مسلمات ِاسلامیہ سے انکاروانحراف کی راہ

مولانا امین احسن اصلاحی، جن کا انتقال ۱۴/دسمبر ۱۹۹۷ء کو لاہور میں ہوا، اپنے دور کے اُن چند سربرآوردہ اہل علم واہل قلم میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ذہانت وفطانت سے حصہ وافر عطا فرمایا ہوتا ہے۔ ان کی وفات کے بعدمتعدد حضرات نے ان کی علمی و دینی خدمات بالخصوص تفسیری خدمات اور ان کے علم وفضل پر روشنی ڈالی ہے اورانہیں اپنے وقت کا عظیم مفسر اِسلامی دانش ور اوربلند پایہ محقق باور کرایا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے انہیں علم وفضل اورانشاء و تحریر کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ 'تدبر ِقرآن' کے مصنف ہونے کے اعتبار سے ایک 'مفسر' کے طور پر بھی مشہور ہیں ، اپنے دروسِ حدیث کی بنا پر ان کے تلامذہ ان کو ایک' محدث'بھی شمار کرتے ہیں اور فقہی مباحث میں ان کی بلند آہنگی کی وجہ سے انہیں 'فقیہ' بھی سمجھتے ہیں اور بعض کلامی خدمات کی بنیاد پر شاید انہیں ایک 'متکلم' اور فکر ِفراہی کا ایک 'عظیم مفکر' بھی قرار دیتے ہوں۔لیکن راقم کے خیال میں مولانا موصوف ان لوگوں میں سے ہیں جن کو ان کی ذہانت کی فراوانی نے زیغ وضلال میں مبتلا کردیا اور ﴿وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلىٰ عِلمٍ...٢٣ ﴾... سورة الجاثية" کا مصداق بنا دیا۔ ع اے روشنی ٴ طبع توبر من بلا شدی !
سرسید احمد خاں، مرزا غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز وغیرہم کو دیکھ لیجیے۔ ان کاشمار بھی ذہین وفطین لوگوں میں ہوتا ہے ، لیکن ان حضرات نے مسلمہ اسلامی عقائد کا جس طرح حلیہ مسخ کیا ہے ، وہ محتاجِ وضاحت نہیں اور یہ حضرات اپنے اپنے دائروں میں جس طرح گمراہی کے امام وپیشوا بنے ، وہ بھی کوئی مخفی راز نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ذہانت وفطانت اور علم وفن میں اونچے مقام پر فائز ہونا، یہ کوئی خاص اعزاز نہیں۔ بہت سے ائمہ کفر وضلال بھی ان چیزوں سے بہرہ وَر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے گو دنیا میں شہرت وناموری ضرور حاصل کر لی ہو ، مگر عند اللہ ان کا کوئی مقام نہیں ہو گا، بلکہ وہ اللہ کے ہاں مجرم ہی نہیں ، اکابر مجرمین میں سے ہوں گے۔ جن پر ان کی اپنی ہی گمراہی کا بوجھ نہیں ہو گا ، بلکہ ان ہزاروں اور لاکھوں افراد کے گناہوں کی بھی ذمے داری ہوگی جو ان کے افکار وآرا سے گمراہ ہوئے ہوں گے۔
بہت سے لوگ راقم کی اس رائے سے چونکیں گے اور مولانا اصلاحی کو بھی ائمہ ضلال میں شمار کرنے پر تعجب کا اظہار کریں گے، کیونکہ جنہوں نے ان کی کتابیں نہیں پڑھی ہیں یا صرف ان کے دورِجوانی کی تحریر یں ان کے علم میں ہیں جیسے پاکستانی عورت دوراہے پر، عائلی کمیشن کی رپورٹ پر تبصرہ، تزکیہٴ نفس، توضیحات، حقیقت ِتوحید ، حقیقت ِشرک، حقیقت ِتقویٰ اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے ایک مضمون 'دین میں حکمت ِعملی کامقام ' پر مفصل تنقید، جو ماہنامہ 'میثاق' کے ابتدائی دور میں اس کے ا ِدارتی کالموں میں مسلسل شائع ہوئی اور اس قسم کی بعض اور تحریریں اورمقالات، بلاشبہ یہ تصنیفات نہایت مفید اور زوردار ہیں۔ ان کتابوں اور تحریروں میں وہ ایک بلند پایہ عالم ،محقق اور صاحب ِاسلوب انشا پرداز نظر آتے ہیں۔ پڑھنے والااِن سے متاثر اور محظوظ ہوتا ہے اور ان کی علمی عظمت کا نقش اس کے دل پر ثبت ہوتا ہے۔ جن حضرات کی نظر سے مولانا اصلاحی کی صرف یہ کتابیں اور تحریریں گزری ہیں، ان کے لیے راقم کی باتیں یقینا ایک انکشاف کادرجہ رکھتی ہیں، جن پر ان کامتعجب ہونا قابل فہم ہے۔
لیکن جن حضرات نے ان کے مابعد کام کو دقت ِنظر اور غور وفکر سے دیکھا اور پڑھا ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے پہلے دور اور دوسرے دور میں زمین آسمان کافرق ہے یا وہ ایسے فکری تضاد کا شکار ہوئے کہ جس کی توجیہ ممکن نہیں اوران کے متضاد افکار کے درمیان کوئی بڑا سے بڑا فلاسفر بھی تطبیق دینے پر قادر نہیں۔ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:«إنما الأعمال بالخواتیم» زندگی کے آخری دور کے اعمال ہی انسان کی نجات یا عدمِ نجات کی بنیاد ہوں گے۔ اس اعتبار سے اس بات کاشدید اندیشہ ہے کہ عنداللہ ان کا شمار دُعاةِ ضلال ہی میں ہو ، کیونکہ عمر کے آخری دور میں ان کے زبان وقلم سے ایسی چیزیں منظر عام پر آئی ہیں جو صریح گمراہی پر مبنی ہیں، بلکہ اجماعِ امت سے انحراف کی وجہ سے ان پر کفر تک کا اطلاق ممکن ہے۔
'محدث ' کے صفحات زیادہ تفصیل کے متحمل نہیں تاہم وضاحت کے لیے چند مثالیں ناگزیر ہیں۔ راقم کے لیے یہ کوئی خوش گوار فریضہ نہیں کہ وہ ایک فوت شدہ عالم دین پر تنقید کررہا ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک نہایت تلخ اوربہت ہی ناگوار جرعہ ہے جو بڑے جبر سے نوشِ جان کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن چونکہ یہ معاملہ دین کا اور اس کے تحفظ کا ہے، دینی مسلمات تمام شخصیتوں سے بالا ہیں، ان کے مقابلے میں بڑے سے بڑاآدمی بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر کوئی زعم کبریائی میں یا علم کے غرے میں دینی مسلمات کا انکار یا ان کا استخفاف کرتا ہے ، تو وہ کسی رعایت کامستحق نہیں اور علما کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کی حقیقت سے لوگوں کو باخبر کریں تاکہ کوئی مسلمان اس کے دامِ ہم رنگ زمیں کا شکار ہو، نہ اس کے علم وفضل سے کسی دھوکے میں مبتلا ہو۔ راقم یہ بھی سمجھتا ہے کہ جولوگ مولانا اصلاحی کی تعریف میں مقالات کے انبار لگا رہے ہیں ، وہ یا تو غلو ِعقیدت کا شکار ہیں جس نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہے ، یا پھر وہ اُن کے گمراہا نہ افکار سے بے خبر ہیں اوروہ صرف اُن کی پہلی تحریروں سے ہی آگاہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تصویر کادوسرا پہلو بھی اُجاگر کیا جائے، تا کہ ان کا دوسرا پہلو یا دوسرا رُخ بھی قارئین کے سامنے آجائے :﴿لِيَهلِكَ مَن هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحيىٰ مَن حَىَّ عَن بَيِّنَةٍ...٤٢ ﴾... سورة الانفال
حدیث ِرسول کا استخفاف اور انکار
مولانا اصلاحی کی ایک عظیم گمراہی یا فکری تضاد یہ ہے کہ ان کے ہاں حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ قرآن فہمی کے لیے جاہلی اَدب کو سب سے زیادہ ضروری قرار دیتے ہیں ، جس کی سرے سے کوئی سند ہی نہیں ہے، اس کے مقابلے میں حدیث کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں، جو باسند ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے محدثین نے بے مثال کاوشیں کی ہیں۔ اور یہ ثانوی حیثیت بھی صرف زبان کی حد تک ہی ہے ،عملاً حدیث کی ان کے ہاں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے بلکہ وہ حدیث کو منکرین حدیث کی طرح صرف وہیں استعمال کرتے ہیں جہاں اس کا استعمال ان کے لیے مفید ہو۔ منکرین حدیث بھی بوقت ِضرور ت حدیث سے استفادہ کرتے اورحوالہ دیتے ہیں ، ورنہ وہ حدیث کو دین کا ماخذ اور شرعی حجت تسلیم نہیں کرتے۔
مولانا اصلاحی صاحب کا فکری تضاد یہ ہے کہ وہ متجددین اور منکرین حدیث کے ردّ میں جب قلم اُٹھاتے ہیں تو یقینا وہ حدیث کو حجت ِشرعیہ باور کرانے میں پورا زور ِقلم صرف کرتے ہیں (جیسا کہ ان کے دورِ اول کی کتابوں میں ہے)لیکن آخری دور میں جب انہوں نے اپنی توجہ تفسیر پر مبذول کردی، تو حدیث کو نظر انداز کردیا، اورحدیث ِرسول کے مقابلے میں لغت کو، جاہلی ادب کو اور اپنی عقل وفہم کوزیادہ اہمیت دی۔ اور اپنی تفسیر کی تکمیل کے بعد انہوں نے تدبر ِحدیث کا آغاز کیا اوراس موضوع پر اپنے حلقہ ٴ اِرادت میں چند لیکچرز دئیے ، جو'مبادی ٴتدبر ِحدیث' کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔
اس کتاب میں انہوں نے حدیث کے پرکھنے کے محدثانہ اُصول کو ناکافی قرار دیتے ہوئے، خود نئے اُصول وَضع کیے ہیں ، جس کی وجہ سے محدثین کی ساری کاوشیں تو بے کار قرار پاتی ہیں اوران کے مجموعہ ہائے احادیث ِصحیحہ بے وقعت۔ مولانا اصلاحی کے گھڑے ہوئے اُصولوں کی رو سے صحیح حدیث وہ نہیں ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے یا جو محدثین کے مسلمہ نقد وجرح کی روشنی میں صحیح ہے ، بلکہ وہ حدیث صحیح ہو گی جو اصلاحی من گھڑت اُصول کی روشنی میں صحیح ہوگی، چاہے محدثین کے مسلمہ اُصول کی رو سے وہ ضعیف ہی ہو۔ اور وہ حدیث ضعیف ہو گی جسے اصلاحی صاحب کے گھڑے ہوئے اُصول کی تائید حاصل نہ ہو گی ، چاہے محدثین کے ہاں اس کی صحت مسلم ہو۔
تفسیر'تدبر ِقرآن 'میں عملی طور پر حدیث کو نظر انداز کر کے اور'مبادی ٴتدبر ِحدیث ' میں نقد ِحدیث کے مذکورہ نئے اُصول گھڑکر کیا انکار ِحدیث کاراستہ چوپٹ نہیں کھول دیا گیا ہے ؟ ( اِس کی مزید تفصیل آگے آئے گی۔ )
حد ِرجم اوراحادیث ِرجم کاانکار
مولانا اصلاحی کی دوسری عظیم گمراہی ( جو کئی گمراہیوں کا مجموعہ ہے ) حد ِرجم کا انکار ہے۔ اسلام میں شادی شدہ زانی کی سزا سنگسار کرنا ہے اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا سو کوڑے۔ اس سزا پر صحابہ کرام کا بھی اجماع ہے اور امت کا بھی، نہ صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف کیا ، نہ امت کے کسی عالم وفقیہ نے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی زِنا کے جو بعض کیس آئے ، اس میں آپ نے تحقّق زنا کے بعد جو استفسار فرمایا، وہ یہی تھا کہ یہ زانی شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ۔ اور یہ معلوم ہونے پر کہ یہ شادی شدہ ہے آپ نے بلا تامل رجم کرنے کاحکم صادر فرمایا۔ خلفاے راشدین کا بھی یہی معمول رہا ، اور اُمت کے تمام فقہاء وائمہ نے بھی یہی کہا۔ یعنی شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا ، کوئی دوسری رائے سامنے نہیں آئی ، سوائے خوارج کے جنہیں مسلمانوں نے کبھی'مسلمان ' ہی نہیں سمجھا۔ لیکن مولانااصلاحی صاحب نے کہا کہ زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ، دونوں کی سزا ایک ہی ہے اور وہ ہے سو کوڑے۔ ان کے نزدیک رجم کی سزا صرف زِنا کے ا رتکاب پر نہیں دی جاسکتی۔ البتہ اس زانی کو بطور ِتعزیر یہ سزا دی جاسکتی ہے جومعاشرے کی عزت وناموس کے لیے خطر ہ بن جائے، جو زنا اور اغوا کو پیشہ بنالے ، جو دن دہاڑے لوگوں کی عزت وآبرو پر ڈاکہ ڈالے اور کھلم کھلا زنا بالجبر کا مرتکب ہو (تفسیر 'تدبر ِقرآن ': ج ۴ ، ص ۵۰۴ ،۵۰۵)
گویا اصلاحی صاحب نے یہ 'اجتہاد ' فرمایا ہے کہ رجم، زنا کی سزا نہیں ہے ، صرف غنڈہ گردی کی تعزیری سزا ہے ، جو وقت کے حاکم اور قاضی کی صوابدید پر منحصر ہے۔ وہ کسی غنڈے کے لیے رجم کی سزا تجویز کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، شریعت ِاسلامیہ میں یہ سزا بطورِ حدنہیں ہے۔
(۱) مولانا اصلاحی صاحب کا یہ نظریہٴ رجم، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، کئی گمراہیوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں ایک تو اُن تمام احادیث کونظر انداز کردیا گیا ہے جو مشہور،متفق علیہ اور متواتر ہیں، کیونکہ وہ تقریباً تین درجن صحابہ کرام سے مروی ہیں۔ یہ انکار ِحدیث کی اتنی واضح جسارت ہے ، جس پر بڑی سے بڑی وکالت صفائی بھی پردہ نہیں ڈال سکتی۔
(۲) دوسرے اجماعِ صحابہ اور اجماعِ اُمت سے سخت بے اعتنائی ہے۔ حالانکہ اجماعِ صحابہ خود مولانا اصلاحی صاحب کی صراحت کے مطابق دین میں حجت اورسنت ہے جس سے انحراف کی اجازت ان کے نزدیک نہیں ہے۔ چنانچہ وہ اپنے ایک مفصل مضمون کے آخر میں جو 'سنت ِخلفاے راشدین ' کے عنوان سے فروری ۱۹۵۶ء کے 'ترجمان القرآن'،لاہور میں چھپا ہے ، لکھتے ہیں:
"اب میں یہ بتاؤں گا کہ میں خلفاے راشدین کے اس طرح کے طے کردہ مسائل کو کیوں سنت کا درجہ دیتا ہوں ، میرے نزدیک اس کے وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ اس کی پہلی وجہ تو وہ حدیث ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خلفاے راشدین کی سنت کو سنت کا درجہ بخشا ہے ...
۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اِجماع ہمارے ہاں ایک شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور اجماع کی سب سے اعلیٰ قسم اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہی ہو سکتی ہے جس کی مثالیں خلفاے راشدین کے عہدمیں ملتی ہیں...
۳۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ابتدا سے خلفاے راشدین کے تعامل کو ملت میں ایک مستقل شرعی حجیت کی حیثیت دی گئی ہے ...
۴۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ دین کی تکمیل اگرچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہوئی ہے لیکن امت کی اجتماعی زندگی میں اس کے مضمرات کا پورا پورا مظاہرہ حضرات خلفاے راشدین کے ہاتھوں ہوا ... اس پہلو سے خلفاے راشدین کا دور گویا عہد ِرسالت ہی کاایک ضمیمہ ہے اور ہمارے لیے وہ پورا نظام ایک مثالی نظام ہے جو ان کے مبارک ہاتھوں سے قائم ہوا۔ پس اس دور میں جو نظائر قائم ہو چکے ہیں ، وہ ہمارے لیے دینی حجت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمارے لیے ان سے انحراف جائز نہیں ہے ... " (ماہنامہ 'ترجمان القرآن '، فروری ۱۹۵۶ء)
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مولانا اصلاحی اس بات کے بھی قائل ہیں کہ جس مسئلے میں ائمہ اربعہ بھی متفق ہوں،ان کا یہ اتفاق اجماعِ اُمت کے مترادف اوردین میں حجت ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر لکھتے ہیں
"ایک انطباق تو وہ ہے جس پر خلفاے راشدین اپنے دور کے اہل علم وتقویٰ کے مشورے کے بعد متفق ہو گئے ہیں۔ یہ اسلام میں اِجماع کی بہتر ین قسم ہے اوریہ بجائے خود ایک شرعی حجت ہے۔ اسی طرح ایک انطباق وہ ہے جس پر ائمہ اربعہ متفق ہو گئے ہیں۔ یہ اگر چہ درجے میں پہلی قسم کے اِجماع کے برابر نہیں ہے ، تاہم چونکہ یہ اُمت من حیث الامہ ان ائمہ پر متفق ہو گئی ہے... اس وجہ سے ان ائمہ کے کسی اجماع کومحض اس دلیل کی بنا پر ردّ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ معصوم نہیں تھے۔ یہ معصوم تو بے شک نہیں تھے لیکن ان کے معصوم نہ ہونے کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ کسی امر پر ان کا اتفاق دین میں حجت نہ بن سکے۔" ( عائلی کمیشن کی رپورٹ پر تبصرہ: ص ۵۸ ، طبع فیصل آباد)
اور یہ ظاہر ہے کہ رجم کی وہ زیر بحث حد، جس کا انکارمولانا اصلاحی صاحب نے فرمایا ہے ، اجماعِ صحابہ کے علاوہ ، ائمہ اربعہ سمیت تمام فقہاے امت کا اس پر اتفاق ہے ، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خود اصلاحی صاحب کی مذکورہ تصریحات کے مطابق حد ِرجم کا انکار کتنی بڑی گمراہی ہے۔
(۳) تیسرے ، مولانا اصلاحی کے نظریہٴ رجم میں رجم کو جو ایک شرعی حد ہے یعنی اللہ رسول کی مقررہ حد، جس میں کسی بھی شخص کو کمی بیشی یا ترمیم وتبدیلی کا حق نہیں۔ شرعی حدود سے خارج کر کے تعزیری سزا بنا دیا گیا ہے جو صرف حاکم اورجج کی صوابدید پر منحصر ہے۔
(۴) چوتھے، رجم کی یہ تعزیر ی سزا بھی مولانا اصلاحی کے خیال کے مطابق صرف زانی کو نہیں دی جائے گی ، چاہے وہ باکر ہو یا غیر باکر بلکہ پیشہ ورزانیوں اور غنڈوں کو دی جائے گی یا بالفاظِ دیگر یہ 'تعزیری رجم' زنا کی نہیں، غنڈہ گردی کی سزا ہے اور ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ اپنے اس زعم باطل کے اثبات کی خاطر انہوں نے حضرت ماعز صحابی اور غامدی خاتون صحابیہ رضی اللہ عنہما کو عادی زانی اور پیشہ ور طوائف باور کرایا ہے اور موصوف نے یہ 'استنباط'یا 'اجتہاد' آیت ِمحاربہ سے کیا ہے جس میں رجم کی سزاکا کوئی ذکر ہے نہ مفسرین اُمت میں سے کسی نے یہ استنباط کیا ہے ، جس سے یہ واضح ہے کہ یہ مولانا اصلاحی کاایک تحکمانہ فعل، ایک گونہ شریعت سازی اوراس سلفی تعبیر کے خلاف ہے جس کے پابند علماے سلف وخلف چلے آرہے ہیں اورجس کی پابندی کی تلقین وہ خود بھی کرتے رہے ہیں۔ جیسا کہ وہ اپنی کتاب 'اسلامی قانون کی تدوین ' میں'کتاب وسنت کی تعبیر میں سلف صالحین کی پیروی ' کے عنوان سے لکھتے ہیں
" تدوین قانون کے کام کے ہرمرحلے میں یہ حقیقت پیش نظر رکھی جائے کہ مسلما ن کتاب وسنت کی جن تعبیروں پر اعتماد رکھتے ہیں، انہی تعبیروں پر مبنی ضابطہ قانون بنا یا جائے۔ اگر اپنی طرف سے نئی تعبیریں محض شوقِ اجتہاد میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کو لوگ ہرگز قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں گے اور اگر غلط طریقوں سے ان کو لوگوں پر لادنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج مضربلکہ مہلک ہوں گے۔ " (آگے چل کر مزید لکھتے ہیں)
"سلامتی کا راستہ ہمارے نزدیک یہی ہے کہ کتاب وسنت کی تعبیرات میں سلف صالحین کی پیروی کی جائے۔" (اسلامی قانون کی تدوین : ص ۱۳۵،۱۳۷)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ مولانا اصلاحی کا نظریہٴ رجم ایک بڑی لغزش اور ایسی عظیم گمراہی ہے جس میں کئی گمراہیاں جمع ہوگئی ہیں مثلاً
۱۔ اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخی کی گئی ہے۔
۲۔ یہ انکارِ حدیث کو مستلزم ہے۔
۳۔ سلف صالحین کی تعبیر کے خلاف ہے۔
۴۔ شریعت سازی کا ارتکاب ہے۔
۵۔ اجماعِ صحابہ کے خلاف ہے جس سے انحراف کی اجازت نہیں۔
۶۔ اجماعِ ائمہ اربعہ اوراجماعِ امت کے خلاف ہے جس کا منکر ﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّ‌سولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ‌ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ...١١٥ ﴾... سورة النساء" کا مصداق ہے۔
مولانا اصلاحی کے نظریہٴ رجم کی مدلل تردید
اسی لیے راقم نے ۱۹۸۱ء میں ایک کتاب لکھی تھی: "حد ِرجم کی شرعی حیثیت اور شبہات ومغالطات کا جائزہ " اس میں جہاں اور منکرین رجم کے دلائل ومغالطات کا جوا ب دیا تھا، وہاں مولانا اصلاحی کے نظریہٴ رجم پر بھی تفصیل سے گفتگو کی تھی۔ اس میں راقم نے مو لانا اصلاحی کے نظریہٴ رجم کے مذکورہ تباہ کن نقصانات کی وضاحت کے بعد یہ بھی تحریر کیا تھا :
"مولانا موصوف کا یہ نظریہٴ رجم خود موصوف کی ساری عمر کی دینی جدوجہد اورعلمی کاوشوں پر پانی پھیر دیتا ہے (جبکہ ماضی میں) موصوف نے ا پنے ایک مخصوص نقطئہ نظر کے ساتھ نظریہٴ انکارِ حدیث کاردّ کیا ہے ، قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح میں سلفی تعبیر سے انحراف کوگمراہی قرار دیا ہے ، اجماعِ صحابہ، اجماعِ امت ، بلکہ اجماعِ ائمہ اربعہ تک کو بھی دین میں حجت بتلایا ہے اور'اجتہاد ' میں شریعت سازی کے رجحان کی سختی سے تردید کی ہے۔ لیکن اپنے مخصوص نظریہٴ رجم کے اثبات میں انہوں نے مذکورہ تما م باتوں سے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ اب دو ہی باتیں ہیں :
۱۔ یا تومولانا کا نظریہٴ رجم غلط ہے اور یہ اُن کی فکری لغزش ہے جس سے انہیں فوری طور پر رجوع کر لینا چاہیے۔
۲۔ اور اگر انہیں اسکی صحت پر اصرار ہے تو اس کا مطلب اپنی عمر بھر کی مذکورہ کاوشوں کی نفی ہے۔
ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ مولانا اوّل الذکر بات تسلیم کر کے اپنے نظریہٴ رجم سے رجوع فرمالیں، یہ ان شاء اللہ ان کے حق میں بھی بہتر ہے اور تمام اہل دین کے حق میں بھی۔ بصورتِ دیگر انہیں ثابت کرنا ہو گاکہ ان کانظریہٴ رجم انکارِ حدیث کو بھی مستلزم نہیں،سلفی تعبیر کے بھی خلاف نہیں، اجماعِ صحابہ ، اجماعِ امت اوراجماعِ ائمہ اربعہ کے بھی خلاف نہیں ، اوریہ شریعت سازی بھی نہیں ودونہ خرط القتاد۔" (کتابِ مذکور: ص ۷، مطبوعہ ۱۹۸۱ء ،لاہور)
راقم کی اس کتاب کو چھپے ہوئے بیس سال سے زیادہ ہو گئے ہیں لیکن مولانا اصلاحی یا ان کے کسی شاگرد یا معتقد نے ان باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ حالانکہ مولانا اصلاحی کوبھی اپنی ہمہ دانی کا بڑا زعم تھا اور ان کے بعض تلامذہ بھی اسی پندارِ علم کا شکا ر ہیں۔ لیکن الحمد للہ اتنے طویل عرصے کے باوجود ان کی طرف سے مذکورہ باتوں کے جواب میں مکمل خاموشی ہے ، جس سے یہ بات واضح ہے کہ مولانا اصلاحی اور ان کے ہم مکتب حضرات کے پاس سوائے ہٹ دھرمی کے کوئی دلیل نہیں ہے۔
اصلاحی نظریہٴ رجم ، شرعی عدالت کی گمراہی کا ذریعہ بنا
مولانا اصلاحی نے ایک منصوص حد ، حد ِرجم، کا جس طرح انکار کیا، اس نے منکرین حدیث کوبڑا عزم وحوصلہ بخشا ہے۔ اس سے ان کی جسارتوں میں خوب اضافہ ہوا ہے۔ پہلے وہ مسلماتِ اسلامیہ کاانکار کرنے میں بڑا تامل کرتے تھے یا انہیں حسین غلافوں میں لپیٹ کر پیش کرتے تھے لیکن مولانا اصلاحی کے موقف ومسلک کے بعد ان کے حجاب دور ہو گئے۔ چنانچہ آج سے کم وبیش ۲۰/سال قبل وفاقی شرعی عدالت پاکستان نے بھی یہ فیصلہ دے دیا کہ رجم اسلامی حد نہیں ہے جس پر پورے ملک میں اضطراب کی شدید لہر اٹھی۔ اس وقت جسٹس آفتاب حسین شرعی عدالت کے چیئرمین تھے ، بعد میں شرعی عدالت کے چیف کو بھی، چیف جسٹس کہا جانے لگا۔ آفتاب حسین پرویزی ذہن کے حامل تھے۔ مولانااصلاحی کے نظریات کی شکل میں انہیں انکارِ حدیث کا ایک واضح راستہ مل گیا اورانہوں نے شوخ چشمانہ جسارت کی کہ چودہ سو سال سے متفق علیہ اسلامی حد، حد رجم کی بابت مذکورہ فیصلہ صادر فرمادیا۔ اس پر جب علماے کرام کی طرف سے شدید احتجاج ہوا تو جنرل ضیاء الحق مرحوم نے شرعی عدالت میں تین علماء کرام کابطورِ جج تعین کیا اور اس کے بعد دوبارہ مذکورہ فیصلے پر عدالت نے اپنے پہلے فیصلے کے برعکس یہ فیصلہ دیا کہ رجم اسلامی حد ہے جو شادی شدہ زانی کے لیے اسلام میں مقرر ہے اوراس پر صحابہ کرام سمیت پوری اُمت کے علماء وفقہا کا اتفاق ہے۔
اس تفصیل سے اصل مقصد اس نکتے کی وضاحت ہے کہ مولانا اصلاحی کا نظریہٴ رجم سخت گمراہ کن ہے۔ اس سے منکرین حدیث کو اسلامی مسلمات پر شب خون مارنے کاموقعہ ملا ہے جیسا کہ مذکورہ فیصلے میں ہوا۔ اس نظریے کے یہ تباہ کن خطرناک نتائج ہیں جو بالکل لازمی اور منطقی ہیں۔ اس سے کوئی شخص شترمرغ کی طرح آنکھیں بند کرلے، تو اس سے حقیقت تبدیل ہو سکتی ہے، نہ نتائج کو بدلا جا سکتا ہے۔
فکرفراہی کی بنیادی کجی
اور یہ ایسے ہی ہے ، جیسے خود مولانا اصلاحی نے اپنی تفسیر 'تدبر قرآن ' کے مقدمے میں لکھا ہے :
"جس طرح خاندانوں کے شجرے ہوتے ہیں، اسی طرح نیکیوں اور بدیوں کے بھی شجرے ہیں۔ بعض اوقات ایک نیکی کو ہم معمولی نیکی سمجھتے ہیں حالانکہ اس نیکی کاتعلق نیکیوں کے اس خاندان سے ہوتا ہے جس سے تمام بڑی نیکیوں کی شاخیں پھوٹی ہیں۔ اسی طرح بسا اوقات ایک برائی کو ہم معمولی برائی سمجھتے ہیں لیکن وہ برائیوں کے اس کنبے سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہے جو تمام مہلک بیماریوں کو جنم دینے والا کنبہ ہے۔" (مقدمہ تدبر قرآن، طبع اوّل ستمبر ۱۹۶۷ء)
بالکل اسی طرح فکری کجی اور گمراہی کا معاملہ ہے۔ جب انسان کے فکر و نظر کے زاویے میں کسی ایک مقام پر کجی آجائے، تو پھر اس کا دائرہ بڑھتا اور پھیلتا ہی چلا جاتا ہے ، حتیٰ کہ بعض دفعہ اس کا رخ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ جس طرح ایک گاڑی کا کانٹا بدل جائے تو پھر وہ اس بدلے ہوئے کانٹے پر تیزی سے رواں دواں رہتی ہے تا آنکہ دوبارہ اس کا کانٹا بدل کر اسے سیدھے راستے پر گامزن نہ کر دیا جائے۔ فکر فراہی کی بنیاد میں ایک بہت بڑی کجی یہ ہے کہ اس میں قرآن کریم کی تفسیر وتوضیح کے لیے احادیث وآثار کو ثانوی اور عربوں کے جاہلی ادب کو اوّلین حیثیت اور اس طرح سلف کی تعبیر کے مقابلے میں اپنی عقل وفہم کو زیاد ہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس دبستانِ فکر سے وابستہ اہل قلم کا رشتہ احادیث اور اسلاف سے کم ہو گیا۔ احادیث کا ذخیرہ ان کی نظروں میں غیر مستند ٹھہرا اور جاہلی ادب اور شعری دوادین،جن کی سرے سے کوئی سند ہی نہیں ہے ، وہ مستند ومعتبر قرار پائے۔ اپنی فہم ورائے کی اصابت پر انہیں یقین ہے اوراس کے مقابلے میں اجماعِ صحابہ واجماعِ امت تک بے حیثیت ہے (جس کی سب سے بڑی دلیل ان کا گمراہانہ نظریہٴ رجم ہے ، جیسا کہ اس کی تفصیل گزرچکی ہے اور 'تدبر قرآن ' میں متعدد مقامات پر اس زیغ وضلال کی مزید مثالیں موجود ہیں جس میں واقعہ معراج کا انکار بھی ہے۔ ) اگر فکرفراہی میں یہ کجی نہ ہوتی تو کبھی اس گروہ کی طرف سے رجم کی متواتر احادیث کو ردّ کرنے کی اور اجماعِ صحابہ واجماعِ امت کو نظر انداز کرنے کی شوخ چشمانہ جسارت کا ارتکاب نہ ہوتا۔ اس کجی نے ہی ان میں یہ استبدادِ رائے پیدا کیا اور انہیں یہ عزم وحوصلہ بخشا کہ ایک منصوص اور متفق علیہ حد کا نہ صرف نہایت بے دردی سے انکار کیا بلکہ حضرت ماعز اورغامدیہ عورت رضی اللہ عنہما کو نعوذ باللہ پیشہ ور غنڈہ اور طوائف قرار دیا۔ کیونکہ اس گستاخی کے بغیر رجم کی تعزیر ی حیثیت کا اِثبات ممکن نہیں تھا۔
بہر حال اس تفصیل سے مقصود اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ احادیث ِرسول سے بے اعتنائی ،بلکہ ان کا انکارفکر ِفراہی کی بنیاد میں شامل ہے۔ اسی لیے شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی  نے آج سے تقریباً چالیس سال قبل مولانا مودودی مرحوم کے 'مسلک ِاعتدال' کا ردّ کرتے ہوئے اپنے فاضلانہ مقالے 'جماعت ِاسلامی کا نظریہٴ حدیث' میں مولانا اصلاحی ، شبلی نعمانی ،مولاناحمید الدین فراہی ،مولانا مودودی اور عام فرزندانِ ندوہ کے بارے میں تحریر فرمایا تھا کہ
"یہ حضرات حدیث کے منکر نہیں ،لیکن ان کے اندازِ فکر سے حدیث کا استخفاف اور استحقار معلوم ہوتا ہے اور طریقہ گفتگو سے انکار کے لیے چور دروازے کھل سکتے ہیں۔ " (حجیت ِحدیث: ص ۱۱۴)
پھر اس مقالے میں آگے چل کر اپنی اس رائے کا اظہار فرمایا تھا کہ
" میری رائے میں مولانا مودودی اورمولانااصلاحی صاحب کے نظریات نہ صرف مسلک اہلحدیث کے خلا ف ہیں بلکہ ان کے یہ نظریات تمام ائمہ حدیث کے بھی خلاف ہیں۔ ان میں آج کے جدید اعتزال و تجہّم کے جراثیم مخفی ہیں۔ "
اس وقت بہت سے حضرات مولانا سلفی صاحب مرحوم کی اس رائے پر چونکے ہوں گے اوراستعجاب کا اظہار کیا ہو گا لیکن آج اس کی صداقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو کر سامنے آگئی ہے اوراس میں قطعاً کوئی ابہام یاشک نہیں رہ گیا ہے،جس کا ایک بڑا ثبوت مولانا اصلاحی کی تفسیر 'تدبر قرآن' ہے جوحضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی  کے زمانے میں منظر عام پر نہیں آئی تھی۔ اس میں مولانا اصلاحی نے احادیث وآثار سے اکثر مقامات پر سخت بے اعتنائی برتی ہے ، اور لغت اور جاہلی ادب پریا اپنی فہم وفراست پر یا مزعومہ قرائن پر زیادہ اعتماد کیا ہے۔ اس لیے یہ تفسیر، تفسیر بالرایٴ الفاسد کا ایک ایسا نمونہ ہے جس کی مذمت احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ اسی فاسد رائے اور حدیث کے انکار کا ایک نمونہ حد رجم کا بطورِ حد شرعی انکار ہے اور بطورِ تعزیر پیشہ ور بد معاشوں اور غنڈوں کے لیے اس کا اثبات ہے جو انہوں نے سورئہ مائدہ کی آیت محاربہ کے لفظ قُتِّلُوْاسے کشیدکی ہے۔ حالانکہ رجم ایک ایسی حد ہے کہ اگر اسے نص پر مبنی تسلیم نہ کیا جائے جیسا کہ اصلاحی صاحب تسلیم نہیں کرتے تو پھر اسے تعزیر کے طور پر اپنے قیاس واستنباط سے کسی بھی جرم کی سزا کے لیے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اس میں ایذا دے دے کر مارنے کا انداز پایا جاتا ہے ، حالانکہ شریعت نے جانوروں تک کو ایذا دے کر مارنے سے منع کیا ہے، اسی طرح مثلہ کرنے سے بھی سختی سے روکا گیا ہے۔ لیکن شریعت کے نزدیک ایک شادی شدہ شخص کا ارتکابِ زنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس نے بطورِ عبرت یہ سزا ایسے مجرموں کے لیے رکھی ہے۔ اب اگر کوئی شخص شریعت کی اس نص (عمل رسول اورحکم رسول ) ہی کو تسلیم نہیں کرتا ، اورکہتا ہے کہ شادی شدہ زانی کی سزا بھی سو کوڑے ہی ہیں تو اسے یہ حق کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے کہ تعزیر کے طور پر اپنی طرف سے اور اپنے قیاس سے کسی اورجرم کی یہ سزا تجویز کرے ،جب کہ اس میں ایذا دہی اور مثلے کا انداز پایا جاتا ہے جو شریعت ِاسلامیہ میں ممنوع ہے۔ اس سے تو زیادہ بہتر 'قیاس یا اجتہاد'یہ تھا کہ اصلاحی صاحب سرے سے رجم کا ہی انکار فرما دیتے۔ بطورِ حد زانی محصن تو کیا ہی تھا ، بطورِ تعزیر بھی کردیتے۔ بطورِ تعزیر اس کا جوازتسلیم کرنے میں آخر کیا تک ہے ؟ یہ حدیث ِرسول سے انکار کی وہ آفت ہے جو مولانا اصلاحی صاحب کی عقل وفہم پر پڑی ہے اورایسا 'اجتہاد ' یا 'استنباط' فرمایا ہے جس کی شرعی بنیاد تو پہلے ہی نہیں ہے، عقلی اوراخلاقی بنیاد سے بھی وہ محروم ہے۔ آہ !سچ ہے ع دیکھو مجھے جو دیدئہ عبر ت نگاہ ہو !
دوسرا بڑا ثبوت، تدبر قرآن کے بعد، تدبر ِحدیث ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے ادارے کا نام 'ادارئہ تدبر ِقرآن وحدیث' رکھا ہے۔ اور قرآن پر تدبر کرنے،یعنی اپنی عقل وقیاس سے قرآنی حقائق کا حلیہ بگاڑنے کے بعد، اب حدیث کاروئے آبدار مسخ کرنے کی طرف عنانِ توجہ مبذول فرمائی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں انہوں نے چند محاضرات (لیکچروں ) کااہتمام فرمایا۔ انہی محاضرات کے مجموعے کا نام 'مبادیٴ تدبر حدیث ' نامی کتاب ہے جس میں حدیث کے پرکھنے کے تمام محدثانہ اُصولوں کو ناکافی اور بے وقعت قرار دیتے ہوئے نئے اُصول وضع کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے تا کہ محدثین کی بے مثال کاوشوں پر پانی پھیر دیا جائے اور لوگوں کو ایسے ہتھیار فراہم کر دیے جائیں جنہیں استعمال کر کے وہ جس حدیث صحیح کو چاہیں ردّ کر دیں اور جس ضعیف اور باطل حدیث کو چاہیں ،صحیح قرار دے لیں۔
دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ حدیث کے پر کھنے کے لیے محدثانہ اُصول وقواعد میں جو خامیاں اور کوتاہیاں رہ گئی تھیں، اس کتاب میں اِن کا اِزالہ کیا گیا ہے اور ایسے نئے قواعدواصول وضع کیے گئے ہیں کہ ان کی روشنی میں تمام احادیث کو نئے سرے سے پرکھا جا سکے۔ کتنابڑا دعویٰ ہے ؟ لیکن اسی بلند بانگ دعوے میں حدیث کا اِنکار مضمر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری جیسے امام فن نے بھی اگر کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار دیا ہے تو محدثین کے اُصول وقواعد میں ایسی خامیاں ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے امام بخاری کے فیصلے کے برعکس صحیح حدیث،ضعیف اور ضعیف حدیث، صحیح ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اصلاحی صاحب کے گھڑے ہوئے اُصولوں کی روشنی میں تمام ذخیرئہ احادیث کانئے سرے سے جائزہ لیا جائے۔ یہ انکارِ حدیث کا راستہ چوپٹ کھولنے کے مترادف نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ اورکیایہ محدثین کی تمام کاوشوں پر خط ِنسخ پھیرنا نہیں ہے ؟
برعکس نہند نام زنگی کافور، دنیا کی عام روش ہے۔ لیکن فساد کا نا م اِصلاح یا شراب کا نام روح افزا رکھ لینے سے حقیقت نہیں بدل جاتی ہے۔ یہ غرورِ نفس یا دل کا بہلاوا اور تسویل شیطان ہے۔ بہر حال مولانا اصلاحی صاحب کی کتاب 'مبادیٴ تدبر حدیث' ایک نہایت خطرناک کتاب ہے جس میں محدثین کی کاوشوں کی نفی یا ان کا استخفاف کر کے انکارِ حدیث کا راستہ چوپٹ کھول دیا گیا ہے جس کے بعد قرآن کوماننے کادعویٰ بھی بے حیثیت قرار پاتا ہے۔ اور یہ کوئی مفروضہ ، واہمہ اورتخیل کی کرشمہ آرائی نہیں، بلکہ وہ حقیقت ہے جسے خود مولانا اصلاحی تسلیم بلکہ اس کا اظہار کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے مقدمہ تفسیر تدبر قرآن میں منکرین حدیث کے رویے کے ضمن میں لکھتے ہیں
"منکرین حدیث کی یہ جسارت کہ وہ صوم وصلوٰة ،حج وزکوة اور عمرہ وقربانی کا مفہوم بھی اپنے جی سے بیان کرتے ہیں اور اُمت کے تواتر نے ان کی جو شکل ہم تک منتقل کی ہے، اس میں اپنی ہوائے نفس کے مطابق ترمیم وتغیر کرنا چاہتے ہیں، صریحاً خود قرآن مجید کے انکار کے مترادف ہے "
مولانا اصلاحی صاحب جن کو منکرین حدیث قرار دے رہے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنا مسلک ٴانکارِ حدیث بتلاتے ہوں بلکہ وہ بھی حدیث کے ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ آپ غلام احمد پرویز، اسلم جیراج پوری، تمنا عمادی اور دیگر مشہور منکرین حدیث کی تحریریں پڑھ لیجیے، سب حدیث کے ماننے کے دعوے دار ہیں ، کوئی بھی حدیث کی حجیت سے انکار نہیں کرتا ہے۔ پھر انہیں منکرین حدیث کیوں کہا جاتا ہے ؟ صرف اس لیے کہ زبان سے حدیث ِ رسول ماننے کے باوجود حدیث میں تشکیک پیدا کرنا اور محدثین کی سعی وجہد کو بے حیثیت قرار دینا ، ان کامشغلہ ہے ، جس نے عملاً انہیں حدیث کا ہی منکر نہیں بنایا بلکہ بقول اصلاحی صاحب کے ، ان کا قرآن پر ایمان کا دعویٰ بھی محل نظر ہی قرار پاتا ہے۔
بالکل یہی معاملہ مولانا اصلاحی اور ان کے تلامذہ کا ہے۔ وہ بھی گوانکار کے علم بردار نہیں ہیں لیکن وہ جس طرح حدیث کا استخفاف، حتیٰ کہ رجم کی متواتر اور متفق علیہ روایات کا انکارکررہے ہیں اور محدثین کے اصول و قواعد کو ناکافی قرار دے رہے ہیں، اس نے دبستانِ فراہی سے و ابستہ افراد کو بھی منکرین حدیث ہی کی صف میں لاکھڑا کیا ہے، کیونکہ حدیث کے بارے میں ان کی مذموم مساعی سے بھی حدیث ہی کا انکار لازم نہیں آرہا ، بلکہ قرآنی مسلمات سے بھی انحرا ف کا راستہ کھل رہا ہے۔
چنانچہ مولانا اصلاحی صاحب کے تلمذ کے دعوے داروں میں سے سب سے زیادہ نمایاں اور قریب جاوید احمد غامدی کو دیکھ لیجیے ، جو مولانا اصلاحی کو 'امام ' لکھتے ہیں۔ یوں اس گروہ کے اِمام اوّل مولانا حمید الدین فراہی، امامِ ثانی مولانا امین احسن اصلاحی قرار پاتے ہیں اور بمصداق ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، امامِ ثالث یہی غامدی صاحب ہیں۔ یہ کوئی استہزاء نہیں ہے۔ اگر اوّل الذکر دونوں بزرگ امام ہیں تو تیسرے امام یقینا غامدی صاحب ہی ہیں۔
بہر حال مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ اِما م اول نے حدیث کے استخفاف اور اس سے بے اعتنائی کی جو بنیاد رکھی تھی ، دوسرے امام (مولانا اصلاحی) کے رویے نے اسے انکار حدیث تک پہنچا دیا اور انہوں نے رجم کی احادیث اور دیگر صحیح احادیث کو ردّکر دیا اور 'مبادی تدبر حدیث ' کے ذریعے سے تمام ذخیرئہ احادیث کو مشکوک قرار دے دیا ہے اوراب تیسر ے امام نے قرآنی مسلمات کابھی انکار شروع کردیا ہے۔ اور انکارِ حدیث کا یہ وہ منطقی اورلازمی نتیجہ ہے جسے اصلاحی صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ بالآخر یہ گروہ بھی اپنے اس منطقی انجام کوپہنچ گیا ہے۔
پسر تمام کند
جناب جاوید احمدغامدی صاحب کے بارے میں ہماری یہ بات لوگوں کے لیے شاید 'انکشاف ' کا درجہ رکھتی ہو اور ممکن ہے بہت سے لوگ یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوں، لیکن یہ ایک ایسا واقعہ اور حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ اس کے دلائل حسب ِذیل ہیں :
جون ۱۹۸۹ء میں وفاقی شرعی عدالت پاکستان (لاہور ) میں تقریباً دو ہفتے مسئلہ شہادتِ نسواں پر بحث ہوئی۔ فاضل عدالت کی درخواست پر جناب غامدی نے بھی اپنا موقف پیش کیا جس میں انہوں نے مسئلہ مذکور میں ہی مغرب زدگان کی ہم نوائی نہیں کی بلکہ اور بھی کئی قرآنی مسلمات کاانکار کیا ، بلکہ قرآ ن کریم کی معنوی تحریف کا بھی ارتکاب کیا۔ راقم بھی اس بحث میں چونکہ مکمل طور پر شریک رہا تھا ، اس لیے غامدی صاحب کاپورا بیان سننے کاموقع ملا۔ اس موضوع پر راقم اپنا مفصل مقالہ فاضل عدالت کے روبرو پہلے پیش کر چکا تھا، تاہم غامدی صاحب کے بیان کے بعد راقم نے فاضل عدالت کو خطاب کر کے کہا کہ غامدی صاحب نے تمام اسلامی مسلمات کا انکا ر کیا ہے، اس لیے ہمیں اس بیان پر بحث کرنے اور اس کا جواب دینے کا موقعہ دیا جائے۔ لیکن اس وقت کے چیف جسٹس جناب گل محمد مرحوم نے اس کی اجازت نہیں دی اور فرمایا کہ یہ مجلس مناظرہ نہیں ہے، آپ دونوں ایک ایک رسالے کے ایڈیٹر ہیں، اپنے اپنے رسالوں میں یہ شوق پورا فرمالیں۔ بہر حال پھر راقم نے دوسر ے ججوں سے ملاقات کر کے غامدی صاحب کے بیان کا تحریری جواب عدالت میں دے دیا۔
نومبر۱۹۹۰ء کے 'اشراق' میں غامدی صاحب نے اپنے اس بیان کاخلاصہ شائع کردیا ہے جو انہوں نے فاضل عدالت کے روبرو پیش کیا تھا۔ اس خلاصے میں اگرچہ وہ طمطراق، ہمہ دانی کا وہ پنداراور زبان وبیان کے وہ تیور نہیں جو عدالت کے سامنے زبانی بیان میں تھے تاہم بنیادی موقف تقریباً وہی ہے جو وہاں پیش کیا گیا تھا، اپنے اس بیان میں غامدی صاحب نے جن مسلمات کا انکار کیا ، اس کی تفصیل حسب ِذیل ہے
(۱) ﴿وَالّـٰتى يَأتينَ الفـٰحِشَةَ﴾ میں الفاحشة سے کیا مراد ہے ؟ صحابہ وتابعین سے لے کر آج تک تمام مفسرین ، محدثین ،علماء وفقہا نے کہا ہے کہ اس سے بے حیائی کی وہ قبیح ترین صورت مرادہے جسے زنا کہا جاتاہے، کیونکہ اس کی وضاحت حضرت عبادہ بن صامت  کی اس صحیح حدیث میں آگئی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آیت مذکورہ میں جس 'سبیل' کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا، وہ سبیل واضح کر دی ہے اور وہ یہ ہے کہ شادی شدہ زانی کو رجم کرنا اور غیر شادی شدہ زانی کوکوڑ ے لگانا۔
اس حدیث نے یہاں 'فاحشہ' کے مفہوم کو متعین اور اس جرم کے اثبات کے لیے چار مسلمان مرد گواہوں کو ضروری قرار دیا ہے کیونکہ نصابِ شہادت تویہاں قرآن نے ہی بیان کر دیاہے جس کا اِعادہ سورئہ نور کی آیت۴ ﴿وَالَّذينَ يَر‌مونَ المُحصَنـٰتِ...٤ ﴾... سورة النور"میں بھی کیا گیا ہے۔ اور زنا کی حد بالخصوص شادی شدہ زانی مرد وعورت کی حد، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں 'سبیل' کی وضاحت کرتے ہوئے فرما دی گئی ہے۔ چنانچہ مذکورہ حدیث عبادہ  کی وجہ سے تمام مفسرین اُمت اور تمام علماء وفقہاء مذکورہ حد زنا اور نصاب شہادت کو تسلیم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ مولانا اصلاحی جنہوں نے خوارج کے بعد، اُمت میں سب سے پہلے حد رجم کا انکا ر کیا ، وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آیاتِ مذکورہ میں بیان کردہ تعزیرات اگرچہ سورئہ نور میں نازل شدہ حدود کے بعد منسوخ ہو گئیں لیکن بدکاری کے معاملے میں شہادت کا یہی ضابطہ بعد میں بھی باقی رہا۔ (ملاحظہ ہو تفسیر 'تدبر قرآن': ج ۲،ص ۳۷ )
لیکن غامدی صاحب نے اپنے عدالتی بیان میں کہا کہ الفاحشة سے مراد زنا نہیں ہے، نہ اس میں زنا کی سزا ہی بیان کی گئی ہے ، بلکہ اس میں استمرار کا مفہوم پایا جاتا ہے (اپنے خلاصے میں غامدی صاحب نے استمرار والی بات حذف کردی ہے جب کہ عدالت میں یہ بات انہوں نے بڑے اعتماد بلکہ ادعا کے ساتھ پیش کی تھی ) جس کی وجہ سے آیت کامفہوم یہ ہو گا کہ جو پیشہ ور طوائفیں ہیں، ان کی سزا اس میں بیان کی گئی ہے ، عام بدکار عورتوں کی یہ سزا نہیں ہے۔
(۲) پھر اسی پر بس نہیں کی گئی، یہ دعویٰ بھی انہوں نے کیا کہ قرآن وحدیث میں کہیں سرے سے ثبوتِ زنا کیلئے چار گواہوں کا ذکر ہی نہیں ہے۔ اس لئے اثباتِ زنا کے لئے چار گواہوں کا نصاب ہی نہیں زنا تو ایک گواہ بلکہ ایک بچے کی شہادت،بلکہ بغیرکسی شہادت کے قرائن کی بنیادپر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
اور قرآنِ کریم کی آیت ﴿وَالَّذينَ يَر‌مونَ المُحصَنـٰتِ...٤ ﴾... سورة النور’جس میں چار مرد گواہوں کو ضروری قرار دیا گیا ہے ، اس کی بابت ارشاد فرمایا (جو تحریف معنوی ہے ) کہ اس میں ان لوگوں کی سزا بیان کی گئی ہے جو بیٹھے بٹھائے یوں ہی بغیر کسی واقعے کے صدور کے ، کسی پر بدکاری کی تہمت لگا دیں ۔ اس کا تعلق زناکے اس الزام سے نہیں ہے جس کافی الواقع ارتکاب کیا جا چکا ہو، کیونکہ اس کے ثبوت کے لیے تو کسی متعین نصاب شہادت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
(۳) عدالت میں موصوف نے حد اورتعزیر کے مابین فرق کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا تا ہم شائع کردہ خلاصے میں اس نکتے کو پتہ نہیں، کیوں حذف کردیا ہے۔
جناب غامدی صاحب کی یہ تمام باتیں قرآن وحدیث کی واضح نصوص کے خلاف ہیں اور جیسا کہ خود موصوف نے عدالت میں تسلیم کیا کہ
"امت میں پہلا فرد ہوں جس کی یہ رائے ہے، حتیٰ کہ اس رائے میں اپنے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی سے بھی مختلف ہوں " (غامدی صاحب نے اپنے شائع کردہ خلاصے میں اس اِدعا کو بھی حذف کردیا ہے۔ )
غامدی صاحب نے جو موقف اختیار کیا ہے ، اس کے دلائل پر تو راقم بحث کرچکا ہے جو ماہنامہ 'محدث' لاہورمیں ۱۹۹۱ء کے اوائل میں شائع ہو چکی ہے، یہاں اس تفصیل سے اس پہلو کی وضاحت مقصودہے کہ فقہاے امت کے متفقہ مسلک سے انحراف نے، جو دراصل حجیت ِحدیث کے اِنکار پر مبنی ہے موصوف کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے اور کتنے فخرسے وہ پوری امت میں اپنے منفرد ہونے کا اعلان فرما رہے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ اس زیغ وضلال اور من شذّ شذّ ... کا مصداق بننے سے بچائے۔
(۴) اسی طرح آیت ِمداینہ کی بابت جس میں قرض کے سلسلے میں دو مرد گواہ یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانے کا حکم ہے ، ارشاد فرمایا:
"یہ محض ایک اخلاقی تعلیم ہے ، کوئی اصول ،ضابطہ اور متعین نصابِ شہادت نہیں ہے۔ "
(۵) غامدی صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ شہادت میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ حالانکہ تمام فقہاے امت اس بات پر متفق ہیں کہ زنا کے ثبوت کیلئے چار مسلمان گواہ ضروری ہیں، اور یہ قرآن کی نص ﴿أَر‌بَعَةً مِنكُم﴾ سے ثابت ہے ، اس لیے اس پر بھی اجماع ہے۔
مزید مسلمات کاانکار
غامدی صاحب نے اُمت کے اجماعی اور متفق علیہ مسائل ہی کا انکار نہیں کیا، بلکہ نصوصِ قرآنی تک سے انحراف کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا ہے۔ اور غامدی صاحب کے ساتھ اب ان کے تلامذہ بھی مسلماتِ اسلامیہ کے انکار پر اتر آئے ہیں۔ چنانچہ جنوری ۱۹۹۶ء کے ماہنامہ 'اشراق' لاہور میں حضرت عیسیٰ کے قیامت کے قریب نزولِ آسمانی سے، ظہورِ امام مہدی وخروجِ دجال سے اوریاجوج وماجوج کے وجود سے بھی انکار کر دیا گیا ہے۔
اس تفصیل سے اس امر میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے کہ لغت یا اپنی فہم نارسا اورعقل کج اَدا کے ذریعے سے قرآنِ کریم کی تفسیر کرنے کا اورحدیث ِرسول اور اَسلاف کی تعبیر سے اِنحراف کا جو راستہ مولانا اِصلاحی نے اپنایا اور اپنے تلامذہ اور حلقہ ارادت کو بتلایا ،یہ وہی راستہ ہے جو کم وبیش کچھ فرق کے ساتھ سرسید احمد خاں ، غلام احمد پرویز اورعبد اللہ چکڑالوی وغیرہم نے اختیار کیا جس کا لازمی اور منطقی نتیجہ قرآنی مسلمات کا انکار اور تواتر واِجماعِ اُمت سے ثابت شدہ مسائل سے اِعراض وانحراف ہے۔ بہت سے مسلمات اور اِجماعی مسائل کا اِنکار مذکورہ حضرات نے کیا (جیسا کہ ان کی کتابوں اور تحریروں سے واضح ہے ) اور اب اسی روش پر چلتے ہوئے کچھ مسلمات اور تواتر اُمت کا انکار مولانا اصلاحی اور ان کے تلامذہ کے ذریعے سے ہو رہا ہے جس پر ان کی تحریریں شاہد ہیں۔ یہ کوئی افترا یا الزام نہیں ہے ﴿تَشـٰبَهَت قُلوبُهُم﴾
اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ کوئی صاحب ِعلم و تحقیق ائمہ سلف کے افکار وتعبیرات کی روشنی میں مولانا اصلاحی کی تفسیر 'تدبر قرآن ' کا جائزہ لے (جیسا کہ راقم نے ان کے نظریہٴ رجم پر اپنی کتا ب میں مدلل بحث کی ہے ) اور اس کے تفردات وشذوذ بلکہ اس کی کج فکریوں اور انحرافات کو طشت ازبام کرے تاکہ ان 'اہل قرآن' کی قرآن فہمی اور ان اہل تدبر کے 'تدبر'کی حقیقت واضح ہو سکے۔ اسی طرح مولانا اصلاحی کے محاضرات کا بھی جو'مبادئ تدبر حدیث' کے نام سے شائع ہوئے ہیں ، جائزہ لے کر ان کے حسن وقبح کو واضح اور ان میں انکارِ حدیث کے مخفی جراثیم کو آشکاراکرے۔
مولانا اصلاحی، ان کے تلامذہ اورفکر فراہی کے اس تاریک اورنہایت خطرناک پہلو سے، اہل علم کا ایک حلقہ تو آگا ہ ہے ، لیکن بہت بڑی اکثریت اس سے بے خبر ہے ، اس لیے ان کی آگاہی کے لیے یہ مضمون تحریر کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو زیغ وضلال سے محفوظ رکھے اور صحیح راستے کی سمجھ اور اس پر عمل کرنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین!

٭٭٭٭٭