قرآن فہمی میں حدیث و سنت کا کردار

 فکر ِاصلاحی کا ایک تجزیہ
محدث کے شمارہ اپریل ۲۰۰۱ء میں مولانا عبد الغفار حسن کا مضمون 'فہم قرآن کے بنیادی اُصول ' شائع ہوا ہے جو نہایت وقیع، مفید اور علمی مباحث پر مشتمل ہے لیکن قرآن فہمی میں حدیث و سنت کے کردار کے حوالے سے جو کچھ مولانا نے لکھا ہے، اس کے بارے میں ہمارا حسن ظن یہ ہے کہ مولانا محترم نے غالباً بے خیالی میں اور یہ دیکھے بغیر کہ اس کی زَد کہاں پڑتی ہے، اپنے دیرینہ رفیق کار مولانا امین احسن اصلاحی کی وہ رائے اپنا لی ہے جس کے بارے میں ہمارے عہد کے جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ وہ غلط ہے جبکہ بعض کے نزدیک وہ گمراہ کن،انکارِ سنت کے مترداف اور مقامِ نبوت کے استخفاف اور حدیث و سنت کی ہوا خیزی پرمنتج ہوتی ہے ۔مولانا عبد الغفار حسن جیسا محدث جس کی زندگی ہی خدمت ِحدیث اور اندرون وبیرونِ ملک حدیث پڑھتے پڑھاتے گزری ہو ، حدیث و سنت کے بارے میں ایسا مخدوش نقطہ نظر کیسے اپنا سکتا ہے ؟ بہرحال اس بارے میں ہم مولانا اصلاحی کے نقطہ نظر کو چونکہ غلط سمجھتے ہیں لہٰذا اس کے بارے میں عرض کرتے ہیں تاکہ قرآن فہمی میں حدیث و سنت کا مقام واضح ہو کر سامنے آ سکے اور جس کسی کو کوئی غلط فہمی لاحق ہو وہ دور ہو جائے۔ وباللہ نستعین!
حدیث و سنت اور قرآن فہمی میں اس کے کردار کے حوالے سے مولانا اصلاحی کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حدیث و سنت میں فرق کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک سنّت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کی وہ تفصیل ہے جو قرآن کی طرح تواتر ِعملی سے ثابت ہوتی ہے، لہٰذا قطعی الثبوت ہے۔ وہ قرآن کی طرح اہم، اس کے قالب کیلئے مثل روح اور اسی کی طرح حجت ہے۔ ٭ اس کا انکار قرآن کا انکار ہے اور وہ حدیث پر مُہیمنہے۔
حدیث ان کے نزدیک سنت کا تحریری ریکارڈ ہے جو تواتر سے ثابت نہ ہونے کی بنا پر ' خبر واحد' کا درجہ رکھتی ہے ۔ ظنی الثبوت ، مجموعہ رطب و یابس اور صحت کے لحاظ سے ناقابل اعتماد ہے لہٰذا فہم قرآن کے حوالے سے بنیادی اور کلی طور پر اس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا ۔ خبر واحد سے قرآن کا نسخ جائز ہے نہ اس کے عموم کی ایسی تخصیص کی جا سکتی ہے جو قرآن اور لغت کے معروف مفاہیم کے خلاف ہو۔
قرآن کے فہم کا بنیادی انحصار، اس کی زبان، اس کے داخلی نظم اور تفسیر القرآن بالقرآن پر ہے ۔ اخبارِ آحاد سے اگر اس فہم کی نفی٭ ہوتی ہو اور کسی صورت ان میں تطبیق نہ دی جا سکے تو اخبارِ آحاد کو ردّ کر دیا جائے گا۔1
حدیث و سنت اور قرآن فہمی میں اس کے کردار کے حوالے سے مولانا اصلاحی کا یہ موقف اتنے مغالَطوں پر مبنی ہے اور اتنے مسائل کو جنم دیتا ہے کہ ان کی تنقیح کے لیے ایک پوری کتاب درکار ہے۔ایک مقالہ کی محدود طوالت کے پیش نظرہم تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے بعض بنیادی باتوں پر مختصراً اپنی گزارشات پیش کریں گے۔
حدیث و سنت میں فرق
۱۔ جمہور(محدثین) اہل علم حدیث و سنت میں اس طرح فرق نہیں کرتے جس طرح مولانا اصلاحی نے کیا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یعنی آپ کی عملی زندگی اور اُمت کے لیے عملی رہنمائی صرف آپ کے ' اَفعال' پر مبنی نہ تھی بلکہ آپ کی گفتگو اور اَقوال بھی اس کا اہم حصہ تھے ۔ اسی طرح کتب ِاحادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محض اَقوال ہی محفوظ نہیں کیے گئے بلکہ آپ کی سنت (عملی زندگی)بھی محفوظ کی گئی ہے یہاں تک کہ بہت سے موٴلفین نے اپنے مرتب کردہ احادیث کے مجموعوں کے نام ہی 'سنن' پر رکھے اور وہ 'سنن' کے نام ہی سے اہل علم میں معروف ہیں جیسے سنن ابی داود ، سنن ترمذی، سنن ابن ما جہ وغیرہo ۔اس طرح اہل علم یہ جاننے کے باوجود کہ کتب ِاحادیث میں مذکور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال حضور کی سنت کا ریکارڈ ہیں، بعض اوقات انہیں صرف حدیث یا صرف سنت کہہ دیتے ہیں۔ اسی طرح وہ حدیث و سنت کو مترادف کے طورپراستعمال کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ... گو لغوی یا بعض فنون کے اعتبار سے اس میں کچھ تجاوز ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ ہر زبان میں ایساہوتا ہے کہ کسی اہم مظہر یا جزو کو تغلیباً کل سے موسوم کر دیا جاتا ہے (دیکھئے مثلاً حدیث میں أنف 2 قرآن میں وجہ3 اور لغت میں نفس4 کا استعمال جہاں انف مظہر عزت و حرمت ، وجیہ بمعنی خوبصورت و معزز اور نفسبمعنی انسان کے استعمال ہوتا ہے حالانکہ نفس کے لغوی معنی سانس کے (بھی) ہیں لیکن سانس چونکہ سبب و مظہر زندگی ہے لہٰذا اسے حیاة اور ذو حیاة کے لیے استعمال کر لیا جاتا ہے)۔
لیکن مولانا اصلاحی نے حدیث و سنت میں فرق کرتے ہوئے یہ 'جدت' پیدا کی ہے کہ سنت کو ' تواتر عملی' سے ثابت شدہ کہہ کر انہوں نے سر پر بٹھا لیا اور احادیث کے سارے ذخیرے کو خبر واحد ،ظنی الثبوت اور مجموعہٴ رطب و یابس کہہ کر پیچھے پھینک دیا۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ سنت محض ' تواتر عملی' سے ثابت ہی نہیں ہوتی (آئندہ صفحات میں ہم اس پر تفصیل سے کلام کریں گے) لہٰذا جس چیز کو مولانا ' سنت' کہہ رہے ہیں وہ محض ایک نظری بات ہے اور نظری لحاظ سے تو سنت کی حجیت پرساری اُمت متفق ہے کہ اس پر تو مدارِ ایمان ہے کہ خود قرآن کی رو سے حضور کی اطاعت واجب ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال فرما جانے کے بعد آپ کی وہ سنت کہاں ہے جس کی اطاعت کی جائے ؟
اس بارے میں جمہور٭ اُمت کا موقف یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جاننے کا ذریعہ وہ صحیح احادیث ہیں جو ثقہ راویوں سے مروی ہیں، اسی لیے وہ انہیں تقدس کا درجہ دیتی ہے جب کہ منکرین حدیث اور اصلاحی صاحب ایسا نہیں سمجھتے ۔مولانا اصلاحی حدیث کو خبر واحد ، ظنی الثبوت اور مجموعہ رطب و یابس کہہ کر اسے اہمیت نہیں دیتے اور جس سنت کو وہ سرکا تاج اور مثل قرآن کہتے ہیں وہ عملاً کہیں موجود ہی نہیں۔ (راقم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ' حدیث و سنت'کو ملا کر ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کرتا ہے (جیسے اسی مضمون کا عنوان ہے " قرآن فہمی میں حدیث و سنت کا کردار" ) تاکہ اس میں دونوں الفاظ بیک وقت جمع ہو جائیں اور ابہام کا امکان ختم ہو جائے )۔
مولانا اصلاحی کی اس'فطانت' کا فائدہ یہ ہے کہ جب ان کے تلامذہ عام مسلمانوں سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں " ہم تو قرآن کے ساتھ سنت کو بھی حجت مانتے ہیں ، ہم کوئی منکرین سنت تھوڑی ہیں" حالانکہ سنت سے ان کی مراد وہ نہیں ہوتی جو جمہور مسلمانوں کی ہوتی ہے (کیونکہ جمہور مسلمان تو سنت سے مراد حدیث ہی لیتے ہیں ) اس طرح یہ لوگ عام مسلمانوں کو ایک غلط تاثر دیتے ہیں اور اسی لیے ان کے مخالفین کو ان پر یہ پھبتی کسنے کا موقع مل جاتا ہے کہ ﴿يُخـٰدِعونَ اللَّهَ وَالَّذينَ ءامَنوا وَما يَخدَعونَ إِلّا أَنفُسَهُم وَما يَشعُر‌ونَ ٩ ﴾... سورة البقرة
سنت کا اثبات، تواتر ِعملی سے
مندرجہ بالا بحث سے قارئین اب اس بات کو سمجھ گئے ہوں گے کہ بات نظری معنوں میں سنت کی نہیں ہے کیونکہ ان معنوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے حجت اور سند ہونے کے بارے میں تو کوئی مسلمان برعکس رائے رکھ ہی نہیں سکتا ، اس کا انکار تو بعض منکرین سنت بھی نہیں کرتے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اب سنت کے جاننے کا ذریعہ کیا ہے ؟ اصلاحی صاحب کے نزدیک اس کا جواب ہے' تواتر عملی' ... وہ لکھتے ہیں
"جس طرح قرآن قولی تواتر سے ثابت ہے، اسی طرح سنت امت کے عملی تواتر سے ثابت ہے مثلاً ہم نے نماز اور حج وغیرہ کی تمام تفصیلات اس وجہ سے نہیں اختیارکیں کہ ان کو چند راویوں نے بیان کیا بلکہ یہ چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے، ان سے تابعین پھر تبع تابعین نے سیکھا ۔ اس طرح بعد والے اپنے اگلوں سے سیکھتے چلے آئے "5
مولانا کا یہ موقف انتہائی کمزور ہے اس لیے کہ
1۔ قرآن کے الفاظ بین الدفتین متعین ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ضمانت دی ہے۔ اس کا تحریری ریکارڈ پہلے دن سے لے کر آج تک محفوظ ہے ۔ زبانی یاد کرنے کی وجہ سے بھی وہ ایک نسل سے دوسری نسل کو بلا انقطاع منتقل ہو رہا ہے لیکن ان ساری چیزوں کا اطلاق سنت پر نہیں ہو سکتا ۔ اس کے الفاظ بین الدفتین متعین نہیں ، انہیں زبانی یاد کرنے کے رواج میں تسلسل موجود نہیں۔اور نہ پہلے دن سے ان کا مکمل تحریری ریکارڈ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے تیار کیا ۔ لہٰذا یہ کہنے کی کوئی ٹھوس بنیاد موجود نہیں کہ احادیث کے موجودہ ریکارڈ سے باہر سنت ' تواتر عملی' سے اُمت میں منتقل ہوتی چلی آ رہی ہے۔
2۔ امامِ دارِہجرت مالک بن انس کی تاریخ پیدائش ۹۳ھ کی ہے یعنی صرف ایک صدی بعد انہوں نے 'تواتر عملی' کی بنا پرصرف ' عمل اہل مدینہ ' کو اخبارِ آحاد پر ترجیح دینے کا موقف اپنایا لیکن جمہور اُمت نے اِسے بھی مستردکر دیااور اس پر تندوتیز تنقیدیں کیں۔ چنانچہ مالکیہ کے سوا کوئی اس کا قائل نہیں اور اس کے بعد سے اُمت میں متداول کسی معروف فقہی اور علمی مسلک اور کسی معتدبہ بڑے عالم نے اس موقف کی حمایت نہیں کی٭۔ یہ'سعادت' صرف مولانا اصلاحی کے حصے میں آئی کہ انہوں نے ایک صدی نہیں، سارے زمانے کے مسلمانوں اور صرف مدینہ نہیں، سارے امصار کے مسلمانوں کے عمل کو اَخبار آحاد پر ترجیح دینے کا 'جرأت مندانہ' موقف اپنایا اور یہی نہیں بلکہ اس طرح ثابت ہونے والی سنت کو قرآن کی طرح حجت اور قرآن کی طرح مستند و قطعی الثبوت قرار دیا اور اس کے انکار کو قرآن کا انکار قرار دیا۔
3۔ اب سنت چونکہ قرآن کی طرح بین الدفتین متعین الفاظ کا مجموعہ نہیں لہٰذا سوال یہ ہے کہ اس ' تواتر عملی' سے جو سنت ثابت ہوتی ہے وہ ہے کیا ؟ ظاہر ہے اس کا جواب انہی کے ذمے ہے جنہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کیونکہ خود مولانا اصلاحی تسلیم کرتے ہیں کہ
"سنت قرآن کی تفصیل ہے اور وہ اتنی زیادہ تفصیل ہے کہ قرآن کی طرح کوئی ایک کتاب اتنی تفصیل دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی"6
مولانا کاجو اقتباس ہم نے اوپر نقل کیا ہے، اس میں مولانا نے نماز اور حج کی مثال پیش کی ہے کہ وہ تواتر عملی سے ثابت ہوتے ہیں ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ نماز اور حج کے بارے میں بنیادی احکام تو قرآن مجید میں بھی موجود ہیں ، ہمیں نشاندہی کی جائے کہ وہ کون سے تفصیلی (فروعی) احکام ہیں جو تواتر عملی سے ثابت ہوتے ہیں ؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ پچھلی صدیوں میں مسلمانوں نے نماز اور حج کے بارے میں جو بدعتیں ایجاد کر لی ہیں اور جو نسل در نسل منتقل ہو رہی ہیں کیا وہ بھی سنت ِثابتہ ہیں ؟( کہ آپ کی تعریف کی رو سے تو وہ سنت ثابتہ ہی ہونی چاہئیں!) اور اگر وہ سنت ثابتہ نہیں ہیں تو کیوں نہیں ہیں ؟ اور اس امر کی وضاحت بھی کی جائے کہ سنت ثابتہ اور بدعت میں فرق کیسے کیاجائے گا ؟۔
4۔ مولانا چونکہ ذہین آدمی تھے اس لیے انہوں نے خود ہی محسوس کر لیا کہ ' تواتر عملی' کی جو تعریف انہوں نے کی ہے، اس میں وہ پھنس جائیں گے لہٰذا انہوں نے اگلے پیرا گراف میں اس دلدل سے نکلنے کی کوشش کی اور کہا
" یہاں اس امرکو بھی ذہن نشین رکھیے کہ امت کے عملی تواتر سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاے راشدین اور صحابہ کا عمل ہے جیسا کہ ارشاد ہے "« فعليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المهديين»"(کہ) دین کا مرکز یہی گروہ ہے۔ اس وقت جو بھیڑ ایسے اعمال کی حامل ہے جو قرآن و سنت سے صریحاً متناقض ہیں تو یہ سب اہل بدعت ہیں"۔7
لیجئے پچھلے پیراگراف میں تواتر عملی کی جو صورت انہوں نے بیان کی تھی، اس پیراگراف میں انہوں نے اس کی خود ہی تردید کر دی۔ یہ صریح تناقض ہے جس کی کوئی تاویل نہیں کی جا سکتی ۔ پچھلے پیرا گراف میں انہوں نے کہا تھا کہ سنت قرآن کی طرح تواتر عملی سے ثابت ہے جسے آپ سے صحابہ کرام نے ان سے تابعین پھر تبع تابعین نے اور اس طرح ہر نسل پہلی نسل سے قرآن کی طرح لیتی رہی ۔ اب بعد والے پیراگراف میں انہوں نے تسلیم کر لیا کہ بعد والی نسلوں میں تو بدعات داخل ہو گئی تھیں لہٰذا سنت کا تواتر ِعملی صرف ' ایک نسل ' تک محدود ٭ہے یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ تک اور سارے صحابہ تک بھی نہیں صرف خلفاءِ راشدین تک اور اس کی دلیل بھی کیا دی ؟ فعليکم بسنتی... الحديث یعنی ایک خبر واحد جو ظنی الثبوت اور ان کے نزدیک ناقابل اعتماد ہے۔ فاعتبروا يا أولی الأبصار!
یعنی تاثر آپ نے یوں دیا کہ ' تواتر ِعملی' گویا ایک سمندر ہے پھر جب بات کا پیچھا کیا تو بات دریاؤں ، نہروں ، ندی نالوں سے ہوتی ہوئی اس منبع تک پہنچ گئی جہاں سوئی کی طرح ایک دہانے سے پتلی سے دھار نکل رہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر' تواتر عملی' محض حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ بلکہ صرف خلفاء راشدین تک محدودہے تو اسے قرآن کے تواتر عملی کی طرح حجت کیسے کہا جا سکتا ہے؟ کہ قرآن کا تواتر تو آج بھی جاری ہے۔ پھراس ایک نسل یا چند افراد کے تواتر پر وہ نتائج کیسے مرتب ہو سکتے ہیں جو قرآن کے نسل درنسل تواتر پر مرتب ہوتے ہیں ؟
اہم ترین سوال یہ کہ اگر یہ تواتر صرف عہد ِصحابہ تک محدود تھا تو پھر آج یہ تواتر ہمیں کیسے معلوم ہو گا یعنی اس تواتر کی ہم تک منتقلی کا ذریعہ کیا ہے ؟ اور بفرضِ محال اگر یہ ہمیں معلوم ہو جائے تو ' تواتر عملی' کی عدم موجودگی میں اس کی حیثیت کیاہو گی؟ غرض مولانا کے اس متضاد موقف سے اتنے لاینحل سوالات اٹھتے ہیں کہ الامان !
6۔اس دلدل میں مولانا عبد الغفار حسن بھی پھنسے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ساتویں صدی ہجری تک کا تعامل امت تو حجت ہے، اس کے بعد کا نہیں(محدث: اپریل ۲۰۰۱ء ، ص۳۰)۔ گویاان کا مطلب یہ ہے کہ پہلی چھ صدیوں میں جو بدعات مروّج ہوئیں وہ تو حق ہیں اور جو بعد میں ہوئیں وہ قابل قبول نہیں ۔ اصلاحی صاحب کو تواتر عملی کے لیے دلیل لانا پڑی تو وہ عہد صحابہ تک رک گئے ۔ محدثین نے قولِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم «خيرکم قرنی ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم»8 کو سامنے رکھ کر معاملہ تابعین تک پہنچا دیا ۔ دیکھئے مولانا عبد الغفار حسن کس حدیث سے استنباط کرتے ہوئے تعامل اُمت کے معاملے کو ساتویں صدی تک کھینچ کر لاتے ہیں؟ حالانکہ بگاڑ کی سرعت کا یہ عالم تھا کہ رافضیت ، خارجیت اور قدریت کے تینوں فرقے پہلی صدی میں نہیں ،عہد صحابہ میں نہیں بلکہ عین دورانِ خلافت ِراشدہ پیدا ہو چکے تھے ، اور دوسری صدی میں تو وہ ' فتنہٴ عظیم ' تصوف بھی پیدا ہو چکا تھا جسے تلامذئہ امین احسن اصلاحی اسلام کے متوازی ایک دوسرا دین سمجھتے ہیں ۔اس لیے ہماری درخواست ہے کہ ہمارے یہ مہربان سنت کو 'تواتر ِعملی' بلکہ بالفاظِ صحیح تعامل اُمت سے ثابت کرنے کے مسئلے پر ایک دفعہ پھر غور کر لیں تو بیچاری اُمت پر احسانِ عظیم ہو گا۔
7۔ پھر مولانا اصلاحی اس سنت کو جو ان کی مزعومہ ' تواتر عملی' سے ثابت ہو، احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مہیمن(نگران) قرار دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں
" اگر روایات کے ریکارڈ میں ان (سنن ثابتہ) کی تائید موجود ہے تو یہ اس کی مزید شہادت ہے ۔ اگر وہ عملی تواتر کے مطابق ہے تو فبہا اور اگر دونوں میں فرق ہے تو ترجیح بہرحال اُمت کے عملی تواتر کو حاصل ہو گی۔"
اور بات صرف ترجیح کی نہیں ، بلکہ اگر کسی حدیث کامضمون ان کی رائے میں اس 'سنت ِثابتہ' کے خلاف ہو تو اسے ردکر دیا جائے گا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں
" اگر کسی معاملے میں اخبارِ احاد ایسی ہیں کہ عملی تواتر کے ساتھ ان کی مطابقت نہیں ہو رہی ہے تو ان کی توجیہ تلاش کی جائے گی ۔ اگر توجیہ نہیں ہو سکے گی تو بہرحال انہیں مجبوراً چھوڑا جائے گا اس لیے کہ وہ ظنی ہیں اور سنت ان کے بالمقابل قطعی ہے "9
مولانا اصلاحی کا یہ موقف جمہور اُمت کی رائے کے بالکل برعکس ہے۔ جمہوراُمت کا موقف یہ ہے کہ وہ حدیث و سنن کے صحیح اورثقہ راویوں سے مروی ریکارڈ کو سنت کا مظہر سمجھ کر متبرک اور مقدس گردانتی ہے۔ وہ اسلاف کی ان محنتوں کی قدر کرتی ہے جو انہوں نے اسماء الرجال ، جرح و تعدیل ، تدوین حدیث اور روایت و درایت کے اُصولوں کو مرتب کرکے کی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اس سارے قیمتی ذخیرہٴ علم کی بنا پر قابل اعتماد راویوں سے روایت کردہ صحیح احادیث سے سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم معلوم ہو جاتی ہے لہٰذا ان احادیث پر عمل ضروری ہے ۔ یہ رویہ بلاشبہ امت کے سارے فقہی وکلامی مسالک کا ہے۔ اگرچہ مالکیوں اور احناف میں سے بعض٭ ایک آدھ استثنائی صورت میں خبر واحد پر بعض دوسری فقہی دلیلوں کو ترجیح دیتے ہیں لیکن جمہور حنفیہ، شافعیہ ، حنابلہ ، ظاہریہ ، اہل تشیع وغیرہ نے ان کے اس موقف کو ردّ کر دیا ہے اور اس پر تند و تیز تنقیدیں کی ہیں اور اس تنقید کے مثبت اثرات متاخرین اَحناف و مالکیہ پر نمایاں نظر بھی آتے ہیں لہٰذا مولانا اصلاحی کا تواتر عملی کے نہایت مبہم اور تصوراتی نظریئے کی بنا پر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ردّ کرنے کا فیصلہ بالکل غلط ہے ۔
8۔ اگر اصلاحی صاحب خلوصِ نیت سے تواتر عملی اور تعامل اُمت کو حجت مانتے ہیں تواصلاحی صاحب کو احادیث کی حجیت کو مان لینا چاہیے کیونکہ جمہور اُمت کا تعامل چودہ صدیوں سے یہی ہے کہ وہ احادیث ِرسول کی حجیت کو تسلیم کرتی ہے ۔ اسی طرح اصلاحی صاحب کورجم ( اور احادیث ِرجم کو) بھی مان لینا چاہیے کیونکہ رجم پر امت کا مسلسل چودہ سو سال سے تعامل موجود ہے اور ان طویل صدیوں میں کسی ایک شخص نے بھی اس موقف کو اپنایا ہے، نہ اس پر عمل کیا ہے جو رجم کے حوالے سے مولانا اصلاحی کا ہے۔ لہٰذا رجم کے بارے میں مولانا کا موقف خود ان کے اپنے وضع کردہ ' تواتر عملی' اور ' سنت ثابتہ' کے اصول کی رو سے قابل ردّ ہے ۔
9۔ احادیث کے بارے میں مولانا اصلاحی کا رویہ کتنا ناانصافی پر مبنی ہے، اس کا اندازہ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل معاملے پر غور کیجئے :
٭ جمہور علما کا موقف یہ ہے کہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم حجت ہیں( یعنی وہ احادیث جو 'صحیح' ہوں اور ان کے راوی ثقہ ہوں) ان میں آپ کے اَقوال بھی محفوظ ہیں اور آپ کے اَفعال بھی۔ بہت سے امور میں تعامل اُمت ان احادیث کے مطابق ہے لہٰذا اس سے احادیث کے قابل اعتماد اورصحیح ہونے کی تائید ِمزید ہو جاتی ہے۔
٭ مولانا اصلاحی کا موقف یہ ہے کہ حدیثیں ظنی الثبوت اور مجموعہ ر طب ویابس ہیں۔ اگر کوئی حدیث سنت ِمتواتر ہ کے مطابق ہے تو یہ اس سنت ِمتواترہ کی تائید مزید ہے اوراگر اس کے خلاف ہے تو قابل ردّ ہے۔10
ان دونوں عبارتوں کو ذرا توجہ سے دوبارہ پڑھیے توآپ محسوس کر لیں گے کہ ایک ایسی بات جس سے احادیث کی تائید ہوتی اور ان کی ثقاہت پر اعتماد بڑھتا ہے ، مولانا نے اسے اس طرح الٹا گھما دیا ہے کہ احادیث کی وہ خوبی نہ صرف نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے بلکہ ان کی کمزوری بن جاتی ہے۔ یہ ہے منفی ذہانت !!
10۔ ' سنت ِثابتہ' اور 'تعامل اُمت' کو احادیث پر مُہیمن بنانے کی زَد بالآخر کہاں پڑتی ہے اس پر بھی ذرا غور فرما لیجئے ! کسی ایک بدعت مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کو بطورِ تقریب منانے کی مثال لے لیجئے۔تقریباً تیسری صدی ہجری سے آج تک متواتر یہ عید میلاد کسی نہ کسی صورت میں منائی جاتی ہے۔ پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت بھی یہ عید مناتی ہے ( یہ ایک حقیقت ہے (گو تلخ سہی) کہ مملکت پاکستان میں آج بھی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو یہ عید مناتے ہیں اور مولانا اصلاحی ، مولانا عبد الغفار حسن اور ہماری طرح کے جو لوگ اسے بدعت سمجھتے ہیں ، وہ ان کے مقابلے میں اقلیت میں ہیں)۔ اب حدیث کوحجت ِشرعی سمجھنے والوں کے پاس تو عید میلاد کی اس بدعت کو ردّ کرنے کے لیے ثقہ راویوں کی روایت کردہ صحیح احادیث موجود ہیں لیکن مولانا اصلاحی کے تواتر عملی اور تعامل امت کے فلسفے کی بنا پر تو عید ِمیلاد کا منانا حجت ِشرعی ہونا چاہیے ؟ اگر آپ کے نزدیک یہ حجت نہیں ہے تو فرمایئے کہ کیوں نہیں ہے ؟ اور اگر نہیں ہے تو حدیث سے باہر آپ کے پاس اس کی شرعی دلیل کیا ہے ؟

قرآن فہمی میں حدیث و سنت کا کردار

سنت اور حدیث میں فرق کرنے اور حدیث کو ظنی الثبوت ، مجموعہ ر طب و یابس اور صحت کے لحاظ سے ناقابل اعتماد قرار دینے کے بعد جب مولانا اصلاحی فہم قرآن میں حدیث کے کردار کی بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ قرآن فہمی کا اصل انحصار اس کے داخلی وسائل پر ہے جس میں وہ قرآن کی زبان ، اس کے نظم اور تفسیر القرآن بالقرآن کو شامل کرتے ہیں۔ اس کے خارجی وسائل میں وہ 'سنت ِمتواتر ' کاذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد کہیں پانچویں نمبر پر وہ' احادیث و آثار صحابہ' کو لاتے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ اپنے طے کردہ 'داخلی وسائل'کو حدیث پر مُہیمن بناتے اور ان سے اختلاف کی صورت میں حدیث کو رد کرتے ہوئے (جیسا کہ انہوں نے رجم کے معاملے میں کیا ہے )۔ اسی طرح وہ حدیث سے قرآن کے نسخ وتخصیص٭ کا بھی انکار کرتے ہیں۔11
قرآن فہمی یا تفسیر قرآن میں حدیث و سنت کے کردار کے حوالے سے مولانا اصلاحی کا یہ موقف نہ صرف غلط ہے بلکہ جمہور اہل علم کے موقف کے برعکس بھی ہے لیکن اپنی خدا داد ذہانت کواستعمال کرتے ہوئے ان کا طریق واردات یہاں بھی وہی ہے جو پچھلے مبحث میں تھا کہ * صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔وہاں انہوں نے حدیث و سنت میں فرق اورتواتر عملی کے اثبات میں جو موقف اختیار کیا وہ مغالَطوں اور تضادات سے پُر تھا اور انہوں نے اس موقف کی تاویل در تاویل اس طرح تفصیل کی کہ ان کا موقف منکرین سنت کے قریب جاپہنچا۔ یہاں قرآن فہمی میں حدیث و سنت کے کردار کے حوالے سے بھی ان کا موقف تضادات سے مملو اور انکارِ سنت کے قریب جا پہنچتا ہے چنانچہ پچھلے پیراگراف میں آپ نے ان کا یہ موقف پڑھا کہ وہ حدیث کو ناقابل اعتماد سمجھتے ہوئے پانچویں نمبر پر لاتے ہیں ، اب ان کا ایک اور موقف پڑھئے۔ ' سلف کا طریقہٴ تفسیر ' کے عنوان سے مبادی ٴتدبر ِقرآن میں وہ کہتے ہیں:
" انہی وجوہ سے سلف کا طریقہ یہ رہاہے کہ پہلے وہ قرآن کو خود قرآن کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ، اس کے بعد اگر کوئی مشکل باقی رہ جاتی تو اس کا حل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اَقوال و اَفعال میں تلاش کرتے ۔ اس کے بعد بھی اگر معاملہ کا کوئی گوشہ محتاجِ توضیح رہ جاتا تو اس کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار و اقوال سے مدد لیتے"۔ پھر فرماتے ہیں کہ
" تفسیر کا یہ طریقہ بالکل فطری ہے ، اصلی چیز خود قرآن کے الفاظ اور اس کی اپنی توضیحات ہیں۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور تیسرا درجہ اقوالِ صحابہ کا ہے "۔12
اور نہ صرف یہ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ اہل علم کا یہ موقف نقل کرتے ہیں اوراس کا معارضہ بھی نہیں کرتے کہ احادیث اگر صحیح اور ثابت شدہ ہوں تو وہ قرآن فہمی کا ماخذ اوّل ہیں۔13 چنانچہ وہ صاحب ِ'الاتقان' کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ
" تفسیر کے بہت سے ماخذ ہیں جن میں سے چار اُصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اول وہ نقل ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور یہی مقدم ترین ہے لیکن اس باب میں ضعیف و موضوع سے احتراز واجب ہے کیونکہ اس قسم کی روایات بہت ہیں"۔14
اب ان دونوں مواقف میں اتنا صریح تضاد ہے کہ آدمی پریشان ہو جاتا ہے کہ اصلاحی صاحب ان دونوں باتوں کو بیک وقت کیسے مان سکتے ہیں ؟
1۔ ایک جگہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کی تفسیر کا جو طریقہ سلف صالح نے اختیار کیا اور جو تفسیر کا فطری طریقہ ہے ، وہ یہ ہے کہ قرآن کے بعد قرآن کی تفسیر حدیث سے کی جائے بلکہ اہل علم کا یہ موقف بیان بھی کرتے ہیں اور اس کی مخالفت بھی نہیں کرتے کہ صحیح اور ثابت شدہ احادیث تفسیر کا اوّلین ماخذ ہیں جب کہ دوسری جگہ وہ احادیث کو آثارِ صحابہ کے ساتھ کرکے تفسیر کے اُصولوں میں قرآن کی زبان، نظم قرآن، تفسیر القرآن بالقرآن اور سنت ِثابتہ کے بعد پانچویں نمبر پر لاتے ہیں ۔ ناطقہ سربگر یباں ہے، اسے کیا کہئے ؟
2۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم امت کے سارے اہم اور معتدبہ مفسرین اور علماء کے تفصیلی حوالے دیتے جنہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ حدیث و سنت قرآن کی تفسیر کا دوسرا بڑا ماخذ ہیں ( بلکہ ہم نے ابتدائی کوشش میں امام شافعی15 ، طبری16، قرطبی17، ابن کثیر18، آلوسی19، ابن تیمیہ20، شاطبی21 اور راغب اصفہانی 22کے حوالے اکٹھے بھی کر لیے تھے ) اور ان علماء ومحدثین کے حوالے بھی دیتے جنہوں نے کہا ہے کہ حدیث و سنت تفسیر قرآن کا اوّلیں ماخذ ہیں (مثلاً یحییٰ بن ابی کثیر23 اورمکحول24 وغیرہ ) لیکن جب اصلاحی صاحب خود اس موقف کو جانتے اور مانتے ہیں تو ان حوالوں کا ذکر محض تطویل ہو گا۔
3۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا اِصلاحی نے اپنی منفی ذہانت سے اسلاف کے اس موقف کا ناجائزہ فائدہ اٹھایا ہے کہ ' تفسیر القرآن بالقرآن ' کا اصول، تفسیرکا پہلا ماخذ ہے ۔ اسلاف کا مقصد اس سے یہ تھا کہ قرآن کے ایک مقام کی تفسیر اگر قرآن میں کسی دوسرے مقام سے ہو جائے تو یہ امر کافی ہے ۔ ان کا مقصود اس سے 'اپنے فہم قرآن' کو حدیث پر مُهيمن بنانا ٭ نہیں تھا لیکن مولانا اصلاحی نے یہ کیا کہ تفسیر القرآن بالقرآن کے لیے جو اصول انہوں نے از خود وضع کیے، ان کی بنیاد پر انہوں نے صحیح، ثابت شدہ اور اُمت کے نزدیک چودہ سو سال سے مقبول و معمول بہ احادیث کو ردّ کر دیا ( رجم کا معاملہ اس کی ایک مثال ہے)۔
ممکن ہے اصلاحی صاحب کے تلامذہ کہیں کہ ' استاد امام' کے اصولِ تفسیر میں کون سی بات نئی ہے جسے بدعت کہا جا سکے ؟ ہمیں اس پر یاد آ رہا ہے کہ یہ تماشا چند سال پہلے مصر میں ہوا تھا کہ حکومت نے چند تنخواہ دار حکومتی علما کو ذمہ داری سونپی اور انہوں نے متقدمین علما کے بعض شاذ اَقوال ڈھونڈ ڈھونڈکر جمع کر دیئے جن کی مدد سے مصری حکومت نے ایک ایسا عائلی قانون بنادیا جو ' روشن خیال اور ترقی یافتہ ' مغربی تہذیب کے اصولوں کے مطابق تھا مثلاً اس میں طلاق کاحق مرد کی بجائے عورت کے ہاتھ میں تھا، طلاق کے بعد بھی عورت کا نفقہ مرد کے ذمے تھا، وغیرہ وغیرہ۔ جب علماء اور عوام نے اس قانون کی مخالفت کی تو سرکاری علماء نے کہا کہ یہ قانون تو سارے کا سارا متقدمین فقہا کی آرا پر مشتمل ہے اور حوالے پیش کیے لیکن یہ چالبازی نہ جمہور علما کو مطمئن کر سکی نہ مسلمان عوام کو ، چنانچہ اس قانون کے خلاف ہنگامے شروع ہو گئے اور بالآخر حکومت کو یہ قانون واپس لینا پڑا ۔ اسی طرح مولانا اصلاحی سنت ِثابتہ اور تفسیر القرآن بالقرآن جیسی مانوس اصطلاحات استعمال کرکے ان کے ذریعے جو نامانوس اور غلط فکر پیش کر رہے ہیں، اسے نہ جمہور علما مانیں گے نہ جمہور اُمت۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ اصول علماءِ امت کے ہیں تو انہوں نے اس طرح انہیں استعمال کیوں نہیں کیا اور امت میں یہ مجموعی طرزِ عمل رواج کیوں نہیں پایا۔ لازمی سی بات ہے کہ ان کے چنداقوال سیاق وسباق سے ہٹا کر، یا چند شاذ اقوال جمع کرکے ان کی بنیاد پر عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے گویا اپنی بات زبردستی ان علماء کے منہ میں ٹھونسی جارہی ہے۔
4۔ فہم قرآن اور تفسیر قرآن کے حوالے سے صحیح موقف یہ ہے اور اس پر سارے مفسرین اور اہل علم متفق ہیں کہ کسی قرآنی آیت کی کوئی تفسیر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( صحیح متن کے ساتھ اور ثقہ راویوں کے ذریعے(مقبول حدیث کی شرائط کے مطابق) ) منقول ہو تو وہ حجت اور سند ہے۔ اسے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کے کسی پہلو کی جو تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر دیں تو کوئی مسلمان مفسر اس تفسیر کو یہ کہہ کر ردّ نہیں کر سکتا کہ اس کی رائے میں یہ تفسیر غلط ہے ۔ اصلاحی صاحب نے یہی تو کیا ہے کہ رجم کے معاملے میں اپنی تفسیرقرآن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر قرآن پر مُهيمن ٹھہرا دیا ہے ۔
اَسلاف میں سے جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ السنة قاضية علی الکتاب 25يا القرآن أحوج إلی السنة من السنة إلی القرآن 26(ا ور یہ کوئی معمولی لوگ نہیں تھے پہلا قول یحییٰ بن ابی کثیر (م ۱۲۹ھ) کا ہے جن کے بارے میں ذہبی27 اور ابن حجر28 کا یہ کہنا ہے کہ کان من ثقات أهل الحديث ورجحه بعضهم علی الزهري اور دوسرا قول مکحول بن ابی مسلم( م ۱۱۲ھ) کا ہے جن کے بارے میں امام زہری کا قول ہے لم يکن فی زمنه أبصر منه بالفتيا۔ ذہبی29 ،ابن حجر30 اور اسماء الرجال پر دوسرے لکھنے والے انہیں من حفاظ الحديث اور فقیہ شام کے لقب سے پکارتے ہیں)ا س کا مطلب یہی ہے کہ قرآن کی جو تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دی ہے وہ حجت اورحرفِ آخر ہے۔ اب قرآن کے اس کے علاوہ کوئی دوسرے معنی نہیں لیے جا سکتے اور یہ موقف بالکل صحیح ہے۔ اس کا مطلب خدانخواستہ سنت کو قرآن پر مُهيمن بنانا نہیں بلکہ تفسیر قرآن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فہم قرآن کو ماسوا پیغمبر کے باقی سب پر مہیمن بنانا ہے۔ ورنہ کون صحیح الدماغ مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ سنت قرآن پر مهيمن ہے یا سنت قرآن پر مقدم ہے ؟
5۔ ہم اصلاحی صاحب کے اس موقف کو بھی صحیح نہیں سمجھتے جس میں انہوں نے(صحیح و ثابت شدہ) احادیث کوتفسیر قرآن میں پانچویں نمبر پر رکھتے ہوئے اس میں آثارِ صحابہ کو بھی ساتھ شامل کر دیا ہے۔ ہم صحابہ کرام کی عظمت کے بڑے قائل اور ان کے بڑے مداح ہیں ۔ وہ اُمت کے لیے منارہٴ نور ہیں ، وہ انبیاء کے بعد ساری دنیا سے افضل ہیں ، خدا نے انہیں صحبت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورغلبہ اسلام کے لیے چن لیا تھا ... غرض ان کے اِکرام میں جتنا بھی مبالغہ کیا جائے کم ہے لیکن قانونی بات یہی ہے کہ وحی صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی تھی اور دین کا ماخذ قرآن کے بعد صرف سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ سنت کی حجیت میں صحابہ کرام کو شامل کرنا ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اکرام نہیں مقام رسالت کا استخفاف ہے ۔ صحابہ کرام  کے اقوال و افعال سرآنکھوں پر لیکن کسی صحابی کے قول و فعل کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے برابر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ؟
یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ پھر کتب ِاحادیث میں روایاتِ صحابہ کیوں شامل ہیں ؟ وہاں صحابہ کرام جوبات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کہیں وہ تو ظاہر ہے کہ سنت کا بیان ہے۔ ہماری غرض یہ ہے کہ جہاں تک صحابہ کرام  کے اپنے اَقوال و اجتہادات کا تعلق ہے تو انہیں کوئی بھی صاحب ِعلم سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار نہیں دیتا۔
خلاصہ یہ کہ جمہور اُمت کا موقف یہ ہے کہ
1۔ احادیث و سنن ( جو ثقہ راویوں سے مروی اور صحیح المتن ہوں (آسان الفاظ میں صحیح کی شرائط پر پوری اتریں، محدث)) وہ سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ان پر عمل ضروری ہے ۔
2۔ محض تواتر عملی یا تعامل امت سے کوئی سنت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ تواتر عملی سے سنت کا اثبات محض ایک یوٹوپیا (تخیل) ہے اور اُمت میں کبھی کسی نے یہ موقف نہیں اپنایا ۔
3۔ قرآن فہمی میں حدیث و سنت کاکردار بنیادی اور اُصولی ہے اور حضور ا اگرکسی آیت کی تفسیر فرما دیں تو وہ حتمی ہے گویا حدیث و سنت تفسیر قرآن کا اوّلیں اور معتبر ترین ماخذ ہے ( یا باسلوبِ بعض قرآن کے بعد٭ اوّلیں ماخذ ہے)۔
منکرین سنت کا موقف ہے کہ احادیث و سنن کی مرویات ناقابل اعتماد ہیں لہٰذا قرآن فہمی میں ان کا کوئی کردار نہیں۔ مولانا اصلاحی کا کا موقف یہ ہے کہ
1۔ سنت سے مراد سنت ِثابتہ ہے جو تواتر عملی سے ثابت ہوتی ہے ( ہم نے سطورِ بالا میں تجزیہ کرکے دکھایا ہے کہ تواتر ِعملی حقیقت نہیں، محض ایک یوٹوپیا ہے )۔
2۔ احادیث ظنی الثبوت اور مجموعہ رطب و یابس ہیں اور بحیثیت ِمجموعی ان کی صحت پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا لہٰذا فہم قرآن میں ان کا کوئی بنیادی کردار نہیں ۔
3 ۔ اگر کوئی حدیث فہم قرآن کے لیے ان کے وضع کردہ تفسیر القرآن بالقرآن کے اُصولوں کے خلاف ہو تو وہ قابل ردّ ہے ۔ چنانچہ انہوں نے اسی بنا پر رجم کی صحیح اور ثقہ راویوں سے مروی ان بیسیوں احادیث کو ردّ کر دیا جن کو اُمت چودہ سو سال سے قبول کرتی چلی آ رہی ہے اور ان پر عامل ہے ۔
اس طرح بحیثیت ِمجموعی اور آخری نتیجے کے اعتبار سے مولانا اصلاحی کا موقف منکرین سنت کے موقف سے بہت قریب ہو جاتاہے جس کا غلط ہونا بآسانی واضح ہے۔
ہم اس بحث کو سمیٹنے سے پہلے قارئین کی توجہ چند اہم امور کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں جن کا اس موضوع سے گہرا تعلق ہے۔ ایک تو یہ کہ ہم نے اپنے مضمون میں جو بار بار ' جمہور علماء' اور 'جمہور اُمت' کے الفاظ استعمال کیے ہیں تو اس سے مقصود اصلاحی مکتب ِفکر کو یہ احساس دلانا ہے کہ حدیث وسنت کے بارے میں ان کا موقف شذوذ میں سے ہے اور امت کی معروف، عمومی اور اجتماعی سوچ کے خلاف ہے۔ کسی امام یا فقیہ کی رائے سے دلیل کے ساتھ اختلاف کیا جاسکتا ہے اور یہ کوئی گناہ یا عیب کی بات نہیں۔ لیکن ایسا موقف اپنانا جو امت میں کبھی کسی نے نہ اپنایا ہویا کسی ایسے موقف کی تردید وتغلیط کرنا جو ہمیشہ سے اُمت اور اس کی اکثریت کا موقف رہا ہو، اپنے اندر اس امر کا غالب امکان رکھتا ہے کہ وہ 'غیر سبیل المومنین' ہونے کے ناطے غلط ہو۔ یہ محض عقلی یا منطقی بات نہیں بلکہ اس موقف کی شرعی اساس بھی موجود ہے اور مسلمانوں میں 'اجماع' کا ادارہ اسی کا مظہرہے،مسلمانوں کی اجتماعیت یوں ہی قائم رہ سکتی ہے۔
دوسرے یہ کہ علمی نکتہ آفرینی اپنی جگہ لیکن اگر کوئی مکتب فکر اس امر کا مدعی ہو کہ حق کی اس کی تعبیر دین اور تفسیر دین میں ہی منحصر ہے تو اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ہم مولانا اصلاحی یا کسی بھی دوسرے عالم کا یہ حق بھی تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کی تفسیر پر قلم اٹھاتے ہوئے وہ نئے علمی نکات سامنے لائے ( کہ قرآن کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوتے اور جو بھی اس کے بحر علوم میں غواصی کرے وہ کسی گو ہر کو پا سکتا ہے ) یا عام مفسرین کی ہوبہو پیروی کرنے کی بجائے اپنا رستہ الگ نکالے مثلاً ہمیں اس پرکوئی اعتراض نہیں اگر مولانا اصلاحی نظم قرآن پر زور دیں یا نزولِ قرآن کے زمانے کی نظم و نثر کو خصوصی اہمیت دیں یا اس بات کو اپنی ترجیح بنائیں کہ ہر آیت سے ایک ہی واضح حکم کا اثبات ہو لیکن اگروہ یہ دعویٰ کریں کہ صرف ان کے وضع کردہ تفسیری اُصول ہی صحیح ہیں اور صرف وہی قرآن کو صحیح سمجھے ہیں یا یہ کہ ان کے وضع کردہ تفسیری اصولوں کے بغیر قرآن کے صحیح فہم کو پایا نہیں جا سکتا مثلاً مولانا اصلاحی اگر یہ کہیں کہ نظم کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا اور نظم کو ہم نے کھولا ہے پہلے تو کسی کو یہ توفیق نہیں مل سکی (جیسا کہ وہ کہتے ہیں)31 تو ان کا یہ دعویٰ ردّ کر دیا جائے گا کیونکہ اس بات کو ماننے کا مطلب تو یہ ہے کہ امت آج تک تاریکی میں تھی اور قرآن کو سمجھ نہ سکی اور مولانا اصلاحی پہلے فرد ہیں جو قرآن کو صحیح طور پر سمجھے ہیں گویا کہ امت کے علما ، فقہا، مفسرین اور محدثین پچھلے چودہ سو سال میں محض بھاڑ جھونکتے اور گھاس کھودتے رہے ہیں ۔ اُمت کی کردار کشی اور سلف کی مذمت کا یہ رویہ نہ صرف یہ کہ عُجب اور مریضانہ خود پسندی کا مظہر ہے بلکہ ساری فکری گمراہیوں کی جڑ ہے۔ صحیح فرمایا تھا امام ابن تیمیہ نے کہ جو شخص سلف کے طریقے سے ہٹ کر تفسیر کرتا ہے وہ گویا بدعات کا دروازہ کھولتا ہے32 ہم کہتے ہیں کہ ساری امت کو گمراہ اور سارے اسلاف کو غلط قرار دینے کی بجائے کیا یہ بہتر نہیں کہ صرف اصلاحی صاحب کی فکر کو غلط قرار دے دیا جائے۔
پھر آپ کی حریت ِفکری ، انفرادیت پسندی ، آپ کی ذہانت اور رسوخِ علم سب قبول۔ آپ امام ابوحنیفہ اور امام مالک  کی طرح مجتہد مطلق بن کر استنباط کے نئے اصول وضع کریں تو بھی قابل برداشت ۔ طبری ، زمخشری اور رازی کے بالمقابل نئے اُصول تفسیر٭ لائیں تو بھی گوارا لیکن اگر آپ اپنے تفسیری اصولوں کی بنا پر اپنے فہم قرآن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فہم قرآن پر مقدم گردانیں گے تو ہم ہرگز نہ مانیں گے ۔ حدیث و سنت کا معاملہ کوئی فرعی اور ضمنی معاملہ نہیں ہے، یہ اصول کا معاملہ ہے ۔ امت چودہ سو سال سے حدیث و سنت کو قرآن کے ساتھ دین کا دوسرا ماخذ مانتی چلی آ رہی ہے، آج بھی مانتی ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک مانتی رہے گی۔
آپ اپنے شوقِ اختلاف کو اگر امتیوں تک محدود رکھتے تو قابل برداشت تھا لیکن آپ کا رویہ یہ ہے کہ ایک صحابی غلطی کرے تو آپ اسے غنڈہ قرار دیتے ہیں33 اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر سورئہ نور میں زانی کو زانی غیر محصن قرار دیں تو آپ اس کی تغلیط کرتے ہیں34 اور آپ کے شاگردِ رشید کہتے ہیں کہ" اگر یہاں زانی کو زانی غیر محصن کہا جا سکتا ہے35 تو پھر گدھے کو گھوڑا اور گائے کو بیل بھی کہا جا سکتا ہے"۔ہم کہتے ہیں کہ یہ جناب رسالت ِمآب ( فداہ ابی وا می) کے حضور سوءِ ادب اور گستاخی ہے جو اشتعال انگیز ہے (اور ہمیں ڈر ہے کہ کوئی جذباتی نوجوان ان الفاظ پرجاوید غامدی کے خلاف توہین رسالت کا مقدمہ نہ درج کرا دے)۔
سطورِ بالا میں ہم نے جو موقف اختیار کیا ہے، وہ ہمارا انفرادی جذباتی موقف نہیں ہے بلکہ صحابہ اور تابعین کے زمانے سے اہل علم کا سوچا سمجھا موقف ہے۔ چنانچہ امام دارمی نے یعلی بن حکیم سے روایت کی ہے کہ حضرت سعید بن جبیر نے ایک دفعہ حدیث بیان کی تو ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ یہ قرآن کے خلاف ہے تو حضرت سعید نے اس کا برا منایا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سے زیادہ قرآن جانتے تھے36 حقیقت یہ ہے کہ اس امر کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جو سنت کو منزل من اللہ اور اللہ کی طرف سے تصدیق اور تصویب شدہ نہ مانتا ہو ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان قرآن کی اس تفسیر کو حتمی نہ مانے جو خود صاحب ِقرآن نے کی ہو جو خود از روئے قرآن ان کا فرضِ منصبی ہے۔37
دوسری بات جو اس پہلے نکتے میں بیان کی گئی حقیقت کا نتیجہ اور تتمہ ہے ، وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے جذباتی محبت ہر مسلمان کا سرمایہٴ ایمان ہے اوریہ اہل اسلام کی قوت کا منبع اور ان کے اتحاد اورایک اُمت بنے رہنے کا بہت بڑا سبب ہے اور اسلام کے دشمن اس محبت کو کم کرنا اور اس تعلق کو کمزور کرناچاہتے ہیں تاکہ مسلمان ان کے لیے تر نوالہ ثابت ہوں۔ لہٰذا اہل نظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اُمت کی اس محبت کی بڑی قدر کرتے ہیں اور اسے بڑھانا چاہتے ہیں ( جس کی ایک مثال علامہ اقبال کا طرزِ عمل ہے ۔ لاہور کے ایک ان پڑھ نوجوان نے جب ایک شاتم رسول کا سر قلم کیاتواقبال نے کہا " ہم پڑھے لکھے باتیں ہی بناتے رہ گئے اور بڑھئی لڑکا بازی لے گیا"۔38اسی طرح جب انہوں نے قادیانیت کے خلاف بیان دیا تو نہرو نے طنزاً کہا کہ اقبال تم بھی ! مطلب یہ کہ تم جیسا پڑھا لکھا اور روشن خیال شخص بھی اس طرح کے مذہبی تعصب کا مظاہرہ کرے گا ، اس کی توقع نہ تھی۔ اقبال نے فوراً جواب دیا ہاں میں بھی ، کیونکہ یہ امت کی بقا کا مسئلہ ہے ) ۔39 جبکہ اصلاحی مکتب فکر کا حدیث کے حوالے سے موقف منکرین سنت کی طرح حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی اس جذباتی وابستگی کو دھچکا پہنچاتا ہے۔ خبر واحد کی حجیت پرعلمی بحثیں ماضی میں اُصولیوں کے درمیان ہوتی رہی ہیں لیکن اسے اپنی فکر کا مرکزی نکتہ بنانا، اسے عوام میں پھیلانا اور انہیں قائل کرنے کی جدوجہد کرنا ، اس پر فخر کرنا اور اس کیلئے بعض اوقات غیر محتاط زبان استعمال کرنا، یہ سب اپنے آخری نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جذباتی وابستگی کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔٭
تیسرے یہ کہ یہ صرف حدیث و سنت ہے جو دین اورمعاشرے کی تفصیلی صورت گری کرتی ہے۔ قرآن ظاہر ہے کہ تفاصیل سے بحث نہیں کرتا۔اس لیے اسلام دشمن قوتوں کی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح حدیث و سنت کو مسلمانوں کی نظروں میں مشتبہ قرار دیا جائے تاکہ قرآن کی من مانی تفسیر کا راستہ صاف ہو جائے۔ اس کے لیے ایک تکنیک یہ اختیار کی گئی ہے کہ قرآن کی عظمت و حاکمیت پر اس طرح اصرار کیا جائے کہ حدیث و سنت اس کے سامنے بے وقعت لگے۔ ہم کہتے ہیں کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے جو قرآن کی سطوت و عظمت کا قائل نہ ہو ۔ ظاہر ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے ، وہ زمین پر خدا کی حجت ہے، وہ کلامِ باری تعالیٰ ہے ، اس کی حکومت بحروبر پر چھائی ہوئی ہے ، وہ اللہ کی برہان اور منارہٴ نور ہے ۔ غرض قرآن کی عظمت بیان کرتے ہوئے جتنا بھی مبالغہ کر لیا جائے وہ کم ہے اور اس کے لیے جتنی بھی شاعری اور لفاظی کر لی جائے وہ صحیح اور برحق ہے لیکن اس کی قیمت یہ نہیں ہونی چاہیے کہ جس پر قرآن نازل ہوا تھا ، قرآن کے نام پراس کی سنت کو پیچھے پھینک دیا جائے اور اُمت چودہ سو سال سے جن احادیث کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر ان پرعمل پیرا اور ان کے تقدس کی قائل ہے ، قرآن فہمی کے نام پر ان کو بے وقعت کر دیا جائے ۔ ظاہر ہے یہ موقف اسلام دشمنوں کو تقویت دینے والا ہے !!
قرآن فہمی میں حدیث و سنت کے کردار کے حوالے سے اپنی گزارشات ختم کرتے ہوئے٭ ہم مولانا عبد الغفار حسن سے درخواست کرتے ہیں ، جن کا مضمون ان گزارشات کاباعث بنا کہ وہ ان مسائل میں اپنے موقف کی وضاحت کریں ، اگر وہ ان امور میں مولانا اصلاحی کے افکارکی حمایت کرتے ہیں تو اہل علم کے سامنے اپنے دلائل رکھیں اور اگر وہ انہیں صحیح نہیں سمجھتے تو ان سے اعلانِ برأت کریں تاکہ بات عام مسلمانوں پرواضح ہو جائے ۔


حوالہ جات
1. مولانا امین احسن اصلاحی ، مبادیٴ تد بر حدیث ، باب اول و دوم خصوصاً ص ۱۹ ،۲۸ ،۳۸ ،۴۱ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور ، ۲۰۰۰ء ... مولانا امین احسن اصلاحی ، مبادیٴ تدبر قرآن ، ص ۵۲ ، ۱۶۹ و مابعد ، دارالاشاعت الاسلامیہ لاہو ر ، ۱۹۷۱ء ... مولانا امین احسن اصلاحی ، تدبر قرآن ، جلد اوّل مقدمہ ، ص ب و مابعد ، مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور ، ۱۹۷۶ء
2. صحیح مسلم ، کتاب البر والصلہ والادب ، باب رغم من اَدرک ابویہ ، ص ۱۱۲۵ ، دارالسلام الریاض ۱۹۹۹ء
3. آلِ عمران ۳:۴۵

4. ابن منظور ، لسان العرب ، ج ۱۴ ص ۳۵۸ ، دارالصادر ، بیروت
5. اصلاحی ، مبادیٴ تدبر حدیث ، ص ۲۸

6. مبادی ٴتدبر حدیث ، ص ۲۷

7. ایضاً: ص ۲۹
8. صحیح بخاری ، کتاب الشہادات ، باب لایشھد علی شھادة جو ر اذا اشھد ، ص ۲۰۹ ، دارالسلام الریاض ،۱۹۹۹ء
9. مبادی ٴتدبر حدیث ، ص ۲۸

10. مبادیٴ تدبر حدیث ، ص ۲۸
11. مبادی ٴتدبر حدیث ، ص ۳۸ و مابعد

12. اصلاحی ، مبادیٴ تدبر قرآن ، ص ۱۴۵ ، ۱۴۷
13.  مبادی ٴتدبر قرآن ، ص ۱۴۸

14. السیوطی ، الاتقان فی علوم القرآن ، ج ۳ ص ۲۰۷ ، طبع تہران
15. امام شافعی ، احکام القرآن ، ج ۱ ص ۲۸ و مابعد ، دارالکتب العلمیة بیروت ، ۱۳۹۵ھ
16. امام ابن تیمیہ ، اصولِ تفسیر (اردو ترجمہ مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی ) ص ۸۷ ، مکتبہ سلفیہ لاہور ، ۱۹۶۳ء
17. القرطبی ، الجامع لاحکام القرآن ، ج ۱ ص ۳۷ ومابعد ، دار احیاء التراث العربی بیروت ، ۱۳۷۲ھ
18. ابن کثیر ، تفسیر القرآن العظیم ، ج ۱ ص ۳ ، سہیل اکیڈیمی لاہور ۱۹۷۲ء
19. آلوسی ، روح لمعانی ، ج ۱ ص ۶ ، مکتبہ امدادیہ ، ملتان

20.  ابن تیمیہ، اصول تفسیر ، ص ۸۷
21. الشاطبی ، الموافقات ، ج ۴ ص ۲۰ ، دارالمعرفہ بیروت

22. راغب اصفہانی ، مقدمہ تفسیر ص ۶۰۶ ، نور محمد اصح المطابع کراچی
23. سنن دارمی ، ۲۶ باب السنة قاضیہ علی الکتاب ، ج ۱ ص ۱۴۵ مطبعہ الاعتدال دمشق ،۱۳۴۹ھ
24. خطیب بغدادی ، الکفایہ فی علم الروایہ ، ص ۱۶ ، حیدر آباد دکن ، ۱۳۵۷ھ
25. سنن دارمی ، ج ۱ ص ۱۴۵

26. خطیب بغدادی ، الکفایہ ، ص ۱۶
27. العسقلانی ، تہذیب التہذیب ، ج ۱۰ ص ۲۸۹ ، حیدر آباد دکن ، ۱۳۲۵ھ
28. الذہبی ، تذکرة الحفاظ ، ج ۱ ص ۱۰۱ ، حیدر آباد دکن ، ۱۳۳۲ھ
29. تہذیب ، ج ۱۱ ص ۲۶۸

30. الخزرجی ، خلاصہ تذہیب الکمال ، ص ۳۶۷ ، مطبع الخیریہ القاہرہ ، ۱۳۲۲ھ
31. اصلاحی ، مقدمہ تدبر قرآن ، ص ح ... مبادیٴ تدبر قرآن ، ص ۱۷۳ و مابعد
32. ابن تیمیہ ، اصول تفسیر ص ۸۳ ، ۸۴

33. اصلاحی ، تدبر قرآن ، ج ۴ ، ص ۵۰۵ ومابعد
34. اصلاحی ، تدبر قرآن ، ج ۴ ، ص ۵۰۱ ومابعد

35. جاوید غامدی، میزان، ص ۱۴۳ ومابعد ، دارالاشراق لاہور ، ۱۹۷۵ء
36. سنن دارمی ، ج ۱ ص ۱۴۵

37. النحل ، ۱۶: ۴۴ ، الجمعہ ۶۲/۲
38. محمد اسماعیل قریشی ، ناموس رسول اور قانون توہین رسالت ، ص ۴۰۷ ، الفیصل ناشران کتب لاہور ، ۱۹۹۹ء
39. مرزائیت کے متعلق پنڈت جواہر لعل نہرو کے جواب میں علامہ اقبال کا بیان ، شعبہ اشاعت و تبلیغ لاہور ، ۱۹۳۶ء


نوٹ
٭ نام نہاد اصلاحی حلقہ 'انکارِ سنت'کے الزام سے بچنے کے لئے سنت کو حجت تومانتا ہے، لیکن سنت کو قرآن کی طرح 'وحی' کہنے سے گریزاں ہے حالانکہ وحی اور حجت ہونے میں فرق ہے، مثلاً انسان پروالدین کی اطاعت حجت ہے، اسلامی عدالت کا فیصلہ بھی حجت ہے لیکن یہ وحی نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاحی صاحب سنت کی تعریف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے صحابہ اور امت مسلمہ کو شامل کرتے ہیں حالانکہ صحابہ ؍امت مسلمہ کا عمل (ان کے بقولِ تواتر عملی) بالاتفاق وحی نہیں ہے۔وحی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر ہی منقطع ہوگئی تھی۔ (محدث)
٭ مولانا اصلاحی حدیث ِرسول کی رو سے ہر اضافے (خواہ وہ شروط وقیودہی کی قسم سے ہو) کو اصل قرآنی مفہوم کے منافی قرار دیتے ہیں اور کسی طرح تطبیق دینے کو آمادہ نہیں جیسے قرآنی حکم ۱۰۰ کوڑے کی سزا وہ صرف کنوارے زانی کے لئے مخصوص کرنا حدیث کی رو سے صحیح نہیں سمجھتی ۔ (محدث)
O 'سنن' نام کی کتابوں میں نبی ؐ کی حدیث وسنت جمع کی گئی ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ محدثین حدیث وسنت میں کسی فرق کے قائل نہ تھے، ورنہ وہ احادیث کے مجموعوں کے نام 'سنن' کبھی نہ رکھتے۔ انکی نظر میں حدیث اور سنت دونوں ہی نبیؐ کے اقوال، افعال اور تقریرات پر بولے جاتے ہیں۔جو معیاری روایات کی صورت میں صرف کتب حدیث میں ہی محفوظ ہیں۔
٭ جمہور علماء، جمہور امت اور جمہوراہل علم کے بارے میں مضمون کے آخر ی حصے (صفحہ ) میں وضاحت موجودہے۔
٭ دراصل فقہ میں عمل اہل مدینہ کی حجیت کا اُصول بعض مالکیہ نے اپنایا جو اَب امام مالکؒ کے حوالے سے شہرت پاگیاہے۔ حالانکہ امام مالک نے اسے مدینہ منورہ کے بعض اُن پیمانوں وغیرہ کے سلسلہ میں اہمیت دی ہے جو نبی کریم کے زمانہ سے مروّج چلے آرہے تھے جیسے کوفی صاع کے مقابلہ میں مدنی صاع(۲سیر ، ۱۰ چھٹانک، ۳ تولے ،۴ماشہ وزن کا ایک پیمانہ)، اس طرح کی اشیا کی پہچان یقینا رواج سے ہوسکتی ہے۔ بلکہ آج بھی بعض حضرات نے صاع کا مدنی پیمانہ بطورِ نمونہ سنبھال رکھا ہے۔ ورنہ امام مالکؒ کے بیشتر اجتہادات ایسے ہیں جو عمل اہل مدینہ کے مخالف ہیں جن کی کافی مثالیں حافظ ابن قیم ؒ نے إعلام الموقعین (جلد ۲؍صفحہ ۴۱۰ تا ۴۲۲) میں جمع کردی ہیں۔ (محدث)
٭ اصلاحی صاحب نے اُمت سے اختلاف ہی سنت ِنبوی کے ثبوت کے بہانہ سے کیا ہے۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ امت سنت ِنبوی یعنی احادیث کی روایت کے پرکھنے کے محدثانہ ذرائع کو اسی طرح قابل اعتماد سمجھتی ہے جس طرح کوئی جج اپنے عمربھر کے تجربے کے باوجود اپنے فیصلے کا مدارگواہان پررکھتا ہے۔اسی طرح امام شافعی نے 'رسالہ' میں رواۃ حدیث کو گواہانِ سنت سے تعبیر کیا ہے جبکہ اصلاحی صاحب اس ثبوت کے لئے تعامل اُمت کو بنیاد بناتے ہیں۔ ان کی عبارت سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ وہ احادیث کے بارے میں منکرین حدیث کے شبہات سے اس قدر متاثر ہیں کہ 'روایت' کے نام سے ہی الرجک ہیں، جس کام میں روایت آجائے وہ اس کو اہمیت دینے سے گھبراتے ہیں، اس میں غلطی کا امکان ان کے ذہن میں ایسا سمایا ہے کہ وہ اس سے باہر نہیں نکل پارہے۔
اب تعامل امت کی تان ٹوٹتی ہے تو صرف ایک نسل اور اس کے بھی چند افراد پر، یہاں پھر وہی سوال باقی ہے کہ یہ تعامل آج اُمت تک معتمد ذریعہ سے نسلا بعد نسل کیسے پہنچے؟ اس کا جواب انہی کے ذمہ ہے، یہ متبادل ذریعہ بشرطیکہ انہیں کوئی سوجھ جائے ، تواس کی استنادی حیثیت کیا ہوگی؟ وہ اور ان کے رفقا اسے کیا مقام دیں گے؟
ہماری رائے میں یہ صرف شریعت میں اپنی من مانی کرنے کے لئے اَلفاظ کا جال ہے جس میں مسلمان اُلجھ کررہ جائے۔تعامل امت کے بہانے سے عوام مسلمان انہیں امت کے مجموعی دھارے سے بھی الگ تصور نہ کریں اور وہ علمی موشگافیوں کے ذریعے اپنی مرضی کا اسلام بھی جاری کرلیں اور اس طرح حدیث ِنبوی کی پابندی کرنے سے بچ نکلیں۔
٭ جیسے عیسیٰ بن ابان غیر فقیہ صحابہ کی حدیث پر قیاس کو ترجیح دیتے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی ؒ نے اسے 'قیاس' کے بجائے 'درایت' کانام دیا ہے، گویا اس طرح حدیث پرفقہ کو بالادستی دینے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ فن حدیث اور فقہ کے مقاصد ہی مختلف ہیں۔ فن حدیث میں 'درایت' کا تعلق خبر واقع کی تحقیق سے ہے جبکہ فقہ 'خبر' کے بجائے مجتہد کی استنباطی شے ہوتی ہے۔ استنباط واجتہاد میں درایت کے اُصول استحسان ، استصلاح وغیرہ کہلاتے ہیں۔ جبکہ اصولِ حدیث میں 'درایت' محدثین کے طریقہ پر خبر کی واقعاتی تحقیق کہلاتی ہے جو کہ محدثانہ طریقوں سے کی جاتی ہے۔اگر ایک فن کی اصطلاح دوسرے فن میں خلط ملط کر دی جائے تو کئی مغالطے پیدا ہوسکتے ہیں۔ (محدث)
٭ حدیث سے قرآن کی تخصیص کے تو جمہور فقہا قائل ہیں البتہ نسخ کے بارے میں امام شافعی ؒکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حدیث سے مطلقاً قرآن کے نسخ کے قائل نہیں اور وجہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ حدیث کا درجہ قرآن سے کم تر ہے لیکن امام شوکانی ؒنے اصولِ فقہ پر اپنی مشہور تالیف 'ارشاد الفحول'(ص ۱۶۸) میں امام شافعی کے قول کی امام زرکشی کی طرف سے توجیہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام شافعی کا مقصود یہ ہے کہ قرآن سنت کو منسوخ نہیں کرسکتا اور نہ سنت قرآن کو(ملخصاً)۔ گویاامام شافعیؒ نسخ کی یہ بات دونوں کے مرتبہ کے فرق کی بنا پر نہیں کہتے ۔ الفاظِ قرآن کا مرتبہ بلاشبہ مفہومِ حدیث پر بالا ہی ہے لیکن امام شافعیؒ کا مقصد یہ ہے کہ دونوں کا باہمی تعلق ناسخ ومنسوخ کا نہیں،بلکہ اِجمال وبیان کا ہے لہٰذا ان میں ٹکراؤ پیدا کرنے کے بجائے ان کو باہم ملا کر مفہومِ شریعت متعین کرنا چاہیے جیسے ایک دوسری جگہ ان کے الفاظ یوں ہیں: نزل القرآن جملۃ حتی بیّنہ الرسولقرآن اجمالی حیثیت سے اُترا جبکہ سنت اس کی تبیین و وضاحت کرتی ہے۔ (محدث)
٭ قرآن وسنت کی ایک دوسرے پرچوکیداری کی یہ ساری بحثیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب ان کو ایک دوسرے کا معاون وموضح سمجھنے کے بجائے، ایک دوسرے کا مخالف سمجھ لیا جائے۔ اللہ کا نبی ہی قرآن لے کر آیا، اس کے بتلائے ہوئے الہامی الفاظ قرآن قرار دیئے گئے اور شریعت کا عملی نقشہ حدیث وسنت کی صورت میں محفوظ ہوا۔قرآن اور سنت دونوں مل کر شریعت ہیں اور دونوں ہی وحی الٰہی ہیں۔اللہ کے رسول نعوذ باللہ اللہ کی مخالفت کرنے نہیں آئے تھے جس کی کلام وہ قرآن بتا رہے ہیں،بلکہ قرآن کے مطابق اسی کی تائید وتشریح کے لئے آئے تھے، لہٰذادونوں کی باہمی وضاحتوں کو ایک دوسرے پر اعتداء کیوںسمجھا جائے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر ایک حدیث صحیح ثابت ہوجائے، دوسرے لفظوں میں اس کا ارشادِنبیؐ ہونا مستند ہوجائے تو اس ارشادِ نبوی کو وہی حیثیت دی جائے جو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی الفاظ ِقرآن کے بارے میں تھی۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے اللہ اور اس کے رسول کے درمیان تفریق کے ایسے رویے پر سخت تنبیہ فرمائی ہے سورۃ النساء ؍۱۵۰ میں ارشاد ربانی کا ترجمہ یوں ہے ''وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہوئے ان کے مابین فرق کرنا چاہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض سے کفر کرتے ہیں، اس طرح وہ ایک درمیانی راستہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، ایسے ہی لوگ پکے کافر ہیں''۔ (محدث)
٭ دورِ حاضر کے محدثِ جلیل علامہ البانی کے بقول شریعت کی تعبیر میںحدیث وسنت دوسرے درجے کاماخذ نہیں ہے بلکہ قرآن وسنت وحی اورشریعت ہونے کی بناء پر یکساںحجت ہیں دونوںکو ملا کرشریعت حاصل ہوتی ہے اگرچہ کلام اللہ ہونے کے اعتبارسے ایک کو'قرآن' کہا جاتا ہے تومراد الہٰی ہونے کے اعتبار سے دوسرے کو حدیث وسنت۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں مقالہ علامہ البانی 'محدث'اپریل ۹۲ئ)
٭ نبی کریم سے محبت آپ کے اَقوال وافعال سے محبت، اُن کی اتباع پرمنتج ہونی چاہئے۔ احادیث ِنبوی کو دین فہمی میں اہمیت نہ دینا گویا شانِ نبوت اورحب ِنبوی کا انکار ہے۔ نبی کی شریعت کے شارح کی حیثیت کو کسی امتی نے نہیں بلکہ اللہ تعالی نے قران میں واضح کیا ہے۔ صرف مسئلہ نبی کے فرمان کے صحیح طور پرثابت ہوجانے کا ہے۔
یہاں اس مسئلہ پر بھی غور کرنا چاہئے کہ شریعت دورِ نبوی میں اور آج تک بالکل ایک ہی رہی ہے، ایسا نہیں کہ کوئی امر صحابہ کے لئے تو شریعت ہو اور ہمارے لئے نہ ہو، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ کا دین صحابہ اور ہمارے لئے یکساں نہیں۔ ایک بات جسے نبی کریم اپنے صحابہ سے فرمائیں تو وہ تو اس کو ماننے کے مکلف ہوں ، لیکن ہم مرورِ زمانہ کے بعد اس کے پابند نہ رہ جائیں ، کیونکر ایسے ہوسکتا ہے!!؟ (محدث)
٭ نبی کریم سے محبت آپ کے اَقوال وافعال سے محبت، اُن کی اتباع پرمنتج ہونی چاہئے۔ احادیث ِنبوی کو دین فہمی میں اہمیت نہ دینا گویا شانِ نبوت اورحب ِنبوی کا انکار ہے۔ نبی کی شریعت کے شارح کی حیثیت کو کسی امتی نے نہیں بلکہ اللہ تعالی نے قران میں واضح کیا ہے۔ صرف مسئلہ نبی کے فرمان کے صحیح طور پرثابت ہوجانے کا ہے۔
یہاں اس مسئلہ پر بھی غور کرنا چاہئے کہ شریعت دورِ نبوی میں اور آج تک بالکل ایک ہی رہی ہے، ایسا نہیں کہ کوئی امر صحابہ کے لئے تو شریعت ہو اور ہمارے لئے نہ ہو، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ کا دین صحابہ اور ہمارے لئے یکساں نہیں۔ ایک بات جسے نبی کریم اپنے صحابہ سے فرمائیں تو وہ تو اس کو ماننے کے مکلف ہوں ، لیکن ہم مرورِ زمانہ کے بعد اس کے پابند نہ رہ جائیں ، کیونکر ایسے ہوسکتا ہے!!؟ (محدث)
٭ حضرت مولانا عبد الغفار حسن حفظہ اللہ کبرسنی اور ضعف ونقاہت کی بنا پر شاید اب لکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، اس لئے ہم ان کا اِس شمارے میں ایک دوسرا مضمون بعنوان ''حدیث کے ظنی ہونے کا مفہوم'' جو بہت عرصہ قبل ماہنامہ میثاق، لاہور کے شمارہ جولائی ، اگست ۱۹۶۲ء(زیر ادارت مولانا امین احسن اصلاحی) میں شائع ہوا تھا ، محدث کے اسی شمارے میں دے رہے ہیں جو اصلاحی صاحب کے اس دعوے کی توتردید کرتا ہے کہ حدیث ظنی الثبوت ہونے کی بنا پر اعتبار کے قابل نہیں تاہم ڈاکٹر محمدامین کے اس تاثر کی اس مضمون سے بھی تائید ہوتی ہے کہ مولانا عبد الغفار حسن حفظہ اللہ حدیث ِرسول کی حجیت پوری طرح تسلیم کرنے کے باوجوداصلاحی صاحب کی تواتر عملی کی نام نہاد اصطلاح سے غیر شعوری طور پر متاثر ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ موصوف اس مضمون میں بھی تواتر کی بحث میں مولانا اصلاحی کا تعامل امت والا نکتہ لے آئے ہیں جس کا تعاقب زیر نظر مقالہ میں ڈاکٹر محمد امین نے کیا ہے۔
درحقیقت یہ بحث فن حدیث کی اصطلاح 'خبر متواتر'کی بجائے اُصولِ فقہ کے 'مسئلہ اجماع'سے متعلق ہے۔ واضح رہے کہ شریعت کے بنیادی فکری اورعملی مسائل پر اجمالی طور پرپوری اُمت کے اتفاق واجماع کا انکار وہ لوگ بھی نہیں کرتے جو کسی فرعی مسئلے پر اجماع کے قائل نہیں ہیں۔ امام الحرمین الجوینی ؒنے ایسے اجماع کی حجیت کا اپنی کتاب 'البرہان فی اُصول الفقہ ' میں تفصیل سے ذکرکیا ہے ۔مختصر یہ کہ مسئلہ اجماع اور اس کی مسلمہ حجیت اُصولِ فقہ سے متعلق ہے جبکہ حدیث میں تواتر کی بحث خبراور اس کی روایت سے تعلق رکھتی ہے۔اصولِ فقہ کے قواعد وضوابط اُصولِ حدیث کے طریقوں سے مختلف ہیں کیونکہ فقہ کا تعلق اِستنباط واجتہاد سے ہوتا ہے جبکہ فن حدیث کاموضوع خبر واقعہ کی تحقیق ہے۔لہٰذا خبر کی صحت اور ضعف پہچاننے کے طریقے اصولی طور پر استنباط واجتہاد کے جانچنے سے کافی مختلف ہیں جو اہل علم سے مخفی نہیں ۔ ( محدث)