سود کے بارے میں قرآنی آیات کی تفسیر

(غیر مطبوعہ تفسیر تیسیر القرآن سے انتخاب)


مولانا کیلانی ؒ محدث کے مستقل لکھنے والوں میں سے تھے۔ ۱۸ ؍دسمبر ۱۹۹۵ء ؁کو عشاء کی نماز میں عین سجدہ کی حالت میں آپ کی وفات سے محدث میں آپ کے قیمتی تحقیقی مضامین کی اشاعت کا یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ!

آپ کی مایہ ناز کتاب ''تجارت اور لین دین کے احکام و مسائل'' میں بڑی تفصیل سے دورِ حاضر کے معاشی مسائل پر تحقیقی اسلوب میں اسلامی نقطہ ٔ نظر پیش کیا گیا ہے جس میں دو مکمل اَبواب سود اور اس کی مختلف اقسام کے لئے مخصوص ہیں۔ محدث کے سود نمبر نکالنے کا جب فیصلہ ہوا تو اقتصاد اسلامی پر مولانا کیلانی ؒ کا کوئی اہم مقالہ شائع کرنے کا پروگرام بنا لیکن اس میں محدث کی مطبوعہ مضامین کی اشاعت سے گریز کی پالیسی آڑے آرہی تھی۔ حسن اتفاق سے آپ کی ۴ جلدوں پرمشتمل تفسیر تیسیر القرآن (جو ان دنوں اشاعت کے آخری مراحل میں ہے) میں آیاتِ سود کی مفصل تفسیر کو دیکھنے کا موقع ملا۔ جس میں آپ نے بڑے اختصار سے اپنی کتاب میں سود پر پیش کردہ بحث کو سمیٹا ہے۔ ذیل میں اسی تفسیر سے سود کے بارے میں آیاتِ قرآنی کی تفسیر شائع کی جارہی ہے ...(حسن مدنی)

(1) سورۃ البقرۃ:
﴿الَّذينَ يُنفِقونَ أَمو‌ٰلَهُم بِالَّيلِ وَالنَّهارِ‌ سِرًّ‌ا وَعَلانِيَةً فَلَهُم أَجرُ‌هُم عِندَ رَ‌بِّهِم وَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿٢٧٤﴾الَّذينَ يَأكُلونَ الرِّ‌بو‌ٰالا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطـٰنُ مِنَ المَسِّ ۚ ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّهُم قالوا إِنَّمَا البَيعُ مِثلُ الرِّ‌بو‌ٰا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا ۚ فَمَن جاءَهُ مَوعِظَةٌ مِن رَ‌بِّهِ فَانتَهىٰ فَلَهُ ما سَلَفَ وَأَمرُ‌هُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَن عادَ فَأُولـٰئِكَ أَصحـٰبُ النّارِ‌ ۖ هُم فيها خـٰلِدونَ ﴿٢٧٥﴾ يَمحَقُ اللَّهُ الرِّ‌بو‌ٰاوَيُر‌بِى الصَّدَقـٰتِ ۗ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفّارٍ‌ أَثيمٍ ﴿٢٧٦﴾ إِنَّ الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ وَأَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ لَهُم أَجرُ‌هُم عِندَ رَ‌بِّهِم وَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿٢٧٧﴾ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَر‌وا ما بَقِىَ مِنَ الرِّ‌بو‌ٰاإِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَر‌بٍ مِنَ اللَّهِ وَرَ‌سولِهِ ۖ وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُ‌ءوسُ أَمو‌ٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿٢٧٩﴾ وَإِن كانَ ذو عُسرَ‌ةٍ فَنَظِرَ‌ةٌ إِلىٰ مَيسَرَ‌ةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقوا خَيرٌ‌ لَكُم ۖ إِن كُنتُم تَعلَمونَ ﴿٢٨٠﴾ وَاتَّقوا يَومًا تُر‌جَعونَ فيهِ إِلَى اللَّهِ ۖ ثُمَّ تُوَفّىٰ كُلُّ نَفسٍ ما كَسَبَت وَهُم لا يُظلَمونَ ﴿٢٨١﴾يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا تَدايَنتُم بِدَينٍ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكتُبوهُ ۚ وَليَكتُب بَينَكُم كاتِبٌ بِالعَدلِ ۚ وَلا يَأبَ كاتِبٌ أَن يَكتُبَ كَما عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَليَكتُب وَليُملِلِ الَّذى عَلَيهِ الحَقُّ وَليَتَّقِ اللَّهَ رَ‌بَّهُ وَلا يَبخَس مِنهُ شَيـًٔا ۚ فَإِن كانَ الَّذى عَلَيهِ الحَقُّ سَفيهًا أَو ضَعيفًا أَو لا يَستَطيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَليُملِل وَلِيُّهُ بِالعَدلِ ۚ وَاستَشهِدوا شَهيدَينِ مِن رِ‌جالِكُم ۖ فَإِن لَم يَكونا رَ‌جُلَينِ فَرَ‌جُلٌ وَامرَ‌أَتانِ مِمَّن تَر‌ضَونَ مِنَ الشُّهَداءِ أَن تَضِلَّ إِحدىٰهُما فَتُذَكِّرَ‌ إِحدىٰهُمَا الأُخر‌ىٰ ۚ وَلا يَأبَ الشُّهَداءُ إِذا ما دُعوا ۚ وَلا تَسـَٔموا أَن تَكتُبوهُ صَغيرً‌ا أَو كَبيرً‌ا إِلىٰ أَجَلِهِ ۚ ذ‌ٰلِكُم أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ وَأَقوَمُ لِلشَّهـٰدَةِ وَأَدنىٰ أَلّا تَر‌تابوا ۖ إِلّا أَن تَكونَ تِجـٰرَ‌ةً حاضِرَ‌ةً تُدير‌ونَها بَينَكُم فَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَلّا تَكتُبوها ۗ وَأَشهِدوا إِذا تَبايَعتُم ۚ وَلا يُضارَّ‌ كاتِبٌ وَلا شَهيدٌ ۚ وَإِن تَفعَلوا فَإِنَّهُ فُسوقٌ بِكُم ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ﴿٢٨٢﴾وَإِن كُنتُم عَلىٰ سَفَرٍ‌ وَلَم تَجِدوا كاتِبًا فَرِ‌هـٰنٌ مَقبوضَةٌ ۖ فَإِن أَمِنَ بَعضُكُم بَعضًا فَليُؤَدِّ الَّذِى اؤتُمِنَ أَمـٰنَتَهُ وَليَتَّقِ اللَّهَ رَ‌بَّهُ ۗ وَلا تَكتُمُوا الشَّهـٰدَةَ ۚ وَمَن يَكتُمها فَإِنَّهُ ءاثِمٌ قَلبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ عَليمٌ ﴿٢٨٣﴾ لِلَّهِ ما فِى السَّمـٰو‌ٰتِ وَما فِى الأَر‌ضِ ۗ وَإِن تُبدوا ما فى أَنفُسِكُم أَو تُخفوهُ يُحاسِبكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغفِرُ‌ لِمَن يَشاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ‌ ﴿٢٨٤﴾.... سورة البقرة

 


ترجمہ

جو لوگ دن رات، کھلے اور چھپے اپنے مال[۳۹۱]خرچ کرتے ہیں۔ انہیں اپنے پروردگار سے اس کا اَجر ضرور مل جائے گا۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے(۲۷۴) (ان لوگوں کے برعکس)جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اُسے مخبوط ُالحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ قول (نظریہ)ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے۔[۳۹۲]حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ [۳۹۳] اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو سود وہ کھا چکا ،سو کھا چکا،[۳۹۴] اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے(۲۷۵)اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش[۳۹۵]کرتا ہے۔ اور اللہ کسی ناشکرے[۳۹۶]بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا (۲۷۶)البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے، [۳۹۷] نماز قائم کرتے رہے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہے ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے۔ انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے(۲۷۷)اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر واقعی تم مؤمن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اُسےچھوڑ دو(۲۷۸) اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے[۳۹۸]اور اگر (سود سے) توبہ کر لو تو تم اپنے اصل سرمایہ کے حقدار ہو۔ [۳۹۹] نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے(۲۷۹) اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اُسے اس کی آسودہ حالی تک مہلت دینا چاہیے۔ اور اگر (راس ُالمال بھی)چھوڑ ہی دو تو یہ تمہارے [۴۰۰]لیے بہت بہتر ہے۔ اگر تم یہ بات سمجھ سکو(۲۸۰) اور اس دن سے ڈر جائو جب تم اللہ کے حضور لوٹائے جائو گے۔ پھر وہاں ہر شخص کو اس کے اَعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہوگا(۲۸۱)اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت کے لیے اُدھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ [۴۰۱]اور لکھنے والا فریقین کے درمیان عدل و انصاف سے تحریر کرے۔اور جسے اللہ تعالیٰ نے لکھنے کی قابلیت بخشی ہو اُسے لکھنے سے انکار [۴۰۲]نہ کرنا چاہئے۔ اور تحریر وہ شخص کروائے جس کے ذمہ قرض ہے۔ [۴۰۳] وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور لکھوانے میں کسی چیز کی کمی نہ کرے (کوئی شق چھوڑ نہ جائے) ہاں اگر قرض لینے والا نادان ہو یا ضعیف ہو یا لکھوانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو پھر اس کا وَلی انصاف کے ساتھ اِملا کروا دے۔ اور اس معاملہ پر اپنے (مسلمان) مردوں میںسے [۴۰۴] دو گواہ بنا لو۔ اور اگر دو مرد میسر نہ آئیں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنائو کہ ان میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد[۴۰۵] دلا دے۔ اور گواہ ایسے ہونے چاہئیں جن کی گواہی تمہارے ہاں مقبول ہو۔ اور گواہوں کو جب (گواہ بننے یا)گواہی دینے کے لیے بلایا جائے تو انہیں انکار نہ کرنا[۴۰۶] چاہیے اور معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا مدت کی تعیین کے ساتھ اسے لکھوا لینے میں کاہلی نہ کرو [۴۰۷]تمہارا یہی طریق کار اللہ کے ہاں بہت منصفانہ ہے جس سے شہادت ٹھیک طرح قائم ہو سکتی ہے اور تمہارے شک و شبہ میں پڑنے کا اِمکان بھی کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین تم آپس میں دست بدست کر لیتے ہو، اسے نہ بھی لکھو تو کوئی حرج نہیں۔اور جب تم سودا بازی کرو تو گواہ بنا لیا کرو[۴۰۸]نیز کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے[۴۰۹]اور اگر ایسا کرو گے تو گناہ کا کام کرو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ ہی تمہیں یہ احکام و ہدایات سکھلاتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے(۲۸۲) اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے کو کوئی کاتب نہ مل سکے تو رہن با قبضہ[۴۱۰](پر معاملہ کر لو) اور اگر کوئی شخص دوسرے پر اعتماد کرے (اور رہن کا مطالبہ نہ کرے)تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے قرض خواہ کی امانت [۴۱۱] ادا کرنا چاہئے۔ اور اپنے پروردگار سے ڈرنا چاہیے۔ اور شہادت کو ہرگز نہ چھپائو۔ جو شخص شہادت کو چھپاتا ہے بلاشبہ اس کا دل گنہ گار ہے[۴۱۲] اور جو کام بھی تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے(۲۸۳)جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے [۴۱۳]سب اللہ ہی کا ہے۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اسے چھپائو یا ظاہر کرو، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے (۲۸۴)

(391) یہ آیت دراصل صدقات و خیرات کے احکام کا تتمہ ہے۔ یعنی آخر میں ایک دفعہ پھر صدقہ کی ترغیب دی جارہی ہے۔ اب اس کی عین ضد سود کا بیان شروع ہو رہا ہے... صدقات و خیرات سے جہاں آپس میں ہمدردی، مروّت، اُخوت، فیاضی پیدا ہوتی ہے وہاں طبقاتی تقسیم بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس سود سے شقاوتِ قلبی، خود غرضی، منافرت، بے مروّتی اور بخل جیسے اخلاقِ رذیلہ پرورش پاتے ہیں اور طبقاتی تقسیم بڑھتی چلی جاتی ہے جو بالآخر کسی نہ کسی عظیم فتنہ کا باعث بن جاتی ہے۔ اشتراکیت دراصل ایسے ہی فتنہ کی پیداوار ہے۔

(392) یہ دراصل سود خور یہودیوں کا قول ہے اور آج کل بہت سے مسلمان بھی اسی نظریہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سودی قرضے دراصل دو طرح کے ہوتے ہیں :

(1) ذاتی قرضے یا مہاجنی قرضے یعنی وہ قرضے جو کوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لئے کسی مہاجن یا بنک سے لیتا ہے ، (2) اور دوسرے تجارتی قرضے جو تاجر یا صنعت کار اپنی کاروباری اغراض کے لئے بنکوں سے سود پر لیتے ہیں۔ اب جو مسلمان سود کے جواز کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ جس سود کو قرآن نے حرام کیا ہے وہ ذاتی یا مہاجنی قرضے ہیں جن کی شرح سود بڑی ظالمانہ ہوتی ہے اور جو تجارتی سود ہے وہ حرام نہیں۔ کیونکہ اس دور میں ایسے تجارتی سودی قرضوں کا رواج ہی نہ تھا۔ نیز ایسے قرضے چونکہ رضا مندی سے لئے دیئے جاتے ہیں اور ان کی شرحِ سود بھی گوارا اور مناسب ہوتی ہے اور فریقین میں سے کسی پر ظلم بھی نہیں ہوتا، لہٰذا یہ تجارتی سود اس سود سے مستثنیٰ ہے جنہیں قرآن نے حرام قرار دیا ہے۔

یہاں ہم مجوزین تجارتی سود کے تمام دلائل بیان کرنے اور ان کے جوابات دینے سے قاصر ہیں۔ (جس کو تفصیلات درکار ہوں وہ میری تصنیف ''تجارت اور لین دین کے مسائل و اَحکام'' میں سود سے متعلق دو اَبواب ملاحظہ کرسکتا ہے) لہٰذا چند مختصر دلائل پر ہی اکتفا کریں گے:

1- دورِ نبویﷺ میں تجارتی سود موجود تھے اور سود کی حرمت سے پیشتر صحابہ میں سے حضرت عباس ؓ اور خالد بن ولید ؓایسے ہی تجارتی سود کا کاروبار کرتے تھے۔ اس دور میں عرب اور بالخصوص مکہ اور مدینہ میں لاکھوں کی تجارت ہوا کرتی تھی۔ علاوہ ازیں ہمسایہ ممالک میں تجارتی سود کا رواج عام تھا۔

2- قرآن میں ربوا کا لفظ علیٰ الاطلاق استعمال ہوا ہے جو ذاتی اور تجارتی دونوں قسم کے قرضوں کو حاوی ہے۔ لہٰذا تجارتی سود کو اس علیٰ الاطلاق حرمت سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔(دیکھئے میری تصنیف مترادفات القرآن :ص )

3- قرآن نے تجارتی قرضوں کے مقابل یہ آیت پیش کی ہے: ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا﴾''اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام'' جبکہ ذاتی قرضوں کے مقابل یوں فرمایا:﴿يَمحَقُ اللَّهُ الرِّ‌بو‌ٰاوَيُر‌بِى الصَّدَقـٰتِ﴾"اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے سود کے خاتمہ کے لئے ذاتی قرضوں کا حل ''صدقات'' تجویز فرمایا ہے اور تجارتی قرضوں کے لئے شراکت اور مضاربت کی راہ دکھلائی ہے جو حلال اور جائز ہے۔

4- جہاں تک کم یا مناسب شرحِ سود کا تعلق ہے تو یہ بات آج تک طے نہیں ہوسکی کہ مناسب شرحِ سود کیا ہے؟ کبھی تو ۲ فیصد بھی نامناسب شرح سمجھی جاتی ہے۔ جیسا کہ دوسری جنگ عظیم کے لگ بھگ زمانے میں ریزروبنک آف انڈیا ڈسکائونٹ ریٹ مقرر ہوا اور کبھی ۲۹ فیصد شرحِ سود بھی مناسب اور معقول سمجھی جاتی ہے (دیکھئے: اشتہار انوسٹمنٹ بنک مشتہرہ نوائے وقت مؤرخہ اا؍اگست ۱۹۷۷ئ) شرحِ سود کی مناسب تعیین نہ ہوسکنے کی غالباً وجہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد ہی متزلزل اور کمزور ہے۔ مناسب اور معقول شرح سود کی تعیین تو صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے جب یہ معلوم ہوسکے کہ قرض لینے والا اس سے کتنا یقینی فائدہ حاصل کرے گا اور اس میں سے قرض دینے والے کا معقول حصہ کتنا ہونا چاہئے۔ مگر ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ قرض لینے والے کو اس مقرر مدت میں کتنا فائدہ ہوگا، یا کچھ فائدہ ہوگا بھی یا نہیں بلکہ الٹا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ ثانیاً ایک ہی ملک اور ایک ہی وقت میں مختلف بنکوں کی شرحِ سود میں انتہائی تفاوت پایا جاتا ہے اور اگر سب کچھ مناسب ہے تو پھر نامناسب کیا بات ہے؟ ثالثا اگر شرحِ سود انتہائی کم بھی ہو تو بھی یہ سود کو حلال نہیں بنا سکتی کیونکہ شریعت کا یہ اُصول ہے کہ حرام چیز کی قلیل مقدار بھی حرام ہی ہوتی ہے۔ شراب تھوڑی بھی ایسے ہی حرام ہے جیسے زیادہ مقدار میں (ترمذي: أبواب الأشربة، باب ما أسکر کثیرہ فقلیله حرام )

5- جہاں تک باہمی رضا مندی کا تعلق ہے تو یہ شرط صرف حلال معاملات میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حلال اور جائز معاملات میں بھی اگر فریقین میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو وہ معاملہ حرام اور ناجائز ہوگا۔ جیسے تجارت میں مال بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کی رضا مندی ضروری ہے ورنہ بیع فاسد اور ناجائز ہوگی۔ اسی طرح نکاح میں بھی فریقین کی رضا مندی ضروری ہے۔ لیکن یہ رضا مندی حرام کاموں کو حلال نہیں بناسکتی۔ اگر ایک مرد اور ایک عورت باہمی رضا مندی سے زنا کریں تو وہ جائز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی باہمی رضا مندی سے جوا جائز ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سود بھی باہمی رضا مندی سے حلال اور جائز نہیں بن سکتا۔

علاوہ ازیں سود لینے والا کبھی سود دینے پر رضا مند نہیں ہوتا۔ خواہ شرحِ سود کتنی ہی کم کیوں نہ ہو بلکہ یہ اس کی مجبوری ہوتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اسے کہیں سے قرضِ حسنہ مل جائے تو وہ کبھی سود پر رقم لینے کو تیار نہ ہو۔

6- رہی یہ بات کہ تجارتی سود میں کسی فریق پر ظلم نہیں ہوتا۔ گویا یہ حضرات سود کی حرمت کی علت یا بنیادی سبب ظلم قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ تصور ہی غلط ہے۔ آیت کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہ الفاظ سودی معاملات اور معاہدات کو ختم کرنے کی ایک اَحسن صورت پیش کرتے ہیں یعنی نہ تو مقروض قرض خواہ کی اصل رقم بھی دبا کر اس پر ظلم کرے اور نہ قرض خواہ مقروض پر اَصل کے علاوہ سود کا بوجھ بھی لاد دے۔ ان الفاظ کا اِطلاق ہمارے ہاں اس وقت ہوگا جب ہم اپنے معاشرہ کو سود سے کلیتاً پاک کرنا چاہیں گے، یا نجی طور پر قرضہ کے فریقین سود کی لعنت سے اپنے آپ کو بچانے پر آمادہ ہوں گے۔ سود کی حرمت کا بنیادی سبب ظلم نہیں بلکہ بیٹھے بٹھائے اپنے مال میں اضافہ کی وہ ہوس ہے جس سے ایک سرمایہ دار اپنی فاضل دولت میں طے شدہ منافع کی ضمانت سے یقینی اضافہ چاہتا ہے اور جس سے زر پرستی، سنگ دلی اور بخل جیسے اخلاقِ رذیلہ جنم لیتے ہیں

(393) اب ایک مسلمان کا کام تو یہی ہونا چاہئے کہ جب اللہ نے سود کو حرام کر دیا تو اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ خواہ اسے سود اور تجارت کا فرق اور ان کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے تاہم جو لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ تجارت بھی سود ہی کی طرح ہے۔ اللہ نے انہیں انتہائی بدھو اور مخبوط الحواس قرار دیا ہے۔ جنہیں کسی جن نے آسیب زدہ بنا دیا ہو اور وہ اپنی خود غرضی اور زر پرستی کی ہوس میں خبطی ہوگئے ہوں کہ انہیں تجارت اور سود کا فرق نظر ہی نہیں آرہا۔ چونکہ وہ اس زندگی میں بائولے ہو رہے ہیں،لہٰذا وہ قیامت کے دن بھی اسی حالت میں اپنی قبروں سے اُٹھیں گے۔ اب ہم ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لئے سود اور تجارت کا فرق بتلاتے ہیں :

1- سود ایک طے شدہ شرح کے مطابق یقینی منافع ہوتا ہے جبکہ تجارت میں منافع کے ساتھ نقصان کا احتمال بھی موجود ہوتا ہے۔ خواہ کوئی شخص اپنے ذاتی سرمایہ سے تجارت کرے یا یہ مضاربت یا شراکت کی شکل ہو۔

2- مضاربت کی شکل میں فریقین کو ایک دوسرے سے ہمدردی، مروّت اور مل جل کر کاروبار چلانے کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا مفاد مشترک ہوتا ہے اور اس کا قومی پیداوار پر خوشگوار اثر پڑتاہے۔ جبکہ تجارتی سود کی صورت میں سود خوار کو محض اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ بعض دفعہ وہ ایسے نازک وقت میں سرمایہ کی واپسی کا تقاضا کرتا اور مزید فراہمی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے جبکہ کاروبار کو سرمایہ کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح سود خوار تو اپنا سرمایہ بمعہ سود نکال دیتا ہے مگر مقروض کو سخت نقصان پہنچتا ہے اور قومی معیشت بھی سخت متاثر ہوتی ہے۔

3- مضاربت اور سود میں تیسرا فرق یہ ہے کہ مضاربت سے اخلاقِ حسنہ پرورش پاتے ہیں۔ جس سے معاشرہ میں اُخوت اور خیر و برکت پیدا ہوتی ہے اور طبقاتی تقسیم مٹتی ہے۔ جبکہ سود سے اخلاقِ رذیلہ مثلاً خود غرضی، مفاد پرستی، بخل اور سنگدلی پیدا ہوتے ہیں۔ سود کی حرمت کی علت یہی اخلاقِ رذیلہ اور ہوسِ زر پرستی ہے۔ سودی نظام معیشت نے صرف ایک ہی شائی لاک (ایک سنگ دل یہودی کا مثالی کردار جس نے بروقت ادائیگی نہ ہونے کی بنا پر اپنے مقروض کی ران سے بے دریغ گوشت کا ٹکڑا کاٹ لیا تھا) پیدا نہیں کیا بلکہ ہر دور میں ہزاروں شائی لاک پیدا ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔

(394) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو سود کھا چکا وہ معاف ہے بلکہ یوں فرمایا کہ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے تو بخش دے، چاہے تو سزا دے۔ لہٰذا محتاط صورت یہی ہے کہ وہ سود کی حرام کمائی خود استعمال نہ کرے بلکہ جس سے سود لیا تھا، اسے ہی واپس کردے تو یہ سب سے بہتر بات ہے ورنہ محتاجوں کو دے دے یا رفاہِ عامہ کے کاموں میں خرچ کر دے۔ اس طرح وہ سود کے گناہ سے تو شاید بچ جائے مگر ثواب نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ حرام مال کا صدقہ قبول نہیں کرتا۔

(395) اگرچہ بنظر ظاہر سود لینے سے مال بڑھتا اور صدقہ دینے سے گھٹتا نظر آتا ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ سود کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور مالِ حرام بود بجائے حرام رفت، والی بات بن جاتی ہے اور صدقات دینے سے اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے جس کا اسے خود بھی وہم و گمان نہیں ہوتا اور یہ ایسی حقیقت ہے جو بارہا کئی لوگوں کے تجربہ میں آچکی ہے تاہم اسے عقلی دلائل سے ثابت کیا جاسکتا ہے اور دوسری صورت کو علم معیشت کی رُو سے ثابت بھی کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے جس معاشرہ میں صدقات کا نظام رائج ہوتا ہے اس میں غریب طبقہ (جو عموماً ہر معاشرہ میں زیادہ ہوتا ہے) کی قوتِ خرید بڑھتی ہے اور دولت کی گردش کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے جس سے خوشحالی پیدا ہوتی ہے اور قومی معیشت ترقی کرتی ہے اور جس معاشرہ میں سود رائج ہوتا ہے وہاں غریب طبقہ کی قوتِ خرید کم ہوتی ہے اور جس امیر طبقہ کی طرف دولت کو سود کھینچ کھینچ کر لے جارہا ہوتا ہے۔ اس کی تعداد قلیل ہونے کی وجہ سے دولت کی گردش کی رفتار نہایت سست ہوجاتی ہے جس سے معاشی بحران پیدا ہوتے رہتے ہیں، امیراور غریب میں طبقاتی تقسیم بڑھ جاتی ہے اور بعض دفعہ غریب طبقہ تنگ آکر اَمیروں کو لوٹنا اور مارنا شروع کر دیتا ہے، آقا و مزدور میں، امیر اور غریب میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہتی ہے جس سے کئی قسم کے مہلک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔

(396) یہاں ناشکرے سے مراد وہ سود خور ہے جس کے پاس اپنی ضروریات سے زائد رقم موجود ہے جسے وہ اپنے کسی محتاج بھائی کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، نہ اسے صدقہ دینا چاہتا ہے، نہ قرضِ حسنہ دیتا ہے بلکہ اُلٹا اس سے اس کے گاڑھے پسینے کی کمائی سود کے ذریعہ کھینچنا چاہتا ہے۔ حالانکہ یہ زائد روپیہ اس پر محض اللہ کا فضل تھا اور صدقہ یا قرض دے کر اسے اللہ کے اس فضل کا شکر ادا کرنا چاہئے تھا مگر اس نے زائد رقم کو سود پر چڑھا کر اللہ کے فضل کی انتہائی ناشکری کی۔ لہٰذا اس سے بڑھ کر بدعملی اور گناہ کی بات اور کیا ہوگی۔

(397) یہ آیت درمیان میں اس لئے آئی ہے کہ سود خور کے مقابلہ میں متقی لوگوں کا حال بیان کر دیا جائے جیسا کہ قرآنِ کریم میں جابجا یہی دستور آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ جہاں اہل دوزخ کا ذکر آیا تو ساتھ اہل جنت کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے اور اس کے برعکس بھی۔ اس کے بعد سود کے مضمون کا تسلسل جاری رکھا گیا ہے۔ اس مقام پر بھی مؤمنوں کی دو انتہائی اہم صفات کا ذکر فرمایا: ایک اقامت ِصلٰوۃ کا جو بدنی عبادات میں سے سب سے اہم ہے۔ دوسرے ایتائے زکوٰۃ کا جو مالی عبادات میں سے سب سے اہم بھی ہے اور سود کی عین ضد بھی۔ اسلام کے معاشی نظام کو اگر انتہائی مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس کے دو ہی اجزاء ہیں: ایک سلبی دوسرا ایجابی۔ سلبی پہلو نظام سود کا استیصال ہے اور ایجابی پہلو نظامِ زکوٰۃ کی ترویج۔

(398) یہاں ہم سود سے متعلق چند اَحادیث بیان کرتے ہیں:

(1) حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سود لینے والے، دینے والے، تحریر لکھنے والے اور گواہوں، سب پر لعنت کی اور فرمایا وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں (مسلم: کتاب البیوع، باب لعن آکل الربوا و مُوکِله) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ بنکوں کا عملہ بھی اس گناہ میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔

(2) آپﷺ نے فرمایا:''(سود کے گناہ کے) اگر ستر حصے کئے جائیں تو اس کا کمزور حصہ بھی اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے'' (ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ: کتاب البیوع، باب الربا، فصل ثالث)

(3) آپﷺ نے فرمایا: ''سود کا ایک درہم جو آدمی کھاتا ہے اور وہ اس کے سودی ہونے کو جانتا ہے تو وہ گناہ میں چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے'' (مسند احمد، دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ: کتاب البیوع، باب الربا ،فصل ثالث)

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے کئی گناہ ایسے ہیں جو سود سے بھی بہت بڑے ہیں۔مثلاً شرک، قتل ناحق اور زنا وغیرہ لیکن اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کی وعید اللہ تعالیٰ نے صرف سود کے متعلق سنائی ہے اور خود رسول اللہﷺ نے بھی ایسے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو کسی اور گناہ کے متعلق استعمال نہیں فرمائے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سود اسلامی تعلیمات کا نقیض اور اس سے براہِ راست متصادم ہے اور اس کا حملہ بالخصوص اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام پر ہوتا ہے۔ اسلام ہمیں ایک دوسرے کا بھائی بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ آپس میں مروّت، ہمدردی، ایک دوسرے پر رحم اور ایثار کا سبق سکھلاتا ہے۔ آپﷺ نے ساری زندگی صحابہ کرام ؓکو اُخوت و ہمدردی کا سبق دیا اور ایک دوسرے کے جانی دشمن معاشرے کی، وحی الٰہی کے تحت اس طرح تربیت فرمائی کہ وہ فی الواقع ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور مونس و غمخوار بن گئے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک احسانِ عظیم شمار کرتے ہوئے قرآن میں دو مقامات پر اس کا تذکرہ فرمایا ہے: (سورئہ آل عمران کی آیت ۱۰۳ میں اور سورئہ انفال کی آیت ۶۳ میں) اور یہ چیز رسول اللہﷺ کی زندگی کا ماحصل تھا۔ جبکہ سود انسان میں ان سے بالکل متضاد رذیلہ صفات مثلاً بخل، حرص، زرپرستی اور شقاوت پیدا کرتا ہے۔ اور بھائی بھائی میں منافرت پیدا کرتا ہے جو اسلامی تعلیم کی عین ضد ہے۔

دوسرے یہ کہ اسلام کے معاشی نظام کا تمام تر ماحصل یہ ہے کہ دولت گردش میں رہے اور اس گردش کا بہائو امیر سے غریب کی طرف ہو۔ اسلام کے نظامِ زکوٰۃ و صدقات کو اسی لئے فرض کیا گیا ہے اور قانونِ میراث اور حقوقِ باہمی بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ جبکہ سودی معاشرہ میں دولت کا بہائو ہمیشہ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی سود اسلام کے پورے معاشی نظام کی عین ضد ہے

(4) آپﷺ نے فرمایا کہ '':لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب ہر کوئی سود کھانے والا ہوگا۔ اگر سود نہ کھائے تو بھی اس کا بخار (اور ایک دوسری روایت کے مطابق) اس کا غبار اسے ضرور پہنچ کے رہے گا'' (نسائي : کتاب البیوع، باب اجتناب الشبهات في الکسب)

اور آج کا دور بالکل ایسا ہی دور ہے۔ پوری دنیا کے لوگوں اور اسی طرح مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں بھی سود کچھ اس طرح سرایت کر گیا ہے، جس سے ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہو رہا ہے، آج اگر ایک مسلمان پوری نیک نیتی سے سود سے کلیتاً بچنا چاہے بھی تو اسے کئی مقامات پر اُلجھنیں پیش آتی ہیں۔ مثلاً آج کل اگر کوئی شخص گاڑی، سکوٹر، کار، ویگن، بس یا ٹرک خریدے گا تو اسے لازماً اس کا بیمہ کرانا پڑے گا۔ اگرچہ اس قسم کے بیمہ کی رقم قلیل ہوتی ہے اور یہ وہ بیمہ نہیں ہوتا جس میں حادثات کی شکل میں بیمہ کمپنی نقصان ادا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں قانون یہ ہے کہ جب تک نئی گاڑی کا بیمہ نہ کرایا جائے وہ استعمال میں نہیں لائی جاسکتی اور اس قلیل رقم کی قسم کا بیمہ ہر سال کرانا پڑتا ہے۔ اور بیمہ کا کاروبار شرعاً کئی پہلوئوں سے ناجائز ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔

اسی طرح تاجر پیشہ حضرات بنک سے تعلق رکھے بغیر نہ مال برآمد کرسکتے ہیں اور نہ درآمد۔ ان کے لئے آسان راہ یہی ہوتی ہے کہ وہ بنک سے ایل سی ((Letter of Credit یا اعتماد نامہ حاصل کریں۔ اس طرح تمام درآمد اور برآمد کردہ مال سودی کاروبار سے متاثر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ تجارتی سود یا کمرشل انٹرسٹ Intrest) (Commercialکو جائز سمجھنے والے اور حمایت کرنے والے حضرات یہ حجت بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ جب تمہارے گھر کی بیشتر اشیاء سودی کاروبار کے راستہ سے ہو کر تم تک پہنچی ہیں تو تم ان سے بچ کیسے سکتے ہو؟ تو اس قسم کے اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے سود کو ختم کرنا یا اس کی متبادل راہ تلاش کرنا حکومت کا کام ہے اور اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو ہر مسلمان انفرادی طور پر جہاں تک سود سے بچ سکتا ہے، بچے اور جہاں وہ مجبور ہے وہاں اس سے کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا کیونکہ شریعت کا اُصول ہے کہ'' مؤاخذہ اس حد تک ہے جہاں تک انسان کا اختیار ہے اور جہاں اضطرار ہے وہاں مؤاخذہ نہیں''

٭ اسی طرح آج کے دور میں ایک اہم مسئلہ اپنی بچت یا زائد رقم کو کہیں محفوظ رکھنے کا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس غرض کے لئے گھروں سے بنک محفوظ تر جگہ ہے۔ اور بنکوں میں تین طرح کے کھاتے چلتے ہیں : (i)چالو کھاتے Account Currentجن میں بنک لوگوں کی رقوم جمع کرتے ہیں، لیکن جمع کرنے والوں کو سود نہیں دیتے، (ii) بچت کھاتے Saving Account جن پر بنک سود دیتا ہے لیکن تھوڑی شرح سے، (iii) میعادی کھاتے Account Fixed Deposit یعنی ایسی رقوم کے کھاتے جو طویل اور مقررہ مدت کے لئے جمع کرائی جاتی ہیں۔ ان پر بنک سود دیتا ہے۔ اب ایک سود سے پرہیز کرنے والا شخص زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا ہے کہ وہ اپنی رقوم چالو کھاتہ میں جمع کرائے اور سود نہ لے۔ لیکن اس میں ایک اور اُلجھن پیش آتی ہے کہ بنک اس چالو کھاتہ کی رقوم کو بھی سود پر دیتا ہے اور سودی کاروبار کرتا ہے۔ لہٰذا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بنک کے پاس سود کی رقم کیوں چھوڑی جائے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:﴿وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ﴾''یعنی گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو'' لہٰذا بنک سے یہ رقم ضرور وصول کر لینی چاہئے مگر اسے اپنے استعمال میں نہ لایا جائے۔ بلکہ اسے محتاجوں اور غریبوں کو دے دیا جائے یا رفاہِ عامہ کے کاموں میں خرچ کردیا جائے اور اس سے ثواب کی نیت بھی نہ رکھی جائے۔ کیونکہ حرام مال کا صدقہ قابل قبول ہی نہیں۔ان کی دلیل یہ ہے کہ تبدیل ید سے احکامِ شریعت بدل جاتے ہیں۔ مثلاً زید کے پاس جو سود کی رقم ہے وہ اگر بکرکو صدقہ کر دے یا ویسے بلانیت ثواب دے تو وہ اس کے لئے حرام مال نہیں ہوگا۔ لہٰذا روپیہ چالو کھاتے کے بجائے سودی کھاتے میں رکھنا چاہئے اور بنک سے سود بھی ضرور وصول کرنا چاہئے جو محتاجوں یا رفاہِ عامہ کے کاموں میں خرچ کردینا چاہئے یا(ii) کبھی بنک سے قرضہ لینے کی ضرورت پڑے تو اس سود کی جگہ یہ رقم ادا کردی جائے یا (iii)گورنمنٹ جو ناجائز ٹیکس عائد کرتی ہے ایسی مدات میں یہ سود کی رقم صرف کردی جائے۔

مگر جب ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ ساری مصلحتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ لہٰذا اس گندگی سے ہر صورت پرہیز لازمی ہے اور ایسے نظریہ کی تہ میں یہی بات نظر آتی ہے کہ انسان چونکہ فطرتاً حریص واقع ہوا ہے لہٰذا مال کسی راہ سے بھی آتا نظر آئے اسے چھوڑنے کو اس کا جی نہیں چاہتا۔ مندرجہ بالا تین صورتوں میں سے پہلی صورت بظاہر مستحسن نظر آتی ہے مگر ہم ایسی مصلحت کے قائل نہیں جس کی دو وجوہ ہیں: پہلی یہ کہ جو شخص سود لینا شروع کر دے گا اس گندگی سے کلیتاً کبھی پاک صاف نہ رہ سکے گا۔ بلکہ کچھ وقت گزرنے پر اس کے نظریہ میں لچک آنا شروع ہوجائے گی اور وہ خود "ومن وقع في الشبهات فقد وقع في الحرام" بن جائے گا۔ پس اس کا یہی رویہ اس کی اولاد میں منتقل ہوگا اور دوسری یہ کہ ہم اپنی ذات کی حد تک سود سے بچنے کی فکر کریں تو بھی بڑی بات ہے۔ ہمارا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ہم بنک میں رقم اس لئے جمع کرائیں کہ بنک اس سے سود کمائے بلکہ ہمارا مقصد صرف رقم کی حفاظت ہے اور وہ پورا ہوجاتا ہے۔

٭ ایک اور اہم مسئلہ سرکاری، نیم سرکاری اور بعض تجارتی اداروں کے ملازمین کے پراویڈنٹ فنڈ کا ہے، اس فنڈ میں کچھ رقم تو ملازموں کی اپنی تنخواہ سے ماہوار وضع ہوتی اور جمع ہوتی رہتی ہے، ساتھ ہی سود در سود کے حساب سے جمع ہوتا رہتا ہے اور ملازمت سے سبکدوشی کے وقت اسے یہ ساری رقم یکمشت مل جاتی ہے، اس مسئلہ کو عموماً اضطراری سمجھا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ یہ حکومت یا اداروں کا یکطرفہ فیصلہ ہوتا ہے اور اسی بنا پر بعض علماء نے اسے ملازمت کی شرط اور اسے ملازم کے حق محنت میں شامل کرکے اس کے جواز کا فتویٰ بھی دیا ہے۔ حالانکہ یہ بات محض لاعلمی کی بنا پر کہی جاتی ہے اگر کوئی سود نہ لینا چاہے تو اسے کوئی مجبور نہیں کرتا۔ پراویڈنٹ فنڈ کے معاہدہ فارم کی پشت پر جو شرائط لکھی ہوتی ہیں ان میں سے شق نمبر ۱۶ میں یہ بات وضاحت سے درج ہے کہ جو شخص سود نہ لینا چاہے اُسے کوئی مجبوری نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ضیاء الحق مرحوم نے اس کے متبادل حل کو قانونی شکل دے دی ہے۔ جو یہ ہے کہ جو شخص سود نہ لینا چاہے نہ لے اور اس کے عوض اسے کسی وقت بھی اپنی جمع شدہ رقم کا ۸۰ فیصد بطورِ قرضِ حسنہ مل سکتا ہے۔ جسے وہ بعد میں بالاقساط اپنی تنخواہ سے کٹوا دیا کرے گا۔

٭ تیسرا اہم مسئلہ بنک کے شراکتی کھاتوں کا ہے جو صدر ضیاء الحق کی سود کو ختم کرنے کی کوشش کے نتیجہ میں معرضِ وجود میں آیا۔ بنک کی اصطلاحی زبان میں انہیں پی ایل ایسPLS یعنی (Profit Shares and Loss) کہتے ہیں۔ جس سے دیندار طبقہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ایسے لوگوں نے پی ایل ایس کھاتوں میں حساب منتقل کروالیا۔ مگر تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ بھی بیع عینہ ہی کی ذرا وسیع پیمانے پر صورت اختیار کی گئی ہے۔ بیع عینہ میں حیلہ سازی کے ذریعہ سود کو بیع کی شکل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً اگر کسی کو نقد رقم کی ضرورت ہے اور وہ سود میں بھی ملوث نہیں ہونا چاہتا تو وہ ''ب'' سے کوئی چیز مثلاً گھوڑا پانچ ہزار روپے میں ایک سال کے وعدہ پر خریدتا ہے پھر ایک دو دن بعد ''الف'' وہی گھوڑا ''ب'' کے پاس ساڑھے چار ہزار روپے نقد میں فروخت کر دیتا ہے اور سال بعد ''الف'' کو پانچ ہزار روپے ادا کر دیتا ہے۔ اس طرح ''الف'' کو فوراً ساڑھے چار ہزار روپے میسر آگئے اور ''ب'' کو ایک سال بعد ساڑھے چار ہزار روپے پر پانچ سو منافع مل گیا۔ جو دراصل اس رقم کا ایک سال کا سود ہے اور گھوڑے کی بیع کو درمیان میں لاکر اس سود کو حلال بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ بیع عینہ کہلاتی ہے۔ (موطأ إمام مالك: کتاب البیوع،باب العینة) یہ خالص سود ہے اور ''الف'' اور ''ب'' دونوں گنہگار ہیں۔

شراکتی کھاتوں میں بھی ایسی ہی کاروائی کی جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شراکتی کھاتوں میں سود اور ڈسکائونٹ (Discount) کے بجائے مارک اَپ اور مارک ڈائون کی اصطلاحیں رائج کی گئی ہیں۔ شرح سود تو فیصد سالانہ ہوتی ہے جبکہ مارک اَپ فی ہزار فی یومیہ ہوتی ہے۔ جو مضارِب اور بنک کے درمیان سمجھوتے سے طے پاتی ہے اور یہ شرح تقریباً وہی بن جاتی ہے جو بنکوں میں فیصد سالانہ رائج ہوتی ہے مثلاً زید مشینری کی خرید کے لئے بنک سے پچاس ہزار روپے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اب بنک یہ کرے گا کہ اس رقم کے عوض کاغذوں میں مشینری خود زید سے خرید لے گا اور اس پر متوقع منافع کا اندازہ کرکے ''مارک اَپ'' لگا کر زید سے یہ مارک اَپ بطورِ کرایہ اور ماہوار قسط ہر ماہ وصول کرتا رہے گا اور اگر زید مقررہ مدت کے اندر اصل زر بمعہ مارک اَپ بالاقساط ادا نہیں کرسکتا تو بنک کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ مشینری کو فروخت کرکے اپنا سب کچھ کھرا کر لے۔ باقی جو بچے گا، وہ زید کا ہوگا۔ بنک کو مشینری کے حصول، اخراجات کے حصول، حصول کے دوران تلفی کا خطرہ، اس کی نگہداشت، اور وقت سے پہلے ناکارہ ہونے کی چنداں فکر نہیں ہوتی اور وہ ایسے تمام خطرات کی ذمہ داری زید پر ڈال دیتا ہے۔ اب آپ خود دیکھ لیجئے کہ مضاربت کی اس شکل کو اسلامی نظریہ بیع سے کس قدر تعلق ہے؟

معاملہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے بنک اپنے بنیادی ڈھانچہ کے لحاظ سے مالیاتی توسط کے ادارے ہیں، تجارتی اِدارے نہیں ہیں۔ وہ اپنا حق محنت سود یا یقینی منافع کی شکل میں وصول کرتے ہیں لیکن کاروباری خطرات کی ذمہ داری کسی قیمت پر لینا گوارا نہیں کرتے اور یہی بات سود اور تجارت کا بنیادی فرق ہے۔ لہٰذا جب تک ذہنی طور پر اس بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی گوارا نہیں کریں گے، سود اپنی نئی نئی شکلوں میں جلوہ گری کرتا رہے گا۔

٭ چوتھا اہم مسئلہ بیمہ کا ہے، سود کی طرح بیمہ نے بھی ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان میں ۱۹۷۳ء سے پہلے بیمہ کا کاروبار پرائیویٹ کمپنیاں کرتی تھیں تاہم انہیں حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔ ۱۹۷۳ء میں حکومت نے ان کو اپنی تحویل میں لے لیا اور سب کمپنیوں کو مدغم کرکے سٹیٹ لائف انشورنس کے نام سے اس کاروبار کو مزید فروغ بخشا۔ آج ہر سرکاری و نیم سرکاری ملازم نیز ہر صنعتی اور تجارتی ادارے کے ملازم کا بیمہ ٔزندگی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کی موت یا حادثے کی صورت میں مقررہ رقم اس کے ان ورثاء کو ملتی ہے جو وہ خود تجویز کرتا ہے اور وہ رقم حکومت یا متعلقہ ادارہ ادا کرتا ہے۔ بیمہ پہلے تو صرف جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کا ہوتا تھا، پھر زندگی کا بیمہ ہونے لگا۔ پھر انسان کے ایک ایک عضو کا الگ الگ بیمہ ہونے لگا اور آج کل تو بعض ذمہ داریوں مثلاً بچوں کی تعلیم اور شادی وغیرہ کا بھی بیمہ کیا جاتا ہے۔

بیمہ پالیسی کی وضاحت کا یہ موقع نہیں۔ مختصراً یہ بتلا دینا ضروری ہے کہ اس میں سود کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، جوئے کا بھی اور بیع غرر کا بھی کیونکہ بیمہ کی شرائط طے کرتے وقت نہ بیمہ دار کو یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ کیا کچھ ادا کرسکے گا اور نہ بیمہ کمپنی کو یہ پتا ہوتا ہے کہ اسے کیا کچھ لینا پڑے گا۔ گویا عوضین میں سے کسی ایک عوض کی بھی تعیین نہیں ہوسکتی اور ایسی بیع ناجائز ہے۔ علاوہ ازیں یہ اسلام کے قانون میراث میں گڑبڑ پیدا کر دیتی ہے۔

بیمہ کمپنیوں کی طرف سے اکثر باہمی ہمدردی اور تکافل، تعاون کا خوبصورت اور بھرپور پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک خالص کاروباری ادارہ ہے جو سودی کاروبار سے بھی کئی گنا زیادہ منافع بخش ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ ۱۹۷۸ء میں امریکہ کی بیمہ کمپنیوں کو اپنے بیمہ داروں سے ۹۸ ؍ارب ڈالر کی رقم وصول ہوئی اور اس رقم میں سے صرف ۴؍ ارب ڈالر اپنے بیمہ داروں کو ادا کئے۔ اس طرح ایک سال کے اندر ۹۴ ارب ڈالر کی رقم اپنے پاس جمع کر لی (روزنامہ ''جنگ'' مورخہ ۱۰ ؍مئی ۱۹۷۹ئ)

اس کا حل یہی ہے کہ ہر شخص کو ہر طرح کے بیمہ سے بچنا لازم ہے، اور جہاں انسان مجبور ہو، وہاں ممکن ہے اللہ اسے معاف فرما دے۔

٭ پانچواں اہم مسئلہ انعامی بانڈزBonds) (Price کا ہے۔ اس کاروبار کا بھی اور اس میں ملنے والے انعامات کا بھی آج کل عوام میں خوب چرچا ہے۔ یہ دراصل سود اور قمار کی مرکب شکل ہے اور یہ کاروبار حکومتی سطح پر کیا جاتا ہے۔ حکومت کو جب سرمایہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ اس ذریعہ سے سود کا نام لئے بغیر عوام سے روپیہ حاصل کرتی ہے۔ طریقہ کار یہ ہے کہ مثلاً آج کل حکومت ِاسلامی جمہوریہ پاکستان نے ۵۰ روپے، ۱۰۰ روپے، ۵۰۰ روپے اور ۱۰۰۰ روپے کے بانڈ (سرکاری تمسکات) چھاپ رکھے ہیں جو کسی وقت بھی کسی بھی بنک سے کیش کرائے جاسکتے ہیں۔ اور عوام میں بھی ان کا لین دین ایسے ہی چلتا ہے جیسے کرنسی نوٹوں کا ۔ ان پر نمبر بھی کرنسی نوٹوں کی طرح ہی طبع کئے جاتے ہیں۔اب مثلاً جنوری ۱۹۹۵ء میں ۵۰ روپے والے بانڈ فروخت ہوتے رہتے ہیں تو فروری میں ۱۰۰ روپے والے فروخت ہوں گے، علیٰ ہذا القیاس پھر ہر دو ماہ بعد ان کی قرعہ اندازی ہوتی ہے۔ ۵۰ روپے والوں کی مارچ میں اور ۱۰۰ روپے والوں کی اپریل میں ہوگی۔ اب جو نمبر قرعہ اندازی میں آئیں گے وہ جس شخص کے پاس ہوں گے وہ دکھا کر سٹیٹ بنک آف پاکستان یا قومی بچت کے کسی مرکز سے اعلان شدہ انعام حاصل کرے گا۔

یہ کاروبار چونکہ حکومت خود چلا رہی ہے۔ لہٰذا اسے خاصا فروغ حاصل ہوا ہے اور جن لوگوں کو حرام حلال کی کچھ تمیز نہیں وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ہر دو ماہ بعد جو انعامات تقسیم ہوتے ہیں وہ دراصل اس جمع شدہ رقم کا دو ماہ کا سود ہوتا ہے۔ جوسب حقداروں میں تقسیم کرنے کے بجائے بذریعہ قرعہ اندازی چند افراد کو دے دیا جاتا ہے اور عوام کو دھوکا دینے کی خاطر اس کاروبار میں سود کا نام انعام رکھ دیا گیا ہے اور بذریعہ قرعہ اندازی یہ انعام کسی کو عطا کرنا ہی میسر (جوا یا قمار) ہے۔ اور یہی کچھ لاٹری میں ہوتا ہے۔

یہ سودی کاروبار انہیں مشاغل میں منحصر نہیں۔ اگر بنک سودی کاروبار کرتے ہیں تو ڈاک خانہ والے بھی کرتے ہیں اور قومی بچت کے مراکز بھی ۔پھر اور بھی بہت سے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی ادارے ہیں جو سود پر رقم لے کر اپنا کاروبار چلاتے ہیں اور لوگوں سے مختلف شکلوں میں سود وصول کرتے ہیں۔ آج کل اقساط پر اشیاء کی فروخت کا کاروبار بھی بہت رواج پا چکا ہے۔ اور یہ بات مال بیچنے والا اور لینے والا سب جانتے ہیں کہ ان اَقساط میں سود کی رقم شامل ہوتی ہے اور اگر سرکاری واجبات یا بلوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے تو سرکاری اور نیم سرکاری ادارے جبراً اس پر سود وصول کرتے ہیں الغرض ہر طرف ہی فضا سود کے اثرات سے مسموم ہوچکی ہے۔

بایں ہمہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر آج بھی کوئی شخص سود سے بچنے کا پختہ عزم کر لے تو وہ سود سے بچ سکتا ہے۔ البتہ اگر کوئی ناقابل علاج چیز ہے تو وہ انسان کی ہوس ہے۔ اگر ایک تاجر دوسروں کی دیکھا دیکھی ایک لاکھ کے سرمایہ سے بنک کی ملی بھگت سے چار لاکھ کا کاروبار کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے اِضطرار کا نام کیوں دیتا ہے۔ اور اگر کوئی چیز درآمد کرتا ہے تو وہ پوری رقم پیشگی جمع کرا کر سود کے دھندے سے بچ بھی سکتا ہے۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ اضطرار کہیں بھی نہیں ہوتا بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ حلال طریقے سے کمائی کم ہوتی ہے۔ صرف زیادہ کمائی کی خاطر سود میں ملوث ہونا، پھر اسے اضطرار کا نام دینا ڈھٹائی نہیں تو اور کیا ہے اور ایسے حیلوں بہانوں سے کمائی ہوئی ساری کی ساری دولت حرام ہوجاتی ہے۔ اور اگر حقیقتاً انسان کسی وقت مجبور ہوجائے تو وہ گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ وہ معاف فرمادے گا اور ایسا اضطرار صرف سود دینے میں ہی ہوسکتا ہے۔ لینے میں کبھی نہیں ہوسکتا۔

پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر سودی دھندا کرنے والے ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں تو بعض ادارے ایسے بھی موجود ہیں جو مضاربت اور شراکت کی بنیادوں پر لوگوں سے سرمایہ اکٹھا کرتے ہیں۔ مثلاً جائنٹ سٹاک کمپنیاں اور کوآپریٹو سوسائٹیاں خالص تجارتی بنیادوں پر کاروبار کرتی ہیں۔ ان کے حصص کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔اور کھلے بازار یہ حصص فروخت ہوتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں آج بھی کئی ایسے دیانت دار اور دیندار تاجر موجود ہیں جو مضاربت کی شرائط پر رقم قبول کرتے ہیں اور وقت ِمقررہ پر طے شدہ شرائط کے مطابق منافع بھی ادا کرتے ہیں اور بوقت ِضرورت اصل رقم بھی واپس کر دیتے ہیں۔ البتہ ایسے لوگوں کو تلاش ضرور کرنا پڑتا ہے مگر ناپید نہیں ہیں۔ لہٰذا ہر شخص کو لازم ہے کہ وہ بہرصورت اس جرمِ عظیم سے اجتناب کرے۔

(399) اللہ تعالیٰ نے معاشرہ کو سودی نظام سے نجات حاصل کرنے کی بہترین ترکیب خود ہی بتا دی جو یہ تھی کہ اس حکم کے نزول کے بعد کوئی سود پر قرض دینے والا صرف اپنا اصل زر ہی وصول کرنے کا حقدار ہوگا اور سود کا مطالبہ کرکے مقروض پر ظلم نہیں کرے گا۔ اسی طرح مقروض کو اصل زر ضرور قرض خواہ کو ادا کرنا ہوگا۔ وہ اصل زر بھی یا اس کا کچھ حصہ دبا کر قرض خواہ پر ظلم نہیں کرے گا۔

یہ ہیں وہ آیات جنہیں آیاتِ ربا کہا جاتا جن کے مطابق سود کو کلیتاً حرام قرار دیا گیا اور یہ سورئہ بقرہ میں سب سے آخر میں بلکہ آپﷺ کی وفات سے صرف چار ماہ پیشتر نازل ہوئی تھیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ''جب سورئہ بقرہ کی سب سے بعد نازل ہونے والی آیات سود کے بارے میں نازل ہوئیں تو نبی اکرمﷺ نے مسجد میں جاکر ان آیتوں کو سنایا۔ پھر شراب کی سوداگری بھی حرام کردی'' (بخاری: کتاب التفسیر زیر آیاتِ مذکورہ) اور حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ''آیاتِ ربا قرآن کی ان آیات سے ہیں، جو آخر زمانہ میں نازل ہوئیں اور رسول اللہﷺ کی وفات ہوگئی۔ پیشتر اس کے کہ تمام اَحکام ہم پر واضح فرماتے۔ لہٰذا تم سود کو بھی چھوڑ دو اور ہر اس چیز کو بھی جس میں سود کا شائبہ ہو'' (ابن ماجہ، دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ: کتاب البیوع، باب الربا، فصل ثالث)

ان آیات کے نزول کے چند ہی دن بعد آپﷺ نے حجۃالوداع ادا کیا اور اس حکم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں یوں اعلان فرمایاکہ '':جاہلیت کے تمام سود باطل قرار دیئے جاتے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا سود یعنی عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں'' (مسلم: کتاب الحج،باب حجة النبيﷺ)

شراب کی طرح سود بھی دراصل عرب معاشرہ کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا اور اس کا استیصال بھی بتدریج ہوا۔ سود کی مذمت میں سب سے پہلی نازل ہونے والی آیت سورئہ روم کی آیت نمبر ۳۹ ہے جس میں یہ بتلایا گیا کہ ''جو رقم تم سود پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اَموال بڑھ جائیں تو ایسا مال، اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا'' دوسری آیت سورئہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۳۰ ہے جس میں کہا گیا کہ: اے ایمان والو! دگنا چوگنا سود نہ کھائو'' (یعنی سود مرکب) پھر اس کے بعد سورئہ بقرہ کی مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں۔ جن کے بعد سود ایک فوجداری جرم بن گیا اور عرب کے سود خور قبیلوں کو آپﷺ نے عمال کے ذریعے آگاہ فرمایاکہ اگر وہ سودی لین دین سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔

(400) مقروض کو مہلت دینے یا اسے معاف کر دینے میں جو بہتری ہے وہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتی ہے؟

(1) حضرت ابو قتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ: '' جس شخص کو یہ بات محبوب ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی سختیوں سے نجات دے، اسے چاہئے کہ تنگدست کو مہلت دے یا پھر اسے معاف کردے'' (مسلم: کتاب المساقاة والمزارعة، باب فصل إنظار المعسر)

(2) آپﷺ نے فرمایا کہ: ''جس شخص کے ذمہ کسی کا قرضہ ہوا اور مقروض ادائیگی میں تاخیر کرے تو قرض خواہ کے لئے ہر دن کے عوض صدقہ ہے'' (احمد بحوالہ مشکوٰۃ: کتاب البیوع، باب الافلاس والا نظار، فصل ثالث)

(3) آپﷺ نے فرمایا: ''جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا معاف کردے، قیامت کے دن اللہ اسے اپنے سایہ میں جگہ دے گا'' (طویل حدیث سے اقتباس) (مسلم :کتاب الزھد، باب حدیث جابر و قصة أبي بسیر)

اور اگر مقروض تنگدست ہو اور قرض خواہ زیادہ ہوں تو اسلامی عدالت قرض خواہ یا قرض خواہوں سے مہلت دلوانے یا قرض کا کچھ حصہ معاف کرانے کی مجاز ہوتی ہے۔ (اس صورت حال کو ہمارے ہاں دیوالیہ کہتے ہیں اور عربی میں اِفلاس اور تفلیس) چنانچہ حضرت ابوسعید ؓ کہتے ہیں کہ دورِ نبویﷺ میں ایک شخص کو پھل کی خرید وفروخت میں نقصان ہوا اور اس کا قرضہ بہت بڑھ گیا۔ آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا: ''اس پر صدقہ کرو'' لوگوں نے صدقہ کیا، پھر بھی اتنی رقم نہ ہوسکی جو قرضے پورے کرسکے۔ آپﷺ نے قرض خواہوں سے فرمایا: جو کچھ (قرضہ کی نسبت سے) تمہیں ملتا ہے لے لو اور تمہارے لئے یہی کچھ ہے'' (مسلم: کتاب المساقاة والمزارعة، باب وضع الجوائع)

اور عبداللہ بن کعب ؓ کہتے ہیں کہ (میرے باپ) کعب ؓ بن مالک نے عبداللہ بن ابی حدرد سے مسجد ِنبوی میں اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ دونوں چلانے لگے۔ آپﷺ اپنے حجرہ میں تھے۔ ان دونوں کی آوازیں سنیں تو آپﷺ حجرے کا پردہ اٹھا کر برآمد ہوئے اور کعب کو پکارا۔ کعب ؓ نے کہا: ''حاضر یارسول اللہﷺ! آپؐ نے اشارے سے فرمایا'':آدھا قرض چھوڑ دو'' کعب کہنے لگے: یارسول اللہﷺ! میں نے چھوڑ دیا۔ پھر آپﷺ نے ابوحدرد سے فرمایا: اٹھ اور اس کا قرض ادا کر'' (بخاری: کتاب الخصومات، باب کلام الحضوم بعضهم في بعض نیز کتاب الصلوٰۃ، باب التقاضي والملازمة في المسجد)

ہاں اگر کوئی قرض خواہ مقروض کے ہاں اپنی چیز (جس کی مقروض نے قیمت ابھی اَدا نہ کی تھی) بجنسہ پالے تو وہ اس کی ہوگی۔ (بخاری: کتاب في الاستقراض، باب من وجد ماله عند مفلس نیز مسلم: کتاب المساقاة والمزارعة، باب من اَدرک ماله...)

دیوالیہ کی صورت میں اسلامی عدالت مقروض کی جائداد کی قرقی کرسکتی ہے۔ چنانچہ حضرت کعب بن مالک اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دیا تھا اور وہ مال ان کے قرض کی ادائیگی کے لئے فروخت کیا گیا۔ (رواہ دارقطني و صحّحه الحاکم و أخرجه، أبوداود مرسلاً)

البتہ درج ذیل اشیاء قرقی سے مستثنیٰ کی جائیں گی: (1) مفلس کے رہنے کا مکان، (2) اس کے اور اس کے اہل خانہ کے پہننے والے کپڑے، (3) اگر تاجر ہے تو بار دانہ اور محنت کش ہے تو اس کے کام کرنے کے اَوزار، (4) اس کے اور اس کے اہل خانہ کے کھانے پینے کا سامان اور گھر کے برتن وغیرہ (فقہ السنۃ، ج۳ ص۴۰۸)

(401) یہ قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے جس میں اُدھار سے تعلق رکھنے والے معاملات کو ضبط ِتحریر میں لانے کی ہدایات دی جارہی ہے۔مثلاً جائیدادوں کے بیع نامے، بیع سلم کی تحریر یاایسے تجارتی لین دین کی تحریر جس میں پوری رقم یا اس کا کچھ حصہ ابھی قابل ادائیگی ہو۔ تاکہ بعد میں اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو یہ تحریر شہادت کا کام دے سکے اور یہ حکم استحباباً ہے، واجب نہیں۔ چنانچہ اگر فریقین میں باہمی اعتماد اتناد زیادہ ہو کہ باہمی نزاع کی صورت کااِمکان ہی نہ ہو یا محض قرض کا معاملہ ہو اور اس طرح موثق تحریر سے کسی فریق کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہو تو محض یادداشت کے لئے کوئی فریق اپنے پاس ہی لکھ لے تو یہ بھی کافی ہوسکتا ہے۔

(402) ہمارے ہاں آج کل ایسی تحریروں کے سند یافتہ ماہرین موجود ہیں جنہیں وثیقہ نویس کہا جاتا ہے۔ وثیقہ نویس تقریباً انہی اصولوں کے تحت سرکاری کاغذات پر ایسے معاہدات لکھ دیتے ہیں اور چونکہ یہ ایک مستقل فن اور پیشہ بن چکا ہے۔ لہٰذا ان کے انکار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الا یہ کہ معاملہ میں کوئی قانونی سقم ہو۔

(403) یعنی معاہدہ کی اِملا اس شخص کو کروانی چاہئے جو مقروض ہو کیونکہ ادائیگی کا بار اس کے سر پر ہے۔ ہاں اگر وہ لکھوانے کی پوری سمجھ نہیں رکھتا تو اس کا ولی (سرپرست) اس کے وکیل کی حیثیت سے اس کی طرف سے لکھوا سکتا ہے۔ یہ ولی اس کا کوئی رشتہ دار بھی ہوسکتا ہے اور غیر رشتہ دار بھی۔ جو سمجھدار ہو اور مقروض کا خیر خواہ ہو یا معروف معنوں میں وکیل بھی ولی کی حیثیت سے املا کروا سکتا ہے۔

(404) تحریر کے بعد اس تحریر پر دو ایسے مسلمان مردوں کی گواہی ہونا چاہئے جو معاشرہ میں قابل اعتماد سمجھے جاتے ہوں۔ اور اگر معاملہ ذمیوں کے درمیان ہو تو گواہ ذمی بھی ہوسکتے ہیں۔ اور اگر بوقت تحریر دو مسلمان قابل اعتماد گواہ میسر نہ آئیں تو ایک مرد اور دو عورتیں بھی گواہ بن سکتی ہیں۔ اور اگر ایک بھی مرد میسر نہ آئے تو چار عورتیں گواہ نہیں بن سکتیں۔ اور گواہی کا یہ نصاب صرف مالی معاملات کے لئے ہے...مثلاً زنا اور قذف کے لئے چار مردوں ہی کی گواہی ضروری ہے۔ چوری اور نکاح و طلاق کے لئے دو مردوں ہی کی گواہی ہوگی۔ اِفلاس (دیوالیہ) کے لئے اس قبیلے کے تین مردوں کی، رئویت ہلال کے لئے صرف ایک مسلمان کی اور رضاعت کے ثبوت کے لئے صرف ایک متعلقہ عورت (دایہ) ہی گواہی کے لئے کافی ہوتی ہے۔

(405) اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر رکھی گئی ہے اور حدیث کی رو سے یہ عورتوں کے نقصانِ عقل کی بنا پر ہے۔ اور دوسرے یہ کہ زبانی گواہی کی ضرورت اس وقت پیش آئے گی جب اس معاملہ کی ایسی جزئیات میں نزاع پیدا ہوجائے جنہیں تحریر میں نہ لایا جاسکا ہو اور معاملہ عدالت میں چلا جائے۔ ورنہ تحریر تو کی ہی اس لئے جاتی ہے کہ بعد میں نزاع پیدا نہ ہو۔ اور شہادتیں پہلے سے ہی اس تحریر پر ثبت کی جاتی ہے۔

جب سے اہل مغرب نے مساواتِ مرد و زن کا نعرہ لگایا ہے اور جمہوری نظام نے عورت کو ہر معاملہ میں مرد کے برابر حقوق عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت سے اس آیت کے اس جملہ کو بھی مسلمانوں ہی کی طرف سے تاویل و تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دو عورتوں کی شہادت کو ایک مرد کے برابر کرکے اسلام نے عورتوں کے حقوق کی حق تلفی کی ہے۔ پاکستان میں اَپوا کی مغرب زدہ مہذب خواتین نے بڑی دریدہ دہنی سے کام لیا اور اس کے خلاف ان عورتوں نے جلوس نکالے اور بینر لکھوائے گئے کہ اگر عورت کا حق مرد سے نصف ہے تو فرائض بھی نصف ہونے چاہئیں۔ عورتوں پر اڑھائی نمازیں، پندرہ روزے اور نصف حج فرض ہونا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ طبقہ اڑھائی نمازیں تو درکنار ایک نماز بھی پڑھنے کا روادار نہیں۔ وہ خود اسلام سے بیزار ہیں ہی، ایسے پراپیگنڈے سے ایک تو وہ حکومت کو مرعوب کرنا چاہتی ہیں کہ وہ ایسا کوئی قانون نہ بنائے جس سے عورت کی حق تلفی ہوتی ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ دوسری سادہ لوح مسلمان عورتوں کو اسلام سے برگشتہ کرسکیں۔

حالانکہ یہاں حقوق و فرائض کی بحث ہے ہی نہیں۔آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد دلا دے۔ اس میں نہ عورت کے کسی حق کی حق تلفی ہوتی ہے اور نہ اس کی تحقیر ہوتی ہے۔ بات صرف نسیان کی ہے اور وہ بھی اس جزئیات میں جو تحریر میں آنے سے رہ گئی ہوں۔ اب یہاں سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت بھول سکتی ہے تو کیا مرد نہیں بھول سکتا۔ تو اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ اسلامی قانون عام حالات کے مطابق وضع کئے گئے ہیں اور ان کا واضع خود اللہ تعالیٰ ہے جو اپنی مخلوق کی خامیوں اور خوبیوں سے پوری طرح واقف ہے۔ عورت پر حیض، نفاس اور حمل اور وضع حمل کے دوران کچھ ایسے اوقات آتے ہیں جب اس کا دماغی توازن برقرار نہیں رہ سکتا۔ اور حکمائے قدیم و جدید سب عورت کی ایسی حالت کی تائید و توثیق کرتے ہیں۔ ان مغرب زدہ خواتین کا یہ اعتراض بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ مرد اپنی جسمانی ساخت اور قوت کے لحاظ سے عورت سے مضبوط ہوتا ہے۔ لہٰذا حمل اور وضع حمل کی ذمہ داریاں مرد پر ڈالنا چاہئے تھیں نہ کہ عورت پر جو پہلے ہی مرد سے کمزور ہے۔

اور اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عورت اپنی اصل کے لحاظ سے ایسی عدالتی کاروائیوں سے سبکدوش قرار دی گئی ہے۔ اب یہ اسلام کا اپنا مزاج ہے کہ وہ عورت کو گھر سے باہر کھینچ لانے کو پسند نہیں کرتا۔ جبکہ موجودہ مغربی تہذیب اور نظامِ جمہوریت اسلام کے اس کلیہ کی عین ضد ہے۔عورت کی گواہی کو صرف اس صورت میں قبول کیا گیا ہے جب کوئی دوسرا گواہ میسر نہ آسکے اور اگر دوسرا گواہ میسر آجائے تو اسلام عورت کو شہادت کی ہرگز زحمت نہیں دیتا۔

عورت کے اسی نسیان کی بنا پر فوجداری مقدمات میں اس کی شہادت قابل قبول نہیں کیونکہ ایسے مقدمات میں معاملہ کی نوعیت سنگین ہوتی ہے۔ مالی معاملات میں عورت کی گواہی قبول تو ہے لیکن دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر رکھا گیا ہے۔ اور عائلی مقدمات میں چونکہ زوجین ملوث ہوتے ہیں اور وہ ان کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے جہاں نسیان کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے مقدمات میں میاں بیوی دونوں کی گواہی برابر نوعیت کی ہوگی اور وہ معاملات جو بالخصوص عورتوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ وہاں عورت کی گواہی کو مرد کے برابر ہی نہیں بلکہ معتبر قرار دیا گیا ہے مثلاً مُرضعہ اگر رضاعت کے متعلق گواہی دے تو وہ دوسروں سے معتبر سمجھی جائے گی،خواہ یہ دوسرے کوئی عورت ہو یا مرد ہو۔

ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں نہ عورت کی تحقیر بیان ہوئی ہے اور نہ کسی حق کی حق تلفی کی گئی ہے بلکہ رزّاقِ عالم نے جو بھی قانون عطا فرمایا ہے وہ کسی خاص مصلحت اور اپنی حکمت کاملہ سے ہی عطا فرمایا ہے اور جو مسلمان اللہ کی کسی آیت کی تضحیک کرتا یا مذاق اڑاتا ہے اسے اپنے ایمان کی خیر منانا چاہئے اور ایسے لوگوں کو اسلام سے منسلک رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دل سے تو وہ پہلے ہی اللہ کے باغی بن چکے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام کو کافروں سے بھی زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔

(406) یعنی جب نزاع کی صورت پیدا ہو کر معاملہ عدالت میں چلا جائے اور انہیں زبانی گواہی دینے کے لئے بلایا جائے تو انہیں انکار نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہ بات کتمانِ شہادت کے ذیل میں آتی ہے جو گناہِ کبیرہ ہے۔

(407) اس جملہ میں انسان کی ایک فطری کمزوری کو واضح کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ فریقین خواہ کس قدر قابل اعتماد ہوں اور ان میں نزاع کی توقع بھی نہ ہو اور معاملہ بھی خواہ کوئی چھوٹا سا ہو تاہم بھول چوک اور نسیان کی بنا پر فریقین میں نزاع یا بدظنی پیدا ہوسکتی ہے۔ لہٰذا باقاعدہ دستاویز نہ سہی فریقین کو یا فریقین میں سے کسی ایک کو یادداشت کے طور پر ضرور لکھ لینا چاہئے۔

(408) یہ حکم صرف اس صورت میں ہے جبکہ لین دین کا کوئی اہم معاملہ ہو اور لین دین کرنے کے بعد بھی اس میں نزاع کا احتمال موجود ہو۔

(409) اس کی کئی صورتیں ممکن ہیں ...مثلاً ایک یہ کہ کسی شخص کو کاتب بننے یا گواہ بننے پر مجبور نہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ کاتب یا گواہ کی گواہی اگر کسی فریق کے خلاف جاتی ہے تو انہیں تکلیف نہ پہنچائے جیسا کہ آج کل مقدمات میں اکثر ایسا ہوتا ہے اور فریق مخالف گواہوں کو یا وثیقہ نویس کو اس قدر دھمکیاں اور تکلیفیں دینا شروع کر دیتا ہے کہ وہ گواہی نہ دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں یا پھر غلط گواہی دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور تیسری صورت انہیں نقصان پہنچانے کی یہ ہے کہ انہیں عدالت میں بلایا تو جائے لیکن انہیں آمدورفت اور کھانے پینے کا خرچہ تک نہ دیا جائے۔

(410) رہن کے مطالبہ کی چار ممکنہ صورتیں ہیں... مثلاً سفر ہو یا حضر ہو اور کاتب نہ مل رہا ہو، دو تو یہ ہوئیں اور دو یہ ہیں کہ سفر یا حضر دونوں جگہ کاتب مل سکتا ہے مگر قرض دینے والا محض تحریر پر اعتماد نہیں کرتا اور اپنے قرضہ کی واپسی کی ضمانت کے طور پر رہن کا بھی مطالبہ کرتا ہے اور یہ کہ رہن خواہ تحریر کے ساتھ ہو یا تحریر کے بغیر صرف رہن ہو۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک یہودی (ابوشحم) سے ادھار اناج خریدا(تیس صاع جَو، اپنی خانگی ضرورت کے لئے) اور آپﷺ نے اپنی زرہ بطورِ رہن اس کے پاس رکھی تھی (بخاری: کتاب الرہن، باب فی الرہن فی الحضر) اور یہ رہن حضر میں تھا اور بلا تحریر تھا۔ چنانچہ ان چاروں صورتوں میں رہن جائز ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو ان میں سے صرف ایک صورت کا ذکر فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروئوں کو فیاضی کی تعلیم دینا چاہتا ہے اور یہ بات بلند اخلاق سے فروتر ہے کہ ایک آدمی مال رکھتا ہو اور وہ دوسرے ضرورت مند کی کوئی چیز رہن رکھے بغیر اسے قرض نہ دے۔

رہن سے متعلق درج ذیل مسائل سمجھ لیجئے:

1- مرہونہ چیز کے نفع و نقصان کا ذمہ دار راہن (اصل مالک) ہی ہوتا ہے اور مرتہن (جس کے پاس رہن رکھی گئی ہو) کے پاس وہ چیز بطورِ امانت ہوتی ہے مثلاً زید نے بکر کے پاس گائے رہن رکھی تھی۔ وہ گائے مر گئی یا چوری ہوگئی تو یہ نقصان زید کا ہوگا، بکر کا نہیں۔ اسی طرح اگر گائے نے بچہ جنا تو گائے اور بچہ دونوں زید کے ہوں گے، بکر کے نہ ہوں گے۔ چنانچہ سعید بن مسیب ؒسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: ''گروی رکھنا کسی مرہونہ چیز کو اس کے اصل مالک سے نہیں روک سکتا۔ اس کا فائدہ بھی اسی کے لئے ہے اور اس کا نقصان بھی اسی پر ہے'' (مشکوٰۃ: کتاب البیوع، باب السّّلم والرہن، فصل ثانی)

2- چونکہ مرہونہ چیز مرتہن کے پاس بطورِ امانت ہوتی ہے، اس لئے وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ مثلاً مکان ہے تو اس میں رہ نہیں سکتا نہ کرایہ پر دے سکتا ہے، زمین ہے تو اس میں کاشت نہیں کرسکتا وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ یہ سود ہوگا۔ الا یہ کہ وہ ایسا فائدہ راہن کے حوالہ کردے یا اصل قرضہ کی رقم سے وضع کرتا جائے۔

3- مگر جن چیزوں پر مرتہن کو کچھ خرچ بھی کرنا پڑے تو ان سے فائدہ اٹھانے کا بھی حقدار ہوگا۔ مثلاً مرہونہ چیز گائے ہے تو اسے چارہ وغیرہ ڈالنے کے عوض اس کا دودھ بھی استعمال کرسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: '' مرہونہ جانور کی پیٹھ سواری کے لئے شیردار مرہونہ جانور کا دودھ پینے کے لئے، اس کے اخراجات کے عوض جائز ہے۔ اور جو شخص سواری کرتا یا دودھ پیتا ہے تو اسی کے ذمہ اس کا خرچہ ہے'' (بخاری: کتاب الرہن، باب الرہن مرکوب و محلوب)

(411) یعنی قرض خواہ کا قرضہ یا جو چیز اس نے لی ہو۔

(412) رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا: سن لو! ''بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ایسا ہے کہ جب وہ درست ہو تو سارا جسم ہی درست ہوتا ہے اور وہ بگڑ جائے تو سارا جسم ہی بگڑ جاتا ہے۔ یاد رکھو! وہ ٹکڑا (انسان کا) دل ہے'' (بخاری: کتاب الإیمان، باب فضل من استبرأ لدینه) اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب انسان کوئی گناہ کا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتاہے پھر اگر انسان توبہ کر لے تو وہ نقطہ دُھل جاتا ہے اور اگر توبہ نہ کرے بلکہ مزید گناہ کئے جائے تو وہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے سارے دل کو گھیر لیتا ہے اور اسے سیاہ کر دیتا ہے۔ (مسلم: کتاب الإیمان،باب رفع الأمانة والإیمان من بعض الذنوب... )

گویا پہلے گناہ دل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور نیت میں فتور آتا ہے پھر وہ گناہ کا کام صادر ہوتا ہے۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب انسان کا دل پوری طرح سیاہ ہوجاتا ہے اس وقت انسان کا دل اس کی سوچ اور فکر پر اثرانداز ہوتا ہے پھر وہ جو بات بھی سوچے گا غلط اور معصیت کی بات ہی سوچے گا۔ دل کی ایسی حالت کو اللہ تعالیٰ نے آثِم قلبہٗسے تعبیر کیا ہے اور شہادت کو چھپانے والے ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔

(413) اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات کا ذکر ہوا ہے: (i) ملک، یعنی وہ ہر چیز کا مالک ہے، (ii) علم، یعنی اس کا علم اتنا وسیع ہے کہ دلوں کے راز تک جانتا ہے، (iii)قدرت، یعنی اسے سزا دینے اور معاف کر دینے کے کلی اختیارات حاصل ہیں اور یہی تین صفات ذرا تفصیل کے ساتھ آیت ُالکرسی میں بیان کی گئی ہیں جس سے مقصود یہ ہے کہ عبادات اور معاملات سے متعلق جو بے شمار اَحکام دیئے گئے ہیں۔ مسلمان کو اس کی تعمیل میں نہ حیلوں بہانوں سے کام لینا چاہئے اور نہ سینہ زوری اور ظلم و زیادتی سے۔ بلکہ اللہ سے ڈر کر اس کی مرضی کے مطابق عمل کرناچاہئے۔ کیونکہ کسی بھی ظاہری یا پوشیدہ اَمر میں انسان اس کی نافرمانی کرکے نجات نہیں پاسکتا۔

(2) سورۂ آلِ عمران
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلُوا الرِّ‌بو‌ٰاأَضعـٰفًا مُضـٰعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿١٣٠﴾ وَاتَّقُوا النّارَ‌ الَّتى أُعِدَّت لِلكـٰفِر‌ينَ ﴿١٣١﴾ وَأَطيعُوا اللَّهَ وَالرَّ‌سولَ لَعَلَّكُم تُر‌حَمونَ ﴿١٣٢﴾وَسارِ‌عوا إِلىٰ مَغفِرَ‌ةٍ مِن رَ‌بِّكُم وَجَنَّةٍ عَر‌ضُهَا السَّمـٰو‌ٰتُ وَالأَر‌ضُ أُعِدَّت لِلمُتَّقينَ ﴿١٣٣﴾... سورة آل عمران
ترجمہ

اے ایمان والو! دگنا چوگنا کر کے سود[۱۱۸] مت کھائو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم (آخرت میں) نجات پاسکو(۱۳۰) اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے(۱۳۱) اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے(۱۳۲) اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑ کر چلو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے(۱۳۳)

(118) سود کی حرمت کا ذکر سورئہ بقرہ کی آیات ۲۷۸۔۲۷۹ میں گزر چکا ہے۔ یہ آیت اس سے پہلے کی نازل شدہ ہے۔ جبکہ مسلمانوں کو سود کی قباحتوں سے متعارف کرانا اس سے نفرت دلانا اور اس کو یکسر چھوڑ دینے کے لیے ذہنوں کو ہموار کرنا مقصود تھا۔ اس مقام پر سود کے ذکر کی وجہ ٔمناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ ِاُحد میں ابتداء ً مسلمان جو شکست سے دوچار ہوئے تو اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کا وہ دستہ جو حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کی سرکردگی میں درّہ کی حفاظت پر مامور تھا، اس نے جب فتح کے آثار دیکھے تو مال کے طمع سے مغلوب ہوگئے اور اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے بجائے غنیمت لوٹنے میں لگ گئے۔اللہ تعالیٰ نے اس صورتِ حال کی اصلاح کے لیے زرپرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا کیونکہ سود کا خاصہ یہ ہے کہ وہ سود خور میں حرص و طمع، بخل و بزدلی، خود غرضی اور زر پرستی جیسی رذیل صفات پیدا کر دیتا ہے اور سود ادا کرنے والوں میں نفرت، غصہ، بغض و حسد جیسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں، اور ایسی صفات ایک اسلامی معاشرہ کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں اور جہاد کی روح کے منافی ہیں اور آخرت میں اُخروی عذاب کا سبب بنتی ہیں۔ انہیں وجوہ کی بنا پر سود کو بالآخرمکمل طور پر حرام قرار دیا گیا۔

(3) سورۃ النساء
﴿فَبِظُلمٍ مِنَ الَّذينَ هادوا حَرَّ‌منا عَلَيهِم طَيِّبـٰتٍ أُحِلَّت لَهُم وَبِصَدِّهِم عَن سَبيلِ اللَّهِ كَثيرً‌ا ﴿١٦٠﴾ وَأَخذِهِمُ الرِّ‌بو‌ٰاوَقَد نُهوا عَنهُ وَأَكلِهِم أَمو‌ٰلَ النّاسِ بِالبـٰطِلِ ۚ وَأَعتَدنا لِلكـٰفِر‌ينَ مِنهُم عَذابًا أَليمًا ﴿١٦١﴾... سورة النساء
ترجمہ

یہودیوں کے اسی ظلم کی وجہ سے اور بہت سے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کی وجہ سے ہم نے ان پر کئی پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں(۱۶۰) اور اس لئے بھی کہ وہ سود[۲۱۱] کھاتے تھے حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا نیز وہ لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھا جاتے تھے اور ایسے کافروں کیلئے ہم نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے (۱۶۱)

(211) سود یہودیوں پر بھی حرام کیا گیا تھا۔ لیکن ان کے فقہاء نے کچھ اس طرح موشگافیاں اور نکتہ آفرینیاں کیں جن کی رو سے انہوں نے غیر یہود سے سود وصول کرنا جائز قرار دے لیا تھا( جیسا کہ آج کل مسلمانوں میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو فقہی موشگافیاں پیدا کرکے حربی کافروں سے سود لینا جائز سمجھتا ہے) پھر ان کی یہ سود خوری کی عادت فقط سود تک محدود نہ رہی بلکہ وہ کہتے تھے غیر یہودی کا مال جس طریقے سے ہڑپ کیا جاسکے، جائز ہے۔ یہود کی اس طرح کی حرام خواری کا ذکر اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر فرمایا ہے۔ گویا اس طرح وہ دوہرا جرم کرتے تھے: ایک حرام خواری ،دوسرے اسے شریعت سے مستنبط مسئلہ قرار دے کراسے جائز سمجھنا۔ گویا وہ اپنی اختراع کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے تھے۔ سود خوری سے انسان کی طبیعت پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، وہ ہیں خود غرضی، سنگ دلی، بخل اور مال سے غیر معمولی محبت اور اس کے بعد حرام طریقوں سے مال جمع کرنے کی فکر، سورئہ آل عمران کی آیت نمبر ۷۵ ﴿وَمِنهُم مَن إِن تَأمَنهُ بِدينارٍ‌ لا يُؤَدِّهِ إِلَيكَ إِلّا ما دُمتَ عَلَيهِ قائِمًا...٧٥ ﴾... سورة آل عمران" میں اللہ تعالیٰ نے جو ایسے شخص کی مثال دی ہے کہ اگر اسے ایک دینار بھی دے بیٹھیں تو اس سے واپس لینا مشکل ہوجاتا ہے تو وہ اسی قسم کے مال کی محبت میں گرفتار آدمی کی مثال ہے۔ رہی دیانتدار آدمی کی مثال تو وہ ہر قوم اور ہر اُمت میں کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ کم ہی ہوتے ہیں۔ یہودیوں میں ایسے لوگ وہ تھے جو سود خوری اور دوسرے ناجائز طریقوں کو فی الواقع حرام سمجھتے تھے۔ عبداللہ بن سلام ؓایسے ہی شخص تھے۔ کسی نے ان کے پاس بارہ اوقیہ سونا بطورِ امانت رکھا تھا اور جب مالک نے اپنی امانت طلب کی تو فوراً ادا کردی۔ اب ان کے مقابلہ میں ایک فحاص نامی یہودی تھا۔ کسی نے ایک اشرفی اس کے پاس امانت رکھی ہوئی تھی، جب اس نے اس سے امانت طلب کی تو وہ مکر ہی گیا۔

(4) سورۃ الروم
﴿وَما ءاتَيتُم مِن رِ‌بًا لِيَر‌بُوَافى أَمو‌ٰلِ النّاسِ فَلا يَر‌بوا عِندَ اللَّهِ ۖ وَما ءاتَيتُم مِن زَكو‌ٰةٍ تُر‌يدونَ وَجهَ اللَّهِ فَأُولـٰئِكَ هُمُ المُضعِفونَ ﴿٣٩﴾ اللَّهُ الَّذى خَلَقَكُم ثُمَّ رَ‌زَقَكُم ثُمَّ يُميتُكُم ثُمَّ يُحييكُم ۖ هَل مِن شُرَ‌كائِكُم مَن يَفعَلُ مِن ذ‌ٰلِكُم مِن شَىءٍ ۚ سُبحـٰنَهُ وَتَعـٰلىٰ عَمّا يُشرِ‌كونَ ﴿٤٠﴾... سورة الروم
ترجمہ

اور جو کچھ تم بطورِ سود دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال سے تمہارا مال بڑھتا رہے تو ایسا مال اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا [۴۴] اور جو کچھ تم اللہ کی رضا چاہتے ہوئے بطورِ زکوٰۃ دیتے ہو تو ایسے ہی لوگ اپنے مال کو دگنا چوگنا کر رہے ہیں(۳۹) اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، روزی دی، پھر تمہیں موت دے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے شریکوں میں بھی کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی بھی کام کرسکتا ہو۔ وہ پاک ہے اور جو کچھ وہ شرک ٹھہراتے ہیں اُن سے بالاتر ہے(۴۰)

(44) یہ پہلی آیت ہے جو سود کی مذمت کے سلسلہ میں نازل ہوئی، پھر سورئہ آلِ عمران کی آیت نمبر ۱۳۰ کی رو سے مسلمانوں کو سود در سود سے روک دیا گیا۔ پھر آپ ﷺکی وفات سے چار ماہ پیشتر سورئہ بقرہ کی آیات نمبر۲۷۵ تا ۲۸۱ کی رُو سے مکمل طور پر حرام قرار دے دیا گیا۔ چونکہ شراب کی طرح سود بھی اہل عرب کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ لہٰذا ایسی برائیوں کا کلی استیصال بتدریج ہی ممکن تھا۔

اب اصل مسئلہ کی طرف آئیے ،بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ سود سے مال بڑھتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کسی بھی معاشرہ میں دولت مندوں کی تعداد غریبوں کی تعداد کی نسبت بہت قلیل ہوتی ہے اور سود لینے والے دولت مند ہوتے ہیں اور دینے والے غریب اور محتاج۔ اب سود سے فائدہ تو ایک شخص اُٹھاتا ہے اور نقصان سینکڑوں غریبوں کا ہوجاتا ہے اور اللہ کی نظروں میں اس کی سب مخلوق یکساں ہے بلکہ اسے دولتمندوں کے مفاد سے غریبوں کے مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ اور سود خور سود کے ذریعہ بے شمار غریبوں کا مال کھینچ کر انہیں مزید مفلس اور کنگال بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ تو اسی حقیقت کو اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایاکہ سود کے ذریعہ مال بڑھتا نہیں بلکہ گھٹتا ہے۔ یہ اس مسئلہ کا ایک پہلو ہوا اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ علم معیشت کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جس معاشرہ میں دولت کی گردش جتنی زیادہ ہوگی، اتنا ہی وہ معاشرہ خوشحال ہوگا اور اس کی قومی دولت میں اضافہ ہوگا۔ اور اگر دولت کا بھائو غریب سے امیر کی طرف ہوگا تو یہ گردش بہت کم ہوجائے گی۔ کیونکہ امیر طبقہ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی سود قومی معیشت پر تباہ کن اثر ڈالتا ہے۔ اور اگر دولت کا بہائو امیر سے غریب کی طرف ہو اور یہ بات صرف زکوٰ ۃ و صدقات کی صورت میں ہی ممکن ہوتی ہے، تو دولت کی گردش میں تیزی ہوجائے گی کیونکہ ایک تو غریبوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے، دوسرے ان کی ضروریات محض پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے اَٹکی ہوتی ہیں۔ لہٰذا دولت کی گردش میں تیزی آنے کی وجہ سے ایک تو سارا معاشرہ خوشحال ہوتا جائے گا دوسری قومی معیشت پر بھی خوشگوار اثر پڑے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:﴿يَمحَقُ اللَّهُ الرِّ‌بو‌ٰاوَيُر‌بِى الصَّدَقـٰتِ...٢٧٦﴾... سورة البقرة" یعنی جس معاشرہ میں سود کا رواج ہوگا، اس میں برکت نہیں رہے گی ،وہ بالآخر قلاش ہوجائے گا۔ غریب طبقہ کی تعداد دن بدن بڑھتی جائے گی اور وہ اپنا پیٹ پالنے کی خاطر امیر طبقہ پر جائز اور ناجائز طریقوں سے حملہ آور ہو کر ان کا مال ان سے چھین لے گااور اس غرض کے لئے اگر اس کا کام چوری اور ڈاکہ، لوٹ مار سے چلتا ہے تو ٹھیک ورنہ وہ قتل و غارت سے بھی کبھی دریغ نہ کرے گا۔

اسلامی اِقتصادیات یا اسلامی نظامِ معیشت پر بڑی لمبی چوڑی تصانیف بازار سے دستیاب ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اسلامی نظامِ معیشت کے بنیادی اُصول صرف دو ہی ہیں: ایک ملک سے سود کا خاتمہ اور دوسرے اس کے بجائے نظامِ زکوٰ ۃ و خیرات کی ترویج۔ سود ہی وہ لعنت ہے جو نظامِ سرمایہ داری کی جان ہے۔ اس کے خاتمہ سے نظامِ سرمایہ داری کی جان اَز خود نکل جاتی ہے۔ رہی سہی کسر اسلام کا قانونِ میراث نکال دیتا ہے۔ سود کے خاتمہ کے بعد جب نظامِ زکوٰۃ و صدقات اس کی جگہ لے لیتا ہے تو طبقاتی تقسیم از خود ختم ہوجاتی ہے اور معاشرہ خوشحال بن جاتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے معاشیات کی کتابیں پڑھنے اور اس کے اُصول سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ صرف تجربہ کی ضرورت ہے اور تجربہ ہر انسان کم از کم اپنے خاندان میں کرکے اس کے ثمرات و برکات کو بچشم خود ملاحظہ کر سکتا ہے۔ اگرچہ اتنے چھوٹے پیمانے پر سود کے خاتمہ اور زکوٰ ۃ و خیرات کی ترویج سے پورے ثمرات تو حاصل نہیں ہوسکتے۔ تاہم ایسے خاندان کی حالت پہلے سے بدرجہا بہتر ہوسکتی ہے۔ غریب کی امیر سے نفرت، حسد اور کینہ وغیرہ جیسے قبیح جذبات ماند پڑ جاتے ہیں۔ اور ان کی جگہ مروّتؑ، ہمدری اور اُخوت جیسی اعلیٰ قدریں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ جس سے ایک طرف تو معاشرہ میں کشیدگی کے بجائے محبت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسرے دولت کی ناہموار تقسیم میں خصوصی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ جس سے معاشرہ کے ہر فرد کو کم از کم بنیادی ضروریات ضرور مہیا ہوتی رہتی ہیں۔

نوٹ: اس مضمون (تفسیر) میں قرآنی آیات کی کتابت اور ترجمہ بھی مولانا عبد الرحمن کیلانی ؒکا ہے