ریفرنڈم قومی اور دینی حلقوں کی نظر میں !

صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف نے بالآخر مزید پانچ سال کے اقتدار کے لیے ۳۰/اپریل ۲۰۰۲ء کو ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریفرنڈم ہی قومی ذرائع ابلاغ کا اہم ترین موضوع بنا ہوا ہے۔جنرل پرویز مشرف عوامی حمایت کے حصول کے لیے ۹/اپریل سے لاہور میں ایک 'عوامی' جلسے سے اپنی ریفرنڈم مہم کا آغاز کر چکے ہیں۔اب تک وہ گوجرانوالہ ،بنوں ،ٹھٹھہ ، ملتان اور دیگر مقامات پر جوشِ خطابت کے مظاہرے کر چکے ہیں۔ ریفرنڈم کی مخالفت اور حمایت میں بھی خوب بازار گرم ہے۔اے آر ڈی نے جناب مشرف کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ۲۷/ اپریل کو مینارِ پاکستان پر جوابی جلسہ کا اعلان کر دیا ہے۔ قومی امور اور حکومتی پالیسیوں کے بارے میں عوامی رائے جاننے کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد جدید دور کی جمہوری روایات سے متصادم نہیں ہے ،مگر درج ذیل وجوہات اور دلائل کی بنیاد پر موجودہ حکومت کی طرف سے ریفرنڈم کے انعقاد کی حمایت نہیں کی جاسکتی :

(1) دورِ حاضر کی جمہوری ریاستوں کی تاریخ شاہد ہے کہ ریفرنڈم ہمیشہ کسی قومی مسئلے کے متعلق حکومتی پالیسیوں کی عوامی حمایت جاننے کے لیے منعقد کرائے جاتے ہیں۔سب سے پہلے ریفرنڈم کا خیال تھامس جینوسن نے پیش کیا تھا جو امریکہ کی آزادی کی تحریک میں صف ِاوّل کے رہنما ا ور بعد میں امریکہ کے دوسرے صدر بھی منتخب ہوئے۔ انہوں نے اس وقت کی برطانوی شہنشاہیت کو امریکہ کو آزادی دینے کے متعلق امریکی عوام سے ریفرنڈم کرانے کا تصور پیش کیا تھا۔ یورپ کے دیگر ممالک بالخصوص سوئٹزرلینڈ میں بارہا ریفرنڈم کرایا جا چکا ہے۔

۱۹۶۸ء میں فرانس کے صدر ڈیگال کو جس ریفرنڈم کے متعلق شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس کا تعلق بھی صدارتی انتخاب سے نہیں تھا۔ اس ریفرنڈم میں بھی انہوں نے الجزائر کو آزادی دینے یا نہ دینے کے متعلق عوام کی رائے طلب کی تھی۔ وہ بذاتِ خود الجزائر کو آزادی دینے کے حق میں تھے مگر فرانسیسی عوام اس پنجہ استبداد کو ڈھیلا کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔صدر ڈیگال نے ریفرنڈم میں شکست ہونے پر خود ہی حکومت سے استعفیٰ دے دیا، اگرچہ آئینی ماہرین نے یہ رائے دی تھی کہ وہ بطورِ صدر اپنا عہدہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔

برصغیر کی تقسیم کے وقت صوبہ سرحد اور مشرقی بنگال کے اضلاع سلہٹ میں ریفرنڈم کرایا گیا تھا۔ ایوب خان نے انتخابی کالج کے ذریعے اپنے آپ کو جس انداز سے صدر منتخب کرایا تھا ، اسے تکنیکی طور پر ریفرنڈم قرار دینا متنازع فیہ امر ہے۔ صدر ضیاء الحق مرحوم نے ۱۹/فروری ۱۹۸۴ء کو جو ریفرنڈم کرایا تھا، اس میں بھی بنیادی سوال یہی تھا کہ کیا عوام صدر ضیاء الحق کی 'اسلامائزیشن' کی پالیسی کو پسند کرتے ہیں یا نہیں؟ اس میں فتح کے بعد ان کا اپنے آپ کو مزید پانچ سال کے لیے صدر منتخب سمجھ لینا محض اس ریفرنڈم کا خود ساختہ نتیجہ تھا۔ یورپ اور امریکہ کی پوری تاریخ میں ایک بھی مثال نہیں ملتی جس میں کسی صدر نے اپنے عہدہ کی میعاد بڑھانے کے لیے ریفرنڈم کا سہارا لیا ہو۔

(2) ۱۹۷۳ء کے آئین پاکستان میں صدارتی انتخاب کے لیے ایک واضح طریقہ کار موجود ہے۔ آئین کے آرٹیکل ۴۱ (۳) کی رو سے صدر کاانتخاب ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور سینٹ کے مشترکہ ووٹوں کی اکثریت کی بنیاد پر ہی ہو سکتا ہے۔

ریفرنڈم کاطریقہ آرٹیکل ۴۸ (۶) میں درج ذیل الفاظ میں ملتا ہے :

" اگر کسی بھی وقت صدر، اپنی صوابدید کے تحت یا وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر یہ مناسب سمجھتا ہے کہ قومی اہمیت کے کسی مسئلہ پر ریفرنڈم کرایا جائے تو صدر اس مسئلے کو ایک سوال کی صورت میں، جس کاجواب 'ہاں' یا 'نہیں'میں ہی دیا جاسکتا ہو، ریفرنڈم کے حوالہ کر سکتا ہے۔"

آئین کے آرٹیکل ۴۸ کی ذیلی شق نمبر ۶ واحد شق ہے جس میں ریفرنڈم کا ذکر ملتا ہے۔ یہاں یہ نشان دہی بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ اس شق کو بھی سابق وزیر اعظیم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپریل ۱۹۷۷ء میں اس وقت آئین میں ساتویں ترمیم کے ذریعے متعارف کرایا تھا جب وہ ۱۹۷۷ء کا الیکشن جیت چکے تھے مگر حزبِ اختلاف اس انتخاب کے نتائج تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی۔قومی اتحاد نے زبردست احتجاجی تحریک شروع کر رکھی تھی، اس وقت کے وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ نے بھٹو صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ آئین میں ترمیم کے ذریعے ریفرنڈم کرادیا جائے تا کہ حزبِ اختلاف کی طرف سے دوبارہ انتخاب کے مطالبہ کی تکمیل سے آئینی طور پر بچا جاسکے۔

اب ذرا غور کیجئے، آرٹیکل ۴۸(۶) میں صدارتی انتخاب یا صدر کی تعیناتی یا صدارتی عہدہ پر مزید مدت کے لیے برقرار رہنے کا اشارتاً بھی ذکر نہیں ملتا۔ایک نکتہ اور بھی غور طلب ہے ، وہ یہ ہے کہ ریفرنڈم کرانے کے لیے آئینی طور پر ایک جائز صدر کا پہلے سے موجود ہوناضروری ہے کیونکہ آئین کی رو سے ایک پہلے سے موجود صدر ہی کسی قومی مسئلے پر ریفرنڈم کراسکتا ہے ، یہ نہیں کہ ایک پی سی او یا آئین سے ماورا کسی اور طریقہ سے منصب ِصدارت پر فائز ایک شخص پہلے تو ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آئینی حیثیت کو جوا ز عطا کر دے اور بعد میں بزعم خویش ایک آئینی صدر کی حیثیت سے اسی آرٹیکل کی رو سے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی قومی مسئلہ پر ریفرنڈم کرانے کا اہتمام بھی کرے۔ ان دلائل کی بنیاد پر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ۳۰ /اپریل کو ریفرنڈم کرانے کا اعلان آئین کی مذکورہ شق سے واضح انحراف بلکہ آئین سے ماورا اِقدام ہے۔ اگر وہ مزید پانچ سال کے لیے عہدہٴ صدارت پر فائز رہناچاہتے ہیں تو انہیں آئین کے آرٹیکل ۴۱ میں مذکورہ طریقہ کار کو اختیار کرنا چاہیے۔

(3) جنرل پرویز مشرف اپنی پریس کانفرنسوں اور عوامی جلسوں میں بارہا یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ ریفرنڈم کا اعلان انہوں نے آئینی ماہرین سے مشورے کے بعد ہی کیا ہے۔ مگر یہ آئینی ماہرین کون ہیں ؟ اس کے متعلق سابق وزیر اطلاعات اور معروف صحافی مشاہد حسین کہتے ہیں :

" یہ محض حادثہ نہیں کہ جنرل مشرف کی پشت پر وہی قانونی دماغ بر سر عمل ہے جس نے جنرل ضیاء اور اس سے پہلے جنرل ایوب خان کی 'خدمت گزاری' کی تھی اور یہ شریف الدین پیرزادہ ہیں جن کی عمر نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔" (نوائے وقت: ۲/اپریل ۲۰۰۲ء)

اس ریفرنڈم کے آئینی جواز کے متعلق کسی عام آدمی یا حکومتی ترجمان کی بجائے حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے بطورِ چیف جسٹس ریٹائر ہونے والی دو اہم شخصیات جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی اور سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی آرا زیادہ وقیع،قابل قدر اور وزنی ہیں۔ان دونوں حضرات نے بیان دیا ہے کہ آئین میں صدارتی عہدہ پر فائز رہنے کے لیے ریفرنڈم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں ایک واضح طریقہ موجود ہے جس کے تحت صدر کے الیکشن کا حلقہ صرف صوبائی اسمبلیاں اور سینٹ ہیں۔( نوائے وقت: ۵/اپریل)

جسٹس سجا دعلی شاہ تو میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں کے خلاف فیصلے دے چکے ہیں، لہٰذا ان کی رائے کے متعلق کسی قسم کے 'سیاسی تبصرہ' کا خیال لانا بھی مشکل ہے۔ مزید برآں پاکستان بار کونسل اور وکلا کی دیگر تمام نمائندہ تنظیموں نے اس ریفرنڈم کوآئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے اس ریفرنڈم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ ایک اور رِٹ درخواست لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی گئی ہے جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے ۱۹۹۸ء میں دائر کی گئی درخواست گزار کی ایک رِٹ پٹیشن پر قرار دیا تھا کہ ریفرنڈم کے ذریعے صدر کے انتخاب کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ درخواست گزار نے یہ بھی موقف اختیار کیا ہے کہ جنرل مشرف کا فیصلہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر چہ تازہ رِٹ درخواستوں پر ابھی (۲۲/اپریل) تک اعلیٰ عدالتوں نے فیصلہ نہیں دیا مگر لاہور ہائی کورٹ کے محولہ بالا فیصلہ کی روشنی میں ریفرنڈم کی آئینی حیثیت کا تعین کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہونا چاہیے !!

(4) ریفرنڈم کی آئینی حیثیت کے متعلق خو د جنرل پرویز مشرف کا اعتماد بھی متزلزل ہو گیا ہے ۱۳/اپریل کو کوئٹہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا :" اگر ریفرنڈم غیر آئینی ہے تو فیصلہ عدالت کرے گی۔ " اس غیر یقینی صورتحال کا تقاضا تو یہی تھا کہ عدالت کا فیصلہ آنے تک ریفرنڈم مہم روک دی جاتی کیونکہ اگر عدالت اسے غیر آئینی قرار دیتی ہے تو ریفرنڈم مہم پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کا نقصان قوم کوبرداشت کرنا پڑے گااور قوم انتشار کا شکار بھی رہے گی۔

جس بات کے متعلق خود صدر صاحب کو بھی انشراحِ صدر نہیں ہے ، اس کے متعلق جوش وخروش سے انتخابی مہم چلانے کے فیصلے کو صائب الرائے اور حکمت ودانش کے تقاضوں کے عین مطابق قرار دینا مشکل ہے۔ صدر صاحب بلاوجہ اپنا اور پوری قوم کا وقت ایک غیر یقینی مہم میں صرف کر رہے ہیں۔سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کو جو تین سال کا مینڈیٹ دے رکھا ہے، اس میں ریفرنڈم کے ذریعے طولِ صدارت کاکوئی تذکرہ نہیں ہے۔ یہ مینڈیٹ ایک اعتبار سے سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ہے۔ریفرنڈم اس مینڈیٹ سے متجاوز اقدام ہے۔ اس مینڈیٹ کی رو سے عہدئہ صدارت کو طو ل دینے کا ہرگز کوئی جواز نہیں ہے۔ عدالت تو پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے، اب ایک نئے سرے سے عدالت کو کسی دوسرے فیصلے کا انتظار بظاہر عجیب لگتا ہے !!

(5) جنرل پرویز مشرف نے ریفرنڈم کے متعلق پہلی مرتبہ ۵/اپریل کو اپنے طویل ترین خطاب میں کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ اس تقریر میں انہوں نے عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی کہ آخر انہوں نے ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیوں کیا ہے؟ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا:

"اے پاکستان کے لوگو! مجھے بتایئے، آپ کو میری ضرورت ہے یا نہیں ؟ مجھے یقین تو ہے لیکن جب آپ مجھے بتائیں گے تو میرے میں یقین اور طاقت بڑھے گی۔مجھے آپ کی طاقت چاہئے۔دنیا کو پتہ ہونا چاہیے ، بالخصوص ان لوگوں کو جو پاکستان کو عدمِ استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں کہ میں اکیلا نہیں ہوں میرے پیچھے پاکستان کے ۱۴کروڑ عوام ہیں۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ریفرنڈم ہو گا ... میں تمام اخبارات کو دیکھ رہا ہوں، زیادہ تر لوگ اس کے خلاف لکھ رہے ہیں۔مجھے معلوم ہے، پھر میں کیوں اڑا ہوا ہوں؟میں ریفرنڈم کیوں کرانا چاہ رہا ہوں؟ مجھے یقین چاہیے کہ پوری قوم میری ا صلاحات کے تسلسل کے حق میں ہے؟ سب سے بڑی ریفارم لوکل گورنمنٹ کا قیام، اقتصادی بحالی اور Diplomatic Standing اور جو کچھ ہماری Achievements ہیں ، ان کے تسلسل کے حق میں، مجھے یقین چاہیے تا کہ مجھے اور پوری دنیا کو یقین ہو۔ مجھ میں اس سے ذاتی طور پر خود اعتمادی آئے گی۔ایک اخلاقی بلندی ملے گی کہ میرے ساتھ پاکستانی عوام آپ سب ہیں۔اگر ریفرنڈم ہو گیا تو معاشی فضا میں استحکام، سیاسی عدمِ ا ستحکام میں کمی اور ترقی کی فضاپیدا ہو گی۔حقیقی جمہوریت آئے گی۔اسمبلیوں میں بہتر ماحول ہو گا۔"

( یہ جنرل صاحب کی باتوں کا خلاصہ ہے، الفاظ ان کے ہی مگر بعض الفاظ کا اردو ترجمہ کر دیا گیا ہے۔)

اب ذرا دیکھئے ریفرنڈم کے لیے سوال کس اسلوب میں وضع کیا گیا ہے۔

سوال : "مقامی حکومت کے نظام کی بقا، جمہوریت کے قیام، اصلاحات کے استحکام وتسلسل فرقہ واریت اور انتہا پسندوں کے خاتمے اور قائد اعظم کے تصور کی تکمل کے لئے، کیا آپ صدر جنرل پرویز مشرف کو آئندہ پانچ سال کے لیے صدرِ پاکستان بنانا چاہتے ہیں ؟ ہاں / نہیں

ہر مطلق العنان حکمران کی طرح جنرل مشرف بھی اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتے ہیں اور اپنی 'اصلاحات'کو بہت بڑے انقلابی اور فلاحی اقدامات سے تعبیر کرنے کی خوش اعتقادی کا شکار ہیں۔ ایک تو اقتدار میں رہنے کی شدید خواہش اور اس پر موقع پرست خوشامدیوں کا ہجومِ کثیر، حکمرانوں کو حالات کی حقیقت پسندانہ تصویر دیکھنے سے قاصر رکھتا ہے۔جنرل مشرف اگر محض اپنی اصلاحات اور پالیسیوں کو تسلسل عطا کرنے کے لیے مزید پانچ سال کے لیے صدر رہنے کا جواز بتلاتے ہیں، تو اہل پاکستان کی خاموش اکثریت ان اصلاحات اور انقلابی اقدامات کے تسلسل کے محض خیال ہی کو ایک خوف ناک خواب (Nightmare)سمجھتی ہے،مگر بدقسمتی سے ہمارے ذرائع ابلاغ نہ تو اس خاموش اکثریت کے نقطہ نظر کو جائز مقام دیتے ہیں او رنہ ہی حکمران طبقہ اس خاموش اکثریت کی بات کو سننے پر آمادہ نظر آتا ہے کیونکہ حقائق کے آئینے میں جھانکنے کا حوصلہ بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف اپنے آپ کو حقیقت پسند سمجھتے ہیں اور دوسروں کے نقطہ نظر کو تحمل سے سننے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، یہ بات ان کی طبیعت پر شاید ناگوار گزرے گی مگر ہم خاموش اکثریت کی ترجمانی کرتے ہوئے درج ذیل معروضات ان کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں

(i) موجودہ حکومت کی بیشتر پالیسیوں کا ماخذ ومصدر اسلامی تعلیمات کی بجائے مغرب کی لبرل اقدار ہیں، تہذیب ِمغرب کی اندھی تقلید کسی اسلامی معاشرے میں اصلاحات کی بنیاد قرار نہیں دی جاسکتی۔ جنرل صاحب اس ملک میں جس طرح کا انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں اس کی روح اسلامی شریعت اور مسلم ثقافت سے ماخوذ نہیں، بلکہ اس کے پیچھے یورپی لبرل ازم اور سیکولرازم کے اساسی اصول کارفرما نظر آتے ہیں ، اسلامی قانون وشریعت کے حدود اور وسعتوں کے متعلق موجودہ حکومت کا عمومی فہم اصلاح طلب ہے۔

(ii) اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کو موجودہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے مگر اس نئے نظام میں جس طرح عورتوں کی شراکت کے تناسب کوقانونی تحفظ عطا کیا گیا ہے، اس کی تائید اسلامی شریعت تو کجا مغرب کے مروّجہ سیاسی نظام سے بھی نہیں ملتی۔ دنیا کی کوئی جمہوری،اشتراکی،سیکولر اور مسلم ریاست نہیں ہے ، جہاں عورتوں کو ۳۳ فیصد تناسب حاصل ہو۔اسلامی تعلیمات کی جس قدر بھی لبرل اور ترقی پسندانہ تعبیر وتشریح کی جائے، مگر یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اسلام نے عورت کا اصل مقام اس کے گھر کو ہی قرار دیا ہے۔ اسلام خاندانی نظام کی تباہی کی قیمت پر عورتوں کی سیاسی اُمور میں شرکت کی اجازت نہیں دیتا۔

(iii) مخلوط انتخابات کا نفاذ بھی نظریہٴ پاکستان کی فکری اساس سے متصادم ہے۔ اس پالیسی میں اقلیتوں کا حقیقی مفادبھی نظر نہیں آتا، بظاہر ایک 'مخصوص اقلیت' کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے اس طریقہ کار کو نافذ کیا گیا ہے۔پاکستان کا قیام 'متحدہ قومیت'کی بجائے مسلم قومیت کے تصور پر عمل میں آیا تھا ، اور یہ طریقہ اس اُصول سے متصادم ہے۔

(iv) ضلعی سطح پر نئے نظام کا اجرا بلاشبہ ایک اہم انتظامی تبدیلی ہے ، مگر اس تبدیلی کا عوام کو خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے نہ انصاف کی فراہمی میں کوئی بہتری آئی ہے۔ نیا نظام بے حد پیچیدہ اور مبہم ہے۔ ہر طرف شدید ' کنفیوژن' نظر آتی ہے۔بیشتر اضلاع میں ضلعی ناظموں نے اپنی حمایت کرنے والوں کے درمیان ترقیاتی فنڈز تقسیم کئے ہیں۔ اس سے ان کے مخالفین میں شدید اضطراب اور عوام میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ صوبائی حکومت اور ضلعی حکومتوں کے درمیان نئے ڈھانچے کے مطابق اختیارات کی مکمل تقسیم وتفویض ابھی تک پایہٴ تکمیل تک نہیں پہنچ پائی۔ اس نظام کی کامیابی کے امکانات مخدوش ہیں۔

حکومت ِپاکستان نے اب تک آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے استحصالی اداروں کی ہدایات کی روشنی ہی میں اقتصادی پالیسیاں وضع کی ہیں۔ آئے دن یوٹیلیٹی بلوں میں اضافہ، سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں میں اضافہ ،تیل اور گیس کی قیمتوں میں بار بار اضافہ، اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ،حال ہی میں ادویات پر ٹیکس وغیرہ جیسی پالیسیوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔غذا ئی اجناس ، سبزیاں ،دالیں اور دیگر عام اشیائے صرف کا حصول ایک عام آدمی کے لیے بے حد مشکل ہو گیا ہے۔گزشتہ دو برسوں میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں ۵۰ فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ صنعتوں میں سرمایہ کاری برائے نام رہ گئی ہے۔ بیمار صنعتوں کو حکومت نے کوئی ریلیف نہیں دیا۔غرض ہر اعتبار سے موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیاں نتائج دینے میں ناکام رہی ہیں ؟کیا یہی وہ پالیسیاں ہیں جن کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے جنرل پرویز مشرف قوم سے پانچ سال کی صدارت کا تقاضا کر رہے ہیں...!! ؟

(vi) جنرل صاحب ریفرنڈم کے ذریعے عوام سے 'طاقت' لینا چاہتے ہیں ؟حالانکہ ہر صاحب ِفہم وذکا ہر طرح سمجھتا ہے کہ ایک فوجی حکمران کی اصل طاقت 'عوام' نہیں بلکہ فوج ہی ہوتی ہے جس کی قوت سے وہ عوام پر حکومت کرتا ہے۔ایک فوجی حکومت کو تسلسل عطا کرنے کیلئے عوام کی طاقت کا حصول بظاہر عجیب منطق ہے۔

(v) ریفرنڈم کے لیے وضع کردہ سوال میں ' جمہوریت کے قیام' کو بطورِ جواز کے شامل کیا گیا ہے۔ کیا ریفرنڈم کے بغیر ' جمہوریت کا قیام' عمل میں نہیں لایا جاسکتا؟ سپریم کورٹ نے تین سال کے اندر انتخابات کرا کر اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے کا جو مینڈیٹ دیا ہے، اس پر اگرعمل درآمد کیا جائے تو جمہوریت کا قیام بڑی آسانی سے عمل میں لایاجاسکتا ہے۔ پھر ایک فوجی حکمران جو وردی سے باہر بھی آنے کے لیے تیار نہیں، کے ذریعے جمہوریت کا قیام عمل میں لانے کامنصوبہ کیا عقلی اور منطقی طور پر درست ہے ؟ عوام اَن پڑھ ضرور ہیں ،مگر اتنی سادہ سی بات کو سمجھنا ان کے لیے کیونکر مشکل ہو سکتا ہے ؟

(vi) ریفرنڈم کے سوال میں 'قائد اعظم کے تصور' کی تکمیل کے لیے بھی صدر مشرف کی موزونیت کے متعلق پوچھا گیا ہے ؟ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ قائد اعظم کا وہ کونسا تصور ہے جس کو صرف صدر مشرف ہی عملی جامہ پہنا سکتے ہیں ، کوئی دوسرا پاکستانی اس کا اہل نہیں ہے۔گزشتہ چند برسوں سے ایک مخصوص سیکولر گروہ 'قائد اعظم کے تصور'کی مخصوص تعبیر پیش کرتا رہا ہے، اگر اس کوتسلیم کر لیا جائے تو پاکستان ایک سیکولر ریاست بن کر رہ جائے گی۔ حالانکہ قائد اعظم نے واضح طور پر پاکستان کو اسلامی اصولوں کے لیے تجربہ گاہ قرار دیا تھا۔

(v) جہاں تک 'فرقہ واریت اور انتہا پسندی ' کا تعلق ہے ، بلاشبہ فرقہ واریت اور انتہا پسندی درست قرار نہیں دی جاسکتی مگر جس انداز میں امریکیوں کے دباوٴ کے زیر اثر بعض اسلامی تنظیموں اور دینی اداروں پر'کریک ڈاوٴن' کیا گیا، اسے ایک اسلامی مملکت میں نرم ترین الفاظ میں ا فسوس ناک قرار دیا جائے گا۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ انتہا پسندی صرف دین پسندوں میں ہے حالانکہ لا دینیت پسندوں میں بھی انتہا پسندی کم نہیں ہے ، مگر اس طرف توجہ نہیں دی جاتی۔حکومت کی جارحانہ پالیسی کی وجہ سے محض فرقہ وارانہ تنظیمیں ہی نہیں، وہ دینی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں بھی سخت دہشت زدگی اور اعصابی دباوٴ کا شکار ہیں جن کا فرقہ واریت سے دور دور کاتعلق بھی نہیں ہے۔ ان بے ضرر تنظیموں میں بھی شدید گھٹن اور اضطراب محسوس کیا جارہا ہے۔ دینی اداروں کو سخت ضابطوں میں جکڑنے کی پالیسی اپنائی جاتی ہے مگر این جی اوز کو کھلی چھٹی دی جاتی ہے۔نئی مساجد کے قیام پر پابندی عائد گی گئی ہے، مگر اس ملک میں فحاشی پھیلانے والے کلب اور طوائفوں کے اڈّے بغیر کسی خوف کے اپنا کام کر رہے ہیں۔

(7) دینی، سیاسی جماعتیں اور ذرائع ابلاغ اگر کسی قوم کی سوچ کے آئینہ دار کہلانے کے مستحق ہیں تو یہ بات اب نہایت واضح طور پر سامنے آگئی ہے کہ پاکستان کے عوام مذکورہ ریفرنڈم کے حق میں نہیں ہیں۔ ملک کی اعتدال پسند، دائیں بازو اور بائیں بازو کی تمام قابل ذکر جماعتوں مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) ، جماعت اسلامی،اے این پی، جمہوری وطن پارٹی، ایم کیو ایم ، پونم ، جمعیت علمائے اسلام ، جمعیت علمائے پاکستان ، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے علاوہ اے آر ڈی اور متحدہ مجلس عمل نے بھی اس ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ جن سیاسی جماعتوں نے ریفرنڈم کی حمایت کا اعلان کیا ہے ان کی عوام میں پذیرائی نہ ہونے کے برابر ہے۔مثلاً تحریک ِانصاف ، ملت پارٹی اور پروفیسر طاہر القادری کی عوامی تحریک۔ پاکستان مسلم لیگ کا ایک حصہ (ہم خیال گروپ) قائد اعظم کے نام سے ،اگرچہ اب بھی عوام میں کسی حد تک مقبولیت رکھتا ہے ، مگر اسے شروع ہی حکومتی پارٹی کہا جارہا ہے۔جبکہ عوام کی نمائندہ جماعتیں اس قدر کثیر تعداد میں ریفرنڈم کی مخالفت کر رہی ہیں ، تو ریفرنڈم ایک مذاق بن کر رہ جائے گا !!

(8) ریفرنڈم جس انداز میں کرانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں اس کے بعد اب کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ر ہتی کہ یہ محض تکلف ہی ہو گا، اس کو ریفرنڈم کا نام دینا مشکل ہو گا۔ نئے اعلان کے مطابق پورے پاکستان کو ووٹرز کے لیے حلقہ قرار دیاگیا ہے۔قواعد میں اس طرحکی نرمی پیدا کرنے کا صاف مطلب ہے کہ حکومت دل ہی دل میں خدشات کا شکار ہے۔ ایک شخص اگر دس جگہوں پر اپناووٹ ڈالنا چاہے گا، تو اس کو چیک کرنا مشکل ہوگا۔ پھر جب مخالفت میں کوئی امیدوار ہی نہیں ہوگا، کسی کو شناختی کارڈ پرسوراخ لگانے یا چیک کرانے کی ضرورت ہی کیوں پڑے گی؟ جو شخص یہ کہے گا کہ میں ۱۸ سال کا ہوں، وہ بلا رکاوٹ ووٹ کا حق استعمال کرسکے گا۔ پھر ریفرنڈم ڈیوٹی پر موجود سرکاری اہل کار بھی مخالف امیدوار کی عدم موجودگی میں اپنی صوابدید کا بھرپور استعمال کرسکیں گے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ریفرنڈم پر تبصرہ کرتے ہوئے عبدالقادر حسن صاحب نے لکھا تھا کہ صبح ۱۱ بجے تک یہ منصفانہ تھا، ۱۱ بجے کے بعد آزادانہ ہوگیا۔ ارشاد حقانی صاحب جنرل مشرف کے ریفرنڈم کے بارے میں لکھتے ہیں :

"اب جو ریفرنڈم ہونے جارہا ہے، یہ صبح سات بجے ہی سے آزادانہ ہوگا۔ نہیں، مادر پدر آزاد ہوگا۔" (جنگ: ۱۱/ اپریل)

ایسا ریفرنڈم آخر کیونکر قابل اعتبار سمجھا جاسکتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم میں بڑی مشکل سے ۱۰ فیصد ووٹ پڑے تھے، مگر الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق ۶۵ فیصد ووٹرز نے حصہ لیا اور ان میں سے ۹۸ فیصد نے ضیاء الحق کی حمایت میں اپنی رائے دی۔ اب دیکھتے ہیں ۳۰/ اپریل کو کیا اعدادوشمار آتے ہیں۔ مگرایک بات تو طے شدہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت اس بے مقصد سیاسی شغل سے لاتعلق ہی رہے گی۔ ایسے ریفرنڈم سے جنرل پرویز مشرف بزعم خویش اگلے پانچ سال کے لئے صدر تو منتخب ہوجائیں گے مگر وہ جس اخلاقی بلندی اور عوام کے اعتماد کا حصول چاہتے ہیں، اس سے بدستور محروم ہی رہیں گے۔ پھر ایسی کارروائی کا فائدہ ہ ہی کیا ہے؟

(9) جنرل مشرف اگر اخبارات کا بنظر غائر مطالعہ فرما رہے ہیں یا ا ن کے مقربین اگر اخبارات میں شائع ہونے والے اداریوں، مضامین، کالموں اور خبروں سے انہیں ایماندارانہ طور پر باخبر رکھ رہے ہیں، توانہیں یہ دیکھ کر یقینا پریشانی ہوگی کہ بہت سے دانشور اور اخبارات جو ان کی امریکہ سے تعاون اور جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی کی پالیسی کی اب تک حمایت کرتے آئے ہیں، وہ بھی اب ریفرنڈم کے خلا ف اپنی آرا کا اظہار کررہے ہیں۔ روزنامہ 'ڈان' جو مشرف حکومت کی لبرل پالیسی کا ہمیشہ حامی رہا ہے، ۷/اپریل کے اداریے میں واضع طور پر ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دے چکا ہے۔ 'دی فرائیڈے ٹائمز' جس کے ایڈیٹر نجم سیٹھی جنرل مشرف کے پرجوش حامیوں میں ہیں، کے ۵تا۱۱/اپریل کے شمارے میں تین کالم ریفرنڈم کے خلاف شائع ہوئے ہیں۔ اردو اخبارات کے کالم نگاروں میں نمایاں ترین مثال جناب ارشاد احمد حقانی کی ہے، جنہوں نے متعدد کالم ریفرنڈم کے خلاف لکھے ہیں۔ ان کی مایوسی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک کالم کا عنوان "حیران ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں!" رکھا ہے۔ اس کالم کا آغاز یوں فرماتے ہیں:

"آج قلم حیران ہے، کیا لکھے کیا نہ لکھے؟ فی الواقع پہلی دفعہ مجھ پر 'گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل'کی کیفیت آرہی ہے۔ ریفرنڈم کے ڈرامے کا ہر سین پہلے سین سے زیادہ ناقابل یقین، دل شکن، اور حیران کن ثابت ہورہا ہے۔" (جنگ:۱۱/اپریل) اسی کالم میں مزید لکھتے ہیں :

"جن لوگوں نے بشمول میرے صدر مشرف سے یہ توقع وابستہ کر رکھی تھی کہ وہ ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے پر بہتر حاکم ثابت ہوں گے اور ان کے اقدامات اور فیصلوں سے صحت مند روایات قائم ہوں گی، تازہ واقعات سے ان کی مایوسی ناقابل فہم نہیں ہونی چاہئے۔ توقع یہ تھی جنرل مشرف حقیقی اور مثبت معنوں میں اپنے پیشرو فوجی حکمرانوں سے بہتر روایات قائم کریں گے لیکن افسوس کہ بعض حوالوں سے وہ ان کے ناقابل رشک ریکارڈ کو بھی پیچھے چھوڑتے جارہے ہیں۔"

وہ کس قدر افسردگی کا شکار ہیں، ذرا ان کے یہ جملے ملاحظہ کیجئے :

"غالب کی طرح میں بھی نوحہ گر رکھنے کا مقدور نہیں رکھتا، اسلئے خود ہی دل کو رو رہا ہوں اور جگر کوپیٹ رہا ہوں۔ ریفرنڈم پر مشرف حکومت کے اقدامات دیکھنے کے بعد میرا دل مجھ سے کہہ رہا ہے :

ایسا نہ ہو کہ یاس کے پتھر نصیب ہوں بہتر ہے آرزؤوں کی چادر لپیٹ لے! "

(10) اگر جنرل پرویز مشرف مزید پانچ سال رہتے ہیں تو آئین میں وسیع پیمانے پر ترامیم کئے جانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ جیسا کہ اعلان کیاجارہا ہے کہ آئین میں ترمیم کے ذریعے نیشنل سیکورٹی کونسل قائم کی جائے گی جس کے سربراہ صدرِ مملکت ہوں گے اور دیگر سروسز چیف اس کے ارکان ہوں گے۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ آئین کے شق ۵۸۔۲ب کوبحال کردیا جائے گا جس کی رو سے صدر کو پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو برخواست کرنے کا اختیار مل جائے گا۔ ان حالات میں صدر جنرل مشرف جو بیک وقت آرمی چیف رہیں گے، کا پلہ وزیراعظم کے مقابلے میں بہت بھاری ہوجائے گا۔ صدر اور نیشنل سیکورٹی کونسل کو پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے عہدہ پر واضح برتری حاصل ہوجائے گی۔ اگر یہ سب کچھ ہوتا ہے تو پاکستان میں بچی کچھی پارلیمانی جمہوریت بھی اپنا وقار قائم نہیں رکھ سکے گی۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیراعظم محض ایک کٹھ پتلی کی حیثیت اختیارکرلے گا۔

(11) باخبر حلقے جانتے ہیں کہ مشرف حکومت میں قادیانی اقلیت کو غیرمعمولی اثرورسوخ رہا ہے۔ کابینہ اور حکومت کے نہایت اہم عہدوں پر قادیانی اقلیت سے وابستہ افراد تعینات رہے ہیں۔ قادیانیوں نے ریفرنڈم کی باقاعدہ حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ ربوہ میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں فیصلہ کرتے ہوئے قادیانی قیادت نے کہا کہ" ملکی استحکام اور سا لمیت کے لئے مشرف حکومت کی حمایت ضروری ہے" (نوائے وقت: ۲۱/اپریل) قادیانی اس ملک کی سا لمیت اور استحکام سے کس حد تک مخلص ہیں، یہ بات بھی صیغہ راز میں نہیں ہے۔ محب ِوطن اور دین پسند حلقوں نے مشرف حکومت میں قادیانیوں کی غیر معمولی حیثیت پر ہمیشہ تشویش کا اظہار کیا ہے۔ قادیانی اُمت اور امت ِمسلمہ کے مفاد میں ہمیشہ ٹکراؤ اور تضاد رہا ہے، قادیانیوں کی شاید ہی کوئی پالیسی اور حکمت ِعملی ہو جسے ملت ِاسلامیہ کی تائید حاصل رہی ہو۔ اسی لئے جب قادیانی اُمت کی طرف سے ریفرنڈم کی حمایت کا اعلان ہوتا ہے تو دین پسند محب ِوطن حلقوں میں اس کے متعلق شکوک وشبہات کا جنم لینا ضروری ہے۔

ایک قادیانی دانشور خالد احمد جو اپنے لبرل، سیکولر اور ترقی پسند ہونے کا دھنڈورا پیٹتا ہے، نے اپنے تازہ ترین کالم میں جنرل مشرف کو صدر برقرار رکھنے کے لئے جن دلائل کا سہارا لیا ہے، اسے پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ ایک قادیانی دانشور اس ریفرنڈم کو کس انداز میں دیکھتا ہے؟ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ خالد احمد کو سی آئی اے کا قابل اعتماد ذریعہ (Source) سمجھا جاتا ہے۔ انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے متعلق خالد احمد کے گمراہ کن کالموں کو امریکی وزارتِ خارجہ اپنی رپورٹ کا حصہ بناتی ہے۔ یہ شخص قادیانیوں کا ذہین ترین دماغ سمجھا جاتاہے۔ بظاہر یہ اپنے آپ کو ایک وسیع المشرب، روشن خیال دانشور خیال کرتا ہے، مگر اس کا ہر ایک کالم ملت ِاسلامیہ ، دین اسلام اور پیغمبر اسلام کے متعلق زہر آلود مواد لئے ہوتا ہے۔ اس کا ہر کالم قادیانی مفادات کے بالواسطہ یا بلا واسطہ تحفظ کی کاوش پرمبنی ہوتاہے۔ کافی عرصہ تک خالد احمد فرنٹیر پوسٹ کا ایڈیٹر رہا ہے اور گذشتہ چار برس سے یہ دی فرائیڈے ٹائمز میں لکھ رہا ہے۔ ناموسِ رسالت کے تحفظ کے قانون یعنی ۲۹۵سی کے خلاف سب سے زیادہ جس صحافی نے پاکستان میں ہرزہ سرائی اور پراپیگنڈہ کیا ہے، وہ یہی خالد احمد ہے۔ طالبان حکومت کے خاتمہ اور پاکستان میں جہادی تنظیموں کی سرکوبی کے بعد اس دشمن رسول کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اپنے گذشتہ کالم میں اس نے قانونِ توہین رسالت (۲۹۵۔سی) کو ناپاک (Unholy)اور خوفناک ڈراؤنا (Draconion) قانون لکھا ہے۔ ( فرائیڈے ٹائمز، ۵ تا ۱۱/اپریل۲۰۰۲ء)

اس ہفت رو زہ کے ۱۹/ اپریل کے شمارے میں اس نے تفصیل سے وجوہات لکھی ہیں کہ جنرل مشرف کا صدر رہنا کیوں ضروری ہے۔ خالد احمد لکھتا ہے:

"نوازشریف اور اس کے خوفناک اسلامی 'اباجی' کے بغیر آنے والی نئی حکومت کا جنرل ضیاء الحق کے ماڈل کی طرف مراجعت اختیار کرنے کا اگرچہ کم امکان ہے۔ درحقیقت جنرل مشرف نفاذِ شریعت کے لئے آئین میں پندرہویں ترمیم کی طرح کی کسی بھی ترمیم کو روکنے کے لئے ضمانت کے طور پرکام کریں گے۔ وہ پاکستانی سیاست کو دوبارہ بنیاد پرستی اور دینی مدارس کے نصاب پر مبنی سیاسی نظریہ سے متاثر ہونے سے بھی بچائیں گے۔ ان کے ہونے سے اس بات کا امکان بھی نہیں رہے گا کہ کوئی بنیاد پرست گندے بوٹوں کے ساتھ جی ایچ کیو میں داخل ہوسکے۔ (یہ اشارہ غالباً ضیاء الحق کی طرف ہے) وہ مزید لکھتا ہے کہ

جہادی ملیشیا کو ابھی تک پوری طرح کچلا نہیں جاسکا۔ پاکستانی ریاست پر جہادیوں کا طویل اثر رہا ہے اور یہ ختم ہونے میں وقت لے گا۔ خالد احمد مزیداظہار خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ

عام طور پر پاکستانی آرمی جنرل مشرف کی طرح کا جرنیل پیدا نہیں کرتی۔ یہ زیادہ تر جنرل محمود خان سابق چیف آئی ایس آئی جیسے جرنیل ہی پیدا کرتی ہے۔ اس بات کا امکانِ غالب ہے کہ جو جنرل اس کے بعد آئیں گے وہ دنیا کے بارے میں پرانے نقطہ نظر کی طرف ہی لوٹ جائیں گے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم جنرل مشرف کو برقرار رکھیں، اس وقت تک جب تک کہ سڑا ہوا نظام ختم نہیں ہوجاتا اور نارمل حالات پیدا نہیں ہوجاتے۔ منتخب حکومت کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ آرمی کو اپنے ساتھ رکھے حتیٰ کہ وزیراعظم اس ملک میں نارمل حالات پیدا کریں․"(فرائیڈے ٹائمز)

خالد احمد نے پاکستان کو ایک سیکولر ریاست میں تبدیل کرنے کے لئے ضروری قرار دیا ہے کہ ریاستی معاملات اور سیاست سے جس قدر جلد ہوسکیں ملاؤں کو بے دخل کردیا جائے۔ اس نے 'اسلامائزیشن' کے اثرات کو زائل کرنے کی بھرپور وکالت بھی کی ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ حکومت امریکی دباؤ کے تحت آئین سے قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی ترمیم نکال دے گی۔ پاکستان میں امریکی سفیر وینڈی چیمبرلین نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ امریکہ سے آتے ہوئے اپنے ساتھ ۲۹۵۔سی کو ختم کرانے کا ایجنڈا لائی تھی۔ خالد احمد کا یہ کہنا کہ پاکستانی آرمی جنرل مشرف کی طرح کی جرنیل پیدا نہیں کرتی، بہت حد تک معنی خیز ہے!!

(12) مارشل لا اپنے مزاج کے اعتبار سے اینٹی کلچر (Anti-Culture) ہوتاہے۔ اس کا تسلسل قومی اخلاقیات اور جمہوری اقدار کو بالآخر تباہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ مارشل لا کے مزاج میں دھونس، تکبر، تحکمانہ انداز اور بے جا قوت کے استعمال کا داعیہ پایا جاتاہے۔آمریت کا ایک نقص یہ بھی ہے کہ 'انقلاب' لانے کی دھن میں قانون، دیرینہ روایات اور عوامی منشا کو نظر انداز کردیا جاتاہے۔ فوجی حکومت کے زیر اثر بنیادی حقوق اور سماجی آزادیوں سے کماحقہ استفادہ ممکن نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں پریس کو اگرچہ کسی حد تک آزادی میسر ہے مگر پھر بھی لکھنے والوں پر ایک انجانے خوف کا احساس طاری رہتا ہے۔ کالم نگاروں کی حیلہ جوئیاں، مضمون نگاروں کے اشارے کنارے، استعارات و ایمائیت، براہِ راست تنقید سے گریز، تنقید کے ساتھ تعریف کا امتزاج، اور ہلکے پھلکے طنز و ظرافت کا استعمال محض اختیاری معاملہ نہیں ہے، اس کے پیچھے ایک بے نام سا 'ابلاغی جبر'کارفرما نظر آتا ہے، جو چھپائے نہیں چھپتا۔ مسلسل دب کر لکھنے سے بالآخر اخلاقی کیریکٹر آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہوجاتاہے۔

ابھی چند روز پہلے جناب عطاء الحق قاسمی نے اپنے کالم میں لکھا کہ "اخبارات جو کچھ لکھنا چاہتے ہیں اس کا صرف دس فیصد لکھ پارہے ہیں، انہیں اپنی حدود کا بھرپور احساس ہے۔" اکیسویں صدی میں جہاں روشن خیالی اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتاہے، اس دور میں جب کہ جمہوریت کو کسی ملک کے 'مہذب' یا 'غیر مہذب' ہونے کا معیار گردانا جاتاہے، پاکستان جیسے ملک میں ایک فوجی حکومت کے تسلسل کے لئے ریفرنڈم کا انعقاد، ایک قومی بدنصیبی سے کم نہیں ہے!!

آج سے ۲۲ سال پہلے اگر صدر ضیاء الحق مرحوم کی طرف سے منعقد کردہ ریفرنڈم کا جواز نہیں تھا، تو آج حالات ریفرنڈم کے انعقاد کے لئے اس سے کہیں زیادہ غیر موزوں ہیں۔ آخر وہ کون سی لبرل ازم ہے جس میں غیر جمہوری حکومت کی گنجائش پیدا کی جاسکتی ہو؟ مارشل لا نہ اسلام کی رو سے کوئی پسندیدہ سیاسی طرزِ حکومت ہے اور نہ ہی جدید جمہوری نظام میں اس کو نگاہِ تحسین سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ امریکہ جیسے جمہوریت کے علمبردار ملکوں کے دوہرے معیارات اور منافقت ہے کہ وہ ایسے ممالک میں غیر جمہوری حکومتوں کی سرپرستی کرتے ہیں جو ان کے ایجنڈے کی حمایت کرتے ہوں۔

نوائے وقت کے ایک کالم نگارنے تو یہاں تک لکھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو ریفرنڈم کرانے کا مشورہ امریکی صدر جارج بش نے دیا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس ریفرنڈم کی حیثیت مزید مشکوک ہوجائے گی۔ آخر امریکی صدر جنرل مشرف جیسے فوجی حکمران کو پاکستان کا صدر کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟

٭٭٭٭٭