نبوتِ محمدیہ کے دلائل و براہین

حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ آپ کی نبوت کی واضح دلیل ہے۔ آپ کے اخلاقِ جمیلہ اور اقوال و افعالِ حمیدہ اور آپ کی روشن شریعت بھی آپ کی نبوت کے دلائل میں سے ہے، آپ کی اُمت،اس کا علم اور اس کا دین سب آپ کی نبوت و رسالت کے براہین ہیں اور آپ کی امت کے صلحاء کرام کی کرامات بھی آپ کی صداقت کے دلائل سے ہیں اوریہ حقیقت اسی حقیقت جو پر ظاہر ہوگی جو آپ کی پیدائش سے لے کر آپ کی بعثت تک اور آپ کی بعثت سے لے کر آپ کی وفات تک آپ کی سیرتِ طیبہ کا غور سے مطالعہ کرے گا اور آپ کے نسب، شہر، آپ کے اصل اور فصل پر تدبر کرے گا کیونکہ آپ عالم انسانیت میں نسب کے اعتبار سے اَشرف ہیں اور آپ کا تعلق خالصتاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس لڑی سے ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے نبوت اور کتاب نازل فرمائی۔

چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کے بعد جتنے بھی انبیاء کرام مبعوث ہوئے، وہ انہی کی اولاد میں سے تھے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو دو بیٹے عطا فرمائے: حضرت اسماعیل  اور حضرت اسحق ... توراة میں بھی دونوں کا ذکر ہے اور توراة میں اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے نبی مبعوث ہونے کی بشارت دی گئی ہے اور اولادِ اسماعیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی شخص نبوت کی بشارتوں کا حامل نہ تھا۔

حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے حضرت اسماعیل کی اولاد کے لئے دعا فرمائی تھی کہ ان میں ایسا رسول مبعوث ہو جو انہی میں سے ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش میں سے تھے جو بنو ابراہیم کا برگزیدہ خاندان ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنوہاشم میں سے تھے جو قریش کا حد درجہ محترم قبیلہ ہے او رپھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے جو اُمّ القریٰ ہے اور اللہ کے ایسے مقدس گھر والا شہر ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بذاتِ خود تعمیر کیا اور لوگوں کواس کے حج کی دعوت دی۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور سے وہاں حج ہوتا آرہاہے اور اس حقیقت کاتذکرہ انبیاء کی کتابوں میں موجود ہے۔

آپ تربیت اور پرورش کے اعتبار سے تمام لوگوں سے ممتازتھے، آپ سچائی اورنیکی، عدل وانصاف اور عمدہ اوصاف میں مشہور؛ ظلم و ستم،فسق و فجور اور ہرگندے کام سے کوسوں دور رہنے والے تھے، اور اس بات کی گواہی ان لوگوں کی طرف سے دی گئی جو آپ کونبوت سے پہلے بھی جانتے تھے اور ان لوگوں کی طرف سے بھی جو آپ پر ایمان لائے اور پوری زندگی انہوں نے بھی جنہوں نے نبوت ملنے کے بعد آپ سے کفر کیا اور آپ کے متعلق کوئی ایسی بات سننے یا دیکھنے میں نہیں آئی جس پر انگشت نمائی کی جاسکے ؛ آپ کے اقوال میں، نہ افعال میں اور نہ آپ کے اخلاق اور کردار میں۔ زندگی بھر جھوٹ آپ کی زبان سے آشنا نہ ہوا ؛ نہ ہی فسق و فجور اور ظلم وستم کا الزام آپ پر لگ سکا۔ آپ کی صورت اور سیرت تمام صورتوں سے مکمل اور جامع تھی او ران خوبیوں پر مشتمل تھی جو آپ کے کمال پر دلالت کرتی ہیں۔ آپ اُمی تھے او راُمیوں کی اس قوم میں تھے جو اہل کتاب کی طرح توراة او رانجیل کو نہیں جانتی تھی، نہ آپ اور نہ آپ کی قوم اور نہ آپ نے لوگوں کے علوم پڑھے اور نہ ان علوم کے ماہرین کے پاس بیٹھے اور جب آپ کی عمر مبارک چالیس سال ہوگئی تو آپ نے نبوت کا اعلان کیا۔

چنانچہ آپ نے تمام کاموں سے نرالا اور عظیم ترین کام کرڈالا، اور ایسا کلام پیش کیا جس کی مثال اگلے پیش کرسکے تھے نہ پچھلے۔ اور ایسے معاملے کی خبر دی جسے آپ کے شہر اور قوم والے جانتے نہ تھے اور نہ ہی زمانوں میں سے کسی زمانے اور ملکوں میں سے کسی ملک میں آپ کے علاوہ کسی اور نے کوئی ایسی چیز پیش کی اور نہ ہی آپ کی طرح کوئی غلبہ حاصل کرسکا اور نہ ہی آپ جیسے عجائبات اور دلائل پیش کرسکا، اور نہ ہی کوئی شخص آپ کی طرح اپنی شریعت کی طرف دعوت دے سکا اور نہ کسی کا دین، دلائل و براہین اور قوتِ بازو کے ساتھ آپ کے دین کی طرح آشکارا ہوسکا۔ اور پھر آپ کی پیروی بھی انبیاء کرام کے (کمزور پیروکاروں جیسے) لوگوں نے کی اور رؤسا نے آپ کو جھٹلا دیا اور آپ سے عداوت کی اورہر طریقے سے آپ کو اور آپ کے پیروکاروں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی جس طرح کہ پہلے انبیا اور ان کے پیرو کاروں کے ساتھ بھی ہوتا رہا ۔ اور جن لوگوں نے آپ کی پیروی کی، انہوں نے کسی لالچ اور ڈر کی وجہ سے نہ کی تھی کیونکہ نہ تو آپ کے پاس مال تھا جو آپ انہیں دیتے، نہ ریاستیں تھیں جو انہیں عطا کرتے، اور نہ ہی آپ کے پاس تلوار تھی بلکہ تلوار اور مال تو آپ کے دشمنوں کے پاس تھا اور انہوں نے آپ کے پیروکاروں کو ہر طرح کی تکلیف پہنچائی۔ لیکن انہوں نے اللہ کی خوشنودی کی خاطر صبر کیا او راپنے دین سے روگردانی نہ کی کیونکہ ان کے دلوں میں ایمان اور معروف کی حلاوت رچ بس چکی تھی۔

اور عرب لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے لے کر مسلسل مکہ کا حج کرتے چلے آرہے تھے، چنانچہ جب حج کے موسم میں عرب کے قبائل جمع ہوتے تو آپ ان کی طرف نکلتے اور ان میں اپنی رسالت کا اعلان کرتے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے اور جھٹلانے والے کی تکذیب اور بدسلوک کی بدسلوکی اور روگردانی کرنے والی کی روگردانی پر صبر کرتے۔ حتیٰ کہ یثرب والے آپ سے آن ملے ۔ وہ یہودیوں کے پڑوسی تھے او ران کی زبانی آپ کے متعلق سنتے رہتے تھے لہٰذا انہوں نے آپ کو پہچان لیا، جب آپ نے ان کو دعوت دی تو وہ پہچان گئے کہ یہ وہی نبی منتظر ہے جس کی خبریہود دیتے رہتے ہیں۔ اور چونکہ وہ آپ کی خبریں سن چکے تھے، اس لئے انہوں نے آپ کے مرتبہ و مقام کوپہچان لیا کیونکہ اِن سالوں میں آپ کی دعوت پھیل چکی تھی اور آپ کا مشن ظاہر ہوچکا تھا، اس لئے وہ آپ پرایمان لے آئے اور انہوں نے اپنے شہر کی طرف آپ کی اور آپ کے صحابہ کی ہجرت کا خیرمقدم کیا اور آپ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کا عہد کرلیا۔چنانچہ آپ کی اور آپ کے پیروکاروں کی مدینہ میں ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار مل کر رہنے لگے۔ ان میں سوائے چند اہل یثرب کے اور کوئی بھی ایسا نہ تھا جو دنیاوی ترغیب و ترہیب کی بنا پر ایمان لایا ہو اور چند اہل یثرب جو بظاہر مسلمان تھے، ان میں سے بھی بعض کا اسلام ٹھیک ہوگیاتھا۔

بعد ازاں آپ کو جہاد کی اجازت مل گئی اورجہاد کرنے کا حکم دیا گیا ۔ چنانچہ آپ مکمل ترین صدق وصفا اور عدل و انصاف اور وفاداری کے ساتھ اللہ کے دین کو تھامے رہے۔ آپ کی پوری زندگی میں کسی سے ظلم و بدعہدی کا ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا اور نہ کبھی جھوٹ آپ کی زبان سے سرزَد ہوا؛بلکہ آپ سب سے راست گو اور سب سے بڑھ کر انصاف پسند اور سب سے بڑھ کر عہد کی پاسداری کرنے والے تھے۔ صلح کی حالت ہو یا جنگ کا سماں، امن کی حالت میں بھی اور خوف کی حالت میں، مالداری کی حالت میں بھی اور تنگدستی کی حالت میں بھی، قلت کی حالت میں بھی اور کثرت کی حالت میں بھی، فتح کی سرشاری ہو یا شکست کی بے قراری، کوئی بھی حالت آپ کو ان اوصاف ِکمال سے برگشتہ نہ کرسکی۔یہاں تک کہ آپ کی دعوت اس سرزمین پر چھاگئی جو بتوں کی پرستش اور مدعیانِ اخبارِ غیب کی داستانوں اور خالق کائنات سے کفر اور مخلوق کی فرمانبرداری، سفاکی اور قطع رحمی سے بھرچکی تھی اور وہ لوگ جو آخرت اور د وبارہ جی اُٹھنے کو جانتے نہ تھے، وہ اہل زمین میں سے ایسے عالم ، فاضل اور دیندار اور عابد و زاہد بن گئے کہ جب شام کے نصرانیوں نے انہیں دیکھا تو پکار اٹھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری ان سے بڑھ کر نہ تھے۔ ان کے علم و عمل کے آثار بھی موجود ہیں اور دوسروں کے بھی، اور اہل عقل دونوں کے درمیان فرق کو خوب جانتے ہیں۔

حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی کشور کشائی، پیروکاروں کی اطاعت اور مال و جان سے بھی بڑھ کر محبت کے باوجود اس حال میں فوت ہوئے کہ گھر میں ایک درہم بھی موجود نہ تھا، نہ کوئی بکری نہ اونٹ، سوائے اپنے خچر اور ہتھیاروں کے اور آپ کی ڈھال، تیس وسق جَوجو آپ نے گھر والوں کے لئے خریدے تھے ، کے بدلے ایک یہودی کے ہاں گروی پڑی تھی۔ آپ کے پاس مالِ فئ کی جاگیر تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر والوں کا خرچہ پورا کرکے باقی مسلمانوں کی ضروریات پر خرچ کردیتے تھے، اس کے متعلق بھی آپ نے حکم دیا کہ وہ صدقہ ہے، اس سے میرے وارثوں کوکچھ نہ ملے گا، علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر اتنے عجیب و غریب معجزات اور کرامات ظاہرہوئیں کہ یہ مضمون ان کی تفصیل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

آپ وحی کے ذریعے انہیں حال ومستقبل کی خبریں دیتے ؛نیک کام کا حکم دیتے، برے کاموں سے روکتے، طیبات کو حلال کرتے، خبائث کو حرام ٹھہراتے ، اس طرح آہستہ آہستہ اپنی شریعت کو نافذ کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے ان کے ذریعے اپنے دین کو مکمل کر دیا اور آپ کی شریعت اس طرح مکمل ہوگئی کہ ہر اس نیکی کا حکم دے دیا گیا جسے انسانی ذہن نیکی سمجھتے ہیں، اور ہر اس برائی سے روک دیا گیا جسے عقلیں برائی تصور کرتی ہیں۔آپ نے کسی ایسی بات کا حکم نہیں دیا کہ جواب یہ ملا ہو کہ کاش آپ حکم نہ دیتے اور کسی ایسی چیز سے نہیں روکا کہ لوگوں کی طرف سے جواب ملا ہو: کاش آپ اس سے نہ روکتے اور آپ نے طیبات کو حلال کیا تو اس میں سے اتنی زیادہ چیزیں حرام نہیں کیں جتنی دوسروں کی شریعت میں ہوئیں، آپ نے خبائث کو حرام کیا تو ان میں بھی اس قدر خبائث حلال نہیں کی گئیں جتنی دوسری شریعتوں میں حلال کردی گئیں۔

آپ کے اندر گذشتہ انبیا کی خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ چنانچہ توراة، انجیل اور زبور میں، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور یومِ آخرت کے متعلق جو خبریں بیان ہوئی ہے، آپ نے انہیں ہراعتبار سے مکمل طورپر پیش کیا ہے اورایسی چیزوں سے بھی آگاہ فرمایا جوان کتابوں میں موجود نہیں ہیں۔مزید برآں اگر ان کتابوں میں کسی طور پرعدل کے وجوب ،انصافپر فیصلے کرنے اور فضائل اپنانے اور عبادات کرنے کی ترغیب ہے تو آپ نے بھی یہ چیزیں بیان کی ہیں او ران سے بدرجہا بہتر انداز میں بیان کی ہیں۔ اور جب کوئی عقلمند انسان آپ کی مشروع کردہ عبادات اور دیگر اُمتوں کی مشروع عبادات پر غور کرے گا تو اسے طریقہ محمدیہ کی فضیلت اور اس کی قدروقیمت کا اندازہ ہوجائے گا، اسی طرح ہی حدود و احکام اور دیگر مشروع معاملات پر غور کرنے سے اسے آپ کی شریعت کا پلڑا وزنی نظر آئے گا۔

اور آپ کی امت ہر فضیلت میں، تمام اُمتوں سے بڑھ کر ہے او رجب امت ِمحمدیہ کے علم کا تمام اُمتوں کے علم سے مقابلہ کیا جائے تو اس کے علم کی فضیلت آشکارا ہوجائے گی۔ اور جب امت ِمحمدیہ کے دین،ان کی عبادت اور ان کی اطاعت فرمانبرداری کا مقابلہ دوسری امتوں سے کیا جائے گا تو پتہ چل جائے گا کہ یہ اُمت دوسروں سے زیادہ دیندار ہے۔ او رجب ان کی شجاعت، جہاد فی سبیل اللہ اوراللہ کی خاطر تکالیف برداشت کرنے کا مقابلہ دیگر امتوں سے کیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ ا مت ِمحمدیہ سب سے بہادر اور دلیر ہے۔ او رجب اس کی سخاوت، صدقہ و خیرات،دلی طہارت اور درگزر و معافی کاموازنہ دیگر امتوں سے کیا جائے گا تو یہ ان سے زیادہ سخی اور زیادہ کریم النفس نظر آئے گی۔ اور آپ کے امتیوں کو یہ خوبیاں آپ ہی کی بدولت نصیب ہوئیں اور انہوں نے آپ سے ہی سیکھیں ،کیونکہ آپ نے ہی ان کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا کریں، اس لئے کہ وہ آپ سے پہلے کسی ایسی کتاب کے پیروکار نہ تھے جس کی آپ تکمیل کرنے آئے ہوں جس طرح کہ حضرت عیسیٰ تورات کی تکمیل کیلئے آئے۔

اور حضرت مسیح یسو ع علیہ السلام کے پیروکاروں کے فضائل و محاسن اوران کے علوم کے کچھ حصے تورات سے، کچھ زبورسے اور کچھ گذشتہ نبوتوں اور کچھ مسیح علیہ السلام سے اور کچھ ان کے حواریوں اور حواریوں کے حواریوں سے ماخوذ تھے اورانہوں نے فلاسفہ وغیرہ کے اقوال سے بھی فائدہ اٹھایا تھا اور جب انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے دین میں تحریف کرنا شروع کی تو کفار کی ان باتوں کو بھی دین مسیح میں داخل کردیا جو صریحاً ان کے دین کے خلاف تھیں۔ جبکہ سیدنا و مولانا محمد رسول اللہﷺ کے امتی آپ سے پہلے کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے، بلکہ ان کی اکثریت، آپ ہی کی بدولت حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، توراة انجیل اور زبور پر ایمان لائے، کیونکہ آپ نے انہیں تمام گذشتہ انبیا پر ایمان لانے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پرنازل شدہ کتابوں کو تسلیم کرنے کا حکم دیا اور انہیں انبیا کے درمیان تفریق کرنے سے روکا، آپ جس کتاب کو لے کر مبعوث ہو ئے ہیں، اس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿قولوا ءامَنّا بِاللَّهِ وَما أُنزِلَ إِلَينا وَما أُنزِلَ إِلىٰ إِبر‌ٰ‌هـۧمَ وَإِسمـٰعيلَ وَإِسحـٰقَ وَيَعقوبَ وَالأَسباطِ وَما أوتِىَ موسىٰ وَعيسىٰ وَما أوتِىَ النَّبِيّونَ مِن رَ‌بِّهِم لا نُفَرِّ‌قُ بَينَ أَحَدٍ مِنهُم وَنَحنُ لَهُ مُسلِمونَ ١٣٦ فَإِن ءامَنوا بِمِثلِ ما ءامَنتُم بِهِ فَقَدِ اهتَدَوا ۖ وَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّما هُم فى شِقاقٍ ۖ فَسَيَكفيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّميعُ العَليمُ ١٣٧ ﴾... سورة البقرة

"تم کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس کلام پر بھی جو ہماری طرف نازل ہوا اور اس پر بھی جو ابراہیم،اسماعیلاور اسحاق و یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف نازل ہوا اور اس پر بھی جو موسیٰ و عیسیٰ کو عطا ہوا اور اس پر بھی جو تمام انبیا اپنے ربّ کی طرف سے دیئے گئے۔ ہم ان کے درمیان کسی طرح کی تفریق نہیں کرتے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں۔ اگر وہ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے تو وہ ہدایت یافتہ ہوگئے اور اگر وہ پھر جائیں تو وہ سرسرا کم بختی میں ہیں اور عنقریب اللہ ہی ان سے نپٹے گا اور وہ سننے او رجاننے والا ہے۔"

ایک او رمقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ءامَنَ الرَّ‌سولُ بِما أُنزِلَ إِلَيهِ مِن رَ‌بِّهِ وَالمُؤمِنونَ ۚ كُلٌّ ءامَنَ بِاللَّهِ وَمَلـٰئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُ‌سُلِهِ لا نُفَرِّ‌قُ بَينَ أَحَدٍ مِن رُ‌سُلِهِ ۚ وَقالوا سَمِعنا وَأَطَعنا ۖ غُفر‌انَكَ رَ‌بَّنا وَإِلَيكَ المَصيرُ‌ ٢٨٥ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها ۚ لَها ما كَسَبَت وَعَلَيها مَا اكتَسَبَت ۗ رَ‌بَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا ۚ رَ‌بَّنا وَلا تَحمِل عَلَينا إِصرً‌ا كَما حَمَلتَهُ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِنا ۚ رَ‌بَّنا وَلا تُحَمِّلنا ما لا طاقَةَ لَنا بِهِ ۖ وَاعفُ عَنّا وَاغفِر‌ لَنا وَار‌حَمنا ۚ أَنتَ مَولىٰنا فَانصُر‌نا عَلَى القَومِ الكـٰفِر‌ينَ ٢٨٦ ﴾... سورة البقرة

"رسول اس چیز پرایمان لایا جو اس پر ا س کے ربّ کی طرف سے نازل ہوا او رموٴمنین بھی، وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے،اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، اے ہمارے ربّ ہم تجھ سے مغفرت کے طلبگار ہیں اور تیری طرف لوٹنا ہے... اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر (شرع کا بوجھ اٹھانے کی) تکلیف نہیں دیتا، اس کے لئے وہی ہے جو ا س نے کمایا اور اس پر اتنا ہی (بار) ہے جتنا اس نے کمایا... اے ہمارے ربّ! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کربیٹھیں تو ہمارا موٴاخذہ نہ فرما او رہم پر اس طرح بوجھ نہ ڈال جس طرح تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا۔ اے ہمارے ربّ! ہمیں اس بوجھ کے اٹھانے کی تکلیف نہ دے جس کی ہم میں طاقت نہیں ہے اور ہمیں معاف فرما او رہمیں بخش دے او رہم پر رحم فرما تو ہمارا مولیٰ ہے، تو کافروں کی قوم پر ہماری نصرت فرما"

(ماخوذ از الجواب الصحيح لمن بدّل دين المسيح... امام ابوالعباس احمد بن عبدالحلیم ابن تیمیہ )

٭٭٭٭٭