جنرل پرویز مشرف کے دو چہرے

سیکولرزم یا اسلام ؟
جنرل پرویز مشرف صاحب کا اصل زاویہٴ نگاہ اور فکری میلان (Mindset)کیا ہے؟ کیا وہ ایک سیکولر راہنما ہیں یا اسلام پسند؟ کیا انہیں جدید ترکی کے معمار مصطفی کمال (اتاترک) کی طرح کا 'لبرل' سمجھا جائے یا اسلام کی لبرل تعبیر پریقین رکھنے والامسلمان کہا جائے؟ کیا وہ ترقی پسندانہ اسلام کانام لے کر پاکستان میں سیکولر زم کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں یا پاکستان سے انتہا پسندانہ فرقہ واریت کاخاتمہ کرکے پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک روادار اسلامی معاشرے کی صورت دینا چاہتے ہیں؟ وہ جدیداصطلاح میں راسخ العقیدہ یا 'بنیاد پرست' کہلواناپسند نہیں کرتے، وہ اپنے آپ کوترقی پسند، لبرل، اور روشن خیال مسلمان کہلواناپسند فرماتے ہیں۔ اگر وہ لبرل ہیں تو کن معنوں میں؟... اس طرح کے متعدد سوالات ہیں جو ان کی شخصیت کے متعلق مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذہنوں میں گھوم رہے ہیں۔
"کمال اتاترک میرے ہیرو ہیں!"... جنرل پرویز مشرف نے ہنگامی طورپر اقتدار سنبھالنے کے چند روز بعد جب ایک تقریر میں بے ساختگی سے یہ جملہ ادا کیا تو انہیں پاکستانی معاشرے کی نظریاتی اساس کے تناظر میں اس مختصر سے جملے کی حقیقی معنویت کا شاید احساس نہیں تھا۔ انہیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ مصطفی کمال پاشا کا اہل پاکستان کے دلوں میں وہ احترام و مرتبہ نہیں ہے جس کا مشاہدہ انہوں نے ترکی میں طویل قیام کے دوران کیاتھا۔ اپنے اقتدار کے شروع ہی میں وہ اپنی شخصیت کو متنازعہ فیہ نہیں بنانا چاہتے تھے، لہٰذا انہوں نے جلد ہی وضاحت کردی:
"کمال اتاترک یقینا ترکوں کے ہیرو ہیں جو جدید ترکی کے معمار ہیں اور جنہوں نے بیمار یورپ میں سے ترکی کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا کر نکالا، تاہم ہمارے راہنما اور باباے قوم قائد ِاعظم ہیں جن کے اُصولوں پر کاربند رہنے کے ہم پابند ہیں۔ میں اتاترک کا بے حد احترام کرتا ہوں لیکن ہمارے ملک کا اُصول ترکی سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔" (نوائے وقت: ۱۴/نومبر ۱۹۹۹ء)
جنرل مشرف صاحب نے وضاحت تو کردی مگر شعوری یا لاشعوری طور پر جو بات ان کی زبان سے نکل گئی تھی، وہ دنیاے اسلام کے دین پسندوں کے دل میں کانٹا بن کر کھب گئی۔ ان کی جانب سے جنرل مشرف کی سوچ کے بارے میں متواتر ذہنی تحفظات کا سلسلہ جاری رہا، بالآخر ایک موقع پر جنرل صاحب کو صاف لفظوں میں کہنا پڑا کہ "میں پکا مسلمان ہوں اور پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے!"
اس کے بعد ایک طویل عرصہ تک جنرل مشرف صاحب خاصے محتاط رہے۔ اتاترک کے متعلق ان کے دل میں احترام تو باقی رہا مگر اس کا اظہار کرنے سے انہوں نے گریز ہی کیا۔ حتیٰ کہ ۱۱/جون ۲۰۰۰ء کو نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر نے جب یہ بیان دیا کہ "پاکستان کو ترقی پسند، جدید، متحمل اور سیکولر سٹیٹ ہونا چاہئے۔" اور دینی جماعتوں کی طرف سے اس کے خلاف سخت ردّعمل کا اظہار کیا گیا تو جنرل مشرف صاحب نے بیان دیا کہ پاکستان کامستقبل سیکولرازم سے نہیں، اسلام سے وابستہ ہے۔ اس دوران وہ تواتر سے جہاد اور دہشت گردی کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے رہے، انہوں نے قومی اور بین الاقوامی فورم پر بھی کئی مرتبہ دینی مدارس کے مثبت فلاحی کردار پر روشنی ڈالی۔ قانونِ توہین رسالت کی دفعہ 295-C میں مجوزہ ترمیم واپس لے کر انہوں نے اسلام پسندوں کو بہت حد تک مطمئن کیا۔ انہوں نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود طالبان کی حمایت بھی جاری رکھی۔
ان سب اقدامات کے باوجود مشرف حکومت میں این جی اوز کو غیر معمولی اثرورسوخ، حکومتی ذمہ داران کی طرف سے دینی مدارس کو کنٹرول کرنے کے بیانات اور 'ترقی پسندانہ اسلام'کی والہانہ تکرار نے ہمیشہ شکوک و شبہات کوجنم دیا۔ ۱۱/ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد امریکہ سے تعاون کی پالیسی نے موجودہ حکومت اور دینی جماعتوں کے درمیان براہِ راست تصادم کے حالات پیدا کردیے۔ طالبان اور القاعدہ کے حوالے سے جہادی تنظیموں پر پابندی لگانے کے لئے روز بروز امریکہ کی طرف سے دباؤ بڑھتا گیا تو حکومت کی پالیسی بھی بتدریج تبدیل ہوتی گئی۔
جنرل پرویز مشرف صاحب کے بارے میں محسوس کیا گیا ہے کہ وہ موقع محل دیکھ کر بات کرتے ہیں۔ بعض اوقات دو مختلف مواقع پراس قدر مختلف اُسلوب اپناتے ہیں کہ سننے والا سخت الجھن اور کنفیوژن کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ ان کی دل کی بات کون سی ہے؟ وہ علما اور مشائخ کوخصوصی ملاقاتوں کا شرف بخشتے ہیں تو اسلام، علمائے دین اور دینی مدارس کااس حسن اسلوب سے ذکر کرتے ہیں کہ سننے والے علما ہی بعض اوقات شرمندہ ہوجاتے ہیں کہ خواہ مخواہ وہ جنرل صاحب کے متعلق سوئے ظن میں مبتلا رہے ہیں۔ وہ علما جونجی مجالس میں جنرل مشرف صاحب کے سیکولر، دین مخالف اور مذہب بیزار ہونے کی شکایات کرتے نہیں تھکتے، ان کے روبرو اسلام اور علما کے متعلق ان کے سخن ہائے دل پذیر سنتے ہیں تو دل ہی دل میں اپنے آپ کو ملامت کرتے ہیں کہ وہ سنی سنائی باتوں پران کے خلاف بغض اور کینہ پالتے رہے۔ جنرل صاحب کو خدا نے اپنی بات بیان کرنے اور اپنا دفاع کرنے کا ایسا ملکہ عطا کیا ہے کہ کمزور استدلال رکھنے والے ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔وہ اپنی گفتگو میں علما کو دینی مدارس اور دین وشریعت کی پاسداری کی اس طریق پر یقین دہانیاں کراتے ہیں کہ بہت کم علما ہوں گے جو ان یقین دہانیوں کا اعتبار نہ کرتے ہوں۔ طالبان کی شدت سے حمایت کرنے والے علما کو بھی دیکھا ہے کہ ان کے حضور پہنچتے ہیں تو بدلے بدلے ہوتے ہیں۔ مگر یہ ان کی شاہانہ طبیعت کا ایک پہلو ہے، جسے آپ جمالی کہہ سکتے ہیں۔
ان کی شخصیت کا ایک اور اُسلوب، ایک اور انداز اور ایک اور طرزِ سخن ہے جس کامظاہرہ عام طور پر وہ بین الاقوامی میڈیا کے سامنے کرتے ہیں۔ شعوری یا لاشعوری طور پر وہ بیرونی دنیا میں اپنا اس طرح کا امیج (Image) بنانے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں جسے مغربی دنیا دیکھنا چاہتی اور پسند کرتی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ذرائع ابلاغ نے اسلام پسندوں کوبنیاد پرست اور دہشت گردوں کے روپ میں پیش کیا ہے، اس لئے وہ کسی ایسے حکمران کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جو اسلام سے والہانہ وابستگی کا اظہار کرے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے دینی مدارس کو دہشت گردوں کی نرسریاں ہونے کا اس قدر پراپیگنڈہ کیا ہے کہ ان کے متعلق معمولی سی تعریف بھی ان کی ناراضگی اور خفگی کا باعث بن جاتی ہے۔
جنرل مشرف صاحب مغربی 'بیل' کے مزاج کو بخوبی سمجھتے ہیں، اسی لئے وہ اسے اسلام کا سرخ رومال (Red Rag) دکھا کر کسی بھی طور پر مشتعل نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جب بھی مغربی ذرائع ابلاغ کے سامنے آتے ہیں، خالصتاً اسلام کی بات نہیں کرتے، بلکہ وہ ہمیشہ ترقی پسندانہ، لبرل، متحمل مزاج اور روشن خیال اسلام کی بات کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر وہ دین پسندوں کی بھی خوب خبر لیتے ہیں، وہ دین پسندوں کو بلا استثنا انتہا پسند قرار دے کر ان کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان فرماتے ہیں۔ وہ اہل مغرب کو باربار یقین دلاتے ہیں کہ وہ پاکستان سے مذہبی انتہا پسندوں کا صفایا کرکے دم لیں گے۔ وہ صفائیاں دینے میں تمام تر توانائی ضائع کرتے ہیں کہ پاکستانی ایٹم بم کے مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وہ انہیں یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان کی اکثریت روشن خیال، لبرل اور ترقی پسند مسلمانوں پر مشتمل ہے، یہاں راسخ الاعتقاد مسلمان نہیں بستے۔
یورپ و امریکہ کے روشن خیال،جنونی پادریوں کے ظلم و ستم کو آج تک نہیں بھولے، وہ ہر مذہبی ریاست کو تھیو کریسی یا مذہبی پیشوائیت سمجھ کر اس کے خلاف شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔ وہ پاکستان میں جہادی تنظیموں کے بڑھتے ہوئے رسوخ کو دیکھ کر ہمیشہ پاکستان میں 'تھیوکریسی' کے موہوم خطرات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جنرل مشرف صاحب انہیں ہر بار یقین دلاتے ہیں کہ آپ فکر نہ کریں پاکستان تھیوکریٹک سٹیٹ نہیں بنے گا۔
۵/جون ۲۰۰۱ء کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں منعقد ہونے والی سیرت کانفرنس میں جنرل صاحب نے عالمی میڈیا کے سامنے پہلی دفعہ علماے دین کو سخت ڈانٹ پلائی تھی اور تمام علما کو انتہا پسندی سے باز رہنے یا پھر سخت اقدامات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنے کی دھمکی دی۔ چند ماہ پہلے انہوں نے ایک روسی اخبار کو انٹرویو دیا تو ایک دفعہ پھر پاکستان کے مذہبی انتہا پسندوں کو اپنے 'خصوصی التفات' کے قابل سمجھتے ہوئے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ اسی انٹرویو میں انہوں نے ترقی پسندانہ اسلام کا اِعادہ فرمایا۔ ۱۱/ ستمبر کے بعد پہلی مرتبہ جنرل صاحب نے ۱۶/اکتوبر کو علما اور مشائخ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے علماء کو حالات کی نزاکت اور قومی مفادات کو سمجھنے کی ہدایت کی۔ ملاقات کافی حد تک خوشگوار رہی مگر دو دن بعد جب جنرل صاحب سی این این کو انٹرویو دے رہے تھے، تو ان کا لہجہ یکسر بدلا ہوا تھا۔ وہ ایک دفعہ پھر مختلف روپ میں سامنے آئے تھے۔
جنرل صاحب نے اپنے اقتدار کے شروع میں اتاترک کو اپنا ہیرو قرار دیا تھا۔ وہ اب بھی ترکی حکومت سے راہ ورسم بڑھانے میں سب سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ ۱۰/ نومبر کو جنرل صاحب نے امریکی صدر جارج بش سے واشنگٹن میں خصوصی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ وطن لوٹتے ہوئے رستے میں ۱۲/نومبر کو وہ ترکی میں ایک دن کے لئے ٹھہرے۔ وہاں انہوں نے مذہبی انتہا پسندوں کو اس قدر سخت لہجے میں زجرو توبیخ فرمائی کہ نوائے وقت جیسے سنجیدہ اخبار نے بھی اس ڈانٹ ڈپٹ کو بلاو جہ کی اشتعال انگیزی قرار دیا۔
۲۷/ دسمبر کو جنرل صاحب نے علماء و مشائخ سے ایک دفعہ پھر مفصل ملاقات فرمائی۔ اس موقع پر ایک دفعہ پھر انہوں نے میزبان کی حیثیت سے اس قدر حسن اخلاق اور مروّت کا مظاہرہ فرمایا کہ علماء چاہنے کے باوجود بعض حرف ہائے شکایات کوبھی زبان پر نہ لاسکے۔ انہوں نے یقین دہانی فرمائی تھی کہ دینی مدارس اور مذہبی تنظیموں کے خلاف حکومت کسی کریک ڈاؤن کا ارادہ نہیں رکھتی۔مگر چند دنوں میں ہی دینی مدارس اور مذہبی تنظیموں کے ہزاروں طلبا اور کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا اور ان کی کثیرتعداد آج تک زیر حراست ہے۔ ۱۷ پ جنوری کو علماء و مشائخ سے ایک بار پھر انہوں نے خوشگوار خطاب فرمایا جس میں یقین دلایا کہ وہ اسلام اور دینی مدارس کے خلاف نہیں ہیں۔
۱۲/ جنوری کو انہوں نے جو تقریر فرمائی، اس پر اظہارِ خیال ہم بعد میں کریں گے، پہلے دو واقعات کا تذکرہ ہوجائے جو جنرل صاحب کے بارے میں ایک دفعہ پھر الجھن اور پریشانی کا باعث بنے ہیں۔ امریکی ہفت روزہ 'نیوزویک' (۲۲تا۲۸ جنوری) میں جنرل مشرف کا تفصیلی انٹرویو شائع ہوا ہے۔ نیوز ویک کے اس شمارے کا ٹائٹیل ان کی تصویر سے سجا ہے۔ اس انٹرویو میں ان سے منسوب یہ بیان بھی شائع ہوا :
"وہ (مشرف) اب بھی اتاترک کی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن ان کاکہنا ہے کہپاکستان ترکی سے زیادہ اسلامی رجحان کا حامل معاشرہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے لئے حقیقی نمونہ محمد علی جناح، بانی پاکستان کی ذات ہے جنہوں نے ایک جدید سیکولر (لادین) مسلم ریاست کا خواب دیکھا۔"
جنرل مشرف صاحب کے اس بیان پر شدید احتجاج کیا گیا تو دوسرے دن (۲۳/جنوری ۲۰۰۲ء) صدارتی ترجمان کی وضاحت شائع ہوئی:
صدر نے 'نیوزویک'کو انٹرویو میں یہ نہیں کہاکہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے تھے۔ فقرہ احتیاط سے پڑھا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ سیکولر کا لفظ صدر نے نہیں، انٹرویو کرنے والے 'نیوز ویک' کے نمائندے نے استعمال کیا لیکن بعض اخبارات نے صدر سے منسوب کردیا۔ "
ترجمان نے کہا کہ "صدر نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ وہ قائداعظم کی خواہش کے مطابق پاکستان کو ایک حقیقی، جدید ترقی پسند، جمہوری اور اسلامی ریاست بنانے چاہتے ہیں۔"(جنگ/ نوائے وقت )
اس وضاحت کے علیٰ الرغم اس انٹرویو کے متعلق کچھ اور بھی باتیں ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ جنرل صاحب اپنا تاثر ایک لبرل اور سیکولر حکمران کے طور پر ابھارنا چاہتے تھے۔ اسی شمارے میں جنرل مشرف کی ایک پرانی تصویر بھی دوبارہ شائع کرائی گئی جس میں انہیں پالتو کتے اٹھائے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
اسی "نیوزویک" میں ان کی ایک تصویر کے نیچے لکھا ہوا ہے : "یہ مسلمان ایک جدید سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔" اس انٹرویو میں انہوں نے قانونِ توہین رسالت کے بارے میں تبدیلی کو واپس لینے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "وہ ملک میں معاشی استحکام چاہتے تھے اور کئی محاذ نہیں کھولنا چاہتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے یہ تبدیلی واپس لے لی۔ یہ ان کی شخصیت کی ایک تصویر ہے۔"
مگرمنظر بدلتا ہے... ۳۰/ جنوری کو پرویز مشرف لاہور کے دو دینی مدارس جامعہ اشرفیہ اور مدرسہ رضویہ کا دورہ فرماتے ہیں۔ یہاں وہ علما کی مجلس میں ایک دفعہ پھر مختلف اسلوب میں بات کرتے ہیں، فرماتے ہیں:
"پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے، یہ اسلام کے نظریہ پر قائم ہوا۔ ہم اس کو سیکولر نہیں بنانا چاہتے لیکن اسے تھیوکریٹک ریاست بنانے کے خلاف ہیں۔"
دینی مدارس کے بار ے میں ارشاد ہوتاہے:
" حکومت مدرسوں کے خلاف نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں طلبا کو دوسرے علوم کی بھی تعلیم دی جائے۔ حکومت جوکچھ بھی چاہتی ہے، وہ آپ کے ذریعے کرے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مدرسے ایسے رفاہی ادارے ہیں جو معاشرے کی بہت خدمت کررہے ہیں۔"
ایک مدرسہ کے بارے میں انہوں نے کہا :
"ایسے دینی اداروں کا دورہ میرے لئے قابل فخر ہے۔"
مدرسہ رضویہ کے مہتمم مفتی غلام سرور قادری نے جنرل صاحب کو سنگ مرمر پر قدرتی طور پر بنا ہوا اسم 'محمد ' دکھایا تو صدر نے اسے ہاتھ میں لے کر نہایت عقیدت سے چوما۔" (نوائے وقت) ... ہم ان دونوں مناظر پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، قارئین کرام خود ہی موازنہ کرکے رائے قائم کرسکتے ہیں۔
۱۲/ جنوری کو پرویز مشرف صاحب نے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس کو قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں غیر معمولی پذیرائی ملی۔ امریکہ اور بھارت کے علاوہ پاکستان کے 'دانشوروں' نے بھی وسیع پیمانے پر ان کے اعلانات کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے اس تقریر میں سپاہِ صحابہ پاکستان، تحریک ِنفاذِ فقہ جعفریہ، تحریک ِنفاذِ شریعت ِمحمدی، جیش محمد اور لشکر ِطیبہ پر پابندی لگانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے دینی مدارس اور مساجد کے متعلق نئی پالیسی کا اعلان بھی فرمایا جس کی رو سے مساجد اور دینی مدارس کو ۲۳/ مارچ ۲۰۰۲ء تک نئی رجسٹریشن کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جنرل صاحب نے جہادِ اصغر کی بجائے قوم کو جہادِ اکبر کی تلقین کی۔انہوں نے اعلان کیا کہ کسی بھی جگہ دہشت گردی میں کوئی پاکستانی ملوث پایا گیا تو سخت کارروائی کریں گے۔ انہوں نے کہا کشمیر ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ تقریر کا ایک ایک نکتہ قابل بیان ہے مگر ہم اسے قلم انداز کرتے ہیں۔کیونکہ یہ تقریر اخبارات میں شائع ہوچکی ہے اور اس پر مفصل تبصرے بھی شائع ہوئے ہیں۔
جس کسی عالم دین نے اس تقریر کو دیکھا یا سنا، کیا وہ یقین کرسکتا ہے کہ یہ وہی جنرل صاحب تھے جو علما کی مجلس میں بے حد مروّت اور گھلاوٹ سے پیش آتے ہیں۔ یہ تقریر ہر اعتبار سے ایک سیکولر حکمران کی تھی جسے سن کر مذہب سے گہری محبت کرنے والے ہر مسلمان کا کلیجہ دہل دہل جاتا تھا۔ جہادی تنظیمیں تو ایک طرف، دینی مدارس کے وہ سادہ لوح طلبا جنہوں نے کبھی جہاد میں حصہ لیا، نہ حکومت کے خلاف کبھی کسی مظاہرے میں شریک ہوئے ہیں، اس تقریر کو سن کر سہمے سہمے اور دبے دبے سے پھر رہے ہیں۔ اس تقریر سے ایک دن پہلے مدارس کے ہزاروں طلبا کو گرفتار کرکے خوف و ہراس کی فضا پیدا کی گئی، اور اس کے بعد اب تک ان دینی مدارس میں ایک دہشت زدگی کا احساس پایا جاتا ہے جنہیں جنرل صاحب فلاحی اداروں کا سب سے بڑا نیٹ ورک قرار دیتے ہیں۔
فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خاتمہ کی مخالفت کوئی پاکستانی نہیں کرتا، مگر اس 'کارِخیر' کے لئے جس انداز میں کارروائی کی گئی ہے اور جو انداز اپنایا گیا ہے، اس پر اعتراض کا حق تو ہر شہری کو میسر ہے۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں دینی مدارس میں خوف و ہراس کی ایسی دہشت ناک فضا کا مشاہدہ کبھی نہیں کیا گیا۔ امریکہ کی خوشنودی کے حصول اور بھارت کے دباؤ کے نتیجہ میں اپنے ہی ملک کے دینی مدارس اور مذہبی جماعتوں کے ارکان کے خلاف اس قدر شدید کارروائی کو آخر نگاہِ تحسین سے کون دیکھے گا ؟؟
جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ وہ پاکستان کو 'جدید اسلامی ریاست' بنانا چاہتے ہیں۔ وہ خلوصِ دل سے ایسا ضرور کریں، آخر انہیں کون روکتا ہے؟ اگر 'جدید' اور 'ترقی پسند' ریاست سے ان کی مراد ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم کی ترقی ہے، تو دینی مدارس نہ اس سے پہلے ایسی ترقی کی راہ میں کبھی مزاحم تھے، نہ آئندہ ہوں گے۔ گذشتہ حکومتوں کے ادوار میں اس ملک میں سٹیل مل قائم کی گئی، دفاعی پیداوار کے ٹینک ساز کارخانے قائم کئے گئے، کہوٹہ جیسے قابل فخر نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے سنٹر قائم کئے گئے، سپارکو نے خلائی تحقیق کے مراکز قائم کئے، ٹیکسٹائل ملوں کا جال بچھایا گیا، زرعی تحقیق کے وسیع ادارے بنائے گئے، آج کل حکومت کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کے لئے اقدامات کررہی ہے۔ آخر جدیدیت اور ترقی پسندی کا ان میں سے کون سا اقدام ہے جس کی دینی مدارس نے مزاحمت کی یا اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کے خلاف جلوس نکالے۔
ابھی چند دن پہلے وفاقی وزیر سائنس ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب نے شکایت کی کہ پاکستان کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں نے گذشتہ ۲۰ سالوں میں صرف دو پی ایچ ڈی تیار کئے جب کہ بھارت نے ایسے ۲۲۰۰ پی ایچ ڈی پیدا کئے۔ حکومت کی زیرسرپرستی چلنے والے ان تکنیکی اداروں کی کوتاہی کے پیچھے دینی مدارس کا ہاتھ تو نہیں ہے۔ حکومت نے محض دینی اداروں کی 'اصلاح' کا بیڑہ یکایک کیوں اٹھا لیا ہے؟ صرف دینی مدارس کو ہی نشانہ کیوں رکھا جارہا ہے؟ اگر حکومت ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے، تو پھر ہر طرح کی دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے اقدامات کیوں نہیں اُٹھاتی؟جہادی اور مذہبی تنظیموں پر تو پابندی عائد کی جاتی ہے، مگر لسانی بنیادوں پر دہشت گردی کی مرتکب سیکولر تنظیموں کونظر انداز کیا جاتا ہے؟
جنرل صاحب پاکستان کو 'جدید اسلامی ریاست' بنانا چاہتے ہیں، مگر ان کا سارا زور 'جدید' اور 'ترقی پسندانہ' پر ہی ہے۔ اور 'جدیدیت' بھی وہ نہیں جس کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا ہے۔ یہاں وہ 'جدیدیت' مراد ہے جس کا تعلق پاکستان کی نظریاتی اساس، مذہبی شعائر اور اسلامی ثقافت سے متصادم اقدامات سے ہے۔ یہ اقدامات سیکولر زم کا عملی پر تو ہیں۔ چند ایک کا ذکر مناسبہے :
۱۶/ جنوری کو حکومت نے جداگانہ طریق انتخابات ختم کرکے مخلوط طریقہ انتخابات کا اعلان کیا ہے۔ مخلوط انتخابات دو قومی نظریہ کی روح سے متصادم ہیں۔ ایک اسلامی ریاست میں آخر مسلمانوں کو کیسے مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کے طور پر کسی غیر مسلم کو منتخب کریں؟ یہ مخلوط انتخابات ہی تھے جن کی وجہ سے سقوطِ ڈھاکہ کاالمناک واقعہ پیش آیا۔ پاکستان میں مخلوط انتخابات کا مطالبہ سیکولر، اشتراکی اور غیرمسلم افراد ہی کررہے تھے، مسلمانوں کی اکثریت کی طرف سے ایسا مطالبہ کب کیا گیا تھا ؟!
صدر جنرل پرویزمشرف اعلان فرماتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ کی سیرت، قائد اور اقبال کی تعلیمات کے مطابق ملک کو ترقی دیں گے، مگر ابھی تک ان کے بیشتر اقدامات میں سیکولر دانشوروں کے افکار کا پرتو اور این جی اوز کے مطالبات کی عملی تکمیل کا پہلو زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ سیرتِ نبوی کا معیار تو بے حد بلند اور پاکیزہ ہے، اگر جنرل صاحب اپنے ممدوح علامہ اقبال کی فکر کو بھی پیش نظر رکھتے تو شاید اپنے اقدامات پر نظرثانی ضرور فرماتے۔
علامہ اقبال جدید تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اس قدر راسخ العقیدہ مسلمان تھے کہ برطانوی حکومت کی طرف سے سپین کے دورہ کی پیش کش محض اس لئے ٹھکرا دی کہ اس میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ سفر کے دوران ان کی بیگم صاحبہ پردہ نہیں کریں گی۔ مگریہاں ان کی تعلیمات کی 'پیروی' کا یہ عالم ہے کہ ٹیلی ویژن پر کام کرنے والی خواتین کے لئے دوپٹہ کی پابندی کو اُٹھانے کے اعلانات ہورہے ہیں حالانکہ دوپٹہ خالص اسلامی نہیں بلکہ مقامی ثقافت و حیا کا آئینہ دار ہے۔ اقبال پان اسلام ازم اور اتحادِ ملت ِاسلامیہ کے بیسویں صدی کے شاید سب سے بڑے مبلغ تھے، مگر جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان کے مسلمانوں نے تمام دنیا کے مسلمانوں کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔
علامہ اقبال قادیانیت کے سخت مخالف تھے۔ وہ ہی پہلے شخص تھے جنہوں نے ۱۹۳۴ء میں اپنے ایک مضمون میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ مگر اب سننے میں یہ آرہا ہے کہ حکومت احمدیوں کے مطالبہ کو مانتے ہوئے پاسپورٹسے مذہب کے خانہ کوختم کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ علامہ اقبال نے ہمیشہ تہذیب ِمغرب اور تقلید ِفرنگی کے خلاف مسلمانوں کونصیحت کی، فرماتے ہیں :

لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہٴ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ !

علامہ اقبال نے اپنی وفات سے محض چند ماہ پہلے یکم جنوری ۱۹۳۸ء کو نئے سال کا پیغام دیاجو آل انڈیا ریڈیو سے نشر کیا گیا۔ اس میں علامہ نے فرمایا:
"عہد ِحاضر علم و دانش اور سائنسی اختراعات میں اپنی بے مثال ترقی پر بجاطور پر فخر کرتا ہے۔ آج زمان و مکان کی تمام وسعتیں سمٹ رہی ہیں اور انسان قدرت کے راز افشا کرکے اس کی قوتوں کو اپنے مقاصد کی خاطر استعما ل کرنے میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کررہا ہے۔ لیکن تمام ترقی کے باوجود اس زمانے میں ملوکیت کے جبرو استبداد نے ڈیموکریسی (جمہوریت) ، نیشنلزم (قوم پرستی)، کمیونزم(اشتراکیت)، فاشزم (فسطائیت) اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں دنیا کے کونے کونے سے قدرِ حریت اور شرف ِانسانیت کی ایسی مٹی پلید ہورہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک ورق بھی اس کی مثال نہیں پیش کرسکتا۔ نام نہاد سیاستدان جنہیں قیادتِ عوام اور انتظامِ حکومت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، قتل و غارت اور ظلم و استبداد کے شیاطین ثابت ہوئے ہیں اور ان حاکموں نے جن کا فرض ایسی اقدار کی سربلندی اور تحفظ تھا جو اعلیٰ انسانیت کی تشکیل و تعمیر کا سبب بنتی ہیں، اپنے اپنے مخصوص گروہوں کے طمع اور حرص کی خاطر لاکھوں انسانوں کا خون بہایا ہے اور کروڑوں کو اپنا محکوم بنا لیاہے۔" (زندہ رود: ج۳ ،صفحہ ۶۳۴)
آج جنگ ِافغانستان کے تناظر میں علامہ اقبال کے اس عالمانہ تبصرہ سے ہمیں ضرور روشنی حاصل کرنی چاہئے۔ علامہ اقبال کے یہ دو اشعار بھی توجہ کے لائق ہیں جو انہوں نے مصطفی کمال پاشا کے متعلق ارشاد فرمائے تھے :

چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی!

جب سے جنرل مشرف صاحب سے 'مسلم سیکولر ریاست' کی بات منسوب کی گئی ہے، ہمارے لادینیت پسند مفکرین ضلالت 'اسلامی سیکولرزم' کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اسلام اور سیکولر زم کے درمیان 'نکاح' پڑھانے کی بے ہودہ سعی میں مصروف ہیں۔ یہاں مغربی مصادر و مراجع سے اقتباسات نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، انسا ئیکلو پیڈیا بریٹا نیکا ہو، یا انگریزی زبان کی کوئی مستند ڈکشنری، ہر جگہ سیکولرزم کی جو وضاحت کی گئی ہے، اس سے مراد ایک مذہب دشمن نظریہ ہے جو الہامی تعلیمات کی بجائے انسانی عقل کو ہی قانون سازی کا منبع قرار دیتا ہے۔ اس نظریہ میں چرچ اور ریاست کی علیحدگی ایک بنیادی فلسفہ ہے۔ یہ نظریہ خالصتاً دنیوی معاملات کو ایک انسانی سرگرمی کا محور و مرکز قرار دیتا ہے، ا س میں اُخروی فلاح کا تصور تک نہیں ہے۔تفصیل کیلئے 'محدث' جولائی ۲۰۰۰ کے مضمون 'سیکولرزم کا سرطان 'کا مطالعہ کریں․
اسلامی دنیا میں ایک سیکولر حکمران کے فکروعمل کی نمایاں ترین مثال مصطفی کمال پاشا کی ہے جس نے خلافت کا خاتمہ کرکے ترکی سے اسلام کو دیس نکالا دینے کی کوشش کی، دینی مدارس کو بند کیا اور حق پرست علما کو پھانسیاں دیں۔ وہ خدا کے وجود سے انکار کرتا تھا، بلکہ اس کے نزدیک تو مغربی تہذیب ہی 'خدا' کا درجہ رکھتی تھی جس کی والہانہ پیروی کی وہ ترغیب دیتا تھا۔ مختصراً یہ کہ اسلام اور سیکولر ازم میں بعدالمشرقین ہے۔ ایک اسلامی ریاست کبھی سیکولر نہیں ہوسکتی۔ ایک اسلامی ریاست 'جدید اور ترقی پسند' ہوسکتی ہے، مگر پاکستان میں یہ اصطلاحات جن دانشوروں کی طرف سے استعمال کی جاتی ہیں، وہ یا تو سیکولر ہیں، یااشتراکی ہیں یا غیر مسلم ہیں۔ اسی لئے ان اصطلاحات کا مطلب صاف کرنا بھی ضروری ہے۔
اگر جدید ریاست کا مطلب 'سیکولرائزیشن' ہے تو پاکستانی عوام اس 'تجدد'کے حق میں نہیں ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ جنرل مشرف صاحب اپنے فکری میلان (Mindset) کو کھول کربیان فرما دیں۔ انہیں اسلام اور سیکولرزم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا چاہئے۔ اگر وہ پاکستان کو 'جدید اسلامی' ریاست بنانے میں سنجیدہ ہیں تو اپنی پالیسیوں کو دین و شریعت کی روح کے سانچے میں ڈھالیں۔ پھر وہ دیکھیں گے کہ علما اور دین پسند حلقے، اسلام پسند عوام ان کے دوست و بازو بن کر ان سے ہر قسم کا تعاون کریں گے۔ بصورتِ دیگر اسلام کے نام پر قائم کی جانے والی اس مملکت ِخداداد میں محض اقتدار کے زور پر پاکستانی عوام پر 'اسلام' کی بجائے کوئی دوسرا 'ازم' مسلط کرنا ممکن نہیں ہے۔
آخر میں ہم دینی مدارس کے زعما اور علماے کرام سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ دینی مدارس اور مساجد کے متعلق نئی رجسٹریشن کے قوانین کے عواقب و نتائج پر ضرور غور کریں۔ اگر انہیں فرصت کے کچھ لمحات میسر آجائیں تو تاریخ کے اوراقِ پارینہ میں سے ان اوراق کا ضرور مطالعہ کریں جو ترکی میں اتاترک، تیونس میں حبیب بورقبیہ، مصر میں جمال ناصر اور ان کے رفقا کی طرف سے علما اور دینی مدارس کے خلاف خونچکاں ظلم کی داستان سے مزین ہیں۔ حکمرانوں سے قربتوں کی تلاش کے مواقع تو بہرحال مل ہی جاتے ہیں، کبھی ان کے سامنے کلمہ حق کہنے کا فریضہ بھی ادا ہوجائے تو اس کی ادائیگی کے متعلق بھی ضرور تردّد فرمائیں۔ اس وقت پاکستان جیسی اسلامی ریاست میں سیکولر زم کا جو خطرہ منڈلا رہا ہے، اس سے چشم پوشی اور مداہنت کا مظاہرہ کیا گیا تو وہ اس زندگی میں مسلمانوں کے سامنے اور اس کے بعد دائمی زندگی میں خدا کے سامنے جواب دہی سے ہرگز نہیں بچ سکیں گے۔

اِک تنہا میرے ذمہ کیوں ہے کارِ احتجاج بولنا          سب چاہتے ہیں بولتا کوئی نہیں!
٭٭٭٭٭