مولانا امین احسن اصلاحی کا نظریہٴ حدیث
مولانا امین احسن اصلاحی ؒکے نظریۂ حدیث کامطالعہ کرنے سے پہلے مناسب ہو گا کہ حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام اور منکرین حدیث کے بارے میں مولانا مرحوم کا رویہ ایک آپ بیتی سے ملاحظہ فرمائیں : مجھے ستر کی دہائی کے شروع میں کافی عرصہ مولانا مرحوم کی خدمت میں استفادہ کے لیے جانے کا موقع ملتا رہا جبکہ وہ رحمان پورہ ، لاہور میں رہائش پذیر تھے۔ پھر ان کے رحمان آباد (مریدکے) منتقل ہوجانے کی وجہ سے یہ سلسلہ ملاقات معطل ہوگیا تھا کہ ایک عرصہ بعد علم ہوا کہ مولانا تفسیر ’تدبر قرآن‘ مکمل کر کے لاہور کینٹ میں رہائش پذیر ہیں اور وہ ’خدمت ِحدیث ‘ کا کوئی ’عظیم کام‘ کرنا چاہتے ہیں ۔ میں ان دنوں رابطہ عالم اسلامی کانفرنس، مکہ مکرمہ سے واپس لوٹا تھا ۔ اس کانفرنس میں خصوصی طور پرکرنل قذافی (صدر لیبیا) کی ہفوات متعلقہ سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا چرچا تھا جس میں شعائر حج وغیرہ کا مذاق اُڑانا بھی شامل ہے ۔ اسی تاثر کو لیے ہوئے جب میں مولانا اصلاحی کی خدمت میں تفسیر قر آن کی تکمیل کی مبارک باد کہنے گیا توساتھ ہی ان کے آئندہ عزائم کے بارے میں کچھ کہنے کو دل چاہا ۔ مولانا مرحوم کافی اونچا سنتے تھے لہٰذا چیخ چیخ کر اپنی بات سنائی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ نظریہ کے ساتھ تطبیق کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’مارکس‘ کا نظریۂ اشتراکیت اس وقت مقبول ہوا جب اسے ’لینن ‘ میسر آگیا۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مستشرقین کا نظریۂ ’انکارِ حدیث ‘ جس کا پاکستان میں ترجمان مسٹر غلام احمد پرویز ہے، اسے ’قذافی‘کی شکل میں اقتدار کی قوت سے نفوذ دینے والا بھی میسر آگیا ہے لہٰذا اب خدمت ِحدیث کا بڑا کام یہ ہوگا کہ مسٹر غلام احمد پرویز کے نظریات اور مغالَطوں کا جواب دیاجائے جو آپ جیسا ’عالم دین ‘ بخوبی کر سکتا ہے جبکہ آپ اب تفسیر قرآن کی خدمت سے بھی فارغ ہو چکے ہیں۔ میں یہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ مولانا مرحوم کے احبابِ خاص کی ایک ٹولی وہاں پہنچ گئی ۔جس پر مولانا موصوف طیش میں آگئے اور مجھے مخاطب کر کے (میرے مشورہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ) کہنے لگے کہ میں اس (حدیث کی حمایت کا مشورہ دینے والے ) کو کچلنا چاہتا ہوں ۔
اس سلسلے میں وہ چمک میں بہت کچھ کہہ گئے لیکن میں پہلے ہی اونچا بول کر کافی تھک چکا تھا اوریہ بھی میرے ذہن میں تھا کہ وہ یہ جلال اپنے معروف شاگردوں کے سامنے دکھا رہے ہیں لہٰذا کچھ کہے بغیر دل گیر اُٹھ کر چلا آیا اور رستے میں یہ سوچتا رہا کہ مجھے تو مولانا سے کافی حسن ظن تھا، اسی لیے مسٹر غلام احمد پرویز کے خلاف کام کرنے کی ترغیب دی۔ میں تو اب تک مولانا کے افکار کے بارے میں بھول میں ہی رہا۔ کیونکہ مولانا مرحوم مسٹر غلام احمد پرویز کے خلاف نہ صرف کوئی بات سن نہیں سکے بلکہ وہ ان لوگوں کا سربھی کچلنے پر آمادہ ہیں اوراب خدمت ِحدیث کے نام پر ’ تحریک ِاہل حدیث ‘ کے خلاف پر تول رہے ہیں ۔ بعد ازاںایک عرصہ مولانا مرحوم کی خدماتِ حدیث اسی رنگ میں سامنے آتی رہیں اور دل پر پتھر رکھ کر ہم برداشت کرتے رہے ۔ ( ح ۔ ع۔ م )
برصغیر پاک و ہند کے معروف دینی سکالر مولانا امین احسن اصلاحی بعمر ۹۴ سال ۱۵/ دسمبر ۱۹۹۷ء کو لاہور میں انتقال فرما گئے۔آپ نے مولانا حمید الدین فراہی، مولانا عبدالرحمن نگرامی اور مولاناعبدالرحمن محدث مبارکپوری (صاحب ِتحفة الاحوذی شرح ترمذی )جیسے ماہر اساتذہ سے مختلف علوم و فنون میں دَرک حاصل کیا۔ مولانا ابوالحسن ندوی، مولانا منظور احمد نعمانی جیسے نامور لوگوں کے ساتھ سید مودودی کی رفاقت اختیار کی۔ طویل عرصہ تک ان کے دست ِراست اور نائب امیر کے طور پر کام کیا۔ جماعت اسلامی سے جنوری ۱۹۵۸ء میں حتمی طور پر علیحدہ ہوگئے۔1
بعد ازاں آپ نے اپنے استادِ گرامی کی فکر کو آگے بڑھانا زندگی کا مشن قرار دیا اورباقی ماندہ عمر فکر فراہی کے پرچار میں گزاری۔ اس کے لئے تدبر ِقرآن کی صورت میں ۸ جلدوں پر مشتمل اردو تفسیر عرصہ ۲۱ سال میں مکمل کی۔2مبادیٴ تدبر قرآن اور مبادیٴ تدبر حدیث جیسی اُصولی، حقیقت ِدین جیسی نظریاتی، تزکیہٴ نفس جیسی اِصلاحی، دعوتِ دین اور اس کا طریقہ کار جیسی تبلیغی و دعوتی، اسلامی ریاست اور اسلامی قانون کی تدوین جیسی فقہی، اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام اور قرآن میں پردے کے احکام جیسی معاشرتی اُمور سے متعلقہ کتب بطورِ یادگار چھوڑیں۔
آپ کا علمی مقام بلند اور عمر طویل تھی، اس لئے مختلف اسلامی موضوعات پر آپ کے کاموں کا سلسلہ بھی وسیع و عریض تھا۔ اس وقت آپ کے جملہ علمی کاموں کا جائزہ لینا ہمارا مقصود نہیں بلکہ صرف مولانا کے نظریہٴ حدیث کے حوالے سے چند اُمور کی نشان دہی مطلوب ہے۔
قرآن مجید سے خصوصی شغف رکھنے اور مولانا فراہی سے علومِ قرآن میں خوب استفادہ کرنے کے بعد صاحب ِ'تحفة الاحوذی' شرح سنن ترمذی مولانا عبدالرحمن مبارکپوری سے خصوصی استدعا کے ساتھ اصولِ حدیث میں شرح نخبة الفکر اور متن حدیث میں ترمذی شریف پڑھی۔3ان کے اپنے الفاظ میں "تاکہ حدیث سمجھنے کا سلیقہ سیکھوں" اور اس کے لئے روزانہ گھنٹوں کی پڑھائی کے علاوہ پیدل ۴ میل آنے جانے کاسفر بھی طے کرتے تھے۔4
تدبر ِقرآن سے فراغت پانے پر تدریس حدیث کا سلسلہ سالہا سال تک جاری رکھا۔ ا س میں موطأ ٴامام مالک اور مسلم شریف مکمل پڑھائی جبکہ صحیح بخاری مکمل نہ کرسکے۔
حدیث سے متعلق مولانا کا عام رویہ
مولانا امین احسن اصلاحی حدیث ِنبوی کے حوالے سے اصولِ حدیث اور محدثین کی کردہ کوششوں کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کرنے والے بھی نہ تھے٭ لیکن منکرین حدیث کی طرح کھل کر اُصول حدیث کا ردّ بھی نہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی اُصولِ حدیث و اخبارِ آحاد کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی مشہور اور متواتر احادیث کا انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی مشہور کتاب 'اسلامی قانون کی تدوین' میں لکھتے ہیں
" نمازوں کے اوقات کیا کیا ہیں؟ نمازیں کتنی بار پڑھی جائیں اور کس طرح پڑھی جائیں؟ مختلف چیزوں پر زکوٰة کی مقدار کیا ہو؟ روزں کی عملی شکل و صورت کیاہے؟ حج کے مناسک کیا ہیں؟ اسلامی معاشرے میں کیا چیزیں امتیازی خصوصیات کی حیثیت رکھتی ہیں؟ اسلامی نظام کی عملی شکل کیا ہوتی ہے؟ اور اس طرح کے جتنے مسائل بھی ہیں، ان میں سے کون سی چیز ہے جو اُمت کے عملی تواتر نے ہم تک منتقل نہیں کی ہے۔ یہ ساری چیزیں ہم نے صرف حدیث کی کتابوں ہی سے نہیں جانی ہیں۔ بلکہ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے مختلف طریقوں سے اور اتنے مختلف طریقوں سے جانی ہیں کہ ان کا انکار کرنا یا ان کو مشتبہ اور مشکوک ٹھہرانا بالکل ہدایت کا انکار کرنا اور ایک ثابت اور قطعی حقیقت کو جھٹلانا ہے۔ حدیث کی کتابوں کا احسان یہ ہے کہ ان کے ذریعے یہ چیزیں تحریر میں بھی آگئیں اور اس طرح تحریر میں آگئیں کہ انسانی ہاتھوں سے انجام پاتے ہوئے کسی کام میں زیادہ سے زیادہ جو اِحتیاط ممکن تھی، وہ انکے ضبط و تدوین کے معاملے میں ملحوظ رکھی گئی ہے۔5
جب انکار کرنے پر آتے ہیں تو مشہور و متواتر روایات کا اِنکار بھی کرجاتے ہیں۔ مثلاً احادیث ِرجم جو کہ ۳۴ صحابہ کرام سے مروی ہیں اور ان پر کثرتِ طرق و صحت ِمضمون کی بنا پر حافظ ابن حجر، امام شوکانی، مولانا ثناء اللہ پانی پتی، امام رازی، امام نووی، حافظ ابن کثیر وغیرہ میں سے بعض نے صحت اور بعض نے متواتر کا حکم لگایا ہے۔6
مولانا اصلاحی کا سنت کا نیا مفہوم متعین کرنا اور اَحادیث سے بُعد کی راہ دکھلانا
مولانا کے خیال میں سنت سے مرادا نبیا سے صرف ثابت شدہ اور معلوم طریقہ ہے۔ ا س پر آپ نے بار بار عمل کیا ہو، جس کی آپ نے محافظت فرمائی ہو، جس کے حضورصلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر پابند رہے ہوں۔ جبکہ حدیث ہر وہ قول وفعل یا تقریر (برقرار رکھنے کیلئے آپ کی خاموشی) ہے جس کی روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کیساتھ کی جائے۔7 جبکہ محدثین اور فقہا کے ہاں سنت اور حدیث باہم مترادف ہیں، چنانچہ الجزائری لکھتے ہیں
«أما السنة فتطلق علی الأکثر علی ما أضيف إلی النبي ﷺ من قول أو فعل أو تقرير فهي مرادفة للحديث عند علماء الأصول»8
"سنت کا اِطلاق زیادہ تر اس چیز پر ہوتا ہے جس کی نسبت آنحضرت کی طرف ہو، "قول ہو یا فعل ہو یا تقریر ہو"... علماءِ اُصول کے ہاں یہ حدیث کے مترادف ہے۔"
صاحب ِمسلم الثبوت کے نزدیک
«السنة لغةً العادة وههنا ما صدر عن رسول اللهﷺ غير القرآن من قول أو فعل أو تقرير کذا في شرح المختصر»9
" لغت میں سنت کے معنی عادت کے ہیں لیکن یہاں وہ چیز جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کے علاوہ قول، فعل یا تقریر کی صورت میں مروی ہو (مراد ہے)۔"
امام شاطبی نے سنت کو نقل سے مخصوص کیاہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں
«يطلق لفظ السنة علی ما جاء منقولا عن النبيﷺ علی الخصوص مما لم ينص عليه في الکتاب العزيز»10
"سنت کے لفظ کا اِطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو خاص طور پر وہ چیز جس پر کتابِ عزیز کی نص نہ ہو۔"
اسی طرح صاحب ِنور الانوار لکھتے ہیں
«السنة تطلق علی قول الرسول وفعله وسکوته وعلی أقوال الصحابة وأفعالهم»11
"سنت کا اِطلاق قولِ رسول، آپ کے فعل اور آپ کی خاموشی پر ہوتا ہے اور صحابہ کے اقوال اور افعال پر بھی ہوتا ہے۔"
اِمام شوکانی فرماتے ہیں:
«فأما معناها شرعا في اصطلاح أهل الشرع فهي قول النبي وفعله وتقريره »12 اہل شرع کی اصطلاح میں سنت کا شرعی معنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل اور تقریر ہے۔"
نواب صدیق حسن خاں فرماتے ہیں:« فھي قول النبي وفعله و تقریرہ»13
"سنت کا اطلاق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر پر ہوتا ہے۔"
ابن ملک کی کتاب 'شرح منار الاصول' کے حوالے سے فرماتے ہیں:
«إن السنة تطلق علی قول رسول الله وفعله و تقريره»14
"سنت کا اطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر پر ہوتا ہے۔"
مذکورہ بالا تعریفوں کے علاوہ دیگر ائمہ حدیث کی کتب میں بھی سنت کو حدیث کے مترادف ہی بیان کیا گیا ہے اور سنت کو آپ کے مواظبت کے ساتھ اختیار کردہ اعمال کے دائرے تک سیکڑا نہیں گیا ہے۔ کیونکہ اس سے سنت کا دائرہ بالکل محدود ہو کر رہ جائے گا اور احادیث کا عظیم ذخیرہ اس شرط کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں ٹھہرے گا۔ علاوہ ازیں سنت کو حدیث کے مترادف مفہوم میں لیتے ہوئے ڈاکٹر مصطفی سباعی نے السنة ومکانتها في التشريع الاسلامي نامی کتاب لکھ کر حدیث کا ہی دفاع کیا ہے۔٭ اسی طرح پیر کرم شاہ صاحب الازہری نے 'سنت خیرالانام' نامی کتاب میں بھی حدیث کا ہی دفاع کرکے سنت اور حدیث کو باہم مترادف گردانا ہے۔مولانا مودودی نے سنت کی آئینی حیثیت میں بھی حدیث ِنبوی کو ہی زیر بحث بناکر اس کی حجیت کے بارے میں طول وطویل بحثیں کی ہیں۔
مولانا اصلاحی 'مبادی ٴتدبر حدیث' میں لکھتے ہیں :
"سنت کی بنیاد احادیث پر نہیں ہے جن میں صدق و کذب دونوں کا احتمال ہوتا ہے جیسا کہ اوپر معلوم ہوا بلکہ اُمت کے عملی تواتر پر ہے۔ جس طرح قرآن قولی تواتر سے ثابت ہے، اسی طرح سنت اُمت کے عملی تواتر سے ثابت ہے۔ مثلاً ہم نے نماز اور حج وغیرہ کی تفصیلات اس وجہ سے نہیں اختیا رکیں کہ ان کو چند راویوں نے بیان کیا بلکہ یہ چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمائیں۔ آپ سے صحابہ کرام نے، ان سے تابعین پھر تبع تابعین نے سیکھا۔ اسی طرح بعد والے اپنے اگلوں سے سیکھتے چلے آئے۔ اگر روایات کے ریکارڈ میں ان کی تائید موجود ہے تو یہ اس کی مزید شہادت ہے۔ اگر وہ عملی تواتر کے مطابق ہے تو فبہا اور دونوں میں فرق ہے تو ترجیح بہرحال اُمت کے عملی تواتر کو حاصل ہوگی۔ اگر کسی معاملے میں اخبار آحاد ایسی ہیں کہ عملی تواتر کے ساتھ ان کی مطابقت نہیں ہورہی ہے تو ان کی توجیہ تلاش کی جائے گی اور توجیہ نہیں ہوسکے گی تو بہرحال انہیں مجبوراً چھوڑا جائے گا، اس لئے کہ وہ ظنی ہیں اور سنت ان کے بالمقابل قطعی ہے ٭ "۔15
مولانا اصلاحی کی جمہور سے ہٹ کرسنت کی اپنی وضع کردہ تعریف سے قطع نظر، سنت و حدیث کا باہم بیان کردہ فرق ناقابل فہم ہے۔ کیونکہ وہ سنت کو قطعی بلکہ ثبوت کے اعتبار سے قرآن کی طرح یقینی مانتے ہیں اور احادیث کو ظنی کہہ کر ردّ کر جاتے ہیں حالانکہ سنت یا حدیث اپنے مصدر کے اعتبار سے دونوں ہی حجت ہیں۔ ہم تک پہنچنے کے ذرائع کی صحت کی بنا پر ایک کی حجیت میں اضافہ نہیں ہوسکتا اور ذرائع کے ضعف کی وجہ سے دوسرے کی حجیت ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ دونوں کا صدور اس ہستی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا ہے جس کا دین کے بارے میں ہر قول وحی اور ہر فعل اُمت کے لئے اُسوہٴ حسنہ ہے۔ ذرائع میں تواتر اور عدم تواتر کی بنا پر دونوں میں ظنیت و قطعیت کے فرق کا پہاڑ کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔٭
مولانا کے ہاں اُصولِ تفسیر میں سنت ِمتواترہ اور احادیث کا مقام
'مبادی ٴتدبر قرآن' میں مولانا نے تفسیرکے چار قطعی اُصول بیان فرمائے ہیں:
(1) ادبِ جاہلی (2) نظم قرآن
(3) تفسیر القرآن بالقرآن (4) سنت ِمتواترہ16
اور اس کے بعد ظنی ماخذ کے طور پر اَحادیث کو قبول کرتے ہیں17 مولانا کے ہاں عربیت اور ادبِ جاہلی کے مقابلے میں نہ صرف احادیث٭ بلکہ سنت ِمتواترہ بھی کمتر ہے اوران کی قائم کردہ ترتیب میں سنت چوتھے نمبر پر ہے اور ادبِ جاہلی پہلے نمبر پر۔ نہ جانے قرآن فہمی کے چالیس سال کی طویل مدت میں مولانا آیت ﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم...٤٤ ﴾... سورة النحل" کا مفہوم کیا سمجھے ہیں؟
موطا ٴامام مالک، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو مولانا نے 'مبادی ٴتدبر حدیث' میں اُمہاتِ فن میں شمار کیا ہے۔18 اور رجم کے متعلق ان میں یہ روایت موجودہے :
«عن ابن عباس أنه قال سمعت عمر بن الخطاب يقول الرجم في کتاب الله حق علی من زنی من الرجال والنساء إذا أحصن إذا قامت البينة أو کان الحبل أو الاعتراف»19
" حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر سے سنا ، وہ فرماتے تھے کہ رجم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں برحق ہے جو شخص بھی زنا کرے، مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ شادی شدہ ہو جبکہ گواہ قائم ہوجائیں یا عورت پر حمل ظاہر ہوجائے یا زانی اقرار کرلے۔"
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ایک روایت اس سے بھی زیادہ واضح ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا
«إن الله بعث محمدًا ﷺ بالحق وأنزل عليه الکتاب فکان مما أنزل آية الرجم فقرأنا ها وعقلناها ووعيناه رجم رسول الله ﷺ ورجمنا بعده»20
"اللہ نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل کی جو اُتارا گیا اس میں آیت رجم تھی۔ ہم نے اسے پڑھا، سمجھا اور یاد کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور بعد میں ہم نے رجم کیا۔"
جبکہ مولانا امین احسن اصلاحی کے اس روایت کے بارے میں تاثرات دل پر جبر کر کے نقل کئے دیتا ہوں اور آپ بھی دل کے جبر کے ساتھ پڑھتے جائیں، 'فرماتے' ہیں :
"اس روایت پر غور کیجئے تو ہر پہلو سے یہ کسی منافق کی گھڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے" ... آگے چل کر مزید لکھتے ہیں: "بہرحال یہ روایت بالکل بے ہودہ روایت ہے۔"21
حضرت ماعز کے رجم کے حوالے سے من گھڑت روایتوں اور بلا دلیل فیصلوں سے انہیں ایک نہایت بدخصلت غنڈہ، شریف بہوبیٹیوں کا تقاقب کرنے والا بکرا یا سانڈ قرار دے دیا ہے۔22 حالانکہ صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی توبہ کے بارے میں فرماتے ہیں: «ما توبة أفضل من توبة ماعز انه لينغمس في أنهار الجنة»ماعز کی توبہ سے بڑھ کر کوئی توبہ نہیں ہے وہ جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے۔" ...اسی طرح آپ نے فرمایا:« لقد تاب توبة لو قسمت بين أمة لوسعتهم »ا س نے ایسی توبہ کی ہے، اگر ایک قوم پر تقسیم کی جائے تو ان کے لئے کافی ہو۔"23 انصاف سے دیکھئے کہ احادیث ِرسول تو ان کے حسن خاتمہ کی گواہی دے رہی ہیں اورمولانا انہیں بدخصلت غنڈہ 'فرماتے' ہیں!!
نسخ قرآن بذریعہ احادیث میں مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر
جمہور محدثین و فقہا کے ہاں حدیث ناسخ قرآن ہوسکتی ہے لیکن مولانا کے خیال میں
"قرآن کے کسی حکم کو قرآن کے سوا کوئی دوسری چیز منسوخ نہیں کرسکتی ۔ بعض فقہا نے حدیث کو بھی قرآن کے لئے ناسخ مانا ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ مسلک صحیح نہیں۔"24
جبکہ نواب صدیق حسن نے 'حصول المامول من علم الاصول'میں لکھاہے کہ
«يجوز نسخ القرآن بالسنة المتواترة عند الجمهور وهو مذهب أبي حنيفة وعامة المتکلمين"»25
"جمہور کے نزدیک قرآن کا نسخ سنت متواتر سے جائز ہے۔ یہ ابوحنیفہ اور عام متکلمین کا مذہب ہے "
اسی طرح شیخ زرقانی نے مناھل العرفانمیں طویل کلام کے بعد فیصلہ دیا:
«هذا العرض يلخص لنا أن نسخ القرآن بالسنة لامانع يمنعه عقلا وشرعًا»26
"اس کا خلاصہ ہے کہ سنت سے قرآن کے نسخ کے لئے کوئی شرعی یا عقلی مانع نہیں ہے٭۔"
لیکن مولانا اصلاحی کی رائے جمہور کے خلاف ہے کہ وہ حدیث و سنت سے قرآن مجید کا نسخ جائز نہیں سمجھتے حالانکہ قرآن کی طرح حدیث و سنت بھی منزل من اللہ اور وحی ہونے کی بنا پر ایک دوسرے کے ناسخ ہوسکتے ہیں۔ لیکن مولانا اصلاحی نے کھلے لفظوں میں کہیں حدیث و سنت کا منزل من اللہ ہونا بیان نہیں فرمایا اور قرآن کی سنت سے منسوخی کے مسئلہ میں جمہور سے ہٹ کر مسلک اختیار کیا ہے جس سے ظاہری طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاں سنت منزل من اللہ ہی نہیں ہے، اسی لئے ناسخ قرآن نہیں ہوسکتی حالانکہ حدیث و سنت کا منزل من اللہ ہونا قرآن سے واضح ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے
﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ٣ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ٤ ﴾... سورة النجم
"وہ خواہش سے کلام نہیں کرتا وہ تو وحی ہے جو کی جاتی ہے۔"
منکرین حدیث کے الزامات سے مرعوب تجدد زدہ اَذہان کی پریشانی تو بجا ہے لیکن مولانا جیسے عالم دین سے جمہور کی روش سے ہٹ کر مسلک اختیار کرنا بڑا حیران کن ہے حالانکہ مولانا کے ہاں پائی جانے والی تواتر عملی کی توضیح اور جمہور کی روش تقریباً مترادف ہیں پھر بھی اس سے انکار چہ معنی دارد!؟
مولانا اصلاحی اور احادیث کی تشریح
مولانا احادیث کی تشریح بھی اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ حدیث «أمرت أن أقاتل الناس حتی يقولوا لا إله إلا الله» میں الناس سے مراد صرف 'بنی اسمٰعیل' لیتے ہیں۔27 کتاب الایمان میں امام بخاری نے باب ﴿فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلوٰةَ وَءاتَوُا الزَّكوٰةَ فَخَلّوا سَبيلَهُم... ٥ ﴾... سورة التوبة" لاکر بعد ازاں یہ حدیث باسند روایت کی ہے :
«عن ابن عمر أن رسول اللهﷺ قال: أمرت أن أقاتل الناس حتی يشهدوا أن لاإله إلا الله وأن محمدًا رسول اللهﷺ ويقيموا الصلاة ويوٴتوا الزکاة فإذا فعلوا ذلک عصموا منی دماء هم وأموالهم إلا بحق الإسلام وحسابهم علی الله»28
"حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں، اور زکوٰة دیں۔ جب وہ یہ کام کریں گے تو وہ مجھ سے اپنے خون اور مال بچالیں گے سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ پر ہوگا۔"
اس حدیث کی شرح میں مولانا امین احسن اصلاحی"الناس" سے مراد صرف بنو اسماعیل لیتے ہیں جبکہ شارحین حدیث میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس سے مراد 'مشرکین' لیا ہے۔29
امام نووی نے شرح مسلم، کتاب الایمان میں «باب الأمر بقتال الناس حتی يقولوا لا إله الله محمد رسول اللهﷺ ويقيموا الصلاة ويوٴتوا الزکاة ويوٴمنوا بجميع ما جاء به النبيﷺ وأن من فعل ذلك عصم نفسه وماله إلا بحقها ووکلت سريرته إلی الله، وقتال من منع الزکاة أوغيرها من حقوق الإسلام و اهتمام الإمام بشعائر الإسلام»30 عنوان قائم کرکے اس میں اس حدیث کے ساتھ اس جیسی چار اور حدیثیں مختلف سندوں سے بیان کی ہیں۔ پھر اس کی شرح میں لکھا ہے: قال الخطابي: «إن المراد بهذا أهل الأوثان دون أهل الکتاب لأنهم يقولون لا إله إلا الله»31
"خطابی نے کہا: اس سے مراد بتوں کے پجاری ہیں اہل کتاب نہیں کیونکہ وہ لا إله إلا اللہ کہتے ہیں"
تفسیر قرآن میں مولانا اصلاحی کی حدیث سے بے اعتنائی
(1) سورئہ بقرة کی آیت ﴿فَإِن طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَهُ....٢٣٠ ﴾... سورة البقرة "اگر وہ طلاق دے دے تو اس کے لئے وہ اس کے بعد حلال نہیں رہے گی یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے" سے مولانا اِصلاحی صرف عقد ِنکاح مراد لیتے ہیں، فرماتے ہیں :﴿حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَهُ﴾ میں نکاح کا لفظ ہمارے نزدیک عقد ِنکاح ہی ہے جن لوگوں نے اس کو 'وطی' کے معنی میں لیا ہے، انہوں نے ایک غیر ضروری تکلف کیا ہے۔32 جبکہ حضر ت رفاعہ القرظی کی حدیث میں بخاری شریف میں صاف لفظ ہیں: «لا حتی تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك»33 "نہیں ہوسکتایہاں تک کہ آپ اس کا مزہ چکھیں اور وہ آپ کا مزہ چکھے۔" جمہور کے نزدیک بھی عسیلةسے مراد 'جماع' ہے، قال الجمهور: «العسيلة کناية عن المجامعة»34
"جمہور کہتے ہیں: عسیلة مجامعت سے کنایہ ہے"۔
(2) اسی طرح سورئہ کہف میں ہے:﴿فَوَجَدا عَبدًا مِن عِبادِنا﴾ "انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا"۔ مولانا اصلاحی فرماتے ہیں:
"یہاں 'عبد' سے مراد حضرت خضر ہیں اور جن حدیثوں میں ان کا نام خضر آیا ہے چونکہ ان حدیثوں کے انکار کی کوئی وجہ ہمارے پاس نہیں، اس وجہ سے یہی نام اختیار کرتے ہیں"۔35
لیکن اس واقعہ سے قبل وہ خود فرماتے ہیں کہ
"اس میں تربیتی سفر کی داستان بیان کی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک حضرت موسیٰ کے اس سفر کا یہی مقصد تھا۔ لیکن بعض مفسرین نے معلوم نہیں کہاں سے یہ فضول سی بات لکھ دی کہ نعوذ باللہ حضرت موسیٰ ترنگ میں آکر کسی دن یہ کہہ بیٹھے کہ اس وقت مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بطورِ تادیب و تنبیہ ان کو اپنے ایک بندے کے پاس بھیجا کہ وہ دیکھ لیں کہ ان سے بھی بڑا ایک عالم موجود ہے"۔36
میرے خیال میں مندرجہ بالا بات خود مولانا صاحب نے ترنگ میں آکر فرمائی ہے جبکہ مفسرین نے یہ بات صحیح احادیث سے لیہے جس کا ذکر خود انہوں نے فرمایا کہ حضرت خضر کا نام احادیث میں آیا ہے۔ چنانچہ مولاناکی کتاب 'مبادیٴ تدبر حدیث' میں اُمہاتِ فن میں صحیح بخاری کا نام بھی شامل ہے۔ اس میں یہ حدیث موجود ہے :
«حدثنا الحميدي قال حدثنا سفيان قال حدثنا عمرو بن دينار قال أخبرنی سعيد بن جبير قال قلت لابن عباس أن نوفا البکالی يزعم أن موسی صاحب الخضر ليس هو موسی صاحب بني إسرائيل فقال ابن عباس: کذب عدو الله حدثني أبي بن کعب أنه سمع رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول إن موسی قام خطيبا في بني اسرائيل فسُئل أي الناس أعلم؟ فقال: أنا فعتب الله عليه إذا لم يرد العلم إليه فأوحی الله إليه أن لي عبدا بمجمع البحرين هو أعلم منك قال موسیٰ يارب فکيف لي به قال تأخذ معك حوتا فتجعله في مکتل فحيث ما فقدت الحوت فهو ثم، فأخذ حوتا فجعله في مکتل ثم انطلق وانطلق معه بفتاه يوشع ابن نون حتی إذا أتيا الصخرة وضعا روٴسهما فناما واضطرب الحوت في المکتل فخرج منه فسقط في البحر فاتخذ سبيله في البحر سربا وأمسك الله عن الحوت جرية الماء»37
"عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ سعید بن جبیر نے مجھے بتایا کہ میں نے ابن عباس سے کہا: نوف بکالی کا خیال ہے کہ حضرت موسیٰ صاحب ِخضر، بنی اسرائیل کے موسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں۔ حضرت ابن عباس نے کہا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا، مجھے اُبی بن کعب نے بیان کیا، ا س نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے: حضرت موسیٰ بنی اسرائیل میں خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو ان سے سوال کیا گیا کہ کون سب سے بڑا عالم ہے؟ تو انہوں نے کہا میں، اللہ تعالیٰ نے اُن کو عتاب فرمایا، جب انہوں نے علم کو اللہ کی طرف منسوب نہ کیا۔ ان کی طرف وحی کی گئی کہ میرا ایک بندہ مجمع البحرین کے مقام پر ہے، وہ آپ سے بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، اے اللہ! میں ان سے کیسے ملوں، فرمایا: آپ ٹوکری میں ایک مچھلی ساتھ لے کر جائیں جہاں مچھلی گم ہوجائے، وہاں وہ ہوگا۔ انہوں (موسیٰ علیہ السلام) نے مچھلی لی اور اس کو ٹوکری میں رکھا اور چلے گئے اور ان کے ساتھ یوشع بن نون تھے۔ جب چٹان کے پاس آگئے تو دونوں نے اپنے سر ٹیک کرسوگئے۔ مچھلی ٹوکری سے نکلی اور سمندر میں گر گئی، اس نے سمندر میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بنا لیا ۔
(3) اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اِرشاد ربانی ہے ﴿هُوَ الَّذى بَعَثَ فِى الأُمِّيّـۧنَ رَسولًا مِنهُم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ...٢ ﴾... سورة الجمعة "وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتااور ان کو سنوارتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتاہے۔" اوریہ ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی قبولیت کا نتیجہ تھا :﴿رَبَّنا وَابعَث فيهِم رَسولًا مِنهُم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَيُزَكّيهِم...١٢٩ ﴾... سورة البقرة "اے ہمارے ربّ ان میں ایک رسول انہی میں سے بھیج جو ان پر تیری آیات پڑھے اور ان کو کتاب اورحکمت سکھائے اور ان کو پاک کرے۔" ان آیات میں حکمت سے مراد کیا ہے ، اس بارے میں مولانا کا خیال ملاحظہ ہو۔ مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں:
"تیسری چیز تعلیم حکمت ہے، حکمت کے متعلق ایک نہایت ہی اہم سوال یہ ہے کہ حکمت قرآن ہی کا ایک جزو ہے یا اس سے علیحدہ کوئی چیز ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ کتابِ الٰہی جس طرح آیات اللہ اور اَحکام پر مشتمل ہے، اس طرح حکمت پر بھی مشتمل ہے لیکن ہمارا یہ دعویٰ ان لوگوں کے خلاف پڑے گا جو حکمت سے حدیث یا بعض دوسرے علوم مراد لیتے ہیں38 پھر لکھتے ہیں :
"لیکن یہ بات صحیح نہیں کہ اس آیت میں حکمت سے مراد حدیث ہے۔"39
بعد ازاں مولانا اپنے دعویٰ کی دلیل کے لئے قرآن مجید کی متعدد آیات سے استدلال کرتے ہیں جبکہ اُمت کے اکثر علماء و محدثین اس سے حدیث ِرسول مراد لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اِمام شافعی قرآنِ مجید میں کتاب کے ساتھ جہاں حکمت کا لفظ آیا ہے، ان سات آیات کو ذکر کرکے فرماتے ہیں: «فذکر الله الکتاب وهو القرآن وذکر الحکمة فسمعت من أرضی من أهل العلم بالقرآن يقول الحکمة سنة رسول الله»40 "اللہ نے کتاب کا ذکر فرمایا وہ قرآن ہے۔ حکمت کا ذکر فرمایا میں نے قرآن کے معتبر عالموں سے سنا، وہ فرماتے تھے: حکمت سے مراد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔" اسی طرح امام شافعی نے اپنی دوسری کتاب 'الأمّ' میں بھی حکمت سے مراد 'سنت' ہی لکھا ہے۔41 اسی طرح ابن عبدالبر بھی قتادہ اور حضرت حسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ یہاں حکمت سے مراد حدیث ِنبوی ہے۔42
مندرجہ بالا حقائق سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں جہاں عام محدثین، مفسرین فقہاء اور علماء حکمت سے مراد 'حدیث' لیتے ہیں وہاں ان کا نقطہ نظر ان سے الگ ہے۔
مبادی ٴتدبر قرآن میں تفسیر کے چار قطعی مآخذ لکھ کربعد ازاں فرماتے ہیں:
"اب میں آپ کے سامنے تفسیر کے ظنی ماخذوں کی بابت عرض کروں گا۔ ظنی سے میری مراد یہ ہے کہ ان کے اوپر ہر حال میں پورا اطمینان نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کے اندر چونکہ ظن اور شبہ کو دخل ہے، اس لئے ان کو قرآن کی تفسیر میں وہیں تک دخیل بنایا جائے گا جہاں تک وہ قرآن سے موافقت کریں۔ تفسیر کے ظنی ماخذوں میں سب سے اَشرف اورسب سے زیادہ پاکیزہ چیز احادیث اور آثارِ صحابہ ہیں۔ اگر ان کی صحت کی طرف سے پورا اطمینان ہوتا تو تفسیر میں ان کو یہی اہمیت حاصل ہوجاتی جو اہمیت سنت ِمتواترہ کی بیان ہوتی ہے لیکن چونکہ ان کی صحت پر پورا پورا اِطمینان نہیں کیا جاسکتا، اس لئے ان سے تفسیر میں اسی حد تک فائدہ اٹھایا جائے گا جہاں تک یہ ان قطعی اصولوں کی موافقت کریں جو اوپر بیان ہوئے ہیں"۔43
مولانا نے اپنے ماخذ ِتفسیر میں حدیث کو ظنی حیثیت دی ہے۔ ان کے ہاں 'ظن' کی حیثیت 'یقین' کی نہیں حالانکہ قرآن میں کئی جگہ لفظ 'ظن' یقین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اہل لغت نے بھی یقین کے معنوں میں استعمال کیا ہے جبکہ ان کے خیال میں وہم اور شک کے معنوں میں ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: احادیث کو 'ظنی' بھی کہتے ہیں۔44
تفسیر تدبرقرآن میں احادیث سے استفادہ
دوسری طرف مولانا نے اپنی تفسیر کی چھ جلدوں میں جوکل احادیث نقل کی ہیں، ان کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے۔ پوری تفسیر میں کتب ِحدیث میں سے صرف بخاری، مسلم اور ترمذی شریف کا نام گنتی کے چند مقامات پر پایا جاتا ہے :
تفسیر تدبر قرآن کی جلد اول کے ۸۳۶ صفحات ہیں جبکہ ان میں سترہ احادیث لکھی ہیں۔ ان میں صرف ایک جگہ صحیحین 45ایک جگہ صرف مسلم46 اور صرف ایک مقام پر ترمذی شریف کا نام ہے۔47 ... جلد دوم ۸۰۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں دس احادیث ہیں اور ۹ احادیث کتاب کے نام کے بغیر درج کی ہیں، صرف ایک جگہ صحیح بخاری کا نام ہے۔48... جلد سوم ۸۰۸ صفحات پر مشتمل ہے جس میں چھ احادیث بغیر حوالہ کے درج ہیں۔ دو حدیثیں مکرر لکھی گئی ہیں گویا کل چار احادیث جلد سوم میں ہیں۔49 ... جلدچہارم کے ۸۶۶ صفحات میں صرف ایک حدیث نقل کی ہے۔ ... جلد پنجم کے ۶۲۷ صفحات میں صرف سات احادیث نقل کی ہیں۔ صرف صحیح بخاری کا نام دو جگہ پر ہے اور کسی حدیث کی کتاب کا نام نہیں ہے۔50 ... جلد ششم کے ۶۴۶ صفحات ہیں جن میں کل چھ احادیث لکھی ہیں۔51
گویا چار ہزار آٹھ سو ستر (۴۸۷۰) صفحات پر پھیلی ہوئی کتاب میں گنتی کی کل ۴۰ /احادیث ہیں۔ لیکن دیگر مصادر کی بھرمار ہے جاہلی ادب سے کافی استفادہ کیا گیا ہے۔ اہل لغت کی طرف بھی کافی رجحان ہے لیکن مولانا کی حدیث ِنبوی سے اس قدر بے اعتنائی کی سمجھ نہیں آتی۔
اِن تمام باتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا قطعی طور پر حدیث کا انکار نہیں کرتے،بلکہ بعض اوقات فتنہ انکار حدیث کا ردّ بھی کرتے ہیں لیکن انکے نظریہ سے انکارِ حدیث کے فتنہ کو تقویت ملتی ہے٭ اور بعض مقامات پر ان سے حدیث کے معاملہ میں استخفاف کا پہلو نکلتا ہے۔ رجم کی متواتر احادیث کے متعلق ان کے بیانات محدثین کے نقطہ نظر سے بالکل مختلف ہیں۔ اپنی تفسیرمیں مولانا احادیث سے بڑھ کر ادبِ جاہلی اور لغت پراعتماد کرتے ہیں۔ اس بات کا کوئی مسلم سکالر انکار نہیں کرسکتا کہ قرآن کی تشریح جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے وہ باقی سب لوگوں سے مقدم ہے۔ تفسیر کے موضوع پر کتب ِاحادیث میں کافی مواد موجود ہے لیکن مولانا نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی۔
حوالہ جات
1. (تدبر، لاہور شمارہ۵۹، جنوری ۱۹۹۸ء، ص۱۱، مقالہ نگار: خالد مسعود، علم و عرفان کے ماہ کامل کا غروب)
2. تکبیر، ج۱۹، شمار نمبر ۷۵۲،۱۹ تا ۲۵ دسمبر ۱۹۹۷ء، صاحب ِتدبر قرآن امین احسن اصلاحی رخصت ہوئے، مقالہ نگار نصر اللہ غلزئی، ص۴۷
3. امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، ج۱ ،ص۶، (فاران فاؤنڈیشن، لاہور، ۱۹۷۳۔ ۱۹۷۷ء)
4. امین احسن اصلاحی، مبادی تدبر حدیث، (فاران فاؤنڈیشن لاہور، طبع اول، ۱۹۸۹ء) ص ۱۴
5. امین احسن اصلاحی، اسلامی قانون کی تدوین، ص۶۸، بحوالہ حد رجم اوراس کی شرعی حیثیت، ص۴۸۔۵۹
6. حافظ صلاح الدین یوسف، حد رجم اور اس کی شرعی حیثیت (مکتبہ السلفیہ لاہور) ص۱۲ تا ۴۸
7. ترجمان القرآن، لاہور اکتوبر ۱۹۵۵ء ص ۱۳۷
8. الجزائري ، طاہر بن صالح بن احمد،توجیه النظر إلی أصول الأثر (دارالمعرفة بیروت) ص۳
9. محب اللہ بن عبدالشکور، مسلم الثبوت مع شرح (محمد سعید اینڈ سنز تاجران کراچی) ج۲، ص۶۶
10. أبوإسحاق إبراہیم بن موسیٰ الشاطبي، الموافقات في أصول الشریعة (المطبعہ الرحمانیہ القاھرہ) ج۴، ص۳
11. احمد المعروف ملا جیون، نورالأنوار مع شرح قمر الأقمار، مطبعہ علیمی لاہور، ۱۹۵۸ء، ص۱۷۵
12. محمد بن علی الشوکانی، ارشاد الفحول إلی تحقیق الحق من علم الأصول، (دارالباز مکہ المکرمہ) ص۲۹
13. نواب السید محمد صدیق حسن خان، حصول المامول من علم الأصول، (مطبعہ مصطفی محمد القاھرہ، ۱۳۵۷ھ/۱۹۳۸ء) ص۳۸
14. محمد عبدالحی لکھنوي، ظفر الأماني بشرح مختصر السید شریف الجرجاني في مصطلح الحدیث (مکتب المطبوعات الاسلامیہ حلب ۱۴۱۶ھ) ص۲۴۔۲۵
15. امین احسن اصلاحی ،مبادی تدبر حدیث، ص۲۸
16. امین احسن اصلاحی، مبادی ٴتدبر قرآن، (فاران فاؤنڈیشن لاہور، طبع اول، ۱۹۹۱ء) ص۱۹۱۔۲۱۷
17. ایضا ً، ص۲۱۸
18. مبادی ٴتدبر حدیث، ص۱۴۶
19. موطا ٴامام مالک ص ۸۲۳
20. بخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح (نور محمد اصح المطابع کراچی) ج۲، ص۱۰۰۹، مسلم، الجامع الصحیح (نور محمد اصح المطابع کراچی) ج۲، ص۶۵، کتاب الحدود
21. تدبر قرآن، ج۴، ص۵۰۲
22. تدبر قرآن، ج۴، ص۵۰۵
23. مسلم الجامع الصحیح، ج۲ ص۶۸
24. تدبر قرآن، ج۱ ص۲۷۱
25. صدیق حسن، حصول المامول من علم الاصول، ص۱۲۷
26. عبدالعظیم زرقانی، مناھل العرفان فی علوم القرآن، (داراحیاء التراث العربی القاھرہ) ج۲، ص۱۳۹۔۱۴۰
27. مبادی تدبر حدیث، ص۵۴
28. البخاری، الجامع الصحیح، ج۱ ص۸
29. ابن حجر احمد بن علی عسقلانی، فتح الباری شرح الجامع الصحیح للبخاری، (دارالنشر الکتب الاسلامیہ لاہور) ج۱، ص۲۵
30. مسلم، الجامع الصحیح مع شرح نووی، ج۱، ص۳۷
31. مسلم الجامع الصحیح، مع شرح نووی، ج۱، ص۳۹
32. تدبر قرآن، ج۲ ، ص۴۹۳
33. صحیح بخاری، ج۱، ص۸۲۵
34. کرمانی، شرح البخاری (داراحیاء التراث العربی، بیروت) ج۱۹، ص۲۲۸
35. تفسیر تدبر قرآن، ج۴، ص۶۲
36. تدبر قرآن، ج۴، ص ۵۶
37. صحیح بخاری، ج۲، ص۶۸۷
38. مبادی تدبر قرآن، ص۱۱۰
39. ایضا ً، ص ۱۱۱
40. ایضاً، ص۱۱۰۔۱۱۱
41. الشافعی محمد بن ادریس، الرسالہ (مصطفی البالی الحلبی واولاہ بمصر، القاہرہ، الطبعة الثالثة، ۱۹۸۳ء/۱۴۰۳ھ) ص۴۴۔۴۵
42. الشافعی، کتاب الام (دارالمعرفہ، بیروت، ۱۳۹۳ھ)ج۷، ص۲۷۰۔۲۷۱
43. ابن عبدالبر، جامع بیان العلم و فضلہ، (دارالفکر، بیروت)ج۱، ص۲۰۔۲۱
44. مبادی تدبر قرآن، ص۲۱۸
45. مبادی تدبر حدیث، ص۲۰
46. تفسیر تدبر قرآن، ج۱، ص۲۳
47. ایضاً، ص۲۳۔۲۴، ۴۵۸
48. ایضاً، ص۶۹۵۵۔ ایضاً، ج۲،ص۱۷۹
49. ایضاً، ج۳، ص۵۰، ۱۲۶، ۱۵۳، ۱۶۲،۴۳۱،۴۹۷
50. ایضاً، ج۵، ص۵۰۱
51. ایضاً ج۵، ص۲۴۳، ۲۴۴۵۹۔ایضاً، ج۶، ص۱۴۳، ۲۷۳، ۳۶۰، ۴۶۹، ۵۱۶
نوٹ
Oشاگردانِ اصلاحی کا دعویٰ تو ایسا ہی ہے تاکہ علم حدیث میں ان کی مہارت مشہور محدث مبارکپوریؒ کے حوالہ سے ثابت کی جاسکے لیکن مولانا اصلاحی نے کئی مجالس میں ذکر کیا کہ وہ محدث مبارکپوری ؒکی شہرت کی بنا پر ان کے ہاں جاتے تو رہے لیکن ان سے بوجوہ متاثر نہ ہوسکے لہٰذا روزانہ کی طویل پیدل مسافت اور بلافائدہ محنت کے پیش نظر یہ سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ یہ بات اس لئے بھی قرین قیاس ہے کہ اصلاحی صاحب کا سلسلہ تلمذ شرحِ ترمذی کی تکمیل کے بعد کا بیان کیا جاتاہے حالانکہ محدث مبارکپوری شرحِ ترمذی کی تکمیل سے قبل ہی نابینا ہوگئے تھے۔ نیز مولانا اصلاحی کے نظریۂ حدیث کی رو سے تو اس شیخ سے روایت بھی جائز نہیں جس پر تلمیذ کوتفقہ حاصل نہ ہو۔ گویا مولانا اصلاحی اپنے ہی نظریہ کی رو سے محدث مبارکپوری سے روایت بھی نہیں کرسکتے کجا کہ وہ تلمذ کو بطورِ سند پیش کریں۔ (محدث)
٭ محدثین کی مساعی ٔجمیلہ کو ان کے فن ہی کی روشنی میں آگے بڑھانا ایک مستحسن امر ہے بلکہ فنی مہارت سے محدثین کے کام پر تنقید بھی بری نہیں مثلاً امام دار قطنی نے بخاریؒ ومسلمؒ جیسے کبار محدثین کی کئی احادیث کو ان کے مجوزہ معیار سے کمتر قرار دیا ہے لیکن کسی نے انہیں منکرین حدیث میں شامل نہیں کیاکیونکہ یہ فنی تحقیق کا اختلاف تھا جس میں دو رائے ہوسکتی ہیں۔بلکہ محدثین کی یہی تنقیدی بحثیں بعد میں صحیحین کی ’تلقی بالقبول‘ کا باعث بنیں کہ اتنے بڑے محدثین نے انہیں کسوٹی پر بار بار پرکھا، بالآخر ان تالیفات کا اعلیٰ معیار ہی راجح قرار پایا لیکن اصلاحی صاحب کی احادیث پر تنقید فن حدیث کی کسی مہارت کی بنا پر نہیں بلکہ بے اصول فقہ جسے وہ ’تدبر‘ کا نام دیتے ہیں، کی برتری کے احساس سے ہوتی ہے حالانکہ فن حدیث ’خبرواقعہ‘ کی تحقیق سے متعلق ہے جبکہ فقہ استنباط واجتہاد کے اصولوں پرمبنی ہوتی ہے جو دو مختلف میدانِ علم ہیں۔ مولانا اصلاحی کی بنیادی غلطی ہی یہ ہے کہ وہ اصولِ حدیث اور اُصولِ فقہ کو دو فن ہی نہیں مانتے جیسا کہ وہ اکثر امام شافعی کے ’رسالہ‘ پر تبصرہ فرمایا کرتے تھے۔ (محدث)
٭ کبار محدثین نے اپنی کتب کے نام سنن ترمذی اور سنن ابو داود رکھ کر ان میں تمام اَحادیث ہی جمع کی ہیں۔اگر ان کے نزدیک حدیث وسنت میں کوئی فرق ہوتا تو وہ کم از کم ان کتب کا نام ’سنن‘ پر نہ رکھتے۔ اس میں انہوں نے وہ احادیث جمع کی ہیں جو عمل کے علاوہ آپ کے قول اور تقریرات پر بھی مبنی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ ایسی روایات ہیں جن پر نبی کریم نے تکرار کے ساتھ عمل نہیں کیا۔ در اصل سنت کے ساتھ یہ شرط لگانا کہ وہ ایسا معاملہ ہو جس پر آپ نے ہمیشگی کی ہو، اس پر بار بار عمل کیا ہو ، نری جہالت ہے۔ نبی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ کسی امر کو شریعت باورکرانے کے لئے اس کو باربار کرے۔ شانِ نبوت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ جس کام کو ایک بار بھی بجالائیں ، اُمتی کے لئے وہ شرع قرار پاجائے۔ مثال کے طور پر نبی کریم نے زندگی میں صرف ایک حج کیا، لیکن ایک بار کرنے سے ہی اُمت کے لئے وہ شریعت قرارپا گیا۔ سنت کے لئے تکرار کی شرط قرار دینے والے نامعلوم حج کو کس بنیاد پرسنت ِنبوی قرار دیتے ہیں؟ (محدث)
٭مولانا اصلاحی نے سنت کی تعریف میں تعامل امت کو شامل کرکے اسے ’وحی الٰہی‘ سے خارج کردیا ہے کیونکہ وحی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر منقطع ہوچکی ہے۔ جہاں تک تعامل امت کا تعلق ہے ، اسے تواتر کی اصطلاح سے بیان کرنا ہی فنی طور پر درست نہیں کیونکہ قرآن ہو یا حدیث، ان میں تواتر کی اصطلاح ’خبر‘ کے حوالہ سے استعمال ہوتی ہے۔ خبر اگر اسوئہ رسولؐ کی روایت سے متعلق ہو تو حدیث اور اگر کلام اللہ (الفاظِ الٰہی) کی ہو تو اسے قرآن کہتے ہیں۔دراصل مولانا اصلاحی اجماع اور خبر متواتر کے التباس کا شکار ہیں اورشریعت کے جن اجمالی ڈھانچوں کو وہ عملی تواتر (ان کی نام نہاد اصطلاح’سنت‘) سے تعبیر کرتے ہیں وہ درحقیقت شریعت کے بنیادی امور پر اجماع ہے۔جس کا انکار ان لوگوں نے بھی نہیں کیا جو فروعات پر اجماع کے منکر ہیں۔ ملاحظہ ہو البرہان فی أصول الفقہ للجوینی وغیرہ (محدث)
O اس بات کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ ثبوتِ واقعہ، صدورِ واقعہ سے خارجی شے ہے جبکہ اصطلاح سنت کا تعلق صدورِ نبوت سے ہے۔ اگر خارجی ثبوت کو اصطلاح میں دخیل بنا دیا جائے تو ایک ہی شے مثلاً صحابہ کے نزدیک سنت ہوگی اور بہت بعد میں آنے والوں کے لئے (مولانا کی اصطلاح کے مطابق )حدیث۔ گویا خیر القرون کے لئے شریعت الگ اور بعد والوں کے لئے اور ہوگئی۔ غور فرمائیے: محدثین نے خیر القرون میں صحابہ اور تابعین کے قول وفعل کو بھی حدیث موقوف اور مقطوع کا نام دیا ہے تاکہ حدیث کی اصطلاح سے اس کا شرعی مقام ومرتبہ ملحوظ رہے کہ ایسی بہت سی احادیث اکثر اسوئہ رسول کی توجیہ وتعبیر ہی ہوتی ہیں۔ لیکن ثبوت نسبت کے اعتبار سے انہیں مرفوع حدیث سے الگ رکھا جاتا ہے تاکہ تعارض کے آخری حل کے طور پر مرفوع صحیح حدیث کو ترجیح دی جاسکے ۔
٭ مولانا کو اصل میں روایت کے نام سے چڑ ہے۔ حدیث کو سب سے آخر میں لانے کی وجہ بھی غالباً یہی ہے کہ روایت میں غلطی کا اِمکان ان کے ذہن میں ایسا سمایا ہے کہ نکل نہیں رہا۔ مولانا جس ادبِ جاہلی کو سب سے پہلے درجے میں لاتے ہیں، یہ مولانا کی جاہلی ادب سے مفرطانہ عقیدت کا ہی شاخسانہ ہے کہ وہ اسے سب سے برتر قرار دے کرمنصب ِرسالت کے انکارسے بھی نہیں چوکتے۔نامعلوم ادبِ جاہلی انہیں اتنا مرغوب کیوں ہے، کیا ادبِ جاہلی کے اشعار کا استنادی درجہ حدیث سے برتر ہے اور ان کی روایت میں حدیث سے زیادہ احتیاط برتی گئی ہے؟ حالانکہ وہ ادبِ جاہلی جس کی نہ روایت متصل ہے، نہ اس کے راوی ثقہ۔ نہ ہی وہ علماءِ امت کی اس قدر کڑی نگرانی اور چھان بین کے مراحل سے گزرا ہے ، آخر کس برتے پر حدیث سے زیادہ مستند ہے؟
چونکہ حدیث کاموقع محل تفسیر قرآن میں غائب کردینے کے بعد ان اشعار سے ہرطرح کی گنجائش مل سکتی ہے ، اورائمہ کے باہمی فقہی اختلافات کی بنا پر ان سے من مانی دلیل لی جاسکتی ہے، نیز دور حاضر کے بہت سے علماء کو ان کا اس قدر وسیع علم اورذوق نہیں ہے کہ ان کی بنا پرہونے والے استدلال کا وہ جائزہ لے سکیں۔علاوہ ازیں اس ادب کے راویوں کے حالاتِ زندگی صفحۂ قرطاس پراس طرح میسر نہیں کہ ان میں ردّ وقبول کی بحث کی جاسکے۔ صرف عربی زبان کی مہارت کے زور پر تفسیر اور تفسیر صحابہ کے تقابل کے مسئلے پر تفصیل کے لیے محدث روپڑي کی پہلی تصنیف ’’ درایت ِتفسیری ‘‘ مطبوعہ ۱۳۳۳ھ کا مطالعہ مفید رہے گا (محدث )
٭ اس سلسلہ میں امام شافعیؒ کا انداز زیادہ مناسب ہے یعنی سنت کو نہ قرآن منسوخ کرتا ہے اور نہ سنت قرآن کی ناسخ ہوتی ہے گویا دونوں کا باہمی تعلق الفاظ وتبیان کا ہے، تضاد کا نہیں کہ ایک کو چھوڑ نے اور دوسرے کو لینے کی بات کی جائے۔ اگرچہ اکثر لوگ خبر واحد کے قرآن کے ناسخ نہ ہونے کی دلیل امام شافعیؒ کا مذکورہ بالا آدھا قول (سنت قرآن کو منسوخ نہیں کرسکتی) پیش کرتے ہیں حالانکہ امام شافعی کی یہ مراد ہی نہیں بلکہ وہ اس رویہ کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وحی کے ظاہری تعارض کے وقت اصل مطابقت ومفاہمت ہے۔ ترجیح تو مجبوری ہے جو مجتہد کے ناقص فہم کی وجہ سے اختیار کی جاتی ہے ۔ (محدث)
٭ مولانا نہ صرف حدیث کی اِصطلاح سنت سے الگ کرکے انکارِ حدیث کے دروازے کھولتے ہیں بلکہ سنت کی تعریف میں تعامل اُمت شامل کرکے اسے بھی ’وحی‘ نہیں مانتے ۔
جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا سنت یاحدیث وحی ہے توکہتے ہیں کہ ہم سنت یاحدیث کو حجت مانتے ہیں ، اس طرح وہ یہ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ عام علماء امت کی طرح حدیث وسنت کی حجیت کے قائل ہیں حالانکہ وہ سنت وحدیث کو وحی نہیں مانتے کیونکہ بہت سی چیزیں وحی نہ ہونے کے بغیر بھی حجت تو ہوتی ہیں۔ جیسے والدین کی اطاعت ، اولی الامر کی اطاعت، فریقین کے لیے قاضی کا فیصلہ وغیرہ۔ یعنی حجت ماننا ’وحی‘ ماننے کو مستلزم نہیں ہے۔ اسی لئے ان سے یہ سوال آج بھی باقی ہے کہ کیا وہ سنت یا حدیث کے وحی ہونے کے قائل ہیں۔ چند برس قبل ایک محترمہ پروفیسر صاحبہ نے اس نکتہ کو نکھارنے کے لئے ان سے طویل خط وکتابت کی تھی لیکن ان کی طرف سے آج تک کوئی شافی جواب نہیں مل سکا۔یہ خط وکتابت محدث( مئی ۱۹۹۵ء صفحہ ۳۷ تا ۴۶)میں بعنوان:کیا حدیث حجت ہے مگر وحی نہیں ؟ شائع ہوچکی ہے ۔(محدث)