تذکرہ ابا جان شیخ عبدالغفار حسن رحمة اللہ علیہ رحمانی
یہ تحریر ایک مفصل مضمون کے لئے بحیثیت ِایک خاکہ ہے، اس لئے جابجا قوسین میں ذیلی عناوین دئیے گئے ہیں جوتفصیل کے طالب ہیں اور تفصیلی مضمون ہی کا حصہ بنیں گے۔ اُمید کرتا ہوں کہ اس خاکہ میں جلد ہی رنگ بھرسکوں گا۔
ابا جان کے شجرہ میں اتنا حصہ تو معروف ہے:
عبدالغفار حسن بن عبدالستار حسن بن عبدالجبار عمرپوری بن منشی بدرالدین بن محمد واصل
مورّثِ اعلیٰ کے بارے میں بتایا جاتاہے کہ شیخ حِبّان نامی ایک شخص جن کا تعلق مصر سے تھا، ہندوستان آکر آباد ہوگئے، ان کا اپنا شجرئہ نسب حضرت ابوبکر صدیقؓ تک پہنچتاہے۔ علم وتعلّم کی نسبت سے ہمارے پردادا عبدالجبار نے اس گھرانے کو دنیاے علم وفضل سے روشناس کرایا۔ آباؤاجداد مظفر نگر (یوپی) کے ایک مضافاتی قصبے عمرپور میں آباد تھے اوراسی نسبت سے 'عمرپوری' کہلائے۔ ننھیال کا تعلق رُھتک (کرنال) سے تھا، جہاں ابا جان کی پیدائش ہوئی۔
'عظمت ِحدیث' کے مقدمہ میں ابا جان نے اپنے دادا عبدالجبار اور والد عبدالستار کا اِجمالی تذکرہ کیا ہے، مزید تفصیل ابویحییٰ امام خان نوشہروی کی کتاب 'تراجم علماے اہلحدیث ہند' میں آگئی ہے۔ پردادا عبدالجبار ہفت روزہ 'ضیاء السنة ' (کلکتہ) کے ایڈیٹر تھے، جسے اُن کے اپنے برادرِ خورد ضیاء الرحمن بحیثیت پبلشر نکالا کرتے تھے۔ اُس دور میں سنت کا دفاع کرنے اور قرآن وحدیث کی دعوت کوعام کرنے میں جن رسائل و جرائد نے بھرپور کام کیا، اُن میں یہ پرچہ سرفہرست تھا۔خاص طور پر مرزا غلام احمد قادیانی کی ضلالات اور عبداللہ چکڑالوی کی ہفوات کی خوب خبر لیتا تھا۔ رسالے کے آخر میں خبرنامہ عالم اسلام یا مسلمانوں سے متعلق خبروں کو بھی بالاختصار پیش کیاجاتاتھا۔ مجھے بڑی مسرت ہوئی جب میں نے برطانیہ میں اسلام کا علم بلند کرنے والوں میں سے ایک شخصیت کے متعلق چند ایسی باتیں اس رسالہ میں درج پائیں جو مجھے انگریزی مصادر میں بھی نہ ملی تھیں ۔میری مراد عبداللہ ولیم قویلیم سے ہے۔ جو 'لورپول' انگلینڈ کے ایک صحافی اور بیرسٹر تھے اور جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد 1889ء کے لگ بھگ اپنے اس آبائی شہرمیں مسجد قائم کرنے کا شرف حاصل کیاتھا۔
ابا جان 1916ء کو اس گھرانے کے لئے عام الحُزنسے تعبیر کیاکرتے تھے کہ اس سال ان کے دادا عبدالجبار عمرپوری نے 57سال کی عمر میں وفات پائی۔ چند ماہ بعد والد عبدالستار حسن کا 34سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ (1917ء کا آغاز ہوچکاتھا) اور پھر اپنے اکلوتے بھائی عبدالقہار اوراپنی والدہ اَمتہ المجیب بھی اللہ کو پیاری ہوئیں ۔
ابا جان اپنی پھوپھی اَمتہ اللہ اور دادی صا حبہ کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے یتیم بھتیجے کو وہ محبت اورشفقت عطا کی جس سے وہ اپنے بچپنے ہی میں محروم ہوگئے تھے۔ [تذکرہ ددھیال اورننھیال، پردادا اور دادا کے تعلیمی اور دعوتی مراحل کابیان]
ابا جان کاسن ولادت
20جولائی 1913ء ہے، پیدائش رُھتکمیں ہوئی۔ حیاتِ مستعار کے آخری دو سالوں میں یادداشت متاثر ہوچکی تھی، اس لئے جب میں نے جائے پیدائش کے بارے میں پوچھا تو 'دہلی' کا نام لیا لیکن پاسپورٹ اور دیگر وثیقہ جات میں رُھتک ہی ذکر ہے۔
دہلی کے مدرسہ 'نور الہدیٰ' کشن گنج میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پردادا عبدالجبار نے اُسے 'حسن گنج' کانام دیا اور اسی مناسبت سے بیٹے کو بھی حسن کا لاحقہ عطا ہوا یعنی 'عبدالستار حسن' لیکن درسِ نظامی کا پورامرحلہ دارالحدیث رحمانیہ، دہلی میں طے کیا جو کہ دہلی کے ایک مخیر تاجر عطاء الرحمن نے قائم کیاتھا اور یہ مدرسہ اپنی پختہ عمارت، حسن نظامت، جودتِ تعلیم اور عربی کو بحیثیت ِزبان متعارف کرانے میں ہندوستان کے عربی مدارس میں ایک ممتاز مقام رکھتاتھا۔ ابا جان ذکر کرتے تھے کہ یہ رحمانیہ کی عربی تعلیم ہی کاثمر تھاکہ ابا جان ایک عجمی ہوتے ہوئے بھی مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی میں اٹھارہ سال تعلیم دیتے رہے اور عجمیت اس تسلسل میں قطعاً آڑے نہ آئی۔
مدرسہ رحمانیہ نے جہاں ابا جان کوعربی زبان کا سلیقہ عطا کیا، وہاں شیخ احمداللہ پرتاب گڑھی (جو مولانا محمدیونس قریشی دہلوی کے ماموں تھے) کے توسط سے علم حدیث کی وہ اسناد عطاکی جو 23 واسطوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے اور جو عصر حاضر میں ایک نایاب گوہر کی حیثیت رکھتی ہے۔ عرب و عجم کے کئی اساتذہ اور طلبہ علم نے ابا جان سے اس اسناد کا إجازة حاصل کیا۔
حفیظ الرحمن اُن طلبہ میں سے ہیں جنہوں نے ابا جان سے ان کی آخری عمر میں فیض حاصل کیاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ ابا جان سے ملا اور اجازہ حدیث حاصل کرنے کی خواہش کااظہارکیا، کہا کہ کل فلاں وقت آنا، میں مقررہ وقت پرپہنچ گیا تو فرمایا کہ مصروف ہوں ، فلاں نماز کے بعد ملنا، میں وقت ِموعود پرموجود رہا، والد صاحب نے پھر عذر کیا اور ایک اور وقت آنے کی تاکید کی، میں سمجھ گیا کہ میرا امتحان لے رہے ہیں اور شکر ہے کہ میں اس امتحان میں پورا اُترا، غالباً چھ دفعہ کی آزمائش کے بعد بالآخر اجازہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔
یہی طالب ِعلم روایت کرتے ہیں کہ ایک اور دوست فیصل آباد سے اسلام آباد آئے، حفیظ الرحمن سے ملے اورکہنے لگے کہ شیخ سے ملتے ہیں اور 'اجازہ' بھی وصول کرتے ہیں ، میں (یعنی حفیظ الرحمن) نے اُنہیں بتایا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا۔ بہرحال شیخ سے ملاقات ہوئی، اپنی خواہش کااظہار کیا۔ کہاکہ تم فیصل آباد سے کس کام کے لئے آئے تھے؟ جواب دیا کہ دوست سے ملنے کے لئے۔ کہا کہ جب صرف اسی غرض سے آؤ گے تو اجازہ دوں گا۔ یہ صاحب چلے گئے اور پھر تین سال ہوگئے، اُنہوں نے پلٹ کرخبر نہ لی، والد صاحب کبھی کبھار مجھ سے پوچھتے، وہ تمہارا دوست کہاں چلاگیا؟
عود علی بدء کے تحت دوبارہ رحمانیہ کے ذکر کی طرف لوٹتے ہیں ۔ رحمانیہ میں جن اساطین علم سے فیض حاصل کیا، اُن میں سے چند کے نام یہ ہیں : مولانا احمداللہ شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ، مولانا عبدالرحمن نگر نہسوی، مولانا محمد سورتی، مولاناعبیداللہ رحمانی مبارکپوری اور مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہم اللہ ۔
اباجان کا یہ زمانہ عنفوانِ شباب تھا۔ مطالعہ کا بے حد شوق تھا، ملّی و ملکی مسائل پر نگاہ رہتی تھی، اس لئے بعض اوقات رحمانیہ کے بورڈنگ کے اوقات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کئی جلسوں میں حاضری بھی دی، جلوسوں میں شرکت بھی کی۔ مدرسہ کی انتظامیہ نے فہمائش بھی کی لیکن حسن کارکردگی کی بنا پرچشم پوشی کی۔ اباجان اُن اجتماعات کا بڑی دلچسپی سے ذکر کرتے ہیں جن میں ہندوستان کے مایہ ناز دماغ جیسے مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا ابوالکلام آزاد، مولاناثناء اللہ امرتسری، مولانامحمد ابراہیم میرسیالکوٹی رحمہم اللہ شرکت کیا کرتے تھے۔ اَحراری اورلیگی چپقلش کو بھی دیکھا اور لیگی و کانگرسی رقابت کو بھی۔ رحمانیہ کے تقریری مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دادپائی۔
ابا جان، مدرسہ کے مہتمم سیٹھ عطاء الرحمن کاذکر بڑی عقیدت سے کرتے ہیں ۔ اُن سے ایک خصوصی تعلق قائم ہوگیاتھا، جومدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے تک قائم رہا، پھر حاسدوں کی پٹی پڑھانے سے اورکچھ اپنی غفلت کی بناپر اس تعلق میں فتور پیداہوگیا، پھر بھی وہ ابا جان کے نکاح کے بعدتقریب ِولیمہ میں شریک ہوئے اور اپنی طرف سے بھی ولیمہ کاانعقادکیا۔ یہی وہ گہرا تعلق تھا جو فراغت کے26 سال بعد کراچی کے مدرسہ سعودیہ (سفید مسجد) سولجر بازار کو دوبارہ دار الحدیث رحمانیہ کا روپ دھارنے پرآمادہ کرسکا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب اباجان 1963ء میں پنجاب سے کراچی تشریف لائے اور مدرسہ مذکورہ میں مسند ِحدیث سنبھالی تو اُنہوں نے جہاں مدرسہ کے نصاب میں کئی تبدیلیاں روشناس کرائیں ، وہاں مدرسہ کے موجودہ متولی سیٹھ عبدالوہاب (ابن شیخ عطا الرحمن ) کے سامنے یہ تجویز بھی پیش کی کہ تقسیم کے وقت دہلی کا مدرسہ رحمانیہ اپنی رونقیں کھو چکا تھا، خود مؤسس مدرسہ کا خاندان پاکستان ہجرت کرچکاتھا اور بعد ازاں مدرسہ کی عمارت میں شفیق میموریل سکول کی طرح ڈالی جاچکی تھی، اس لئے بہتر ہوگا کہ سفید مسجد کے اس مدرسہ کو از سر نو مدرسہ رحمانیہ کا نام دیا جائے، چنانچہ سیٹھ عبدالوہاب مرحوم اور ان کی انتظامیہ نے اس تجویز پر صاد کیا اور یوں مدرسہ رحمانیہ دہلی کے احیا کاراستہ کھل گیا۔
مدرسہ رحمانیہ کے آٹھ سال، تعلیمی سرگرمیاں ، نصاب اور طریقہ امتحان، غیر تعلیمی سرگرمیاں ، جریدہ 'محدث' سے وابستگی، اساتذہ کا تذکرہ
اباجان 1933ء میں جامعہ رحمانیہ سے فارغ ہوئے ۔ ۱1936ء میں بنارس کارُخ کیا، جہاں مدرسہ سلفیہ اگلے چھ سال کے لئے اُن کی آماجگاہ رہا۔ یہی سلفیہ بعدمیں ترقی کے مدارج طے کرتاہوا جامعہ سلفیہ کارُوپ دھارتا گیا اور اس جامعہ کے فارغین اپنے تبحر علمی اور عربی دانی کی بنا پر عرب دنیا میں بھی اپنا لوہا منواتے گئے۔ اس مدرسہ میں والد صاحب کو صحاحِ ستہ جم کر پڑھانے کا موقع ملا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک منتہی طالب ِعلم تدریس کے مرحلہ سے گزر کر ہی مسِ خام سے کندن بنتا ہے۔ یوں تو اُنہیں اس باب میں خراجِ عقیدت دینے والے بہتیرے ہوں گے لیکن انہی کی زبان سے ایک شاہد کی شہادت سنتے جائیے...
والد صاحب کہتے ہیں :جن دِنوں میں اسلامی نظریاتی کونسل (پاکستان) کا ممبر تھا اور جسٹس تنزیل الرحمن کی صدارت کازمانہ تھا۔ کونسل میں یہ بحث چھڑی کہ حاکم یا امیر کی مدتِ امارت متعین ہونی چاہئے یا نہیں ، یعنی الیکشن ہو یا نہ ہو؟ میں نے کہا: مدت متعین نہیں ہونی چاہئے۔ خلفاے راشدین اپنی وفات یا شہادت تک امیر رہے ہیں ۔ جسٹس صاحب کہنے لگے کہ دلیل لاؤ۔ میں نے وہ روایت پیش کی جس میں اُمرا کی سمع و طاعت کاذکر ہے اور آخر میں : ما أقاموا الصلاة ''جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں ۔'' اُس پر جسٹس صاحب خوش ہوکربولے، حدیث تو آپ سے پڑھنی چاہئے۔
اگلے چھ سال (1942ء سے 1948ء) راقم الحروف کی جاے پیدائش مالیرکوٹلہ اُن کا مستقر رہا۔ مشرقی پنجاب میں مالیر اور کوٹلہ کی آبادیوں پرمشتمل تیس ہزار نفوس کی یہ ریاست وہ واحد مسلم ریاست تھی جس نے تقسیم کے وقت فسادات کے موقع پر مہاجرین کے لئے ایک آسرا بہم پہنچایا۔ یہ ریاست مشرق میں سکھوں کی ریاست نابھ، مغرب اور جنوب میں ریاست پٹیالہ اوراس کے کچھ قصبات جیسے دُھوری اور ریاست جینو کے کچھ اَطراف، اور شمال میں ضلع لدھیانہ سے گھری ہوئی ہے۔
ابا جان 'کوثر العلم' مدرسہ میں پڑھاتے بھی رہے اور مسجد ِاہلحدیث میں جمعہ کا خطبہ بھی دیتے رہے۔ میری (پیدائش نومبر1942ء) تختی کا آغاز بھی اسی مدرسہ سے ہوا۔ مالیر کوٹلہ ابا جان کی سسرال بھی تھی، اس لئے یہاں کا قیام متعدد مصلحتوں سے وابستہ تھا۔
مالیر کوٹلہ میں جن تلامذہ نے ابا جان سے تعلیم کاآغاز کیااور پھر عربی دانی میں خوب شہرت پائی، ان میں سرفہرست مولانا عاصم ہیں ، جن کا گھرانہ پیشے کے اعتبار سے لوہار تھا۔ عاصم ابا جان کے پاس عربی پڑھتے اور دوسرے دروس میں شریک ہوتے۔ ایک دن اُن کے والد آئے اور خفگی کااظہارکیا کہ لڑکا تو مسیتـڑا ہوا جاتا ہے، وہ اُنہیں اپنے پیشے سے وابستہ کرناچاہتے تھے۔ ایک طرف والد کی خواہش اور دوسری طرف طلب ِعلم کی شدیدلگن،اس لئے مناسب یہی سمجھا گیاکہ عاصم راتوں رات لدھیانہ تشریف لے جائیں ، اور پھر اُنہوں نے بقیہ تعلیمی مراحل عربی کے مشہور انشاء پرداز مولانا مسعود عالم ندوی رحمة اللہ علیہ کے ساتھ گزارے اورعربی میں اتنا کمال حاصل کیا کہ جماعت ِاسلامی سے وابستگی کی بنا پر مولانا مودودی رحمة اللہ علیہ کی متعدد کتابوں کو عربی جامہ پہنا کر عالم عرب میں روشناس کرایا۔ گو اپنے پیشے سے وابستہ نہ رہے لیکن اس نسبت کو الحدّاد کے لاحقے کے ساتھ وفات تک گلے لگائے رکھا۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ!
فسادات کے وقت مسلمانوں کے قافلے اس ریاست میں پڑاؤ ڈالتے، پٹیالہ اورنابہہ سے لٹے پٹے قافلے اس حالت میں مالیر کوٹلہ پہنچتے کہ ایک قافلہ جو چلتے وقت پانچ ہزار نفوس پر مشتمل تھا، مالیرکوٹلہ پہنچتے پہنچتے پانچ سو افراد کارہ گیا۔ مکئی کی فصل کھڑی تھی،دردمند حضرات اُسی کا دلیہ بنا کر مہاجرین میں تقسیم کرتے۔ مذکورہ قافلہ میں چند مسلح ریٹائرڈ فوجی بھی تھے، اس لئے سکھوں کو سامنے سے حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی بلکہ نہر کا ایک پل بیل گاڑیوں سے بند کرکے اچانک دائیں بائیں اور پیچھے سے حملہ کیا، اکثر شہید ہوئے، کچھ نہر میں ڈوبے اور بہت کم اپنی جان بچا سکے۔
والد صاحب بتاتے ہیں کہ نفسانفسی کا یہ عالم تھاکہ لوگ عارضی کیمپوں میں ریل گاڑی یا بس کی روانگی کے منتظر رہتے۔ جونہی ٹرین کے کوچ کرجانے کا اعلان ہوا، لوگ بھاگم بھاگ اسٹیشن پہنچے۔ ابا جان نے ایک کیمپ میں ایک معصوم بچے کودیکھا جو اپنی مختصر زندگی کے آخری سانس لے رہا تھا۔ اس کے والدین اسے اسی حالت میں چھوڑ کر جاچکے تھے، گویا نقشہ تھا یومِ قیامت کا:
يَوْمَ يَفِرُّ ٱلْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ ﴿٣٤﴾ وَأُمِّهِۦ وَأَبِيهِ ﴿٣٥﴾ وَصَـٰحِبَتِهِۦ وَبَنِيهِ ﴿٣٦﴾ لِكُلِّ ٱمْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ ﴿٣٧﴾...سورۃ عبس
ابا جان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس غریب الدیار معصوم کو کفنایا اور دفنایا۔ ہم نے مئی 1948ء میں ہجرت کا عزم کیا۔ ٹرین کے اُس سفر کی چند یادیں آسمان پر بجلی چمکنے کے مختصر وقفہ کی مانند لوحِ دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی ہیں ، جو ہم نے اٹاری تک کیاتھا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس گاڑی پرکوئی شب خون نہیں مارا گیا۔ کچھ ڈبوں میں لوٹ مار ہوئی اور خواتین کازیور اور مردوں کا روپیہ پیسہ چھیناگیا۔اٹاری سے ایک مال گاڑی کے کھلے ڈبوں میں سازوسامان کے ساتھ واہگہ ہوتے ہوئے لاہور پہنچے۔ اباجان بتاتے ہیں کہ گاڑی لاہوراسٹیشن پر رُکے بغیر والٹن چلی گئی، جہاں مہاجرین ہزاروں کی تعدادمیں کیمپوں میں پڑے کسمپرسی کاشکار تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہیضہ پھوٹ چکاتھا، اس لئے عافیت اسی میں سمجھی گئی کہ گاڑی سے نہ اُترا جائے تاآنکہ اس نے واپسی کا قصد کیا اورلاہور چھاؤنی جا اُتارا۔
مالیر کوٹلہ کاقیام، ابا جان کے سسرال اورہمارے ننھیال کا تذکرہ، تدریسی و تعلیمی سرگرمیاں
جغرافیائی حدودکے اعتبار سے ایک دور ختم ہوا اور پاکستان آمد کے بعد ایک دوسرادور شروع ہوا لیکن اباجان جماعت ِاسلامی سے وابستگی کے اس مرحلہ کو جو 1941ء میں شروع ہوا اور 1957ء میں جماعت سے علیحدگی پرختم ہوا اور جس کا دورانیہ 16سال پر مشتمل تھا، اپنی زندگی کا ایک مستقل مرحلہ گردانتے ہیں اور جماعت ِاسلامی کے ۱۶ سال سے اُسے موسوم کرتے ہیں ۔چنانچہ میں بھی اپنے تفصیلی مضمون میں اس امر کالحاظ رکھوں گا اور اسے ایک مستقل عنوان ہی کے ذیل میں لکھوں گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہندوستان جن مسائل میں گھوم رہا تھا کہ ایک طرف کانگرس انگریزوں کاخلیفہ بننے کا خواب دیکھ رہی تھی، دوسری طرف مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کی خواہاں تھی، اور یہ وہ زمانہ تھا جب 1934ء میں تارِخلافت ٹوٹنے کے بعد سارا ہندوستان محمد علی جوہر رحمة اللہ علیہ کے نعرئہ خلافت سے بھی گونج رہاتھا اور جہاں شاہ خطابت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمة اللہ علیہ کی ولولہ انگیز تقاریر مسلمانوں کو ایک حوصلہ اور پیامِ اُمید پہنچارہی تھیں اور پھر وہیں سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمة اللہ علیہ کی فکر انگیز تحریریں ،'ترجمان القرآن' میں مسلمانوں کی موجودہ حالت پر اُن کے خیال انگیز تبصرے اور مسلمانوں کو انگریز اور ہندوؤں کی ملی بھگت کے نتیجہ میں ایک ذلت آمیز انجام سے بچنے کی تدبیر کے طور پر رجوع الیٰ اللہ کی تحریک ابا جان کے انقلابی اوراصلاحی ذہن کے لئے انتہائی باعث ِکشش ثابت ہوئی اور وہ اپنا من تن دھن سب کچھ لُٹا کرمولانامودودی رحمة اللہ علیہ کی دعوت پرلبیک کر اُٹھے۔ وہ جماعت کے تاسیسی اجلاس میں تو نہ شریک ہوسکے لیکن ہرکارئہ ڈاک کے توسط سے جماعت کے اوّلین و سابقین ہی میں شمار ہوئے۔ سرزمین لاہور پرقدم رکھتے ہی اُنہوں نے اپنے مختصر خاندان (والدہ، بڑی بہن اور ہم تین بھائیوں )کو کھنہ بلڈنگ، دالگراں چوک کی دوسری منزل کے ایک کشادہ کمرے میں ہماری منجھلی خالہ کا مہمان ٹھہرایا جو ہم سے قبل ہجرت کرچکی تھیں ،پھر اچھرہ جاکر مولانا مودودی رحمة اللہ علیہ کو اپنے سفر کی رام کہانی سنائی اور لوٹ مار کے ان واقعات کا تذکرہ کیا جو ریل گاڑی کے سفر میں پیش آئے تھے۔ مولانا نے ہدایت کی کہ ایک اور رکن جماعت کی معیت میں ابا جان بحالی مہاجرین کے کمشنرعطا محمد لغاری سے ملاقات کریں ۔ اباجان کہتے ہیں کہ جب ہم نے کمشنر صاحب سے ملاقات کی اور اُنہیں ساری بپتا سنائی تو اس نے بجائے ہمدردی کے دوبول کہنے کے یہ کہا کہ تعجب ہے، تم لوگ کیسے بچ بچا کر آگئے!!
ابا جان کے اگلے نو سال راولپنڈی، پھر لاہور، پھر سیالکوٹ اور پھر لاہور کی راہ نوردی میں گزرے۔ طے پایاتھا کہ راولپنڈی میں نوجوانوں کی تربیت کے لئے ایک اقامتی درسگاہ قائم کی جائے اور ابا جان چند دوسرے رفقا کے ساتھ نظامِ تربیت و تدریس سنبھالیں ، لیکن یہ درس گاہ اس وجہ سے کامیاب نہ ہوسکی کہ طالب علم صرف تین مہیا ہوئے جبکہ اساتذہ سمیت سارا سٹاف سات افراد پر مشتمل تھا۔ اس درسگاہ کے طلبہ یہ تھے:
شریف کیانی عرفان غازی رحمت الٰہی
تین ماہ کے بعد، لاہور کی اقامت کے ایک مختصر دورانیے کے بعد اباجان کو سیالکوٹ کی جماعت کی امارت سونپی گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قادیانیوں کی ہرزہ سرائیوں اوربعض حکومتی اہل کاروں کی طرف سے ان کی سرپرستی کے نتیجہ میں ختم نبوت کی تحریک اپنے عروج پر تھی۔ جلسے جلوسوں میں نہ صرف لاٹھی چارج ہوتا بلکہ آتش و آہن کی بارش بھی ہوتی۔ ہم نے اپنے گھر کی کھڑکی سے کئی ایسے جنازے دیکھے جو اس تحریک کے نتیجہ میں شہیدہونے والوں کے تھے۔ مولانا مودودی رحمة اللہ علیہ کا 'قادیانی مسئلہ' لکھنا حکومت کی نظر میں ساری جماعت کے لئے عتاب کاباعث ہوگیا۔ جماعت کی قیادتِ علیا جیل کی سلاخوں کے پیچھے پابند ِسلاسل کردی گئی تھی۔ ایک صبح حکومت کے گماشتے ابا جان کو بھی گھر سے پولیس کی گاڑی میں بٹھا کر سیالکوٹ جیل روانہ ہوگئے۔ والدہ کو ایک دن بروقت اطلاع مل گئی کہ آج اسیرانِ ختم نبوت کوگاڑی سے ملتان لے جایا جارہاہے۔ چنانچہ والدہ ہم بچوں کو لے کر اسٹیشن پہنچ گئیں ۔ لوحِ دماغ پرابا جان کی وہ جھلک اب تک مرتسم ہے کہ ڈبے میں سوار، کھڑکی کی سلاخوں کے پیچھے سے ہتھکڑی لگے ہاتھ ہلا ہلا کر ہمیں الوداع کہہ رہے تھے۔
اُنہوں نے اپنی رودادِ حیات بیان کرتے ہوئے ایک دفعہ بتایا کہ اکثرعلما اوراصحاب جبہ وقبہ قیدو بند کی صعوبتوں کو برداشت نہ کرپائے اور معافیاں مانگ مانگ کر اپنے گھر کو سُدھارے۔ ابا جان کی اسیری گیارہ ماہ کی حدیں پھلانگ رہی تھی۔ 'سیفٹی ایکٹ' کے تحت چھ ماہ بعد اُنہیں عدالت کے رُوبرو حاضر کرنا پولیس کا فرض تھا لیکن اُنہوں نے غفلت برتی، چنانچہ جب گیارہ ماہ بعد اُنہیں عدالت میں پیش کیا گیا اورفاضل جج جسٹسایس اے رحمن کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے Releasedکہہ کر ابا جان کی فوری رہائی کاحکم صادر کیا۔
سیالکوٹ اور پھر دو سال لاہور کے قیام کے دوران ابا جان نے جماعت کے ارکان کی تربیت کے نقطہ نظر سے 'انتخابِ حدیث' کا مجموعہ ترتیب دیا، جس میں الأدب المفرد (از امام بخاری رحمة اللہ علیہ ) کے طرز پر زندگی کے اجتماعی ، معاشرتی اور سیاسی مسائل میں سنت ِنبویؐ کی ہدایات کو جمع کیاگیاہے۔ اس مجموعہ احادیث نے جماعت کے حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل کی۔ جماعت ِاسلامی ہند نے بھی اس کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع کئے، اور جب جماعت نے سندھ کے ایک دورافتادہ مقام منصورہ (ہالہ) پر ایک دارالعلوم بسانے کی ایک اسکیم رکھی تو اس دارالعلوم کے نصاب کی تیاری بھی ابا جان ہی کے سپرد کی گئی۔
1955ء کے اَواخر میں جماعت کے ایما پر جائزہ کمیٹی میں شمولیت اختیار کی جسے جماعت کے اراکین سے ملنے اورجماعت میں فکر و نظر کے اعتبار سے اُن خیالات کے اسباب کاجائزہ لیناتھا جو جماعت کی صوبائی الیکشن میں ناکامی، حکومت ِاسلامیہ کے قیام کے سلسلہ میں جماعتی پالیسی میں واقع تبدیلی اور مولانا مودودی رحمة اللہ علیہ سے فکری اختلاف جیسے موضوعات کا احاطہ کئے ہوئے تھے، اور پھر اس کمیٹی کی رپورٹ کے نتیجہ میں فروری 1957ء کے اجتماع ماچھی گوٹھ میں جماعت کی شوریٰ کا تاریخی اجلاس منعقد ہوا۔ یہ وہ اجلاس تھاکہ جس میں بعض اراکین نے 9گھنٹے بلکہ اس سے زیادہ لمبے عرصہ کے لئے تقاریرکیں ۔ یہاں اس موضوع کا احاطہ اس لئے بھی مناسب نہیں کہ ڈاکٹر اسرار احمد جماعت اسلامی کے بارے میں اپنی ایک کتاب میں اس تاریخی داستان کومحفوظ کرچکے ہیں ۔
جماعت کے یہ واقعات اراکین کے لئے کتنے حوصلہ شکن اورباعث ِغم تھے، اس کا اندازہ اس حادثہ سے لگایا جاسکتاہے جو عتیق احمد صاحب کو پیش آیا۔ وہ اسی اجتماع میں شرکت کے لئے ٹرین میں سفر کررہے تھے۔ بہت ہی حساس طبیعت کے مالک تھے، اُن کا تاثر اتناشدید تھا کہ دماغی حملہ کا شکارہوگئے۔ ابا جان سے چونکہ عزیز داری تھی، اس لئے اطلاع ملتے ہی اباجان اُنہیں لینے کے لئے فیروز خان پور کے اسٹیشن تک گئے اور اُنہیں بحفاظت ان کی منزل تک پہنچایا۔ الحمد ﷲ علاج معالجے کے بعد صحت یاب ہوگئے اور دوبارہ پھر اپنے کام میں جت گئے۔
جائزہ کمیٹی کی رپورٹ پر طویل بحث و مباحثہ کا ہونا، اس کے نتیجہ میں جائزہ کمیٹی کے ارکان پر سازش کرنے کااِلزام لگنا اور پھر اُن سے شوریٰ کی رکنیت سے مستعفی ہونے کامطالبہ کرنا، ایسے اُمور تھے جو بالآخر ابا جان کی جماعت سے علیحدگی پرمنتج ہوئے۔
مجھے یاد ہے کہ ابا جان مجھے ساتھ لے کر 6 مئی 1957ء کو عازمِ لائل پور ہوئے، جہاں جائزہ کمیٹی کے ایک دوسرے مستعفی رکن مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف رحمة اللہ علیہ کے ساتھ عربی اور دینی علوم کی تدریس کے لئے 'جامعہ تعلیمات ِاسلامیہ' کا قیام عمل میں لایاگیا۔ اس جامعہ کی ایک کمرے سے ابتدا ہوئی جس کا میں پہلاطالب علم تھا۔میں میٹرک کاامتحان دینے کے بعد صبح کے اوقات میں گورنمنٹ کالج لائل پور کے اساتذہ سے آرٹس کے مضامین (عربی، معاشیات اور انگریزی) میں فیض حاصل کرتا اور شام کے اوقات میں ابا جان سے عربی کی تحصیل کرتا۔ میرا ذکر تو ضمناً آگیا، مقصود تھا کہ ابا جان کیلئے ایک دفعہ پھر درس و تدریس کا میدان ہموار ہوگیا۔
لائل پور کے ساڑھے چارسالہ قیام میں ابا جان نے جامعہ سلفیہ اور پھر دارالقرآن والحدیث میں منتہی طلبہ کو بھی پڑھایا اورجامعہ تعلیماتِ اسلامیہ کے توسط سے نوجوانوں میں عربی کی تحصیل کا شوق بھی اُجاگر کیا۔ لغة القرآن الکریمکے نام سے ایک ماہانہ اجلاس کی داغ بیل ڈالی جس میں عربی مدارس کے طلبہ کو شمولیت کی دعوت دی جاتی۔ اُن دنوں ایک عراقی نوجوان صالح مہدی السامرائی، زرعی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے، اِخوان کے سرگرم کارکن، اکثر ملاقات کے لئے آتے، ان کی موجودگی کی بنا پر ہمارا عربی اجلاس خوب پررونق ہوجاتا۔ جاپان سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد عرصہ دراز تک جامعہ الملک عبدالعزیز (جدہ) میں پڑھاتے رہے اور اب بھی سعودی عرب ہی میں مقیم ہیں ۔
جامعہ تعلیمات ِاسلامیہ سے اباجان کا رشتہ ٹوٹ ٹوٹ کر جڑتا رہا۔ غالبا ً 1962ء میں چند ماہ ڈاکٹر اسرار احمد کے قائم کردہ 'حلقہ مطالعہ قرآن' (منٹگمری حالیہ ساہیوال) میں بھی بحیثیت مُربی ومدرس گزارے۔ پھر ڈاکٹر صاحب کے کراچی منتقل ہونے پر ابا جان نے بھی کراچی کا قصد کیا اور جیساکہ پہلے ذکر آچکا ہے، جامعہ رحمانیہ کو نئی زندگی عطا کی۔ نصاب کی اصلاح کی، انگریزی زبان کی تعلیم کو روشناس کرایا، بعض قدامت پرست اساتذہ نے مخالفت کاعلم بلند کیا۔ ابا جان طلبہ کی بھرتی کے لئے لائل پور گئے اور وہیں سے استعفیٰ لکھ کر مدرسہ رحمانیہ ارسال کردیا، ہمارے دوست ہارون الرشید حسّاس کی روایت ہے کہ وہ والد صاحب ہی کی وجہ سے رحمانیہ داخل ہوئے تھے۔ اس وقت تعطیلات پنجاب میں گزار رہے تھے، اُنہوں نے والد صاحب سے ملاقات کی اور اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی۔ یہ بھی کہا کہ ہم طلبہ تو صرف آپ کی وجہ سے کراچی گئے تھے۔ اس لئے آپ کو ہر صورت کراچی چلنا ہوگا۔ والد صاحب نے کہا کہ پھر میری بھی دو شرطیں ہیں : ایک تو یہ کہ حکیم عبدالرحیم اشرف رحمة اللہ علیہ خود مجھے جانے کا اِذن دیں اوردوسرے یہ کہ مدرسہ کے متولی سیٹھ عبدالوہاب خود مجھے دوبارہ آنے کے لئے کہیں ۔
ہارون الرشید کہتے ہیں کہ میں نے حکیم صاحب کواِذن دینے پر اس طرح آمادہ کیا کہ لائل پور میں آپ خود اور آپ کا ادارہ آپ کے اَفکار کو عام کررہا ہے۔ کراچی میں ایسی کوئی شخصیت نہیں ہے جو آپ کے فکر (یعنی فرقہ بندی سے بلند ہوکر اللہ کے دین کی تبلیغ کرنا) کو پھیلارہی ہو توکیایہ بہتر نہیں کہ مولانا عبدالغفار حسن کراچی میں اس کارِخیر کو انجام دیں ۔ دوسری طرف میں طلبہ کا ایک وفد لے کر سیٹھ عبدالوہاب کے پاس گیا اور اُنہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ابا جان کا استعفیٰ قبول نہ کریں ۔ سیٹھ صاحب نے اس بات پربھی آمادگی کا اظہار کیا کہ وہ ابا جان اور اُن پر اُن کے والدعطاء الرحمن کی شفقتوں اور تعلقات کو دیکھتے ہوئے بخوشی اُن کے گھر جائیں گے اور اُنہیں دوبارہ رحمانیہ لائیں گے، اور یوں رحمانیہ سے ایک عارضی لاتعلقی کے قلیل عرصہ کے بعد ابا جان دوبارہ رحمانیہ واپس آگئے۔
جماعت اسلامی کے 16 سال، مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کی رفاقت؛متفرق واقعات
مجھے یاد ہے کہ 24 ستمبر1964ء کو میرا اور میرے بڑے بھائی کا عقد ِنکاح تھا، ہم دونوں کی شادیاں مولانا محمد یونس قریشی دہلوی کے گھرانہ میں ہوئیں ۔ بڑے بھائی شعیب حسن کی مولانا کی بیٹی کے ساتھ اور میری اُن کی پوتی کے ساتھ۔ میں اس وقت تک مدینہ منورہ میں دو سال گزارنے کے بعد تعطیلات پرآیا ہوا تھا، اگلے روز ولیمہ تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے حدیث کے اُستاد شیخ عبدالقادرشیبة الحمد دعوتِ ولیمہ کی رونق کو اپنی آمد سے دوبالا کررہے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ ابا جان کو مدینہ منورہ لے جانے اور اسلامی یونیورسٹی میں حدیث اورعلومِ حدیث پڑھانے پر آمادہ کررہے ہیں ، انہوں نے مدرسہ رحمانیہ کی بھی زیارت کی، دیکھا کہ ابا جان پانچ طلبہ کو جلالین کا درس دے رہے ہیں ، کہا کہ یہاں تم پانچ طلبہ کو پڑھاتے ہو، وہاں یعنی مدینہ میں پانچ سو طلبہ کوپڑھاؤ گے!!
ہارون الرشید روایت کرتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر شیبة الحمد پاکستان سے اساتذہ کا انتخاب کرنے کے لئے پنجاب گئے تھے۔ مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمة اللہ علیہ اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمة اللہ علیہ دونوں سے اسی سلسلہ میں بات کی۔ اوّل الذکر تو آمادہ ہوگئے ، لیکن مولانا محمد اسماعیل نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ'' میں جماعت اہل حدیث کا امیر ہوں اور میرے لئے ممکن نہیں کہ اپنی جماعتی مصروفیات چھوڑ کر رخت ِ سفر باندھوں ۔ بہتر ہوگا کہ اگر آپ مولانا عبدالغفار حسن کو وہاں جانے پر آمادہ کرلیں ۔'' اور یوں ابا جان سے ملاقات کا اہتمام ہوا، ابا جان نے رحمانیہ کی انتظامیہ سے بات کی اور اُنہوں نے بلاتامل کہا کہ اگر بلاوا مدینہ منورہ سے ہے تو ہم کیسے روک سکتے ہیں ؟
میں تعطیلات کے بعد واپس مدینہ جانے کے لئے برٹش انڈیا سٹیم کمپنی سے بحرین تک کے دو ٹکٹ بک کروا چکا تھا لیکن ابا جان جامعہ سے اپنے تَعاقُد (معاہدئہ ملازمت) کی بنا پر ہوائی جہاز کے چار ٹکٹوں کا استحقاق رکھتے تھے۔ یوں ابا جان کی معیت میں پہلا ہوائی سفر کرنے کا موقع ملا۔ مدینہ میں پہلے دو سال میں نے بورڈنگ میں گزارے تھے، اگلے دو سال ابا جان کے ساتھ ایک ہی مکان میں ہم دونوں رہتے رہے۔ ایک سال بعد والدہ اور چھوٹے بھائی بھی پہنچ گئے اور اس طرح اس گھر کی رونق بڑھتی رہی۔
میں چونکہ دو سال بعد 1966ء اپنی تعلیم مکمل کرچکا تھا اور پھر 1967ء کے آغاز میں سعودی عرب کے دارالإفتاء کی جانب سے عازمِ نیروبی (کینیا) ہوا۔ اس لئے قربت کے لمحے فاصلوں میں بدلتے گئے۔ نیروبی کے 9 سالہ قیام کے بعد شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ کی ہدایت پرمجھے لندن بھیج دیا گیا،جہاں کی مصروفیات دراز ہوتی ہوئیں اب 30 سال سے متجاوز ہوچکی ہیں ۔ ان چالیس سالوں میں میری یہ کوشش رہی کہ ہر سال کی رسمی تعطیلات والدین کے پاس گزریں ، یوں جب تک والدین مدینہ رہے، میں وہاں جاتارہا اورجب 1982ء میں وہ ملازمت کی قانونی مدت گزر جانے پر پاکستان منتقل ہوگئے تو پاکستان آتا رہا۔ گو اس لحاظ سے ہماری باہمی ملاقات کا دورانیہ چھوٹے بھائیوں کی نسبت مختصر رہا لیکن خط و کتابت کے تسلسل نے حالات سے آگاہ رکھا۔ ان چالیس سالوں کو تین مرحلوں میں دیکھا جاسکتاہے :
1. مدینہ منورہ کا قیام 1982ء تک (اس دوران میری خواہش پر ایک دفعہ نیروبی اورایک دفعہ لندن کا سفر کیا۔
2. 1990ء تک جامعہ تعلیمات ِاسلامیہ (فیصل آباد) سے دوبارہ وابستگی اور یہی وہ عرصہ ہے جس میں ابا جان اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں اداکرتے رہے۔
3. 1991ء سے وفات تک (جمعرات 22؍مارچ 2007ء) یہ عرصہ اسلام آباد میں گذرا۔ 8فروری 1992ء کو رفیقۂ حیات ،یعنی امی جان داغِ مفارقت دے گئیں ۔
اس دوران درس و تدریس کا سلسلہ گھر سے جاری رہا۔ اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے متعدد طلبہ، غیر ملکی احباب اور اساتذہ گھر آکر فیض حاصل کرتے رہے۔'عظمت ِحدیث' کے نام سے کچھ اپنے مقالات اورکچھ اپنے والد اور دادا کے مقالات کا مجموعہ شائع کیا۔ اسلام آباد میں اپنے گھر سے متصل سیمنٹ کا ایک تھڑا بنوا کر مسجد کاآغاز کیا جواب ایک مکمل مسجدمیں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلکہ مسجد کی بالائی منزل میں ایک لائبریری کی سہولیات فراہم کرنے کی طرح ڈالی جاچکی ہے اور عزم یہی ہے کہ اس لائبریری میں ابا جان کاپوراکتب خانہ سما جائے گا تاکہ صدقہ جاریہ کا فیضان ان تک پہنچتا رہے۔
ان تینوں مراحل سے متعلق میری معلومات یا تو اُن شخصی ملاقاتوں پر موقوف ہیں جن کا موقع ہرسال ایک ڈیڑھ ماہ کے لئے ملتا رہا یا رسائل کے توسط سے اور یا پھر ابا جان کی سالانہ ڈائریاں کہ اُن کی عادت تھی کہ وہ التزام کے ساتھ عربی میں اپنی ڈائری لکھا کرتے تھے لیکن ان کی یہ تحریریں بہت مختصر اور اکثر اشارات کی شکل میں ہیں ۔ اس لئے اس طویل دورانیہ کے حالات کو قلم بند کرنے کے لئے مجھے کچھ وقت کی اور قارئین کو کچھ صبرکی ضرورت ہوگی۔
رہا عادات و خصائل، گھر اور باہر کے تعلقات، تو یہ ایک مستقل باب ہے جو تفصیلی مضمون ہی کا حصہ بن سکتا ہے۔ اور میں اس دعا کے ساتھ رخصت چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس تفصیلی مضمون تحریرکرنے کی توفیق عطافرمائیں اور میں ابا جان کے احباب اور تلامذہ سے بھی ملتمس ہوں کہ وہ والد صاحب کے بارے میں اپنے تاثرات جریدہ'محدث' یا دوسرے رسائل وجرائد کے توسط سے منظر عام پر لے آئیں تاکہ والد صاحب کی حیاتِ مستعار کے تمام بکھرے ہوئے موتیوں کوایک لڑی میں پرویا جاسکے۔ وباﷲ التوفیق!