حیض والی عورت اور عورت کی امامت
٭مسلسل حیض آنے والی عورت؟
٭عورت کی اِمامت اور کہاں کھڑی ہو؟
سوال: ایک عورت کوحیض کا خون تقریباً ایک سال سے جاری ہے اور ا س کو گذشتہ عادت بھی یاد نہیں۔ وہ مہینہ میں کتنے دن نماز چھوڑے؟ غسل کرے یا صرف وضو کرے؟ ایسے ہی وہ رمضان کے سارے روزے رکھے یا کچھ چھوڑے؟
جس عورت کی عادت اور تمیز مفقود ہو، وہ نماز روزہ کس طرح ادا کرے؟
جواب: ایامِ عادت کے اعتبار سے عورتوں کی متعدد اقسام ہیں:
(1) مستحاضہ : ماہواری کی عادت والی، خون کی پہچان کرسکتی ہو یا نہ کرسکتی ہو۔ اس کو معروف عادت کی طرف لوٹایا جائے گا چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ کی حدیث میں ہے:
«امکثی قدر ما کانت تحبسک حيضتک» ایامِ حیض کے بقدر انتظار کر"
(2) وہ عورت جو ابتدا ہی میں خون کی پہچان کرے، وہ پہچان کے مطابق عمل کرے گی۔ حدیث میں ہے: «إذا کان دم الحيضة فإنه أسود يعرف»
"جب حیض کا خون آئے تو وہ سیاہ بدبودار ہوتا ہے اور پہچانا جاتا ہے۔"
(3) اور وہ عورت جس کی عادت او رپہچان دونوں مفقود ہوں
اس کے ایام ماہواری غالب عورتوں کی عادت کی بنا پر چھ سات دن شمار ہوں گے۔ حدیث ہے
"حضرت حمنہ نے جب اللہ کے رسول ﷺسے کہا کہ مجھے بہت زیادہ خون آتا ہے توآپ نے فرمایا: "تو اپنے آپ کو چھ، سات دن تک حائض سمجھ، پھر غسل کراور جب تو اپنے آپ کو پاک صاف سمجھ لے تو ۲۳ یا ۲۴ روز نماز ادا کر، تجھے یہ کافی ہے۔ اور جس طرح حیض وطہر کے اوقات میں کرتی ہیں، تو ہر ماہ اسی طرح کیا کر" (عون المعبود:۱/۱۱۷)
مسئولہ عورت کا تعلق چونکہ تیسری قسم سے ہے، لہٰذا یہ عورت ہرماہ چھ یا سات دن نماز چھوڑ کر غسل کے بعد نماز پڑھنی شروع کردیا کرے اور جن دنوں میں نماز چھوڑے گی، ان میں روزہ بھی نہیں رکھے گی کیونکہ یہ دن حیض کے شمار ہوں گے۔
سوال: کیا عورت نمازِ تراویح پڑھا سکتی ہے؟ جواز کی صورت میں کہاں کھڑی ہو۔
جواب: سنن ابوداود میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اُمّ ورقہ بنت عبداللہ بن الحارث کو حکم دیا تھاکہ «أن توٴم أهل دارها» یعنی " اپنے گھروالوں کی امامت کرائے"۔عون المعبود( ۲/۲۲۰) میں ہے کہ
"اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورتوں کی امامت اور ان کی جماعت رسول اللہﷺ کے فرمان سے صحیح ثابت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہانے عورتوں کی امامت فرض اور تراویح میں کرائی تھی "
حافظ ابن حجر تلخیص الحبیر میں فرماتے ہیں: "حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کی امامت کرائی، پس ان کے درمیان میں کھڑی ہوئیں۔( رواہ عبدالرزاق)
ان کے طریق سے دارقطنی او ربیہقی میں أبو حازم عن لائطة الحنفية حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ انہوں نے فرض نماز میں عورتوں کی امامت کرائی او روہ ان کے درمیان تھیں۔
ابن ابی شیبہ او رحاکم میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کراتیں اور صف میں ان کے ساتھ کھڑی ہوتیں اوراُمّ سلمہ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور درمیان میں کھڑی ہوئی تھیں۔حافظ ابن حجر نے 'الدرايه' میں ذکر کیا کہ "عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رمضان کے مہینے میں عورتوں کی امامت کراتی تھیں او ران کے درمیان کھڑی ہوتی تھیں"۔
علامہ شمس الحق فرماتے ہیں: "ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عورت جب عورتوں کی امامت کرائے تو ان کے درمیان کھڑی ہو، آگے کھڑی نہ ہو۔"
اور سبل السلام میں ہے: "یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ عورت کا اپنے گھر والوں کی امامت کرنا درست ہے، اگرچہ ان میں آدمی ہو۔ کیونکہ روایت سے یہ ثابت ہے کہ اُمّ ورقہ کا موٴذّن ایک بوڑھا آدمی تھا۔ ظاہر یہ ہے کہ اُم ورقہ اس کی او راپنے غلام اور لونڈی سب کی امام تھی۔
ابوثور، مزنی اور طبری کے نزدیک عورت کی امامت درست ہے، البتہ جمہور ا س کے مخالف ہیں۔
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ عورت کو فرض نماز کے علاوہ تراویح اور نوافل میں بھی امامت درمیان میں کھڑے ہوکر کرانی چاہئے۔ والله اعلم!
٭٭٭٭٭