رابطہ عالم اسلامی کی چوتھی عالمی کانفرنس

"اُمت ِمسلمہ اورگلوبلائزیشن" کے موضوع پر

(کعبہ مشرفہ میں داخلے کی سعادت اور اس کا مختصر احوال)

محرم ۱۴۲۳ھ /اپریل ۲۰۰۲ء کے اواخر میں رابطہ عالم اسلامی نے اپنی چوتھی عالمی کانفرنس مکہ مکرمہ میں منعقد کی جس میں اطرافِ عالم سے پانچ سو کے قریب علما ،قائدین اور سیاستدانوں نے شرکت کی۔ موضوعِ سخن " اسلام اور عالمگیریت(گلوبلائیزیشن)" چنا گیا تھا۔ کانفرنس کے افتتاحی اور اختتامی اجلاسوں کے علاوہ نو اجلاس ترتیب دیئے گئے تھے جس میں کانفرنس کے مرکزی موضوع کے علاوہ کئی دوسرے موضوعات کو جگہ دی گئی تھی۔

کانفرنس ایسے وقت منعقد ہو ئی جبکہ فلسطین میں مسلمانوں کا خون بیدردی سے بہہ رہا ہے۔ اس لیے پہلے سے ترتیب شدہ پروگرام میں معمولی سی تبدیلی کے بعد ایک اجلاس صرف بیت المقدس کے لیے وقف کیا گیا۔ اتفاق سے یہ وہی اجلاس تھا جس میں اصلاً مجھے اور دو دوسرے مندوبین کو 'دیارِ مغرب میں مسجد کا کردار' پر اپنے اپنے مقالات کا خلاصہ پیش کرنا تھا لیکن اس بروقت تبدیلی کی بنا پر مجھے اس مقالہ کی تلخیص پیش کرنے کا موقع تو نہ مل سکا لیکن اپنے مقالہ کو مطبوع مقالات کے ضمن میں دیکھ کر اطمینان حاصل ہوا۔

ہر اجلاس میں مقالات کی تلخیص کے بعد حاضرین کو دو یا زیادہ سے زیادہ تین منٹ کے لیے اپنے خیالات کے اظہار کاموقع دیا جاتا رہا جس میں بیشتر مندوبین اپنے مافی الضّمیر کی ادائیگی کرتے رہے ۔ اس مختصر سے مضمون میں کانفرنس کی ساری کاروائی کا احاطہ تو مقصود نہیں ہے بلکہ اصلاً کانفرنس اور تبعاً اقامت ِمکہ کے چند تاثرات کا اظہار مقصود ہے ۔

قاری شیخ عبد اللہ بَصفر کی مسحور کن تلاوت سے افتتاحی اجلاس کا آغاز ہوا اور پھر اس اجلاس سے رابطہ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی، جمہوریہ مصر کے مفتی اعظم سید طنطاوی، مالدیپ کے سربراہ مامون عبد الوہاب، سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آلِ شیخ اور امیر مکہ شہزادہ عبد المجید بن عبد العزیز آلِ سعود نے خطاب کیا۔

یہ بات باعث ِاطمینان رہی کہ ان تمام حضرات کی تقاریر میں فلسطینی عوام پر یہودیوں کی مسلط کردہ جنگ کا تذکرہ نمایاں رہا۔ عالم اسلام کی جانی پہچانی شخصیت اور قطر میں مقیم مصری عالم ڈاکٹر شیخ محمد یوسف قرضاوی نے مسئلہ فلسطین کو نمایاں کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

ایک موقع پر جب بوسنیا کے رئیس العلما والمشائخ جناب مصطفی سیرچ نے سابق صدر بوسنیا جناب عزت بیگووچ کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ہم بوسنیا کے تلخ تجربہ کی روشنی میں یہ کہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ عربوں کو اسرائیل سے صلح وآتشی کا راستہ اختیار کرلینا چاہئے تو شیخ یوسف قرضاوی فوراً مائیک پر آئے اور گویا ہوئے :

" میں ابتدا میں کہہ چکا ہوں کہ عالم اسلام کے اس بھر پور اجتماع میں سیاستدان ضرور شریک ہوں لیکن سیاست کا چولا اُتار کر ، اور صرف ایک مفکر یا عالم کی حیثیت سے ، لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جناب عزت بیگووچ نے اپنے اس موقف میں ایک سیاستدان کا روپ اختیار کیا ہے۔ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ فلسطینیوں پر جنگ مسلط کی گئی ہے اور بفحوائے قولِ ربانی ﴿كُتِبَ عَلَيكُمُ القِتالُ وَهُوَ كُر‌هٌ لَكُم ۖ وَعَسىٰ أَن تَكرَ‌هوا شَيـًٔا وَهُوَ خَيرٌ‌ لَكُم...٢١٦ ﴾... سورة البقرة " قتل وقتال تم پر فر ض کیا گیا ہے، حالانکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو۔" اس جنگ میں ثابت قدم رہنا ہی مطلوب ہے ۔ یہ عجیب بات ہوگی کہ دشمن آپ کو مرنے مارنے پر تلا ہو اور آپ امن وآشتی کا نعرہ بلند کرتے رہیں۔"

جناب مصطفی سیرچ فوری جواب تو نہ دے پائے لیکن اگلے اجلاس میں انہوں نے وضاحت کی کہ میرے ممدوح جناب شیخ قرضاوی،عزت بیگووچ کی بات صحیح طور پر سمجھ نہیں پائے ہیں۔ ہمارا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ٹینکوں کامقابلہ پتھروں سے نہیں کیاجا سکتا۔ اس لیے فی الحال ہمارے پاس دوسرا کوئی متبادل حل موجود نہیں ہے لیکن ہم جہاد سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں اور میں مفتی فلسطین شیخ عکرمہ صبری سے درخواست کرو ں گا کہ وہ میرا نام مجاہدین کی فہرست میں لکھ دیں اور جب بھی وہ آواز دیں گے، میں حاضری کے لیے بے تاب رہوں گا۔

یمن کے ایک درویش منش عالم شیخ عمر سیف اپنی گرجتی برستی آواز میں جہاد کی دعوت دے رہے تھے اور واشگاف الفاظ میں کہہ رہے تھے کہ یہ سب ٹینک، توپیں اور جہاز جن کے انبار ہم اپنے اپنے ملکوں میں لگا رہے ہیں، کس لیے ہیں؟ کیا اپنوں کو دبانے کے لیے یا دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے ؟ انہوں نے عالم اسلام کی بے حسی، عرب اور مسلم ممالک کی جہاد سے ہچکچاہٹ، اور امریکہ اور اس کے حواریوں کی دیدہ دلیری کی جی بھر کر مذمت کی۔ ان کے الفاظ تازیانہ بن کر دل ودماغ کے تاروں کو جھنجھوڑ رہے تھے لیکن فغانِ درویش صدا بصحرا ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔

ایران کے آیت اللہ تسخیری نے بھی اعداءِ اسلام کی ان مذموم حرکتوں کو للکارا جو بیت المقدس کے تقدس اور اہل فلسطین کی آبرو کو داغدار کرنے کے لیے اسرائیل کے ہم نوا بن چکے ہیں ۔

گجرات میں مسلمانوں پر جو قیامت بیت گئی،اس کا ذکر کسی مقرر کی زبان پر نہ آیا تھا، اس لیے راقم الحروف نے دو منٹ کے مختصر وقت میں یہ الفاظ عربی جامہ میں منتقل کر کے حاضرین کے گوش گزار کر دیے :

" حمد وثنا کے بعد ،کوئی شک نہیں کہ مسئلہ فلسطین ہر مسلمان کا اپنا مسئلہ ہے جس میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں لیکن کلامِ الٰہی میں یہود کی عداوتِ مسلمین کے ساتھ ساتھ مشرکین کی عداوت کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔فرمایا: ﴿لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النّاسِ عَد‌ٰوَةً لِلَّذينَ ءامَنُوا اليَهودَ وَالَّذينَ أَشرَ‌كوا...٨٢ ﴾... سورة المائدة " ایمان والوں سے سب سے زیادہ دشمنی رکھنے والوں میں تم یہود کو پاوٴ گے اور مشرکین کو ۔" اس دور کے مشرکین جوسرزمین ہند میں بتوں کے پجاری ہیں، اس آیت کی کھلی تفسیر ہیں۔

شرکاء کانفرنس! چشم تصور سے دیکھئے کہ غوغائیوں کا ایک ہجوم ہے جو ایک گھر سے میاں بیوی کو کھینچ کر باہر لاتا ہے اور ان کے بچوں کے سامنے انہیں پہلے مٹی کے تیل میں نہلا دیا جاتا ہے اور پھر ان کے بدن میں آگ لگا دی جاتی ہے ۔ مرد وعورت کو انتہائی سفاکی کے ساتھ زندہ جلا دیا گیا جو کہ لمحوں میں کوئلہ کا ڈھیر بن گئے، اور یہ قصہ صرف ایک مرد و زن کا نہیں بلکہ دو ہزار سے زائد ان مقہور ومظلوم انسانوں کا ہے جنہیں سر زمین گجرات پر موت اس عالم میں آئی کہ کسی کو آگ کھا گئی ، کوئی تلوار کا گھائل ہوا، کوئی بندوق کی گولی کا شکار ہوا اور کوئی کنویں کی نذر ہوا۔

دوسری طرف مسلم کشمیر میں چھ لاکھ سے اوپر ہندی فوج مسلمانوں کے سینوں پر دندنا رہی ہے، جہاں کہیں بھی کوئی فدایانہ کاروائی ہوتی ہے ، فوجی نواحی آبادی پر بھوکے کتوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اور پھر بچے ، بوڑھے ، مرد اور عورتیں ان کا نشانہٴ اِنتقام بنتے ہیں۔

رابطہ عالم اسلامی چونکہ ایک اسلامی پلیٹ فارم ہے، اس لیے میں مطالبہ کرتا ہوں کہ رابطہ کی طرف سے مختلف ممالک کے افراد پر مشتمل ایک وفد ترتیب دیا جائے جو خاص طور پر گجرات کا دورہ کرے اور عالم اسلام کو حقائق سے آگاہ کرے تا کہ ہم دوست اور دشمن کی پہچان کر سکیں اور یقینا اللہ انہی کی مدد کرتا ہے جو اس کی مدد کرتے ہیں... والسلام! "

مقام مسرت ہے کہ اگلے دن کے اجلاس میں برطانیہ کے لارڈ نذیر احمد اور مسلم کونسل، برطانیہ کے سیکرٹری جنرل یوسف بھائی لوک نے بھی ا پنے اپنے خطاب میں اس موضوع کی طرف توجہ دلائی۔ آزاد کشمیر کے مولانا عبد الرشید ترابی نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں حاضرین کو حقائق سے آگاہ کیا۔

کانفرنس کے موضوعات

کانفرنس کے مرکزی مضمون سے صرف دو اجلاس متعلق رہے؛ ایک ' عالمگیریت کے چیلنج' اور دوسرا 'میڈیا اور عالمی نظام ' ...باقی اجلاسوں میں مختلف دوسرے موضوعات کوموضوعِ سخن بنایا گیا جیسے :

عصر حاضر میں مسلم خاندان

اتحادِ عالم اسلامی

بیت المقدس اور مسلمانوں کے فرائض

یورپ میں مسلمانوں کے احوال

مسلم اقلیات

دعوتِ اسلام کی آفاقیت

دہشت گردی اور اسلام کے خلاف حملوں کی نوعیت

نامور شرکا

مقالات پیش کرنے والے حضرات میں سے اکثر عالم اسلام کے جانے پہچانے علماء ومفکرین تھے ، قابل ذکر یہ ہیں :

٭ متعدد فقہی وعلمی کتب کے مصنف ڈاکٹر وہبہ مصطفی زحیلی

٭ ندوة العلما کے موجودہ روح رواں شیخ محمد رابع ندوی

٭ مصر کے معروف محقق ڈاکٹر عبد ا لصبور مررزق

٭ اٹلی کے نومسلم سفیر ماریو شالویا

٭ موریطانیہ کے فقیہ ڈاکٹر عبد اللہ بن بَیَّہ

٭ مفتی فلسطین شیخ عکرمہ صبری

٭ سوڈان کی وزارتِ مذہبی اُمورکے وزیر ڈاکٹر عاصم البشیر، جنہوں نے اپنے خوبصورت عربی خطاب ادب وبلاغت کی رنگینیوں او رحسن ادا کی لطافت سے حاضرین کو بہت متاثر کیا۔

٭ ندوئہ شباب اسلامی عالمی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مانع بن حماد جہنی

٭ بوسنیا کے رئیس العلما ڈاکٹر مصطفی سیرچ

٭ کویت کے ڈاکٹر عبد الرحمن السمیط جوعرصہٴ دارز سے افریقہ میں سرگرمِ عمل ہیں۔

٭ ڈاکٹر علی قرہ داغی جنہوں نے قطبین اور انتہائی شمالی ممالک کے ان مسائل کا تذکرہ اور حل پیش کیا جو موسم گرما میں دن کی غیر معمولی طوالت کے باعث پیش آتے ہیں۔

٭ نائیجریا میں اُردن کے سابق سفیر ڈاکٹر کامل شریف جو اپنی کبرسنی کے باوجود ہر مسلم بین الاقوامی کانفرنس میں سرفہرست رہتے ہیں۔

٭ شیخ عبد الرحمن الحبنکّة میدانی جو ا پنی دعوتی اور فقہی تحقیقات کی بنا پر علما میں امتیازی مقام رکھتے ہیں

٭ ڈاکٹر محمد بن سعد الشویعر جو سابق مفتی اعظم عبد العزیز بن باز کے سالہا سال پرسنل سیکرٹری رہے اور مجلة البحوث الاسلامیة کے مدیر کے طور پرسعودی عرب کی مقتدر شخصیات میں شمار ہوتے ہیں

٭ نائیجریا کے شیخ احمد لیمو جو بلادِ افریقہ میں دعوتی وعلمی کام کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔

٭ سوڈان کے ڈاکٹر جعفر شیخ ادریس جو طبقہ اساتذہ میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں اور آج کل امریکہ کی اسلامی اوپن یونیورسٹی کے چانسلرہیں۔

٭ عراق کے ڈاکٹر احمد فتحی الراوی جو یورپ کی مسلم تنظیموں کی فیڈریشن کے صدر ہیں۔

ناقدین و مبصرین

کانفرنس کے ہر اجلاس میں پیش کردہ مقالات پر تنقیدی نظر ڈالنے کے لیے جن اصحاب کا انتخاب کیا گیا ، ان میں سے چند شخصیات کا تذکرہ بے محل نہ ہو گا :

٭ کویت کے ڈاکٹر خالد عبد اللہ المذکور

٭ ایران کے ڈاکٹر محمد شریعتی

٭ لاس اینجلس (امریکا) کے اسلامک سنٹر کے ڈائریکٹر مزمل صدیقی جو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فارغ التحصیل ہیں ۔بعد میں برطانیہ اور امریکہ کی جامعات سے استفادہ کیا اور اب اپنے دعوتی کام کی بنا پر امریکہ کی معروف شخصیت ہیں۔

٭ سوڈان کے ڈاکٹر احمد علی الامام، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فارغ التحصیل،پھر گلاسگو یونیورسٹی سے علم قراء ت پر تحقیقی کام کیا اوراب سوڈان میں دعوتی مہم سنبھالے ہوئے ہیں۔

اب آئیے، ان مقتدر شخصیات کا تذکرہ ہو جائے جنہوں نے مختلف اجلاسوں کی صدارت کی :

مجالس کی صدارت

ذکر آچکا ہے کہ افتتاحی اجلاس کی صدارت مکہ کے امیر شہزادہ عبد المجید بن عبد العزیز آلِ سعود نے کی ۔باقی اجلاسوں کے صدور مندرجہ ذیل حضرات تھے :

٭ سوڈان کے ایک سابق فوجی صدر عبد الرحمن سوّار الذہب جو ایک مختصر سے عرصہ کے لیے سوڈان کے صدر رہے لیکن سویلین حکومت کے قیام کے وعدہ کو اس خوبصورتی سے نبھا گئے کہ اب تک اپنی شرافت اور نجابت کی بنا پر یاد کئے جاتے ہیں۔آج کل دعوة ِاسلامیہ کے بین ا لاقوامی مرکز(خرطوم) کے صدر ہیں۔

٭ سعودی عرب کے وزیر عدل اور آلِ شیخ کے ہونہار نقیب ڈاکٹر عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم آلِ شیخ

٭ نائیجریا میں اُردن کے سابق سفیر، الاخوان المسلمون کی معروف شخصیت جناب کامل شریف

٭ ڈاکٹر جعفر عبد السلام

٭ ڈاکٹر عصام البشیرجن کا تذکرہ پہلے آچکا ہے۔

٭ رابطہ عالم اسلامی کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد اللہ بن صالح العبید

٭ رابطہ عالم اسلامی کے دورِ اوّل کے ایک انتہائی متحرک اور بااثرسیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد اللہ عمر نصیف

٭ سعودی عرب کے سابق وزیر اطلاعات ڈاکٹر محمد بن عبدہ یمانی

٭ جامعہ ازہر کے چانسلر ڈاکٹر احمد عمر ہاشم

قراردادیں اور یادداشتیں

موٴتمر کے اختتام پر ۳۲ صفحات پر مشتمل قراردادوں اور سفارشات کا مجموعہ سامنے آیا۔آخری اجلاس اس'کمیونیکے' کی ریڈنگ اور بحث ومباحثہ پر ختم ہوا۔

اس مجموعہ سفارشات وقرارداد میں مندرجہ ذیل تین مرکزی موضوع سرفہرست رہے :

1) اُمت ِمسلمہ اور فریضہ دعوت الی اللہ

2) اُمت مسلمہ اور نیا عالمی نظام(گلوبلائیزیشن)

3) مسلمان اقوام اور اقلیات کے مسائل

پہلے موضوع کے ضمن میں ذیلی عنوانات یہ تھے :

1) شریعت ِاسلامیہ کا نفاذ

2) فریضہ دعوت الی اللہ

3) قرآن کریم کی اشاعت، اس ضمن میں اسرائیل کے طبع کردہ ناقص عبرانی ترجمے کی نشاندہی اور ایک صحیح عبرانی ترجمے کی تیاری پر زور دیا گیا تھا۔

4) مسجد ایک مشن اور پیغام کی حیثیت سے

5) اسلامی تعلیم کا فروغ

دوسرے موضوع کے ذیلی عنوانات :

1) اتحاد اسلامی کی ضرورت

2) امت ِمسلمہ کے شاہراہِ وسط اور عدل پر ہونے کی اہمیت

3) اسلام کا دفاع اور اسلام کی صحیح تصویر اجاگر کرنے کی ضرورت

4) اسلامی رفاہی اداروں کی پشت پناہی اور ان کا دفاع

5) اسلام میں تجدید دین اور اجتہاد کا مقام

6) امت ِمسلمہ کے لیے پائیدار امن کی ضرورت

7) اسلامی جدوجہد میں تعاون اور مشارکت

8) اسلامی محکمہ عدل کے قیام کی ضرورت

9) مسلم معاشروں کی ترقی کے لیے اقدا مات کی ضرورت

10) انسانی حقوق

11) مسلم معاشرہ کو پیش آمدہ چیلنج اور ان کا جواب

12) خاندان، بچوں اور خواتین سے متعلق مسائل

13) غیر مسلم ممالک میں اسلامی مراکز وجمعیات

14) اسلام اور دہشت گردی

15) اسلامی ذرائع ابلاغ

16) امت ِمسلمہ اور دوسری تہذیبوں کے درمیان ڈائیلاگ

17) اسلام ایک تہذیبی متبادل نظام کی حیثیت سے

تیسر ے موضوع کے ذیلی عنوانات :

1) فلسطین ، بیت المقدس اور مسجد ِاقصیٰ

2) بلاد بلقان

3) چیچنیا

4) مسلم اقلیتیں

کعبہ مشرفہ میں داخلے کی سعادت اور اس کا احوال

کانفرنس کے دوران دنیا بھر سے آئے ہوئے کئی شناسا چہرے نظر آئے۔بعض ایسے کہ جن سے مل کر بہت سی پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اس عظیم اجتماع کی مناسبت سے ایک عظیم سعادت بھی حاصل ہو گئی۔ کانفرنس کے آخری دن کی کاروائی باقی تھی کہ فجر کی نماز اور طوافِ کعبہ کے بعد لندن اسلامک کلچرل کے ڈائریکٹر جناب احمد الدُّبّیان نظر آئے۔ انہوں نے بتایا کہ کل رات شرکاءِ کانفرنس کی ایک بڑی تعداد کو عمارتِ کعبہ میں داخل ہونے کاپروانہ جاری کیا گیا ہے۔ میں چونکہ اس کاروائی سے ناواقف تھا اس لیے انہوں نے براہِ کرم مجھے اپنے ساتھ لیا اور مُکبّرة (اذان دینے کی جگہ) کے ساتھ کانفرنس کے مدعوین کے لیے مخصوص جگہ میں اندر آنے کی اجازت دلوائی اور پھر پروانہٴ دخولِ کعبہ بھی۔ زہے نصیب کہ زندگی میں تیسری مرتبہ یہ سعادت نصیب ہو رہی ہے !!

چھتیس یاسینتیس سال قبل زمانہٴ طالب علمی میں ایک دفعہ ۸/ذوالحجہ کو غسل کعبہ کی تقریب کے بعد عوام الناس کی بھیڑ کے ساتھ کعبہ میں داخل ہونے کا موقع ملا تھا لیکن بڑی کشاکش اور دھکم پیل کے بعد۔

دوسری مرتبہ دس گیارہ سال قبل رابطہ ہی کی ایک کانفرنس نے یہ موقع بہم پہنچایا تھا اوراب پھر نگاہ دید بابِ کعبہ کھلنے کی منتظر تھی۔ اس دوران بارانِ رحمت خوب سج دھج کے ساتھ مکہ کے درودیوار کو نہلا گیا۔ اشتیاق کے لمحات طویل ہوتے گئے۔ پھر کچھ امید افزا آثار نظر آنے لگے۔ سعودی سپاہیوں نے کعبہ کو گھیرے میں لے لیا اور طواف کرنے والوں کا دائرہ تنگ ہوتا گیا۔پھر جونہی لکڑی کی ایک سیڑھی بابِ کعبہ سے آکر لگی ، وصال کی گھڑیاں نوید ِجانفزا کا پیغام لائیں۔

ہمارے وفود رکن یمانی کی جانب سے ہوتے ہوئے 'حطیم' میں داخل ہوئے اور پھر یہاں سے بابِ کعبہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے قطار در قطار آہستہ آہستہ کھسکنے لگے۔ حطیم اصلاً چونکہ کعبہ ہی کا حصہ ہے، اس لیے ایک کے بعد دوسری جبین نیاز پرنم آنکھوں کے ساتھ فرشِ حطیم کو بحالت ِسجود چھونے لگی۔ قافلہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتاگیا، جونہی پہلے داخل ہونے والے باہر کا رخ کرتے ، باقی مشتاقانِ دید کے لیے راستہ صاف ہو جاتا۔ بارے سیڑھی تک رسائی حاصل ہوئی، پروانہٴ راہدار ی 'شرطہ' کو تھمایا، سیڑھی کے چند قدموں کو تیزی کے ساتھ عبورکیا، کعبہ کی چوکھٹ پار کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر میں کعبہ کی گود میں تھا !! سبحان الله وبحمده وسبحان الله العظيم!

نماز کا یہ انوکھا منظر کہ جس سمت میں چاہو ، کھڑے ہو کر نیت باندھ لو، کہاں اور نظر آئے گا ؟ ہمارے ساتھی سر بسجود تھے یا دعاوٴں میں مشغول، آہوں اور سسکیوں کی مدہم آوازیں کعبہ کی پرسکون فضا میں تلاطم برپا کر رہی تھیں۔ وفود کے صف بستہ ہجوم میں جس رُخ میں نے دو رکعت نماز ادا کی، وہ حطیم کی جہت تھی، اس بار میں کعبہ کا بھر پور جائزہ لینا چاہتا تھا، اس لیے بارگاہ الٰہی میں اپنی دعائیں،التجائیں، درخواستیں پیش کرنے کے بعد کعبہ کے اندرونی ماحول کو ٹٹولنا شروع کیا۔

اس مکعب کمرے کے وسط میں تین ستون ہیں جن کے درمیان بالائی سطح پر ایک تار ایک دیوار سے دوسری دیوار تک تنی ہوئی ہے ۔ اس تار میں ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں ظروف لٹکے ہوئے نظر آئے۔ تانبے، پیتل اور نکل کے یہ ظروف قندیل ہیں یا قندیل نما،کسی زمانہ میں مستعمل رہے ہوں گے یا بطورِ ہدیہ نذر کئے گئے ہوں گے۔ تار کے عین نیچے فرش پر چند چوبی صندوق نظر آئے، جو ان عطریات اور خوشبوؤں سے مالا مال ہیں جوکعبہ کی اندرونی فضا کو معطر کئے رکھتے ہیں۔دیواروں کی اندرونی بالائی سطح سبز رنگ کے منقش غلاف سے ڈھکی ہوئی ہے یا یوں کہئے کہ غلاف دیوار پر پیوست ہے ۔ حطیم کی جانب کا دایاں کونہ دو دیواروں سے فرش تا چھت بند دکھائی دیا۔جس کے ایک طرف 'مذہب' دروازے کی موجودگی کعبہ کے اندر ایک اور بند حجرے کی نشاندہی کر رہی تھی۔ دروازہ کے ساتھ بائیں جانب کتبے کی موجودگی نے اس عقدہ کو حل کیا ۔ یہ کتبہ بتا رہا تھاکہ شاہ خالد بن عبد العزیز کے عہد میں سال ۱۳۹۷ھ کعبہ کی سیڑھی کی تجدید کی گئی۔ اس وقت تودھیان اس سیڑھی کی طرف گیا کہ جس پر چڑھ کر ہم کعبہ میں داخل ہوئے تھے لیکن بعد میں امامِ کعبہ شیخ عبد الرحمن سدیس سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ اس سے مراد وہ گول آہنی سیڑھی ہے جو صفائی کرنے والوں کو کعبہ کی چھت تک لے جاتی ہے اور جسے یہ حجرہ زائرین کی نگاہوں سے اوجھل کئے رکھتا ہے۔

دل توچاہتا ہے کہ کچھ دیر اور رکوں لیکن نقیب کی آواز 'چلو چلو'کی صدا لگار رہی تھی۔ اس لیے ناچار باہر کا رخ کیا۔ اُترتے وقت دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم جس میں کانفرنس کے چند شرکا بھی تھے، کعبہ میں داخل ہونے کی آس لگائے کھڑے ہیں لیکن سپاہِ حرم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا، اس لیے مزید افراد کو اندر آنے کی اجازت نہ مل سکی۔ وعدئہ فردا پر ٹرخائے ہوئے ان افراد سے نجانے یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے !!

اس دفعہ غلافِ کعبہ کا بھی چہار اطراف سے جائزہ لیا۔ سونے کے تاروں سے نقش کنندہ تحریر میں وہ تمام آیات شامل تھیں جو بیت اللہ الحرام، تطہیر کعبہ ،حج بیت اللہ، نداءِ ابراہیمی اور توحید ِباری سے متعلق ہیں۔جگہ جگہ اسماءِ حسنیٰ منقش ہیں ۔موجودہ غلافِ کعبہ میں کلام الٰہی کے علاوہ صرف یہ تحریر شامل ہے :

«صنعت هذه الکسوة في مکة المکرمة وأهداها إلي الکعبة خادم الحرمين الشريفين الملک فهد بن عبدالعزيز آل سعود ... تقبل الله منه» عام ۱۴۲۲ھ

" یہ غلاف مکہ مکرمہ میں تیار کیاگیا ؛ جسے خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز آلِ سعود نے ۱۴۲۲ھ میں کعبہ کو ہدیتاً پیش کیا ... اللہ ان سے قبول فرمائے۔"

جمعیت ِاہل حدیث کا استقبالیہ

کانفرنس کی مناسبت سے جناب فضل الرحمن نے جدہ کے احباب ِجمعیت اہل حدیث کے تعاون سے شاہین ریسٹورنٹ میں بلادِ ثلاثہ (پاکستان، ہندوستان اور برطانیہ)کے وفودِ جمعیت کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ پاکستا ن سے پروفیسر ساجد میر، ہندوستان سے مولانا عبد الوہاب خلجی ،برطانیہ سے راقم الحروف اور مولانا شعیب احمد میر پوری اور ان کے دو رفقا اور مکہ مکرمہ سے جناب شیخ وصی اللہ خصوصی مہمان تھے۔جامعہ سلفیہ بنارس کے ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری ، شیخ الجامعہ مولانا رضاء اللہ اور جمعیت اہل حدیث ہند کے نومنتخب ناظم اعلیٰ مولانا اصغر علی بھی مدعو تھے، لیکن بوجوہ شریک نہ ہو سکے۔عشا کے بعد ہونے والی اس باوقار تقریب میں شرکاءِ محفل کا تعارف کرایا گیااور ہم میں سے ہر شخص نے دعوت الی اللہ یا جمعیت کے کام کے بارے میں چند کلمات کہے۔ آدھی رات ہونے کو تھی کہ یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی اور کوئی ایک بجے رات ہم اس خوشگوار محفل کی یادیں سمیٹتے مکہ میں ا پنے مستقر واپس پہنچے۔

امامِ کعبہ سے ملاقات

مکہ کے قیام کے دوران فضیلة الشیخ محمد بن عبد اللہ السبیل کے درِ دولت پر ان کے جوان بیٹے، خطیب ِحرم، استادِ جامعہ اُمّ القری شیخ عمر السبیل کی ناگہانی وفات پر بغرضِ تعزیت جانا ہوا۔ شیخ صبروعزیمت کے پہاڑ نظرآئے۔ باتوں سے ذرا فراغت ہوئی تو اپنے بیٹے عبد اللطیف سے ابن المفلح کی 'الآداب الشرعیہ 'پڑھنے کو کہا۔وہ کتاب پڑھتے جاتے اور شیخ موقع ومحل کی مناسبت سے شرح کرتے جاتے۔

شیخ سے ایک دوسری ملاقات بھی تھی اور برادرم وصی اللہ کی معیت میں دوبارہ ان کے گھر کا قصد بھی کیا لیکن اس روز شدید اور موسلا دھار بارش کی بنا پر راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ مکہ سے 'عوالی' کا راستہ کوئی زیادہ نہیں لیکن اس روز کاروں کا سیل رواں ابر ِرحمت کے طوفانِ بلاخیز کے سامنے جم نہ سکا اور پھر گاڑی کا رُخ واپس مکہ کی طرف پھیرنا پڑا۔ «وما تشاوٴون إلا أن يشاء الله» ! یارِ زندہ صحبت باقی !

٭٭٭٭٭