حدیث کے 'ظنی' ہونے کا مفہوم
حدیث کی عظمت و اہمیت گھٹانے اور انکارِ سنت کی راہ ہموار کرنے کے لئے عموماً ان آیات کا سہارا لیا جاتا ہے جن میں 'ظن' کی مذمت اور اس کے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ذیل کے مضمون میں 'ظن'کی اصل حقیقت قرآن و سنت اور لغت ِعرب سے واضح کرتے ہوئے یقین و ظن کے لحاظ سے سنت و حدیث کا جو مقام ہے، اس کو متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یقین و ظن کے مختلف مراتب بھی دلائل کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں۔
'ظن' کی مذمت میں مندرجہ ذیل آیات پیش کی جاتی ہیں
(۱) ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اجتَنِبوا كَثيرًا مِنَ الظَّنِّ...١٢ ﴾... سورة الحجرات
"اے ایمان والو! گمان کی بہت سی قسموں سے بچو۔"
(۲) ﴿إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَما تَهوَى الأَنفُسُ ۖ وَلَقَد جاءَهُم مِن رَبِّهِمُ الهُدىٰ ٢٣ ﴾... سورة النجم
"وہ مشرکین صرف 'ظن' اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس ان کے ربّ کی جانب سے ہدایت آچکی ہے۔ "
(۳) ﴿إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِن هُم إِلّا يَخرُصونَ ٦٦ ﴾... سورة يونس
"وہ نہیں پیروی کرتے مگر گمان کی ، وہ تو صرف اَٹکل سے کام لیتے ہیں"
(۴) ﴿وَما يَتَّبِعُ أَكثَرُهُم إِلّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لا يُغنى مِنَ الحَقِّ شَيـًٔا...٣٦ ﴾... سورة يونس
"ان میں سے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں۔ بلاشبہ ظن حق سے کچھ بھی بے نیاز نہیں کرتا"
(۵) ﴿ وَقالوا ما هِىَ إِلّا حَياتُنَا الدُّنيا نَموتُ وَنَحيا وَما يُهلِكُنا إِلَّا الدَّهرُ ۚ وَما لَهُم بِذٰلِكَ مِن عِلمٍ ۖ إِن هُم إِلّا يَظُنّونَ ٢٤ ﴾... سورة الجاثية
"اور کہا انہوں نے: نہیں وہ مگر دنیاوی زندگی، ہم مرتے ہیں اور زندہ ہوتے ہیں اور ہمیں ہلاک نہیں کرتا مگر زمانہ، اور ان کو اس کا کچھ بھی علم نہیں، وہ تو صرف ظن و تخمین میں مبتلا ہیں۔"
(۶) ﴿إِن نَظُنُّ إِلّا ظَنًّا وَما نَحنُ بِمُستَيقِنينَ ٣٢ ﴾... سورة الجاثية
"ہم صرف گمان ہی کرتے ہیں اور ہم یقین نہیں رکھتے"
(۷) ﴿ وَلا تَقفُ ما لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ...٣٦ ﴾... سورة الاسراء
"جس بات کا تمہیں علم نہیں، اس کے پیچھے مت پڑو۔"
ان آیات کے علاوہ بخاری و مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے
«إياکم والظن فإن الظن أکذب الحديث» ( بخاری مع الفتح: ۵/۳۷۵/مسلم: ۶۴۸۲)
"ظن سے بچو، بیشک 'ظن' سب سے بڑا جھوٹ ہے"
'ظن' کی اصل حقیقت
مذکورہ بالا آیات اور حدیث میں 'ظن' کے مفہوم کو متعین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی اصل حقیقت کو قرآنِ وسنت اور لغت ِعرب کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔امام راغب کہتے ہیں:
«الظن اسم لما يحصل عن إمارة ومتیٰ قويت أدت إلی العلم ومتیٰ ضعفت جدا لم يتجاوز حد التوهّم» (مفرداتِ راغب، صفحہ ۳۱۹)
"علامات و قرائن سے جو شے حاصل ہو، اسے ظن کہا جاتا ہے۔ اگر یہ علامات و قرائن قوی ہوتے ہیں تو ظن کی سرحد علم و یقین سے مل جاتی ہے اور اگر یہ قرائن بہت ہی زیادہ کمزور ہوں تو پھر انتہائی درجہ 'وہم' ہے۔"
یعنی علامات و قرائن کی قوت و ضعف کے لحاظ سے ظن کے درجات و مراتب مختلف ہیں :
ظن کے مراتب و اقسام
(۱) کسی شئ کے وجود یا عدم پر قرائن و علامات انتہائی قوی اور شکوک و شبہات سے بالاتر ہوں تو ظن کی یہ شکل 'یقین' کے ہم معنی ہے۔ قرآنِ مجید میں ظن بمعنی یقین متعدد جگہ استعمال ہوا ہے
(الف) ﴿ الَّذينَ يَظُنّونَ أَنَّهُم مُلـٰقوا رَبِّهِم وَأَنَّهُم إِلَيهِ رٰجِعونَ ٤٦ ﴾... سورة البقرة
"جو لوگ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ربّ سے ملنے والے ہیں اور یہ کہ وہ اس کی طرف لوٹنے والے ہیں"
(ب) ﴿قالَ الَّذينَ يَظُنّونَ أَنَّهُم مُلـٰقُوا اللَّهِ كَم مِن فِئَةٍ قَليلَةٍ غَلَبَت فِئَةً كَثيرَةً بِإِذنِ اللَّهِ...٢٤٩ ﴾... سورة البقرة
"ان لوگوں نے جو اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملنے والے ہیں کہا: کتنے ایسے گروہ تھے جو قلت ِتعداد کے باوجود کثیر التعداد گروہ پر اللہ کے حکم سے غالب آگئے۔"
ان آیات میں ظن بمعنی یقین یا قریب بہ یقین مرا دلینے کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ قرآن مجید نے موٴمنوں کی ایک نمایاں صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا: ﴿وَبِالءاخِرَةِ هُم يوقِنونَ ٤ ﴾... سورة البقرة" واضح رہے کہ آخرت اور لقاءِ ر بّ کا مفہوم ایک ہی ہے۔
اگر اس آیت کا مفہوم یہ لیا جائے کہ انہیں اللہ سے ملاقات کا شبہ ہے ، تواس طرح ایمان کی تکمیل ہی نہیں ہوتی، اور ایسا ایمان اللہ کے ہاں قابل قبول ہی نہیں کجا یہ کہ قابل تعریف ہو۔یاد رہے کہ اس آیت میں ظن کے الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ موٴمنوں کے ایمان کو بیان کررہے ہیں۔
(۲) ظن کا دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ کسی شئ کے وجود یا عدم پر سو فیصدی قرائن موجود نہ ہوں بلکہ اس سے کم ہوں مثلاً ۶۰ فیصد اور اس سے زیادہ۔ اس کو اردو میں گمانِ غالب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے ظن پر اعتماد و اعتبار نہ صرف یہ کہ پسندیدہ ہے بلکہ بعض حالات میں ضروری اور واجب ہے ۔ ظن کا یہ مفہوم ذیل کی آیات میں ملتا ہے :
(الف) ﴿لَولا إِذ سَمِعتُموهُ ظَنَّ المُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بِأَنفُسِهِم خَيرًا ...١٢ ﴾... سورة النور
"کیوں نہ ایسا ہوا کہ جب تم نے اس (بہتان) کو سنا توموٴمن مردوں اور موٴمن عورتوں کے بارے میں تم اچھا گمان کرتے۔"
اس آیت میں مسلمانوں کو تلقین کی جارہی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ کے بارے میں حسن ظن (خوش گمانی) سے کیوں نہ کام لیا، کیونکہ زیادہ قرائن و علامات اسی بات کے حق میں تھے کہ حضرت عائشہ کا دامن اس قسم کی تہمت سے پاک ہے۔یہاں بھی اس کو 'ظن' سے تعبیر کیا گیاہے جس میں یقین کاپہلو راجح ہے۔
(ب) ﴿فَلا جُناحَ عَلَيهِما أَن يَتَراجَعا إِن ظَنّا أَن يُقيما حُدودَ اللَّهِ...٢٣٠ ﴾... سورة البقرة
"دونوں میاں بیوی پرکوئی حرج نہیں ہے کہ وہ آپس میں رجوع کرلیں، اگر ان کو یہ گمان ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم کرسکیں گے۔"
طلاقِ رجعی کی شکل میں میاں بیوی سے کہا جارہا ہے کہ اگر دونوں اپنے حالات اور قرائن کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم کرنے پر آمادہ ہوں اور اس کے لئے گمانِ غالب کی حد تک روشن امکانات موجود ہوں تو میاں بیوی اپنا گھر آباد کرسکتے ہیں۔
(۳) ظن بمعنی شک، یعنی کسی چیز کے وجود اور عدم پر یکساں قرائن و علامات موجود ہوں۔ دونوں میں سے کسی ایک کے قرائن کوترجیح دینا ناممکن ہو۔ مثلاً ارشادِ ربانی ہے
﴿وَإِنَّ الَّذينَ اختَلَفوا فيهِ لَفى شَكٍّ مِنهُ ۚ ما لَهُم بِهِ مِن عِلمٍ إِلَّا اتِّباعَ الظَّنِّ ۚ وَما قَتَلوهُ يَقينًا ١٥٧ ﴾... سورة النساء
"اور بلاشبہ جن لوگوں نے اس (عیسیٰ علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ اس کی جانب سے شک میں ہیں، ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی علم و یقین نہیں ہے۔ سوائے ظن کی پیروی کے اور انہوں نے یقینا قتل نہیں کیا۔"
اس آیت میں یہود کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے سلسلے میں ان کے اقوال و آراء کی بنیاد شک پر ہے، علم و یقین پر نہیں ہے۔اسی شک اور عدمِ علم و یقین کو اتباعِ ظن سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہوا کہ اس آیت میں ظن بمعنی شک استعمال ہوا ہے۔ 'شک'کے مفہوم کی وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو مفردات راغب صفحہ ۲۶۶
«الشك اعتدال النقيضين عند الإنسان وتساويهما وذلك قديکون لوجود إمارتين متساويتين عند النقيضين أولعدم الإمارة منهما»
(۴) ظن بمعنی وہم یعنی ایسا خیال و گمان جس کی بنیاد کسی دلیل پر نہ ہو بلکہ واضح نص اس کے خلاف موجود ہو۔مضمون کے شروع میں جن آیات کو نقل کیا گیا ہے ان میں اسی قسم کے بے بنیاد وہم وخیال کی مذمت کی گئی ہے۔ اور حدیث میں اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(۵) ظن بمعنی تہمت، جیسا کہ ایک قرأت میں ہے:﴿ وَما هُوَ عَلَى الغَيبِ بِضَنينٍ ٢٤ ﴾... سورة التكوير" یہاں ظنین متہم کے معنی میں ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ظن کی تیسری، چوتھی اور پانچویں قسم مذموم اور قابل اجتناب ہیں اور اپنی اصل حقیقت کے لحاظ سے ملتی جلتی ہیں۔
ابتدا ء مضمون میں ذکرکردہ زیربحث آیات پر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آیت نمبر (۱) میں فرمایا گیا ہے کہ گمان کی بہت سی قسموں سے بچو، معلوم ہوا کہ گمان (ظن) کی ہر شکل قابل مذمت نہیں ہے، اس لئے بعد میں ارشاد ہوا ﴿ إِنَّ بَعضَ الظَّنِّ إِثمٌ﴾ "بلاشبہ گمان کی بعض صورتیں گناہ ہیں۔"
آیات (۲،۳،۴) میں مشرکین کے عقیدئہ شرک اور ان کے مشرکانہ اقوال اور رسم و رواج کو بیان کیا گیا ہے اور آخر میں ان کے عقائد کی بنیاد ظن و تخمین کو قرار دیا گیا ہے، یعنی ان کے ان عقائد و رسوم کی پشت پر کوئی قابل اعتماد دلیل موجود نہیں ہے۔ حالانکہ اس کے برعکس شرک کی تردید اور توحید کے اثبات میں نہایت قوی عقلی اور کائناتی دلیل و قرائن موجود ہیں۔
آیت (۵) میں حشر و نشر کے انکار کو'ظن' یعنی بے بنیاد وہم قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ حشرو نشر (زندگی بعد موت) کا ثبوت متعدد عقلی اور نقلی دلائل و براہین سے واضح ہوچکا ہے۔اس کا انکار کسی یقین اور علمی استدلال پر مبنی نہیں ہے۔
آیت (۶) میں مشرکین کا مقولہ نقل کیا گیا ہے جو انہوں نے قیامت کا انکار کرتے ہوئے کہا تھا،
آیت (۷) میں ان باتوں کے پیچھے پڑنے اور ان کے بارے میں زبان کھولنے سے منع کیا گیاہے جن کی بنیاد وہم و خیال پر ہو۔ اس لحاظ سے یہ آیت، آیت نمبر ۱ کے ہم معنی ہے۔ اسی طرح حدیث "واياکم والظن" میں اس ظن سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جو شکی اور وہمی مزاج کی پیداوار ہو۔
'ظن' کے یہ مراتب و اقسام اسی طرح ہیں، جس طرح کہ 'یقین' کے متعدد مراتب و اقسام قرآنِ مجید سے معلوم ہوتے ہیں :
مراتب ِیقین
قرآن مجید میں یقین کے تین مراتب و منازل بیان کئے گئے ہیں:
علم الیقین عین الیقین اور حق الیقین
امام ابن تیمیہ نے ان تینوں کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ علم الیقین علم کے اس درجہ کا نام ہے جو کسی شخص کو کسی کی بات سننے، کسی دوسرے شخص کے بتلانے اور کسی امر میں قیاس اور غوروفکر کرنے سے حاصل ہو۔ پھر جب اسے آنکھوں سے مشاہدہ اور معائنہ کرلے گا تو اسے عین الیقین کا مرتبہ حاصل ہوجائے گا اور جب دیکھنے کے بعد اسے چھوئے گا، محسوس کرے گا، اسے چکھے گا اور اس کی حقیقت کو پہچان لے گا تو اسے حق الیقین کا مقام حاصل ہوجائے گا۔ علم الیقین کی مثال یہ ہے کہ کسی شخص نے خبر دی کہ فلاں مقام پر شہد ہے، اب راوی پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی تصدیق کرنا علم الیقین ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ خود آنکھوں سے شہد کے چھتے کا مشاہدہ کرلیا جائے، یہ عین الیقین کا مرتبہ ہے۔ یہ درجہ پہلے مرتبہ کی بہ نسبت اعلیٰ اور یقین و اذعان کے لحاظ سے اونچا مقام رکھتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ لیس المخبر کالمعائن یعنی جو کان سے سن لے وہ اس کے برابر نہیں ہوسکتا جو آنکھ سے دیکھ لے، حق الیقین کی مثال یہ ہے کہ کسی نے شہد کوچکھ کر اس کا مزہ اور اس کی مٹھاس محسوس کرلی۔ یہ تیسرا درجہ دوسرے درجہ کی نسبت ارفع و اعلیٰ ہے۔1
اب یوں سمجھنا چاہئے کہ جہاں سے یقین کا ابتدائی درجہ شروع ہوتا ہے وہاں ظن کی اعلیٰ ترین قسم کی سرحد ختم ہوجاتی ہے۔ یقین سے یہ تینوں مراتب درجہ بدرجہ شریعت ِاسلامیہ میں مطلوب ہیں۔ لیکن 'ظن' کی مذکورہ بالا پانچ اقسام میں سے دو یعنی ظن بمعنی یقین اور ظن بمعنی گمانِ غالب مستحسن ہی نہیں بلکہ بعض حالات میں ان پر اعتماد کرنا واجب ہے۔ باقی رہیں آخری تین قسمیں تو ان سے احتراز و اجتناب ضروری ہے۔ اصولِ حدیث کی کتابوں میں حدیث کو 'ظنی' یا مفید کہا گیا ہے ۔ اس سے مراد 'ظن' کے پہلے یا دوسرے معنی ہوسکتے ہیں نہ کہ تیسرے اور چوتھے معنی۔
واضح رہے کہ گمانِ غالب کے لحاظ سے مفید ظن روایات کو اخبارِ آحاد کہا جاتا ہے یعنی ایسی حدیث جن کے راوی تعداد کے اعتبار سے حد ِ تواتر کو نہ پہنچے ہوں۔
خبر متواتر اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے راوی ہر دور میں اتنے زیادہ رہے ہوں کہ عادةً ان کا جھوٹ پر متفق ہوجانا ناممکن ہو۔
اب یقین کے مختلف مراتب اور ظن کی متعدد صورتوں کے اعتبار سے حدیث کی حسب ِذیل اقسام ہیں
(۱) ایسے عملی2 مسائل پر مشتمل احادیث جو اُمت میں شروع سے اب تک بغیر کسی اختلاف کے ایک دور سے دوسرے دور میں منتقل ہوتی رہی ہیں مثلاً اذان و اقامت کے کلمات، صبح کی دو رکعتیں، مغرب کی تین رکعتیں، اور عصر کی چار رکعتیں، رکوع و سجود کی تعداد، اس قسم کے بیسیوں وہ اُمور ہیں جو حدیث کی مستند کتابوں میں درج نہیں اور ان کی تائید میں پوری امت کا تعامل (عملدرآمد) بغیر کسی شائبہ اختلاف کے موجود ہے۔ سنت و حدیث کا یہ وہ سرمایہ ہے جس کا یقینی پہلو قرآنِ مجید کے کلام الٰہی ہونے کی طرح محکم اور مضبوط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے کاتبوں اور حافظوں کی تعداد اگر ہر دور میں لاکھوں رہی ہوگی، تو نمازیوں اور روزہ رکھنے والوں کی گنتی کروڑوں سے کم نہ ہوگی۔ تواتر اور راویوں کی ان گنت تعداد کے لحاظ سے حدیث کا یہ سرمایہ قرآن ہی کی طرح یقینی ہے۔ اس کا انکار خود قرآن کے انکار کے ہم معنی ہے۔
حدیث کا یہ سرمایہ شک و شبہ سے بالاتر ہونے کے اعتبار سے حق الیقین کا مقام رکھتا ہے۔
(۲) تواتر کی دوسری قسم علم کی اصطلاح میں تواتر طبقہ عن الطبقہ کہلاتی ہے۔ یعنی ایک دور کے اَن گنت افراد دوسرے اور بے شمار لوگوں کی طرف کامل اتفاق کے ساتھ کسی بات کو منتقل کرتے ہیں۔ اس کی واضح مثال قرآن مجید کا ایک دور سے دوسرے دور کی طرف تواتر کے ساتھ منتقل ہونا ہے۔ یہ قسم بھی حق الیقین کے درجہ میں ہے۔
(۳) تواتر اسناد، یعنی حدیث کا ایک متن متعدد سندوں سے مروی ہو، یہ تعداد بھی اتنی ہو کہ حد تواتر تک پہنچ جائے مثلاً حدیث «من کذب علی متعمدًا فليتبوأ مقعدہ من النار»
یعنی "جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنائے۔"
یہ روایت ۶۲ صحابہ سے منقول ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔ ایک دوسری تحقیق کے مطابق صحابہ کی تعداد ۱۰۰ سے بھی متجاوز ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مقدمہ ابن صلاح، صفحہ ۱۳۵
اسی طرح ختم نبوت پراحادیث ۱۵۰ صحابہ سے مروی ہیں جن میں سے تیس صحابہ کے اسماے گرامی صحاحِ ستہ میں ملتے ہیں۔ (مقدمہ فتح الملہم شرح مسلم، صفحہ ۶)
(۴) تواتر قدرِ مشترک یا تواتر ِمعنوی۔ یعنی کسی واقعہ کے بارے میں منقول تمام جزئیات و تفصیلات توحد تواتر کونہیں پہنچتیں لیکن مختلف روایات میں جو قدرِ مشترک پایا جاتا ہے، اس کے متواتر ہونے سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا، مثلاً حاتم طائی کی سخاوت کے بارے میں جو تفصیلات زبان زدِ عوام ہیں وہ سب کی سب متواتر نہیں ہیں۔ لیکن ان سب حکایات و واقعات میں ایک بات قدرِ مشترک کی حیثیت سے پائی جاتی ہے اور وہ ہے حاتم کی بے پناہ جودوسخا۔ اس کا انکار ہدایت کے انکار کا ہم معنی ہے۔ سنت کے مستند ذخیرے میں اس تواتر کی نمایاں مثال احادیث ِمعجزات ہیں۔یہ روایات اپنی سند اور راویوں کی تعداد کے لحاظ سے متواتر کی حد سے کم ہیں لیکن ان میں جو قدرِ مشترک پایا جاتاہے، اس کے متواتر ہونے سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ ان احادیث میں یہ بات قدرِ مشترک کے طور پر پائی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض ایسے افعال کا صدور ہوا ہے جو خارقِ عادت اور سلسلہ اسباب سے ماوراء ہیں۔
حدیث کی اقسام (۳،۴) سے یقین و اطمینان کی وہی کیفیت حاصل ہوتی ہے جو عین الیقین سے حاصل ہوسکتی ہے۔
حدیث ِمتواتر کی ان اقسام کے بعد خبر واحد کانمبر آتا ہے۔ راویوں کی تعداد اور ان کی ثقاہت کے لحاظ سے اس کی بھی بہت سی قسمیں ہیں ان میں سے بعض اقسام مفید یقین ہیں یعنی ان سے علم الیقین کی سی اطمینانی کیفیت حاصل ہوتی ہے اور بعض انواع مفید ِظن ہیں یعنی گمانِ غالب کی حد تک انسان ان سے فائدہ اُٹھا سکتاہے۔
ایسی روایات جو راویوں کی تعداد کے لحاظ سے حد ِتواتر کو نہ پہنچ سکیں ان کو اخبارِ آحاد (خبرواحد) شمار کیا جاتاہے۔ خبرواحد کی راویوں کی تعداد کے اعتبار سے چند قسمیں ہیں
(۱) مشہور، ایسی روایت جس کے سلسلہ سند میں شروع سے آخر تک (یعنی ہر دور میں) راویوں کی تعداد دو سے زیادہ ہو۔
(۲) عزیز، ایسی حدیث جس کی تعدادِ رواة ہر دورمیں دو سے کم نہ ہو۔
(۳) غریب، ایسی روایت جس کی سند کسی دور میں یا تمام اَدوار میں ایک راوی پر مشتمل ہو۔
واضح رہے کہ محدثین کے نزدیک اگر کسی روایت کی سند کے اکثر اَدوار میں راویوں کی تعداد ہزاروں سے بھی متجاوز ہو لیکن کسی ایک دور میں ایک ہی راوی ہو تو اس روایت پر 'غریب' ہی کا اطلاق ہوگا۔ یہی حال خبر واحد کی دوسری انواع کا بھی ہے، مثلاً بعض محدثین کی بعض روایات کی سند اس طرح پر ہے : عن أحمد بن حنبل عن الشافعي عن مالك عن نافع عن ابن عمر عن رسول اللہﷺ اس سند میں موٴلف ِکتاب (محدث) اور حضرت عبداللہ بن عمر کے درمیان چار واسطے پائے جاتے ہیں۔ اب اگر تین واسطوں کے سامنے بہت سے راوی موجود ہوں لیکن ایک واسطہ بھی اپنی جگہ منفرد رہ جائے تو یہ حدیث غرابت سے خالی نہ ہوگی۔اس قسم کی احادیث کے راوی اگر ثقہ اور قابل اعتماد ہوں تو یہ محدثین کے نزدیک قابل قبول ہوتی ہیں۔ لیکن خبر واحد کی ان اَنواع کو ظنی (مفید ِظن) قرار دیا گیاہے۔ یہاں ظن سے مراد گمانِ غالب ہے ،جس کی سرحدیں علم و یقین سے انتہائی قریب ہوتی ہیں۔
شریعت میں گمانِ غالب قابل اعتماد ہے!
شریعت ِاسلامیہ میں ان تمام ذرائع پر اعتماد کیا گیا ہے جن کی بنیاد گمانِ غالب پر ہوتی ہے۔ مثلاً قرآنِ مجید کی آیت ﴿وَأَشهِدوا ذَوَى عَدلٍ مِنكُم﴾ کی روشنی میں دو عادل گواہوں کی شہادت پر اعتماد کیا گیاہے اور ا س شہادت کی بنا پر قتل جیسے فوجداری معاملات کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ اس شہادت کا درجہ بھی سو فیصدی یقینی نہیں ہے، بلکہ جوکچھ بھی ہے وہ ظن (گمانِ غالب ) ہی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جس مسلمان کی جان کا تحفظ (عصمت) قرآن اور سنت ِمتواترہ کے ذریعہ ثابت ہے، اسی کو دو عادل گواہوں کی شہادت کی بنا پر قتل کامجرم قرار دیتے ہوئے قصاص میں پھانسی پر لٹکایا جاسکتا ہے۔
خبر واحد کا یقینی پہلو
محدثین کرام نے جہاں خبر واحد کو مفید ِظن کہا ہے وہاں یہ بھی وضاحت کردی ہے کہ اگر خبر واحد کے ساتھ دوسرے قرائن و شواہد وابستہ ہوں تو یقین کا پہلو نکل آتا ہے۔ یعنی خبر واحد مشتمل بر قرائن و شواہد علم الیقین کا فائدہ دیتی ہے۔اصولِ حدیث کی کتابوں میں ان قرائن و شواہد کی تین مثالیں دی گئی ہیں :
(۱) بخاری و مسلم کی وہ تمام روایات جو محدثین کے نقد و تبصرے سے بالاتر رہی ہیں۔ صحت و قوت اور قبولیت ِعام کے لحاظ سے ان کا درجہ ان روایات سے کہیں زیادہ بلند ہے جو صرف راویوں کی ثقاہت کی بنا پر قابل اعتماد ٹھہرائی گئی ہیں۔ ان دونوں کتابوں کو تلقّی بالقبول(قبولیت ِعلما) کا مقام حاصل ہونا، اور ان کی صحت قابل اعتماد ہونے پر اُمت کا اجماع و اتفاق ہونا، ایسے مضبوط قرائن وشواہد ہیں کہ جن کی بنا پر یہ احادیث مفید ِعلم و یقین قرا رپاتی ہیں۔
(۲) حدیث مشہور بھی مفید ِعلم و یقین ہے جب کہ وہ متعدد الگ الگ سندوں سے مروی ہو اور ہر قسم کی فنی خامی اور راویوں کے ضعف سے پاک ہو۔
(۳) حدیث ِمسلسل بالائمہ، یعنی ایسی حدیث جس کے راوی ہردور میں مشہور اہل علم میں سے ہوں بشرطیکہ وہ اس حدیث کے بیان کرنے میں منفرد نہ ہوں بلکہ علم و تقویٰ کے لحاظ سے ان کی ہم پلہ کوئی دوسری شخصیت بھی ان کی ہم نوا ہو۔ مثلاً امام احمد بن حنبل، امام شافعی سے روایت کریں اور وہ بھی امام مالک سے۔ ظاہر ہے ان تینوں بزرگوں کی ثقاہت اور علمی جلالت و عظمت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔ اب اگر ان میں سے ہرامام کے ساتھ ایک دوسرا جلیل القدر عالم بھی شریک ِروایت ہوتو سہو و نسیان کا امکان انتہائی کم سے کم رہ جاتاہے اور اگر مذکورہ بالا تینوں شکلیں کسی ایک ہی حدیث میں یکجا ہوجائیں تو اس صورت میں قطعیت اور یقین کا پہلو اور بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ یعنی جب ایک روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں درج ہو، راویوں کی تعداد کے لحاظ سے مشہور ہو، اور راوی بھی اکابر ائمہ دین میں سے ہوں۔
ان کے علاوہ اور بھی قرائن و شواہد ہوسکتے ہیں جن کی تفصیل کی اس وقت ضرورت نہیں ہے۔
اس تفصیل سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ خبر واحد کی بھی متعدد انواع مفید ِعلم الیقین ہیں۔ اب صرف وہ اخبارِ آحاد رہ جاتی ہیں، جن کے راوی تقوے اور حافظہ کے لحاظ سے تو قابل اعتماد ہیں لیکن دوسرے قرائن و شواہد سے ان کو تقویت اور تائید حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ان روایات کو بھی صحت و قوت کے لحاظ سے مختلف مراتب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مثلاً صحیح لذاتہ، حسن لذاتہ، صحیح لغیرہ، حسن لغیرہ۔
(۱) صحیح لذاتہ سے مراد وہ روایت ہے جس کے راوی عدالت (تقویٰ) اور قوتِ حافظہ کے لحاظ سے قابل اعتماد ہوں، سند کی تما م کڑیاں باہمی متصل و مربوط ہوں، انقطاع کے نقص سے پاک ہوں اور ہر قسم کی ان فنی خامیوں سے مبرا ہوں۔ جن کو فن حدیث کے ماہرین ہی جان سکتے ہیں، اسی طرح وہ روایت ہر قسم کے شذوذ سے پاک ہو (شذوذ کا مطلب محدثین کی اصطلاح میں یہ ہے کہ ثقہ راوی اپنے سے زیادہ قابل اعتماد راوی سے حدیث میں یا دو تین ثقہ راویوں سے سند یا متن حدیث کے بیان میں اختلاف کرے) یہ پانچ شرطیں جس حدیث میں پورے کمال کے ساتھ پائی جائیں وہ 'صحیح لذاتہ' شمار ہوگی۔
(۲) اگر تمام شرائط کے باوجود حافظہ میں کچھ کمی پائی جاتی ہے تو اس روایت کو حسن لذاتہ کہا جاتا ہے۔
(۳) 'حسن لذاتہ' اگر کئی طرق (سندوں) سے مروی ہو تو اس کا نام صحیح لغیرہ ہے۔
(۴) اگر کسی روایت میں ضعف کے متعدد وجودہ موجود ہوں، لیکن اس ضعف کی تلافی اس بنا پر ہوگئی ہو کہ وہ روایت کئی سندوں سے مروی ہے تو ایسی حدیث کو 'حسن لغیرہ' کہا جاتاہے۔ محدثین کرام نے کسی روایت کو غرابت یاضعف سے پاک کرنے کے لئے توابع و شواہد کی جستجو کا بھی اہتمام کیا ہے۔
مثلا ایک شخص مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے اساتذہ کے واسطے سے ایک قول شاہ ولی اللہ کی طرف منسوب کرتا ہے، اب اگر تلاش و جستجو سے مولانا مرحوم کا کوئی دوسرا شاگرد بھی اس قول کا راوی نکل آتا ہے تو اسے محدثین کی اصطلاح میں 'تابع' کہتے ہیں، لیکن اگر کسی دوسری سند مثلاً مولانا سید نذیر حسین دہلوی کے واسطے سے اس قول کی تائید ہوجاتی ہے تو اسے 'شاہد' کہتے ہیں، اصول حدیث میں توابع و شواہد کی جستجو کا نام 'اعتبار' ہے۔محدثین کے ہاں اس 'اعتبار' کی بڑی قدروقیمت ہے۔ انہوں نے انتہائی کوشش اور جانفشانی سے ہزاروں روایات کے شواہد و توابع کو ڈھونڈھ نکالا ہے۔ اس لئے پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ احکام و مسائل کے بارے میں شاید ہی ایسی کوئی منفرد روایت ہو جس کے توابع و شواہد کا کھوج محدثین نے نہ لگایا ہو۔ «ولله درّهم جزاهم الله عنا وعن سائرالمسلمين خيرا»
ان شواہد و توابع، کی بنا پر بہت سی غریب یا حسن روایات گمان غالب سے بڑھ کر یقین کے درجہ تک پہنچ گئی ہیں۔
چند شبہات
علم حدیث پر مسلمانوں کو جو وثوق و اعتماد ہے، اس کو متزلزل کرنے اور ذخیرئہ روایات کو مشکوک ٹھہرانے کے لئے منکرین سنت کی طرف سے متعدد شبہات پھیلائے گئے ہیں۔
ایک لاکھ روایات: کہا جاتا ہے کہ امام بخاری نے اپنی کتاب (صحیح بخاری جو سات ہزار روایات پر مشتمل ہے) کا انتخاب ایک لاکھ احادیث میں سے کیا تھا۔ امام بخاری کا اتنی بڑی تعداد کو نظر انداز کردینے کے معنی یہ ہیں کہ تیسری صدی ہجری تک احادیث کے نام سے بہت سی رطب ویابس روایات کا اضافہ کردیا گیا تھا، ظاہر ہے کہ اتنے بڑے اَنبار میں سے اصل حقیقت کا سراغ لینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ایک لاکھ کا عدد پیش کرتے ہوئے جومغالطہ دیا جاتا ہے، اس کی اصلیت معلوم کرنے کے لئے مندرجہ ذیل حقائق پیش نظر رہنے چاہئیں۔
محدثین کی اصطلاح میں اگر ایک متن حدیث متعدد سندوں سے آیا ہے تو یہ متن اپنی ہر سند کے لحاظ سے ایک حدیث شمار ہوتا ہے۔ مثلاً مشہور حدیث «إنما الأعمال بالنيات» سات سو سندوں سے مروی ہے یعنی ایک حدیث کے سینکڑوں توابع و شواہد ہیں۔ فن حدیث میں یہ ایک حدیث نہیں بلکہ سات سو حدیثیں شمار ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب امام بخاری کی ایک ہی حدیث کی سندیں سینکڑوں تک پہنچتی ہیں توباقی روایات کے توابع و شواہد کی تعداد کہاں تک پہنچے گی۔ اس کا اندازہ بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ قیاس کن زگلستان من بہار مرا (تلقیح ابن جوزی، مقدمہ ابن صلاح، صفحہ ۱۱)
واضح رہے کہ محدثین کی تحقیق کے مطابق تمام رطب و یابس روایات(متونِ احادیث، ادارہ) پچاس ہزار سے زیادہ نہیں ہیں، امام حاکم کا قول ہے کہ صحت و قوت کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی احادیث کی تعداد دس ہزار کے قریب ہے۔
۲۔ محدثین'حدیث' کا وسیع مفہوم لیتے ہوئے اس کا اطلاق صحابہ اور تابعین کے آثار و اقوال پر بھی کردیتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ امام بخاری نے ایک لاکھ میں سے خالص مرفوع احادیث یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور اُسوہٴ حسنہ پر مشتمل روایات کوچھانٹ لیا۔ظاہر ہے کہ امام محترم کا یہ طرزِ عمل اُمت ِاسلامیہ پر ایک بہت بڑا احسان ہے نہ کہ حدیث کے بارے میں وسوسہ اندازی کا موجب۔
۳۔ قرآنی کلمات ﴿مَاعُوْنَ﴾ کی تفسیر میں صحابہ اور تابعین سے سات قول اور ﴿نَعِيْم﴾ (سورہ تکاثر) کے بارے میں دس قول منقول ہیں۔ اہل علم کے ہاں ہر قول پرلفظ حدیث کا اِطلاق کیا جاتاہے۔ (مقدمہ فتح الملہم صفحہ ۲) ۔اس ساری تفصیل سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ کے عدد کو ہوا بنا کرپیش کرنا کس قدر مغالطہ انگیز ہے۔
روایت ِبالمعنی
دوسرا شبہ روایت بالمعنی کی بنیادپر پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی استاذ اپنے شاگرد کی طرف ان الفاظ کو منتقل نہیں کرتا جو اس نے اپنے استاذ سے سنے ہیں بلکہ ان کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہے۔ اس طرح بہت سے معانی کے اداء مطالب میں تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔
۱۔ روایت ِبالمعنی فی نفسہ ناجائز یا قابل نفرت نہیں ہے، خود قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایک ہی قصہ کو اور ایک ہی شخص یا گروہ کی گفتگو کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلا ً موسیٰ علیہ السلام کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے ایک جگہ ارشاد ہوا
﴿وَهَل أَتىٰكَ حَديثُ موسىٰ ٩ إِذ رَءا نارًا فَقالَ لِأَهلِهِ امكُثوا إِنّى ءانَستُ نارًا لَعَلّى ءاتيكُم مِنها بِقَبَسٍ أَو أَجِدُ عَلَى النّارِ هُدًى ١٠﴾... سورة طه
دوسری جگہ فرمایا:
﴿قالَ لِأَهلِهِ امكُثوا إِنّى ءانَستُ نارًا لَعَلّى ءاتيكُم مِنها بِخَبَرٍ أَو جَذوَةٍ مِنَ النّارِ لَعَلَّكُم تَصطَلونَ ٢٩ ﴾... سورة القصص
تیسرے مقام پرارشاد ہوا
﴿ إِذ قالَ موسىٰ لِأَهلِهِ إِنّى ءانَستُ نارًا سَـٔاتيكُم مِنها بِخَبَرٍ أَو ءاتيكُم بِشِهابٍ قَبَسٍ لَعَلَّكُم تَصطَلونَ ٧ ﴾... سورة النمل
اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کی سرگزشت میں ایمان لانے والے جادوگروں کی گفتگو متعدد مقامات پر مختلف اَلفاظ میں بیان ہوئی ہے، اصل مفہوم سب جگہ ایک ہے لیکن الفاظ میں تفاوت پایا جاتاہے۔
۲۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اِرشادات کا بہت بڑا حصہ بعینہ الفاظِ نبوی کے ساتھ منقول ہے۔ مثلا ً اذان و اقامت کے کلمات، اذکار و ادعیہ کے الفاظ اور احادیث ِقدسیہ۔ان کے علاوہ اَحکام و اخلاق کے متعلق احادیث کا وہ تہائی حصہ فعلی اور تقریری روایات پرمشتمل ہے(تقریر کے معنی ہیں کہ آپ کے سامنے کوئی کام کیا گیا ہو اور اس پر آپ نے انکار نہ فرمایا ہو)۔فعلی اور تقریری احادیث کے لئے اصل الفاظ تو موجود ہی نہیں ہوتے جن کی پابندی کی شرط لگائی جائے۔
روایت بالمعنی کا اگر سوال پیدا ہوسکتا ہے تو وہ صرف قولی اَحادیث کے بارے میں۔اسی طرح پورے ذخیرہٴ روایات پر غورکرنے سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ جن احادیث میں روایت بالمعنی کا احتمال ممکن ہے، وہ ایک ثلث سے زیادہ نہیں ہیں۔روایت بالمعنی کو جائز قرار دیا گیاہے تو اس کے لئے محدثین نے بڑی شرطیں لگائی ہیں، یعنی یہ طریق کار وہی لوگ اختیار کرسکتے ہیں جو زبان کے ماہر اور لغت کی وسعتوں پرپوری طرح قابو پاسکتے ہوں۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
«ولايجوز تعمد تغيير المتن مطلقا ولا الاختصار منه بالنقص، ولا إبدال اللفظ المرادف للفظ المرادف له إلا لعالم بمدلولات الألفاظ وبما يحيل المعنی»
یعنی "متن حدیث کے اَلفاظ میں عمدا ً تبدیلی کرنا یا اختصار کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایک ہم معنی لفظ کو دوسرے ہم معنی لفظ سے بدلنا جائز ہے۔ ہاں یہ کام اسی کے لئے جائز ہوسکتا ہے جو الفاظ کے معانی و مطالب سے بخوبی واقف اور باخبر ہو۔" (شرح نخبة الفکر)
تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو شرح مسلم مقدمہ امام نووی / فتح المغیث شرح الحدیث العراقی، صفحہ ۵۷۶
۳۔ اگر اہل علم اورماہرین لغت کے لئے بھی روایت بالمعنی کی اجازت نہ ہو تو ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ بھی حرام قرار پاتاہے اور ترجمانی بھی ناجائز ٹھہرتی ہے۔ حالانکہ اس بار ے میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ صحابہ کرام نے متعدد مواقع پر غیر عربی لوگوں سے ترجمانی کے واسطے سے گفتگو کی ہے اوراسلام کا پیغام پہنچایا ہے۔ سردست انہی دو شبہات کے جوابات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
نوٹ
1. علامہ ابن تیمیہؒ کی اس بحث کا مکمل ترجمہ 'محدث' نومبر۲۰۰۰ء میں شائع ہوچکاہے، دیکھیں درجات الیقین صفحہ ۹تا ۱۵
2. اس نکتہ پر ضروری تبصرہ کے لئے اسی شمارہ کے صفحہ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔ (محدث)وَقالوا ما هِىَ إِلّا حَياتُنَا الدُّنيا نَموتُ وَنَحيا وَما يُهلِكُنا إِلَّا الدَّهرُ ۚ وَما لَهُم بِذٰلِكَ مِن عِلمٍ ۖ إِن هُم إِلّا يَظُنّونَ ﴿٢٤﴾