پردے کے بارے میں غامدی صاحب کی مغالطہ انگیزیاں

عور ت کے پردے کے بارے میں جناب جاوید احمدغامدی صاحب کا کوئی ایک موقف نہیں ہے بلکہ وہ وقت اور حالات کے مطابق اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں :
کبھی فرماتے ہیں کہ عورت کے لئے چادر، برقعے، دوپٹے اور اوڑھنی کا تعلق دورِنبویؐ کی عرب تہذیب و تمدن سے ہے اور اسلام میں ان کے بارے میں کوئی شرعی حکم موجود نہیں ہے۔
کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ سورة الاحزاب کی آیت 56 ... جس میں ازواجِ مطہرات، بناتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمان خواتین کو جِلباب یعنی بڑی چادر اوڑھ کر اور اُس کا کچھ حصہ چہرے پر لٹکا کر گھر سے باہر نکلنے کا حکم ہے... یہ حکم ایک عارضی حکم تھا اور ایک وقتی تدبیر تھی جو مسلم خواتین کو منافقین اور یہودیوں کی طرف سے چھیڑنے اور ایذا پہنچانے سے بچانے کے لئے اختیار کی گئی تھی۔ یہ قرآن کا مستقل حکم نہیں تھا جو بعد میں آنیوالی مسلمان خواتین پر بھی لاگو ہو۔
اور کبھی کہتے ہیں کہ حجاب کا تعلق صرف ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص تھا۔

اس مضمون میں ہم سب سے پہلے قرآن کی روشنی میں پردے کے احکام کی تفصیل بیان کریں گے اور آخرمیں پردے کے بارے میں غامدی صاحب کے متلون موقف پر تبصرہ کریں گے :
قرآنِ مجید میں پردے کے احکام
عورت کے پردے کے بارے میں اکثر لوگ یہ خلط ِ مبحث کرتے ہیں کہ وہ ستر اور حجاب میں فرق نہیں کرتے، جب کہ شریعت ِاسلامیہ میں ان دونوں کے الگ الگ احکام ہیں ۔ عورت کا ستر یہ ہے کہ وہ اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے سوا اپنا پورا جسم چھپائے گی جس کا کوئی حصہ بھی وہ اپنے شوہر کے سوا کسی اور کے سامنے کھول نہیں سکتی۔ ستر کا یہ پردہ ان افراد سے ہے جن کو شریعت نے مَحرمقرار دیا ہے اور ان محرم افرادکی پوری تفصیل قرآنِ مجید کی سورۂ نور کی آیت: ۳۱ میں موجود ہے اوران میں عورت کا باپ، اس کا بیٹا، اس کا بھائی، اس کا بھانجا اور اس کابھتیجا وغیرہ شامل ہیں ۔ ان محرم افراد سے عورت کے چہرے اور اس کے ہاتھوں کا پردہ نہیں ہے، البتہ ان کے سامنے عورت اپنے سر اور سینے کواوڑھنی یا دوپٹہ وغیرہ سے ڈھانپے گی۔ ستر(i) کے یہ احکام سورۂ نور میں اسی طرح بیان ہوئے ہیں :
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَـٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَـٰرِ‌هِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُ‌وجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِ‌بْنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَ‌ٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَ‌ٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَ‌ٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّـٰبِعِينَ غَيْرِ‌ أُولِى ٱلْإِرْ‌بَةِ مِنَ ٱلرِّ‌جَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُ‌وا عَلَىٰ عَوْرَ‌ٰ‌تِ ٱلنِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِ‌بْنَ بِأَرْ‌جُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوٓاإِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٣١...سورۃ النور
''اے نبیؐ! آپ مؤمن عورتوں سے کہیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ، اپنے ستر کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے خود بخود ظاہر ہوجائے او راپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہیں ۔ اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے سامنے، یا اپنے باپ کے، یا اپنے سسر کے، یا اپنے بیٹوں کے، یا اپنے شوہر کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں کے، یااپنے بھائیوں کے بیٹوں کے، یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے، یا اپنی عورتوں کے، یا اپنے لونڈی غلام کے، یا زیردست مردوں کے جو کچھ غرض نہیں رکھتے، یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے ابھی ناواقف ہوں ۔ اس کے علاوہ وہ اپنے پاؤں زور سے نہ ماریں کہ ان کی مخفی زینت معلوم ہوجائے اور اے ایمان والو! تم سب مل کر اللہ کی طرف رجوع کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔''

گھر میں محرم مردوں کے سامنے عورت کے لئے پردے کی یہی صورت ہے۔ مگر عورت کا حجاب اس کے ستر سے بالکل مختلف ہے اوریہ وہ پردہ ہے، جب عورت گھر سے باہر کسی ضرورت کے لئے نکلتی ہے یا گھر کے اندر غیر محرم مردوں سے سامنا ہوتا ہے(ii)۔ اس صورت میں شریعت کے وہ احکام ہیں جو اجنبی مردوں سے عورت کے پردے سے متعلق ہیں ۔ حجاب کے یہ احکام قرآنِ مجید کی سورۂ احزاب کی دو آیات (59 اور54) میں بیان ہوئے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ گھر سے باہر نکلتے وقت عورت جِلباب یعنی بڑی چادراوڑھے گی تاکہ اس کا پورا جسم ڈھک جائے، ایسے ہی چہرے پر بھی چادرکا ایک پلو ڈالے گی۔ اب وہ صرف اپنی آنکھ کھلی رکھ سکتی ہے، باقی پورا جسم چھپائے گی۔ یہ چہرے پر نقاب کا حکم ہے، اجنبی مردوں سے عورت کا یہ پردہ ہے جسے 'حجاب' کہا جاتا ہے۔ اُردو زبان میں اسے 'گھونگھٹ نکالنا' بھی کہتے ہیں ۔ اس کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے کہ
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَ‌ٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَ‌ٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَ‌فْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ...﴿٥٩...سورۃ الاحزاب
''اے نبیؐ! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور اُنہیں کوئی نہ ستائے۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔''

سب سے پہلے اس آیت کے اصل الفاظ پر غورکیجئے۔ اس میں یُدنینکا لفظ آیا، جس کا مصدر اِدنائہے اور عربی زبان میں اس کے معنی 'قریب کرنے' اور 'لپیٹ لینے' کے ہیں مگر جب ا س کے ساتھ عَلی کا صلہ آجائے تو پھر اس میں اِرخاء کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے کہ 'اوپر سے لٹکا لینا'۔ دوسرا اہم لفظ جَلَابِیْبِھِنَّ ہے۔ جَلابیب جمع ہے جلبابکی جس کے معنی رِدَاءیعنی 'بڑی چادر ' کے ہیں اور ا س کے ساتھ مِنْکا حرف آیا ہے جو یہاں تبعیض ہی کے لئے ہوسکتا ہے، یعنی چادر کا ایک حصہ۔ مطلب یہ ہے کہ عورتیں جب کسی ضرورت کے لئے گھر سے باہرنکلیں تو اپنی بڑی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ لیں اور ان کا ایک حصہ یا ان کا پلو اپنے اوپر لٹکا لیاکریں ۔ اُردو زبان میں اسے گھونگھٹ نکالنا کہا جاتاہے۔ اِدْنَاءعَلی کے الفاظ کااستعمال عربی زبان میں اسی مفہوم کے لئے ہے۔ جب کسی عورت کے چہرے پر سے کپڑا سرک جائے تو اسے دوبارہ چہرے پر لٹکا لینے کے لئے عربی زبان میں یوں کہا جائے گا:
اَدْنِيْ ثَوْبَکِ عَلیٰ وَجْھِکِ

''اپنا کپڑا اپنے چہرے پر لٹکا لو۔''

اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عورت کے لئے چہرے کے پردے اور کپڑا لٹکانے کا یہ حکم اجنبی مردوں سے متعلق ہے تو یہ مفہوم لینے کا واضح قرینہ اسی آیت کے ان الفاظ میں موجود ہے کہ

ذَ‌ٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَ‌فْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ...﴿٥٩...سورۃ الاحزاب

یعنی جب عورتیں اپنے چہرے کا پردہ کریں اور چادر اوڑھیں گی تو اجنبی لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ شریف زادیاں ہیں ۔ اس طرح کسی بدباطن کو یہ جرأت نہ ہوگی کہ وہ ان کو چھیڑے یا ستائے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح پہچاننے کی اور چھیڑنے ستانے کی صورت گھر سے باہر کے ماحول ہی میں پیش آسکتی ہے۔

دوسرے یہ کہ بڑی چادر لینے کی ضرورت بھی عموماًگھر سے باہر ہوسکتی ہے، کیونکہ گھر میں اجنبی مردوں کی آمد شاذ ونادر ہی ہوتی ہے۔ گھر میں چونکہ اکثر محرم مردوں سے ہی سامنا ہوتا ہے، لہٰذا اس کے لیے عورت کے پردے کے بارے میں الگ سے حکم موجود ہے جو سورۂ نور کی آیت 31 میں اس طرح آیا ہے:{وَلْيَضْرِ‌بْنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ} ''اور عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں ۔ '' گویا گھر کے اندر عورت کو چادر پہننے کی ضرورت نہیں ، صرف اوڑھنی کافی ہوسکتی ہے،کیونکہ گھر میں اجنبی مردوں سے بہت کم سامنا ہوتا ہے اورجب وہ گھر سے باہر نکلے گی تو بڑی چادر اوڑھے گی جس کا ایک حصہ اپنے چہرے پر بھی ڈال لے گی۔(iii)

اُمت ِمسلمہ کے تمام جلیل ُالقدر مفسرین نے سورۂ احزاب کی اس آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے :
1 حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اس کی جو تفسیر بیان فرمائی ہے، اسے حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اس طرح نقل کیا ہے کہ
أمراﷲ نساء المؤمنین إذا خرجن من بیوتھن في حاجة أن یغطین وجوھھن من فوق رؤسھن بالجلابیب ویبدین عینا واحدة
''اللہ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لئے گھروں سے نکلیں تو اپنی چادروں کے پلو اوپر سے ڈال کر اپنا منہ چھپالیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں ۔''
2 ابن جریر رحمة اللہ علیہ اور ابن منذر رحمة اللہ علیہ کی روایت ہے کہ محمد بن سیرین رحمة اللہ علیہ نے حضرت عبیدہ سلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا۔( یہ حضرت عبیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان ہوچکے تھے مگر حاضر خدمت نہ ہوسکے تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مدینہ آئے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اُنہیں فقہ اور قضا میں قاضی شریح ؓکے ہم پلہ مانا جاتا تھا۔)اُنہوں نے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھاکہ پورا سر او رپیشانی اور پورا منہ ڈھانک کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔
3 امام ابن جریر طبری رحمة اللہ علیہ نے اپنی تفسیر جامع البیان (ج22؍33) پر اسی آیت کے تحت لکھا ہے کہ
''شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھر سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوئے ہوں ، بلکہ اُنہیں چاہئے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے۔''
4 امام فخر الدین رازی رحمة اللہ علیہ اپنی تفسیر کبیر میں اسی آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ
فأمر اﷲ الحرائر بالتجلبب۔ ۔ ۔المراد یعرفن أنھن لا یزنین لأن من تستر وجھھا مع أنه لیس بعورة لا یطمع فیھا أنھا تکشف عورتھا فیعرفن أنھن مستورات لایمکن طلب الزنا منهن
''اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کو چادر اوڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ بدکار عورتیں نہیں ہیں ۔ کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے، اس سے کوئی شخص یہ توقع نہیں کرسکتا کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولنے پرراضی ہوگی۔ اس طرح ہر شخص جان لے گا کہ یہ باپردہ عورتیں ہیں ، ان سے زنا کی اُمیدنہیں کی جاسکتی۔''
5 مشہور مفسر زمخشری، اسی آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
یرخینھا علیھن ویغطین بھا وجوھھن وأعطافھن 1
''وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں اور اس سے اپنے چہرے اور اپنے اطراف کو اچھی طرح ڈھانک لیں ۔''
6 علامہ نظام الدین نیشاپوری رحمة اللہ علیہ اپنی تفسیر 'غرائب القرآن' میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
''عورتیں اپنے اوپر چادر کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں ، اس طرح عورتوں کو سر اور چہرہ ڈھانکنے کا حکم دیا گیا ہے۔'' 2
7 مشہور حنفی مفسر ابوبکر جصاص رحمة اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اسی آیت کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ
في ھذہ الآیة دلالة أن المرأة مأمورة بستر وجھھا عن الأجنبیین وإظهار الستروالعفاف عند الخروج لئلا یطمع أھل الریب فیھن
''یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کو اجنبیوں سے اپنا چہرہ چھپانے کا حکم ہے اور اسے گھر سے نکلتے وقت ستر اور عفت کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ مشتبہ سیرت و کردار کے لوگ اسے دیکھ کر کسی طمع میں مبتلا نہ ہوں ۔''3
8 علامہ عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی رحمة اللہ علیہ اپنی تفسیر 'تفسیر نسفی' میں اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ
ومعنی {يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ} یرخینھن علیھن ویغطین بھا وجوھھن وأعطافھن 4
''اور آیت کے الفاظ( يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ )کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیاکریں اور اس طرح اپنے چہروں اور اپنے اطراف کو اچھی طرح ڈھانک لیں ۔''
9 مفتی محمد شفیع مرحوم اپنی تفسیر 'معارف القرآن' میں اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ
''اس آیت نے بصراحت چہرہ کے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ جس سے اس مضمون کی مکمل تائید ہوگئی جو اوپر حجاب کی پہلی آیت کے ذیل میں مفصل بیان ہوچکا ہے کہ چہرہ او رہتھیلیاں اگرچہ فی نفسہٖ ستر میں داخل نںی ، مگر بوجہ خوف فتنہ کے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے، صرف مجبوری کی صورتیں مستثنیٰ ہیں ۔''5
10 مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم نے اس آیت کے تحت اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ
''اللہ تعالیٰ صرف چادر لپیٹ کر زینت چھپانے ہی کا حکم نہیں دے رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ عورتیں چادر کا ایک حصہ اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں ۔ کوئی معقول آدمی اس ارشاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتا کہ اس سے مقصود گھونگھٹ ڈالنا ہے تاکہ جسم و لباس کی زینت چھپنے کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی چھپ جائے۔'' 6
11 مولانا امین احسن اصلاحی (جاوید غامدی صاحب کے 'استاد امام') اپنی تفسیر 'تدبر قرآن' میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
''قرآن نے اس جلباب سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ بھی فی الجملہ ڈھک جائے اور اُنہیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت نہ آئے۔ یہی جلباب ہے جو آج بھی دیہات میں شریف بوڑھی عورتیں لیتی ہیں جس نے بڑھ کر برقع کی شکل اختیار کرلی ہے۔'' 7

حضرات مفسرین نے سورۂ احزاب کی اسی زیر بحث آیت 59میں چہرے کے پردے کا حکم سمجھا ہے اور چہرے کا یہ پردہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام کے پیش نظر زنا اور زنا کے مقدمات و محرکات کی پیش بندی اور روک تھام ہے۔ ورنہ حقیقت ہر شخص پر عیاں ہے کہ ایک جوان عورت کا چہرہ ہی سب سے زیادہ جاذبِ نگاہ اور صنفی محرک ہوتا ہے، بالخصوصی جب اسے غازہ و رنگ سے بھی خوب مزین کردیا جائے۔ فقط چہرہ دیکھ لینے ہی سے عورت کے حسن و جمال کا اندازہ کرلیا جاتا ہے اور بغیر چہرہ دیکھے اس کے حسن و جمال کا تصور ممکن نہیں ہوتا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو اسلام محرکاتِ زنا کو ایک ایک کرکے ان کی مخالفت کرتاہے۔ جو نامحرم عورت کو دیکھنے پر پابندی لگاتا ہے اور غض بصر کا حکم دیتا ہے۔ جو مرد اور عورت کو تنہائی میں یکجا ہونے سے روکتا ہے۔ جو عورت کو کسی غیر مرد سے بات کرتے وقت لگاوٹ کا لہجہ اختیا رکرنے سے منع کرتا ہے۔ جو اس کی آواز کا پردہ چاہتا ہے کہ عورت نماز میں امام کو اس کی غلطی پر ٹوکنے کے لئے 'سبحان اللہ' تک نہ کہے۔ عورت اپنی کوئی زینت بھی غیر مرد کو نہ دکھائے۔ وہ اسلام یہ کیسے چاہے گا کہ چھوٹے چھوٹے دروازوں پر تو کنڈیاں چڑھائی جائیں اور سب سے بڑے دروازے کو چوپٹ کھلا چھوڑ دیا جائے، اور نسوانی حسن و جمال کے مرکز چہرے کو چھپانے کا کوئی حکم نہ دیا جائے۔

البتہ ہنگامی اور جنگی صورتِ حال میں یا حج اور عمرہ کے مناسک اداکرتے وقت، علاج معالجے کی صورت میں اور زیادہ بوڑھی عورت کے لئے چہرے کے پردے میں رخصت دی گئی ہے، مگر اصل حکم جو عام ہے او رسب کے لئے ہے، وہ یہی ہے کہ اسلام میں عورت کے چہرے کا پردہ ضروری ہے۔ شریعت ِاسلامیہ نے اسی کا حکم دیا ہے۔

پردے کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف اور اس پر ہمارا تبصرہ
عورت کے پردے کے بارے میں جناب جاوید غامدی صاحب کا موقف 'ارتقا پذیری' کا شکار رہتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ حالات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔

اس کی مثالیں درج ذیل ہیں :
1 دوپٹے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
''اصل میں ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ان کی تہذیب و ثقافت کیا ہے اور اُنہیں کن حدود کا پابند رہ کر زندگی بسر کرنی چاہئے۔ دوپٹا ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے، اس بارے میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ دوپٹے کو اس لحاظ سے پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے، اس کا کوئی جواز نہیں ۔ البتہ اسے ایک تہذیبی شعار کے طور پر ضرور پیش کرنا چاہئے۔ اصل چیز سینہ ڈھانپنا اور زیب و زینت کی نمائش نہ کرنا ہے۔ یہ مقصد کسی اور ذریعے سے حاصل ہوجائے تو کافی ہے، اس کے لئے دوپٹہ ہی ضروری نہیں ہے۔'' 8

اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک مسلمان عورت کے لئے دوپٹہ یا اوڑھنی کا استعمال کوئی شرعی حکم نہیں ہے، بس ایک تہذیبی شعار اور رسم و رواج ہے،جبکہ دوسری طرف قرآن مجید کی نص قطعی اور واضح حکم ہے کہ
وَلْيَضْرِ‌بْنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ...﴿٣١...سورۃ النور
'' اورچاہئے کہ عورتیں اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیاں (دوپٹے) ڈالے رہیں ۔''
غالبا ًغامدی صاحب کے ہاں قرآن سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا ہوگا۔

2 مارچ ۲۰۰۷ء میں 'جیو' ٹی وی کے پروگرام 'غامدی نامہ' میں اسلام اور پردہ کے موضوع پرایک مذاکرہ ہوا۔ اس مذاکرے کے شرکا میں غامدی صاحب اور تین خواتین: سمیعہ راحیل قاضی، مونا اسلم اور ایک دانشور غزالہ نثار شامل تھیں ۔ اس مذاکرے میں غامدی صاحب نے پردے کے بارے میں یہ موقف اختیا رکیا تھا کہ
ـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَ‌ٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَ‌ٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَ‌فْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ...﴿٥٩...سورۃ الاحزاب
''اے نبیؐ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں او رمسلمان عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور اُنہیں کوئی نہ ستائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔''

اس فرمان الٰہی میں موجود شرعی حکم ایک عارضی او رہنگامی حکم تھا اور منافقین اور یہود کی طرف سے مسلم خواتین کو چھیڑ چھاڑ اور ایذا رسانی سے بچانے کی ایک وقتی تدبیر تھی۔ اس آیت کا عورت کے پردے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور آج یہ حکم باقی نہیں ہے۔9

یاد رہے کہ غامدی صاحب اس سے پہلے مرتد کے لئے قتل کی سزا، کافر اور مسلمان کی وراثت اور کفار سے جہاد وغیرہ کو بھی وقتی او رہنگامی احکام قرار دے چکے ہیں اور آج کے دور میں مرتد کے لئے قتل کی سزا اور آج کفار سے جہاد کرنے کے شرعی احکام کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس طرح شریعت کے بیشتر احکام غامدی صاحب کی اس ایک ہی 'لاٹھی' اور'فارمولے' کی زد میں آکر ختم ہوجاتے ہیں ۔ اللہ اللہ خیر سلا!!

لیکن ہم اُن کو اُن کے 'استاد امام' مولانا امین احسن اصلاحی کا اس بارے میں موقف پیش کئے دیتے ہیں ۔ وہ سورہ احزاب کی آیت 59 کی تفسیر کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں :
''اس ٹکڑے {ذَ‌ٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَ‌فْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ} سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جو اَشرار کے شر سے مسلمان خواتین کومحفوظ رکھنے کے لئے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اوّل تو احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں ، سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہوجائیں ۔ دوسرے یہ کہ جن حالات میں یہ حکم دیا گیا تھا، کیا کوئی ذی ہوش یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس زمانے میں حالات کل کی نسبت ہزار درجہ زیادہ خراب ہیں ،البتہ حیا اور عفت کے وہ تصورات معدوم ہوگئے جن کی تعلیم قرآن نے دی تھی۔'' 10

نیز اسی آیت (الاحزاب :59) کی تفسیر میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ
''قرآن نے اس جلباب (چادر) سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ بھی فی الجملہ ڈھک جائے اور انہیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت پیش نہ آئے۔ یہی 'جلباب' ہے جو ہمارے دیہاتوں کی شریف بڑی بوڑھیوں میں اب بھی رائج ہے اور اسی نے فیشن کی ترقی سے اب برقعہ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس برقعہ کو اس زمانہ کے دل دادگان اگر تہذیب کے خلاف قرار دیتے ہیں تو دیں لیکن قرآنِ مجید میں اس کا حکم نہایت واضح الفاظ میں موجود ہے، جس کا انکار صرف وہی برخود لوگ کرسکتے ہیں جو خدا اوررسولؐ سے زیادہ مہذب ہونے کے مدعی ہوں ۔'' 11

غامدی صاحب کے نزدیک اُمت ِمسلمہ کے تمام علماے کرام تو 'خاک' کے مرتبہ میں ہیں اور پوری اُمت میں سے صرف ان کے ممدوح دو 'علما' ہیں جن کو وہ 'آسمان' کا درجہ دیتے ہیں ۔ چنانچہ غامدی صاحب اپنی کتاب'مقامات' میں لکھتے ہیں کہ
''میں نے بھی بہت عالم دیکھے ، بہتوں کوپڑھا اور بہتوں کو سُنا ہے، لیکن امین احسن اور ان کے اُستاد حمیدالدین فراہی کا معاملہ وہی ہے کہ12


غالب نکتہ داں سے کیا نسبت
خاک کو آسماں سے کیا نسبت''


لیکن عورت کے چہرے کے پردے کے بارے میں جاوید احمد غامدی صاحب کا موقف نہ صرف قرآنِ مجید اور اجماعِ اُمت کے خلاف ہے، بلکہ اُن کے اپنے 'استاد امام' کے موقف کے بھی خلاف ہے۔


حوالہ جات
1. الکشاف:ج2؍ص221
2. ج 22؍ ص 32
3. احکام القرآن :ج3؍ ص485
4. تفسیر نسفی: ج3؍ ص313
5. معارف القرآن: ج4؍ ص234
6. تفہیم القرآن : ج4؍ ص131
7. تدبر قرآن:ج6؍ص269
8. ماہنامہ اشراق :مئی 2002ء ،ص47
9. اس مذاکرے کی سی ڈی 'اسلام میں پردہ' کے عنوان سے موجود ہے
10. تدبرقرآن: جلد6؍ ص270
11. تدبرقرآن: جلد6؍ ص269
12. 'مقامات' ص57،58، مطبوعہ دسمبر 2001ء، لاہور


 i. اسے ستر کی بجائے زینت کے احکام سے تعبیر کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس آیت میں "زینت کو چھپانے کے احکام" ہی بیان ہوئے ہیں ۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ زینت کا لفظ "ستر" سے وسیع تر ہے مثلاً پاؤں مار کرچلنا، دیدہ زیب لباس یا زیورات کو چھپانا وغیرہ زینت کو چھپانا تو ہے لیکن ستر کو چھپانا نہیں ۔

ii. جیسا کہ قرآن کریم میں اسے بھی "حجاب" قرار دیا گیا ہے : (وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ...﴿٥٣﴾...سورۃ الاحزاب) ""جب تم ان سے کسی شے کا سوال کرو تو حجاب کے پیچھے سے کیا کرو۔""
iii. پردہ کے سلسلہ میں تیسری اہم آیت سورة الاحزاب کی آیت ِحجاب (نمبر53)بھی ہے جس میں یہ مسئلہ بیان ہوا کہ اگر کوئی غیر محرم شخص خواتین خانہ سے کسی چیز کا سوال کرے تو اسے حجاب کے پیچھے سے یہ تقاضا کرنا چاہئے۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جہاں سورة الاحزاب کی آیت 59 کی رو سے خواتین کو گھروں سے باہر جلباب... یعنی ایسی بڑی چادر جو سر سے اُنہیں ڈھانپ لے اور اس میں ان کا چہرہ بھی چھپ جائے... اوڑھنے کا حکم ہے وہاں سورة الاحزاب کی آیت 53 کی رو سے گھروں کے اندر بھی غیرمحرم مردوں سے اُنہیں حجاب کا اہتمام کرنا چاہئے۔ یہ احکام توغیرمحرم مردوں کیلئے ہیں ، جہاں تک محرم مردوں کا تعلق ہے تو سورة النور کی آیت ِزینت (نمبر27) کی روسے عورتوں کو چند محرم مردوں کے سامنے ہی اپنی زینت دکھانے کی اجازت ہے۔