعلق صرف واقعہ کے سچا یا جھوٹا ثابت کرنے سے ہوتا ہے اور محدثین کے ہاں روایت ِحدیث کو صدق وکذب کے لحاظ سے پرکھنے کو اصطلاحاً 'درایت ' کہتے ہیں جبکہ فقہ کا میدان کسی ثابت شدہ واقعہ سے استنباط واجتہاد کرنے کا ہے ۔ جس طرح پولیس کی ایمان دارانہ تفتیش اور عدالتی تجویز میںفرق ہے اوراپنی اپنی جگہ دونوں کی اہمیت ہے۔ دونوں کی قدر کرنی چاہیے۔

(6) قرآن وحدیث وحی الٰہی ہیں او ران کاباہمی تعلق ایک دوسرے کی تائید وتشریح کا ہے، مقابلہ وتضاد کا ہرگز نہیں، دونوں کی تحلیل وتحریم مساوی حیثیت رکھتی ہے: رسول اللہ ﷺکی سنت اور قرآن کے حوالے سے ایک خطرناک رجحان مستشرقین کی سازشوں سے مسلمان دانشوروں میں پھیل رہا ہے جس سے عموماً اب یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ قرآن اور سنت کوالگ الگ کر دیا جائے حالانکہ قرآن اور محمد ﷺ کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔قرآنِ کریم محمد ﷺ کے بغیر نہیں آیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ِبالغہ سے حضور ﷺ کی تیئس سالہ زندگی میںقرآن کویوں پرو دیا ہے کہ یہ ہار اس لڑی کے بغیر استعمال ہی نہیں کیاجاسکتا۔ یہ موضوع طویل ہے اس پر کوئی لمبی گفتگو کرنے کے بجائے میں ماہنامہ ''محدث'' لاہور کی چند متفرق اشاعتیں (۳) پیش کیے دیتا ہوں۔ویسے علماء دین نے اس موضوع کو اتنا زیادہ کھنگال دیا ہے کہ اب ان کے حوالے ہی کافی ہیں ،کسی مزید تحقیق کی ضرورت نہیں ۔ البتہ یہ شبہ دور ہو جانا چاہیے کہ قرآنِ مجید کی تحقیق میں تواتر کیوں شرط ہے جب کہ فن حدیث میں سنت کے ثبوت کے لیے غیر متواتر (خبر واحد) کا صحیح ثابت ہو جاناہی کافی ہے ۔

اس کی وجہ قرآن کے الفاظ اور سنت کی مراد کا وہ بنیادی فرق ہے جو عام اشخاص کے مد ِنظر نہیں ہوتا۔ قرآنِ کریم سے مقصود چونکہ تلاوت ہوتی ہے جس میں تلفظ کی ادائیگی زیادہ اہمیت رکھتی ہے اس لیے لفظ کی تحقیق وتلاوت کے لیے زیر وزبر اور نقطوں تک کا اہتمام کرنا ضروری ہے اس لیے فن قراء ت کے ائمہ نے قرآنِ کریم کے ثبوت کے لیے اس کا متواتر ہونا ضروری قرار دیا ہے جبکہ سنت ِرسول، محمد ﷺہی کے واسطہ سے چلتا پھرتا قرآن ہی ہے یعنی آپ ﷺکی معصوم زندگی کے اقوال وافعال بلکہ آپ کی خاموشی تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کی مراد واضح کرتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ مفہوم ومراد کے لیے وہ طریقہ اختیار کرناضروری نہیں جو لفظ کی حفاظت کے لیے ضروری ہے ۔ بہر حال قرآن وسنت کے لیے الگ الگ طریقہ ثبوت سے یہ لازم نہیں آتا کہ دونوں کوآپس میں ٹکر ا کر دین وشریعت کا تیا پانچا کر دیا جائے بلکہ دونوں کا جو ہر ی مقصد سامنے رکھ کر دونوں کو ملا کر شریعت کی جزئیات سے واقفیت حاصل کر نی چاہیے ۔ اس نکتہ کی وضاحت کے بعد یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن اور سنت کے حلال وحرام میں کوئی فرق نہیں،اس نکتہ کے بارے میں رسول ﷺکاصریح ارشاد بھی ملاحظہ فرمائیے :

(الف)« عن أبي رافع وغیرہ رفعه قال : لا ألفینّ أحدکم متکئا علی أریکته یأتیه أمرمما أمرت به أو نھیت عنه فیقول لا أدري، ما وجدنا في کتاب اللہ اتبعناه» (الترمذي:۲۵۸۷،۲۸۱۳)

(ب) «عن المقدام بن معدیکرب قال قال رسول اللہ ﷺ: ألا ھل عسی رجل یبلغه الحدیث عني وھو متکیٔ علی أریکته فیقول بیننا وبینکم کتا ب اللہ فما وجدنا فیه حلالا استحللناه وما وجدنا فیه حراما حرمناه وإنما حرم رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کما حرّم اللہ» (الترمذی ؍۲۵۸۸)

جامع ترمذی کی ان دونوں حدیثوں کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے غلط نظریہ کی تردید کی جس نے قرآن اور سنت کے حلال اور حرام کوالگ الگ مرتبہ میں رکھا حالانکہ امت کے لیے قرآن ہو یا سنت ،واحد ذریعہ ٔ وحی رسولِ کریم ﷺ ہی ہیں، سنت ِرسولؐ کی تحلیل وتحریم کتا ب اللہ (قرآن) کی تحلیل وتحریم ہی کادرجہ رکھتی ہے ۔

لہٰذا جو حضرات سود کی بعض اقسام کو ربا القرآن یا ربا السنۃ میں تقسیم کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ربا القرآن کا درجہ حرام کا ہے جبکہ سنت میں وارد تفصیلات کا درجہ مکروہ کا ہے، یہ نظریہ بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ دین کی تکمیل رسولﷺ نے کی ہے اس میں قرآن کے الفا ظ ا ور سنت کی وضاحتیں دونوں شامل ہیں ۔

(7) سود کی حرمت میں تدریج ،جس سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا: اسی طرح کی ربا سے متعلق وارد نصوص کی یہ توجیہ بھی بعض لوگوں کو مغالطہ کا باعث ہوتی ہے کہ کیا ربا کی تما م جزئیات وتفصیلات ایک ہی وقت حرام قرار دے دی گئیں تھی یا مختلف اوقات میں بتدریج نوع بہ نوع صورتوں سے منع کیا جاتا رہا ہے ؟

جس شخص کی رسول اللہ ﷺکے اندازِ تشریع پر نظر ہے وہ اس بارے میں کسی اِشکال کا شکار نہیں ہو سکتا کہ آپ کا انداز تشریعیـ Academic ہونے کی بجائے عملی زندگی کا تھا۔ بلاشبہ رسولِ کریم ؐ بنی اسرائیل پرسود کی حرمت سے واقف ہونے کی بنا پر خود اول روز سے ہی سود سے احترازکرتے رہے بلکہ آپ کی نبوت سے ۵ سال قبل تعمیر کعبہ کے وقت قریش نے کعبہ پر بھی کوئی سودی مال نہیں لگایا تھا لیکن قرآن وسنت کا مطالعہ کیا جائے تومعاشرہ میں سود کی حتمی حرمت اوراس کی نوع بہ نوع صورتوں کے متعلق ممانعت کی تعلیمات آپ نے موقع بہ موقع ہی نافذ کی ہیں اسی لیے نبی ﷺ کے زمانہ میں پیش آنے والے بعض واقعات کے سلسلہ میں بعض علماء نے یہ جوابات دئیے ہیں کہ اس وقت تک سود کی فلاں خاص متعین صورت حرام نہ ہوئی تھی جس میں ربا النسیئۃ کے بہت بعد ربا الفضل کی حرمت علماء کے ہاں مشہور ہے نیز ۴ھ میں یہود (بنی قینقاع) کو جب نبی ﷺ نے جلا وطن کرنے کا حکم دیا تو ان میں سے بعض افراد نے یہ عذر پیش کیا کہ ان کے بعض قرضے مسلمانوں کے ذمہ ہیں جوابھی تک وصول نہیں ہو سکے تو آپ نے اس کا ایک حل یہ بتایا کہ کچھ رقم کم کر کے مسلمانوں سے اپنے قرضے واپس حاصل کر لو اس صورت کو فقہاء نے ضَعْ وَتَعَجَّلْ کا نام دیا ہے اوربعض علماء نے اس کا جواب یہ بھی دیا ہے کہ اگرچہ قرض کی کچھ رقم کم کر کے سرمایہ کی وصولی بھی سود ہی کی ایک عکسی شکل ہے لیکن یہ صورت ۴ھ کے بعد حرام قرار دی گئی ۔ اسی طرح کا معاملہ حضرت عباس ؓ وغیرہ صحابہ کرامؓ کا ہے جوراجح تحقیق کے مطابق فتح مکہ سے کچھ عرصہ قبل ہی مسلمان ہوئے اور انہوں نے اپنے اسلام کا اعلان فتح مکہ ۸ھ کے موقع پر کیا لیکن حجۃ الوداع جو ۱۰ھ میں ہوا فتح مکہ سے تقریباً سوا دوسال بعد کا واقعہ ہے ۔اس دوران بالخصوص حضرت عباس ؓ وغیرہ حضرات صحابہؓ کی رقوم مع سود دوسرے لوگوں کے ذمہ تھیں جن کورسولِ کریم ﷺ نے حجۃ الوداع ۱۰ھ کے موقع پر معاف کر کے صرف اصل زر و صول کرنے کی اجازت دی۔

اس کی توجیہ بھی بعض علماء یہ کرتے ہیں کہ یہ تجارتی سود مفرد تھا جس کا اتنے بڑے مجمع میں آپ نے اپنے خاندان کا سود معاف کر کے معاشرتی سطح پر استیصال کرنے کے لیے حتمی قدم اٹھایا۔اسی طرح سورئہ آل عمران کی آیت ۱۳۰ میں أضعافا مضاعفة (سود مرکب )کی تحریم کے متعلق ایک جواب یہ بھی دیاجاتا ہے کہ اس آیت میں سود مرکب حرام کیا گیا جبکہ سود مفرد بعد میں حرام ہوا۔ اگرچہ علماء نے مذکورہ بالا جوابات کے علاوہ قرآنِ مجید کی تمام آیات کے اترنے کے بعد جو سود کی جزئیات مکمل ہوئیں ان کو پیش نظر رکھ کر تمام آیات کی یکساں تاویل کر کے ایسے جوابات دئیے ہیں گویا ہر آیت سود کی تمام صورتوں پر مشتمل ہے جو تاویل قرآن کے اعتبارسے اب درست مفہوم ہے لیکن اگر علی سبیل التنزل تاریخی طور پر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ سود کی اِجمالی حرمت تو ابتدائے نبوت سے ہی تھی لیکن مختلف اوقات میںنو ع بہ نوع عملاً سود کے دروازے بند کیے جاتے رہے تواس توجیہ میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

مقام نمبر 10 تا 12

10۔ پیرا نمبر ۲۴۹ تا ۲۷۸ جن میں سود کی متبادل بعض اقسامِ بیع کی بحث ہے ۔

11۔ پیرانمبر ۵۶ تا ۶۴ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ پر تبصرہ

12۔ ضمیمہ نمبر ۲ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کا تائیدی اور تنقیدی جائز ہ

شرعی عدالت کا دائرہ اختیار اور کرنے کاکام

وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ میں مذکورہ تین مقامات کا تعلق 'سود' کے ملکی معیشت سے اِخراج کے بعد متبادلات سے ہے ۔ اس سلسلہ میں یہ بنیادی بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ ملک کے معاشی نظام کے اندر سود بظاہر چند قانونی دفعات تک محدود ہے اور شرعی عدالت کا دائرہ اختیار بھی اتنا ہی محدود ہے کہ وہ بمشکل تمام ایسے ذیلی قوانین کی مخصوص شقیں کلی یا جزوی طور پر کالعدم قرار دے سکتی ہے جو اس کی نظر میں قرآن وسنت کے احکامات سے متصادم ہوں پھر اس کے فیصلے کی تعمیل میں متبادل قوانین وضع کرنا ریاست کے دیگر قانون ساز اداروں کا کام ہے۔

چونکہ چند قوانین بھی ایک مجموعی نظام کی بقا میں اس وقت ایک بڑا کردار رکھتے ہیں جب نظام کا رُخ بدل رہا ہو۔ سود تو سرمایہ دارانہ نظام کا اتنا اہم عنصر ہے کہ اس کو ختم کرنے کے بعد یہ سمجھنا کہ سرمایہ دارانہ نظام باقی رہ سکے گا یہ ایسے ہی ہے جیسے یہ باور کر لیا جائے کہ دو متوازی پہیوں والی گاڑی ایک پہیہ پر رواں رہ سکتی ہے۔

البتہ یہ درست ہے کہ شرعی عدالت کے دائرہ کار سے ملکی دستور بالاترہے لیکن ملکی دستور ہی میں شرعی عدالت کا قیام اوردیگر اسلامی دفعات کامقصد ہی یہ ہے کہ دستور کی اسلامی اساس پر بتدریج سارے دستور کو اُستوار کیا جائے جس کا ایک ذریعہ شرعی عدالت بھی ہے ۔ اس لیے یہ بات پریشانی کاباعث نہیں بننی چاہئے کہ کسی عادلانہ فیصلہ کے اثرات حکومتی کارکردگی پر کیا ہوں گے؟ بلکہ حکومت کوایسے صحیح فیصلے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کرنے چاہئیں کیونکہ عدالت کا دائرہ کار تو بہر حال محدود ہے لیکن ریاست کے قانون ساز اداروں کے اختیارات ایسے محدود نہیں ہیں۔ وہ اگر کسی ایسے فیصلے کے اثرات وسیع تر پائیں تو متبادل قوانین لاتے ہوئے پورے اقتصادی نظام کو تبدیل کر سکتے ہیں ۔اس لیے ہماری رائے میںشرعی عدالت کو اپنے فیصلے میں متردّد نہیں ہونا چاہیے او ر نہ زیادہ متبادلات پر محنت کرنی چاہئے بلکہ فیصلہ کے ذریعے حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ ۱۹۷۵ئ؁ سے اب تک متبادل نظام تیار کرنے کے لیے کتنے کمیشن ؍کمیٹیاں بنائی جاتی رہیں جو اپنی تجاویز یا Blue Print پیش کرتے چلے آرہے ہیں؟ اگر یہی سلسلہ مزید چلایا گیا تو اسلام کی طرف کوئی مؤثر پیش رفت خواب ہی بن کر رہ جائے گی۔

اس بنیادی نکتہ کے بعد میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ میں سود کی متبادل بیوع کی بعض اقسام کے چند پہلو اُجاگر کرنا چاہتاہوں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں کواس لیے سامنے رکھا گیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے اسے اپنے فیصلہ کا ضمیمہ ۲ بنایا ہے ۔

بیع مؤجل اور مرابحہ کی وضاحت او رشرعی حیثیت

بیع مؤجل( Deferred Sale) وہ بیع ہے جس میں قیمت کی ادائیگی تاخیر سے کی جائے خواہ یکمشت ہو یا قسطوں میں ۔ اسی طرح مرابحہ وہ سودا ہے ''جس میں مالک اپنی شے کی قیمت ِخرید اورمتعین منافع بتا کر شے کو فروخت کرے۔ ''بظاہر دونوں (بیع مؤجل اور مرابحہ) میں کوئی حرج نظر نہیں آتا لیکن ہمارے ہاں بنکوں نے دونوں کی امتزاجی شکل اختیار کی ہے وہ کچھ یوں ہے :

کوئی تجارتی ادارہ کسی ملکی یا غیر ملکی دوکاندار یا صنعت کار سے اپنی مطلوبہ شے خریدنے کے لیے بنک سے قرض طلب کرتا ہے جس کی شکل یوں بنائی جاتی ہے کہ بنک قرض دینے کے لیے ایک معاہدہ کرتا ہے جس کے تحت اس شے کی ملکیت (رجسٹری وغیرہ کے ذریعے) بنک کے نام کر دی جاتی ہے اور وہی شے اضافی طے شدہ قیمت پر جس میں اخراجات کے علاوہ بنک کا منافع بھی شامل ہوتا ہے ادارہ مذکورہ ایک مقررہ وقت کی شرط پربنک سے اُدھارخرید لیتا ہے ۔

اس سودے کی قیمت تاخیر سے اداکرنے کی وجہ سے بیع مؤجل کہتے ہیں اور شے کی قیمت ِخرید کے علاوہ معلوم منافع کی بنا پر اسے بیع مرابحہ کانام دیا جاتا ہے ...یہاں مقصد واضح ہے کہ وہ بنک سے قرض لیناہے تا ہم سودے کی حقیقت واضح کرنے کے لیے چند اُمور کی تنقیح (وضاحت )کرتا ہوں:

(الف) بینک بظاہر شے کامالک ہوتا ہے لیکن وہ اسے مخصوص تجارتی ادارہ کے علاوہ کسی کو فروخت نہیں کر سکتا۔

(ب) شے میں اس مدت کے دوران نقص واقع ہویا ضائع ہو جائے تو وہ بنک (مالک) کے بجائے تجارتی ادارہ کا نقصان ہوگا۔

(ج) شے اگر مشینری وغیرہ ہو تو اس کی تنصیب وغیرہ میں صرف شدہ مدت کا ذمہ دار بینک نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی دوسرا عذرِ تاخیر بنک کو قیمت کی ادائیگی میںمہلت کے لیے قابل سماعت ہوسکتاہے۔

(د) بنک کی ملکیت نام کی حد تک توہوتی ہے لیکن مذکورہ بالاتمام شرائط بنک کی بجائے تجارتی ادارہ کے قبضہ کے علاوہ اس کی ملکیت واضح کرتی ہیں۔

(ھ) اگر طے شدہ مدت کے مطابق تجارتی ادارہ بنک کو ادھار پر اضافی قیمت ادا نہیں کر سکتا تو قیمت ایک خاص شرح سے برابر بڑھتی رہتی ہے جسے تاوان کہئے یا جرمانہ، حقیقتاً وہ قرض پر مشروط اضافہ ہی ہوتا ہے۔

میں نے ابتدا میں جوسود سے متعلقہ قرآنی آیات دی ہیں ان میں سورئہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۸۴ کے ایک جملہ کی طرف توجہ دلانا چاہتاہوںجویہ ہے:

﴿وَإِن تُبدوا ما فى أَنفُسِكُم أَو تُخفوهُ يُحاسِبكُم بِهِ اللَّهُ...٢٨٤﴾... سورة البقرة

''اگر تم اپنے نفس کی اندرونی بات ظاہر کرو یا چھپا لو اللہ تو اس کا ضرور محاسبہ کرے گا''

یہ الفاظ بتارہے ہیں کہ نفس میں پوشیدہ یا ظاہر تمام اعمال کا محاسبہ ہوگا۔ اسی قرآنی ہدایت کے تحت فقہاء نے یہ ضابطہ(Legal Maxim)طے کیا ہے:العبرة في العقود للمقاصد والمعاني

''معاہدوں (سودوں) میں اعتبار مقاصد اور مفاہیم کا ہوتاہے'' (مجلہ الاحکام العدلیہ مادہ ۳ )

حیلہ صحیحہ اورحیلہ باطلہ کے درمیان فرق بھی یہی ہے کہ اگر ہیرا پھیری سے غلط مقصد حاصل کرنے کی تدبیر کی جائے تو وہ حیلہ باطلہ ہوتا ہے ۔ (جامع الاصول :ص ۴۳۸ تا ۴۴۱)

اسلام نے صرف صریح سود سے منع نہیں کبا بلکہ وہ تمام دروازے بھی بند کر دئیے ہیں جن سے گزر کر سودی معاملات میںملوث ہواجاتا ہے چنانچہ ایسے اقدامات رسولِ کریم ﷺ کے درج ذیل ارشادات میںپائے جاتے ہیں :

(الف) «نھی رسول اللہ ﷺ عن بیعتین في بیعة» (بلوغ المرام ،حدیث ۶۶۶)

''رسولِ کریم ﷺ نے ایک سودے کے اندر دوسودے جمع کرنے سے منع فرمایا''

دیکھئے کہ ایک شے کے کاروبار میں دو دفعہ سودے کرنے میں یہی خطرہ ہے کہ دوسرے سودے کے ذریعے پہلے سودے میں قیمت کا اضافہ کیا جاسکتا ہے، اسی لیے شریعت نے کسی شے کے ایک ہی دفعہ سودے پر زور دیا ہے خواہ وہ سودا نقد ہو یا اُدھار۔

واضح رہے کہ اگر نقد یا اُدھار، کوئی ایک صورت متعین کر کے کسی بھی قیمت پر سودا کر لیا جائے تو وہ جمہور علماء کے نزدیک جائز ہے۔

(ب) «قال رسول اللہ ﷺ:الخراج بالضمان» (ایضاً، ص۲۸۶،۲۸۷)

''فائدہ ذمہ داری کی بناپرہی ہوتاہے''

فقہاء نے اسی حدیث سے یہ فقہی ضابطہ نکالا ہے:

الغرم بالغنم ''چٹی، فائدہ اٹھانے کی بنا پر ہی عائد ہوتی ہے''

(ج) «عن زید بن ثابت ؓ فإن رسول اللہﷺ نھیٰ أن تُباع السلع حیث تبتاع حتی یحوزھا التّجار إلی رحالھم» (ایضاً،ص ۲۸۰ حدیث ۶۶۹)

''زید بن ثابتؓ صحابی نے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد سنایا کہ تجار،تجارتی سامان کو خرید والی جگہ پر فروخت کرنے کے بجائے اپنے ڈیروں پر قبضہ مکمل کر کے فروخت کریں''

اسی طرح نبی ﷺ کی ہدایت کتب ِحدیث میںمتنوع الفاظ سے وارد ہے جن کا مفہوم یہ ہے کہ قبضہ مکمل کیے بغیر اشیاء فروخت نہ کی جائیں۔

مذکورہ بالا ارشادات ِنبویؐ اور فقہی ضابطوں کوسامنے رکھ کر اندازہ کر لیجیے کہ نام نہاد بیع مؤجل یا مرابحہ کس طرح حلال ہوسکتی ہیں ؟

پٹہ داری ) (Leasing

سادہ تعریف توکرایہ داری ہے جسے اسلام نے ہماری ضرورت کی بنا پر جائز قرار دیا ہے لیکن آجکل بنک یا اِجارہ دار کمپنیاں کسی شخص یا تجارتی ادارہ کو یوں قرض بھی مہیا کرتی ہیں کہ مطلوبہ شے ایسے اِجارہ دار (بنک یا کمپنی) کے نام خرید کی جاتی ہے پھر وہ اجارہ دار اسے متعین کرایہ طے کر کے جو تقریباً شرحِ سود کے برابر ہوتا ہے ضرورت مند شخص یا ادارے کو کرایہ پر دے دیتا ہے اور عموماً معاہدہ میں یہ شرط ہوتی ہے کہ کرایہ دارہی ایک متعین مدت کے بعد طے شدہ قیمت پر خرید لے گا۔

یہ شرط ہم نے علامت کے طور پر لکھ دی ہے لیکن ضروری نہیںکہ یہ شرط علامت ہو، بسا اوقات جب وہ شے اس نوعیت کی ہو کہ کرایہ دار کا مستقل کاروبار اس سے وابستہ نہ ہو توایسی شرط نہیںرکھی جاتی تا ہم یہ بات مفہوم (Understood)ہوتی ہے کہ کرایہ کے علاوہ اس شے کی پوری قیمت اجارہ دار وصول کر لے گا۔

بہر حال کچھ علامتی نکات مسئلہ کی تنقیح کے لیے پیش ہیں:

(الف) کرایہ داری( Leasing)قابل تنسیخ نہیں ہوتی۔

(ب) اگر سامانِ مشینری ہو اوراس کی تنصیب میں طویل مدت صرف ہو جائے تو کرایہ اس مدت کا بھی عائد ہوتا رہتا ہے ۔

(ج) اگر مالک (بنک) عدالتی فیصلہ کی روسے ملکیت کھودے توکرایہ پھر بھی جاری رہتا ہے ۔

(د) تجارتی ادارہ اگر ذیلی کرایہ داری (Sub Let)کرے تو بنک(مالک) کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔

(ھ) اگر تجارتی ادارہ سے یہ شرط طے ہو کہ وہی متعین مدت گزرنے کے بعداس شے کا خریدار بھی ہوگا تواسے مارکیٹ کے مطابق قیمت کی بجائے اسے پہلے سے طے شدہ قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔

نوٹ:ضروری نہیں کہ ہر پٹہ داری میں مذکورہ تمام علامتیں موجود ہوںلیکن مذکورہ علامتوں میں سے ہر علامت بتاتی ہے کہ بنک کی نام نہاد ملکیت صرف حیلہ کی غرض سے ہوتی ہے ورنہ اِجارہ دار (بنک) کا اصل مقصود قرض کاکرایہ(سود) ہوتا ہے حالانکہ اسلام کی رو سے کرنسی کرایہ پر دی جانے والی شے نہیں۔البتہ اگریہ علامتیں نہ پائی جائیں اوراجارہ دار کمپنیاں شے کی حفاظت کے طور پر کچھ شرطیں عائد کر کے کرایہ پر دیں اور بعد ازاں کرایہ دار کی خرید کی شرط بھی نہ ہو تو کرایہ داری کی اسلام میں اجازت ہے جواس وقت زیر بحث نہیں اور بنکوں کے قیام کا تو یہ مقصدنہیں ہوتا۔

Participation Term Certeficate (PTC) قرض ہی کی ایک شکل ہے لیکن مضاربت مشارکت کی حد ایک متعین منافع (مثلاً ۱۵فیصد) تک ہوتی ہے۔ اگر منافع اس سے زیادہ ہوتو قرض دار کا ہوتا ہے۔ اس طرح جتنا منافع بڑھتا جائے قرض دار کا ہوتا ہے ۔ قرض خواہ کو صرف ۱۵ فیصد ہی ملتا ہے۔

بظاہر قرض کی یہ شکل ایک محدود حد( نفع ونقصان میں یکساں نسبت سے شرکت)تک جائز نظر آتی ہے لیکن چونکہ شراکت کا اسلامی اصول یہ ہے کہ شراکت میں نسبت غیر محدود حد تک فریقین کی یکساں ہونی چاہیے اس لیے یہ صورت ِقرض بھی جائز نہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے جو تجاویزاپنی رپورٹ ۱۹۸۰ء میںدی تھیں ان میںاگرچہ متبادل شکلوں میں حیلہ کی کچھ صورتوں کی اجازت دے کر پھر بعض شرائط لگادیں تا کہ سودی دروازے نہ کھلیں لیکن جب اس نے ایسے حیلوں کے دروازے خود کھول دئیے تھے پھر مجوزہ صورتوں سے غلط فائدہ اٹھایا گیا اورعملاًسود کا نام بدل کر Mark upرکھ لیا گیاتو ۱۹۸۳ء کی رپورٹ میں یہ دروازے بند کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

شرعی عدالت کو اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ تجربہ سامنے رکھنا چاہیے کہ وہ حیلہ کے دروازے کھلے رکھنے کی بجائے رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں وہ تمام ذرائع بند کرنے کی کوشش کرے جو سودی معاملات پرمنتج ہوسکتے ہوں۔ کیونکہ اگر غیر سود ی کاروبارکے ساتھ ساتھ Mark up کا مروّجہ سلسلہ بھی جاری رہا تو بعض انتظامی مشاکل اسلامی کاروبار کوابتدا میں پیش آئیںگی کیونکہ باقی سارا نظام اقتصادیات تو سرمایہ دارانہ ہی ہے ان کی وجہ سے بلاسود بینکاری فروغ نہ پاسکے گی۔


 

نوٹ