سقوط کابل ، طالبان اور پاکستان
ایک فرد کی مزاحمت مہلک امراض کے جراثیم کے خلاف ہو یا ایک قوم کی مزاحمت طاقتور قوم کے مہلک ہتھیاروں کے خلاف، اس کی بہرحال ایک حد ضرور ہوتی ہے۔ طالبان جس قدر بھی قوتِ ایمانی سے سرشار ہوں یا بقول ایک امریکی جرنیل کے جس قدر بھی 'سخت جان' ہوں، مگر جب ارضِ افغانستان کا چپہ چپہ کارپٹ بمباری سے اُدھیڑا جارہا ہو، جب شہری آبادیوں پر پندرہ پندرہ ہزار پاؤنڈ وزنی مہلک ترین ڈیزی کٹر جیسے بم گرائے جارہے ہوں، جب بمبار طیاروں کی بمباری چوبیس گھنٹے کے دوران کسی بھی وقت سانس نہ لینے دے تو پھر محض چند غیر موٴثر طیارہ شکن توپوں کے سہارے شہروں اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے لئے مورچے سنبھالے رکھنا کسی بھی طور دانش مندانہ عسکری حکمت ِعملی نہیں ہوسکتی۔
تزویراتی پس قدمی
۹/ نومبر کو جب امریکی طیاروں کی بمباری کے سائے میں شمالی اتحاد کی اَفواج مزار شریف میں داخل ہوئیں، تو صاف نظر آرہا تھا کہ طالبان کابل پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ ۱۲/نومبر کی رات کو بالآخر طالبان افواج نے تزویراتی پس قدمی Tactical Retreatکی حکمت ِعملی اپناتے ہوئے کابل خالی کردیا۔ طالبان کے کابل کے منظر سے یوں مزاحمت کئے بغیر اچانک غائب ہونے پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے، مگر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ کافی پہلے کرلیا تھا۔ جیسا کہ گورنر ِقندھار ملا حسن ربانی نے کہا ہے کہ
"طالبان نے اپنی حکمت ِعملی کے تحت کابل شہر کو ایک ماہ قبل خالی کررکھا تھا اورامریکی جہاز خالی مورچوں پر بم برسا کر تباہی کے جھوٹے دعوے کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی راز داری کی انتہا ہے کہ ایک ماہ کے دوران امریکہ کے جدید مواصلاتی نظام کو پتہ نہ چل سکا کہ ہم نے کابل شہر کی حفاظت کے لئے معمولی تعدادمیں طالبان چھوڑ رکھے تھے جبکہ باقی طالبان فوجی اور عسکری سازوسامان پہاڑوں پر محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکے تھے۔" (نوائے وقت: ۱۸/ نومبر)
پاکستان میں افغانستان کے نائب سفیر نے کابل خالی کرنے کے ایک دن بعد بیان دیا:
"پسپائی حکمت ِعملی کے تحت اختیار کی، کابل سمیت تمام علاقے شوریٰ کے حکم پرخالی کئے تاکہ عوام کو نقصان سے بچایا جائے اورامریکی فوج کو آنے کا موقع دیا جاسکے۔ طالبان کے حوصلے بلند ہیں، خون کے آخری قطرے تک جہاد جاری رہے گا۔ پاکستانی بھائی پریشان ہونے کی بجائے دعا کریں۔" (روزنامہ انصاف: ۱۴/ نومبر)
دینی حمیت سے معمور کالم نگار جناب ہارون الرشید لکھتے ہیں:
"طالبان کی واپسی دراصل سوچی سمجھی پسپائی ہے۔ اگر وہ موجود رہتے، ڈٹے اور لڑتے رہتے تو انہیں کس قدر شدید اسلحی، جانی او رمالی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا؟ پھر جو اقدام چند ہفتے بعد کرنا تھا، وہ ابھی کیوں نہ کیا جاتا؟ یہ شکست کی نہیں، ذہنی بلاغت اور حوصلہ مندی کی دلیل ہے۔" (روزنامہ خبریں :۱۵/ نومبر)
روزنامہ اوصاف کے ایڈیٹر حامدمیر جنہیں دعویٰ ہے کہ وہ حال ہی میں اسامہ بن لادن کا انٹرویو کرکے آئے ہیں، کہتے ہیں:
"گوریلا جنگ بڑے شہروں میں نہیں، بلکہ پہاڑوں اور جنگلوں میں لڑی جاتی ہے۔ طالبان نے گوریلا جنگ کے لئے بڑے شہر خالی کئے کیونکہ ان شہروں پر قبضہ قائم رکھنے سے ان کا نہیں بلکہ سول آبادی کا نقصان ہورہا تھا۔" (روزنامہ اوصاف: ۱۵ /نومبر)
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل صاحب کے خیال میں
" کابل پر قبضہ بظاہر طالبان کی ناکامی ہے، مگر انہوں نے حکمت ِعملی تبدیل کرلی۔ شمالی اتحاد کے لئے مشکلات بڑھیں گی، یہی طالبان کی کامیابی ہے۔" (نوائے وقت: ۱۴/ نومبر)
دفاعِ پاکستان و افغان کو نسل کے راہنماؤں کا مشترکہ بیان شائع ہوا ہے کہ طالبان نے اقتدار کی قربانی دے کر اپنے عوام کو بچا لیا۔( نوائے وقت: ۱۵/ نومبر)
تادمِ تحریر (۲۰/ نومبر) طالبان اس جزوی شکست یاتزویراتی پسپائی کے باوجود ابھی تک مکمل تباہی سے دوچار نہیں ہوئے۔ خود امریکی قیادت بار بار واویلا کر رہی ہے کہ جب تک طالبان کا مکمل خاتمہ نہیں کرلیا جاتا، ان کی طرف سے جوابی کارروائی کا خطرہ بدستور باقی رہے گا۔ طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر مجاہد نے سقوطِ کابل کے فوراً بعد اپنے تحریری بیان میں طالبان کو ہدایت جاری کی کہ
"وہ خود کو از سر نو منظم کریں اور جنگ کی تیاری کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں۔ میرا حکم ہے کہ وہ اپنے کمانڈروں کے اَحکامات مانتے ہوئے طویل جنگ کی تیاری کریں۔ان شاء اللہ آخری فتح حق و صداقت کی ہوگی اور اللہ کی مدد ہمارے ساتھ شامل ہے۔" (نوائے وقت: ۱۴/ نومبر)
حزبِ اسلامی کے سربراہ جناب گلبدین حکمت یار نے کہا ہے کہ
"موجودہ افغان جنگ کا نتیجہ ابھی دور ہے۔ انہوں نے ایک روسی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو لازماً افغانستان میں گوریلا جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ افغانستان میں شمالی اتحاد کی فوجی پیش رفت تیزی سے جاری ہے، لیکن میں یہ دعوے سے کہتا ہوں کہ جنگ طویل عرصہ تک جاری رہے گی۔(۱۵/ نومبر: نوائے وقت)
امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ نے اعتراف کیا
"طالبان نے ہتھیار نہیں ڈالے، وہ پیچھے ہٹ کرمنصوبہ بندی کررہے ہیں" (پاکستان:۱۴ /نومبر)
شمالی اتحاد اور امریکی فریب
شمالی اتحاد کی افواج کا کابل پر قبضہ طالبان کے کابل خالی کرنے کے واقعہ سے زیادہ حیرت انگیز ہے۔ ابھی تک امریکہ مشرف حکومت کو یقین دہانی کراتا آیا تھا کہ کابل کو اس وقت تک 'اوپن سٹی' رکھا جائے گا جب تک کہ اقوامِ متحدہ کی زیرنگرانی افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام کا حتمی فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ ۱۰/ نومبر کو جنرل پرویز مشرف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران حکومت ِپاکستان کی اس تشویش کا بار بار ذکر کیا جو اسے شمالی اتحاد کی برسراقتدار آنے پر ہے۔ ۱۱/نومبر کو صدر بش اور جنرل مشرف نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ صدر بش نے ایک دفعہ پھر یقین دہانی کرائی کہ شمالی اتحاد کابل میں داخل نہیں ہوگا۔
۱۲/نومبر کو وطن واپس آتے ہوئے جنرل مشرف اپنے فکری مرشد اتاترک* کے ملک میں رُکے۔ استنبول میں ترک وزیراعظم بلند ایجوت کے ساتھ مشترکہ کانفرنس کے دوران انہوں نے ایک دفعہ پھر مطالبہ کیاکہ کابل میں اقوام متحدہ یا اسلامی ممالک کی امن فوج تعینات کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ کابل میں نسلی فسادات روکنے کے لئے شہر کو غیر فوجی علاقہ رکھنا بہت ضروری ہے، یہاں اقوامِ متحدہ کی چھتری ہونی چاہئے۔ (نوائے وقت: ۱۳/نومبر)
جنرل مشرف ابھی رستے میں ہی تھے اور ان کے بیانات کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ شمالی اتحاد کی افواج 'فاتحانہ' طور پر کابل میں داخل ہوچکی تھیں۔ امریکی صدر جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کو دو روز قبل یقین دہائی کرائی تھی،نے فوراً پینتر بدلا، انہوں نے کہا:"کابل پر شمالی اتحاد کے قبضہ سے خوشی ہوئی۔ افغان عوام آزاد ہوگئے، افغان عورتوں کو برقعہ سے نجات مل گئی۔" (نوائے وقت: ۱۴/ نومبر)
امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ نے بیان دیا: "شمالی اتحاد والوں کو افغانستان پر حکومت کا پورا حق ہے۔" امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان وکٹوریہ کلارک نے ایک پریس کانفرنس میں کہا:
"شمالی اتحاد نے امریکہ کی مدد سے ایڈوانس کیا" (پاکستان: ۱۴/ نومبر)
حکومت ِپاکستان محض احتجاج کرتی رہ گئی:"کابل پر شمالی اتحاد کا قبضہ قابل قبول نہیں۔وسیع البنیاد حکومت میں پشتونوں کو بھی شامل کیا جائے۔" جنرل مشرف نے ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے شمالی اتحاد کے کابل پر قبضہ کو 'خطرناک' قرار دیا ( ڈان، دی نیشن) لیکن پاکستان کا احتجاج نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق بے اثر ثابت ہوا۔
دوسری طرف امریکی راہنماؤں کی طرف سے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔ ۱۷/ نومبر کو امریکی نائب صدر ڈک چینی نے بیان دیا: "شمالی اتحاد نے کابل میں داخل ہوکر معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے" مگر دوسرے ہی دن یعنی ۱۸/ نومبر کو امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ کا بیان شائع ہوتا ہے کہ شمالی اتحاد نے کابل پر قبضہ کرکے ذمہ دارانہ طرزِعمل کا مظاہرہ کیا، انہوں نے بروقت خلا کو پر کیا" (نوائے وقت)
اپنے منصوبوں کو 'حکمت و دانش' پر مبنی قرار دینے والی پاکستانی حکومت کے ساتھ امریکہ نے ایک دفعہ پھر ہاتھ کردیا !!
وائس آف جرمنی نے اس صورتحال پر یوں تبصرہ کیا: "ثابت ہوگیا کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ دھوکہ کیا۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ شمالی اتحاد کی فوجیں امریکی حمایت یا اجازت کے بغیر کابل میں داخل ہوئی ہوں، موجودہ صورتحال پاکستان کے لئے اطمینان بخش نہیں۔" (انصاف: ۱۴/نومبر)
مگر شاید ابھی تک ہماری حکومت کو اس 'فریب' کا ادراک نہیں ہوا، ورنہ ان کی طرف سے پالیسی میں تبدیلی ضرور کی جاتی۔ ممکن ہے، اب ان کے لئے واپسی کا راستہ ممکن نہ ہو۔ وہ ایسی دلدل میں پھنس چکی ہے جہاں سے نکلنا بے حد مشکل ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ عبدالستار کے اس بیان میں کتنی بے بسی ہے:
" امریکہ اور اتحادی ممالک شمالی اتحاد کو لگام ڈالیں"۔ انہوں نے کہا کہ شمالی اتحاد نے کابل میں داخل ہوکر امریکی وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ وہ ربانی کو سربراہِ حکومت بنانے پر اصرار کر رہے ہیں جس سے اقوامِ متحدہ کا منصوبہ خطرہ میں پڑتا نظر آتا ہے۔" (نوائے وقت: ۱۸/ نومبر)
ہمارے وزیر خارجہ آخر یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ شمالی اتحاد امریکہ کی حمایت کے بغیرکابل میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ اقوامِ متحدہ میں شمالی اتحاد کے سفیر ڈاکٹر دوان فریادہ نے کہا ہے کہ ہمیں کابل میں داخلہ کے لئے صدر بش کی طرف سے اشارہ ملا تھا۔( انصاف: ۱۶/ نومبر) ... روزنامہ انصاف نے ۱۷/ نومبر کے اداریے میں بالکل صحیح تبصرہ کیا ہے کہ " کابل میں شمالی اتحاد کا داخلہ پاکستان کے ساتھ دھوکہ دہی کی واردات ہے، اس میں امریکہ ملوث ہے۔"
سقوطِ کابل کا المیہ
۱۳/ نومبر کو سقوطِ کابل کا المیہ پیش آیا۔ شمالی اتحاد کے سفاک فوجیوں نے کابل میں داخل ہوتے ہی ہزاروں بے گناہ شہریوں کو گولیوں سے بھون کر اپنی فتح کا 'جشن' منایا۔ طالبان تو شہر چھوڑ کر چلے گئے تھے مگر جس جس شہری پر انہیں طالبان کے حامی ہونے کا ذرا برابر شک ہوا، انہوں نے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند گھنٹوں میں کابل کی گلیاں لاشوں سے اَٹ گئیں۔ سڑکوں کے کناروں پربے گناہ اور نہتے افغانوں کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ جا بجا بکھرے شہدا کے لاشے سفا ک ظالموں کی درندگی کا نوحہ کہہ رہے تھے۔ اخبارات نے جو ظلم کی تصاویر شائع کیں، انہیں دیکھ کر ایک عام آدمی پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ قتل عام اور غارت گری کا ایسا ہنگامہ برپا ہوا کہ الامان۔
شمالی اتحاد کے ملحد فوجیوں نے شہریوں کے ساتھ ساتھ اسلامی شعائر کی بھی جی بھر کر توہین کی۔ کابل کے شہریوں کی داڑھیاں نوچی گئیں۔ اہل کابل نے یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ ان کے ہم مذہب انہیں داڑھی رکھنے کے جرم میں قتل کریں گے۔ اس قدر دہشت طاری ہوئی کہ لوگوں نے جانیں بچانے کی خاطر داڑھیاں منڈوانا شروع کردیں۔ اخبارات میں ایسی تصاویر شائع ہوئیں جن میں لوگ شمالی اتحاد کے ظلم وستم سے بچنے کے لئے شیو کراتے ہوئے دکھائے گئے۔ کابل میں جو بھی پاکستانی نظر آیا، بلا تفتیش 'کشتنی' قرار پایا۔ ایک درجن پاکستانی باشندوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی نعشیں درختوں سے لٹکا دی گئیں۔
ایسی تصاویر چھپی ہیں کہ شمالی اتحاد کے وحشی فوجی پاکستانیوں اور طالبان کی نعشوں کو بے رحمی سے ٹھڈے مار رہے ہیں۔ کئی ایک لاشیں ٹینکوں کے ساتھ باندھ کر گھسیٹی گئیں۔ سڑکوں پربکھری لاشوں کے گرد بدمست فوجی رقص ابلیس کرتے ہوئے نظر آئے۔ بدمعاش اور غنڈے فوجیوں کے ہاتھوں عصمت مآب خواتین کی عصمتیں تار تار ہونے کی دل خراش خبریں بھی شائع ہوئیں۔ آبرو کی حفاظت کی خاطر کئی معصوم خواتین نے بالآخر اپنے آپ کو ختم کرلیا۔ جنرل فہیم کی سپاہ جب کابل میں داخل ہوئی، تو انہوں نے احمدشاہ مسعود کی تصویریں اُٹھا رکھی تھیں اور وہ جوشِ غضب میں 'پاکستان مردہ باد' کے نعرے لگا رہے تھے، مغربی میڈیا نے یہ مناظر بار بار دکھائے۔
پروفیسر برہان الدین ربانی جنہیں شمالی اتحاد نے صدر نامزد کیا ہے، نے فرمان جاری کیا کہ سب کے لئے معانی ہے، مگر پاکستانی اور عرب جہاں بھی نظر آئیں، گولی مار دو۔ فتح کے نشے میں سرشار فوجیوں نے قتل و غارت کے ساتھ ساتھ شراب بھی پانی کی طرح بہائی۔ جشن طرب مناتے ہوئے مغربی موسیقی پر رقص کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق مسجدوں کے لاؤڈ سپیکر بھی بھارتی فحش گانوں کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ معروف کالم نگار عرفان صدیقی صاحب لکھتے ہیں:
"فاتحین کی پہلی دستک کے ساتھ ہی لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوگیا، ایکسچینج کے ۸۰ دفاتر میں ۱۶ لاکھ ڈالر، کروڑوں پاکستانی روپے اور اربوں افغانی لوٹ لئے گئے۔ دفتروں کے قالین، کمپیوٹر اور دیگر سازوسامان بھی لوٹ لیا گیا۔ پاکستانی سفارتخانہ خصوصی نشانہ بنا، بے لگام گروہ پنکھے، ایئر کنڈیشنر، کمبل اور فرنیچر گاڑیوں میں بھر کر لے گئے۔ اقوامِ متحدہ کے خوراک کے ذخیرے لوٹ لئے گئے۔ داڑھیاں تیز دھار اُستروں کی زد میں ہیں اور کابل کے بے رنگ در ودیوار اچانک بھارتی اداکاراؤں کی تصویروں سے سج گئے ہیں۔ ... وہ لکھتے ہیں:
فاتح لشکری بھوکے بھیڑیوں کی طرح کابل کی گلیوں میں گھوم رہے ہیں، کوئی مشکوک فرد نظر آئے تو 'پاکستانی' یا'طالبان' کانعرہ لگا کر اس کا سینہ چھلنی کردیتے ہیں۔" ( نوائے وقت: ۱۵ /نومبر)
چند دن پہلے مزار شریف میں بھی سفاک 'فاتحین' نے اپنی خون آشام وحشت ناکیوں سے انسانیت کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ وہاں ایک سکول میں سو بچوں کو ٹینکوں کے گولوں سے اُڑا دیا گیا۔ مزار شریف میں محصور سینکڑوں پاکستانی مجاہدین کو شہید کردیا گیا۔ معروف کالم نگار جناب عباس اطہر مزار شریف میں شمالی اتحاد کے فوجیوں کی غارت گری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"طالبان کی 'غیر انسانی' اور 'غیر جمہوری' حکومت کے مخالف امریکیوں کو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہوگی کہ اس جنگ ِآزادی کے مہذب اور انسان دوست فوجیوں نے ایک سکول میں چھپے ہوئے سو سے زائد بچوں کو محض اس لئے قتل کردیا کہ وہ طالبان کے گھروں میں پیدا ہوئے تھے۔ دکانیں لوٹیں، امدادی سامان کے ٹرک چھین لئے، نعشوں پر رقص کیا... ابھی قتل وغارت گری اور بربادی کی ابتدا ہوئی ہے، آگے چل کر ہر بستی او رہر شہر میں خون خرابہ ہوگا"۔ (نوائے وقت: ۱۵/ نومبر)
پانچ ہفتوں کی مسلسل بمباری کے دوران امریکیوں نے جس قدر بے گناہ افغان شہریوں کو قتل کیا تھا، شمالی اتحاد کے سفاک فوجیوں نے صرف ایک ہفتہ کے اندر تقریباً اتنے ہی نہتے عوام کو اپنی درندگی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ مختصر یہ کہ سقوطِ کابل میں سقوطِ بغداد اور سقوطِ ڈھاکہ کی طرح اسلامی تاریخ کا ایک بے حد المناک اور عبرت آموز سانحہ موجود ہے۔ خونِ مسلم کی ارزانی پر دل خون کے آنسو روتا ہے!!
'شمالی اتحاد' کیا چیز ہے؟
موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرنے سے پہلے اس نام نہاد 'شمالی اتحاد' کا مختصر ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ شمالی اتحاد طالبان سے پہلے کی حکومت کا فوجی ونگ تھا جو طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد افغانستان کے شمال تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ اس کے پہلے سربراہ احمد شاہ مسعود تھے جنہیں ۹/ ستمبر ۲۰۰۱ء کو قتل کردیا گیا۔ آ ج کل اس کے سربراہ جنرل فہیم ہیں۔ شمالی اتحاد کے فوجیوں کی تعداد پندرہہزار کے لگ بھگ ہے۔ اس میں مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کے لوگ شامل ہیں۔ اس وقت اتحاد میں تین بڑے گروہ شامل ہیں جن میں نمبر ایک 'تاجک جمعیت ِاسلامی' جس کی قیادت جنرل محمد فہیم خان کرر ہے ہیں۔ دوسرا بڑا گروہ 'ازبک جیش ملی' ہے، جس کی قیادت جنرل عبدالرشید دوستم کے پاس ہے۔ تیسرا بڑا نسلی گروہ 'حزب ِوحدت ' اور ہزارہ شیعہ تنظیموں پر مشتمل ہے جس کی قیادت کریم خلیلی اور استاد محقق کررہے ہیں۔ عبد الرسول سیاف کی اسلامی یونین بھی اس اتحاد میں شامل ہے۔ اتحاد میں شامل نمایاں ترین لیڈر پروفیسر برہان الدین ربانی ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ان کو اب تک افغانستان کا صدر تسلیم کرتے رہے ہیں۔ ہرات کے سابق گورنر کمانڈر اسمٰعیل بھی اتحاد میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ (تاجک) اتحاد کے قائم مقام وزیر خارجہ ہیں۔
۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء کے دوران شمالی اتحاد نے کابل پر قبضہ کے دوران ظلم و بربریت کا بازار گرم کئے رکھا۔ انسانی حقوق کے حوالہ سے اس کا ریکارڈ بے حد شرم ناک اور قابل مذمت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چار سال کے عرصہ میں ۵۰/ ہزار بے گناہ انسان اس اتحاد کی افواج کے ہاتھوں لقمہ اجل بنے۔ شمالی اتحاد کے لیڈروں کی اکثریت ملحد، ظالم اورکیمونسٹ جرنیلوں پر مشتمل ہے جو جہادِ افغانستان کے دوران روس کی اَفواج کے شانہ بشانہ افغان عوام پرظلم ڈھاتے رہے۔
جنرل حمید گل کا کہنا ہے کہ "رشید دوستم زانی، شرابی اور لٹیرا ہے۔ اس کی بدکاری کے لئے کوئی بھی لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔" جنا ب عرفان صدیقی کے بقول مزار شریف پر قبضہ کے بعد دوستم انسانی چیخوں کی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا اور فلک شگاف قہقہے لگاتا رہا۔ سڑکوں پر انسانی قیمہ اور درودیوار سے چپکے لوتھڑے دیکھنا، اس کا دل پسند مشغلہ ہے" (نوائے وقت: ۱۸/ نومبر) معروف کتاب 'طالبان' کے مصنف احمد رشید کے خیال میں "وہ بلا کا ظالم اور جفا جو ہے۔" بے پناہ دولت کی ہوس، شراب کے جام لنڈھانا، عریاں رقص اور جنسی درندگی اس کی شخصیت کے نمایاں پہلو ہیں۔ طالبان نے جب مزار شریف پر قبضہ کیا تو دوستم فرار ہوکر ترکی چلا گیا تھا۔ یہ روس اور ترکی کامسلمہ ایجنٹ ہے۔
شمالی اتحاد کا دوسرا اہم لیڈر جنرل فہیم ہے، یہ کمیونسٹ خیالات رکھتا ہے۔ جہادِ افغانستان کے دوران پشاور میں ایک سکول بس کو بم سے اُڑانے میں ملوث تھا۔ بھارت اور روس سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں سخت خبث ِباطن کا شکار ہے۔ کابل میں پاکستانی سفارتخانے کو بم سے اڑانے میں بھی اس کا ہاتھ تھا۔
پروفیسر برہان الدین ربانی افغانستان پر روس کے قبضہ سے پہلے کابل یونیورسٹی میں اسلامیات کا مضمون پڑھاتے تھے۔جہادِ افغانستان میں انہوں نے قابل قدر خدمات انجام دیں، مگر جب طالبان کے ہاتھوں انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا تو ان کے فکروعمل میں یک لخت تبدیلی رونما ہوئی۔ حتیٰ کہ اپنے اقتدار کے دوران بھی انہوں نے بھارت سے تعلقات بڑھائے او رپاکستان سے مخاصمانہ رویہ اختیار کیا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی دعوت کے باوجود انڈونیشیا سے واپسی پر پاکستان آنا گوارا نہ کیا بلکہ جکارتہ سے سیدھے دہلی چلے گئے۔ پاکستان کے خلاف سخت نفرت کے جذبات رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر عبداللہ بھی نسلاً تاجک ہیں اور شمالی اتحاد میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف ان کی نفرت کا اندازہ ان کے حالیہ بیان سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ انہوں نے امریکہ اور اتحادی ممالک کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کو ایٹم بم مار کر تباہ کردیں (خاکم بدہن) کیونکہ یہ اس خطے میں سب سے بڑا شیطان ملک ہے... شمالی اتحاد کا یہ تعارف اور اس کے راہنماؤں کی مذکورہ ذہنیت پاکستان اور افغانستان کے درمیان آئندہ تعلقات کی سطح کو سمجھنے میں کافی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
تبصرہ و تجزیہ
۱۳/ نومبر کو سقوطِ کابل کے وقوع پذیر ہونے کے بعد افغانستان کی صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ امریکہ اور اس کے نام نہاد اتحادیوں کو بظاہر ایک بڑی کامیابی ملی ہے مگر بدلتی ہوئی صورتحال نے انہیں بھی اپنی حکمت ِعملی بدلنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ شمالی اتحاد نے اگر چہ امریکیوں کے اشارے سے کابل پر قبضہ کیاہے ، مگر ان کے ہوتے ہوئے امریکیوں کو اپنی مرضی کے مطابق افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے میں دشواریوں کاسامنا ہے۔ طالبان بدستور قندھار اور چند دیگر صوبوں میں مورچے سنبھالے ہوئے ہیں۔ طالبان کی 'تزویراتیپسپائی' نے امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کوبھی چونکا کر رکھ دیا ہے۔شمالی اتحاد کے کابل پر قبضہ کے ایک ہفتہ بعد بھی سیاسی عمل تیزی سے آگے نہیں بڑھا۔ طالبان کے کابل خالی کرنے کے بعد جو خلا پیدا ہوا تھا، شمالی اتحاد کی افواج نے فوجی اعتبار سے تو ایک حد تک اس خلا کو پر کر دیا ہے مگر سیاسی معنوں میں یہ خلا بدستور باقی ہے ۔حالات مزید کیا رُخ اختیار کریں گے؟ افغانستان کے تھیٹر پر کون کون سے کردار کیا کیا اداکاری کر سکیں گے؟ افغانستان میں امن وامان کی صورتحال کس کروٹ بیٹھے گی؟ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی اب نوعیت کیاہوگی؟ اس طرح کے درجنوں سوالات ہیں جوہر صاحب ِفکر کے ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں ۔اس وقت یقین کے ساتھ کوئی بات کہنا مشکل ہے مگر پھر بھی معروضی حقائق کی روشنی میں اگر حالات وواقعات کا تجزیہ کیا جائے تو درج ذیل نکات غور وفکر کے متقاضی ہیں:
(1) سقوطِ کابل کے بعد افغانستان میں پاکستان اب کوئی موٴثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔امریکہ جو جنرل مشرف کی حکومت کے سامنے بچھا جا رہا تھا، اب اس کے نزدیک پاکستان کی وہ اہمیت نہیں رہی جس کا اظہار گزشتہ دو ماہ میں وہ تسلسل کے ساتھ کرتا رہا ہے۔تخت ِکابل پر پاکستان دشمن شمالی اتحادکا قابض ہونا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی شدید ناکامی کا مظہر ہے۔پاکستان کی جانب سے کابل کوامن فوج کے حوالے کرنے اوروسیع البنیاد حکومت میں پختونوں کو موٴثر نمائندگی دینے کا مطالبہ درخورِ اعتنا ہی نہیں سمجھا گیا۔انگریزی روزنامہ'دی نیوز' جو مشرف حکومت کی پالیسی کی مسلسل حمایت کرتا رہا ہے، ۱۴/نومبر کے اداریے میں اس تلخ حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے :
" ایک بات جو اب بالکل عیاں ہے، وہ یہ ہے کہ امریکہ کوافغانستان کے اندر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے پاکستان کی مزید ضرورت نہیں رہی۔پاکستان کوامریکہ کا بیس کیمپ ہونے کی حیثیت سے جواہمیت حاصل تھی، اب باقی نہیں رہی۔اب امریکی افغانستان کے اندر طالبان پر حملے کرنے اور اسامہ بن لادن کوپکڑنے کے لیے مقبوضہ شہروں میں کسی ایک کواستعمال میں لا سکتے ہیں۔بد قسمتی سے پاکستان امریکہ کی طویل المیعاد دوستی کے وعدوں کی آزمائش میں بہت جلد مبتلا ہو گیا ہے، ابھی تو اسے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔" (۱۴/ نومبر)
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے کہا
" طالبان کے کابل خالی کرنے کے اقدام نے افغانستان میں سیاسی اور فوجی خلا پیدا کر دیا ہے اور یہ امریکی حکومت کی پالیسی کی مکمل ناکامی کوظاہر کرتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب افغانستان میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں رہا۔" (دی نیشن: ۱۴/نومبر)
(2) ۱۱/ ستمبر کے سانحہ کے بعدحکومت ِپاکستان نے اعصاب شکن امریکی دباوٴ کے زیر اثر افغانستان کے متعلق خارجہ پالیسی میں 'یوٹرن' لیا تھا ، آج ہر پاکستانی اس کے مزعومہ فوائد کے متعلق سوال کر رہا ہے کہ بے گناہ افغان پر وحشیانہ بمباری میں تعاون کر کے آخر پاکستان نے کیا حاصل کیا ہے؟ ہمیں کیاکیا تزویراتی، اخلاقی اور معاشی فائدے میسر آئے ہیں؟ ہمارے دانشور مسلسل ان سوالات کے جواب طلب کر رہے ہیں ۔معروف کالم نگار جناب عباس اطہر کہتے ہیں
"روس اور بھارت عملی طور پر ہمارے عقب میں پہنچ چکے ہیں اور اپنی قیادت سے پوچھنے کو جی چاہتا ہے:"اپنے ہاتھ کیا آیا؟" فرنٹ لائن سٹیٹ کاسٹیٹس، ایک ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ،کچھ قرضوں کی ری شیڈولنگ اور امریکہ کی طرف سے عمر بھر ساتھ نبھانے کا 'قلمی عہد' (نوائے وقت:۱۵/نومبر)
جناب ہارون الرشید پوچھتے ہیں:
"پاکستان کو اس جنگ سے کیا حاصل ہوا؟ دیکھنے والے دیکھیں گے کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ بند کر دیا جائے گا اور مدتوں بند رہے گا۔افغان دار ا لحکومت میں بھارتی سفارت خانہ آباد ہوجائے گا۔ہرات اور قندھار میں ا ن کے قونصل خانے کھلیں گے او رطور خم کی سرحد کے پار آپ بھارتیوں کو مٹر گشت کرتے پائیں گے کہ شمالی اتحاد والوں کے ساتھ بھارتیوں کے مثالی مراسم ہیں۔ (کالم نا تمام... روزنامہ خبریں:۱۵/نومبر)
روزنامہ 'اوصاف' کے ایڈیٹر حامد میر بھی استفسار کرتے ہیں
"کوئی بتائے گا کہ طالبان کے بارے میں پالیسی تبدیل کر کے پاکستان کو اپنی شمال مغربی سرحدیں غیر محفوظ بنانے کے سوا کیا ملا؟ صرف ایک ارب ڈالر میں یہ سودا بہت مہنگا ہے۔" (۱۵/نومبر)
روزنامہ جنگ کے کالم نگار جاوید چوہدری رقم طراز ہیں
"پاکستانی دماغ سوال کرتا ہے ۔ہر پاکستانی دوسرے پاکستانی سے پوچھتا ہے: ہم نے تباہی سے بچنے کے لیے امریکہ کا ساتھ دیا تھا، کیا ہم واقعی تباہی سے بچ گئے"؟(۱۴/نومبر)
(3) گزشتہ کئی ہفتوں سے امریکہ اوراس کے حمایتی ممالک طالبان کو ہٹا کر افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے کا راگ الاپتے رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری کے نمائندے لخدر براہیمی مسلسل ڈپلومیسی میں مصروف رہے ہیں، مگر ابھی تک اس کی راہ ہموار نہیں کی جاسکی۔ امریکہ جن بنیادوں پر وسیع البنیاد حکومت کا قیام عمل میں لانا چاہتا ہے، وہ بے حد کمزور اور ناقابل عمل ہیں۔ امریکہ کا خیال تھا کہ طالبان کوکابل سے نکال کر شہر کا کنٹرول ترکی اور بنگلہ دیش کی فوج کے حوالے کریں گے اور لوئی جرگہ کے ذریعے کابل کے تخت پر ظاہر شاہ کو بٹھائیں گے۔لیکن طالبان نے کابل خالی کر کے امریکہ کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا ہے۔شمالی اتحاد کے راہنما امریکہ کی بجائے بھارت اور روس کے زیادہ قریب ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی سرپرستی میں قائم ہونے والی وسیع البنیاد حکومت کی بنیاد نسلی اور لسانی بنیادوں پر رکھی جانی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ فارمولا شمالی اتحاد کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔پروفیسر ربانی اور جنرل فہیم تاجک ہیں، اس فارمولے کے مطابق تاجک آبادی کو اقتدار میں صرف ۱۰ فیصد حصہ ملنا چاہئے۔ کیا کابل پر قابض شمالی اتحاد محض دس فیصد اقتدار پر قناعت کرے گا؟ہرگز نہیں۔
۱۸/ نومبر کے اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی کہ شمالی اتحاد اور امریکہ کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے نمائندے نے شکایت کی ہے کہ شمالی اتحاد وسیع البنیادحکومت کے قیام میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے ۔ظاہر شاہ کے نمائندہ نے بھی شمالی اتحاد پرالزام لگایا ہے کہ اس نے کابل میں داخل ہو کر معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے ۔پختون افغانستان کی آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی نمائندگی کے لیے امریکہ کسے آگے لائے گا؟ظاہر شاہ کو افغانستان عوام ہرگز قبول نہیں کریں گے ۔مزید برآں ایران نے بھی ظاہر شاہ کی واپسی کی مخالفت کی ہے کیونکہ اس طرح ایران میں رضا شاہ پہلوی کی اولاد کی واپسی کے امکانات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ۶+ ۲ کا جو فارمولاتیار کیا ہے، وہ بھی نہایت پیچیدہ ہے ۔اقوام متحدہ میں چین، ایران، پاکستان، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور روس کے نمائندوں کی ہونے والی میٹنگ بھی اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔ یہ ممالک اب تک جا ئزہ لے رہے ہیں کہ طالبان کے بعد افغانستان میں کس قسم کی حکومت قائم ہو۔اقوامِ متحدہ کے نمائندہ لخدر براہیمی نے اعتراف کیا ہے کہ شمالی اتحاد پر اقوامِ متحدہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے اورکیا ہو رہا ہے، ہم اس سے بھی بے خبر ہیں۔ ادھر برہان الدین ربانی نے کابل میں اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا کہ وسیع البنیاد حکومت کے معاملے میں اقوام متحدہ نے تاخیر کی توہم پر الزام نہ لگائیں۔ (نوائے وقت: ۱۸/نومبر)
یہ بات زبان زد عام ہے کہ کابل میں کثیر النسل اور تمام طبقات کی نمائندہ حکومت کے قیام کا کام آسان نہیں ہے ۔سیاسی خلا کو پر کرنے میں جس قدر تاخیر ہو گی،افغانستان میں انارکی اور خانہ جنگی کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔واضح رہے کہ شمالی اتحاد یہ کہہ چکا ہے کہ دو برس تک الیکشن ہونے تک ربانی عبوری سیٹ اَپ کے سربراہ ہو ں گے۔
(4) طالبان کی پسپائی کے بعد اب امریکہ اوربرطانیہ کی فوجیں افغانستان میں داخل ہونا شروع ہو گئی ہیں ۔ غیر ملکی افواج کے افغان سر زمین میں داخل ہونے پر شمالی اتحاد کے راہنماوٴں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ وہ جو کچھ ہیں، بہر حال افغان تو ہیں جن کے خون میں غیر ملکیوں کے خلاف بغاوت رچی بسی ہوئی ہے۔ شمالی اتحادکے سربراہ جنرل فہیم اور ربانی نے بگرام ائر پورٹ پر دو سو برطانوی کمانڈوز کے اُترنے پر احتجاج کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہزاروں غیر ملکی فوجیوں کے یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے ... وزیر خارجہ عبد اللہ نے کہا کہ ہم غیر ملکی افواج کا معاملہ اقوام متحدہ میں زیر بحث لائیں گے... ہرات کے کمانڈر اسماعیل نے بھی امریکی اور برطانوی فوج کی آمدکو غیر ضروری قرار دے دیااور اس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ جبکہ برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ ہماری فوج افغانستان میں رہنے کے لئے آئی ہے۔ (نوائے وقت ۱۸/نومبر) آنے والے دنوں میں شمالی اتحاد اور امریکہ کے درمیان غیر ملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے بارے میں ا ختلافات شدت اختیار کر سکتے ہیں ۔شمالی اتحاد کے راہنماوٴں کی اب آنکھیں کھلی ہیں!!
(5) طالبان کا مستقبل کیا ہے؟ کیا امریکہ طالبان تحریک کو مکمل طور پر کچلنے میں کامیاب ہو جائے گا؟ کیا طالبان کامیابی سے گوریلا جنگ لڑ سکیں گے؟جنرل حمیدگل کہتے ہیں کہ "افغانستان پر حملہ آوروں کے لیے اصل مسئلہ ہی تب پیدا ہوتا ہے جب وہ شہروں میں داخل ہوتے ہیں۔گوریلا جنگ کی نوعیت عام جنگ سے کلیتاً مختلف ہے ۔گوریلا جنگ میں ہر وقت جیت کے نقطہ نظر سے نہیں لڑا جاتا ، اس میں یہ بات پیش نظر رکھی جاتی ہے کہ دشمن کو مکمل فتح نہ ملے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کے دورانئے کے بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے ، ایک بات طے شدہ ہے کہ یہ جنگ طویل ہوگی۔طالبان اگر امریکہ کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے کمزور ہو جاتے ہیں تو یہ مزاحمت کسی اورشکل میں جاری رہے گی۔"
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا طالبان اپنے پرانے ہتھیاروں سے ا مریکہ کے جدید اسلحہ کا مقابلہ کر سکیں گے؟انہوں نے جواب دیا کہ طالبان نے پہلے ہی دو ماہ تک امریکہ کے جدید اسلحہ کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے۔ ( دی نیشن:۱۴/نومبر)
جناب ہارون الرشید کا خیال ہے
" ہماری نظر میں طالبان ایک زندہ حقیقت ہیں ... ایک بہادر، ایثار کیش، جنگ آزمودہ، اور قومی تائیدسے بہرہ ور عوامی تحریک کو کچل ڈالنا آسان نہیں!" (خبریں:۱۵/نومبر)
طالبان نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی کہہ دیا تھاکہ افغانستان میں روایتی نہیں، گوریلا جنگ لڑی جائے گی۔افغان مجاہدین نے سوویت یونین جیسی سپر پاور کو گوریلا جنگ کے ذریعے ہی شکست دی تھی۔ کابل،قندھار ،مزار شریف اور ہرات پر سوویت یونین کا قبضہ تھا مگر پھر بھی وہ مجاہدین کو شکست سے دو چار نہیں کر سکا تھا۔گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران امریکہ کی مسلسل وحشیانہ بمباری کے باوجود طالبان افواج کی مجموعی قوت کو ناقابل تلافی نقصان نہیں پہنچا۔طالبان اچھا خاصہ اسلحہ پہاڑوں میں لے جانے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں۔افغانستان کا جغرافیہ، کوہسار، اور پیچیدہ غاروں کا سلسلہ ہی در حقیقت دفاعی مورچوں کا کام دیتا ہے۔ جناب عبد القادر حسن کے بقول" طالبان کے ٹھکانے اب شہر نہیں ، کوہ ہندوکش کے برف پوش پہاڑ اور ان کے اندر غار ہیں، جہاں سے نکل کر ان کے غضب ناک چھاپہ مارشہروں کے حکمرانوں کا سکون غارت کریں گے۔(جنگ:۱۶/نومبر)
طالبان ایک جماعت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک قوم اور تحریک کا نام ہے ۔ملا عمر اور ان کے ساتھی بالفرض شہید بھی ہو جاتے ہیں ، پھر بھی اس بات کا امکان ہے کہ یہ تحریک کسی نہ کسی صورت میں جاری رہے گی۔طالبان کے مستقبل سے وابستہ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ آہستہ آہستہ ان کی افرادی قوت اور اسلحہ وغیرہ ختم ہوتے جائیں گے تو وہ نئے سرے سے یہ قوت بہم کیسے پہنچائیں گے؟ سوویت یونین کے خلاف انہیں پاکستان کی مکمل حمایت حاصل تھی۔امریکی جدید اسلحہ کی کھیپ نے ان کی دفاعی قوت کومضبوط بنا دیا تھا۔ ایک اعتبار سے دنیا کے اکثر ممالک کی انہیں حمایت حاصل تھی۔ مگر اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔امریکہ نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو اپنے ساتھ ملا رکھا ہے۔ جنرل حمید گل اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اس دفعہ اس بات کے روشن امکانات ہیں کہ ا یران افغانستان میں امریکہ کے خلاف وہی کردار ادا کرے گا جوپاکستان نے روسی جارحیت کے خلاف ادا کیا تھا" ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان پر امریکی افواج کے قبضہ کی طوالت کی صورت میں ایران، چین اور روس کی طرف سے امریکہ کے خلاف خود بخود شدید ردِ عمل رونما ہوگا۔
پاکستان کے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) اسلم بیگ نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ طالبان اپنے ہی لوگوں سے افرادی قوت کی صورت میں کمک حاصل کریں گے۔ مزید برآں وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھی مدد حاصل کر سکتے ہیں۔( ایضاً)
اللہ کرے کہ ان فوجی ماہرین کے یہ رجائیت پسندانہ اندازے درست ثابت ہوں مگراس بات کا خدشہ موجود ہے کہ طالبان کو اسلحہ کے ذخائر قائم رکھنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی افواج جہاں کہیں بھی طالبان کا اسلحہ دیکھتی ہیں، وہاں شدید بمباری کر دیتی ہیں۔۱۹/نومبر کی صورتحال کے مطابق طالبان قندھاراور دیگر چھ صوبوں پر بدستور قابض ہیں۔البتہ صوبہ قندوز میں محصور ۲۰ہزار طالبان نے اس شرط پر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا ہے کہ اقوامِ متحدہ اس علاقے کا کنٹرول سنبھال لے۔ مگر حالات یہی بتاتے ہیں کہ اگلے چند دنوں میں طالبان کو قندھار بھی خالی کرنا پڑے گا کیونکہ امریکہ کی طرف سے بے رحم وحشیانہ بمباری کاسلسلہ جاری ہے۔
(7) افغانستان اس وقت شدید خانہ جنگی کے دہانے پر ہے ۔ اس بدنصیب ملک میں امن کا امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔تازہ ترین صورتحال کے مطابق مزار شریف پر جنرل دوستم کی ازبک افواج کا قبضہ ہے ۔کابل پرجنرل فہیم ، ربانی، اور عبد اللہ جیسے تاجک راہنماوٴں کی سپاہ نے قبضہ کیا ہوا ہے ۔ہرات پر کمانڈر اسماعیل کی ایران نواز اَفواج قابض ہیں۔ قندھار، قندوزاور چھ دیگر صوبوں پر طالبان کا کنٹرول باقی ہے ۔تقریباً دس ایسے صوبہ جات ہیں جن پر طالبان کے جانے کے بعد مقامی کمانڈروں نے قبضہ کر لیا ہے ۔شمالی اتحاد کے فوجیوں کی تعداد پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں، وہ اس قابل نہیں ہیں کہ افغانستان کے تمام صوبوں پر کنٹرول قائم کر سکیں۔
کابل شہر پر چھ مختلف گروہوں نے اپنا اپنا قبضہ جما رکھاہے۔ان میں سے ایک گروہ سابق صدر نجیب اللہ کے حامیوں کا بھی ہے۔اقتدار کی رسہ کشی میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ گروہ آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں۔طالبان کی وجہ سے افغانستان کے ۹۰ فیصد علاقہ میں امن قائم تھا۔ ان کے جانے کے بعد اب کوئی ایسی مرکزی قوت نہیں ہے جوافغانستان کے حالات کو کنٹرول کر سکے۔اگرچہ طالبان کے لیے کھوئے ہوئے علاقوں پر دوبارہ قابض ہونے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں ہے ، مگر افغانی عوام ان کے کنٹرول سے محرومی کوبہت یاد کریں گے۔افغانستان ایک دفعہ پھر اس انارکی سے دوچار ہونے والا ہے جس کا منظر دنیا نے طالبان کے آنے سے پہلے دیکھاتھا۔امریکہ کی طرف سے کابل کے تخت پر مسلط کردہ کوئی بھی حکومت سخت مشکلات سے دوچار رہے گی!!
(8) صدر ضیاء الحق کہاکرتے تھے کہ افغانستان اس کا ہے جس نے کابل کو فتح کر لیا۔ شمالی اتحاد ملیشیا نے کابل کو 'فتح' کر لیاہے، مگر ابھی تک حکومت ِپاکستان نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا،نہ ہی پاکستان میں طالبان کا سفارت خانہ بند کرنے کے اَحکامات جاری کئے گئے ہیں۔شمالی اتحاد کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی بنیادی وجہ اس کے راہنماوٴں کی کھلم کھلا پاکستان دشمنی ہے۔پاکستان کے متعلق ان کے خیالات کا تذکرہ سطورِ بالا میں کیاگیا ہے۔ اب باقاعدہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت پاکستان اور شمالی اتحاد کے درمیان غلط فہمیوں کے 'خاتمے'کی تحریک چلائی جا رہی ہے ۔انٹیلی جنس ایجنسیوں سے وابستہ بعض اخباری رپورٹوں کے تجزیے شائع کرائے جا رہے ہیں جس میں حکومت ِپاکستان کی ماضی کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس کی رو سے پاکستان نے شمالی اتحاد سے مکمل انقطاعِ تعلق کر رکھا ہے ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگلے چند روز میں حکومت ِپاکستان شمالی اتحاد سے 'صلح'کا اعلان کر دے کیونکہ ابھی تک اس کی جانب سے امریکہ کے کسی بھی حکم کی تعمیل سے انکار نہیں کیاگیا۔ اقوامِ متحدہ اور امریکہ وغیرہ نے تو پہلے ہی برہان الدین ربانی کو افغانستان کا صدر تسلیم کر رکھا ہے۔ ہماری حکومت پیچھے رہ کر آخر عالمی برادری سے 'تنہائی' اختیار کرنے کا خطرہ کیونکر مول لے سکتی ہے؟
(9) امریکی بخوبی جانتے ہیں کہ افغانستان اورعراق میں بہت فرق ہے مگر ان کی جھوٹی اَنا انہیں حقائق کے صحیح اِدراک کی اجازت نہیں دے گی۔افغانستان کو انہوں نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔ ان کے ارادے افغانستان میں طویل قیام کے ہیں۔ ہمارے مغرب پرست دانشوروں کی کوتاہ نظری پر افسوس آتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ امریکیوں کا مقصد محض اسامہ بن لادن اور طالبان کو ختم کرنا ہے۔ جبکہ مغربی دانشوروں کی اچھی خاصی تعداد برملا یہ کہہ رہی ہے کہ افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کا امریکی خفیہ ایجنڈا وسط ایشیا کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کو یقینی بنانا ہے۔ امریکہ نے اس وحشیانہ جنگ میں جو اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں، اس کی وصولی کی واحد صورت مستقبل میں اس تیل کی دولت پر قبضہ کی صورت میں ہو سکتی ہے ۔ مگر کیا امریکہ طویل عرصہ تک افغانستان میں اپنے اڈّے قائم رہ سکے گا؟ تاریخ اس سوال کا جواب 'ہاں' میں نہیں دیتی۔افغانستان کو برطانیہ نے غلام بنانے کی کوشش کی تھی وہ ناکام رہا۔سوویت یونین کو افغانستان میں جس ذلت کا سامنا کرنا پڑا اس کے شاہدتو ابھی زندہ ہیں۔ کیا پھر ایک اور سپر پاور کے مقدر میں ذلت،رسوائی اور اَن دیکھی تباہی لکھ دی گئی ہے ؟کیا پھر مشیت ِایزدی نے ایک سپر پاور کو عبرت کا نمونہ بنانے کے لیے اسے افغانستان کی راہ دکھائی ہے؟ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی سے جو امریکہ کو نقصان اٹھانا پڑا ، اس سے کہیں زیادہ مالی نقصان جنگ ِافغانستان کی صورت میں اٹھانا پڑے گا۔ کیا امریکی ٹیکس گزار اس نقصانِ عظیم کو برداشت کر لیں گے؟افغانستان کے غیور عوام کو تباہ توکیا جاسکتا ہے مگر ان کے ولولہ ایمانی کو شکست نہیں دی جا سکتی ۔امریکہ کے نوبل ا نعام یافتہ مصنف ارنسٹ ہیمنگ وے نے اپنے معروف ناولOld Man and Sea میں انسانی جذبے کے ناقابل شکست ہونے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
"A man can be destroyed but not defeated"
"ایک انسان کوتباہ تو کیا جاسکتا ہے ،مگر اسے شکست نہیں دی جاسکتی"
اس عظیم خیال پر مصنف کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ہیمنگ وے کے یہ الفاظ آج کے غیور افغانیوں پر صادق آتے ہیں۔کاش کہ کوئی امریکی صدربش کویہ سمجھا سکے کہ ہزاروں ٹن بارود کی بارش سے قوموں کے عزم کوشکست نہیں دی جا سکتی۔ افغان تباہ تو ہوجائیں گے مگر وہ غلامی کی ذلت کبھی گوارا نہیں کریں گے۔امریکہ کوبالآخر افغانستان سے ذلیل ہو کر نکلنا پڑے گا۔
(10) ہمارے وہ روشن خیال جنہیں طالبان پر یہ اعتراض تھا کہ وہ بنیاد پرست اورعورت دشمن ہیں، آج شمالی اتحاد کی ننگ ِانسانیت کاروائیوں پر مہر بہ لب ہیں ۔ان کے نزدیک طالبان کا 'جرم' یہ تھا کہ وہ لوگوں کوڈاڑھی رکھنے کی تلقین کرتے تھے ، طالبان کا یہ جرم بھی'ناقابل معافی'سمجھا گیا کہ وہ عورتوں کوبرقعے پہناتے تھے۔مغربی ذرائع ابلاغ آج کل ایک دفعہ پھر طالبان کے ان 'جرائم' سے اہل مغرب کوآگاہ کررہے ہیں۔مگر آج کابل میں مسلمانوں کی ڈاڑھیاں نوچنے والوں اورعفت مآب عورتوں کوبے آبرو کرنے والے وحشی بھیڑیوں پر کوئی روشن خیال 'فردِ جرم' عائد کرنے کوتیار نہیں ہے۔ کوئی تو بتائے کہ طالبان کا جرم شدید تھا یا پھر شمالی اتحاد کے سفاک فوجیوں کا ؟
کابل کے بازار ایک دفعہ پھر ظاہر شاہ اور داود کی حکومت کے دور کا نقشہ پیش کرنے لگے ہیں۔ طالبان کے جانے کے بعد کئی لوگ یہ موازنہ کر رہے ہیں ۔جناب ارشاد احمد حقانی جنہیں اب بھی مشرف حکومت کے فیصلہ کی 'اصابت' پر اصرار ہے ، انہیں بھی ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوکر حقیقت کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں ہے: فرماتے ہیں
"میں آج ان چند صداقتوں کی طرف سے اشارہ کرنا چاہتا ہوں جو حالیہ واقعات سے نکھر کر سامنے آتی ہیں اورشاید ان لوگوں کوبھی نظرآجائیں جن کوپہلے دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ذرا غور کیجئے کہ طالبان کے منظر سے (تاحال) جزواً ہٹ جانے اور شمالی اتحاد کے آگے آجانے کے بعد اہل پاکستان کی بہت بڑی تعداد کو شدت سے یہ احساس ہوا ہے کہ ہم افغانستان میں دوستوں سے محروم ہوگئے ہیں او روہاں کوئی ہمارا ہمدرد اور حامی موجود نہیں رہا۔جو لوگ طالبان کے بارے میں یہ کہنے کے عادی ہیں کہ ا ن کا فہم اسلام محدود او رناقص تھا ، اس لیے ہمیں ان کی حمایت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ شمالی اتحاد کے انتہائی سیاہ اور شرم ناک ریکارڈ کے باوجود جو طاقتیں طالبان سے ناخوش تھیں، وہ مسلسل اس کی دامے درمے سخنے حمایت کرتی رہیں۔کیا روس، ہندوستان ،ایران اور ایک حد تک ترکی نے بھی یہ کہا کہ چونکہ شمالی اتحاد کے اکثر وبیشتر قائدین کا ماضی ناقابل رشک بلکہ انتہائی قابل مذمت ہے، اس لیے ہم اس کی حمایت نہیں کر سکتے؟ وہ اس اتحاد کے مجرمانہ ٹریک ریکارڈ کے باوجود مسلسل اس کے پشت پناہ بنے رہے کیونکہ یہ بات ان کے مفادات سے مطابقت رکھتی تھی۔طالبان کی جو بھی غلطیاں تھیں، ان کی نوعیت ہرگز وہ نہ تھی جن کاارتکاب شمالی عناصر نے سالہا سال تک کیا تھا۔ صرف ان کی وجہ سے کابل چار سال میں تباہ وبرباد ہوا اور ۵۰ ہزار بے گناہ شہری مارے گئے۔ کیا ایسے گھناوٴنے جرائم طالبان کے نامہ اعمال میں بھی ہیں...؟ (جنگ : ۱۶/نومبر)
ع ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا !!
(11) جنگ افغانستان نے ایک دفعہ پھر عالم اسلام کے حکمرانوں اور مسلم عوام کے درمیان فکر وعمل کی خلیج کومزید وسیع کر دیا ہے۔ مسلمان ممالک کے حکمران بے گناہ افغان عوام پر وحشیانہ ظلم وستم اور غارت گری کے ارتکاب کے باوجوددنیا کے سب سے بڑے دہشت گردملک امریکہ کی حمایت میں رطب ُاللسان ہیں جبکہ پورے عالم کے مسلمانوں نے افغان بھائیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔ دروغ مصلحت آمیز کی تکرار ایک طرف، مگر یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ پاکستان کے عوام نے شدید رد عمل کا اظہار کر کے حکومتی پالیسی پر عدمِ اطمینان کا اظہار کر دیا ہے ۔۹/ نومبر کوپورے ملک میں وسیع پیمانے پر پہیہ جام ہڑتال ہوئی ۔۲۶/اکتوبر کو کراچی میں لاکھوں فرزندانِ اسلام نے ملین مارچ میں شرکت کی۔شاید ہی کوئی مسلمان ملک ہو جہاں افغان مسلمانوں کی حمایت اور امریکہ کی مخالفت میں جلوس نہ نکالے گئے ہوں۔ افغان بحران میں مسلمان حکمرانوں کے کردار نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ امت ِمسلمہ کی ترجمانی کا فریضہ ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں!! ... وہ دہشت گردی کی مذمت جبکہ 'امریکہ گردی' کر حمایت کررہے ہیں جو کہ بدترین ریاستی دہشت گردی ہے!!
(12) اب جبکہ امریکہ نے پاکستان کوبار بار دھوکہ دیا ہے ، شمالی اتحاد کو کابل پر مسلط کر دیا ہے، مخصوص اہداف کی بجائے شہریوں کو بمباری کا نشانہ بنایا، ماہ رمضان میں بمباری روکنے کے پاکستانی حکومت کی درخواست کو مسترد کردیا ہے، بار بار جہاد کشمیر کو دہشت گردی کہا جارہا ہے، پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تحفظ کے نام سے قبضہ کرنے کی بات ہورہی ہے، تو آخر کونسا جوازباقی رہ گیا ہے کہ پاکستان امریکہ کی حمایت جاری رکھے؟ حکومت ِپاکستان کو چاہیے کہ وہ افغان پالیسی پر قومی اُمنگوں اور قومی مفادات کی روشنی میں نظر ثانی کرے۔ دینی راہنماوٴں پر قائم کردہ بغاوت کے مقدمات واپس لیے جائیں۔ اور جہادی تنظیموں کے خلاف کاروائیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
(13) امت ِمسلمہ کے علماء اور فقہاء کی کثیر تعداد نے جارح امریکہ کے خلاف جہاد کا فتوی دیا ہے اور افغان بھائیوں کی ہرطرح کی مدد کو مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ ایسے ننگ ِملت، ننگ ِدین افراد بھی ہیں جو'عالم دین' کہلاتے ہیں مگر ان کی تمام تر توانائیاں اہل دربار کی خوشنودی کے حصول میں صرف ہوتی ہیں، کچھ ایسے بے ضمیر'مذہبی دانشور' بھی ہیں جنہوں نے ابتلا کی اس گھڑی میں مسلمانوں کے دکھ میں شریک ہونے کی بجائے افغانستان پر امریکی حملے کو 'جائز' قرار دیا۔
وہ تو پہلے بھی ساقط الاعتبار تھے اور آئندہ بھی مسلمانوں کے دلوں میں ان کے بارے میں حقارت اور نفرت کے جذبات پیدا ہوں گے ، مگر انہوں نے اس طرح کے دل آزار بیانات دیکر اپنی اصلیت اور خبث ِباطن کو ظاہر کر دیا ہے ۔ایک پیر صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم طالبان کی حمایت نہیں کر سکتے کیونکہ وہ 'دیوبندی' ہیں، ایک اور 'دانشور' جو اسلامی شریعت کو یونانی اشراقیت کے آئینے میں دیکھتے ہیں، نے کہا :"افغانستان پر امریکی حملہ دہشت گردی نہیں ہے۔"
(14) ابتلا اور آزمائش کی اس گھڑی میں مسلمانوں کو حوصلہ بلند رکھنا چاہیے ۔قرآن میں ارشاد ہے
"نہ کم ہمتی کا مظاہرہ کرو، نہ ہی رنج وغم میں مبتلا ہو۔اگر تم ایمان پر قائم رہے تو (بالآخر) تم ہی غالب رہو گے۔"
عارضی شکست سے مسلمانوں کودل برداشتہ نہ ہونے کی تلقین فرمائی گئی۔غزوئہ اُحد کے بعد جب مسلمان حزن وملال اور غم کی کیفیت کا شکار تھے تو اللہ کی جانب سے انہیں اس طرح حوصلہ دیا گیا، فرمایا:
"اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو تمہارے دشمنوں کو بھی توایسا ہی زخم لگا تھا۔ اور ان دنوں کو ہم لوگوں کو مابین اَدلتے بدلتے رہتے ہیں تا کہ اللہ ظاہر کر دے کہ کون واقعی صاحب ِایمان ہیں اور تم میں سے کچھ کو شہادت کے مقام پر بھی فائز کر دے۔ اور یقینا اللہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا اور یہ اس لیے ہے تا کہ اللہ اہل ایمان کو (منافقت سے )بالکل پاک کر دے۔اور بالآخر کافروں کو نیست ونابود کر دے" (آل عمران :۱۳۹،۱۴۱)
سقوطِ کابل کے بعد مسلمانوں کا دل گرفتہ ہونا فطری امر ہے۔ پورے عالم اسلام پر رنج والم کی کیفیت طاری ہے۔ مگر مسلمان شب ِ ظلمات میں بھی تو سحر کا امکان دیکھتے ہیں!!
مسلمانوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ان کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔ان شاء اللہ
بقولِ اقبال
ع
اگر افغانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا !
٭٭٭٭٭