دینی مدارس اور موجودہ سرکاری اصلاحات

مدیراعلیٰ 'محدث' مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی کا "The News"کو انٹرویو
٭سوال :مولانا ! یہ فرمائیں کہ دینی مدارس میں گریجویشن لیول تک مروّجہ نظامِ تعلیم میں عصری علوم کا حصہ کس قدر ہے ؟
مولانا مدنی : جنرل محمد ضیاء الحق کے دورِ حکومت، ۱۹۸۲ء میں تشکیل پانے والے دینی مدارس کے مختلف 'وفاقوں' کی آخری ڈگری 'یونیورسٹی گرانٹس کمیشن' کے توسط سے منظور کی گئی تھی جس کی رو سے یہ ڈگری عربی اور اسلامیات کی تدریس اور اعلیٰ تحقیق کے لئے ایم اے کے برابر قرار دی گئی۔ یعنی اگر کوئی شخص سکول وکالج میں عربی اوراسلامیات کی تدریس چاہتا ہے تو اسے ایم اے کے برابر شمار کیا جائے گا یا اعلیٰ تعلیم کے لئے اسے ایم فل یا پی ایچ ڈی میں داخلہ مل سکے گا۔ چنانچہ اس بنیاد پر کافی لوگوں نے نہ صرف ایم فل اور پی ایچ ڈی کیا بلکہ ایک بڑی تعداد کالجوں اور سکولوں کی ملازمت میں بھی گئی۔
البتہ اس ڈگری کی بنا پر تعلیم وتحقیق کے مذکورہ شعبوں کے علاوہ دیگر شعبوں میں ایم اے کی حیثیت سے ملازمت کے لئے عربی/اسلامیات کے سوا کوئی سے دو عصری مضامین میں بی اے کرنا ضروری قرار دیا گیا،جس کے ہمراہ ایک پرچہ مطالعہ پاکستان کا بھی شامل ہو ۔ایسی صورت میں یہ ڈگری ہر میدان میں ایم اے کے برابر متصور ہوگی۔ اس طرح گویا ہم کسی حد تک ملک کے اجتماعی دھارے میں شریک رہے ہیں․
سوال: حکومت اس وقت مدارس کے نظامِ تعلیم کی اِصلاح کے لئے جو اقدامات کررہی ہے، آپ اس کے متعلق کچھ کہنا چاہیں گے؟
مولانا مدنی : کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ملک کے تعلیمی اجتماعی دھارے کے اندر دینی مدارس کا کردار زیادہ سے زیادہ موٴثر ہونا چاہئے۔ لہٰذا اس مقصد کے لئے حکومت اگر تعلیم کی سرپرستی کرتی ہے اور دینی مدارس کے کردار کو زیادہ سے زیادہ موٴثر بنانے کے لئے جدوجہد کرتی ہے تو یہ بات قابل تحسین اور حوصلہ افزا ہے جس میں کسی کو بھی تحفظات کاشکار نہیں ہونا چاہئے،لیکن حکومت اس وقت جو اقدام کررہی ہے، اس میں دو چیزیں ایسی ہیں جودینی حلقوں میں خدشات کا باعث بن رہی ہیں :
(1) ایک تو یہ کہ مدارس کے حوالہ سے یہ سارا سلسلہ افغانستان میں دینی مدارس سے متعلقہ حضرات کی 'حکومت طالبان 'کی تباہی کے موقع پر شروع کیا جارہا ہے ،جبکہ امریکہ کی سربراہی میں ایک دنیا نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جمع ہوچکی ہے اور پاکستان اس عالمی کولیشن کی فرنٹ سٹیٹ ہے اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ دینی مدارس مغرب کو کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں اور وہ دینی مدارس کو نام نہاد دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا لازمی جز سمجھتے ہیں،جبکہ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ اسی بہانہ سے بھارت ہماری سرحدوں کی طرف بڑھ رہا ہے اور ملک پر جنگ کی سی کیفیت طاری ہے ۔ موجودہ صورت حال میں حکومت کا دینی مدارس کے متعلق ایسااقدام کرنا پس پردہ عزائم کی نشاندہی کرتا ہے۔
(2) دوسری چیز جو اس احساس کو مزید تقویت دے رہی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر حکومت کا مقصد مدارس کے نظامِ تعلیم کی اصلاح کرنا ہوتا تو یہ کام وزارتِ تعلیم کے سپر دکیا جاتا، لیکن یہ سارا کام وزارتِ داخلہ اور وزارت مذہبی امور کے ذریعے کیا جا رہا ہے ،جس میں وزارتِ تعلیم کا کوئی کردار نہیں ہے، حالانکہ وزارتِ داخلہ کا کام ملک میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانا ہے، تعلیمی نظام کی اِصلاح تو وزارتِ تعلیم کا کام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کامقصد نظامِ تعلیم کی اِصلاح نہیں ہے بلکہ امریکہ جو اس وقت دینی مدارس سے شدید خطرہ محسوس کر رہا ہے اسے دہشت گردی کے حوالہ سے مطمئن کرنا مقصود ہے۔ اس چیز سے دینی حلقہ میں خلجان اور عدمِ تحفظ کے احساس کا پیدا ہونا فطری امر ہے، ورنہ نارمل حالات میں حکومت کا یہ اقدام ضرور مستحسن تصور ہوتا اور تمام اس کی حوصلہ افزائی کرتے۔
سوال: حیرانگی ہے کہ وزارتِ تعلیم اس مہم میں شریک نہیں ہے ؟
مولانا مدنی: جی بالکل! میں یہی کہہ رہا ہوں، وزارتِ تعلیم اس میں شامل نہیں ہے۔ یہ سارا کام وزارتِ داخلہ اور وزارتِ مذہبی اُمور کے تحت انجام دیا جارہا ہے۔ اگر حکومت کے پیش نظر تعلیم کی اِصلاح کرنا ہی مقصود ہے تو تعلیم سے متعلقہ وزارت کو آگے لانا چاہئے۔ ہم اس کو خوش آمدید کہیں گے اور سمجھیں گے کہ حکومت واقعی ہمیں ملک کے اجتماعی دھارے میں شامل کرنے میں مخلص ہے۔ دیکھئے! اگر آپ ہمیں ریگولائز(Regulise)کریں گے تو ہم بھی خوش آمدید کہیں گے لیکن اس کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں۔
سوال: مثلاً وہ تقاضے کیا ہیں؟
مولانا مدنی: پہلا تقاضا یہ ہے کہ ملکی تعلیم (عصری تعلیم) کو اصل قرار دے کر دینی تعلیم کے ساتھ جو گھٹیا سلوک کیا جارہا ہے، اس کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر سرکار جدید کالجزاور یونیورسٹیز کے لئے بیش بہا بجٹ منظور کرتی ہے تو بجٹ کا ایک حصہ مدارسِ دینیہ کے لئے بھی مختص ہونا چاہئے لیکن حکومت ایک تو ان مدارس کے ساتھ بالکل تعاون نہیں کرتی اور اس پر مستزاد یہ کہ مختلف بیانات کے ذریعے ان کی حوصلہ شکنی بھی کرتی رہتی ہے۔ کیا یہ طرفہ تماشا نہیں ہے کہ ایک طرف مدارس کو اسی ضابطہ کا پابند کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں جس میں یونیورسٹیاں اور کالجز منسلک ہیں اور دوسری طرف جو لوگ دین کے ساتھ اپنے قلبی تعلق کی بنا پر ان مدارس کو اپنے خرچ پر چلا رہے ہیں، اُنہیں بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان مدارس کا سب سے بڑا جرم یہ قرار دیا جارہا ہے کہ بیرونی دنیا کے مسلمان ان کے ساتھ تعاون کیوں کرتے ہیں؟
اگر تو بیرونی حکومتیں فرقہ وارانہ انگیخت کی بنا پر تعاون کرتی ہیں تو یہ بات قابل اعتراض ہوسکتی ہے کیونکہ حکومتوں کے مخصوص مفادات ہوتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح پاکستانی عوام مختلف اداروں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، اسی طرح بیرونی دنیا میں کام کرنے والے پاکستانی اگران مدارس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو اس پر حکومت کو بھلا کیا اعتراض ہے؟ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے بے شمار لادین /غیر اسلامی ادارے بھی ہیں کہ بیرونی حکومتیں ان کو علیٰ الاعلان 'ایڈ' دیتی ہیں۔ مثلاً بہت سے مشنری ادارے اور این جی اوز بھاری بھرکم بیرونی گرانٹ سے چل رہی ہیں لیکن ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ آخر یہ دینی مدارس جن کے ساتھ حکومت بھی سوتیلے پن کا سلوک کرتی رہی ہے، کے خلاف بیرونی تعاون کا اس قدر واویلا کیوں کیا جاتا ہے؟ جب پاکستانی سرکاراور دولت مند انہیں درخوراعتناء نہیں سمجھتے بلکہ ان کے ساتھ ہمدردی کا رویہ بھی یتیم سمجھ کر کیا جاتا ہے ؟یہ تو وہی بات ہوئی کہ گھر میں کسی کاکھانا بند کردیا جائے اور پھر اس پر یہ قدغن بھی لگا دی جائے کہ تم ہوٹل سے بھی نہیں کھا سکتے۔
جہاں تک دینی مدارس کے بنیادی تصور کا تعلق ہے تو اس بارے میں ہمیں یہ بات قطعاً فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ یہ دینی مدارس اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کا ایک تسلسل اور ہمارے روایتی نظام تعلیم کی یادگار ہیں ۔۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی میں ناکامی کے بعد جب مسلمان برطانوی سامراج کی زنجیروں میں جکڑ دیئے گئے تو اس نے مسلم تہذیب کا گلا گھوٹنے اور مغربی کلچر کو فروغ دینے کے لئے درسِ نظامی کے فضلا کو غیر خواندہ قرار دے کر لارڈ میکالے کا وضع کردہ مغربی لا دین نظریہ پر مبنی نصاب پورے ملک میں رائج کردیا تاکہ مسلم تہذیب کبھی پنپ نہ سکے۔ آج جب اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان کو بنے ہوئے ۵۴ سال کا عرصہ بیت چکا ہے ،کیا ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ وہی نہیں ہے جو لارڈ میکالے کا وضع کردہ تھا۔ اگرچہ اس کے ساتھ اسلامیات اور پاکستان سٹڈی کے نام سے کچھ پیوند کاری بھی ہوئی لیکن اسلامیات کے ایم اے اور ڈاکٹر یٹ کو آج تک وہ اہمیت حاصل نہیں ہوئی جو انگلش اور دیگر عصری مضامین کو حاصل ہے۔ میں توکہنا چاہوں گا کہ وہ اجتماعی دھارا ،جس میں مدارسِ دینیہ کو شامل کرنے کی بات کی جارہی ہے وہ دراصل وہی لارڈ میکالے کا وضع کردہ نظام تعلیم ہے، لہٰذا دینی مدارس کے نصاب میں اصلاحات کرنے کے ساتھ ساتھ عصری اجتماعی دھارے کو بھی اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ ہمارا دینی نظام ،اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کا تسلسل ہے ،جس کے فضلا نے کئی سو سال تک آدھی سے زیادہ دنیا کی قیادت کا فریضہ بھی سرانجام دیا ہے۔ انہی مدارس نے غزالی ، رازی، بوعلی سینا، فارابی، ابن رشد، ابن تیمیہ اورابن قیم جیسے عظیم سائنس دان، فلسفی اور محقق پیدا کئے،جن کے علم کا پوری دنیا میں شہرہ تھا جبکہ یورپ اس وقت جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، اس کا ذکر صدر پاکستان نے بھی اپنی تقریر میں کیا ہے۔
آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ الجبرا اور جیومیٹری کے موجد مسلمان ہیں۔ ریاضی کی تین شکلیں ہوتی ہیں: (1)حروف کے اعتبار سے جسے الجبرا کہتے ہیں۔ (2) ہندسوں کے اعتبار سے، اسے حساب کہتے ہیں اور(3)شکلوں کے اعتبار سے جسے جیومیٹری کہتے ہیں۔ اور یہ تیسری قسم بالخصوص جیومٹری ہمارے درسِ نظامی کے نصاب میں نمایاں رہی ہے۔ پرانے درسِ نظامی میں اقلیدس(جیومیٹری کی اہم ضخیم تصنیف)بھی شامل ِنصاب تھی جس کو جدید یونیورسٹیوں کے ریاضی دان بھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ پھر یہ بات ہمارے لئے خوش آئند اور قابل قدر ہونی چاہئے کہ یہ دینی مدارس اپنے محدود وسائل، ملازمتوں کی عدم دستیابی اور حکومت کی بے اعتنائی کے باوجود اپنے روایتی نظامِ تعلیم کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ بیشتر بڑے مدارس نے اپنے آپ کو ملک کے اجتماعی دھارے میں شریک کرنے کے لئے اپنے وسائل کی حد تک ہر ممکن کوشش کی ہے اور مطالعہ پاکستان، سوشل سائنسز(معاشیات، سیاسیات وغیرہ ) کے علاوہ انگریزی ، ریاضی ،کمپیوٹر اور انتظامی علوم وغیرہ کو بھی اپنے نصاب کا لازمی حصہ بنایا ہے۔
سوال:کیا مدارس میں یہ مضامین پڑھائے جارہے ہیں؟
مولانا مدنی: جی بالکل پڑھائے جارہے ہیں۔ ہم نے اپنی درس گاہ میں تعلیم کو دو شفٹوں میں تقسیم کیا ہواہے۔ پہلی شفٹ میں دینی علوم پڑھائے جاتے ہیں اور دوسری شفٹ میں عصری علوم بی اے تک باقاعدہ پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ سوشل سائنسزکا مستقل کالج ہے،جس کے لئے علیحدہ عملہ ہے۔ہماری درس گاہ سے ہر سال طلبا کی ایک بڑی تعداد میٹرک، ایف اے، بی اے نمایاں نمبروں سے پاس کرتی ہے جس کی گاہے بگاہے رپورٹیں ہمارے ادارے کے ترجمان ماہنامہ 'محدث' میں چھپتی رہتی ہیں۔
ہمارے ادارے کا طالبات /خواتین ونگ بھی مستقل ہے جس کے تحت روایتی اقامتی دینی مدارس کے علاوہ جدید تقاضوں کے مطابق طالبات کے لئے مختلف مدتوں کے کورسز کرائے جاتے ہیں ،جن میں گریجوایشن کے بعد ایک سالہ تعلیمی نصاب بھی شامل ہے ۔ میں نے جس طرح ذکر کیا کہ ہم نے طلبا کے علاوہ طالبات کے لئے بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ہوم اکنامکس کا ممکن حد تک اہتمام کیا ہے۔ کمپیوٹر کی تعلیم کیلئے ایک وسیع لیب موجود ہے ۔جہاں ہر سال طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد کمپیوٹر کی تعلیم سے بہرہ ور ہوتی ہے وہاں دنیا بھر سے بھاری علمی مواد پر مشتمل سی ڈیز کی بھی تربیت دی جاتی ہے ،بلکہ ہمارے سامنے سافٹ ویئر کا ایک عظیم منصوبہ ہے ۔میں کہوں گا کہ دینی مدارس کو اگر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے سے کوئی امر مانع ہے تو وہ وسائل کی عدم دستیابی ہے۔ جن کے پاس وسائل ہیں، وہ کررہے ہیں اور جن کے پاس وسائل نہیں ہیں وہ بھی کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں۔بات دراصل وسائل کی ہے، نہ کہ جدید علوم کے بارے میں ذہنی تحفظات کی۔ اب اگر حکومت مدارس کو جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے مواقع اور وسائل مہیا کرنا چاہتی ہے تویہ نہایت حوصلہ افزا بات ہے، لیکن میں پھر کہوں گا کہ جسے ہم اجتماعی دھارا کہہ رہے ہیں، وہ لارڈ میکالے کا سیکولر نظام تعلیم ہے۔ اگر ہم لارڈ میکالے کے تعلیمی سسٹم سے وابستہ ہوجاتے ہیں تو یقینا ہم مکہ اور مدینہ کی شاہراہ کو چھوڑ کر لندن اور واشنگٹن کی شاہراہ پر گامزن ہوجائیں گے۔ لہٰذا ہمیں جدید نظام تعلیم کے اجتماعی دھارے کو بھی اسلام کے بنیادی اُصولوں پر استوار کرنا ہوگا یعنی اپنے نظامِ تعلیم کوپاکستان کی اساس دو قومی( ملی) نظریے کے اُصولوں سے وابستہ کرنا ہوگا۔
سوال: بالفرض حکومت آپ کی بات تسلیم کرلے اور کہے کہ ہم آپ کو اجتماعی دھارے میں لانے کے لئے کالجز کی طرح وسائل فراہم کریں گے ،جیسا کہ انہوں نے کہا بھی ہے کہ ہم مدارس کا سروے کرنے کے بعد انہیں کمپیوٹر فراہم کریں گے، بشرطیکہ آپ ہمارے یہ تقاضے پورے کریں۔ مثلاً طلبا کی لسٹ دیں اور ہم سروے کر یں گے کہ کہیں کوئی ایسی تعلیم تو نہیں دی جارہی جو طلبا کو منفی سرگرمیوں میں ملوث کرنے کا باعث ہو۔اس کے علاوہ ہم آپ کے حسابات کا آڈٹ کریں گے ۔تو کیا آپ اس چیک اپ کو قبول کریں گے؟
مولانا مدنی: دیکھئے ! جب حکومت مدارس کو کوئی ایڈ فراہم کرے گی تو ا س کو یہ حق بھی ہے کہ وہ اس کا آڈٹ کرے۔ کچھ عرصہ پہلے حکومت مدارس کو برائے نام زکوٰة دیتی تھی تو وہ اس کا آڈٹ بھی کرتی تھی اور اس پر کسی نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن اس وقت سوال یہ ہے کہ آیا حکومت کا مقصد مدارس کو وسائل فراہم کرکے ان کے کردار کو موٴثر بنانا ہے یا اس Aid کے بدلے میں مدارس کی حریت ِفکر کو سلب کرنا ہے؟ چنانچہ رجسٹریشن کے مسئلہ میں اس خدشہ کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اس قانون کے تحت حکومت جب اور جن مدارس کوچاہے ان پر قدغن لگا دے گی ۔ لہٰذا میں یہ کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ اگر تو حکومت مدارس کے اس روایتی نظامِ تعلیم کو اصل سمجھتے ہوئے اس میں کچھ اصلاحات کرکے انہیں جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتی ہے یعنی حکومت اگر اپنے مثبت اقدامات سے یہ ثابت کردے کہ اس کا مقصدمدارس کی آزادی سلب کرنا نہیں ہے ،تو ٹھیک وگرنہ مدارس حکومت کی مداخلت کو کبھی برداشت نہیں کریں گے۔
سوال : مدارس حکومت کی مداخلت سے اتنے خائف کیوں ہیں ؟ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی تو حکومتیں دینی مدارس وجامعات کو کنٹرول کیے ہوئے ہیں ۔
مولانا مدنی : آپ کی توجہ غالبا ً سعودی عرب وغیرہ کی طرف ہے حالانکہ وہاں کی صورت حال یکسر مختلف ہے ۔آپ دیکھتے ہیں کہ خلیجی ممالک میں سرکاری یونیورسٹیاں کام کررہی ہیں یا سعودی عرب جو نظامِ تعلیم میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے، کی سب دینی اور دنیاوی جامعات حکومت کے تابع ہیں اور اس پر کبھی کسی نے احتجاج نہیں کیا ،لیکن فرق یہ ہے کہ ان کے نظامِ تعلیم کا بنیادی ڈھا نچہ دینی اور ذریعہ تعلیم عربی ہے ،جو مسلمانوں کی دینی زبان ہے، لیکن ہمارے نظام ِتعلیم کا بنیادی ڈھانچہ لارڈ میکالے کا غلامانہ نظام ہے جس میں انگلش زبان کوکلیدی اہمیت حاصل ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ان ممالک سے درآمد ہر چیز کو 'ولایتی 'کہہ کر 'دیسی' کی تحقیر کرتے ہیں، حالانکہ وہ اب ہمارے 'والی' نہیں ہیں ، ہم آزاد ہیں ۔ولایتی کا معنی ہوتاہے ہماری ولایت یعنی حکمرانوں کی چیز ۔چاہیے تو یہ تھا کہ ہمارے ہاں مروج عصری (لارڈ میکالے والے ) نظام ِتعلیم کی اساس تبدیل کی جاتی، اُلٹا دینی مدارس کے نصاب کے خلاف واویلا کیا جارہا ہے۔ اب اگر حکومت اسلام آباد میں اسلامک یونیورسٹی کی طرز پر یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لاتی ہے تو اس پر ہم نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سارا کام ہم اپنے وسائل سے کریں تو پھر کیا حق ہے حکومت کو مداخلت کرنے کا؟ اگر حکومت آڈٹ کرنا چاہتی ہے تو پھر قرارِ واقعی وسائل مہیا کرے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، لیکن یہ واضح رہے کہ تعاون کے بہانے مدارس کو اپنے کنٹرول میں لانے اور ان کی حریت ِفکر پر قدغن لگانے سے احتراز کیا جائے اور دینی مدارس کے نظام ونصاب کی اصلاح کا کام جید علما اور ماہرین تعلیم کو آزادانہ سپر د کردیا جائے ،یعنی نصاب کی اصلاح وترتیب علما کریں اور جدید ماہرین ِتعلیم ان کی مدد کریں۔ جہاں تک گرانٹ کو قبول کرنے کا معاملہ ہے توجو مطمئن ہوجائیں گے کہ حکومت کے مقاصد نیک ہیں، وہ قبول کریں گے اور جو مطمئن نہیں ہوں گے، وہ گرانٹ نہیں لیں گے۔
سوال: یہاں آڈٹ سے آپ کی مراد وہ رقم ہے جو آپ اپنی محنت اور کوشش سے عوام الناس /اہل خیر سے حاصل کرتے ہیں؟
مولانا مدنی: جی ہاں، جسے آپ 'جھونگا' کہہ سکتے ہیں، جو معاشرہ مدارس کو یتیم سمجھ کر دیتا ہے، حکومت اس کا تو آڈٹ چاہتی ہے لیکن وہ بڑے بڑے مگرمچھ جنہوں نے برسرعام قومی دولت کو لوٹا اور قوم کو قرضوں کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا،ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں اور جنہیں یتیم سمجھ کر کچھ دیا جاتاہے، ان کے خلاف پروپیگنڈہ ، لغو اعتراضات اور بے جا سختی ،آخر کیوں ؟ کیا یہ صریح ظلم اور ناانصافی نہیں ہے؟پھر آپ خود دیکھئے کہ ملک میں جو دیگر پرائیویٹ ادارے کام کررہے ہیں مثلاً مشنری ادارے اور مغرب و یورپ کی وہ گماشتہ این جی اوز (Non-Government Organizations )جو اسلام دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں، ان کا آڈٹ کیوں نہیں کیا جاتا؟ مشنری اداروں کو کیوں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے؟اور گورنمنٹ سکولوں ،کالجوں کو پرائیویٹائز کرکے کیوں مشنریوں کی تحویل میں دیا جارہا ہے؟ جب صورت حال یہ ہے تو پھر کیا دینی مدارس کو اپنے کنٹرول میں کرنے کا اقدام صریح ظلم نہیں ہوگا؟ جب باپ اپنے ایک بیٹے پر سختی روا رکھتا ہے اور ایک بیٹے کو ہرقسم کی آزادی دیتا ہے تو باپ کا یہ جرم دوسرے بیٹے کو بدظن کرنے اور ذہنی تحفظات کا شکار کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے ۔لہٰذا ہم حکومت سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ بے جا مداخلت سے باز رہے گی اور فی الحال مداخلت کو صرف گرانٹ کی حد تک محدود رکھے گی۔ اگر اس تعاون کے پس پردہ حکومت کا مقصد مدارس کی حریت ِفکر پر قدغن لگانا اور سیکولر فکر کو فروغ دینا نہ ہوا تو مدارس کا اعتماد آہستہ آہستہ بحال ہو گا۔
سوال: جب آپ Aid لیں گے تو یقینا حکومت کے بتائے ہوئے کورس بھی پڑھائیں گے تو پھر آپ کا یہ مطالبہ بھی ہوگا کہ اب دینی مدارس کے فاضلین اور گورنمنٹ اداروں کے تعلیم یافتہ حضرات کے درمیان ملازمتوں کے سلسلہ میں امتیازی رویہ بھی ختم ہونا چاہئے کہ ایک آدمی میٹرک کے بعد درسِ نظامی میں آٹھ سال لگاتا ہے ،اس کے لئے کلرک کی ملازمت بھی مشکل جبکہ جو صرف ایف اے ،بی اے کرتاہے، اسے کسی بھی ملازمت کا اہل سمجھا جاتا ہے؟
مولانا مدنی: نظامِ تعلیم میں ثنویت کی بجائے وحدت ہونی چاہئے اور مسٹر اور ملا کے درمیان جو تفریق پیدا کردی گئی ہے، اسے ختم ہونا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظامِ تعلیم کے بنیادی ڈھانچہ کو اسلامی نظریہٴ حیات پر استوار کرکے طلبہ پرجاری کیا جائے۔ سیکولر ممالک اور حلقوں کی طرف سے پڑنے والی لادین گردوغبار اور آلودگی سے اسے پاک کیا جائے تاکہ ہم اس تعلیمی تسلسل سے مربوط ہوسکیں جو اسلام کی تاریخ کی چودہ سو سالہ یادگار ہے۔ لیکن رکاوٹ یہ ہے کہ ہم لوگ جو مغربی تہذیب و تمدن سے مرعوب ہیں، ہمیشہ مغرب کے دماغ سے سوچتے اور مغرب کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اس تہذیب کی نظر سے نہیں دیکھتے جس کا حصہ امام جعفر صادق ، ائمہ اربعہ اوران کے اخلاف رہے ہیں۔
سوال: علم وتحقیق کے حوالہ سے قدیم وجدید کی بحث پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالیں تاکہ ماضی وحال کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کی سوچ متعین ہو سکے ۔
مولانا مدنی: ملانظام الدین نے جو درسِ نظامی تشکیل دیا تھا، اس کا منبع و مرکز وسط ایشیا کی ہند کی طرف گزرگاہیں یعنی افغانستان اور ایران کے علاقے تھی جہاں فارسی کا زیادہ رواج تھا اور انہوں نے یہ نظام اس دور کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دیاتھا، لیکن اس کے بعد حالات کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ اس وقت پاکستان کے دینی مدارس میں پڑھایا جانے والا نصابِ تعلیم کافی حد تک تبدیل ہوچکا ہے۔ خصوصاً اہل حدیث مدارس میں درسِ نظامی کی کتب بہت تھوڑی باقی رہ گئی ہیں۔ اس کی جگہ پر سعودی عرب، عراق، شام اور مصر کی مشہور یونیورسٹیوں کی متعدد کتب شامل نصاب کردی گئی ہیں۔ ان اصلاحات کے باوجود چونکہ اس کی بنیاد وہی ملا نظام الدین کا مرتبہ نصاب ہے اس لئے کہنے کو آپ اسے 'درسِ نظامی' کہہ سکتے ہیں،جس طرح ہمارے کالجز ،یونیورسٹیوں کا نصاب خواہ آپ اس میں کتنی بھی پیوند کاری کرلیں لیکن چونکہ اس کی بنیاد وہی لارڈ میکالے کا تعلیمی سسٹم ہے، اس لئے اسے لارڈ میکالے کا نظام تعلیم ہی کہا جائے گا۔
اس لئے میں کہوں گا کہ اگر ہم تعلیم میں وحدت پیدا کرنا اور مسٹر اور ملا کی تفریق ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر لارڈ میکالے کے غلامانہ تعلیمی نظام کو بنیاد بنانے کی بجائے دو قومی نظریہ کو بنیادبنانا ہوگا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم مغرب کی بجائے عرب ممالک، اور دیگر اسلامی ممالک سے مربوط ہوں تاکہ اسلامی ثقافت کا رشتہ مستحکم ہو سکے ۔اس سلسلہ میں مشرق ِبعید (Far East) اور اسلامی مغرب (مراکش وغیرہ) سے بھی اپنے روابط بڑھانے ہوں گے ،جن سے تعلیمی سلسلہ میں ہم بالکل کٹے ہوئے ہیں ۔میں نے ذاتی طور اسلامی مغرب سے اپنا رابطہ بہتر بنانے کی کوشش کی ہے ، چنانچہ میں عرصہ چار سال سے ان لیکچرز میں شرکت کررہا ہوں جو مراکش میں دروس حسنیہ کے نام سے بڑے اہتما م سے منعقد ہوتے ہیں۔ ۔ ہماری شدید ملی ضرورت ہے کہ ہم عالمی طورپر اسلامی دنیا سے مربوط ہوں۔ لادین مغرب یا سیکولر دنیا کی بجائے عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک سے علمی وتہذیبی رابطہ جوڑنے کیلئے ہماری حکومت کوبالخصوص توجہ دینا چاہئے۔
علم کبھی مخصوص علاقہ کا پابند نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمیشہ مشرق ومغرب کی جہتوں سے بالاتر ہوتا ہے ۔اس طرح چونکہ تہذیب وتمدن علم وتحقیق کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں ،اس لئے اسلام کے عالم گیر ہونے کا یہ ناگزیر تقاضا ہے کہ ہمارا کلچر بھی بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہو۔ اس وقت ہمارا کلچر اسلام ہے ، ہم ملت ِاسلامیہ کا حصہ ہیں ۔ اسی تصور سے درسِ نظامی وسط ِایشیا سے افغانستان اور ایران کے رستے ہم تک پہنچاتھا اور اس نے ثقافتی طور پر نہ سہی جذبات کی حد تک ہمیں اسلام سے جوڑے رکھا ۔جبکہ اب اتفاق سے ہم وسط ِایشیا سے بالکل کٹ گئے ہیں، خصوصاً سانحہ افغانستان کے بعد۔ لہٰذا اب ہم مجبور ہیں کہ اپنے آپ کوپھر سے اسلامی دنیاسے مربوط کریں ، خصوصاً اس تعلیم کے حوالہ سے جو تہذیب و ثقافت کے اندر بنیادی کردار ادارکرتی ہے۔ باقی جہاں تک سائنس اور ٹیکنالوجی کا تعلق ہے، وہ آپ خواہ یورپ سے لیں یا امریکہ جاپان اور چین سے لیں، اسلام الحکمة ضالة الموٴمن (حکمت موٴمن کا گم گشتہ متاع ہے ) کے اُصول کے تحت اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔اسلام سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں غیروں سے استفادہ اور روابط سے منع نہیں کرتا ،بشرطیکہ ہم ان کی اخلاق باختہ تہذیب میں رنگے جانے سے محفوظ رہ سکیں ۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عرب دنیا سے ہمارا رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال یہ ہے کہ ہماری قومی یونیورسٹیوں کا ایم اے (اسلامیات )اور ایم اے (عربی ) نوجوان وہاں ایف اے کے برابر بھی تسلیم نہیں کیا جاتا اس لئے کہ ہمارا ایم اے (عربی) عربی بولنااور سمجھنا تودرکنار صحیح طریقے سے عربی عبارت پڑھ بھی نہیں سکتا ۔اسی طرح ایم اے (اسلامیات )قرآنِ مجید بھی صحیح طریقے سے نہیں پڑھ سکتا۔ غالبا ً مغرب کی بالادستی سے ہماری ذہنی مرعوبیت نے اسلامی دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ہماری ڈگری کو بے وقار کر رکھا ہے ۔ اگرچہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے کالجز اور یونیورسٹیاں سیاست کے اِکھاڑے بن چکے ہیں اور اسی سیاست کے حوالہ سے قتل و غارت ہوتی ہے ۔اس صورتحال نے تعلیمی یکسوئی کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یونیورسٹیوں کو سیاست کے اکھاڑے بنانے کی بجائے خالص تعلیمی اور تحقیقی دانشگاہوں میں تبدیل کیا جائے ۔ اسی بنا پر تعلیم کا ضابطہ اخلاق یہ ہے کہ عام یونیورسٹیاں ہمیشہ سیمی گورنمنٹ ہوتی ہیں، کبھی پوری طرح سرکاری تحویل میں نہیں ہوتیں۔
سوال: یہ جو دینی مدارس کو دہشت گردی سے منسلک کیا جارہا ہے اورانہیں فرقہ وارانہ کشمکش کا منبع سمجھا جاتا ہے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
مولانا مدنی: یہ درحقیقت اسلام دشمن یہودی لابی کے پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے اور وہ سیکولر طبقہ جو یہ پروپیگنڈہ کررہا ہے، وہ درحقیقت پاکستان میں دینی مدارس کی تباہی پر مبنی امریکی ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئے راہ ہموار کررہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام دینی مدارس کا بنیادی تصور تفقه في الدین ہے۔ قرآن مجید میں 'قتال' کی آیات کے درمیان میں ہی اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جو دین کی سمجھ حاصل کرے اور یہ دینی مدارس اسی آیت کا عملی نمونہ ہیں،جن کا مقصد صرف تفقه في الدین ہے۔ البتہ برصغیر پاک و ہند میں برطانوی استعمار نے دینی مدارس کو گوشوں میں محبوس کر کے اورنئی نبوت ایجاد کر کے ان میں مذہبی تعصبات کی پرورش کی ، جس کے نتیجے میں مسائل میں اصول وفروع کی تمیز کئے بغیر مناظروں کے ذریعے عوام کو بھی الجھانے کی سازشیں ہوتی رہی ہیں ۔ تاہم ہمارے روایتی نظامِ تعلیم کو دہشت گردی سے منسلک کرنا سراسر یہودی لابی کا پروپیگنڈہ اور سیکولر/بے دین طبقہ کی کارستانی ہے، کیونکہ یہ چیز اسلامی تعلیم کے بنیادی تصور کے ہی خلاف ہے!!
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ دینی مدارس کے نصاب کو فرقہ وارانہ کشمکش میں اضافہ کا باعث قرار دینا بھی درحقیقت تعصب، جہالت یا غلط فہمی کا نتیجہ ہے، کیونکہ درسِ نظامی کا نصاب شیعہ ،سنی دونوں طبقوں کے باہم اشتراک سے رواج پذیر ہوا تھا ۔ ان متعصبانہ خیالات کے حاملین کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ درسِ نظامی کے نصاب کا ایک بڑا حصہ صرف و نحو اور منطق و فلسفہ پر مشتمل ہے۔ اور نصاب میں شامل صر ف و نحو اور منطق و فلسفہ کی زیادہ تر کتب شیعہ مصنّفین کی تالیف کردہ ہیں ،جنہیں 'سنی' بھی اہتمام سے پڑھتے ہیں۔ شیعہ سنی نصاب میں اگر کچھ فرق ہو سکتا ہے تو وہ فقہ کی کتب میں ہے ،جبکہ فقہ اصل شریعت کی بجائے اس کی تشریح و تعبیر ہوتی ہے ۔ تعبیر قانون (Interpretation) تو کبھی عدالتوں میں بھی ایک نہیں ہوتی اس لئے وہ کبھی تناؤ اور کھچاؤ کا باعث نہیں بن سکتی۔ آپ دیکھئے ! فقہ کا اختلاف تو اہل حدیث اور احناف کے درمیان بھی ہے، اگر فقہ جھگڑوں کا باعث ہوتی تو پھر شیعہ سنی جیسا تناوٴ ان کے درمیان بھی ہوتا ۔اللہ نظر بد سے بچا کر رکھے۔ آمین !
اس لئے میں کہتا ہوں کہ اس وقت جو شیعہ سنی کشمکش برپا ہے، اس کا سبب نہ دینی مدارس ہیں اور نہ ان کا نصاب۔نصاب کو مدوّن ہوئے چار سو سال ہوچکے، اگر نصاب کی بنا پر فرقہ وارانہ تصادم فروغ پاتا تو برصغیر کی ہزار سالہ تاریخ کبھی اس کے متعلق خاموش نہ رہتی اور یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں، شیعہ سنی ہمیشہ نہایت امن و امان کے ماحول میں رہے ہیں۔ اب بھی شیعہ سنی بعض افراد کے درمیان تصادم کا اصل محرک ماضی قریب کی خارجی سیاست یا بین الاقوامی مداخلت ہے جو گذشتہ بیس پچیس سال کے دوران پروان چڑھی ہے۔ بعض نوخیز تنظیموں کا جذباتی رویہ اسی خارجی سیاست اور بین الاقوامی کشمکش کا نتیجہ ہے جن کی ہم تائید نہیں کرتے ۔اس لئے حکومت اگر پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمہ میں مخلص ہے تواسے اس کے حقیقی اسباب کا دیانت داری سے جائزہ لینا چاہئے۔ فرقہ وارانہ تشدد کا حقیقی سبب نہ تو دینی مدارس کا نصاب ہے اور نہ ہی دینی مدارس اس شیطانی کام میں ملوث ہیں!!
۲۷/ دسمبرکو جنرل پرویز مشرف کا علما کے ساتھ جو اجلاس ہوا، میں نے اس میں کہا تھا کہ جنرل صاحب! آپ جو اس وقت ہمارے اختلافات کی بات کرتے ہیں تو آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اختلاف صرف مسجد کی حد تک محدود ہے لیکن اس وقت مسجد کے بعض جزوی اختلافات کو ہوّا بنانے کی بجائے اصل چیلنج معاشرہ کی تعمیر و اصلاح ہے۔ مساجد تو ہندوستان میں بھی ہیں، وہاں یہ فساد نہیں ہے ۔ پاکستان ایک نظریہ کی بنیاد پر بنا تھا جس کا مقصد معاشرے کو اسلامی بنانا تھا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن،نبی اور اسلام کے اساسی عقائد سمیت معاشرتی مسائل میں کہیں بھی کسی مکتب ِفکر کا اختلاف نہیں ہے۔ جب ہم نفاذِ شریعت کی بات کرتے ہیں تو اس وقت اس سے مقصود کتاب و سنت ہی ہوتا ہے جو تمام مکاتب ِفکر کامشترکہ سرمایہ ہے اور فقہ تو اس کی انٹرپرٹیشنہے، ا س میں اگراختلاف ہے تو کچھ مضائقہ نہیں، وہ تو صحابہ تابعین (خیرالقرون) میں بھی تھا ، البتہ اصل اسلامی دستور و آئین کتاب و سنت ہے ، جس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے !!

٭٭٭٭٭