مدارسِ دینیہ کے مقصد ِقیام کی روشنی میں
سوویت یونین کے بکھر جانے اوررُوس کے بحیثیت ِسپر طاقت زوال کے بعد،امریکہ واحد سپر طاقت رہ گیا ہے۔ جس سے اس کی رُعونت میں اضافہ اور پوری دنیا کو اپنی ماتحتی میں کرنے کا جذبہ توانا، بالخصوص عالم اسلام میں اپنے اثر و نفوذ اوراپنی تہذیب وتمدن کے پھیلانے میں خوب سر گرم ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر (نیا عالمی نظام) اس کے اِسی جذبے کا مظہر اور عکاس ہے۔
امریکہ کے دانشور جانتے اورسمجھتے ہیں کہ ان کی حیا باختہ تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب، اپنے حیاء وعفت کے پاکیزہ تصورات کے اعتبار سے بدر جہا بہتر اور فائق ہے۔ اس لیے یہ اسلامی تہذیب ہی اس کے نئے عالمی نظام اوراس کی عالمی چودھراہٹ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، اسے ختم یا کمزور کئے بغیر وہ اپنا مقصد اور عالمی قیادت حاصل نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اس نے اسلامی تہذیب وتمدن کو ختم کرنے کے لئے اپنی سرگرمیاں تیز ترکردی ہیں۔ یہ مذموم کوششیں، ویسے تو ایک عرصے سے جاری ہیں، اور مختلف جہتوں اور محاذوں سے یہ کام ہو رہا ہے۔ بعض محاذوں پر اس کی پیش قدمی نہایت کامیابی سے جاری ہے مثلاً حقوقِ نسواں کے عنوان سے، مسلمان عورتوں میں اپنے مذہب سے نفرت وبیگانگی اور بے حیائی وبے پردگی کی اشاعت، جس میں وہ بہت کامیاب ہے۔ چنانچہ سعودی معاشرے کے علاوہ بیشتر اسلامی ملکوں کی مسلمان عورتوں کو اس نے اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس پردے کی پابندی سے آزاد اور حیاء وعفت کے اسلامی تصورات سے بے نیاز کر دیا ہے ...
مخلوط تعلیم، مخلوط سروس اور مخلوط معاشرت کا فتنہ اور مساوات ِ مرد وزن کا مغربی نظریہ ہے، جو ہر اسلامی ملک میں اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ گویا اس محاذ پر بھی مغرب کی سازشیں اپنا رنگ دکھا رہی ہیں۔ نرسری سے لے کر کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح تک،نصابِ تعلیم میں لارڈ میکالے کی وہ روح کارفرما ہے جو اس انگریزی نظامِ تعلیم کا موجد تھا اورجس نے کہا تھا کہ
"اس سے ایسا طبقہ پیدا ہو گا جو خون اوررنگ کے اعتبار سے ہندوستانی، مگر خیالات اور تمدن میں انگریز ہو گا۔"
یہ بات اس نے ۱۸۳۴ء میں کہی تھی جب متحدہ ہندوستان انگریزوں کے زیر نگین تھا، لیکن آزادی کے بعد بھی چونکہ یہی نصابِ تعلیم بدستور جاری ہے، اس لیے خیالات اور تمدن میں انگریز بننے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
انگریزی زبان کے تسلط اور برتری سے بھی وہ اپنے مذکورہ مقاصد حاصل کر رہا ہے اور ہم نے اس کی زبان کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے اوریوں اس کے استعماری عزائم اور اسلام دشمن بلکہ اسلام کش منصوبوں کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے میں اس کے دست وبازو بنے ہوئے ہیں۔
اقتصاد ومعیشت میں بھی ہم نے اسی کی پیروی اختیار کر رکھی ہے اورسودی نظام کو،جو لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات کا حکم رکھتا ہے، ہم نے اس کو مکمل تحفظ دیا اوراسے ہر شعبے میں بری طرح مسلط کیا ہوا ہے، جس کی وجہ سے اقتصادی ناہمواری عروج پر ہے۔ امیر،امیر تر اور غریب، غریب تر بنتا جا رہا ہے، نودولتیوں کاایک ایسا طبقہ الگ معرضِ وجود میں آچکاہے جو پوری طرح مغربیت کے سانچے میں ڈھل چکا ہے، اس کا رہن سہن، بودوباش، طور اطوار، حتی کہ لہجہ وزبان تک سب کچھ مغربی ہے، وہ اسی مغربی تہذیب کا والہ وشیدا اور پرستار ہے اور اس کے شب وروز کے معمولات مغربی معاشرت کی ہی عکاسی کرتے ہیں۔
سیاست ونظم حکومت میں بھی ہم نے جمہوریت کو اَپنا یا ہوا ہے، جو مغرب ہی کاتحفہ ہے۔ یہ پودا مغرب میں ہی پروان چڑھا، وہاں کی آب وہوا شاید اِسے راس ہو، لیکن اسلامی ملکوں کے لیے تو جمہوریت اسلام سے محروم کرنے کی ایک بہت بڑی سازش ہے جس کے دامِ ہم رنگ زمین میں بیشتراسلامی ملک پھنس چکے ہیں۔ کچھ تو اس کی 'برکت' سے اسلامی اقدار وروایات سے بالکل بیگانہ ہو چکے ہیں، جیسے ترکی ہے۔ کچھ سخت جان ہیں تو وہاں اسلامی اقدار اور مغربی اقدار میں سخت کشمکش برپا ہے۔
بر سراقتدار حکمران مغربی تہذیب وتمدن کو مسلط کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جبکہ اسلامی تہذیب سے محبت کرنے والا ایک گروہ اس کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔ تا ہم عوام کی بہت بڑی اکثریت، بیشتر اسلامی ملکوں میں، دینی جذبہ واحساس اورشعور سے محروم ہونے کی وجہ سے الناس علیٰ دین ملوکھم کے تحت مغرب کی حیا باختہ تہذیب کو ہی اپنا رہی ہے۔
ہماری صحافت بالخصوص روزنامے، مغربی ملکوں کے روز ناموں سے بھی زیادہ بے حیائی پھیلانے میں مصروف ہیں، یہ چند ٹکوں کی خاطر مسلمان عورت کو روزانہ عریاں اور نیم عریاں کر کے پیش کرتے ہیں تاکہ عوام کی ہوس پرستی اور جنسی اشتہاکی تسکین کر کے ان کی جیبوں سے پیسے بھی کھینچے جائیں اور اُنہیں دولت ِ ایمان سے بھی محروم کر دیں۔ ان غارت گرانِ دین وایمان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان مہ وشوں، سیمیں تنوں اوررہز نانِ تمکین وہوش کی رنگین اور شہوت انگیز تصویروں سے عوام کے اَخلاق وکردار کس بر ی طرح بگڑ رہے ہیں، بے حیائی اور بے پردگی کو کس طرح فروغ مل رہا ہے اور فحاشی کا سیلاب کس طرح ہر گھر کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ انہیں صرف اپنی کمائی سے غرض ہے، اس کے علاوہ ہر چیز سے انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
ان مایوس کن، ایمان شکن اور روح فرسا حالات میں صرف دینی تعلیم وتربیت کے و ہ ادارے اور مراکزہی اُمید کی ایک کرن ہیں،جنہیں مدارسِ دینیہ اورمراکز ِاسلامیہ کہا جاتا ہے، جہاں محروم طبقات کے بچے یا دینی جذبات سے بہرہ وَر لوگوں کے نوجوان، دین کے علوم حاصل کر کے،مسلمان عوام کی دینی رہنمائی بھی کرتے ہیں اوران کی دینی ضروریات کا سروسامان بھی۔ ان کی وجہ سے ہی تمام مذکورہ شیطانی کوششوں کے باوجود اسلامی عبادات وشعائر کا احترام لوگوں کے دلوں میں ہے۔ اس لحاظ سے یہ دینی مدارس اپنی تمام تر کوتاہیوں، محرومیوں اور کسمپرسی کے باوجود،جیسے کچھ بھی ہیں، اسلام کے قلعے اوراس کی پناہ گاہیں ہیں۔ دینی علوم کے سر چشمے ہیں، جس سے طالبانِ دین کسب ِفیض کرتے اور تشنگانِ علم سیراب ہوتے ہیں اور یہ مدارس دین کی مشعلیں ہیں جن سے کفروضلالت کی تاریکیوں میں، ہدایت کی روشنی پھیل رہی ہے اور اس کی کرنیں ایک عالم کو منور کر رہی ہیں!!
اِن کی یہ خوبی ہی دشمن کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹک رہی ہے۔ اسلام دُشمن استعماری طاقتیں، جنہوں نے عالم اسلام کو مذکورہ حسین جالوں میں پھنسا رکھا ہے اور جو اسے اسلام کی باقیات سے بالکل محروم کر دینا چاہتی ہیں۔ ملکی سیاست سے باہرنکالنا چاہتی ہیں تا کہ انتخابات کے مرحلے میں بھی 'اسلام' کا نام لینا جرم بن جائے۔ مسلمان سر براہوں کی اس کانفرنس میں جو گذشتہ برسوں کاسا بلانکا میں ہوئی، وہ اس قسم کی ایک قرارداد پاس کروانے میں کامیاب بھی ہو گئیں اوراس کے بعد اب یہ استعماری طاقتیں عالم اسلام میں برسراقتدار اپنی پٹھو حکومتوں کے ذریعے سے دینی مدرسوں کو بھی ان کے اصل کردار سے محروم کرنا چاہتی ہیں۔ چنانچہ مغرب کی آلہ کار حکومتیں اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے آئے دن ان کے خلاف ژاژخائی کرتی رہتی ہیں اور کبھی فرقہ واریت سے انہیں مطعون کر کے ان مدارس میں مداخلت کے لیے پر تولنے لگتی ہیں۔تا کہ انہیں ان کے اس تاریخی کردار سے محروم کر دیا جائے جو وہ صدیوں سے انجام دے رہے ہیں اور یہاں سے بھی اسلام کے داعی ومبلغ، مفسر ومحدث اورمفتی وفقیہ پیدا ہونے کی بجائے، وہی مخلوق پیداہو جو کالج اوریونیورسٹیوں میں پیدا ہو رہی ہے، جس نے معاشرے سے اس کا امن اورسکون چھین لیا ہے۔ جو میڈونا اور مائیکل جیکسن کی پرستار ہے اوراسلامی اقدار وروایات کے مقابلے میں مغربی اقدار وروایات کی شیدا اوراس کی تہذیب پر فریفتہ ہے۔
یہ مدارسِ دینیہ عربیہ، جن میں قرآن وحدیث اوران سے متعلقہ علوم کی تعلیم دی جاتی ہے، صدیوں سے اپنے ایک مخصوص نظام ومقصد کے تحت آزادانہ دین کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ ان مدارسِ دینیہ کے پس منظر،غرض وغایت اور ان کی عظیم دینی خدمات سے ناواقف لوگ، ان کے متعلق مختلف قسم کی باتیں بناتے رہتے ہیں۔ کبھی ان مدارس کو بے مصرف اوران میں پڑھنے پڑھانے والے طلباء وعلما کو 'یادگارِ زمانہ' کہا جاتا ہے،کوئی انہیں ملائے مکتب اور ابلہ مسجد قرار دیتا ہے جو ان کی نظر میں زمانے کی ضروریات اور تقاضوں سے ناآشنائے محض ہیں اور کوئی 'اصلاح' کے خوش نما عنوان سے اور 'خیرخواہی' کے دل فریب پردے میں باز (شکرے) کے روایتی قصے کی طرح انہیں ان کی تمام خصوصیات سے محروم کر دینا چاہتے ہیں اور اب ایک مخصوص گروہ کوسامنے رکھتے ہوئے، جن کا کوئی تعلق دینی مدارس سے نہیں ہے، انہیں'دہشت گرد'بھی باور کرایا جا رہا ہے۔ غرض یہ مدارس اوران میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا 'جتنے منہ،اتنی باتیں' کے مصداق ہر کہ ومہ کی تنقید کانشانہ اور ارباب ِدنیا کے طعن وتشنیع کا ہدف ہیں، بلکہ اب بین الاقوامی استعمار کی خاص 'نگاہِ کرم' بھی ان پر مبذول ہے۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ مدارس،اپنے مخصوص پس منظر اورخدمات کے لحاظ سے اسلامی معاشرے کا ایک ایسا اہم حصہ ہیں جن کی تاریخ اور خدمات سنہرے الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ ان میں پڑھنے پڑھانے والے نفوسِ قدسیہ نے ہر دور میں باوجود بے سروسامانی کے دین اسلام کی حفاظت وصیانت کا قابل قدر فریضہ انجام دیا ہے۔ ا ن مدارس کے قیام کا پس منظر یہی تھا کہ جب حکومتوں نے اسلام کی نشرواشاعت میں دلچسپی لینا بند کر دی اور اسلامی تعلیم و تربیت میں مجرمانہ تغافل برتا تو علماءِ اسلام نے ارباب ِحکومت اور اصحابِ اختیار کی اس کوتاہی کی تلافی یوں کی کہ دینی تعلیم وتربیت کے ادارے قائم کیے جو عوام کے رضار کارانہ عطیات اورصدقات وخیرات سے چلتے تھے۔ یہ دینی ادارے بالعموم سرکار ی سرپرستی سے محروم ہی رہے ہیں اور اسی میں ان کے تحفظ وبقا کا راز مضمر ہے۔
بالخصوص برطانوی ہند میں، جب کہ انگریز نے لارڈمیکالے کی نظریہ تعلیم کے مطابق انگریزی تعلیم کو رواج دیا اورمسلمان عوام ملازمت اور دیگر مناصب ومراعات کے لالچ میں کالج اور یونیورسٹیوں کی طرف دیوانہ وار لپکے اور دینی تعلیم اوردینی اقدار سے بے اعتنائی وبیگانگی برتنے لگے تو علماء اوراصحابِ دین نے اس دور میں متحدہ ہندوستان کے قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں دینی مدارس کاجال پھیلادیا۔
انگریزوں نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے جس انگریزی نظامِ تعلیم کو نافذ کیا تھا، اس کے دو بڑے مقصد تھے: ایک، دفتروں کے لیے کلرک اوربابو پیدا کرنا ... دوسرا، مسلمان کو اس کے دین اور اس کے شعائر واقدار سے بیگانہ کردینا۔ بد قسمتی سے دورِ غلامی کایہ مخصوص نظامِ تعلیم اپنے مخصوص مقاصد سمیت تاحال قائم ہے، اس لئے دینی مدارس کی ضرورت بھی محتاجِ وضاحت نہیں۔ بنا بریں علما جب سے اب تک ان مدارس کے ذریعے سے دین کی نشرو اشاعت اوردینی اقدار وشعائر کی حفاظت کا فریضہ نامساعدت ِ احوال اور انتہائی بے سروسامانی کے باوجود سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ انہی مدا رس کا فیض ہے کہ ملک میں اللہ رسول کا چرچا ہے، حق وباطل کا امتیاز قائم ہے، دینی اقدار وشعائر کا احترام وتصور عوام میں موجود ہے اور عوام اسلام کے نام پر مرمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
دینی مدارس کے اس پس منظر،غرض وغایت اور خدمات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے قیام کا مقصد ڈاکٹر، وکیل، انجینئر،صنعت کار اورکلرک وبابو پید ا کرنا نہیں، بلکہ علومِ دینیہ کے خادم، دین اسلام کے مبلغ وداعی، قرآن کے مفسر، احادیث کے شارح اور دین متین کے علم بردار تیار کرنا ہے۔ ان کانصابِ تعلیم اسی انداز کا ہے جن کو پڑھ کر وارثانِ منبر ومحراب ہی پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد ایسے ہی رجالِ کا ر پیدا کرنا ہے نہ کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کھپ جانے والے افراد۔ اس لیے بنیادی طور پر ان کے نصابِ تعلیم میں تبدیلی یا ان کی آزادانہ حیثیت میں تغیر،دونوں چیز یں ان کے مقصد ِوجود کی نفی کے مترادف ہیں۔
نصابِ تعلیم میں بنیادی تبدیلی سے دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلبا نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔ اگر کسی محدود سے مفاد کے ساتھ وہ دنیوی شعبے میں کھپنے کے لائق ہو بھی گئے تو بہر حال یہ تو واضح ہے کہ دینی علوم اور مذہبی تبلیغ سے ان کا رابطہ ختم ہو جائے گا یا اگر رہے گا بھی تو اُس انداز کا نہیں رہے گا جو اسلامی علوم کی نشرواشاعت اور اس کی تبلیغ کے لیے مطلوب ہے۔ اس طرح ان مدارس سے دین کے وہ خدام تیار ہونے بند ہو جائیں گے جن کے ذریعے سے قال الله وقال الرسول کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، ائمہ و خطبا، حفاظ وقرا اورمدرّسین وموٴلفین پیدا ہو رہے ہیں جن سے مختلف دینی شعبوں کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔
اگر نصابِ تعلیم کی تبدیلی سے یہی نتیجہ نکلا اوریقینا یہی نکلے گا تو ظاہر بات ہے کہ مدارسِ دینیہ کی مخصوص حیثیت ختم ہو جائے گی اور وہ بھی عام دنیوی اداروں (سکول، کالج، یونیورسٹی وغیرہ) کی طرح ہو جائیں گے، حالانکہ دنیوی تعلیم کے یہ ادارے پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں ہر چھوٹی بڑی جگہ پر موجود ہیں اور حکومت ان پر کروڑوں روپیہ خرچ کر رہی ہے۔ بنا بریں دینی مدارس کے نصاب میں بنیادی تبدیلی کے پیچھے خواہ کتنے ہی مخلصانہ جذبات اورخیرخواہانہ محرکات کار فرما ہوں۔ تاہم یہ جذبات ومحرکات بالغ نظری کی بجائے سطحیت کا شاخسانہ ہیں اور اس سے دینی تعلیم اور دینی ضروریات کاسارا نظام تلپٹ ہو سکتا ہے۔
مدارسِ دینیہ کی انہی خدمات اور حیثیت کے پیش نظر ایک موقعے پر علامہ اقبال نے بھی حکیم احمدشجاع سے فرمایا تھا :
"ان مکتبوں (مدارس) کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدرسوں میں پڑھنے دو، اگر یہ مولوی ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہو گا؟ جو کچھ ہو گا، میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندوستان کے مسلمان اِن مدرسوں کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح، جس طرح اَندلس (سپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اورقرطبہ کے کھنڈر اور الحمرا اورباب الاخوتین کے نشانات کے سوا اسلام کے پیرؤوں اوراسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آ گرے کے تاج محل اور دِلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اوران کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔" (کتاب 'خوں بہا ' از حکیم احمد شجاع: حصہ اوّل، ص ۴۳۹ )
دینی مدارس میں تعلیمی اصلاح ... کیوں اور کیسے؟
مدارسِ دینیہ کے مذکورہ اغراض ومقاصد، ان کے تاریخی پس منظر اورانکی جلیل ُالقدر خدمات کے باوجود، مدارسِ دینیہ عام طو ر پر تنقید کا نشانہ بنے رہتے ہیں اور اپنوں اور بیگانوں کی مجلسوں میں اپنے اپنے انداز سے اس پر تبصرے ہوتے رہتے ہیں۔ بالخصوص ان کا نصابِ تعلیم ہر وقت تختہٴ مشق ستم بنا رہتا ہے، اس مضمون کا عنوان بھی یہی ہے : "دینی مدارس میں تعلیمی اصلاح،کیوں اور کیسے؟"
جس کا مطلب یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ میں تعلیمی اصلاح یعنی نصاب کی تبدیلی کی ضرورت ہے اور یہ تبدیلی کیوں ضروری ہے ؟ اور اس ضرورت کو کس انداز سے پورا کیا جائے ؟ گویا اس عنوان کے دو پہلو یا دوحصے ہیں۔جہاں تک اس کے پہلے حصے کا تعلق ہے تو راقم کی گزارشات کی روشنی میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ مدارسِ دینیہ کے نصاب میں سر ے سے بنیادی تبدیلی اور اصلاح کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ تبدیلی اور اصلاح کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں اس سے اس کے اصل مقاصد حاصل نہ ہو رہے ہوں۔ جب دینی مدارس کے قیام کا مقصد انجینئر،سائنس دان یا ڈاکٹر اوروکیل وغیرہ پیدا کرنا نہیں ہے، بلکہ صرف علومِ قرآن وحدیث میں مہارت پید ا کرنا، دین کی تبلیغ ودعوت کی استعداد حاصل کرنا اور مسلمان عوام کی دینی رہنمائی کی فریضہ انجام دینا ہے اورمدارسِ دینیہ سے یہ مقاصد حاصل ہور ہے ہیں، تقریباً دو سو سال سے یہ مدارس انہی مقاصد کے لیے قائم ہیں، اورتمام تر مشکلات اور نہایت بے سروسامانی کے باوجود اپنے مقصد ِوجود کو پورا کر رہے ہیں تو پھر ان کی تعلیمی اصلاح کی ضرورت واہمیت پر کیوں اتنا زور دیا جاتا ہے ؟
اگر کسی ڈاکٹر سے یہ مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر ی کے ساتھ ساتھ وکالت یا انجینئرنگ کی تعلیم بھی ضرور حاصل کرے، کسی وکیل سے یہ کہنا مناسب نہیں کہ وہ ڈاکٹری یا سائنس کاعلم بھی ضرور حاصل کرے، اسی طرح بھی ایک فن کے ماہر کے لیے ضرور ی نہیں کہ وہ دوسرے فنون میں بھی ماہر ہو تو پھر علمائے دین ہی کے لیے یہ کیوں ضروری ہوکہ وہ دینی علو م میں تخصّص کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی تخصص حاصل کریں؟ اس لیے راقم کے خیال میں دینی مدارس کے تعلیمی نصاب میں اِصلاح کے مطالبے میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔
لیکن اس کے باوجود یہ مطالبہ بڑی شدت کے ساتھ کیا جاتا ہے، تو آخر اس کی کیا و جہ ہے ؟ جہاں تک راقم نے اس پر غور کیا ہے تو اس کے چند اسباب سمجھ میں آتے ہیں :
٭ یہ مطالبہ کرنے والے مختلف لوگ ہیں اوراس سے ان کے اغراض ومقاصد بھی مختلف ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو علما کے ساتھ ہمدردی اوراخلاص کا تعلق رکھتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ علما کی معاشرے میں وہ قدرو منزلت نہیں ہے جو اُن کی ہونی چاہیے یا اُن کی آمدنیاں اُن کی معاشی ضروریات اورتمدنی سہولیات کی متکفل نہیں ہیں، تو وہ چاہتے ہیں کہ علما دینی علوم میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ، کسب ِمعاش کے لیے کچھ اورہنر سیکھ لیں تا کہ وہ معاشرے کے دست ِنگر نہ رہیں یا عسرت وتنگ دستی کا شکار نہ ہوں۔ اس لیے ان کی تجویز ہوتی ہے کہ مدارسِ میں دست کاریوں کے سکھانے کا اہتمام بھی ہو۔ اس تجویز میں کار فرما جذبہ، اگرچہ اخلاص وہمدردی ہی ہے، لیکن اس پر عمل کرنے کا نقصان یہ ہو گا کہ اس طرح علما کی اکثریت اپنے مقصد سے غافل ہو جائے گی۔
علما کے لیے یہی مناسب اور ان کے شایانِ شان ہو گا کہ اللہ نے انہیں قرآن وحدیث کے فہم سے نوازا ہے، تووہ اپنی زندگی قرآن وحدیث کی نشرواشاعت اوراس کی تعلیم وتدریس میں ہی گزاریں۔ ان کا اصل سرمایہ،اعتماد وتوکل علی اللہ ہے، ان کی نظر یں مادّی سہولتوں کی بجائے اُخروی اَجروثواب پر ہونی چاہئیں۔ رہی دست نگر ی کی بات، تو یہ بھی خلافِ واقعہ ہے۔ آخر علما شب و روز اپنے آپ کو دینی خدمت کے لیے وقف رکھتے ہیں، معاشرہ اِس کے عوض ان کی معاشی کفالت کا بندوبست کرتا ہے، تو اس میں دسست نگری والی بات کیا ہے؟یہ تو محنت ا ور خدمت کا معاوضہ اور صلہ ہے۔ جس طرح معاشرے کے اَور افراد دیگر معاشرتی خدمات سر انجام دیتے ہیں، درزی کپڑے سیتا ہے،حکیم اورڈاکٹر علاج معالجہ کرتا ہے، ایک شخص 'سیل مینی ' کرتا ہے، یہ سب اپنی اپنی محنت وخدمت اور قابلیت کا معاوضہ لیتے ہیں۔ علماء بھی دینی خدمات سر انجام دے کر معاشرے سے معاوضہ وصول کر لیتے ہیں، تو اسے دست نگری کیوں سمجھا جائے ؟ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو کیا اس میں کوئی معقولیت ہے ؟
اورجہاں تک قلیل آمدنی کی بات ہے تو یہ اگر چہ بہت حدتک صحیح ہے لیکن علما کے نزدیک اِس کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہئے بلکہ اُن کو اَپنا معیارِ زندگی سادہ ہی رکھنا چاہئے تا کہ وہ معاشرے میں ایک نمونہ بن کر رہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اہل دین کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی کر کے علما کی قدر افزائی کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہئے تاکہ علما کی حوصلہ افزائی ہو نہ کہ ان کی حوصلہ شکنی۔ ان کا موجودہ رویہ حوصلہ شکنی پر مبنی ہے جس سے علما اور علومِ دین کی ناقدری ہو رہی ہے اوریوں معاشرے میں دین کی اہمیت کم ہو رہی ہے۔
مساجد ومدارس کا انتظام کرنے والے،بے دین لوگ تو نہیں ہوتے۔ اہل ایمان اور دین سے محبت رکھنے والے ہی ہوتے ہیں۔ یہ مساجد ومدارس کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے لوگوں سے وصول کرتے اور خرچ کرتے ہیں، ان کا سالانہ بجٹ لاکھوں اورکروڑوں پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر یہ اربابِ اہتمام خطابت وامامت سے یا تعلیم وتدریس سے وابستہ علما کی تنخواہوں میں بھی معقول اضافہ کر دیں، تو یقینا جہاں ان کے دیگر اخراجات کا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوجاتا ہے،تنخواہوں کی مدمیں ہونے والے تھوڑے سے اضافے کا بندوست بھی اللہ تعالیٰ فرما سکتا ہے ... یہ صحیح طریقہ تو اختیار کرنے سے گریز کیا جائے اور انہیں کسب ِمعاش کے لیے دیگر ذرائع اختیار کرنے کی تلقین کی جائے، جو نہایت خطرناک راستہ ہے جس سے دین کا کام سخت متاثرہونے کا اندیشہ ہے۔
٭ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ کا نصاب معمولی سے فرق یا اضافے کے ساتھ سکول، کالج اور یونیورسٹی والا کر دیا جائے۔ ان کی ڈگریاں بھی میٹرک، ایف اے،بی اے اورایم اے کے برابر ہوں اوران کے ڈگری یافتہ اصحاب سرکاری اداروں میں ملازمتیں کر سکیں۔
اس تجویز کے پیش کرنے والے کون ہیں؟ ا ور اس سے ان کااصل مقصد کیا ہے ؟ کیا واقعی اس میں اخلاصِ نیت اورہمدردی کا جذبہ پایا جاتا ہے یا نہیں؟ اس سے قطع نظر واقعہ یہ ہے کہ اس تجویز پر عمل کرنے سے علما کے دینی کردار کا خاتمہ اوردینی مدارس کے مقصد ِوجود کی نفی ہو جائے گی۔ اس سے دینی مدارس سے امام وخطیب، مصنف ومدرّس اوردین کے داعی ومبلغ بننے بند ہو جائیں گے جو ا ن کااصل مقصدہے اور یہاں سے بھی کلرک، بابو اور زندگی کے دیگر شعبوں میں کھپ جانے والے افراد ہی پیدا ہوں گے، جیسے دنیوی تعلیم کے اداروں سے پیدا ہو رہے ہیں۔ جب کہ دینی مدارس کے قیام اور ان کے الگ وجود کا مقصد شریعت کے ماہرین اور صرف دین اور دینی ضروریات کے لئے کام کرنے والے رجالِ کار پیدا کرنا ہے۔ اس اعتبار سے ان مدارس کی حیثیت تخصیصی شعبوں کی طرح ہے۔ جیسے میڈیکل کا، انجینئرنگ کا، معاشیات کا اور دیگرکسی علم کا شعبہ ہے۔ ان میں سے ہرشعبے میں صرف اسی شعبے سے تعلق رکھنے والی تعلیم کا اہتمام ہوتا ہے، دیگر علوم کی تعلیم کی نہ صرف ضرورت سمجھی نہیں جاتی، بلکہ اسے اصل تعلیم کے لیے سخت نقصان دِہ سمجھا جاتا ہے۔
البتہ اس قسم کا نصاب ایک ایسی اسلامی مملکت میں ہو سکتا ہے جو اسلام کے ساتھ مخلص ہو اور اسلامی تعلیمات ونظریات کا خصوصی اہتمام... نرسری سے لے کر ایم اے تک ... ہو اور اپنے عوام کی اسلامی تعلیم وتربیت کے جذبے سے سرشار ہو۔ وہاں دینی مدارس کے الگ مستقل اور متوازی وجود کی شاید ضرورت نہ رہے۔ صرف یونیورسٹیوں میں علومِ شرعیہ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے دیگرشعبہ ہائے زندگی سے متعلق علوم وفنون میں تخصص کی طرح، درجہ تخصص رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، یہ مدارسِ دینیہ ہی دینی علوم کے واحد مراکز بھی ہیں اوران میں درجہ تخصص حاصل کرنے کا ذریعہ بھی۔
٭ تعلیمی اصلاح کی ایک تیسری صورت یہ بھی پیش کی جاتی ہے، بلکہ بہت سی جگہوں پر ا س پر عمل بھی ہو رہا ہے، اور وہ یہ کہ جدید اور قدیم دونوں تعلیم کا ملغوبہ تیار کیا جائے۔ تا کہ ایسے افراد تیار ہوں جن میں قدیم وجدید کا امتزاج اور دونوں علوم میں ان کو مہارت ہو۔ یہ تصور یقینا بڑ اخوش کن اورمسرت آگیں ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ تجربہ کئی جگہ کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی مبینہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں قسم کے علوم اپنی اپنی جگہ شدید محنت اور توجہ کے متقاضی ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عربی مدارس میں طلبا رات دِن محنت کرتے ہیں اور آٹھ سال اس پر صرف کرتے ہیں، اس کے باوجود ہزاروں میں سے چند طالب علم ہی صحیح معنوں میں علمی استعداد سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور دعوت وتبلیغ یا تعلیم وتدریس یا تصنیف وتالیف اور افتاء وتحقیق کے میدان میں کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔یہی صورت حال دنیوی تعلیم کے شعبوں کی ہے۔ دنیوی تعلیم کے اداروں میں بھی طلبا محنت کرتے ہیں، بلکہ ٹیوشنوں پر بھی ایک معتد بہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ لیکن نتائج چالیس فی صد سے بھی کم حاصل ہوتے ہیں، جب الگ الگ مستقل طور پر تعلیم حاصل کرنے کا نتیجہ یہ ہے، تو جب بیک وقت دونوں علوم طالب علموں کو پڑھائے جائیں گے تو ان کے پلے کیا پڑے گا؟
اس طرح کے اداروں سے فارغ ہونے والے نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔ علومِ شریعت میں بھی وہ خام ہوں گے جس کی وجہ سے وہ دینی اورعلمی حلقوں میں درخورِ اعتنا نہیں سمجھے جائیں گے اوردنیاوی تعلیم میں بھی وہ اُدھورے اور ناقص ہوں گے، اس لیے زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی انکی کھپت مشکوک رہے گی۔ وہ آدھے تیتر، آدھے بٹیریا ... نیم حکیم خطرئہ جان اور نیم ملا خطرئہ ایمان ... ہی کا مصداق ہوں گے۔
٭ ایک چوتھا گروہ ہے، جو نصاب میں صرف اس حدتک تبدیلی کا خواہاں ہے کہ منطق وفلسفے کی کتابوں کی بجائے عصر حاضر کے فتنوں، تحریکوں اوراِزموں کو سمجھنے کے لیے بعض ضروری جدید علوم کی تدریس کا انتظام کیا جائے۔ اس تبدیلی سے یقینا علماءِ کرام کے کردار کو زیادہ موٴثر اورمفید بنایا جاسکتا ہے۔ جس کے علما اور اصحابِ مدارس قطعاً مخالف نہیں ہیں۔ بلکہ حسب ِاستطاعت بعض بڑے مدارس میں ان کا اہتمام بھی ہے۔ اور اس میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے، جیسے انگریزی زبان کی تدریس، معاشیات کی تعلیم وغیرہ۔ کیونکہ اس تبدیلی اور اہتمام سے مدارسِ دینیہ کا اصل نصاب متاثر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی تکمیل ہوتی ہے اور ا س سے دین اسلام کی برتری کا وہ مقصد حاصل ہوتا ہے جو مدارسِ دینیہ کا اصل مقصد ہے۔
اس تجویز کو ایک دوسرے انداز سے بھی بروئے کار لا یا جاسکتا ہے کہ مدارسِ دینیہ کے نصاب میں قدرے تخفیف کر کے اس کی مدتِ تکمیل چھ سال کر دی جائے اور اس کے بعد دو یا تین سال ان فارغ التحصیل طلبا کو جدیدتعلیم اورجدید نظریات سے آگاہ کیا جائے۔
ایک تعلیمی اصلاح یہ بھی ضروری ہے کہ جدل ومباحثہ پر مبنی کتابوں اور فقہیات کے حصوں میں کمی کر کے قر آ ن وحدیث کے مضامین اور علوم کو زیادہ اہمیت اور زیادہ وقت دیا جائے اور ممکن ہو تو فقہی مقارنہ کا انتظام کیا جائے تاکہ طلبا میں فقہی جمود اور تنگی کی بجائے وسعت ِنظر بھی پید اہو اور وسعت ِظرف بھی جس کی آج کل بڑی شدید ضرورت ہے۔
اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ دینی مدارس کے قیام کا اصل مقصد دینی علوم کی تدریس ہے تا کہ اس کے ذریعے سے دینی اقدار وروایات کا تحفظ کیا جائے۔ یہ کام اور کوئی ادارہ نہیں کر رہا ہے، بلکہ دین کو ملیا ملیٹ کرنے کی مذموم مساعی زور شور سے جاری ہیں۔ اس لیے مدارسِ دینیہ کے تعلیمی نصاب میں اس انداز کی اصلاح کا کوئی جواز نہیں ہے جو اس کے اصل مقصد ِوجود کے منافی ہو۔ تا ہم ایسی اصلاحات ضروری ہیں جن سے علماءِ کرام کے کردار کو زیاد ہ موٴثر بنایا جا سکے اوردعوت وتبلیغ میں عصری تقاضوں اوراسالیب کو ملحوظ رکھا جا سکے۔ وَما عَلينَا إلاّ البَلاغ المُبين
٭٭٭٭٭