پاکستان کا دینی نظامِ تعلیم ... چند اِصلاحی تجاویز

نظامِ تعلیم خواہ کوئی سا بھی ہو،اس کی تشکیل کے وقت اس کے اہداف ومقاصد کا تعین کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی نظام تعلیم کی کامیابی یا ناکامی کا تجزیہ کرنا ہو تو اس کا معیار یہی ہو سکتا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ اپنے طے کردہ مقاصد واہداف کے حصول میں کتنا کامیاب یا ناکام رہا ہے ؟ پاکستان میں اس وقت پرائیویٹ سیکٹر میں جو چھوٹے بڑے ہزاروں دینی مدارس کا م کر رہے ہیں، ان کے قیام کے مقاصد کیا ہیں؟ ...ان مقاصد کو دو نکات میں شمار کیا جاسکتا ہے :1
1۔ ایسے علما کی تیاری جو دینی علوم میں مہارت رکھتے ہوں اور اعلیٰ شخصی کردار کے حامل ہوں۔
2۔ یہ علما مسلمانانِ پاکستان کی دینی تعلیم کی ضرورت پوری کر سکیں اوران کی دینی تربیت کر سکیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ہمارے دینی مدارس ان اَہداف کے حصول میں کامیاب رہے ہیں؟ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ نہایت کامیاب رہے ہیں اورپاکستانی معاشرے میں اس وقت جو بھی دینی سرگرمیاں نظر آتی ہیں، وہ انہی علما کی جدوجہد کا نتیجہ ہیں جو دینی وجاہت سے محرومی برداشت کر کے، رزقِ کفاف پر صبر کر کے معاشرے کو دینی تعلیم سے مالا مال کر رہے ہیں۔ انہی کے دم سے مسجدیں آباد ہیں جہاں پانچ وقت نمازیں پڑھائی جاتی ہیں، جمعہ کا خطبہ دیا جاتا ہے ، بچوں کو قرآن پڑھایا جاتا ہے۔دینی تہواروں اورپیدائش، نکاح، تدفین اور ایسے ہی دیگر مواقع پر دینی رسوم واَعمال بجا لائے جاتے ہیں۔ انہی دینی مدارس میں قرآن حفظ کروایا جاتا ہے، اس کی تجوید پڑھائی جاتی ہے ۔دورئہ حدیث کروایا جاتا ہے اور دوسرے دینی علوم پڑھائے جاتے ہیں وغیرہ ...یہ وہ اُمور ہیں جن سے کوئی شخص شاید ہی انکار کر سکے لیکن اس بارے میں ایک دوسرا نقطہ نظر بھی ہے جس کے مطابق :
1۔یہ مدارس دینی تعلیم مسلک کی بنیاد پر دیتے ہیں جس سے دینی افراد او رجماعتوں کے درمیان نہ صرف خلیج پیدا ہو چکی ہے بلکہ روز بر وز بڑھ رہی ہے ۔ اس نے نہ صرف مسلم عوام اور اُمت کو منقسم کر رکھا ہے بلکہ آپس میں بھی سرپھٹول سے آگے بڑھ کر نوبت قتل وغارت گری تک پہنچ چکی ہے ۔ مدرسوں کے علاوہ مسجدوں پر بھی اہل مسلک کا قبضہ ہے او رمسجدیں اللہ کے گھر بننے کی بجائے مسلکوں کے گڑھ بن چکی ہیں۔
2۔اسی کا یہ بھی شاخسانہ ہے (اگرچہ دوسرے عوامل بھی ہیں) کہ علما اور دینی عناصر کے عدمِ اتحاد کی وجہ سے اس ملک میں آج تک شریعت نافذ نہیں ہوسکی۔ حکومتیں علما او ران کی جماعتوں کو آپس میں لڑائے رکھتی ہیں اورمتحد نہیں ہونے دیتیں تاکہ وہ آرام سے حکومت کرتی رہیں۔ اگرعلما اوران کی جماعتیں صحیح معنوں میں متحد ہو جائیں تو نفاذِ اسلام کی چوٹی آسانی سے سر کی جا سکتی ہے۔
3۔یہ بھی دینی مدارس کے نظامِ تعلیم وتربیت کا نقص ہے کہ وہ علماء میں اخلاص ،بے نفسی اور للہیت پیدا نہیں کرتا ا و رانہیں اتنا بیدار مغز،شجاع اور زِیرک نہیں بناتا کہ وہ نفس کے حملوں سے بھی بچ سکیں اور اسلام دشمن عناصر کی سازشوں کو سمجھ کر اُن سے بھی نمٹ سکیں۔
4۔دینی مدارس نے عصری علوم سے عدمِ اعتماد کی پالیسی کو مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے۔ اس وجہ سے عصر حاضر میں اسلام اورمسلمانوں کو جو چیلنج درپیش ہیں، وہ نہ اُنہیں سمجھ سکتے ہیں او رنہ اس کا مسکت جو اب دے سکتے ہیں۔
5۔پاکستان میں جو جدید تعلیم مروّج ہے، اس میں دینی تعلیم کا حصہ برائے نام ہے اورنہ وہاں اسلامی تربیت کا کوئی انتظام ہے ۔ دوسری طرف دینی مدارس میں جدید مضامین اور ماحول کا گزر نہیں۔ اس چیز نے جدید پڑھے لکھے لوگوں اور علما میں ذہنی بُعد پیدا کر دیا ہے ۔ جس کاثبوت یہ ہے کہ شہروں میں جمعہ کے دن کسی بھی مسجد میں جاکر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ تقریباً ۹۰ فیصد سے زیادہ لوگ صرف نماز کے وقت مسجد میں آتے ہیں اورمولوی صاحب کی تقریر سننے کے لیے چند گنے چنے لوگ ہی موجود ہوتے ہیں۔
6۔ علما کی اکثرجماعتوں نے اپنی ساری قوتیں سیاسی جدوجہد میں لگا دی ہیں۔ پہلے ہرمسلک کی ایک جماعت بنی، پھر جتنے لیڈر بنتے گئے ،ہر دینی سیاسی جماعت میں اتنے گروپ اور ذیلی جماعتیں بنتی گئیں جو آپس میں گتھم گتھا ہو تی گئیں اور علما کے کرنے کا جواصل کام تھا یعنی تعلیم وتربیت ،دعوت واصلاح ، تبلیغ دین او رامر بالمعروف ونہی عن المنکر ،ان کی طرف توجہ کم ہو گئی۔ اس سے نہ صرف دین کی ترجیحات متاثر ہوئیں اور خود علما پر اس کا برااَثر پڑا بلکہ اِس چیز نے علما کی ہوا خیزی کی ہے او رمعاشرے پر ان کے اَخلاقی اثر کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے ... اِن کی سیاسی ناکامی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے ۔
7۔ عوام کی دینی تعلیم وتربیت کے حوالے سے بھی علماء کی ناکامیاں واضح ہیں مثلاً:
(الف) علما نے عوام کو دین اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن وسنت سے براہ ِراست استفادے سے محروم کر رکھا ہے ۔زیادہ سے زیادہ مساجد میں ناظرہ قرآن پڑھایا جاتا ہے ، لیکن قرآن کے ترجمے اورفہم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ، نہ اَحادیث پڑھائی جاتی ہیں۔ زیادہ زور اپنے مسلک کے فقہی مسائل کے بیان کرنے پر ہوتا ہے ۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ دینی مدارس میں علما کی اپنی تربیت بھی اسی نہج پر ہوتی ہے ۔
(ب) جدید تعلیم جوپاکستان میں مروّج ہے، اُس میں دینی تعلیم و تربیت کا حصہ برائے نام ہے۔ علما نے اِس خلا کو پر کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش آ ج تک نہیں کی، حالانکہ یہ ایک انتہائی بنیادی بات ہے اوراس کے لیے مربوط اور منظم کوششیں کی جانی چاہئیں تھیں۔
(ج) طبقہ اُناث اس سلسلے میں خاص طور پر مظلوم ہے کہ نہ اُن کے لیے مساجد میں نماز پڑھنے کا کوئی انتظام ہے، نہ خطبہ سننے کا او ر نہ اُن کی دینی تعلیم کی کوئی صورت ہے؟
8۔اِن دینی مدارس کے انتظامی پہلوؤں پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ ہر مسلک کا اپنا وفاق ہے جو اپنے مسلک کے نقطہ نظر سے کتابیں پڑھاتا ہے ۔ طلبہ کے داخلہ کے وقت عمر اورصلاحیت کی کوئی پابندی نہیں کی جاتی۔ اساتذہ کی اہلیت او رتنخواہوں کا کوئی معیار مقرر نہیں۔اساتذہ کی فنی تربیت کا بھی کوئی اہتمام نہیں ،نیز اِن مدارس سے فارغ ہونے والوں کے لیے سوائے اپنے مسلک کی مساجد ومدارس میں تعیناتی کے، کوئی ذریعہ رزق نہیں او رجتنے طلبہ فارغ ہوتے ہیں،ظاہر ہے اتنی مساجد اور مدارس موجود نہیں کہ سب لوگ کھپ سکیں۔ لہٰذا مساجد پر قبضے کے جھگڑے بھی سامنے آتے ہیں او راِسی طرح کے دوسرے مسائل بھی۔
ہماری رائے میں پہلا نقطہ نظر بھی صحیح تھا اور اس دوسرے نقطہ نظر میں بہت سی باتیں یقینا قابل غور ہیں ...مطلب یہ کہ دینی مدارس کی کچھ خدمات بھی ہیں جن سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ تا ہم ان میں کچھ کمزوریاں بھی ہیں جنہیں تسلیم کرناچاہیے اور ان کی اِصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ اگر علما اِصرار کریں کہ ان کے دینی نظام تعلیم میں کوئی خرابی نہیں۔ ان کے ہاں سب اچھا ہے اور کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں تو ہمارے خیال میں یہ بھی انصاف نہیں۔ اپنی کمزوریوں کو کھلے دِل ودماغ سے تسلیم کرنا اوران کے اِزالے کی کوشش کرنا یہی زندہ اور شجاع اَفراد واَقوام کا چلن ہوتا ہے ۔اسی سے اداروں میں اصلاح وترقی ہوتی ہے اورمستقبل میں اچھے نتائج نکلتے ہیں۔
لہٰذا آیئے ،غور کرتے ہیں کہ پاکستان میں مروّج دینی نظامِ تعلیم میں کیسے اصلاح کی جائے کہ اِس کے طے کردہ اہداف اَحسن انداز میں حاصل ہو سکیں۔ لیکن تفصیلات میں جانے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان اُصولوں کا ذکر کردیا جائے جن پر ہماری اصلاحی تجاویز مبنی ہوں گی جو یہ ہیں:
بنیادی اُصول
(1) تعلیمی ثنویت کا تصور مضر ہے یعنی یہ تصور کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو دنیوی علوم کی کچھ خبر نہ ہو اور دُنیوی تعلیم حاصل کرنے والوں کو دینی تعلیم کا پتہ نہ ہو کیونکہ اس طرح مسلمان بچے کی شخصیت تقسیم ہو کر رہ جاتی ہے۔ جب کہ اسلام ایک وحدت ہے اوراس میں دین ودنیا کی کوئی تفریق نہیں۔
(2) دینی تعلیم کا بنیادی ہدف دینی مضامین میں رُسوخ حاصل کرنا ہے لیکن ا س کے لیے کسی خاص نصاب کو کوئی تقدس حاصل نہیں ہے ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نصاب کی ترجیحات کو بدلا جا سکتا ہے اورمختلف مضامین کی کمیتWeigtageکو بدلا اور طرقِ تدریس کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
(3) عصر حاضر کے مسائل اور تحدیات کوسمجھنے کے لیے مغربی فکر او رجدید مضامین کا مطالعہ ضروری ہے ۔
(4) دینی تعلیم مسلک کی بنیاد پر نہیں دی جانی چاہئے ۔ اسکے نقصانات کی طرف کچھ اشارات تمہید میں آچکے ہیں کہ اس چیز نے علما میں انتشار ،تعصب،فرقہ واریت اور دوسری بہت سی مصیبتوں کو جنم دیا ہے۔
(5) تزکیہ وتربیت اور تحقیق بھی نصاب کا جز ہونی چاہیے۔
(6) دینی تعلیم سے فارغ ہونے والے طلبہ کے لیے کسب ِرزق کامیدان وسیع ہونا چاہیے۔
... اَب آئیے تفصیلی اوراِصلاحی تجاویز کی طرف او ران میں بھی سب سے پہلے نصاب ،کہ یہ نظامِ تعلیم کا بہت اہم عنصر ہے۔
ہماری رائے میں درسِ نظامی کے موجودہ نصاب میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں ناگزیر ہیں:
اولاً ... دینی علوم
(1) قرآنِ حکیم پر ترکیز: قرآنِ حکیم دینی تعلیم کا مرکزی مضمون ہونا چاہیے جو شروع سے لے کر آخر تک پڑھایا جائے۔ یہ نہ صرف دیگر دینی مضامین کا عمود ہو بلکہ اس کا لفظی ترجمہ نحوی وصرفی تحلیل کے ساتھ شروع سے آخر تک پڑھایا جائے۔ تفسیر کے مختلف مکتبہ ہائے فکر میں سے منتخب اجزا تعمق کے ساتھ پڑھائے جائیں۔ قرآنی آیات سے استنباطِ احکام کی مشق کروائی جائے۔ دیگر علو مُ القرآن جیسے شانِ نزول ،ناسخ ومنسوخ، قرآء ات اوراُصولِ تفسیر وغیرہ بھی پڑھائے جائیں۔
(2) مطالعہ حدیث:دورئہ حدیث کے موجودہ طریقے کو ترک کر دیا جائے جس میں انتہائی کم مدت میں بہت سی کتب ِحدیث سے طالب علم کو گزار دیا جاتا ہے او رجو تھوڑی بہت تدریس ہوتی ہے وہ بھی محض فقہی مسلک کے نقطہ نظر سے۔ اس کی بجائے مطالعہ حدیث کو سارے تعلیمی عرصے پر پھیلایا جائے... منتخب متون کا گہرا مطالعہ کرایا جائے۔ احادیث سے استنباطِ احکام کی مشق کروائی جائے اورعلومُ الحدیث جیسے مصطلحات، اسماء ُالرجال ،جرح وتعدیل،روایت ودرایت،تخریج ،فتنہ انکار ِحدیث وغیرہ پر توجہ مرکوز کی جائے۔
(3) فقہ کی تدریس کا موجودہ طریقہ ختم کر کے پہلے اُصول فقہ خصوصاً اُصولِ استنباط کا تقابلی مطالعہ کروایا جائے پھرمنتخب موضوعات پر ائمہ اربعہ ،ظاہریہ اور اہل تشیع کی آرا کا تقابلی مطالعہ کروایا جائے ۔ فقہ القرآن والسنہ پرتوجہ دی جائے اورپاکستان میں رائج قوانین کے ساتھ مقارنہ پیش نظر رکھاجائے۔
(4) سیرت،کلام،مسلم تاریخ وجغرافیہ(بشمول مطالعہ پاکستان) اور تزکیہٴ نفس کاقدرے تفصیلی مطالعہ اور فلسفہ ومنطق کا تعارفی مطالعہ بھی نصاب کاحصہ ہونا چاہیے۔
ثانیاً...مغربی اور جدید علوم کا تعارفی مطالعہ
(1) سماجی علوم میں سے معاشیات،سیاسیات ،قانون ،تاریخ ،جغرافیہ ،نفسیات اورفلسفہ وغیرہ
(2) طبعی علوم میں سے فزکس،کیمسٹری ،بیالوجی ،ریاضی اورکمپیوٹر وغیرہ
(3) اسلام اور مغربی تہذیب کے تقابل/ تصادم سے پیدا ہونے والے مسائل کا تفصیلی مطالعہ بھی اِس نصاب کا ایک جز ہونا چاہیے۔ نیز اس مطالعے میں صرف مغربی فکر اور علوم کاتعارف ہی مقصودنہیں بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے ان کا جائزہ اورتنقید بھی اس میں شامل ہونی چاہیے تاکہ طلبہ پر مغربی فکر کی کمزوری اوراس کے مقابلے میں اسلامی فکر کی برتری اورحقانیت دلائل سے واضح ہو جائے۔
یہ تعارفی مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ علما جس دنیا میں رہ رہے ہیں، اُسے سمجھ سکیں۔ نیز اس وقت اسلام اوراسلامی دنیاکا سب سے بڑا مسئلہ علمی وفکری ہی نہیں، عملی مسئلہ ،مغرب او ر مغربی تہذیب کا علمی اور عملی تفوق ہے لہٰذا جب تک ہم چیلنج اوراس کی نوعیت کو نہیں سمجھیں گے اور اس کااِدراک نہیں کریں گے، ہم اس چیلنج کا جواب کیسے دے سکیں گے اوراسلام کو موجودہ فضا میں قابل عمل کیسے ثابت کر سکیں گے اور اسے عملاً غالب کرنے کے لیے صحیح رُخ میں جدوجہد کیسے کر سکیں گے...؟
ثالثا ... زبانیں
اس وقت کیفیت یہ ہے کہااکثر دینی مدارس میں انگریزی کی تعلیم کا انتظام نہیں ہے،بلکہ اُردوبھی نہیں پڑھائی جاتی۔ عربی زبان واَدب پر زور دیا جاتا ہے اور کسی حد تک فارسی بھی پڑھائی جاتی ہے۔ لیکن ان دونوں زبانوں کی تدریس اس طرح ہوتی ہے کہ صر ف انہیں پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے لکھنے اوربولنے کی نہیں۔ طریق تدریس بھی وہی پرانا ہے یعنی طریقہٴ ترجمہ وگرامر جس میں گردانیں رٹائی اورقواعد یاد کروائے جاتے ہیں۔ ہماری رائے میں زبانوں کے بارے میں صحیح پالیسی یہ ہے کہ
(الف) دینی مدارس کے طلبہ کو اُردو،عربی اور انگریزی تینوں زبانیں تعمق کے ساتھ پڑھائی جانی چاہئیں اور فارسی کا تعارفی مطالعہ بھی کروانا چاہیے۔ اردو اس لیے کہ یہ پاکستان کی قومی زبان اورعملاًہمارے ہاں بول چال اور تقریر وتحریر کی زبان ہے ۔ عربی اس لیے کہ ہماری اُمہات دینی کتب اسی زبان میں ہیں اورموجودہ عالم عرب سے ہمارے دین ودنیا کے بہت سے مفادات وابستہ ہیں۔ انگریزی اس لیے کہ یہ جدید علوم اور جدید دنیا کی کنجی ہے۔فارسی کا تعارفی مطالعہ برصغیر کی دینی اور ثقافتی تاریخ سے واقفیت کے لیے ضروری ہے ۔
(ب) زمانہٴ تدریس :اگر بچے کو ایک سے زیادہ زبانیں سکھانی ہوں تو ہماری رائے میں اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے اسے مادری زبان اچھی طرح سکھا دی جائے تا کہ وہ اس زبان کی مہارتوں کی اساس پر دوسری زبانیں سیکھ سکے۔ہمارے ہاں یہ درجہ تقریباً اُردو کو حاصل ہے، اس لیے اردو سکھانے سے ابتدا کرنی چاہیے اورکم از کم اس سے دو سال بعد عربی کی ابتدا کرنی چاہیے(لیکن اُردو سکھانے کے لئے اگر ایسا استاد میسر نہ ہو جو اہل زبان ہو یا عربی پڑھے ہوئے ہو تواس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ حروف ِتہجی اورابتدائی قاعدہ پہلے عربی میں پڑھا دیا جائے اور پھر اُردو پڑھانی شروع کی جائے کیونکہ ہمارے ہاں تلفظ اورمخارج کے بگاڑ کا مسئلہ بڑا گھمبیر ہو چکا ہے۔ او ر اس پر ابتدا ہی سے بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے ) انگریزی چار سال کے بعد شروع کی جائے ا و رپھر متوسطہ تک ان زبانوں کی تحصیل پر خوب محنت کی جائے کیونکہ مستقبل میں دیگر علوم میں مہارت کا انحصار بھی بچے کی اِن زبانوں میں مہارت ہی پر ہوگا۔ بعد میں کم کمیت کے ساتھ زبانوں کی تدریس اَگلی جماعتوں میں جاری رہے گی۔ فارسی البتہ ثانوی میں ایک سال پڑھا کر چھوڑ دی جائے۔
(3) ذریعہ تدریس: ابتدا میں ذریعہ تدریس اُردو ہی ہو گی، تا ہم عربی وانگریزی کی تدریس میں طریق ترجمہ وگرامر کے ساتھ طریق مباشر (عملی مشق) کو بھی اہمیت دی جانی چاہیے اوراس کے نتیجے میں طلبہ جلد ہی عربی کے پیریڈ میں عربی اورانگریزی کے پیریڈ میں انگریزی پر انحصار کرنا شرع کر دیں گے۔ اس طرح اگر پہلے نو سال عربی اور انگریزی کی تحصیل پر خوب محنت کر لی جائے تو طلبہ آسانی سے ثانوی جماعتوں میں دینی علوم عربی زبان میں اور جدید علوم انگریزی زبان میں سیکھنے پر قادر ہو جائیں گے۔
(4) زبانوں میں مہارت کے وسائل: ہمارے نزدیک مذکورہ تینوں زبانوں میں مہارت انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور تعلیمی اداروں کو ا پنی ساری صلاحیتیں اس کے لیے وقف کر دینی چاہئیں ۔ کوشش کرنی چاہئے کہ زبانیں پڑھانے والے اساتذہ اَہل زبان ہوں۔ اس کے لیے مختبر اللغة (لنگوئج لیب) قائم ہو نی چاہیے ، سمعی وبصری آلات اورکمپیوٹر کو استعمال کرنا چاہئے۔ تینوں زبانوں کی الگ الگ بزمِ ادب ہواورتحریری و تقریری مقابلے، مباحثے ومذاکرے اورہونہار طلبہ کے لیے انعامات ان کے مستقل پروگراموں کا حصہ ہوں تا کہ اِن مہارتوں کی تکمیل ہو سکے ۔
رابعاً... نصابی وحدت
جدید وقدیم کی یکجائی کا مطلب بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صبح کے اوقات میں درسِ نظامی پڑھا دیا جائے اورشام میں کسی ریٹائرڈ یا پارٹ ٹائم لیکچرر سے ایک دو جدید مضامین میں لیکچر دِلوا دئیے جائیں۔ یہ محض اَشک شوئی ٭ہے کیونکہ اس کا طالب علم کی شخصیت ،اس کے فکری ڈھانچے اوراس کے طرزِ زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا، نہ ہی وہ سنجیدگی سے جدیدعلوم سے استفادہ کرپاتا ہے ۔ اس مسئلے کا صحیح حل یہ ہے کہ نصابی وحدت کو پیش نظر رکھا جائے یعنی نصاب ایک ہی ہو اوراس نصاب کے اندر موزوں مرحلے پر موزوں کیفیت اور کمیت کے حامل جدید مضامین بھی اسلا می تناظر میں شامل کئے جائیں۔ نصابی وحدت کے موٴثر اور خوشگوار اثرات ان شاء اللہ طالب علم کی شخصیت پر پڑیں گے۔
خامساً...مراحل مدت ِتعلیم
یہ ایک دقیق مسئلہ ہے ۔ امریکہ ،یورپ اورعرب ممالک میں ثانوی تعلیم ۱۲ سال کی ہوتی ہے۔ خود ہمارے ہاں بھی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ،اسلام آباد میں داخلے کا معیا را یف اے ہے اور پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیاں بھی (مثلاً میڈیکل اور انجینئرنگ وغیرہ) ایف ایس سی پاس طلبہ کو داخلہ دیتی ہیں اور پھر کم سے کم چار سال میں گریجویشن کرواتی ہیں اور مزید دو سال میں ایم اے یعنی کل ۱۸ سال میں ایم اے کروایا جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے پاکستانی طالب علم کو یورپ، امریکہ اورعرب دنیا وغیرہ میں ہر جگہ داخلہ لینے میں مشکل پیش آتی ہے ۔ دوسری طرف دبئی میں ایک تجربہ ہوا ہے جس میں سولہ سالہ گریجویشن کورس محض دس برسوں میں ختم کروایا جاتا ہے ۔ اس طریقے میں سال کے بارہ مہینے صبح شام پڑھائی ہوتی ہے۔ او ر بچے کی عمر کے چھ قیمتی سال بچالیے جاتے ہیں۔
دینی مدارس میں اس وقت جو نظام رائج ہے، وہ یہ ہے کہ آٹھ سال تک تعلیم حاصل کئے ہوئے مڈل پاس طالبعلم کو داخلہ دیا جاتا ہے (گو بعض اوقات مدارس،خصوصاً چھوٹے مدارس میں بکثرت،اس اصول کی پابندی نہیں کی جاتی) اور دو سال میں ثانیہ عامہ،اگلے دوسال میں ثانویہ خاصہ، اس سے اگلے دو سال میں 'عالیہ' اور آخری دو سالوں میں 'عالمیہ' کی سند دی جاتی ہے ۔ یہ آٹھ سالہ تعلیمی دورانیہ پاکستانی سکولوں کالجوں میں مروّج میٹرک،ایف اے،بی اے اورایم اے کے آٹھ سالہ تعلیمی دورانئے کے مساوی ہے لہٰذا ہمارے خیال میں اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں بلکہ دینی مدارس عموماً اقامتی ہوتے ہیں ، لہٰذا وہ سکولوں کالجوں کی نسبت زیادہ پڑھا سکنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔
نصاب کی بحث ختم کرنے اور نظامِ تعلیم کے دوسرے شعبوں کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے مناسب محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ایسے اُمور کا ذکر کر دیا جائے جوکسی نہ کسی صورت میں نصاب سے بھی مُرتبط ہوتے ہیں ، یعنی تزکیہ وتربیت ،تحقیق اورروزگار وغیرہ
1۔ تزکیہ وتربیت
تزکیہ وتربیت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے پیغمبر کے ذمے کام گنوائے تو تعلیم کتاب کے ساتھ تزکیے کا ذکر کیا (البقرة: ۱۲۹) بلکہ تزکیے کا ذکر تعلیم کتاب سے پہلے بھی کیا او ربعد میں بھی،جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اصل مقصود تزکیہ ہی ہے اورتعلیم بھی اس کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ 2 چنانچہ حضور ﷺ کے طریق تعلیم سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے محض تعلیم ہی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ تزکیہ بھی کیا اورصحابہ کا طریقہ بھی یہی تھا کہ جتنا قرآن سیکھتے تھے، ساتھ اس پر عمل کی مشق بھی کرتے جاتے تھے۔ امام مالک نے موطأ میں ذکر کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر نے سورئہ بقرہ آٹھ سال میں ختم کی (خطیب بغدادی کے بقول ۱۲ سال میں) اوراس خوشی میں اونٹ ذبح کر کے دعوتِ عام کی۔3
ظاہر ہے کہ حضرت عبد ا للہ کو ۸ سال محض ڈھائی پارے پڑھنے میں نہیں لگے بلکہ اس پر تدبر اورعمل میں اتنی مدت صرف ہوئی۔ بعد میں مسلم معاشرے میں جب تزکیہ وتربیت کے ایک خصوصی ادارے 'تصوف' نے راہ پالی تو یہ طریقہ وجود میں آیا کہ طالب علم پہلے تعلیم حاصل کرتا تھا او راس کے بعد تزکیہٴ نفس کے لیے کسی دوسرے مربی کے پاس جا بیٹھتاتھا۔ اب اُمت میں عمومی انحطاط کے نتیجے میں تصوف کے نام پرنہ وہ صوفی رہے اور نہ وہ خانقاہیں او ربالعموم جو کچھ باقی بچاہے وہ بعض رسوم کا ایک بے روح ڈھانچہ ہے یا محض شکم پروری کے طریقے۔ لہٰذا تزکیہ وتربیت کو محض اس اتفاق پر نہیں چھوڑا جا سکتا کہ اگر حسن اتفاق سے استاد ایسا ہو جوخود مزکی ومربی ہو تو بات بن گئی ورنہ سراسر محرومی مقدر ٹھہری بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تزکیے وتربیت کو باقاعدہ ایک مضمون اورفن کی طرح نصاب ِتعلیم کا ایک حصہ بنایا جائے اوردوسرے مواد کی طرح اس کابھی باقاعدہ امتحان اور اس میں فیل ہونے والے کو سارے مضامین میں فیل تصور کیا جائے۔ ہم نے اس مضمون کی طرف توجہ کی اور ڈیڑھ سو صفحے کا ایک کتابچہ اس موضوع پرمرتب کر کے شائع کر دیا ہے کہ تعلیمی ادارے میں طلبہ کی دینی تربیت کیسے کی جائے۔4 محض یہ دکھانے کے لیے کہ ایسا نظا م وضع کرنا ممکن ہے ،ہم اس سے دو اقتباسات پیش کرتے ہیں:
" تعلیمی ادار ے میں تربیتی نظام کا قیام 5
1۔ مدرسے میں ہر استاد کو خود کو مربی سمجھنا چاہیے (خصوصا صدر مدرّس او رمہتمم کو ) اس کا مطلب یہ ہے کہ اتناہی کافی نہیں کہ وہ اپنے آپ کو طلبہ کے سامنے ایک ماڈل کے طورپر پیش کرے بلکہ اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر طلبہ کی تربیت کرے۔
2۔ اگر کسی وجہ سے سربراہِ ادارہ خود اپنے آپ کو اس کام کے لیے موزوں نہ سمجھے تو اسے چاہیے کہ کسی موزوں استادکوچیف مربی کے طور پر مقرر کر دے جوسارے سکول کے طلبہ کی تربیت کے لیے ایک مکمل اورمربوط لائحہ عمل مرتب کرے۔
3۔ چیف مربی کو چاہیے کہ اساتذہ میں سے ہر کلاس کا ایک مربی مقرر کرے، بہتر ہو اگر ایسا استاد کلاس انچارج بھی ہو۔
4۔مربی استاد کو تدریس کے علاوہ کم از کم ہفتے میں ایک پیریڈ طلبہ کی تربیت کیلئے دیا جانا چاہیے۔
5۔کلاس کے مربی استاد کو چاہیے کہ کلاس کے طلبہ میں سے کسی موزوں طالب علم کو 'مربی' یعنی طلبہ کے اخلاق وکردار کا نگران مقرر کرے۔
6۔ اگر تعلیمی ادارہ رہائشی ہو تو ہوسٹل کا ایک مربی ہونا چاہیے او رطلبہ میں سے ایک اس کا نائب ہو او راگر ہوسٹل کے کئی بلاک ہوں تو ضروری ہے کہ ہوسٹل کے ہر بلا ک میں ایک اُستاد مربی ہو جو طلبہ کے اخلاق وکردار کا ذمہ دار ہو۔ یہ استاد ہر ہوسٹل بلاک میں طلبہ میں سے کسی ایک موزوں طالب علم کو مربی یعنی طلبہ کے اخلاق وکردار کا ذمہ دار بنا دے۔
7۔ چیف مربی اورمربی اساتذہ پر مشتمل ہر سکول میں ایک تربیتی کونسل ہونی چاہیے جو اپنے اجلاس باقاعدگی سے ہرماہ منعقد کرے اور تربیت کے مسائل پر غوروفکر کرے۔
8۔ ہر سکول میں طلبہ کی تربیت کی جانچ(Evaluation) اور تربیت کے نگران اساتذہ کی چیکنگ کاموٴثر انتظام ہونا چاہیے۔ "
" تربیت کی جانچ (امتحان) کا نظام 6
جس طرح تعلیم میں طالب علم کی لیاقت جانچنے کے لیے امتحانوں کا ایک باقاعدہ نظام موجود ہے جس سے پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا طالب علم کتنا سیکھ رہا ہے اور ان امتحانوں ہی کی وجہ سے طلبہ اوراساتذہ کو خصوصی تیاری کا موقع ملتا ہے ۔ اسی طرح تربیت کے کام کی جانچ کا بھی ایک نظام ہونا چاہیے ...ہم اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کرتے ہیں:
(1) تربیتی گراف کا طریقہ اپنائیے جس کی تفصیل یہ ہے :
ا ․ ہر مربی کلاس ٹیچر اپنی کلاس کا ایک تربیتی گراف بنائے جس میں طلبہ کے نام موجود ہوں۔
ب․ اچھی کارکردگی کی صورت میں اضافی نمبر دیئے جائیں اورکمزوری دکھانے کی صورت میں نمبر منہا کر دیئے جائیں مثلاً اگر بنیادی نمبر ۱۰۰ ہوں تو جو طالب علم باقاعدگی سے نماز پڑھے، اسے ۲ نمبر دئیے جائیں اس طرح اس کے نمبر ۱۰۲ ہو جائیں گے اورجو طالب علم نماز نہ پڑھے تو اس کے ۲ نمبر منہاکر دیئے جائیں یعنی اس کے ۹۸ نمبرہوجائیں۔ اس طرح مختلف کمزوریوں مثلاً جھوٹ بولنا، گالی دینا ، جھگڑا کرنا ،تاخیر سے سکول آنا اوروقت کی پابندی نہ کرنا وغیرہ ان میں سے ہر ایک کے دو نمبر ہوں اور ان کے ارتکاب پر اتنے نمبر کاٹ لئے جائیں اوراس کے برعکس اخلاقِ حسنہ کے بھی نمبر ہوں جو اس کے گراف میں جمع کر دئیے جائیں۔ اس طرح ہر طالب علم کومعلوم ہوتا رہے گا کہ اس کی اخلاقی حالت کیسی ہے ؟
ج․ ایسا تربیتی گراف نمایاں طور پر ہر کلاس میں آویزاں ہو تا کہ طلبہ اپنے نمبروں کی کمی بیشی سے آگاہ رہیں، جن کے نمبر کم ہو جائیں وہ اپنی اخلاقی کمزوری دور کر کے اپنے کم شدہ نمبر بڑھانے کی کوشش کریں اورجن کے نمبر زیادہ ہوں، وہ انہیں مزید بڑھانے کے لیے کوشاں ہوں۔ اس گراف میں جس طالب علم کے نمبر ایک مقررہ حد سے کم ہو جائیں، اسے تربیت کے پرچے میں فیل گردانا جائے او ر اگلی کلاس میں نہ بھیجا جائے۔ جس لڑکے کے نمبر سب سے بڑھ جائیں ،اُسے حوصلہ افزائی کا انعام دیا جائے یا سکول کا مثالی لڑکا قرار دیا جائے۔
د․ اس طرح کا گراف ہر طالب علم کی پرسنل فائل میں بھی موجود ہو اورکلاس روم میں درج ہونے والی معلومات وہاں بھی ریکارڈ کی جائیں۔ تا کہ بوقت ِضرورت کام آئے مثلاً بچے کے والدین کو دکھانے کے لیے یا فائل دیکھتے ہوئے بچے کی اخلاقی حالت کا اعادہ کرنے کے لیے ۔
(2) تربیتی گراف کوسامنے رکھتے ہوئے طلبہ کا سالانہ امتحان بھی لیا جائے او راس کے باقاعدہ نمبر ہوں جو طالب علم کے فیل یا پاس ہونے پر اثر اندازہوں ۔ ایک طالب علم اگر تربیت میں فیل ہو تو اسے سارے مضامین میں فیل تصور کیا جائے اور اگلی کلاس میں ترقی نہ دی جائے ۔
(3) مربی اساتذہ کا احتساب اور چیکنگ بھی ہونی چاہیے تاکہ اگر ان کو مدداور رہنمائی کی ضرورت ہو تو وہ بر وقت مہیا کر دی جائے ۔اس غرض کے لیے چیف مربی یا مہتمم کو چاہیے کہ وہ تربیت کے انچارج اساتذہ سے ان کی کارکردگی بسلسلہ تربیت طلبہ کی ماہانہ رپورٹ طلب کرے اور مسائل ومشکلات میں اُن کو ضروری مشورے دے ۔اگر کافی تعداد میں طلبہ تربیت میں کمزور ہیں تو استادکی پر سش ہونی چاہیے اور اسے تنبیہ کی جانی چاہیے بلکہ اس کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ میں بھی اس کا اِندراج ہونا چاہیے۔
خلاصہ یہ کہ دینی مدارس کے مُھتممین اور منتظمین کو اس امر کی فکر کرنی چاہیے کہ ان کی ذمہ داری محض دینی تعلیم دینا نہیں بلکہ اخلاق وآداب سمیت مکمل دینی شخصیت کی آبیاری کرنا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو عند اللہ مسئو ل ہوں گے ۔"
2۔تحقیق
آج کل کی جدید تعلیم میں ایم اے (عالمیہ) ہی سے تحقیق کا آغاز ہو جاتا ہے اور اس کے بعد ساری تعلیم (ایم فل ،پی ایچ ڈی وغیرہ ) تحقیق پر ہی مبنی ہوتی ہے ۔دینی مدارس میں تحقیق کو عموماً اہمیت نہیں دی جاتی ۔طالب ِعلم دورئہ حدیث کرکے فارغ ہو جاتا ہے مگر اسے تحقیقی اصولوں کا پتہ ہوتا ہے اورنہ اُسے تحقیق کی کوئی عملی مشق ہی کروائی جاتی ہے۔ بعض بڑے دینی مدارس میں تخصص کاذکر سننے میں آتا ہے لیکن وہ بھی عموماً روایتی انداز میں، لہٰذا اس امر کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ تحقیق کو باقاعدہ داخل نصاب کیا جائے۔ ہر اُستاد چھوٹے چھوٹے مقالے لکھوا کر طلبہ کو تحقیق کی مشق کروائے۔ آخری سال کے شروع میں ہرطالب علم اپنے موضوعِ تحقیق کی تسجیل (رجسٹریشن) کروائے اورجب تک وہ تحقیقی مقالہ اُستاذ کی تسلی کے مطابق مکمل نہ کرے، اُسے سند جاری نہ کی جائے۔ اس کے بعد تخصص کو رواج دیا جائے اورایم فل اورپی ایچ ڈی کی طرح ریسرچ ڈگریوں کو رواج دیا جائے۔ظاہر ہے اس وقت جو نصاب مروّج ہے، اس میں رہتے ہوئے یہ گنجائش نہیں نکالی جا سکتی، البتہ ہماری تجاویز کے مطابق اگر نصاب کے سارے ڈھانچے پر اَز سر نوغور کیا جائے تو تحقیق کو جزو ِنصاب بنایا جا سکتا ہے ۔
یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ تحقیق کو جز بنانا غیروں کی تقلید ہے بلکہ ہمارے اَسلاف نے تحقیق کا جو معیار قائم کیا ہے اورجس طرح عمریں تحقیق وتالیف میں صرف کی ہیں، وہ ہمارے لیے ایک قابل فخر نمونہ ہے ۔ لہٰذا تحقیق کو جز وِنصاب بنانا ،طلبہ میں علمی وتحقیقی ذوق پروان چڑھانا اوراس کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنا اپنے اَسلاف کی علمی روایت کو زندہ کرنے کے مترادف ہے ۔ بلکہ اس میں کوتاہی کرنا دوں ہمتی ہے اور آج کے ترقی یافتہ دور میں 'نکو' بننے کے مترادف ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ تحقیق محض اپنے مسلک کو سچا ثابت کرنے کے لیے دلائل جمع کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ تحقیق سے مراد تلاشِ حق ہونا چاہیے او راس کے لیے پہلاز ینہ معروضیت اورغیر جانبداری کا ہے کہ کھلے دل ودماغ کے ساتھ علم کا دامن تھاما جائی۔ اس کے لیے مناسب ہوگا کہ شروع میں ایسے تحقیقی مقالات لکھوائے جائیں جن میں مقارنہ(تقابلی مطالعہ) کا اہتمام ہو، تاکہ اختلافی معاملات میں دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے او روزن دینے کا رجحان پیدا ہو۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں اس وقت جتنی تحقیق ہو رہی ہے، مسلم دنیا کا اس میں حصہ دس فیصد سے بھی کم ہے ۔ مغرب صرف تحقیق کے بل پر تسخیر کائنات (سائنس اورٹیکنالوجی ) میں ہم سے آگے نکل گیا ہے ۔ ہم بحیثیت ِاُمت جب تحقیق میں آگے تھے تو ا س دنیا پر ہمارا سکہ چلتاتھا۔ آج ہم تحقیق میں پیچھے رہ گئے ہیں تو ہر لحاظ سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ خود اسلامی علوم میں تحقیق کے سلسلے میں مغرب میں جو کام ہوا ہے اورہورہا ہے، ہمارے علما اگر انگریزی پڑھیں تو انہیں احساس ہو کہ ہمارے دامن میں شرمندگی کے سوا کچھ نہیں۔
3۔روزگار
اس وقت ہمارے دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کے لیے صرف ایک ہی ذریعہ روزگار ہے اوروہ ہے اپنے مسلک کے مدارس ومساجد میں ملازمت ۔ظاہر ہے یہ مواقع محدود ہوتے ہیں۔ اس لیے سب لوگ اس میں نہیں کھپ سکتے ہیں ۔یہ چیز نہ صرف بے روزگاری کو جنم دے رہی ہے بلکہ اس سے بعض دیگر مفاسد بھی پید ا ہو رہے ہیں۔مثلاً دوسری مسالک کی مساجد پر قبضہ جو بعض اوقات نقض امن پر منتج ہوتا ہے یا بغیر ضرورت کے محض روزگار کے لیے نئی مساجد اور مدارس کا قیام(حقیقت یہ ہے کہ اس امر پر ایک تحقیقی سروے کی شدید ضرورت ہے کہ ہماری آبادی کو اس وقت کتنے مدارس ومساجد کی ضرورت ہے ۔ ان مدارس سے کتنے طلبہ سالانہ فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور ان کا ذ ریعہ روزگار کیا ہے؟ ...وغیرہ)
ر وزگار کے مواقع پید ا کرنا یا ان کی پلاننگ کرنا بنیادی طور پر ہماری حکومت کا کام ہے لیکن اگر حکومت کی مدد کے بغیر دینی مدارس کا اتنا بڑا نیٹ ورک چل رہا ہے تو انہیں اپنے طلبہ کے روزگار کے مسئلے پر حکومتی مدد کے علیٰ الرغم بھی غور کرنا چاہیے۔
اس سلسلے میں ہمار ا مشاہدہ یہ ہے کہ دینی مدارس کے منتظمین اپنے طلبہ کو جدید تعلیم او رپیشہ وارانہ تعلیم نہ دینے کے حق میں اس لیے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح یہ طلبہ مجبور ہو کر مساجد ومدارس کو آباد رکھیں گے ورنہ وہ کہیں اور ملازمت کرلیں گے جہاں انہیں زیادہ تنخواہ ملے گی اور مساجد ومدارس ویران ہو جائیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ خدشہ بے جا ہے کیونکہ اس وقت جتنے طلبہ ان مدارس سے فارغ ہو رہے ہیں، ان کے لیے ملازمتیں موجود نہیں ہیں۔ ہماری رائے میں دینی مدارس کے طلبہ کے روزگار کی پلاننگ کے لیے مندرجہ ذیل نکات پر غور ہونا چاہیے :
1۔ حکومت ِپاکستان ان مدار س کی ڈگریوں کو درجہ بدرجہ تسلیم کر کے یعنی ثانویہ عامہ میٹرک کے برابر، ثانویہ خاصہ ایف اے کے ،عالیہ بی اے کے او رعالمیہ ایم اے کے برابر قرار دی جائے۔ تا کہ ان طلبہ کے لیے جدید تعلیم اورپرائیویٹ وپبلک سیکٹر میں روزگار کے دروازے کھل سکیں۔ اسی طرح عالمیہکے بعد ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔ جنر ل ضیاء ُالحق کے زمانے میں اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوئی تھی لیکن بعد میں معاملہ سست پڑ گیا ۔ اب حال ہی میں جاری ہونے والی تعلیمی پالیسی میں میٹر ک اور ایف اے میں درسِ نظامی گروپ متعارف کروایا گیا ہے او رعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد نے بھی درسِ نظامی کے مضامین میں ڈگریاں دینے کا آغاز کر دیا ہے لہٰذا امید کی جانی چاہیے کہ مستقبل قریب میں دینی مدارس کے نظامِ تعلیم اور حکومتی نظام تعلیم کے درمیان حائل فرق بتدریج کم ہوتا جائے گا۔
2۔ ہماری تجویز کے مطابق اگر دینی مدارس عربی کے ساتھ اپنے طلبہ میں انگریزی اور ا ردو میں بھی مہارت پیدا کردیں اور انہیں جدید علوم کا تعارفی مطالعہ بھی کروا دیں تو ہمارے خیال میں وہ معاشرے میں بہت سے میدانوں میں اپنی راہ خود بنالیں گے۔
3۔ جس نصاب کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، وہ سولہ سال میں اسلامی علوم میں ایم اے (عالمیہ) کا ہے لیکن اس میں بی اے (عالیہ) تک اُردو ،عربی او ر ا نگریزی زبانیں بھی پڑھائی جائیں گی گویا پاکستانی یونیورسٹیوں میں اس وقت مروّج قاعدے کے مطابق بھی وہ ان تین مضامین میں ایم اے کرنے کے حق دار ہیں، ہماری تجویز یہ ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ کو ان تین زبانوں میں بی اے (عالیہ) کرنے کے بعد تین سالوں میں اس طرح ایم اے کروا دیا جائے کہ ان تینوں میں سے کوئی ایک زبان ان کا اصلی تخصص(Major) ہو اور علومِ اسلامی ضمنی تخصص(Minor) ۔ اس طرح وہ سولہ کی بجائے سترہ سالوں میں ان زبانوں میں سے کسی ایک میں ایم اے بھی کر لیں گے اورساتھ ہی ثقہ دینی عالم بھی ہوں گے اور اُن کے لیے روزگار کے زیادہ مواقع بھی پیدا ہو جائیں گے۔
4۔ بعض پیشہ ورانہ اُمور میں تربیت دینی تعلیم کے ساتھ بھی اس طرح دی جاسکتی ہے کہ طلبہ فارغ التحصیل ہونے تک اس شعبے میں مہارت بھی حاصل کر لیں خصوصاً اس سہولت کی وجہ سے کہ طلبہ کی رہائش بھی انہی مدارس میں ہوتی ہے ، مثلاً مختلف کمپیوٹر کورسز (Computer Languages, Maintenance, اورکمپوزنگ وغیرہ) بجلی کا کام،فریج، ٹی وی وغیرہ کی مرمت ، گاڑیوں کی مرمت، ٹائپ، شارٹ ہینڈ، دفتری اُمور ، ابتدائی حسابات ، تدریسی مہارت(سی ٹی ،بی ایڈ کی طرز پر ) چھوٹے موٹے بزنس وغیرہ۔
بڑے شہروں میں دینی مدارس انڈسڑی کے ساتھ رابطہ کر کے گرمیوں کی چھٹیوں میں یا شام کی شفٹ میں طلبہ کو اضافی کام دلوا سکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ پہلے خود دینی مدارس یہ فیصلہ کریں کہ وہ اپنے طلبہ کے لیے مسلک کے مدارس ومساجد کے باہر رِزق کے دروازے کھولنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمارے خیال میں اس طرح کے مواقع پیدا ہونے سے دینی کاز کو ان شاء اللہ نقصان نہیں پہنچے گا۔ جیسا کہ ماضی میں دیوبند میں طب ،جلد سازی اورخطاطی وغیرہ کے شعبے قائم کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔
تغیر نصاب او رعلماء کی مخالفت
نصاب اور اس کے متعلقات کے حوالے سے ایک بنیادی بات پر غور کر لیں او ر یہ کہ ہمارے علما کرام آخرکیوں درسِ نظامی پر نظر ثانی کرنے اورعصری ضرورتوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے...؟
اس کی وجہ بعض لوگ تو یہ بتاتے ہیں کہ اس سے علما کی اجارہ داری خطرے میں پڑجائے گی،یہ ان کے رزق کامسئلہ ہے،مدرسے دینی اوردینی+سیاسی جماعتوں کے لیے قوت کا مرکز ہیں، وہ اِن پر سے اپنی گرفت ڈھیلی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں وغیرہ ،وغیرہ۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کا بڑا سبب اقبال کے لفظوں میں یہ ہے کہ

آئین نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

علما اگر وسعت اوربلند نگاہی سے کام لیں تویہ کوئی ایسا بھاری پتھر بھی نہیں جسے اُٹھایا نہ جا سکے ۔ اور کوئی ایسی ضرورت نہیں کہ علماء کے خلوص پر لازماً شک وشبہ کا اظہار ہی کیا جائی۔ ہم صرف ان کی تذکیر (یاددہانی) کے لیے عرض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہاں ماضی میں کبھی نصاب ِتعلیم جامد نہیں رہا بلکہ یہ ہمیشہ بدلتا رہا ہے اور عصری ضرورتوں کے مطابق بہت سے معاوِن علوم بھی دینی نصاب تعلیم کا حصہ رہے ہیں۔ نیز طریقہ تدریس تعلیم بھی بدلتا رہا ہے ۔ یہ مقدمات جو ہم نے قائم کئے ہیں، ہم چاہیں گے کہ ان پر کچھ مزید روشنی ڈالیں:
نصاب ِتعلیم میں تنوع اور تغیر پذیری...چندتاریخی نظائر
عہد ِرسالت وصحابہ میں دینی نصاب ِتعلیم کا ایک ہی باقاعدہ مضمون تھا اوروہ تھا قرآن حکیم یا حضرت عمر فاروق کی والدین کو یہ ہدایت سامنے آتی ہے کہ
"اپنے بچوں کوتیراکی،شہسواری،مشہور ضرب الامثال اور اچھے اشعار سکھاؤ۔" 7
حضرت عمر بن عبد العزیز (م ۵۸ھ) نے حدیث اور مغازی کے درس کا حکم دیا۔8 دوسری صدی میں موطأ کی تالیف سے تدوین حدیث کا کام شروع ہوا تو درسِ حدیث نے محکم صورت اختیار کر لی۔ اسی طرح جب فقہ کی تدوین شروع ہوئی تو مساجد ومدارس میں اس کی تحصیل بھی شروع ہو گئی۔ چوتھی صدی ہجری میں تصوف بطور ایک ادارہ کے اُبھرا اور اس پرکتابیں لکھی جانے لگیں تو وہ کتب بھی نصاب کا حصہ بن گئیں۔ قرآن وحدیث، ان سے متفرع علوم اور فقہ تو خالص دینی علوم اور عربی زبان واَدب اورتاریخ وجغرافیہ ،مسلمانوں کی اپنی داخلی فکری حرکت کا نتیجہ تھے لیکن جلدہی مسلمانوں نے یونانی اثرات کے تحت سماجی علوم میں منطق،فلسفہ ،علم النفس ، علم الکلام اور زبانوں میں یونانی ،عبرانی، ترکی ،فارسی ،وغیرہ پڑھنی پڑھانی شروع کردیں۔ اسی طرح سائنسی علوم میں طب(میڈیکل)، ہندسہ(انجینئرنگ)، ریاضی، ہیئت وفلکیات (اسٹرانومی)، اورکیمیا(کیمسٹری) وغیرہ مسلمان معاشرے میں علم پڑھنے پڑھائے جانے لگے۔ یہ علوم دینی مدارس اور مساجد میں پڑھائے جاتے تھے اوردینی ودنیوی علوم یا خالص دینی اورعصری علوم میں کوئی فرق وامتیاز نہ برتا جاتا تھا۔ 9
دور کیوں جائیے ...خودمسلم ہندوستان کی نصابی تاریخ پر ایک نظرڈال لیجئے توآپ دیکھیں گے کہ خالص دینی علوم کے ساتھ وہاں معاون علوم کے طو ر پر دیگر سماجی وسائنسی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے اوران کی ترجیحات میں بھی ردّوبدل ہوتا رہتا تھا مثلاً چودھویں سے سو لہویں عیسوی کے وسط تک دینی مدارس میں تفسیر ،حدیث،فقہ ،اُصول ،کلام ،تصوف کے ساتھ ساتھ صرف ، نحو ،معانی اور منطق بھی پڑھائی جاتی تھی۔ اس زمانے میں زور فقہ ،اصولِ فقہ پر تھا او ر تدریس حدیث کی ا ہمیت قدرے کم تھی۔ 10
سولہویں صدی کے وسط میں او ر سکندر لودھی کے زمانے میں مولانا عبد اللہ اور عزیز اللہ نے فقہ اوراُصول کی کمیت کم کر کے منطق وفلسفے کی کتب میں اضافہ کر دیا۔ اسی طرح علامہ تفتازانی کے شاگردوں نے علم بلاغت اور کلام میں نئی کتب مروّج کرائیں،لیکن شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور ان کی اولاد کوشش کے باوجود فن حدیث کو رائج نہ کراسکی۔
اس کے بعد دورِ اکبری میں شاہ فتح اللہ شیرازی ہندوستان آئے تو انہوں نے نصاب میں مزید تبدیلیاں کیں۔ ان کے مرتب کردہ نصاب کی جو تفصیل شاہ ولی اللہنے دی ہے، ا س میں تفسیر ،حدیث، فقہ واُصولِ فقہ، تصوف اور کلام کے علاوہ نحو،منطق،بلاغت،فلسفہ،ہیئت ،حساب اورطب بھی شامل ہیں۔ ظاہر ہے اس فہرست میں دینی علوم کے علاوہ تقریباً اتنے ہی مضامین معاون اورعصری علوم کے ہیں جن میں سماجی اور سائنسی علوم دونوں شامل ہیں۔ اسی زمانے میں فارسی کوسرکاری زبان قرار دیا گیا اور سنسکرت کی تدریس بھی شروع ہو گئی اوربقول شبلی، موسیقی بھی درسگاہوں میں پڑھائی جاتی تھی۔11 شاہ ولی اللہ (م ۱۷۶۲ء) نے علم حدیث کو مروّج کرنے کی کوشش کی اورمعقولات پر مزید زور دیا ۔12
ملا نظا م الدین(۱۷۴۷ء) نے جونصاب بنایا ،جو آج درسِ نظامی کے نام سے مشہور ہے، اس میں تفسیر، حدیث ،فقہ واُصولِ فقہ، کلام کے علاوہ صرف ونحو، بلاغت ،منطق ،فلسفہ اور ریاضی شامل تھے۔ اس نصاب میں قرآن وحدیث کاحصہ بہت تھوڑا تھا۔ سیرت، تصوف، معاشرتی علوم وغیرہ موجود نہ تھے اورمعقولات پر زور تھا۔ تا ہم اس میں بھی تبدیلیوں کا عمل جاری رہا۔ ملا نظام الدین کی وفات کے بعد اِس میں مناظرہ، اُصولِ حدیث،ادب اورفرائض کے مضامین کا اضافہ کیا گیا۔
جب ۱۸۷۶ء میں دیوبند قائم ہوا تو وہاں بھی درسِ نظامی ہی رائج ہوا لیکن مولانا قاسم نانوتوی اورمولانا رشیدگنگوہی نے دیوبند میں رائج درسِ نظامی کو مختصر کرنے کافیصلہ کیا اورفارسی کے علاوہ منطق وفلسفہ کی پرانی کتابیں نصاب سے خارج کردیں۔ اور مدت تدریس دس کی بجائے چھ سال کر دی، تا کہ طلبہ درسگاہ سے جلد فارغ ہو کر جدید تعلیم بھی حاصل کریں، مولانا کے الفاظ یہ تھے
"اس کے بعد (مدرسہ میں دینی تعلیم کے بعد) اگرطلبہ مدرسہ ہذا ،مدارسِ سرکاری میں جا کر علومِ جدیدہ حاصل کریں توان کے کمال میں یہ بات زیادہ موٴثر ہو گی۔"
اور مولانا گنگوہی نے اس موقع پر کہا تھا :
" اس منطق وفلسفہ سے تو انگریزی بہتر ہے کہ اس سے دنیا کی بہتری کی تو امید ہے۔"
لیکن روایتی علما کے احتجاج پر انہیں پرانا نظام بحال کرنا پڑا۔13 شبلی، 14 اورمولانا ابو الکلام آزاد 15کے علاوہ خود حلقہ دیوبند کے اپنے لوگوں میں سے مولانا مناظر احسن گیلانی،16 مولانا سعید احمد اکبر آبادی،17 قاضی زین ا لعابدین سجاد 18 اور دوسرے بہت سے علما درسِ نظامی کے موجودہ نصاب پر علیٰ الاعلان تنقید کرتے رہے ہیں۔ بلکہ مولاناعبیداللہ سندھی (م ۱۹۴۵ء) نے تو دہلی میں باقاعدہ ایک ادارہ نظارة المعارف کی بنیاد رکھی تا کہ دیوبند اور علی گڑھ کے تعلیمی اداروں کویکجا کیا جاسکے۔19
خود دار العلوم نے ۱۹۲۸ء میں اعلان کیا تھا کہ فلسفہ کی جدید کتابوں کو داخل درس کیا جائے گا لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا۔20 مولانا حسین احمد مدنی کے آخری زمانے میں پھر نصاب پر نظر ثانی کی تحریک شروع ہوئی اوردارُالعلوم کی مجلس شوریٰ نے باضابطہ ایک کمیٹی کی تشکیل اس مقصدکے لیے کی جس نے نصاب میں کئی ترمیمات تجویز کیں او ر قدیم علومِ عقلیہ کو کم کر کے انگریزی اور علومِ جدیدہ کو اس میں شامل کرنے کی سفارش کی مگر بعض وجوہ سے اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل نہ ہوسکا21تا ہم اس کی ضرورت برابر محسوس کی جاتی رہی22 ...پاکستان بننے کے بعد در سِ نظامی میں معمولی تبدیلیاں ہوئی ہیں چنانچہ دینی تعلیم کے موجودہ وفاقوں کے نصاب پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ معقولات پر زور کم ہوا ہے اورقرآنِ حکیم کے مکمل ترجمے کو شامل نصاب کر لیا گیا ہے ۔23
وقت اور حالات کے بدلنے کے ساتھ نصاب کے بارے میں ہمارے اہل علم وفکر کی رائے کس طرح بدلتی ہے، ہم اس کی ایک دو مثالیں مزید دے کر اب بحث کوختم کرتے ہیں:
علم ھندسہ کے بارے میں ابن خلدون نے کہا ہے کہ اس سے انسانی صلاحیتوں کوجلا اوراس کے جذبہ صدق وصفا کو استحکام ملتا ہے ۔24 اس کے برعکس اس علم کے بارے میں حضرت مجدد اَلف ِثانی کی رائے یہ ہے کہ علم ہندسہ بیکاراورمہمل علم ہے۔ 25 ...فقہ صدیوں سے مسلم معاشرے میں اسلامی علوم کا ایک ستون ہے لیکن امام غزالی نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ کہ یہ علم مصالح دنیا ہے۔ 26 ... تصوّف کی کتابیں بھی صدیوں ہمارے مدارس میں پڑھائی جاتی رہی ہیں لیکن ہندوستان کے عظیم درویش صفت حکمران عالمگیر نے مجدد صاحب کے خطوط پڑھنے پر پابندی لگا دی 27اورصوفی محب اللہ کی کتاب تسویہ کو جلانے کا حکم دیا تھا یہاں تک کہ دیوبند میں مولانا قاسم نانوتوی ،مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے صوفیوں کی موجودگی کے باوجود کتب ِتصوف کو دیوبند کی درسیات میں جگہ نہ مل سکی۔
طریقہ تعلیم وتدریس میں تغیر وتبدل
صدرِاوّل میں تعلیم مسجد میں اور زبانی ہوتی تھی۔ استاد در س دیتا تھا اوریاد کرنے والی نصوص خصوصاً احادیث کو تین دفعہ دہراتا تھا تاکہ طلبہ کو یاد ہو جائیں۔ اس غرض کے لیے ایک مُعید (دہرانے والا) بھی ہوتا تھا جواُستاد کی مدد کرتا تھا۔ لکھنے کی سہولت جب عام ہوئی تویہ طریق تلقین، طریق املا میں بدل گیا۔ اب طلبہ استاد کے لیکچر کے نوٹس لے لیتے تھے اوریہ نوٹس بعض اوقات کتابی صورت میں جمع کردیئے جاتے تھے۔ (ابو علی کالی اور سید مرتضی کے اَمَالِی، دراصل ان کے دروس اور لیکچر ہی ہیں) عرصے تک یہ سلسلہ چلتا رہا پھر جب طالب علموں کے لیے کتابوں کا حصول عام ہو گیا تو تدریس کتابی صورت اختیار کر گئی ۔ اب استاد لیکچر کی بجائے کتاب پر اعتماد کرتا۔ طالب علم کتاب پڑھتا جاتا اور اُستاد مشکل مقامات کی شرح کرتا جاتا یا طلبہ کے سوالات کا جواب دے کر مسائل واضح کر دیتا۔ پھر ایک زمانے میں جب ان کتابوں پر حاشئے اور شرحیں لکھی جانے لگیں تواستاد بھی یہ شرحیں اورحواشی پڑھنے لگے اوراصل کتابیں پس منظر میں رہ گئیں۔
ابتدائی تعلیم مساجد یا ابتدائی مکاتب میں جنہیں کُتَّاب کہا جاتا تھا،دی جاتی تھی۔ یہاں قرآن حکیم اورلکھنے پڑھنے کی ابتدائی مہارتیں سکھائی جاتی تھیں۔ اساتذہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے اور طلبہ کو مار بھی پڑتی تھی۔ ابن خلدون نے اپنے مشہور ِزمانہ مقدمہ کی ایک فصل میں قرآن کے طرقِ تدریس پر بحث کی ہے کہ عالم اسلام میں عموماً بچے کو قرآن چھوٹی عمر میں پڑھا اوررَٹادیا جاتا ہے جب کہ اسے کچھ سمجھ نہیں ہوتی لیکن مغرب ِعربی خصوصاً اَندلس میں یہ طریقہ رائج ہے کہ بچے کو پہلے زبان پڑھائی جاتی ہے اورجب وہ زبان کی باریکیوں کوسمجھنے لگتا تو پھر اسے قرآن پڑھایا جاتا ہے تا کہ وہ ا سے اچھی طرح سمجھ کر پڑھے۔ ابن خلدون نے قاضی ابن ُالعربی کی کتاب الرحلةکے حوالے سے قاضی صاحب کے موٴخر الذکر طریقے کو راجح سمجھنے کے رجحان کوخود بھی پسند کیا ہے بشرطیکہ اس اَمر کا یقین ہوکہ بچہ تعلیم جاری رکھے گا۔ ورنہ والدین اس ڈر سے کہ بڑا ہو کر بچہ نہ معلوم، تعلیم جاری رکھے تو کم از کم قرآن تو پڑھا ہوا ہوکیونکہ والدین اپنے بچوں کوقرآن کی تعلیم دینا اپنی اخلاقی ودینی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔28
مختصر یہ ہے کہ ہمارے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ طرقِ تدریس کوئی جامد اور مقدس چیز نہیں۔ یہ زمانے کے ساتھ بدلتا رہتا ہے اور اسے آج بھی بدلا جا سکتا ہے۔ دنیا میں ثانوی زبان سیکھنے پر پچھلی ایک دو صدیوں میں بہت سے تجربات ہوئے ہیں، لہٰذا ان سے استفادہ کرنے میں کوئی عیب نہیں مثلاً عربی سیکھنے میں طریق مباشر(Direct Method) سے کام لینا یا جدید آلات مثلاً مختبر اللغةاور دیگر سمعی وبصری آلات اور کمپیوٹر وغیرہ کا استعمال کرنا یا امتحان میں سمسٹر سسٹم (عرصہٴ تدریس کو مختصر مراحل میں تقسیم کر کے تین چار ماہ بعد امتحان لے لینا) اور معروضی سوالات کورواج دینا تا کہ طلبہ کی سال بھر کی محنت کے نتائج کا انحصار صرف تین گھنٹے کے پرچے پر نہ ہو جو در حقیقت صرف حافظے کا امتحان ہوتا ہے او رجس میں دوسری صلاحیتیں دَب کر رہ جاتی ہیں۔
اساتذہ
اساتذہ کسی بھی تعلیمی ادارے کی جان ہوتے ہیں۔ نصاب اگر ناقص بھی ہو تو ایک اچھا استاداس کی کمی پوری کر سکتا ہے لیکن اگر استاد نالائق ہو تو اچھا نصاب بھی اس کے لیے بیکار ِمحض ہے ۔ استا د کی یہ اہمیت اس وجہ سے ہے کہ طلبہ ،شعوری اورغیر شعوری طورپر،استادکوماڈل سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی میں استاد کی شخصیت اس کے کردار، عادات اور رویوں کی نقل کرتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح کا استاد ہو گا اسی طرح کے شاگرد ہوں گے۔ استاد کی اس اہمیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ استاد کو اہمیت دی جائے جس کے لیے مندرجہ ذیل امور ناگزیر ہیں :
(1) دینی مدارس کے اساتذہ کی ٹریننگ کا انتظام ہوناچاہیے یعنی جو فارغ التحصیل طالب علم استاد بننا چاہے، اس کے لیے لازمی ہو کہ وہ پہلے تربیت ِاساتذہ کا کورس مکمل کرے جس کا دورانیہ کم سے کم ایک سال ہو جس میں نہ صرف تعلیم وتربیت کے اُصول اورمنہاج طلبہ کو سکھائے جائیں بلکہ تدریس کی عملی مشق بھی کروائی جائے۔ اسی طرح اس ٹریننگ میں نہ صرف تدریس کے فنی پہلوؤں پر توجہ دی جائے بلکہ زیر تربیت اساتذہ کی نظریاتی تربیت بھی کی جائے تا کہ نہ صرف ان کے اپنے اندر ایک مثالی مسلمان بننے کا داعیہ پیدا ہو بلکہ اپنے طلبہ کو مثالی مسلمان بنانے کا جذبہ بھی ان کے اندر خوب انگیخت ہواوراس کے منہاج اور حکمت ِعملی سے بھی وہ بخوبی واقف ہوں۔
(2) جو اساتذہ اس وقت دینی مدارس میں پڑھا رہے ہیں اورانہوں نے کسی طرح کی تربیت حاصل نہیں کی، ان کے لیے کام کے دوران تربیت اور چھٹیوں میں ریفریشر کورسز کا اہتمام کیا جائے۔
(3) اساتذہ کے کیڈر (کورس) بنائے جائیں یعنی یہ طے کر دیا جائے کہ کس اہلیت کا استاد کس درجے کے طلبا کو پڑھاسکتا ہے۔ بڑے درجوں کو پڑھانے والے اساتذہ کے لیے تجربے ،تحقیق اورتصنیف وتالیف کی خصوصی شرائط ہونی چاہئیں۔ متعلقہ اہلیت کے بغیر استاد کی تعیناتی کالعدم تصور ہونی چاہیے ۔ اسی طرح اساتذہ کی کم از کم تنخواہوں کے سکیل بھی مقرر ہونے چاہیے۔ اگرچہ یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ دینی مدارس پر بہت زیادہ مالی بوجھ ہے لیکن اس کے باوجود ان مدارس کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے ناگزیر ہے کہ اساتذہ کے حالات ِکار بہتر بنائے جائیں۔ انکے معاوضے بڑھائے جائیں اورانہیں باعزت زندگی گزارنے کے مواقع مہیا کئے جائیں تا کہ وہ دلجمعی سے عمل تدریس میں فعال کردار ادا کر سکیں۔
(4) تدریسی تربیت کے لیے صرف ان طلبہ کومنتخب کیاجائے جوتدریس کا رجحان رکھتے ہوں اور اسے بطور ِمشن اپنانا چاہتے ہوں۔یہ نہ ہو کہ جسے اور کوئی ملازمت نہ ملے وہ مدرّس بن جائے۔ نیز اس امر کی ضمانت کے لیے کہ صرف لائق طلبہ ہی اس طرف آئیں، انتخاب کے وقت کڑا معیار مقرر ہونا چاہیے مثلاً کم ا ز کم درجہ جیّد جدّا... نیز انٹرویو کے علاوہ اس غرض کے لیے خصوصی امتحان بھی لیا جاسکتا ہے ۔
(5) دوسرے بڑے اداروں کی طرح دینی مدارس میں بھی اساتذہ کے لیے اجتماعی سہولتیں ہونی چاہئیں جیسے ایک شہر سے دوسرے شہر میں تبادلے کی سہولت میں اَولڈ ایج بینیفٹ (کبرسنی فنڈ) اور بنوولینٹ فنڈ (اجتماعی بہبود فنڈ) وغیرہ۔ دینی مدارس کے وفاقوں کو اس سلسلے میں حکومت ِپاکستان سے اصرار کر کے بعض سہولتیں لینی چاہئیں تا کہ دینی مدارس میں تدریس اگر پرکشش نہیں تو کم از کم قابل قبول پیشہ تو بن سکے۔
طلبہ
اس وقت عمومی کیفیت یہ ہے کہ والدین غربت کی و جہ سے اگر بچوں کی تعلیم وپرورش نہ کرسکیں یا بچہ خدانخواستہ معذور ہو جائے یا جدید تعلیم میں نہ چلے تواسے دینی مدرسے میں داخل کرا دیا جاتا ہے کہ چلئے اسی بہانے وہ مفت میں پل بھی جائے گا اورکچھ پڑھ لکھ بھی جائے گا۔ ایسے طلبہ سے کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ قوم کی دینی رہنمائی کا بھاری بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاسکیں گے ۔ دوسری طرف دیکھئے کہ سی ایس پی افسر ، ڈاکٹر یاانجینئر بننے کے لیے چونکہ پرکشش تنخواہیں اور سنہری مستقبل کا خواب ہوتا ہے لہٰذا قوم کی کریم اوراس کے ذہین ترین افراد اِن شعبوں کی طرف چلے جاتے ہیں اوردینی مدراس کے حصے میں محض تلچھٹ ہی آتی ہے۔اس صورت ِحال پر غور کرنے بلکہ اس سے نکلنے کی فکر اورپلاننگ ہونی چاہیے تا کہ ذہین بچوں کو دینی تعلیم کی طرف آنے کے لیے راغب کیا جا سکے۔
اس کے لیے ہمہ جہتی اقدامات کی ضرور ت ہے جن میں سے بعض کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔ مثلاً دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کے لیے روزگار کے مواقع وسیع کرنا،اچھے اساتذہ کا تقرر،دینی مدارس کے تعلیمی ماحول کو بہتر بنانا اور معاشرے کے کھاتے پیتے افراد کو ترغیب دلانا اور مطمئن کرنا کہ وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے لیے فارغ کریں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ بعض اوقات والدین مجبوری یا شوق وجذبات میں آ کر بچوں کو دینی تعلیم کی طرف دھکیل دیتے ہیں جب کہ بچے کا اپنا رُجحان اس کی طرف نہیں ہوتا ۔ ایسے بچے کا، ظاہر ہے،دینی تعلیم کے لحاظ سے کوئی مستقبل نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے ضروری ہے کہ والدین صرف ان بچوں کو دینی تعلیم کی طرف بھیجیں جن میں وہ ضروری رجحان دیکھیں اور اپنی مجبوریوں یا شوق سے بچے کودینی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہ کریں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب بچہ سن شعور کوپہنچ جائے تو یہ حق اسے دیا جانا چاہئے کہ وہ مستقبل میں دینی تعلیم حاصل کرے گا یا نہیں؟ اس طرح جو بچے اپنی خوشی اور شوق سے دینی تعلیم کی طرف آئیں گے، وہی مستقبل میں کچھ کر کے دکھائیں گے اور جو مارے بندھے آئیں گے، وہ بہت کم سیکھ سکیں گے۔ دینی مدارس کو بھی چاہیے کہ وہ اس نقطہ نظر سے اپنے طلبہ کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیں اورجن طلبہ میں دینی تعلیم کا رجحان نہ دیکھیں، انہیں مدرسے سے فارغ کر دیں کیونکہ جو بچہ کسی مضمون میں شوق ودلچسپی نہ رکھتا ہو، وہ کچھ نہیں سیکھ سکتا۔
تعلیمی پالیسی
کسی بھی تعلیمی ادارے کا ماحول طلبہ کی تعلیم وتربیت میں انتہائی اہم رول اداکرتا ہے لیکن یہ ماحول کوئی مجرد چیز نہیں بلکہ یہ اساتذہ اورطلبہ کے باہمی تعامل سے پید ا ہوتا ہے۔ یہ اس چیز کا مظہر ہوتا ہے کہ تعلیمی ادارہ چلانے والے تعلیم وتربیت کے کیا تصورات رکھتے ہیں اور وہ کس قسم کا طالب علم پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ سکول انتظامیہ اور اساتذہ جس قسم کا کلچر پروان چڑھانا چاہیں گے، اسی قسم کاماحول تعلیمی ادارے میں پروان چڑھے گا۔ مثلاً اس وقت دینی مدارس میں ماحول پیدا کیا جاتا ہے کہ طلبہ جدید علوم نہ پڑھیں اورصرف اپنے مسلک کی حمایت سے متعلق مواد کا مطالعہ کریں۔ مدارس میں بالعموم کھیل کود کا انتظام نہیں ہوتا۔ بعض جگہ طلبہ کو چندہ جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جاتااور بہت سے دیہات وقصبات میں ابھی تک طلبہ کا کھانا لوگوں کے گھروں سے آتا ہے یا وہ وہاں جا کر کھاتے ہیں۔ یا گھر گھر سے مانگ کر لاتے ہیں۔ ظاہر ہے ان سب باتوں سے دینی مدارس میں ایک خاص قسم کا کلچر پروان چڑھتا ہے ۔
ہماری تجویز یہ ہے کہ دینی مدارس کا موجودہ ماحول تبدیل ہونا چاہیے اورجو تجاویز ہم نے سطورِ بالا میں پیش کی ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے توان شا ء اللہ ان تعلیمی اداروں کا ماحول خود بخود تبدیل ہو جائیگا۔
تعلیمی ادارے کے ماحول پر جو چیز اثر انداز ہوتی ہے، ان میں اساتذہ او رنصاب کے علاوہ غیر نصابی بلکہ ہم نصابی سرگرمیوں کابھی بہت ہاتھ ہوتا ہے ۔ ان سرگرمیوں کو ہم دو قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ایک خالص دینی تربیت کی سرگرمیاں اور دوسری وہ سرگرمیاں جن میں طلبہ کی صلاحیتوں میں نکھار پید ا ہوتا ہے اوران کی شخصیت میں تعمیری رجحانات پروان چڑھتے ہیں۔ اوّل الذکر میں جھوٹ نہ بولنا،گالی نہ دینا، نماز باقاعدگی سے پڑھنا وغیرہ شامل ہے۔ جب کہ دوسری قسم کی سرگرمیوں میں تقریر وتحریر کی صلاحیت پروان چڑھانا ،کھیلوں میں حصہ لینا ،عملی سرگرمیوں میں شریک ہونا(جیسے تقریبات کا انتظام کرنے میں حصہ لینا،باغبانی کرنا ،کلاس روم کی آرائش کرنا وغیرہ)... ضروری ہے کہ دینی مدارس میں ہم نصابی سرگرمیوں کو منظم کیاجائے تا کہ طلبہ میں مذکورہ دونوں قسم کی صلاحیتیں پروان چڑھیں۔
ہم محسوس کرتے ہیں کہ بحیثیت ِمجموعی اس وقت دینی مدارس کا ماحول تبدیل کرنے کی سخت ضرورت ہے تا کہ طلبہ ایک نئے کلچر میں پروان چڑھ سکیں۔ اس نئے کلچر کے خدوخال کیا ہونے چاہئیں؟ اس پر نئے سرے سے کچھ لکھنے کی بجائے ہم یہ کہنے پر کفایت کریں گے کہ سطور ِبالا میں ہم نے دینی مدارس کے نظام میں جن تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے، اگر ان پر عمل درآمد کیا جائے توموجودہ ماحول کی بندھنیں خود بخود ڈھیلی ہونا شروع ہو جائیں گی اورماحول میں کشادگی ،وسعت اور رواداری کے دریچے وَا ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ


حوالہ جات

1.  دیکھئے مثلاً تنظیم المدارس، پاکستان کا مجموعہ نصاب ِتعلیم: پس منظر میں ص ۱ اور رابطة المدارس الإسلامیة پاکستان کا مطبوعہ دستور اور نصا بِ تعلیم : اغراض ومقاصد ص ۱، ۲
2.  مولانا امین احسن اصلاحی، تزکیہٴ نفس: ج ۱ ص ۱۷، طبع ملک سنز، فیصل آباد
3.  امام مالک ،موطا ،کتاب القرآن ، دار احیاء التراث العربی بیروت ۱۹۵۸ء
4.  ڈاکٹر محمد امین ،تعلیمی ادارے اور کردار سازی ، عزیز بک ڈپو ، لاہور ۱۹۹۷ء
5.  نفس المرجع ص ۳۱ ،۳۷
6.  نفس المرجع ص ۴۸،۵۰
7.  جاحظ ،البیان والتبیین ج ۲ ص ۹۲
8.  ابن حجر عسقلانی ، تہذیب التہذیب: ج ۵ ص ۵۳
9.  مسلمانوں کے قدیم نظام ونصاب تعلیم کے لیے دیکھئے:
1) ڈاکٹر احمد شلبی ،تاریخ تعلیم وتربیت اسلامیہ ،ادارئہ ثقافت ِاسلامیہ ، لاہور ۱۹۹۶ء
2) محمد رشید رضا ،تاریخ الاستاذ الامام شیخ محمد عبدہ ،قاہرہ ،طبع دوم ۱۳۴۴ھ
6) ڈاکٹر رشید احمد جالندھری ،برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کا قدیم نصابِ تعلیم در سہ ماہی 'المعارف' لاہور جولائی، ستمبر ۱۹۹۷ء
10.  ضیا ء الدین برنی ،تاریخ فیروز شاہی بذیل علاء الدین خلجی
11.  بدایوانی ،منتخب التواریخ ج ۱ ص ۳۱۵ وبعد و محمد حسین آزاد ،دربار اکبری ص ۶۷۳، ۶۷۴
12.  شبلی نعمانی، مقالاتِ شبلی ج ۳ ص ۱۲۴
13.  مولانا مناظر احسن گیلانی ،سوانح مولانا قاسم نانوتوی ج ۲ ص ۲۹۹بحوالہ دیوبند کی سالانہ رپورٹ برائے سال ۱۸۷۰ء
14.  شبلی ،مقالاتِ شبلی ج ۳
15.  ابو الکلام نے نہ صرف تذکرہ میں درسِ نظامی پر تنقید کی ہے بلکہ ۱۹۱۶ء میں جدید نصاب کی تدوین بھی کی (بحوالہ مولانا غلام رسول مہر در تبرکاتِ آزاد ،اسی طرح انہوں نے ۱۹۴۶ء میں ایک کمیٹی بنائی ،جس میں مولانا حسین احمد مدنی،مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے جدید نصاب تیار کر بھی لیا جس کا ایک نسخہ رام پور لائبریری میں آج بھی محفوظ ہے ، بحوالہ عابد رضا بیدار ،ہندوستانی مسلمانوں کی ریفارم کے مسائل
16.  مولانا مناظر احسن گیلانی سوانح قاسمی ج ۲ ص ۲۹۳،۲۹۴
17.  مولانا کے الفاظ یہ ہیں:"علو مِ دینیہ کی تعلیم کے لیے جو کتابیں اور جس ترتیب سے رکھی گئی ہیں وہ مقصد کے حصول کے لیے کافی نہیں ہیں، پھر ان کا جوطریق تعلیم ہے وہ بھی ناقص ہے ۔"
18.  مولانا زین العابدین سجاد،ہندوستان کے عربی مدارس اور ان کے نصابِ تعلیم پر ایک نظر درمجلہ "اسلام اورعصر جدید" دہلی جنوری ۱۹۷۰ء ،ص ۴۱
19.  اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ ،پنجاب یونیو رسٹی ،لاہور ج ۱۲ ص ۹۸۴
20.  مجلہ 'القاسم' دیوبند کا دار العلوم نمبر: محرم، ج ۱۳۴۷ھ ،ص ۴
21.  مولانا زین العابدین سجاد،ہندوستان کے عربی مدارس ... درمجلہ "اسلام اورعصر جدید" دہلی جنوری ۱۹۷۰ء ،ص ۴۴
22.  تفصیل کے لیے دیکھئے:
1) مولانا محمد طیب ،دار العلوم دیوبند کی صد سالہ زندگی
2) مولانا سید محمد میاں ،علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے جلد اول
3) مولانا مناظر احسن گیلانی ،سوانح مولانا محمد قاسم نانوتوی
4) ضیاء الحسن فاروقی ،دیوبندی مکتبہ فکر اور مطالبہ پاکستان
5) سید محبوب رضوی ،تاریخ دارالعلوم دیوبند
6) ڈاکٹر رشید احمد جالندھری ،برساتی ہندوستان اور مدارس دار العلوم دیوبند ،
در سہ ماہی المعارف شمارہ جنوری تا مارچ اور اپریل تا جون ۱۹۶۸ء
23.  پاکستان میں درس نظامی کے مالہ وماعلیہ کے لیے دیکھئے:
1) ڈاکٹر رشید احمد جالندھری ،دینی مدارس کا نصابِ تعلیم اور جدید تقاضے المحمود اکیڈمی لاہور ۱۹۹۵ء
2) سہ ماہی 'الشریعہ' گوجرانوالہ کا خصوصی شمارہ ،جولائی ۱۹۹۸ء
24.  ابن خلدون ،مقدمہ، فصل فی ابطال الفلسفہ
25.  مجدد الف ثانی ،مکتوبات ،دفتر اوّل ،مکتوب نمبر ۲۶۶ نیز دفتر سوم مکتوب ۲۳
26.  غزالی ،احیاء علو م الدین ،طبع قاہرہ ج ۳ ص ۲،۱۱
27.  غلام علی آزاد، مآثر الکرام، ص ۸۴،۸۹
28.  ابن خلدون ،مقدمہ طبع قاہرہ، ۱۳۸۲ء (باب ششم، فصل ۴۰) ج ۴ ص ۱۲۳۹


نوٹ

٭ دینی مدارس میں الہامی علوم کے ساتھ عصری معلومات کا امتزاجی تصور اہم ہونے کے باوجو تدریسی اعتبار سے اسے ایک ہی وقت میں رکھنے کے تجربات عملاً بڑے ناکام ثابت ہوئے ہیں جس کی بڑی وجہ مقاصد  کے علاوہ دو مختلف طریق ہائے تدریس کا بُعد ہے کیونکہ ہمارے ہاں مروّج دنیاوی تعلیم میں طلبہ کا عمومی رجحان صرف امتحان پاس کرنے کا ہوتا ہے لہٰذا اُنہیں علم وفن یا نفس کتاب کے فہم سے تعلق برائے نام ہی رہتا ہے اور امتحان میں مطلوب پاس نمبر ۳۳ فیصد بھی رہی سہی کسر نکال دیتے  ہیں جب کہ دینی مدارس میںکتاب کے مضامین سمیت فہم کتا ب کا بڑا اہتمام ہوتا ہے ۔
اس وقت  طریقہ ہائے تدریس میں فہم کتاب اورمضامین علم وفن کے تقابل سے قطع  نظر صرف یہ توجہ دلانا مقصود ہے کہ کسی مثالی امتزاجی تصور کی طرف بڑھنے کے لیے عبوری مراحل کے اقدامات ناقص ہونے کے باوجود اہمیت رکھتے ہیں چنانچہ اگر فی الوقت دینی مدارس اقامتی ہونے کی بنا پر جزوی طو ر پر ہی دوسری شفٹ میں دنیاوی علوم کو شامل کر لیں تو ایک اہم پیش رفت ہوگی۔ بعد ازاں امتزاجی مقاصد کی ہم آہنگی حاصل ہونے پر جب مثالی تدریسی طریق کار وجود میںآجائے تو پھر اسی طرح دینی اور دنیاوی علوم کو اکٹھا پڑھایا جا سکتا ہے جیسے درسِ نظامی کے ابتدائی دور میں دونوں علوم اس میں شامل ہونے کی وجہ سے اکٹھے پڑھائے جاتے تھے…  (محدث)

دینی مدارس کے دفاع اور ان کی اصلاح پر 'محدث' میں شائع ہونیوالے مضامین
اِدارہ محدث اربابِ تعلیم اور اصحابِ مدارس کے لئے لمحہ فکریہ جلد۲عدد۲ ۷ تا ۷
اِدارہ محدث دینی مدارس کے خلاف زہرافشانی(فکرہرکس بقدر ہمت اوست) جلد۲۰ عدد۸
اِدارہ محدث وفاق المدارس السلفیہ کے یکسانی نصاب کے متعلق تجاویز جلد۱۷ عدد۱۰
ثناء اللہ بلتستانی مدینہ یونیورسٹی کی اعلیٰ مشاورتی کمیٹی کی سفارشات جلد۴ عدد۹ ۴۲ تا ۴۸
حسن مدنی، حافظ حفظ ِقرآن اور تجوید وقرات کا جدید تعلیمی منہج جلد ۳۲ عدد ۵ ۳۰ تا ۴۵
زاہدا لراشدی ، مولانا دینی مدارس اور بنیاد پرستی جلد۳۴ عدد ۱ ۴۴ تا۵۶
صلاح الدین یوسف،حافظ دینی مدارس مقاصد اور پس منظر جلد۲۶ عدد۷ ۲ تا ۹
صلاح الدین یوسف،حافظ دینی مدارس، غلط فہمیوں اور شبہات کا ازالہ جلد۲۶ عدد۹ ۲ تا ۱۰
عبدالرشید اظہر دینی مدارس کے نصاب اور طرزِتعلیم پر ایک نظر(۳/اقساط) جلد۲ عدد۶،۷،۸ کل:۲۲
ممتاز احمد،ڈاکٹر بنگلہ دیش میں دینی مدارس، نئے رجحانات جلد۳۲ عدد۹ ۷۵ تا ۷۸
یوسف لدھیانوی، محمد فکر ہرکس بقدر ہمت اوست (دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ کا جواب) جلد۲۰ عدد۸ ۲ تا ۷