ولی اللّٰہی سلسلہ کے مدارس و جامعات

علمائے اہل حدیث کی تدریسی خدمات

عموماً دونظام ہائے تعلیم کو مسلمانانِ برصغیر کے تعلیمی رجحانات کی بنیاد بنایا جاتا ہے، ایک مدرسہ علی گڑھ اور دوسرا دار العلوم دیوبند۔ انہی کے حوالے سے آگے تعلیمی اور فکری ارتقا کی بحث کی جاتی ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ دینی مدارس اور سکول وکالج کا یہی نقطہ آغاز تھا۔ جبکہ تاریخی طور پر یہ بات درست نہیں ، مدرسہ علی گڑھ تو مسلمانوں میں انگریز سرکار کی وفاداری اور بدیسی تہذیب سے مرعوبیت کی طرف ایک نمایاں قدم کہا جاسکتا ہے،جس کا تصور اس سے قبل مسلمانوں میں نہیں ملتا لیکن مدارسِ دینیہ کا نقطہ آغاز دار العلوم دیوبند کو قرار دینا علمی خیانت کے مترادف ہے ۔کیونکہ اس سے قبل بھی مسلمانوں کے روایتی دینی مدارس کا سلسلہ قدیم سے چلا آرہا تھا، شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے خانوادے نے جو تدریسی اصلاحی خدمات انجام دیں، وہ بھی دار العلوم دیوبند سے دو صدیاں تو پرانی ہیں ہی۔

یعنی اس تاریخی تذکرے میں اس فکری اصلاح کو عمداً نظر انداز کیا جاتا ہے جو جمود وتقلید کے خلاف شاہ ولی اللہ نے چلائی اور اجتہاد کے احیا کے ساتھ سنت کی طرف رجوع وغیرہ کے رجحانات اس میں پیدا کئے۔ اسی فکری تحریک نے مدرسہٴ دیوبند اور دیگر روایتی مدارس میں حدیث ِنبوی کی طرف توجہ اور اہتمام کو فروغ دیا۔ خلاصہ یہ کہ فکری طور پر اگر علی گڑھ کی تحریک الحاد وتجدد کی داعی تھی تو دار العلوم دیوبند یک سالہ دورئہ حدیث کے باوجود مخصوص فقہ حنفی کی تنگ نائیوں سے باہر نہ آسکا۔ان دونوں انتہائی نکتہ ہائے نظر (تقلید والحاد)کے مابین راہِ اعتدال (اجتہاد) کی علمبردار تحریک ِاہل حدیث بھی تھی، جس کے تدریسی ادارہ جات کے تعارف کے لیے درج ذیل مضمون ہدیہٴ قارئین ہے۔

ماہنامہ 'محدث' لاہور کی جنوری ۲۰۰۲ء کی اشاعت پیش نظر ہے جس میں مولانا زاہد الراشدی کا مضمون بعنوان 'دینی مدارس او ر بنیاد پرستی 'شائع ہواہے، صفحہ ۴۵ پر مولانا زاہد الراشدی لکھتے ہیں:

"نئے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی ضروریات کے دو حصوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد اہل دانش نے مستقبل کی طرف توجہ دی، سرسید احمدخان نے ایک محاذسنبھال لیا اور دفتری و عدالتی نظام میں مسلمانوں کو شریک رکھنے کے لئے انگریزی تعلیم کی ترویج کو اپنا مشن بنایا جبکہ دینی و قومی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے دینی تعلیم کا محاذ فطری طور پر علماء کرام کے حصہ میں آیا اور اس سلسلہ میں سبقت اور پیش قدمی کا اعزاز مولانامحمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقا کا حاصل ہوا۔"

دارالعلوم دیوبند کا قیام ۱۲۸۳ھ/۱۸۶۶ء میں عمل میں آیا اور اس سے ۲۵ سال پہلے مولانا سید محمدنذیر حسین دہلوی سرخیل اہل حدیث، مسجد ِاورنگ آبادی، دہلی میں ۱۲۵۸ھ/۱۸۴۲ء میں قائم کرکے تدریس فرما رہے تھے تو مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقا کو سبقت کیسے حاصل ہوگئی؟

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے والد محترم حضرت شاہ عبدالرحیم نے ۱۰۷۰ھ/۱۶۶۰ء میں دہلی میں مدرسہ رحیمیہ کی بنیاد رکھی۔ جس میں آپ اپنی وفات ۱۱۳۱ھ/۱۷۱۹ء تک تدریس فرماتے رہے۔ حضرت شاہ عبدالرحیم کے بعد ان کے فرزند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اپنے انتقال ۱۱۷۶ھ/۱۷۶۲ء تک مدرسہ رحیمیہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے بعد ان کے صاحبزادگان حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی، حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی، حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی اور حضرت شاہ عبدالغنی دہلوی نے 'مدرسہ رحیمیہ' دہلی میں تدریس فرمائی۔ ان چاروں بھائیوں میں سب سے آخر میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے ۱۲۳۹ھ/۱۸۲۴ء میں وفات پائی۔

حضرت شاہ عبدالعزیز دہلویکے انتقال کے بعد ان کے نواسہ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کا فیضان جاری ہوا جو ۱۲۵۸ھ/۱۸۴۲ء تک دہلی میں تدریس فرماتے رہے۔ ۱۲۵۸ھ/ ۱۸۴۲ میں حضرت شاہ محمداسحاق دہلوی نے مکہ معظمہ ہجرت کی اور ۱۲۶۲ھ/۱۸۴۶ء میں مکہ معظمہ میں انتقال کیا۔

حضرت شاہ محمداسحاق دہلوی کے مکہ معظمہ ہجرت کرنے کے بعد ان کے جانشین1 شیخ الکل فی الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م۱۳۲۰ھ/۱۹۰۲ء) ہوئے جو ۶۲ سال تک دہلی میں کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے اور اس عرصہ میں ہزاروں طلباء ان سے مستفید ہوئے۔

مدرسہ عربیہ، دیوبندکا قیام

مدرسہ عربیہ، دیوبند کا قیام ۱۲۸۳ھ/۱۸۶۶ء کو عمل میں آیا، سید محبوب رضی اپنی کتاب 'تاریخ دیوبند' میں لکھتے ہیں کہ

"۱۵/ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ/۳۰مئی ۱۸۶۶ء بروز پنج شنبہ... ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ کا وہ مبارک و مسعود دن تھا جس میں مدارسِ دینیہ کے سابقہ طریق کے بجائے بالکل ایک نئے انداز سے دارالعلوم دیوبند کا آغازہوا۔" (تاریخ دیوبند : ص۳۱۷، طبع دیوبند ۱۹۷۲ء )

مشہور دیو بندی عالم مولانا سید اصغر حسین صاحب لکھتے ہیں :

"دیوبند میں خدا تعالیٰ کے مقبول اور سراپا اخلاص بندوں کی تجویز سے ۱۵/ محرم ۱۲۸۳ھ کوایک عربی مدرسہ کا اجرا ہوا۔" (حیات شیخ الہند طبع دیوبند۱۹۴۸ء ص ۹)

مدرسہ میاں سید نذیر حسین دہلوی (پھاٹک حبش خاں)

حضرت میاں سید محمدنذیر حسین دہلوی نے ۱۲۵۸ھ/۱۸۴۲ء کو دہلی میں تدریس کا آغاز کردیاتھا اور مدرسہ دیوبند ۱۲۸۳ھ/۱۸۶۶ء میں قائم ہوا۔ یعنی مدرسہ دیوبند کے قیام سے ۲۵ سال پہلے دہلی میں اہل حدیث کا مدرسہ قائم ہوچکاتھا ۔

دہلی کے دوسرے اہل حدیث مدارس: حضرت میاں کے مدرسہ کے ساتھ ساتھ دہلی میں مدرسہ حاجی علی جان، مدرسہ سبل السلام واقع مسجد پھاٹک حبش خان، مدرسہ دارالسلام واقع مسجد صدر بازار دہلی، مدرسہ سعیدیہ عربیہ واقع مسجد پل بنگش دہلی، مدرسہ ریاض العلوم دہلی اور مدرسہ زبیدیہ واقع محلہ نواب گنج، مدرسہ فیاضیہ اور مدرسہ محمدیہ اجمیری دروازہ دہلی میں اپنے اپنے حلقے میں کام کررہے تھے۔

دیگر مدارس :برصغیر (پاک و ہند) میں علماے اہل حدیث نے دینی مدارس اور جامعات کا ایک جال بچھا دیا تھا اور ان مدارس نے دینی علوم و فنون کی اشاعت میں ایک بھرپور کردار ادا کیا۔ بحمداللہ آج بھی اہل حدیث مدارس قائم و دائم ہیں اور کتاب و سنت کی تعلیم میں سرگرمِ عمل ہیں اور ان کی علمی رِفعت مسلم ہے۔

ہر گز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما

مدرسہ احمدیہ، آرہ

اس مدرسہ کی بنیاد حضرت شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی کے تلمیذ ِرشید مولانا حافظ ابراہیم آروی (م۱۳۱۹ھ/۱۹۰۲ء) نے ۱۳۰۵ھ/۱۸۸۸ء میں رکھی۔ علامہ سید سلیمان ندوی (م ۱۹۵۳ء) مولاناحافظ ابراہیم آروی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

"مولوی سید محمدنذیر حسین دہلوی کے شاگردوں میں حافظ ابراہیم آروی خاص حیثیت رکھتے تھے وہ نہایت خوشگوار اور پردرد واعظ تھے۔ وعظ کہتے تو خود روتے اور دوسروں کو رُلاتے۔ نئی باتوں میں اچھی باتوں کو پہلے قبول کرتے۔ چنانچہ نئے طرز پر انجمن علما اور عربی مدرسہ اور اس میں دارالاقامہ کی بنیاد کا خیال انہی کے دل میں آیا۔ انہی نے ۱۸۸۸ء/۱۳۰۵ھ میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ایک مدرسہ آرہ میں قائم کیا اور اس کے لئے مذاکرئہ علمیہ کے نام سے ایک مجلس بنائی جس کا سال بہ سال جلسہ آرہ میں ہوتا۔" (حیاتِ شبلی: ص ۳۸۲)

سید صاحب تراجم علمائے حدیث ہند مؤلفہ مولوی ابویحییٰ امام خان نوشہروی کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

"مولانا سید نذیر حسین دہلوی کی درسگاہ کے ایک مولانا ابراہیم صاحب آروی تھے، جنہوں نے سب سے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال قائم کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی ۔" (تراجم علمائے حدیث ہند ص ۳۶)

مولوی ابویحییٰ امام خان نوشہروی (۱۹۶۶ء) لکھتے ہیں:

"مدرسہ احمدیہ آرہ اپنے عہد میں اہل حدیث بہار کی یونیورسٹی تھی، جس میں تمام حصص ملک کے طلبا حاضر رہے۔" ( ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ص۱۴۹)

اس مدرسہ کی عظمت کا اندازہ اس کے اساتذہ و شیوخ سے لگ سکتا ہے:

مولانا حافظ ابراہیم آروی، مولانا محمد سعید بنارسی، مولانا حافظ عبداللہ غازیپوری،مولانا محمد اسحاق ظفر غازی پوری، مولانا عبدالقادر مئوی، اور مولانا سید نذیر الدین احمدبنارسی وغیرہم نے مدرسہ احمدیہ آرہ میں وقتا ً فوقتاً تدریسی خدمات انجام دیں۔ اور اس مدرسہ سے جو علما مستفیض ہوئے، وہ خود بعد میں مسند تدریس پر فائز ہوئے مثلاً مولانا شاہ عین الحق پھلواروی، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری صاحب تحفة الاحوذی مولانا عبدالسلام مبارکپوری صاحب ِسیرة البخاری، مولانا عبدالغفور حاجی پوری، اور مولانا ابوبکر محمد شیث جون پوری صدر شعبہ علومِ دینیہ، مسلم یونیورسٹی وغیرہم۔

مدرسہ احمدیہ سلفیہ، دربھنگہ

دربھنگہ صوبہ بہار کاایک مشہور شہر ہے۔ اس کے محلہ لہریا سرائے میں مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی (م۱۳۳۶ھ/۱۹۱۸ء) جو حضرت میاں صاحب دہلوی کے شاگرد تھے۔ بڑے سرگرم واعظ اور بے نظیر مناظر تھے، نے اس مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ اس مدرسہ میں مولانا رحیم آبادی کے علاوہ مولانا عبدالجلیل مظفر پوری اور مولانا عین الحق دربھنگوی تدریس فرماتے رہے۔

مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی اس مدرسہ کے شیخ الحدیث اور مہتمم تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ڈاکٹر سید محمد باقر اس مدرسہ کے نگران مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر سید محمد باقر اپنے علاقے کی نامور شخصیت تھے، بہار اسمبلی کے ممبر بھی رہے۔ ڈاکٹر صاحب کے دورِ نظامت میں اس مدرسہ نے بڑی ترقی کی، ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزند ڈاکٹر سید عبدالحفیظ اس مدرسہ کے مہتمم و نگران مقرر ہوئے۔ ان کے دور میں بھی مدرسہ ترقی کی طرف گامزن رہا۔ یہ مدرسہ آج بھی کتاب و سنت کی اشاعت میں سرگرمِ عمل ہے۔ ڈاکٹر سید عبدالحفیظ کا انتقال ہوچکا ہے۔ صوبہ بہار کے اکثر علماء اہل حدیث اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ مدرسہ احمدیہ سلفیہ، دربھنگہ کے علاوہ صوبہ بہار کے اکثر شہروں میں اہل حدیث مدارس قائم ہیں۔

مظفر پور (بہار) میں مولانا عبدالنور مرحوم جو حضرت میاں صاحب دہلوی کے شاگرد تھے، ۱۹۲۵ء میں دارالتکميل کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ اس مدرسہ کے علاوہ مظفر پور میں دو اور مدرسے مدرسہ احمدیہ اور جامع العلوم تھے۔

جامعہ ازہر

یہ مدرسہ مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی (م۱۳۲۹ھ/۱۹۱۱ء ) صاحب ِعون المعبود علیٰ سنن ابی داؤد کے خلف ِاکبر مولانا محمد ادریس ڈیانوی(م۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ء) نے قائم کیا تھا اور یہ مدرسہ ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۲ء میں قائم ہوا اور ۱۹۴۷ء تک کتاب وسنت کی شمع روشن کرتا رہا۔ تقسیم ملک پر حکیم محمد ادریس ڈیانوی ہجرت کرکے ڈھاکہ چلے گئے اور یہ مدرسہ ختم ہوگیا۔

جامعہ عربیہ دارالعلوم، عمر آباد (مدراس)

یہ مدرسہ حاجی محمد عمر مرحوم نے قائم کیا تھا اور اب تک کتاب و سنت کی اشاعت میں سرگرم عمل ہے اس مدرسہ کے فارغ التحصیل 'عمری' کہلاتے ہیں۔حضرت العلام مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی (م۱۹۸۵ء) اس مدرسہ میں چار سال تک تدریس فرماتے رہے۔ مولانا علم الدین سوہدروی مرحوم بھی حضرت محدث گوندلوی مرحوم کے ساتھ مدراس گئے تھے۔ اور تقریباً ۲ سال تک وہاں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ افضل العلما مولانا محمد یوسف کو کن مصنف ِ'امام ابن تیمیہ ' اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے۔

جامعہ محمدیہ عربیہ، رائدرک (مدراس)

جنوبی ہند میں ایک عظیم الشان مدرسہ ہے اور تقریباً ۳۵ سال سے دینی خدمات بجا لانے میں مصروف ہے۔ جنوبی ہند میں کتاب و سنت کی تعلیمات عام کرنے اور مسلک ِاہل حدیث کی اشاعت میں اس کا تاریخی کردار مسلم ہے۔

بنارس کے مدارس


بنارس صوبہ یو پی (اتر پردیش) کا مشہور شہر ہے اور ہندوؤں کا ایک متبرک مقام ہے۔ ہندو یونیورسٹی بھی بنارس میں ہے۔ بنارس میں مسلک ِاہل حدیث کے کئی ایک مدارس تھے جن کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے :

تدریس

۱۲۷۵ھ/۱۸۵۸ء میں مولانا سید جلال الدین احمدجعفری ہاشمی (م۱۲۷۹ھ/۱۸۶۲ء)نے قائم کیا تھا اور یہ مدرسہ دارالعلوم دیو بند سے چار سال قبل قائم ہوا۔ اس مدرسہ میں مولانا جلال الدین احمد کے علاوہ ان کے صاحبزادگان مولانا سعید الدین احمد جعفری ہاشمی (م۱۲۹۳ھ/۱۸۷۶ء) مولانا سید مجیدالدین احمد جعفری ہاشمی (م۱۲۹۸ھ/۱۸۷۸ء)، مولانا سید حمیدالدین احمد جعفری ہاشمی (م۱۳۰۸ھ/۱۸۹۰ء)، مولانا سید شہید الدین احمد جعفری ہاشمی (م۱۳۳۷ھ/۱۹۱۸ء) اور مولانا سید عبدالکبیر بہاری (م۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء) تدریس فرماتے رہے ... اس مدرسہ کے دورِ ثانی میں مولانا سید نذیر الدین احمد جعفری ہاشمی بن مولانا سید حمید الدین احمد جعفری ہاشمی (م۱۳۵۲ھ/۱۹۳۳ء) اور مولانا سید بشیر الدین احمد جعفری ہاشمی بن مولانا سید شہید الدین احمد جعفری ہاشمی (م۱۳۵۸ھ/۱۹۳۹ء) تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ... دورِ ثالث میں اس مدرسہ میں مولانا ابوالقاسم بنارسی (م۱۳۶۹ھ/۱۹۴۹ء) اور مولانا حکیم عبدالمجید اور مولانا عبدالآخر بنارسی نے تدریسی خدمات انجام دیں۔

مدرسہ مصباح الہدیٰ (جامعہ رحمانیہ) محلہ مدن پورہ، بنارس

یہ مدرسہ حافظ عبدالرحمن مرحوم ساکن بنارس نے ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۸ء میں قائم کیا تھا۔ اس مدرسہ کے صدر مدرّس مولانا محمد منیرخان مرحوم تھے۔ جو مولانا احمدعلی سہارنپوری محشّی صحیح بخاری (م۱۲۹۸ھ/۱۸۸۱ء) مولانا محمد سعید بنارسی(م۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء) اور شیخ ا لکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م۱۳۲۰ھ/۱۹۰۲ء) سے مستفیض تھے، یہ مدرسہ اب بھی جاری ہے۔

مدرسہ سعیدیہ، بنارس

یہ مدرسہ مولانا محمد سعید محدث بنارسی (م۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء) نے ۱۲۹۷ھ/۱۸۸۰ء میں قائم کیا تھا۔ مولانا محمد سعید بنارسی، حضرت حافظ عبداللہ غازیپوری (م۱۲۳۷ھ/۱۹۲۰ء) مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی  اور علامہ حسین بن محسن انصاری یمانی (م۱۳۲۷ھ/۱۹۰۹ء) سے مستفیض تھے۔ مولانا محمد سعید بنارسی کے بعد مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی (م۱۳۶۹ھ/۱۹۴۹ء ) اور مولانا سید نذیر الدین احمد جعفری ہاشمی بھی تدریس فرماتے رہے۔

اس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں مولانا محمد سعید بنارسی کے صاحبزادگان مولانا ابومسعود قمر بنارسی، مولانا قاری احمد سعید بنارسی، مولانا عبدالآخر بنارسی اور دوسرے بے شمار حضرات تھے۔

جامعہ سلفیہ، بنارس

اس وقت ہندوستان میں اہل حدیث مدارس میں اس مدرسہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اس مدرسہ کے پہلے شیخ الحدیث مولانا نذیراحمد دہلوی رحمانی تھے۔ جو املو ضلع اعظم گڑھ کے باسی تھے اور عراقی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ۱۹۶۵ء/۱۳۱۵ھ میں انتقال کیا۔ مولانا نذیراحمد رحمانی کے بعد مولانا عبدالواحد رحمانی مرحوم بھی اس مدرسہ کے صدر مدرّس رہے۔ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری جنہوں نے مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری (م۱۹۳۰ء/۱۳۴۹ھ) کی مشہور زمانہ کتاب 'رحمة للعالمین ' کا عربی میں ترجمہ کیا ہے اور اس کے علاوہ مولانا محمد اسماعیل سلفی (م ۱۹۶۸ء/۱۳۸۷ھ) کی چار کتابوں... مسئلہ حیات النبی ﷺ، تحریک آزادیٴ فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی، زیارة القبور اور اسلامی حکومت کے ضروری اجزا ... کا بھی عربی میں ترجمہ کیا ہے، اس جامعہ کے وکیل (نائب مہتمم)ہیں۔

جامعہ سلفیہ بنارس کا اپنا پریس ہے۔ اس وقت تک تقریباً دو سو سے زیادہ عربی اور اُردو میں کتابیں شائع کرچکا ہے اور اس کے دو ماہوار علمی رسالے ماہنامہ'محدث' بنارس اردو میں اور عربی میں 'صوت الامہ' شائع ہوتا ہے۔

مولانا صفی الرحمن مبارکپوری مصنف 'الرحیق المختوم' اس مدرسہ میں مدرّس رہے ہیں۔ مولانا محمد مستقیم سلفی مصنف 'جماعت ِاہل حدیث کی تصنیفی خدمات' اسی مدرسہ میں حدیث کے استاد ہیں۔ جامعہ سلفیہ بنارس نے اس وقت ہندوستان میں دارالعلوم ندوة العلما، لکھنوٴ، اور دارالعلوم دیوبند کی برابری کا مقام حاصل کرلیا ہے۔

مدرسہ دارالکتاب والسنة، دہلی

یہ مدرسہ مولانا عبدالوہاب ملتانی (م۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲ء)نے صدر بازار، دہلی میں قائم کیا تھا اور یہ مدرسہ اب تک کتاب و سنت کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔ اس مدرسہ کے شیخ الحدیث مولانا عبدالوہاب دہلوی تھے۔ اس مدرسہ سے جلیل القدر علما مستفیض ہوئے مثلاً مولانا عبدالستار دہلوی، خطیب ِہند مولانا محمد جونا گڑھی ایڈیٹر اخبارِ محمدی دہلی، اور مولانا محمدسورتی وغیرہم۔

مدرسہ چشمہ رحمت، غازی پور

یہ مدرسہ مولانا رحمت اللہ فرنگی محلّی (م۱۳۰۵ھ/۱۸۸۸ء) نے قائم کیا تھا۔ مولانا رحمت اللہ، حنفی المسلک تھے۔ مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری نے اپنی تعلیم کا آغاز اس مدرسہ سے کیا تھا اور اس مدرسہ میں آپ نے مولانا رحمت اللہ کے علاوہ مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی (م ۱۳۲۷ھ/۱۹۰۹ء) سے استفادہ کیا تھا۔ ۱۲۹۷ھ/۱۸۸۰ء میں محدث غازی پوری حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے اور وہاں شیخ عباس یمنی تلمیذ امام محمدبن علی شوکانی  سے حدیث کی سند واجازہ حاصل کی اور حجاز سے واپسی کے بعد محدث غازیپوری نے اس مدرسہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا چنانچہ یہ مدرسہ مسلک ِاہل حدیث پر کاربند ہوگیا۔

حافظ عبداللہ غازی پورینے اس مدرسہ میں سات سال تک (یعنی ۱۳۰۴ھ/۱۸۸۶ء تک) حدیث رسول اللہﷺ کا درس دیا۔ اس کے بعد آپ مولانا حافظ ابراہیم آروی کی دعوت پر مدرسہٴ احمدیہ، آرہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے ۲۰ سال تک یعنی ۱۳۲۷ھ تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد آپ دہلی تشریف لے آئے اور دہلی میں آپ نے مدرسہ حاجی علی جان اور مدرسہ ریاض العلوم میں درس و افادہ کا بازار گرم رکھا اور سینکڑوں طلبا کو علمی فیوض سے بہرہ ور کیا۔آپ کے مشہور تلامذہ یہ ہیں:

مولانا محمد سعید بنارسی، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری صاحب ِتحفة الاحوذی، مولانا شاہ عین الحق پھلواروی، مولانا عبدالسلام مبارکپوری صاحب ِسیرة البخاری، مولانا محمد اکبر شیث جونپوری، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی (گوجرانوالہ) وغیرہم

دارالحدیث رحمانیہ، دہلی

اس کے قیام کا پس منظر یہ ہے کہ امیرالمجاہدین صوفی محمد عبداللہ وزیرآبادی (م۱۹۷۵ء/۱۳۹۵ھ) دیوبند تشریف لے گئے۔ جب آپ مدرسہ دیوبند میں پہنچے تو مولانا محمد انورشاہ کشمیری (م۱۹۳۲ء/۱۲۵۱ھ) حدیث کا درس دے رہے تھے۔ حضرت صوفی صاحب مرحوم بھی شاہ صاحب کے درس میں بیٹھ گئے۔ جب شاہ صاحب درس سے فارغ ہوئے تو صوفی صاحب نے شاہ صاحب سے فرمایا:

"آپ حدیث کا درس دے رہے تھے یا حدیث پر تنقید فرما رہے تھے، آپ کا سارا درس حدیث پر تنقید اور تردید پر مشتمل تھا۔"

طلباء حضرت صوفی صاحب کی اس بات کو برداشت نہ کرسکے اور ان کے ساتھ گستاخی پراتر آئے۔ حضرت شاہ صاحب مرحوم صوفی صاحب کے نام اور کام سے واقف تھے۔ آپ نے طلبا کو سختی سے منع کیا۔ اس کے بعد صوفی محمد عبداللہ، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادیکے پاس تشریف لے گئے اور ان کو دیوبند کے واقعہ سے مطلع کیا اور ان کی خدمت میں عرض کیا کہ اہل حدیث جماعت کو بھی ایک مدرسہ قائم کرنا چاہئے۔ مولانا رحیم آبادی نے صوفی صاحب سے اس بات پر اتفاق کیا۔ شیخ عبدالرحمن اورشیخ عطاء الرحمن دونوں بھائی دہلی کے بڑے تجار میں شمار ہوتے تھے اور مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی سے ان دونوں بھائیوں کے دیرینہ مراسم تھے۔ چنانچہ مولانا رحیم آبادی نے دہلی جاکر شیخ برادران سے دیوبند کا واقعہ بیان کیا اور انہیں تحریک دی کہ دہلی میں آپ ایک مثالی مدرسہ قائم کریں۔

چنانچہ شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن نے مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی تحریک پر ۱۳۲۹ھ/۱۹۱۱ء میں 'دارالحدیث رحمانیہ' کے نام سے ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی اور باڑہ بند وارڈ میں ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کرائی۔ ہوسٹل (دارالاقامہ) علیحدہ تعمیر کرایا اور اس مدرسہ کا سارا انتظام اور طلباکی خوراک وغیرہ کا انتظام بھی اپنے ذمہ لیا۔ یہ مدرسہ ۱۹۴۷ء تک کتاب و سنت کی اشاعت میں سرگرمِ عمل رہا۔

اس مدرسہ کے اولین اساتذہ یہ مقرر ہوئے: مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی، مولانا احمد اللہ پرتاب گڑھی، مولانا غلام یحییٰ کانپوری اور مولانا عبدالرحمن نگر نہسوی۔ اس کے بعد اس مدرسہ میں مولانا حافظ محمدمحدث گوندلوی، مولانا عبدالسلام مبارکپوری، مولانا عبید اللہ رحمانی، مولانا نذیر احمد رحمانی اور مولانا شیخ محمد عبدہ الفلاح جیسے نابغہ روز گار علما نے تدریسی خدمات انجام دیں۔

مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی (م۱۹۶۴ء/۱۳۶۴ھ) اس کے اوّلین ممتحن اور مدیر تعلیم مقرر ہوئے اور اس مدرسہ کے آخری وجود ، قیامِ پاکستان تک اس منصب پر فائز رہے۔

اس مدرسہ کے فارغ التحصیل طلبا اپنے نام کے ساتھ 'رحمانی' لکھتے ہیں۔ اس مدرسہ کی ایک بہت لائبریری بھی تھی اور دارالحدیث رحمانیہ کا ایک ماہوار آرگن 'محدث' کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ جس کا سالانہ چندہ صرف چار آنے تھا۔ ۱۹۴۷ء کے فسادات میں یہ مدرسہ ختم ہوگیا۔ شیخ عطاء الرحمن کے صاحبزادے شیخ عبدالوہاب دارالحدیث کی لائبریری بنارس میں 'جامعہ سلفیہ' کے حوالہ کرکے کراچی آگئے۔2

ضلع اعظم گڑھ کے اہل حدیث مدارس


اعظم گڑھ صوبہ یو پی (اتر پردیش) کا ایک مشہور شہر ہے، اس کو ضلع کی حیثیت حاصل ہے۔ اس ضلع میں بڑے بڑے نامور علمائے کرام پیدا ہوئے۔ بقولِ اقبال سہیل:

اس خطہ اعظم گڑھ پہ مگر فیضانِ تجلی ہے یکسر
جو ذرّہ یہاں سے اُٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہوتا ہے !


مولانا شاہ ابواسحق بھیروی (م۱۲۳۴ھ)، مولانا حفیظ اللہ ہندوی (م ۱۳۶۴ھ)، مولانا سلامت اللہ جے راجپوری (م۱۳۲۲ھ)، علامہ شبلی نعمانی (م۱۳۳۲ھ)، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری (م ۱۳۵۳ھ)، مولانا عبدالسلام مبارکپوری(م۱۳۴۲ھ)، مولانا فیض اللہ مئوی (م۱۳۱۶ھ)، مولانا ابوالمکارم محمد علی مئوی (م۱۳۵۱ھ)، مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی (م۱۳۲۷ھ)، مولانا نذیر احمد دہلوی (۱۳۸۵ھ) اور مولانا قاضی اطہر مبارکپوری (م۱۴۱۶ھ) کا تعلق ضلع اعظم گڑھ سے تھا۔

اعظم گڑھ اور اس کے گرد و نواح میں اہل حدیث کے جو مدارس تھے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

دارالحدیث، اعظم گڑھ

یہ مدرسہ مولانا فیض اللہ مئوی (م۱۳۱۶ھ) نے قائم کیا تھا۔ آپ کے ساتھ دوسرے مدرّس مولانا محمد شکراللہ (م۱۳۱۵ھ) تھے۔ اس مدرسہ سے جونامور علما فارغ ہوئے، ان کے نام یہ ہیں:

ملا حسام الدین مئوی (م۱۳۱۰ھ)، مولانا عبدالغفور رانا پوری (م۱۳۰۰ھ)، مولانا حافظ عبدالرحیم مبارکپوری (م۱۳۲۰ھ)، مولانا خدا بخش اعظم گڑھی (۱۳۳۳ھ) اور مولانا ابوالمعالی محمدعلی مئوی (م۱۳۵۳ھ)

مدرسہ دارالسنة، اعظم گڑھ

یہ مدرسہ مولانا سلامت اللہ جے راجپوری (م۱۳۲۲ھ) نے قائم کیا تھا۔ مولانا سلامت اللہ علمائے اَعلام سے تھے۔ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیرحسین محدث دہلوی (م۱۳۲۰ھ) کے تلمیذ ِخاص تھے۔ اعظم گڑھ کے علاوہ مختلف اہل حدیث مدارس مثلاً بنارس، جونپور، غازی پور اور گونڈہ میں تدریس فرماتے رہے۔ محی السنہ نواب سید صدیق حسن خاں (م۱۳۰۷ھ) کے عہد میں بھوپال میں دینی مدارس کے افسر اعلیٰ بھی رہے۔ شمس العلما مولانا حفیظ اللہ ندوی پرنسپل ندوة العلما، لکھنوٴ اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے۔

مدرسہٴ مبارکپور

یہ مدرسہ مولانا حافظ عبدالرحیم مبارکپوری (م۱۳۲۰ھ) نے قائم کیا تھا۔ آپ کے زمانہ میں علاقہ میں حافظ ِقرآن نہ تھے۔ آپ نے اپنی توجہ سے لاتعداد لوگوں کو حافظ ِقرآن کردیا اور علوم بھی پڑھائے۔ حافظ عبدالرحیم کے انتقال کے بعد آپ کے صاحبزادہ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری صاحب ِتحفة الاحوذی (م۱۳۵۳ھ) اس مدرسہ کے نگران و مہتمم مقرر ہوئے، اور انہوں نے باقاعدہ علومِ اسلامیہ کی تدریس کا آغاز کیا۔ مولانا مبارکپوری سے اس مدرسہ میں جن علما نے استفادہ کیا، ان میں مولانا عبدالسلام مبارکپوری (م۱۳۴۲ھ) اور ان کے صاحبزادگان مولانا عبدالرحمن مبارکپوری (م ۱۳۶۴ھ)، مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری (م۱۴۰۲ھ)، مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی (م۱۳۸۲ھ) اور شیخ تقی الدین الہلالی مراکشی سابق استادِ ادب، ندوة العلما، لکھنوٴ اور جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ(م۱۹۸۷ء) قابل ذکر ہیں۔

مئو ناتھ بھجن کے مدارس


مئو ناتھ بھجن ضلع اعظم گڑھ کا مشہور قصبہ ہے اور شہر کی کثیر آبادی مسلک ِاہل حدیث سے وابستہ ہے۔ اس شہر میں جماعت ِاہل حدیث کی سالانہ کانفرنس تقریباً ہر سال ہوتی تھی۔ اور پورے ہندوستان سے علمائے اہل حدیث کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔ مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری (م۱۹۴۸ء)، مولانا حافظ محمد ابراہیم میرسیالکوٹی (م۱۹۷۵ء)، مولانا عبدالمجید سوہدروی (م۱۹۵۹ء) اور مولانا محمد اسماعیل سلفی (م۱۹۶۸ء) وغیرہم مئو ناتھ بھجن تشریف لے جاتے تھے۔ اس شہر میں اہل حدیث مکتب ِفکر کے جو مدارس تھے، ان کی تفصیل یہ ہے:

مدرسہ اسلامیہ، عالیہ

اس مدرسہ کی بنیاد ملا حسام الدین مئوی (م ۱۳۱۰ھ) نے ۱۲۸۵ھ/۱۸۶۸ء میں رکھی۔ اس مدرسہ کے صدر مدرّس خود ملا حسام الدین تھے۔ مولانا حافظ عبدالرحیم مبارکپوری اور مولانا ابوالمکارم محمد علی مئوی نے اس مدرسہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ملا حسام الدین مئوی کے انتقال کے بعد مولانا ابوالفیاض عبدالقادر مئوی (م۱۲۳۱ھ/۱۹۱۳ء) اور مولانا عبدالسلام مبارکپوری صاحب ِسیرة البخاری (م۱۳۴۲ھ/۱۹۲۴ء) اس مدرسہ میں تدریس فرماتے رہے۔

مدرسہ فیض عام

اس مدرسہ کے بانی و صدر مدرّس مولانا عبداللہ شائق (م۱۳۹۴ھ) تھے اور ان کے ساتھ دوسرے مدرّس مولانا محمد سلیمان مئوی (م۱۳۹۸ھ) تھے۔ یہ مدرسہ اب بھی کتاب و سنت کی اشاعت و تعلیم میں مصروفِ عمل ہے۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اشاعت ِکتب کی طرف بھی اس کی توجہ ہے۔ اشاعتی ادارہ 'اہل حدیث اکیڈمی' کے نام سے قائم ہے۔ اس اکیڈمی کی طرف سے اب تک مولانا محمد جونا گڑھی مرحوم کی تقریباً ۳۰ کے قریب کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ تفسیر ابن کثیر اُردو بنام تفسیر محمدی اور امام ابن قیم کی کتاب إعلام الموقعین کا اردو ترجمہ بنام 'دین محمدی' اس اکیڈمی نے شائع کی ہیں۔

مدرسہ دارالحدیث مطلع العلوم، میرٹھ

اس مدرسہ کی بنیاد مولانا سید امیر حسن سہسوانی (م۱۲۹۱ھ/۱۸۷۴ء) نے رکھی تھی اور اس مدرسہ میں وقتاً فوقتاً جن علمائے کرام نے تدریس فرمائی۔ ان کے نام یہ ہیں:

مولانا سید امیر حسن سہسوانی (م۱۲۹۱ھ)، مولانا سید امیر احمد سہسوانی (م۱۳۰۶ھ)، مولانا عبدالقادر بن مولانا غلام رسول قلعوی، مولانا حمیداللہ سراوہ (م۱۳۳۰ھ) اور مولانا عبدالحنان علوی ایڈیٹر اخبار اہل حدیث گزٹ، دہلی قابل ذکر ہیں۔

تلامذہ میں مولانا عبدالجبار عمرپوری (م۱۳۳۴ھ) جد ِامجد مولانا عبد الغفار حسن، مولانا ضیاء الرحمن، مولانا عبدالتواب علی گڑھی اور مولانا حکیم عبیدالرحمن عمرپوری وغیرہم شامل ہیں۔

پنجاب کے مدارس


متحدہ پنجاب (مغربی و مشرقی) میں اہل حدیث کے بے شمار مدارس تھے اور صوبہ پنجاب کا کوئی ضلع وتحصیل ایسی نہیں تھی جہاں اہل حدیث کا مدرسہ نہ تھا۔ یہاں صرف مشہور اہل حدیث مدارس کا ذکر کیا جاتا ہے:

مدرسہ محمدیہ، لکھو کے، ضلع فیروزپور

اس مدرسہ کی بنیاد صاحب ِتفسیر محمدی پنجابی مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی (م۱۳۱۱ھ) نے ۱۳۱۰ھ/۱۸۹۲ء میں رکھی تھی۔ اس مدرسہ میں جن علماء نے تدریسی خدمات انجام دیں، ان کے نام یہ ہیں:

مولانا حافظ محمد لکھوی (م۱۳۱۱ھ)، مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی (م۱۳۱۲ھ)، مولانا عبدالقادر لکھوی (م۱۳۴۳ھ)، مولانا محمد علی لکھوی مدنی (م۱۹۷۳ء)اور مولانا عطاء اللہ لکھوی (م۱۳۷۴ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

اس مدرسہ سے بے شمار حضرات مستفیض ہوئے اور ان میں سے بعض خود مسند ِتدریس پر متمکن ہوئے۔مشہور علماء جو اس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے، ان کے نام حسب ِذیل ہیں:

مولانا رحیم بخش لاہوری، مولانا غلام نبی ربانی سوہدروی، مولانا عبدالوہاب صدری دہلوی، مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی، مولانا عبدالقدوس غزنوی، مولانا عبدالاول غزنوی، مولانا احمد علی غزنوی، مولانا حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی وغیرہم۔

جامعہ محمدیہ، اوکاڑہ

جامعہ محمدیہ لکھو کے، قیام پاکستان کے بعداوکاڑہ (مغربی پنجاب) منتقل ہوگیا۔ اس مدرسہ کے نگران و مہتمم مولانا معین الدین لکھوی بن مولانا محمد علی لکھوی مدنی ہیں۔ اس مدرسہ سے بے شمار حضرات نے تعلیم حاصل کی ہے۔ مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی، مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی اور مولانا عبداللہ امجد چھتوی اس مدرسہ میں شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے ہیں۔

مدرسہ غزنویہ (تقویة الاسلام ) امرتسر

اس مدرسہ کی بنیاد مولانا سید عبداللہ غزنوی (م۱۲۹۸ھ/۱۸۸۱ء) نے رکھی۔ آپ کے ساتھ دوسرے مدرّس مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی (م۱۳۳۸ھ/۱۹۲۰ء) تھے۔ مولانا سید عبداللہ غزنوی کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادئہ گرامی مولانا سید عبدالجبار غزنوی (م۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء) اس مدرسہ کے نگران و مہتمم مقرر ہوئے تو انہوں نے مدرسہ غزنویہ کی بجائے 'تقویة الاسلام' نام رکھا۔

اس مدرسہ میں وقتاً فوقتاً جن علمائے کرام نے تدریسی خدمات انجام دیں، ان کے نام یہ ہیں:

مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی (م۱۳۰۰ھ) ، مولانا عبدالجبار غزنوی (۱۳۳۱ھ)، مولانا سید عبدالاوّل غزنوی (م۱۳۱۳ھ)، مولانا عبدالرحیم غزنوی (م۱۳۴۲ھ)، مولانا محمد حسین ہزاروی، مولانا ابواسحق نیک محمد ،مولانا سید محمد داؤد غزنوی(م۱۹۶۳ء) اور حافظ محمد حسین امرتسری روپڑی (م ۱۹۵۸ء) قابل ذکر ہیں۔

اس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں قابل ذکر علمائے کرام یہ ہیں:

مولانا حافظ عبداللہ روپڑی (م۱۹۶۴ء)، مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی (م۱۹۸۵ء)، مولانا محمد اسماعیل سلفی (م۱۹۶۸ء) اور مولانا فقیر اللہ مدراسی (م۱۹۲۳ء)

مدرسہ تقویة الاسلام، لاہور

مولانا سید عبدالجبار غزنوی کے انتقال ۱۹۱۳ء کے بعد مولانا سید محمد داؤد غزنوی تقویة الاسلام امرتسر کے ناظم مقرر ہوئے اور قیامِ پاکستان ۱۹۴۷ء تک آپ دارلعلوم تقویة الاسلام کا انتظام و انصرام بڑے احسن طریقے سے چلاتے رہے۔ ۱۹۴۷ء میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی امرتسر سے ہجرت کرکے لاہور تشریف لے آئے اور شیش محل روڈ لاہور پر تقویة الاسلام کا دوبارہ اجرا کیا۔ یہ مدرسہ اب بھی کتاب و سنت کی شمع کو روشن کئے ہوئے ہے۔ ۱۹۶۳ء تک مولاناغزنوی مرحوم اس کے ناظم رہے اور ان کے انتقال کے بعد مولانا سید ابوبکر غزنوی ناظم مقرر ہوئے۔ اپریل ۱۹۷۶ء میں مولانا ابوبکر غزنوی نے انتقال کیا تو سید عمر فاروق غزنوی اس کے ناظم مقرر ہوئے۔ سید عمر فاروق ۲ سال تک ناظم رہے۔ ۱۹۷۸ء کو ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد سید یحییٰ غزنوی اس کے ناظم ہوئے ،آج کل سید جنید غزنوی اس کے ناظم ہیں۔ حافظ محمد حسین روپڑی (م ۱۹۵۸ء) والد ِگرامی حافظ عبد الرحمن مدنی ،مولانا محمد عطاء اللہ حنیف (م ۱۹۸۷ء) اور مولانا حافظ محمداسحاق حسینوی اس کے شیخ الحدیث رہ چکے ہیں۔

دارلعلوم تقویة الاسلام، لاہور سے فارغ ہونے والوں میں مشہور علمائے کرام یہ ہیں:

مولاناقاضی محمداسلم سیف فیروزپوری، حافظ عزیز الرحمن لکھوی، حافظ شفیق الرحمن لکھوی، حافظ محمد یحییٰ عزیز میرمحمدی، مولانا محی الدین سلفی مرحوم، حافظ عبدالرحمن گوہڑوی مرحوم، مولانا محمد یونس اثری (مظفر آباد آزاد کشمیر) ہیں۔

مدرسہ تائید الاسلام، امرتسر

یہ مدرسہ مولانا احمد اللہ رئیس امرتسر (م۱۳۳۶ھ/۱۹۱۸ء) نے قائم کیا تھا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری (م۱۹۴۸ء) نے اپنی تعلیم کا آغاز اسی مدرسہ سے کیا تھا۔جب مولانا ثناء اللہ دینی تعلیم سے فارغ ہوکر واپس آئے تو اسی مدرسہ میں صدرمدرس کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ مولانا ثناء اللہ کے تلامذہ میں حافظ محمد کلانوری (ککے زئی) تھے۔ جو استادِپنجاب حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی کے انتقال (۱۳۳۴ھ/۱۹۱۶ء) کے بعد دو سا ل تک استادِپنجاب کے مدرسہ میں تدریس فرماتے رہے۔

دارالحدیث، وزیرآباد

یہ مدرسہ مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی (م ۱۳۳۴ھ) نے قائم کیا۔ اس مدرسہ میں حضرت حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی، مولانا حافظ عبدالستار بن محدث وزیرآبادی، مولانا حافظ محمد کلانووی اور مولانا عمر الدین رحمہم اللہ نے تدریسی خدمات انجام دیں۔

اس مدرسہ سے جو علمائے کرام فارغ التحصیل ہوئے۔ ان کا شہرہ برصغیر کے کونے کونے تک پہنچا یعنی فاتح قادیاں مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری (م۱۹۴۸ء)، امام العصر مولانا حافظ محمد ابراہیم میرسیالکوٹی (م۱۹۵۶ء)، مناظر اسلام مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی (۱۹۴۹ء)، مولانا عبدالقادر لکھوی (م۱۹۲۶ء) ، مولانا محمد علی لکھوی (۱۹۷۳ء)، مولانا فقیر اللہ مدراسی (۱۹۲۳ء)، مولانا عبدالحمید سوہدروی (م۱۹۱۲ء)، مولانا محمداسماعیل سلفی (م۱۹۶۸ء)، اورمولانا حافظ محمد گوندلوی (م۱۹۸۵ء)

مدرسہ حمیدیہ، سوہدرہ

یہ مدرسہ مولانا عبدالحمید سوہدروی بن مولانا غلام نبی ربانی سوہدروی نے قائم کیاتھا۔ مولانا عبدالحمید مرحوم ایک جلیل القدر عالم تھے۔ مولانا، حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی، شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی اور علامہ حسین بن محسن انصاری یمانی سے مستفیض تھے۔ ۱۳۰۱ھ میں پیدا ہوئے اور بہت تھوڑی عمر پائی، ۱۳۳۰ھ میں وفات پائی۔

مولانا غلام نبی ربانی کاشمار اہل اللہ میں ہوتا تھا۔ مولانا حافظ محمد لکھوی اور شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی سے علومِ اسلامیہ کی تحصیل کی۔ حضرت عارف باللہ مولانا سید عبداللہ غزنوی سے بھی مستفیض تھے۔ ۱۳۴۸ھ/۱۹۳۰ء میں انتقال کیا۔ اس مدرسہ سے فارغ ہونے والوں میں درج ذیل اصحاب شہرت کے درجہ کو پہنچے : مولانا نظام الدین کٹھوروی (م۱۹۱۳ء)، مولوی مراد علی کٹھوروی (۱۹۶۸ء)، مولوی ہدایت اللہ سوہدروی (م۱۹۶۷ء)، مولوی ابویحییٰ امام خاں نوشہروی (۱۹۶۶ء)

مدرسہ تعلیم القرآن، سوہدرہ

مولانا غلام نبی ربانی نے ۱۹۳۰ء میں انتقال کیا۔ آپ کے صاحبزادہ مولانا عبدالحمید کا ان کی زندگی میں ۱۹۱۲ء میں انتقال ہوچکاتھا۔ مولاناغلام نبی ربانی کے بعد ان کے پوتے مولانا عبدالمجید سوہدروی (م۱۹۵۹ء) جانشین ہوئے۔ لیکن وہ اپنی صحافتی مصروفیات کی وجہ سے تدریس کی طرف توجہ نہ دے سکے۔۱۹۴۸ء میں مولانا عبدالمجید کے صاحبزادہ مولوی حافظ محمد یوسف سوہدروی نے مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث کے نام ایک مدرسہ قائم کیا۔ یہ مدرسہ حافظ صاحب کے انتقال ۱۹۹۷ء تک جاری رہا۔ اس مدرسہ میں ناظرہ قرآن، ترجمہ قرآن اور حدیث کے اسباق ہوتے تھے۔ راقم آثم کو بھی حافظ صاحب سے شرفِ تلمذ حاصل ہے اور حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰة المصابیح اور صرف و نحو کے کچھ اسباق پڑھے۔

مدرسہ اصحابِ صفہ، سوہدرہ

حافظ محمد یوسف کے انتقال کے بعد ان کے چھوٹے بھائی حافظ عبدالوحید (نواسہٴ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری)نے یہ مدرسہ قائم کیا۔ اس مدرسہ میں ناظرئہ قرآن مجید، ترجمہ قرآن مجید اور حفظ ِقرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔ حافظ عبدالوحید صاحب آج کل ہیوسٹن (امریکہ) میں اشاعت ِاسلام میں سرگرمِ عمل ہیں اور یہ مدرسہ ان کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ اس مدرسہ کے تمام اخراجات حافظ صاحب ہی برداشت کرتے ہیں، مولوی حبیب الرحمن جو حافظ عبدالوحید صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں، حافظ صاحب کی نمائندگی کرتے ہیں۔

سیالکوٹ کے مدارس


سیالکوٹ میں سب سے پہلے اہل حدیث کا مدرسہ مولانا ابوعبداللہ عبید اللہ، غلام حسن (م۱۳۳۶ھ) نے قائم کیا۔مولانا غلام حسن کا مولد قصبہ ساہوالہ ہے، مولانا غلام مرتضیٰ سیالکوٹی سے علومِ اسلامیہ کی تحصیل کی اور حدیث کی سند مولانا سیدنواب صدیق حسن خان (م۱۳۰۷ھ) سے حاصل کی۔ مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی مرحوم ان کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔

دارالحدیث، سیالکوٹ

یہ مدرسہ مولانا محمدابراہیم میر سیالکوٹی (م۱۹۵۶ء) نے قائم کیا تھا۔ ۱۹۱۶ء میں قائم ہوا مگر زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ ۱۹۳۴ء میں اس کا دوبارہ اجرا ہوا اور چھ ماہ بعد بند ہوگیا۔ مولانا سیالکوٹی اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے تدریس کی طرف توجہ نہیں کرسکتے تھے۔تاہم جب تک یہ مدرسہ قائم رہا، بے شمار حضرات مولانا سیالکوٹی سے مستفیض ہوئے۔ مشہور تلامذہ یہ ہیں:

مولوی عصمت اللہ، مولوی محمد شفیع، مولوی عبیدالرحمن ساکن مبارکپور ضلع اعظم گڑھ، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا عبدالمجید سوہدروی اور مولانا عبدالواحد سیالکوٹی۔

جامعہ رحمانیہ (ابراہیمیہ) سیالکوٹ

اس مدرسہ کا آغاز ۱۹۶۲ء میں ہوا۔ ۱۹۶۴ء تک میانہ پورہ کی مسجد میں تعلیم وتدریس کا سلسلہ جاری رہا۔ ۱۹۷۱ء میں یہ مدرسہ ناصر روڈ پراپنی عمارت میں منتقل ہوگیا۔ اب اس مدرسہ کانام 'جامعہ رحمانیہ' ہوگیا ہے۔مولانا محمد علی جانباز اس مدرسہ کے شیخ الحدیث اور مہتمم ہیں۔مولانا عطاء الرحمن اشرف، مولانا محمد یونس اور حافظ عبدالرحمن اس مدرسہ میں مختلف علوم کی تدریس فرماتے ہیں۔

شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز صحیحین کا در س دیتے ہیں۔ جید عالم دین ہیں اور حدیث پر ان کا مطالعہ بڑا وسیع ہے۔ سنن ابن ماجہ کی شرح بزبان عربی ۱۳/ جلدوں میں لکھی ہے۔ جس کی پہلی ۲/ جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔

مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث، ساہوالہ

اس مدرسہ کی بنیاد مولانا محمد یحییٰ گوندلوی نے غالباً ۱۹۸۹ء میں رکھی۔ مولانا محمد یحییٰ گوندلوی جید عالم دین ہیں۔ مولانا ابوالبرکات احمد مدراسی، مولانا محمد عبدہ الفلاح، مولانا عبداللہ فیصل آبادی اور مولانا حافظ محمد گوندلوی رحہم اللہ اجمعین سے مستفیض ہیں۔ تفسیر اور حدیث پر ان کامطالعہ وسیع ہے۔ تصنیف و تالیف اور تدریس کا خاصا ملکہ حاصل ہے۔ علامہ البانی مرحوم کی صحیح سنن ترمذی اور صحیح سنن ابن ماجہ کاترجمہ اور تشریح ان کے قلم سے شائع ہوچکا ہے۔ تقریر بھی اچھی کرتے ہیں۔ آج کل اس مدرسہ میں تفسیر و حدیث کے اسباق ان کے ذمہ ہیں۔

جامعہ امام بخاری ، سیالکوٹ

یہ جامعہ پروفیسر حافظ محمد مطیع الرحمن سابق پروفیسر دینیات، مرے کالج سیالکوٹ نے قائم کی ہے۔ پروفیسر محمد مطیع الرحمن حضرت پیر آف جھنڈا شاہ بدیع الدین راشدی (م ۱۹۹۶ء) کے ارشد تلامذہ میں ہیں۔ اس جامعہ میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم اور کمپیوٹر سائنس کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔پروفیسر صاحب اس جامعہ کے مہتمم ہیں۔

گوجرانوالہ کے مدارس


گوجرانوالہ کی جامع مسجد اہل حدیث چوک نیائیں جس کو اب مرکزی مسجد اہل حدیث کہا جاتا ہے، میں درس و تدریس کا سلسلہ مولانا علاؤ الدین (م۱۳۳۹ھ/۱۹۲۰ء) نے کیا تھا۔ مولانا علاؤ الدین حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے تلمیذ تھے۔

جامعہ محمدیہ ،گوجرانوالہ

مولانا علاؤالدین کے انتقال کے بعد شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی مرکزی مسجد اہل حدیث کے خطیب مقرر ہوئے۔ تو آپ نے 'جامعہ محمدیہ' کی باقاعدہ بنیاد رکھی ۔ یہ مدرسہ ۸۰ سال سے کتاب و سنت کی اشاعت میں سرگرمِ عمل ہے۔ اس مدرسہ میں مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم کے علاوہ کئی جید علمائے کرام تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں مثلاً

مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی (م۱۹۸۵ء)، شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ (م۲۰۰۱ء)۔ اس مدرسہ سے بے شمار حضرات فارغ التحصیل ہوئے جن میں بعض کا شہرہ ازقاف بہ تاقاف پہنچا مثلاً

مولانا محمد حنیف ندوی، حکیم عبداللہ خاں نصرسوہدروی، مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، مولانا محمد اسحاق بھٹی، پروفیسر قاضی مقبول احمد، مولانا حکیم محمود سلفی، مولانا محمد رمضان سلفی، مولانا محمدخالد گرجاکھی، مولانا عزیز الرحمن یزدانی برادرِ اکبر مولانا حبیب الرحمن یزدانی۔ آج کل مولانا حافظ عبدالمنان نورپوری صدر مدرّس اور مولانا عبد الحمید ہزاروی شیخ الحدیث ہیں۔

دارالحدیث، گوندلانوالہ

یہ مدرسہ مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی (م۱۹۸۵ء) نے جاری کیا تھا۔ حافظ صاحب کی ذات محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ حضرت الامام مولانا سیدعبدالجبار غزنوی (م۱۳۳۱ھ) کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔

آپ عصر حاضر کے حافظ الحدیث، جامع معقول و منقول، اور پاکستان کے شیخ الکل تھے۔ ۶۲ سال تک تدریس فرمائی۔ ان کے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے ،مشہور تلامذہ یہ ہیں:

مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری صاحب ِمرعاة المفاتیح فی شرح مشکوٰة المصابیح، مولانا محمد یوسف کوکن عمری مصنف 'امام ابن تیمیہ'، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی شارح سنن نسائی، شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات احمد مدراسی، شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ الفلاح،شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق فیصل آبادی، شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد اسحق حسینوی، شیخ الحدیث مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز، شیخ الحدیث مولانا محمد اعظم گوجرانوالہ، مولانا علم الدین سوہدروی، مولاناعبدالرحمن عتیق وزیرآبادی، علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید،شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالمنان نورپوری،مولانا عبدالقادر ندوی صدر جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن، مولانا معین الدین لکھوی ناظم جامعہ محمدیہ اوکاڑہ، مولانا ارشاد الحق اثری صاحب ِتصانیف ِکثیرہ،مولانامحمد صادق خلیل فیصل آبادی مترجم مشکوٰة المصابیح و صاحب تفسیر اَصدق البیان مولانا عطاء الرحمن اشرف استادِ حدیث جامعہ رحمانیہ ،سیالکوٹ

جامعہ اسلامیہ، گوجرانوالہ

جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ حاجی محمد ابراہیم انصاری مرحوم نے قائم کیا تھا۔ حضرت العلام مولانا حافظ محمد گوندلوی (م۱۹۸۵ء)، شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات احمدمدراسی (م۱۹۹۱ء)، اس کے صدر مدرس رہ چکے ہیں۔ آج کل مولانا فاروق الراشدی صدرمدرّس ہیں اور نائب صدر مدرس مولانا محمد اعظم ہیں۔ اس مدرسہ سے بے شمار علماء فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔مشہور علمائے کرام یہ ہیں:

مولانا محمد مدنی اور ان کے برادرِ خوردحافظ عبدالحمید عامر مدیر الجامعہ الاثریہ جہلم، قاضی عبدالرشید جہلن، مولانا محمد یحییٰ گوندلوی، میاں محمد جمیل، حافظ عباس انجم، حافظ عزیز الرحمن ناظم مکتبہ عزیزیہ لاہور اور مولوی ابوعثمان عبدالرحمن سلفی خطیب مسجداہل حدیث ککے زیاں، سوہدرہ

لاہور کے مدارس


لاہور میں اہل حدیث کے کئی ایک مدارس کتاب و سنت کی اشاعت و تعلیم میں سرگرم عمل ہیں۔ یہاں صرف تین مشہور مدارس کا تعاف پیش خدمت ہے

جامعہ اہل حدیث، چوک دالگراں لاہور

یہ مدرسہ مفتی ٴدوراں مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی (م۱۹۶۴ء) اور شیخ التفسیرحافظ محمد حسین (برادرِ خورد) نے ۱۹۵۶ء میں قائم کیا۔ حضرت العلام محدث روپڑی علوم اسلامیہ کے بحر ذخار تھے۔ تمام علوم یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، تاریخ و سیر، اسماء الرجال، لغت و ادب، فلسفہ و منطق اور صرف و نحو وغیرہ میں ان کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ مسائل کی تحقیق و تدقیق میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ ان کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے، مشہور تلامذہ یہ ہیں:

مولانا عبدالجبار محدث کھنڈیلوی، مولانا حافظ محمد حسین روپڑی، مولانا سید بدیع الدین شاہ راشدی، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف، مولانا حافظ اسماعیل روپڑی، مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی، حافظ عبد السلام فتح پوری، مولانا عبدالسلام کیلانی، مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی، مولانا حبیب الرحمن شاہ راولپنڈی اور مولانا عبد الوکیل علو ی وغیرہم۔

حضرت العلام محدث روپڑی نے ۱۹۶۴ء میں انتقال کیا۔ ۱۹۶۲ء سے محدث روپڑی نے اس جامعہ کا تعلیمی انتظام اپنے بھتیجے حافظ عبد الرحمن امرتسری(مدنی) کے سپرد کردیا اور جامعہ کے مالی ناظم حضرت حافظ عبدالقادر روپڑی (م۱۹۹۹ء) اور ان کے معاونِ خاص حافظ محمود احمد کے سپرد رہا۔بعد ازاں حضرت حافظ عبد القادر روپڑی ۳۵ سال تک جامعہ اہل حدیث کے نگران رہے۔ حضرت حافظ روپڑی کے انتقال کے بعد ان کے چچا مولوی عبد الواحد کے پوتے مولانا حافظ عبدالغفار روپڑی ناظم مقرر ہوئے۔

جامعہ اہل حدیث میں اس وقت مولانا عبیداللہ عفیف شیخ الحدیث ہیں۔ ان کے علاوہ حافظ عبدالغفار روپڑی، حافظ عبدالوہاب روپڑی، حافظ محمد حنیف مدنی، مولانا جابر حسین مدنی قابل ذکر اساتذہ میں شامل ہیں۔

یہ مدرسہ خانوادئہ روپڑی کی یادگار ہے اور کتاب و سنت کی ترقی و ترویج میں دن رات کوشاں ہے۔ اس مدرسہ کا مدینہ یونیورسٹی کی ثانوی تعلیم سے معادلہ ہے۔ درسِ نظامی کے ساتھ اس میں شعبہ حفظ ِقرآن بھی ہے۔

جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) ماڈل ٹاؤن، لاہور

یہ مدرسہ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی بن مولانا حافظ محمد حسین روپڑی کی زیرنگرانی کتاب و سنت کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی ایک جلیل القدر عالم دین ہیں۔ حضرت العلام محدث روپڑی کے بھتیجے اور تلمیذ ِرشید ہیں۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے تعلیم یافتہ ہیں، اس لئے مدنی کہلاتے ہیں۔جامعہ کے زیر اہتمام تین کلیہ جات کلیہ الشریعہ ، کلیہ القرآن اور کلیہ العلوم الاجتماعیہ بڑی کامیابی سے کام کررہے ہیں۔ دو معاہد المعہد العالی للشریعہ والقضاء اور المعہد العالی للدعوة والاعلام بھی سرگرم عمل ہیں۔ طلبہ وطالبات کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے۔عصری علوم اور کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم اس ادارے میں ابتدا سے ہی لازمی ہے۔ ملکی اور عالمی سطح پر یہ جامعہ امتیازی شان رکھتا ہے۔

جامعہ رحمانیہ کے علاوہ کئی مدارس البنات بھی ان کی زیر نگرانی چل رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 'مجلس التحقیق الاسلامی' کے نام سے ایک تحقیقی وعلمی ادارہ بھی قائم ہے۔اس ادارہ کے زیرنگرانی ۳۴ سال سے ایک ماہوار علمی و تحقیقی مجلہ 'محدث' بھی شائع ہورہا ہے۔

ماہنامہ 'محدث' علمی لحاظ سے ایک بلندپایہ رسالہ ہے اور ملک کے علمی و دینی رسائل میں اس کا بڑا اعلیٰ مرتبہ و مقام ہے۔ اس کے مقالات اصلاحی ، معلوماتی اور تحقیقی ہوتے ہیں اسی بنا پر اس رسالہ کی تمام مسالک کے اہل علم و تحقیق کی نظرمیں بڑی قدر ہے۔ حافظ حسن مدنی جو مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی کے صاحبزادے ہیں، اس کے مدیر اور حضرت حافظ صاحب مدیر اعلیٰ ہیں۔

ابوہریرہ  اکیڈمی، لاہور

یہ اکیڈمی میاں محمد جمیل ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیة اہل حدیث پاکستان نے ۱۹۹۷ء میں قائم کی۔ اس اکیڈمی میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بی اے تک دی جاتی ہے۔ میاں محمد جمیل مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ آپ اعلیٰ خطیب ہونے کے علاوہ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر بھی ان کی وسیع نظر ہے۔ بڑے سلجھے انداز میں ملکی و عالمی سیاست پر تبصرہ فرماتے ہیں۔ ابوہریرہ اکیڈمی میٹرک پاس طلبہ کو علومِ اسلامیہ کی تعلیم مع عصری تعلیم چار سال میں مکمل کرتی ہے۔

جامعہ تعلیم الاسلام، مامون کانجن

جامعہ تعلیم الاسلام امیرالمجاہدین صوفی محمد عبداللہ وزیر آبادی (م۱۹۷۵ء) نے اوڈانوالہ چک ۴۹۳ گ ب میں ۱۹۲۱ء/۱۳۳۹ھ میں قائم کیا تھا اور ۱۹۳۲ء/۱۳۵۱ھ میں اسے باقاعدہ دارالعلوم کی شکل دی گئی۔ ۱۹۶۵ء/۱۳۷۵ھ میں یہ مدرسہ اوڈانوالہ سے ماموں کانجن منتقل ہوگیا۔ یہ مدرسہ ۸۰ سال سے کتاب وسنت کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔ حضرت صوفی محمد عبداللہ اس مدرسہ کے نگران و مہتمم تھے۔ ان کے انتقال کے بعد کچھ عرصہ مولانا محمد سلیمان وزیرآبادی بن امیر المجاہدین مولانا فضل الٰہی وزیرآبادی اس کے مہتمم رہے۔ آج کل مولانا عبدالقادر ندوی جامعہ کے صدر ہیں۔ جامعہ تعلیم الاسلام میں ممتاز علمائے اہل حدیث نے وقتاً فوقتاً تدریسی خدمات سرانجام دیں۔مثلاً

مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولانا محمد اسحق چیمہ، شیخ الحدیث مولانا محمد عطاء اللہ حنیف، شیخ الحدیث مولانا حافظ احمد اللہ بڈھیمالوی، مولانا محمد صادق خلیل، شیخ الحدیث پیر محمد یعقوب قریشی، شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ الفلاح، شیخ الحدیث حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، مولانا عبدالرشید راشد ہزاروی حفظہ اللہ وغیرہم

اس جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے والے علمائے کرام میں چند مشہور یہ ہیں:

مولانا محمد صدیق فیصل آبادی، مولانا ابوالبرکات احمدمدراسی، پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری، مولانا عبدالحمید ہزاروی، علامہ محمد مدنی جہلم، مولانا عبدالقادر ندوی، مولانا قاضی محمد اسلم سیف۔ جامعہ تعلیم الاسلام کے آج کل مولانا حافظ بنیامین شیخ الحدیث ہیں۔ اس جامعہ کا معادلہ بھی مدینہ یونیورسٹی سے ہے۔

دارالحدیث محمدیہ، جلال پور پیروالہ

یہ مدرسہ حضرت مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری (م۱۹۹۵ء) نے قیامِ پاکستان سے قبل قائم کیا تھا۔ محدث جلالپوری نے اس مدرسہ میں نصف صدی سے زیادہ حدیث کا درس دیا ۔ یہ مدرسہ اب بھی کتاب و سنت کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔ آج کل مولانا محمد رفیق اثری اس مدرسہ کے روحِ رواں ہیں۔

جامعہ کمالیہ، راجووال

جامعہ کمالیہ راجووال آج سے ۵۰ سال قبل مولانا محمد یوسف راجووالوی نے قائم کیا۔ یہ مدرسہ اب بھی مولانا محمد یوسف حفظہ اللہ تعالیٰ کی زیر نگرانی کتاب و سنت کی اشاعت میں سرگرم عمل ہے۔ اس مدرسہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں مجتہد العصر مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی، شیخ الحدیث حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، شیخ الحدیث مولانا محمدعبدہ الفلاح، مولانا حافظ عبداللہ امجد چھتوی، مولانا قدرت اللہ فوق اور مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی سالانہ تعطیلات میں دورئہ تفسیر کراتے رہے ہیں۔

جامعہ ثنائیہ، ساہیوال

یہ مدرسہ مولانا عبدالرشید راشد ہزاروی کی زیرنگرانی کتاب و سنت کی اشاعت میں سرگرمِ عمل ہے۔مولانا عبدالرشید ہزاروی ایک کامیاب مدرّس ہیں۔ تدریس کا کافی تجربہ رکھتے ہیں، کئی سال تک جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن میں تدریسی خدمات دے چکے ہیں۔

جامعہ ابی ہریرہ، رینالہ خورد

یہ مدرسہ صرف ونحو کے امام ، استادِ پنجاب مولانا عطاء اللہ لکھوی کے صاحبزادے حافظ عزیز الرحمن لکھوی کے بعد ان کے برادرِ بزرگ حافظ شفیق الرحمن لکھوی کی زیر نگرانی تقریباً ۴۰ سال سے قرآن و حدیث کی تعلیم میں بھی سرگرمِ عمل ہے۔ اس مدرسہ میں تقریباً ۱۲ /اساتذہ کرام تعلیم دے رہے ہیں۔

جامعہ سلفیہ، فیصل آباد

۴،۵ / اپریل ۱۹۵۵ء کو جمعیة اہل حدیث پاکستان کی سالانہ کانفرنس لائل پور(فیصل آباد) مولانا سید محمد اسماعیل غزنوی (م۱۹۶۰ء) کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ جس میں اہل حدیث جماعت کا ایک دارالعلوم قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ مولانا محمدحنیف ندوی (م۱۹۸۷ء) نے جامعہ سلفیہ نام تجویز کیا جو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا اور یہ بھی منظور کیا گیا کہ 'جامعہ سلفیہ' لائل پور (فیصل آباد) میں ہی قائم کیا جائے۔ چنانچہ ۴/اپریل ۱۹۵۵ء کو جامعہ سلفیہ کا سنگ ِبنیاد فیصل آباد کے مشہور بزرگ حکیم نور الدین مرحوم نے نصب فرمایا۔

ایک سال بعد ارکانِ جمعیة اہل حدیث پاکستان نے فیصلہ کیا کہ جب تک جامعہ سلفیہ کی عمارت تعمیر نہیں ہوجاتی، لاہور میں جامعہ سلفیہ کے درجہ تکمیل کا آغاز کیا جائے۔ چنانچہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے اس کے لئے اپنے دارالعلوم 'تقویة الاسلام' کاایک حصہ پیش کردیا۔

چنانچہ ۱۷/ مئی ۱۹۵۶ء کو جمعیة اہل حدیث پاکستان کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ جامعہ سلفیہ کا آغاز جلد کردینا چاہئے۔ اسی طرح ۲۱/ جون ۱۹۵۶ء کوجمعرات کے روز تقویة الاسلام کے ہال میں جامعہ سلفیہ کے درجہ تکمیل کا افتتاح ہوا۔

اس کے ساتھ ہی ۲۲/ جون ۱۹۵۶ء فیصل آباد کی جامع مسجد اہل حدیث (امین پورہ بازار) میں جامعہ سلفیہ کے ثانوی درجے کا افتتاح ہوا۔ اور اس درجہ کے لئے مولانا محمد اسحق چیمہ اور مولانا محمد صدیق فیصل آباد کی خدمات حاصل کی گئیں۔

میاں محمد باقر مرحوم نے اپنے مدرسہ خادم القرآن والحدیث جھوک دادو کے ایک استاد مولانا محمدحسین طور کی خدمات بھی درجہ ثانوی کے سپرد کردیں۔ ۱۹۵۸ء میں جامعہ سلفیہ اپنی موجودہ عمارت میں منتقل ہوگیا۔ جامعہ سلفیہ کی مسند ِشیخ الحدیث پرجو علمائے کرام فائز رہے، ان کے اسمائے گرامی بہ ترتیب یہ ہیں:

مولانا محمد عطاء اللہ حنیف(لاہور میں پھر فیصل آباد میں)، حضرت حافظ محمد محدث گوندلوی، حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، مولانا محمدعبدہ الفلاح، مولانا پیر محمد یعقوب قریشی، مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری، مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی،مولانا محمد صدیق فیصل آبادی، مولانا حافظ احمداللہ بڈھیمالوی، اور مولانا حافظ عبدالعزیز علوی (موجودہ شیخ الحدیث)

جامعہ سلفیہ میں جن اساتذئہ کرام نے مختلف اوقات میں تدریس فرمائی ، ان میں سے چند مشہور علمائے کرام درج ذیل ہیں:

مولانا شریف اللہ خان، مولانا عبدالغفار حسن، مولانا محمد صادق خلیل،پروفیسر غلام احمد حریری،مولانا ہدایت اللہ ندوی، مولانا علی محمد حنیف، مولانا حافظ بنیامین، حافظ عبد السلام فتح پوری، مولانا محمد حسین طور، مولانا محمد علی جانباز، مولانا عبد اللہ امجد چھتوی ، ڈاکٹر محمد سلیمان اطہر ، حافظ مسعود عالم۔

جامعہ سلفیہ کے ناظم تعلیمات درج ذیل علمائے کرام رہے :

مولانا محی الدین احمد قصوری، مولانا اسماعیل سلفی، مولانا عبداللہ ثانوی امرتسری،مولانا حافظ اسماعیل ذبیح، حافظ محمد یحییٰ میرمحمدی، مولانا حبیب الرحمن شاہ، مولانا محمد اسحاق چیمہ،مولانا محمد صدیق فیصل آبادی۔

جامعہ سلفیہ کے مہتمم مندرجہ ذیل حضرات رہے

مولانا ابوحفص عثمانی اور مولانا محمد یٰسین ظفر (موجودہ)

جامعہ سلفیہ سے فارغ التحصیل ہونے والے علمائے کرام کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جامعہ سلفیہ کا معادلہ مدینہ یونیورسٹی سے ہے۔ وفاق المدارس سلفیہ کا صدر دفتر بھی جامعہ سلفیہ میں قائم ہے۔

جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ، فیصل آباد

یہ مدرسہ مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف (م۱۹۹۷ء) نے قائم کیا۔ اس مدرسہ میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کابھی انتظام ہے۔ مولانا عبدالغفار حسن عمرپوری اس مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یہ مدرسہ اب بھی کتاب و سنت کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ حکیم عبدالرحیم اشرف مرحوم کے صاحبزادے ڈاکٹر زاہد اشرف صاحب اس مدرسہ کے ناظم ہیں۔

ادارة العلوم الاثریہ، فیصل آباد

یہ مدرسہ مولانا عبداللہ فیصل آبادی مرحوم نے قائم کیا۔ مولانا ارشادالحق اثری اور مولانا عبدالحی انصاری اس ادارہ میں علمی وتحقیقی کام کرتے ہیں۔ مولانا ارشادالحق اثری ایک فاضل محقق اور صاحب قلم عالم ہیں۔ حدیث اور فقہ پر عبورہے۔ فقہ حنفی پران کی نظر بہت وسیع ہے۔ ان کے قلم سے عربی اور اردو میں ۲۵ سے زیادہ کتابیں نکل چکی ہیں۔ حال ہی میں مسند ِابی یعلی موصلی ان کی تحقیق و تخریج و تنقیح سے شائع ہوئی ہے۔

مرکز الدعوة السلفیہ، ستیانہ بنگلہ، فیصل آباد

یہ مدرسہ ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا کے زیر اہتمام چل رہا ہے۔ مولانا عبداللہ امجد چھتوی شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز ہیں۔ اس مدرسہ میں۲۰۰ کے قریب طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

جامعہ ستاریہ، کراچی

اس مدرسہ کی بنیاد مولانا حافظ عبدالستار صدری دہلوی (م۱۹۶۲ء) نے رکھی۔ مولانا حافظ عبدالستار ، مولانا عبدالوہاب صدری دہلوی کے بڑے صاحبزادے تھے۔ بڑے وسیع النظرعالم دین اور مناظر تھے۔ ان کی ساری زندگی حدیث ِنبوی کی تدریس میں بسر ہوئی۔ کراچی میں اہل حدیث کا یہ بہت بڑا مدرسہ ہے۔ مدینہ یونیورسٹی سے بھی اس کاالحاق ہے۔ آج کل مولانا عبدالرحمن سلفی اس مدرسہ کے مہتمم ہیں۔

جامعہ ابی بکر ، کراچی

کراچی کا ایک بڑا جامعہ ہے جسے پروفیسر ظفر اللہ  نے قائم کیا۔ اس مدرسہ میں عربی زبان کی تعلیم کا خاص ذوق وشوق پایا جاتا ہے۔ اسلامی عربی جامعات کی عالمی تنظیم کا یہ جامعہ بھی رکن ہے۔اس میں عصری علوم کا بھی انتظام ہے ، اس جامعہ میں ذریعہ تعلیم عربی زبان ہے۔

جامعہ توحیدیہ، وزیرآباد

یہ مدرسہ حافظ عبدالستار نے قائم کیا ہے۔ حافظ عبدالستار حامد اس مدرسہ کے مہتمم ہیں۔ اس مدرسہ میں حفظ ِقرآن اور درسِ نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے۔

الجامعہ الاثریہ، جہلم

یہ مدرسہ مولانا عبدالغفور جہلمی نے قائم کیا اس مدرسہ کا سنگ ِبنیاد ۱۹۷۹ء میں امام کعبہ شیخ محمد بن عبداللہ السبیل نے رکھا۔ اس مدرسہ کی بلڈنگ کی تعمیر میں حاکم شارجہ نے بھر پور تعاون کیا۔ الجامعہ الاثریہ کے دو حصے ہیں: ایک طلباء کے لئے اور دوسرا طالبات کے لئے۔

الجامعہ الاثریہ کے رئیس علامہ محمدمدنی تھے جن کا انتقال عید الاضحی ۱۴۲۲ھ سے چند روز قبل ہوا۔مولانا پیر محمد یعقوب قریشی اس کے شیخ الحدیث ہیں۔ الجامعہ الاثریہ کا ترجمان ماہنامہ 'حرمین' ہے جس کے مدیر مدنی صاحب کے چھوٹے بھائی حافظ عبدالحمید عامر ہیں۔

پاکستان میں اہل حدیث کے دیگر مدارس

قیامِ پاکستان کے بعد بھی علمائے اہل حدیث نے دینی مدارس کے قیام کی طرف از سر نو توجہ کی ۔ علمائے کرام نے اپنی ذاتی محنت و کوشش سے مدرسے قائم کئے۔ تمام دینی مدارس کا تفصیل سے تعارف کرانا مشکل ہے۔ اور میں صرف ان مدارس کے ناموں پر ہی اکتفا کرتا ہوں:

جامعہ ابن تیمیہ لاہور، مدرسہ ریاض القرآن والحدیث لاہور، مدرسہ تدریس القرآن والحدیث للبنات وسن پورہ لاہور، مدرسہ تدریس القرآن والحدیث ، گرین ٹاؤن لاہور، مدرسہ عربیہ دینیہ گوجرانوالہ، جامعہ رحمانیہ گوجرانوالہ، جامعہ اسلامیہ سلفیہ گوجرانوالہ،جامعہ سلفیہ اسلام آباد، جامعہ اثریہپشاور، جامعہ سلفیہ کوئٹہ، دارالحدیث رحمانیہ کراچی، جامعہ ابن تیمیہ کراچی، جامعہ احسان الٰہی ظہیر کراچی، جامعہ بحر العلوم سعودیہ کراچی، جامعہ عمربن خطاب کراچی، جامعہ عربیہ اسلامیہ نیو سعید آباد حیدر آباد (سندھ)، مدرسہ اسلامیہ سلفیہ گوٹھ حاجی سلطان، جامعہ محمدیہ خان پور، مدرسہ اسلامیہ بہاولپور، مدرسہ اسلامیہ سلفیہ لودھراں، مرکز ابن قاسم ملتان، دارالحدیث رحمانیہ ملتان، مدرسہ دارالقرآن والحدیث کوٹ ادّو، معہد شریعہ وصناعہ کوٹ ادّو، مدرسہ سعیدیہ خانیوال، مدرسہ اشاعت ِاسلام چیچہ وطنی، جامعہ عزیزیہ ساہیوال، جامعہ رحیمیہ ساہیوال، مدرسہ اسلامیہ البدر ساہیوال، دارالحدیث اوکاڑہ، مدرسہ دارالقرآن والحدیث چشتیاں منڈی، مدرسہ رحمانیہ فاروق آباد، جامعہ محمدیہ شیخوپورہ، جامعہ علمیہ سرگودھا، دارالقرآن والحدیث فیصل آباد، جامعہ اسلامیہ حاجی آباد فیصل آباد، مدرسہ اسلامیہ گوجرہ، مدرسہ خادم القرآن والحدیث جھوک دادو، مدرسہ دارالحدیث مسجد چینیانوالی لاہور، مدرسہ ضیاء السنة راجہ جنگ، مدرسہ دارالحدیث ٹھینگ موڑ، مدرسہ دارالسلام ڈھولن ہٹھار، مدرسہ تجوید القرآن میر محمد، مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث شرقپور، مدرسہ رحمانیہ کامونکی، دارالحدیث محمدیہ حافظ آباد، مدرسہ ترتیل القرآن اوکاڑہ، مدرسہ دارالعلوم ڈھلیانہ، مدرسہ حفظ القرآن میاں چنوں، مدرسہ فیض العلوم منڈی عبدالحکیم، مدرسہ دارالحدیث میاں چنوں، مدرسہ عربیہ دارالحدیث ملتان،مدرسہ دارالقرآن رحمانیہ سرگودھا، مدرسہ اسلامیہ سلفیہ نصرة العلوم گوجرانوالہ، دارالعلوم محمدیہ مظفر آباد (آزادکشمیر)، دارالحدیث محمدیہ رحیم یار خان اور دار الحدیث محمدیہ عام خاص باغ ملتان وغیرہ


نوٹ

1. اس کا اعتراف مولانا زاہد الراشدی کو بھی ہے، وہ اپنی تصنیف 'دینی مدارس کی مثالی خدمات' مطبوعہ مکہ کتاب گھر، الکریم مارکیٹ، اردو بازار ، لاہور (اپریل ۲۰۰۱ئ) کے پیش لفظ مؤرخہ ۲۰؍مارچ ۲۰۰۱ء میں لکھتے ہیں:

''جہادِ بالاکوٹ کے بعد جب حضرت شاہ محمد اسحق دہلویؒ ہجرت کرکے حجازِ مقدس چلے گئے تو ان کی جگہ دہلی کی مسند ِحدیث پر حضرت میاں نذیر حسین دہلویؒ متمکن ہوئے جن کا رجحان حنفیت سے گریزاں اس مکتب ِفکر کی طرف تھا جو بعد میں اہل حدیث سے موسوم ہوا۔'' (ص ۷،۸)

اسی پیش لفظ میں وہ 'درسِ نظامی' کے بانی ملا نظام الدین سہالویؒ (متوفی ۱۱۶۱ھ) کے سلسلہ درس کا اضافہ کرتے ہوئے 'مدرسہ عربیہ' بعدازاں 'دار العلوم دیوبند' کی طرف سے درسِ نظامی میں دورئہ حدیث کے اضافے کا ذکر بھی کرتے ہیں جس کا بنیادی سبب حضرت میاں سید نذیر حسین دہلویؒ کا وہ طرزِ تدریس حدیث ہی تھا۔

اگرچہ حضرت میاں نذیر حسین دہلوی کا لقب 'شیخ الکل فی الکل' اسی لئے معروف ہوا کہ وہ تمام علوم ہی پڑھاتے تھے یعنی یہ جانشینی صرف حدیث کی طرزِ تدریس کے اعتبار سے ہی نمایاں نہ تھی بلکہ یہ ایک کامل مدرسہ تھا۔ واضح رہے کہ ماضی قریب تک مدارس کا اصل تعارف کسی ایک بڑی علمی شخصیت کے حوالے سے ہی چلا آتا ہے جو 'شیخ الحدیث' کہلاتا ہے۔ تشنگانِ علوم اسی کی شہرت کی بنا پر مدارسِ عربیہ میں جوق در جوق داخل ہوتے تھے۔ ( محدث)

2.  چونکہ 'رحمانیہ ' کے معاون مدیر تعلیم ؍ممتحن حافظ عبد اللہ روپڑیؒ کے بردارِ خورد شیخ التفسیر حافظ محمد حسین (والد ِگرامی مدیر اعلیٰ محدث) تھے جبکہ امتحان کی نگرانی بطورِ خاص خطیب ِملت حافظ محمد اسمٰعیل روپڑیؒ اور مناظر اسلام حافظ عبد القادر روپڑی ؒ وغیرہم بھی فرماتے تھے ، اس لئے اس مدرسہ کا خاص علمی تعلق اس امرتسری؍روپڑی خاندان سے تھا۔ اسی مناسبت سے حافظ عبد الرحمن مدنی نے جب گارڈن ٹائون ؍ماڈل ٹائون لاہور میں دینی تدریس کے کام کو پھیلایا تو پہلے مدرسہ کا نام 'رحمانیہ' ہی رکھا، اور اس سے ملحق علمی تحقیقی ادارہ کانام 'مجلس التحقیق الاسلامی' رکھا جس کی طرف سے 'محدث' کے نام سے ہی ماہوار علمی رسالہ ۱۹۷۰ء میں جاری کیا۔ اگرچہ اب یہ درس گاہ ایک اسلامی یونیورسٹی کے طور پر کلیہ الشریعہ، کلیہ القرآن الکریم اور کلیہ العلوم الاجتماعیہ کے علاوہ المعہد العالی للشریعہ والقضاء اور المعہدالعالی للدعوۃ والاعلام جیسے اعلیٰ علمی شعبوں پر مشتمل ہے جس کے ساتھ ثانوی درجہ کو ابھی تک 'رحمانیہ' کے نام سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔ عام طورپر لوگ پاکستان میں جامعہ لاہور الاسلامیہ کے بجائے 'رحمانیہ' ہی کے نام سے متعارف ہیں۔ ان کلیات ومعاہد کا معادلہ ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں سے ہے اور فارغ التحصیل طلبہ براہِ راست اعلیٰ تحقیق (ڈاکٹریٹ وغیرہ) کے لئے قبول کئے جاتے ہیں۔ (محدث)